|تحریر:ایلیکس گرانٹ، ترجمہ:آفتاب اشرف|
(انسانی تاریخ کا کوئی اور ایسا واقعہ نہیں ہے جس کے بارے میں اتنے جھوٹ بولے گئے ہوں، اتنے بہتان لگائے گئے ہوں، جتنے کہ انقلاب روس پر لگائے جاتے ہیں۔ ہم یہاں پر ایلیکس گرانٹ کی مرتب کردہ، بالشویکوں اور اکتوبر انقلاب کے بارے میں بولے جانے والے دس مشہور ترین صریح جھوٹوں پر مبنی فہرست شائع کر رہے ہیں۔ )
بر طانوی پریس کے جیرمی کاربن کی طرف روئیے کا مشاہدہ کرنے والے لوگوں نے کسی حد تک حکمران طبقے کی نفرت اور بغض کا ذائقہ چکھا ہے۔ ہوگو شاویز اور وینزویلا کے انقلاب کو بھی حالیہ عرصے میں ایسی ہی ’’خصوصی توجہ‘‘ سے نوازا گیا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے لئے 1917ء کے بالشویک انقلاب سے زیادہ قابل نفرت اور کوئی چیز نہیں، کیونکہ صرف اسی میں غلاموں نے پرانے نظام کو مکمل طور پر اکھاڑ پھینکا اور ایک ایسے نئے سماج کی تعمیر کا آغاز کیا جسے کسی آقا یا مالک کی ضرورت نہ تھی۔
To read this article in English, click here
بالشویکوں کے خلاف اس بہتان بازی کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ کسی بھی دوسرے واقعے سے زیادہ یہ واقعہ(انقلاب روس)، ہمیں دکھاتا ہے کہ سماج کو چلانے کا ایک اور طریقہ بھی ہے، وہ یہ کہ محنت کشوں اور نوجوانوں، غریبوں اور مظلوموں کو ان ہی کے خون پسینے سے منافع کمانے والے ’’سوٹڈ بوٹڈ افراد‘‘ کی حاکمیت تسلیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ماضی میں اور آج بھی لاتعداد گھنٹے اور اربوں ڈالر، پاؤنڈ اور یورو، لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کے لئے خرچے جا رہے ہیں کہ انقلاب روس سے کچھ حاصل نہیں ہواتھا اور عہد حاضر کی تحریکیں اس سے کوئی کارآمد سبق نہیں سیکھ سکتیں۔ سٹیٹس کو، کو قائم رکھنے کی خاطر نام نہاد ’ماہرین‘ کی ایک پوری فوج کو حرکت میں لایا گیا ہے۔
1917ء کے سو سال بعد، جب دنیا ویسی ہی مشکلات کا شکار ہے، تو یہ بہتان بازی اور جھوٹ کی یلغار بھی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی شدت اختیار کر رہی ہے۔
سوویت محنت کشوں کے اقتدار پر قبضے کے ساتھ ہی انقلاب پر دروغ گوئی کی اندھا دھند یلغار شروع کر دی گئی تھی۔ ٹراٹسکی بتاتا ہے کہ کس طرح ’’جھوٹ اور بہتان نیاگراآبشار کی مانند برس رہے تھے‘‘۔ مغربی پریس تو پہلے دن ہی سے قتل وغارت اور انتشار کی داستانوں سے بھرا پڑا تھا۔ مثلاً یہ دعویٰ کیا گیا کہ پیٹرو گراڈ کے بالشویکوں کے پاس ایک’’برقی گلوٹین ہے جو ایک گھنٹے میں پانچ سو سر کاٹتی ہے‘‘، اور یہ کہ سوویت روس میں اٹھارہ سال سے بڑی تمام خواتین کو ’’آزاد محبت کے بیورو‘‘میں رجسٹر ہونے کی ہدایت کی گئی ہے، جہاں تہذیب یافتہ بورژوا خواتین کو گردشی بنیادوں پر پرولتاری خاوندوں کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اسی طرح دیگر ہولناکیاں بیان کی گئیں، جیسا کہ امیر خواتین کو صفائی ستھرائی کرنے پر مجبور کئے جانااور بڑی کاروباری شخصیات کا زندہ رہنے کی خاطر سڑکوں پر اخبار بیچنا۔ ۔ آہ انسانیت کدھر گئی!
لینن کہتا تھا کہ’’ایک احمق دس دانا آدمیوں کی جواب دینے کی صلاحیت سے دس گنا زیادہ سوالات پوچھ سکتا ہے۔ ‘‘انقلاب کے بارے میں بولے جانے والے تمام جھوٹوں کا جواب ایک آرٹیکل میں دینا ممکن نہیں، لیکن یہاں ایک ایسا مظہر ہمارا مدد گار ثابت ہوتا ہے جس کے بارے میں ٹراٹسکی نے اپنی کتاب ’’انقلاب روس کی تاریخ‘‘میں تفصیلی ذکر کیا تھا۔ وہ بیان کرتا ہے کہ کیوں تمام سیاسی بہتان بازی ناگزیر طور پرناقص اور اکتا دینے کی حد تک یکسانیت کا شکار ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ہم بالشویک انقلاب کے متعلق بولے جانے والے دس سر فہرست جھوٹوں کی نشان دہی کرتے ہوئے قاری کو ان حقائق سے مسلح کر سکتے ہیں جن کے ذریعے وہ بغض اور نفرت کے پردے کو چاک کر سکتا ہے۔ پچھلے سو سال میں پھیلائی گئی گندگی کو صاف کرنا، یہ ایک نا پسندیدہ لیکن نہایت ضروری کام ہے۔ امید ہے کہ قارئین ہماری اس کاوش سے استفادہ حاصل کریں گے۔
1۔ لینن ایک جرمن ایجنٹ تھا!
یہ بالشویکوں کے خلاف بولا جانے والا سب سے پہلا اور پرانا جھوٹ ہے۔ جولائی کے رجعتی دنوں میں، جب بالشویکوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا، لینن زیر زمین جانے پر مجبور ہو گیا اور ٹراٹسکی قید کر لیا گیا، یہ بالشویکوں کے خلاف پھیلایا جانے والاسرفہرست جھوٹ تھا۔ اس بہتان سے تقویت پانے والی رجعت کی لہر کے نتیجے میں بالشویکوں کا چھاپہ خانہ تباہ کر دیا گیا، پارٹی کا اخبار فروخت کرنے والے بعض عام ممبران کو مارا پیٹا اور حتیٰ کہ قتل تک کر دیا گیا۔ چند ہفتوں تک بے وقوف بننے کے بعد روسی محنت کشوں اور کسانوں نے اس بہتان کی اصلیت کو بھانپ لیااور اس جھوٹ کا سہارا لے کر امرا کی حاکمیت کو برقرار اور خونی عالمی جنگ کو جاری رکھنے کی کوشش کرنے والوں کیخلاف وسیع پیمانے پر نفرت پھیل گئی۔ اگست کے وسط سے لیکر پورے ملک میں بالشویکوں کی حمایت بڑھتی چلی گئی۔
لیکن بہرحال اس حقیقت کے باوجود کہ روسی عوام نے سو سال پہلے اس جھوٹ کی اصلیت کو جان لیا تھا، یہ آج تک پوری ڈھٹائی کے ساتھ دہرایا جاتا ہے۔ 19جون 2017ء کو، اس بہتان کی تخلیق کے ٹھیک سو سال بعد، نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک آرٹیکل میں اسے لفظ بہ لفظ دہرایا ہے۔ ہم اس اخبار کو ماحول دوستی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، کیونکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ چیزوں کو بار بار استعمال کرنے کا بہت شوقین ہے!
مکمل دروغ گوئی پر مبنی یہ کہانی کچھ اس طرح سے ہے۔ فروری انقلاب کے بعد لینن ایک ’’بند ٹرین ‘‘پر براستہ جرمنی، روس کے لئے روانہ ہوا۔ راستے میں اسے قیصر(جرمن شہنشاہ)کی طرف سے فنڈز دئیے گئے اور اس نے جرمن ہدایات پر اتحادیوں کی جنگی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے کام شروع کر دیا۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟
ہاں، انقلابی روس تک پہنچنے کے لئے جرمنی کے راستے فن لینڈ آنا لینن کی مجبوری تھی۔ لینن جرمنی کے راستے سفر کرنے کے ممکنہ سیاسی مضمرات سے بخوبی آگاہ تھا، اور یہی وجہ تھی کہ اس نے ٹرین کے ’بند‘ ہونے پراصرار کیا، یعنی سفر کے دوران کوئی بھی نہ تو ٹرین سے اتر سکتا ہے اور نہ ہی چڑھ سکتا ہے۔ لیکن کیا اس کے پاس کوئی متبادل تھا؟ اتحادی قوتوں، فرانسیسی اور برطانوی سامراج نے اسے اپنے مقبوضہ علاقے سے گزرنے کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ جب ٹراٹسکی نے بحری جہاز کے ذریعے نیو یارک سے روس آنے کی کوشش کی، تو اسے برطانوی انٹیلی جنس نے ایک ماہ تک ہیلی فیکس(کینیڈا) میں زیر حراست رکھا اور صرف عوامی احتجاج کے نتیجے میں ہی اسے رہائی نصیب ہوئی۔ ہمیں یقین ہے کہ سامراجی بہت خوش ہوتے اگر لینن سوئٹزرلینڈ میں ہی رہتا، لیکن ایسا ہونا ناممکن تھا۔
یہ گھٹیا بہتان تراش باآسانی یہ بھول جاتے ہیں کہ مارٹوف، کئی دوسرے منشویک اور دیگر جلا وطن لوگ بھی براستہ جرمنی ہی روس واپس آئے تھے۔ لیکن ان میں سے کسی پر بھی جرمن ایجنٹ ہونے کا الزام نہیں لگایا جاتاکیونکہ اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہے۔
اس جرمن سونے کا کیا ہوا جو لینن نے مبینہ طور پر قیصر سے لیا تھا؟ تلاش بسیار کے باوجود آج تک کسی کو اس کا سراغ نہیں مل سکا۔ پراودا کو بیرونی امداد ملتی تھی، اس اخبار کو دیکھ کر ایسا لگتا تو نہیں تھا۔ یہ سائز میں بہت چھوٹا تھا اور خندقوں میں اصلاح پسندوں اور لبرلوں کے پرچوں(جنہیں واقعی امرا کی پشت پناہی حاصل تھی)کے مقابلے میں اس کی ترسیل نہایت کم تھی۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق روسی محنت کشوں کو بالشویک پلے کارڈ اٹھانے کا دس روبل ملتا تھا۔ ویسے 1921ء میں کیڈٹ لیڈر میلیوکوف نے یہ ریٹ پندرہ روبل بتایا تھا۔ لیکن آج تک ان ادائیگیوں کا کوئی ثبوت نہیں مل سکاجنہوں نے لاکھوں کو سڑکوں پر لا کر پولیس اور کوساکوں کی بندوقوں اور کوڑوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ بخشا۔ کوئی آج تک اس رقم کو زار کی سلطنت کے طول وعرض میں تقسیم کرنے والے نیٹ ورک کا بھی سراغ نہیں لگا پایا، وہ سلطنت جس کے کونے کونے سے بالشویک نمائندے منتخب ہو رہے تھے۔
ہر دور میں عوامی تحریکوں پر بیرونی امداد لینے کا الزام لگتا آیا ہے۔ یہ بات ہمیں واگنر کے اوپرا ’’داس رائن گولڈ‘‘ کی یاد دلاتی ہے جو ایسے جادوئی سونے کی کہانی ہے جس کا مالک ہر چیز پر قادر ہو جاتا ہے۔ شکست خوردہ حکمران طبقہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ عوام نے انہیں کیوں مسترد کر دیا، اسی لئے وہ طلسماتی خزانوں کی کہانیوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ جبکہ حقیقت کہیں زیادہ سیدھی سادھی ہے:لینن اور بالشویکوں کے پیش کردہ خیالات کو عوامی حمایت حاصل تھی۔ یہی ان کی ’جادوئی‘ طاقت کا راز تھا۔
یقیناً ریڈیکلز اور ’امن پسندوں‘ سے بھری ٹرین کو اپنے علاقے سے گزرنے کی اجازت دینے کے پیچھے جرمن سامراجیوں کے اپنے مخصوص مقاصد کارفرما تھے۔ انہوں نے یہ سوچ کر جوا کھیلاکہ یہ باغی انتشار پھیلائیں گے اور روس کی جنگی کوششوں کو کمزور کرنے کا سبب بنیں گے۔ لیکن ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ بالشویک اقتدار میں آ جائیں گے۔ ایسے منصوبے تمام سامراجی بناتے ہیں لیکن جرمن جنرل سٹاف کی جانب سے کھیلا جانے والا یہ جوا بہت بری طرح ان کے گلے پڑ گیا۔
29اکتوبر 1918ء کی رات کو جرمن بحریہ میں بغاوت ہو گئی۔ روسی انقلاب کے اثرات کے تحت بننے والی مزدور کونسلوں نے 7نومبر تک زیادہ تر ساحلی شہروں پر قبضہ کر لیا۔ قیصر ویلہم دوم کو مجبوراً تخت چھوڑنا پڑا۔ 11نومبر تک جرمن مزدوروں نے اپنے روسی بہن بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جرمن سامراج کو شکست دی اور انقلابی طریقہ کار سے پہلی عالمی جنگ کو انجام تک پہنچایا۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ لینن کوئی جرمن ایجنٹ نہیں تھابلکہ قیصر کے زوال کا سبب بھی وہی بنا۔
درحقیقت یہ روس کی عبوری حکومت اور جنرل سٹاف تھا جو کہ صحیح معنوں میں جرمن ایجنٹ تھے۔ حتیٰ کہ فروری انقلاب سے پہلے زار اور زارینہ بھی جرمنی کے ساتھ الگ سے ایک امن معاہدہ کرنے کی خفیہ منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اگست میں روسی جرنیلوں نے جان بوجھ کر ریگا پر جرمنی کا قبضہ ہونے دیاتا کہ ایک تو کارنیلوف کے کو (Coup) کا جواز مہیا کیا جا سکے اور دوسرا ریگا کی سوویت کو جرمن سنگینوں کے ذریعے سبق سکھایا جا سکے۔ اسی طرح اقتدار کو اپنے ہاتھوں سے پھسلتا دیکھ کر، کیرنسکی نے پیٹرو گراڈ گیریژن کو اگلے مورچوں پر منتقل کرنے اور دارالحکومت کو جرمنوں کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنایا، تا کہ انقلابی پرولتاریہ کو جرمن فوج کے ہاتھوں ذبح کروایا جا سکے۔
یہ وہ آخری اقدام تھا جس نے سپاہیوں کی اکثریت کا عبوری حکومت پر اعتماد ختم کر دیا۔ پیٹروگراڈ گیر یژن نے پیٹروگراڈ چھوڑنے کے مجرمانہ احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی تمام تر وفاداری سوویت کے سپرد کر دی۔
یہاں ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ حتمی تجزئیے میں بورژوازی ہمیشہ اپنے طبقے کو قوم پر فوقیت دیتی ہے۔ روسی حکمران طبقے نے محنت کشوں کے اقتدار پر قبضے کے مقابلے میں دارالحکومت کے ایک بیرونی حملہ آور کے قبضے میں جانے کو ترجیح دی۔ لینن بھی طبقے کو قوم پر فوقیت دیتا تھا۔ لیکن مالکان، بینکاروں، جاگیر داروں اور جرنیلوں کے اتحاد کی بجائے اس نے تمام محنت کشوں کی اپنے حکمران طبقے کے خلاف انقلابی جدوجہد پر زور دیا۔ یہ لینن کی پوزیشن تھی جس نے جرمن اور روسی عسکریت پسندوں کو اکھاڑ پھینکا اور خونریز سامراجی جنگ کا خاتمہ کیا۔
2۔ اکتوبر انقلاب ایک پر تشدد کُو تھا
قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ زار نکولس دوم کا تختہ الٹ کر لبرل جمہوریت استوار کرنے والا فروری انقلاب پر امن تھا۔ لیکن بد قسمتی سے شیطانی انا پرستوں لینن اور ٹراٹسکی نے ایک متشدد اور غیر قانونی کو کے ذریعے جمہوریت کا تختہ الٹ کر آمریت قائم دی۔ یہ سب کچھ ایک بھونڈا جھوٹ ہے۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لبرل مورخین ’’پر امن‘‘ فروری انقلاب کے اتنے مداح کیوں ہیں۔ انتہائی رجعتی مورخین کے سواباقی سب ہی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ زار شاہی ایک انتہائی جابر حکومت تھی۔ یہ ایک مطلق العنان موروثی بادشاہت تھی جس میں عوام کو کسی قسم کے بھی جمہوری حقوق حاصل نہ تھے۔ سیاسی اختلاف کرنے والوں کو سائبیریا بھیج دیا جاتا تھا۔ یہودیوں اور محکوم قو میتوں کو ریاست مسلسل جبر کانشانہ بناتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی لبرل مورخ کے لئے فروری انقلاب کی مخالفت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، چاہے وہ ایک انقلاب کے عمومی تصور کو کتنا ہی نا پسند کیوں نہ کرتا ہو۔
فروری انقلاب کی حمایت کرنے پر مجبور ہو نے کی وجہ سے لبرل حضرات اس پر ’’پر امن‘‘ ہونے کا ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فروری 1917ء میں لگ بھگ پندرہ سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر نہتے مزدور تھے جنہیں نیم فوجی دستوں نے گولیوں کا نشانہ بنایالیکن یقینی طور پر جیسے جیسے عام ہڑتال اور انقلاب آگے بڑھا، ان مزدوروں نے ہتھیار اٹھائے اور باغی سپاہیوں کے ساتھ ملتے ہوئے مخالفین کو بھی جانی نقصان پہنچایا۔ بلاشبہ زار شاہی کے آخری دنوں میں اس کے بعض بدنام زمانہ اہلکاروں کو سولی پر بھی لٹکایا گیا۔ یہ لبرل مورخ ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ یہ سب کچھ پر امن طریقے سے کیا گیا تھا۔
اگر فروری کے ’’پر امن‘‘ انقلاب میں پندرہ سو ہلاکتیں ہوئی تھیں تو پھر یقیناًاکتوبر کے ’’پر تشدد‘‘ انقلاب میں تو بہت لوگ مرے ہوں گے؟لیکن حقیقت یہ ہے کہ عبوری حکومت کی باقیات کا صفایا کرتے ہوئے سرما محل پر قبضے کے دوران نہ ہونے کے برابر جانی نقصان ہوا تھا۔
آپ میں سے کئی لوگوں نے انقلاب روس پر بنی سرگی آئزن سٹائن کی کلاسیکی فلم’اکتوبر‘ضرور دیکھی ہو گی۔ فلم میں سرما محل پر قبضے کی عکاسی کرنے والے مناظر نہایت پر جوش ہیں؛ان میں لوگ بھاگتے ہوئے، فائرنگ کرتے ہوئے، بم پھینکتے ہوئے اورگرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان مناظر کا حقیقی واقعے سے کوئی تعلق نہیں، جو کہ ایک پولیس آپریشن سے ملتا جلتا تھا۔ بد قسمتی سے فلم کی شوٹنگ کے دوران کچھ حادثات بھی ہوئے جن میں عملے کے چند افراد جاں بحق ہوئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد سرما محل پر حملے کے دوران ہلاک ہونے والوں سے زیادہ ہے۔
یہ واقعہ روس کو عالمی جنگ سے باہر نکالنے کے ساتھ ساتھ اس جنگ کے خاتمے کا سبب بھی بنااور یوں لاکھوں نہیں تو ہزاروں جانیں بچ گئیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ انقلاب کے ’’تشدد‘‘ سے نفرت کرنے والے زیادہ تر لوگ جنگ کی خونریزی کو منصفانہ اور ضروری قرار دے کراس کی حمایت کرتے پائے جاتے ہیں۔ روسی محنت کش ایسے لوگوں کی منافقت سے تنگ آچکے تھے جو کہ صرف اپنے منافعوں کی خاطر جنگ کی حمایت کر رہے تھے جبکہ محنت کش صرف ایک منصفانہ امن کی خاطرقربانیاں دینے کو تیار تھے۔ یہی اکتوبر کی، فروری کی، غرض کسی بھی انقلاب کی دلیل ہے۔ جب اکثریت تبدیلی لانے کا فیصلہ کر لے اور اقلیت متشدد ذرائع سے مزاحمت کرے، تو پھر اکثریت کو اپنے دفاع کا مکمل حق ہے۔
اسی طرح فروری کو اکثریت کی حمایت رکھنے والا شاندار انقلاب بتایا جاتا ہے، لیکن اکتوبر کو ایک محدود سی اقلیت کی جانب سے کیا جانے والاغیر قانونی کو کہا جاتا ہے۔ چلیں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔ سیاسی لغت میں کو کی دو طرح سے تعریف کی جاتی ہے۔ ایک تعریف کے مطابق عوامی رضا کے بغیر کسی اقلیت (عموماً فوج)کا اقتدار پر قبضہ کو کہلاتا ہے۔ دوسری تعریف کے مطابق کسی ریاست میں آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقتدار کی ’’غیر قانونی‘‘منتقلی کو کہلاتی ہے۔
لیکن کیا بالشویک اقلیت میں تھے؟ستمبر 1917ء کے بعدکسی بھی اصل ذریعے نے سنجیدگی کے ساتھ ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ اس بات کو پوری طرح تسلیم کیا جاتا ہے کہ شہری آبادی کی بھاری اکثریت اکتوبر میں بالشویکوں کی حامی تھی۔ دیہی علاقوں میں وہ لوگ جو بالشویکوں کے حامی نہیں تھے، لیفٹ ایس آر کی حمایت کرتے تھے جن کا موقف بھی اقتدار کی سوویتوں کو منتقلی کی حمایت کرتا تھا۔ ملک کے واحد حقیقی جمہوری بنیادوں پر منتخب ہونے والے ادارے، آل رشیا کانگرس آف سوویٹس، نے فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ اقتدار کی سوویتوں کو منتقلی اور ایک بالشویک لیفٹ ایس آر مخلوط حکومت کے قیام کا فیصلہ کیاجو کہ جنگ کے خاتمے، زمین کی کسانوں میں تقسیم اور محکوم قو میتوں کوحق خود ارادیت دینے جیسے اقدامات کرے۔
عوام میں سوویتوں کی وسیع حمایت کاحتمی ثبوت خانہ جنگی میں فتح کی صورت میں ملتا ہے۔ نوزائیدہ مزدور ریاست کو اپنے دفاع کی خاطر بالکل نئے سرے سے ایک فوج کھڑی کرنا پڑی۔ رجعتی وائٹ گارڈزکو سابقہ زار شاہی کے زیادہ تر جر نیلوں اور اکیس سامراجی ممالک کی حملہ آور افواج کی حمایت حاصل تھی۔ ٹراٹسکی نے سرخ فوج تعمیر کرنے کے بظاہر نا ممکن نظر آنے والے ٹاسک کو ممکن کر دکھایا۔ لیکن عوام کی وسیع سیاسی حمایت کے بغیر ٹراٹسکی اپنے تمام تر جوش خطابت کے باوجود یہ سب کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
کسان اس لئے سرخ فوج کو اپنا اناج دینے کو تیار تھے کیونکہ یہ وہ فوج تھی جس نے جاگیر داروں کی واپسی کا راستہ روک رکھا تھا۔ محنت کش طبقہ سامراجیوں اور مالکان سے مستقل چھٹکارے کی خاطر سرخ فوج کا حصہ بنتے ہوئے لڑنے، مرنے کو تیار تھا۔ جنگ دیگر ذرائع سے سیاست کا تسلسل ہوتی ہے اور اس پیمانے کے مطابق سوویتیں عوام کی وسیع اکثریت کی سیاسی حمایت رکھنے کے باعث ہی فیصلہ کن فتح حاصل کر سکیں۔
چلئے مان لیتے ہیں کہ عوام کی وسیع اکثریت بالشویکوں کی حمایت کرتی تھی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہوں نے ایک غیر قانونی اور غیر آئینی طرز عمل اختیار کیا؟ لیکن کسی تنگ نظر قانونی پیمانے کے مطابق بھی مندرجہ بالا دلیل غلط ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے وضاحت کی ہے کہ باد شاہت کو ختم کر کے جمہوریت رائج کرنے کا کوئی ’’آئینی‘‘ طریقہ کار نہ تھا۔ انقلاب ہی واحد آپشن تھا۔ لیکن فروری انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والی حکومت کا کردار کیا تھا؟
بادشاہت کا تختہ اکھاڑ پھینکنے کے لئے لڑنے اور مرنے والے زیادہ تر لوگ بڑے شہروں کے محنت کش تھے جنہوں نے یاتو سپا ہیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا یا پھر ان کو غیر جانبدار رہنے پر قائل کر لیا تھا۔ ان محنت کشوں اور سپاہیوں نے اپنے آپ کو سوویتوں کی شکل میں منظم کیا۔ سوویت روسی زبان میں کونسل کو کہتے ہیں۔ ہر فیکٹری اور ورک شاپ ایک طے شدہ تناسب کے مطابق اپنے منتخب نمائندے اس ادارے میں بھیجتی تھی۔ فوجی یونٹ، جو زیادہ تر باوردی کسانوں پر مشتمل تھے، بھی اپنے نمائندے منتخب کرتے تھے۔ یہ منتخب نمائندے کسی بھی وقت واپس بلائے جا سکتے تھے۔ سوویتیں جمہوری بنیادوں پر منتخب ہونے والے وہ ادارے تھے جن کو فروری میں بادشاہت کو اکھاڑ پھینکنے والے محنت کشوں اور کسانوں کی حمایت حاصل تھی۔
زار کی ڈوما کے لبرل اور قدامت پسند ممبران نیچے سے اٹھنے والی اس عوامی تحریک سے شدید پریشان تھے۔ یہ ادارہ(ڈوما) اپنی ساخت میں انتہائی غیر جمہوری تھا اور یہ زار کو صرف مشورے دینے کا اختیار رکھتا تھا۔ ادارے میں منتخب ہونے کے لئے قوانین کچھ اس طرح سے بنائے گئے تھے کہ کسی بھی صورت میں اکثریت جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے پاس ہی رہے۔ ایک جاگیر دار کا ووٹ ہزاروں محنت کشوں اور کسانوں کے ووٹ کے برابر تھا۔ ڈوما کے قائدین نے سوویتوں کی طرف جھکاؤ رکھنے والی عوامی بغاوت سے زار کو بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا ڈالا۔
بادشاہت کے آخری دنوں میں جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور پروفیسروں وغیرہ پر مشتمل ان نام نہاد ’’منتخب‘‘ نمائندوں نے اپنے آپ کو ’’عبوری حکومت‘‘ قرار دے دیا، حالانکہ نہ تو ان کے پاس کوئی جمہوری مینڈیٹ تھا اور نہ ہی کوئی آئینی بنیاد۔ انقلاب کو ممکن بنانے والے عوام کی بھاری اکثریت ان لوگوں کے بارے میں تحفظات رکھتی تھی، لیکن بد قسمتی سے سوویتوں کے اصلاح پسند قائدین نے ان بورژوا لبرلوں کی حمایت کر دی۔ عبوری حکومت کاواحد جمہوری مینڈیٹ در حقیقت سوویتوں کے اصلاح پسند منشویک اور ایس آر قائدین کا عطا کردہ تھا۔ عوام عبوری حکومت کی حمایت نہیں کرتے تھے لیکن 1917ء کے آغاز میں انہیں سوویتوں کی قیادت پر مکمل اعتماد تھا۔ یوں دوہری طاقت کا دور شروع ہوا جس میں عبوری حکومت اور سوویتوں کی قیادت، دونوں اقتدار میں شراکت دار تھے۔ یہ وہ ’’قانونی‘‘سیٹ اپ تھا جسے فروری انقلاب نے جنم دیا۔
7 تا 9 نومبر 1917ء کو سینٹ پیٹرز برگ میں آل رشیا کانگریس آف سوویٹس کا اجلاس ہوا۔ کانگریس کے لئے روس کے ہر حصے کی نمائندگی کرنے والی 318مقامی سوویتوں سے 649نمائندے منتخب ہوئے۔ بالشویکوں کے 390اور لیفٹ ایس آرکے 100ڈیلی گیٹس نے فیصلہ کن اکثریت حاصل کرتے ہوئے عبوری حکومت کو دیا جانے والا مینڈیٹ واپس لے لیا اور تمام اختیارات سوویتوں کے سپرد کر دئیے، جو کہ روس کے واحد جمہوری طور پر منتخب ادارے تھے۔ لہٰذا آئین اور قانون کی تنگ نظر تعریفوں کے مطابق بھی اکتوبر انقلاب کو کسی صورت میں کو نہیں کہا جا سکتا۔
3۔ اگر لینن نہ ہوتا تو روس ایک لبرل جمہوریت بن سکتا تھا
کہا جاتا ہے کہ اگر صرف لینن نہ ہوتا تو روس فروری انقلاب کے بعد بر طانیہ یا فرانس جیسی اچھی سی، پر امن لبرل جمہوریت بن سکتا تھا۔ یہاں ہمارا سامنا ایک اور ایسے جھوٹے قصے سے ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
پہلی عبوری حکومت میں اقتدار لبرل کیڈٹوں کو ملا۔ اگر لوگ لبرل ازم ہی چاہتے تھے تو پھر اس حکومت کو تو قائم رہنا چاہیے تھا۔ لیکن لبرلز عوام کو کچھ بھی نہیں دے سکتے تھے یعنی نہ تو جنگ کا خاتمہ ہوا، نہ ہی کسانوں کو زمین ملی، نہ محکوم قومیتوں کو آزادی اور نہ ہی شہری آبادی کو اناج۔ اس تمام صورتحال کا اظہار بالشویکوں کے نعرے ’’روٹی، زمین اور امن‘‘کی شکل میں ہوتا ہے۔
سماجی بحران کو حل کرنے کی اہلیت نہ رکھنے کے سبب حکومت گر گئی اور اس کی جگہ اصلاح پسند سوشلسٹوں اور لبرلز پر مبنی ایک مخلوط حکومت نے لے لی۔ کچھ ہی عرصے میں بورژوا لبرلز کوبھی عوامی غیض وغضب کی وجہ سے حکومت چھوڑنا پڑی اور اس کے نتیجے میں تخلیق ہونے والی حکومت تقریباً مکمل طور پر سوویتوں سے آنے والے اصلاح پسند سوشلسٹوں پر مشتمل تھی۔ اس حکومت کا سربراہ کیرنسکی تھا۔ اصلاح پسندوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنے آپ کو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ہی رکھا اور اسی وجہ سے وہ عوام کو امن، روٹی اورزمین دینے میں ناکام رہے۔
روایتی طور پر کسانوں کی حمایت رکھنے والی ایس۔آر پارٹی کا ممبر ہونے کے باوجود کیرنسکی نے ایس۔آر کی زرعی اصلاحات کی پالیسی کے کسی ایک نقطے کے متعلق بھی قانون سازی نہیں کی۔ حکومت ایک جمہوری آئین بنانے کے لئے قانون ساز اسمبلی کا اجلاس تک نہ بلا سکی، کیونکہ اسے ڈر تھاکہ کہیں یہ اسمبلی اس کے قابو سے باہر نہ ہو جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بالشویکوں کی عوامی حمایت بڑھتی چلی گئی کیونکہ وہ سرمایہ داری کے خاتمے اور تمام اقتدار کی سوویتوں کو منتقلی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
حکمران طبقہ، جاگیر دار اور سرمایہ دار، اپنی حاکمیت کو بر قرار رکھنے کے لئے پارلیمانی موشگافیوں پر مزید تکیہ نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی تمام پارٹیاں عوام کے ہاتھوں مسترد ہو چکی تھیں۔ اسی لئے اگست 1917ء میں وہ جنرل کارنیلوف کے فاشسٹ کو کی حمایت میں سرگرم ہو گئے۔ کارنیلوف نے صرف سوویت محنت کشوں کا ہی قتل عام نہیں کرنا تھا بلکہ وہ عبوری حکومت کا بھی خاتمہ کر دیتا۔ اپنی جان بچانے کی خاطر کیرنسکی نے بالشویک قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے پیٹرو گراڈ کے محنت کشوں اور سپاہیوں کو متحرک کرتے ہوئے کارنیلوف کی بغاوت کو شکست دی۔
اس واقعے کے بعد ’’لبرل، اصلاح پسند‘‘ عبوری حکومت ہوا میں معلق ہو گئی۔ محنت کشوں اور کسانوں کی بھاری اکثریت اپنے مسائل کے حل کی خاطر صرف سوویتوں کی جانب ہی دیکھنے لگی۔ جبکہ مالکان، جاگیر دار اور شاہ پرست عوام کو سبق سکھانے کی خاطر فاشسٹ رجعت کی جانب دیکھنے لگے۔ تمام فریقین ’’درمیانی راہ‘‘ کو مسترد کر چکے تھے۔ اب صرف دو ہی آپشن تھے؛ سوشلزم یا فاشزم۔
لیکن بالشویک تو قانون ساز اسمبلی میں اکثریت بنانے میں ناکام ہو گئے تھے؟یہ درست ہے کہ لبرلز اور اصلاح پسند قانون ساز اسمبلی کے قیام سے مسلسل انکار کرتے رہے اور بالآخر یہ بالشویک اکثریت رکھنے والی سوویتیں تھیں جنہوں نے اس کے الیکشن کا انعقاد کرایا۔ اس الیکشن کے ذریعے منتخب ہونے والی اسمبلی میں 41فیصد ایس۔آر، 24فیصد بالشویک، 5فیصد سے کم کیڈٹ اور 3فیصد منشویک تھے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ بالشویکوں کا ووٹ کارنیلوف اور سفید رجعت کا ساتھ دینے والے کیڈٹوں سے کہیں زیادہ تھا۔ بالشویکوں کو شہری علاقوں میں فیصلہ کن اکثریت حاصل ہوئی اور اس کے علاوہ مغربی فرنٹ کے سپاہیوں کا دو تہائی ووٹ بھی بالشویکوں کو پڑا۔
بد قسمتی سے اسمبلی الیکشن کے وقت، لیفٹ ایس۔آر جو سوویت طاقت کی حمایت کرتے تھے اور رائٹ ایس۔آر کے بیچ ہونے والی سپلٹ کی ابھی رسمی طور پر توثیق نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا پارٹی لسٹوں میں رائٹ ایس۔آر کی نمائندگی ان کی اصل حمایت سے کہیں زیادہ تھی۔ یوں کسانوں کے پاس کوئی حقیقی متبادل موجود نہیں تھا۔ دیہاتوں نے زیادہ تر ایس۔آر پارٹی کو ہی ووٹ ڈالا لیکن سماج کے زیادہ متحرک اور با شعور حصے سامراجی ممالک میں پائی جانے والی پارلیمانی جمہوریت کو کہیں پیچھے چھوڑ کرسوویت نظام کا رخ کر چکے تھے جو کسی بھی بورژوا پارلیمانی نظام سے کہیں زیادہ جمہوری تھا۔
18جنوری 1918ء کو اپنا پہلا اجلاس منعقد کرنے والی اسمبلی ایک عجیب وغریب اور مخلوط النسل بیمار مخلوق تھی۔ اصلاح پسندوں نے اسمبلی کی حمایت میں ایک مظاہرے کا انعقاد کیا جو بری طرح ناکام ہو گیا۔ ڈیلی گیٹس کسی بھی ناگہانی صورتحال کے پیش نظر موم بتیاں اور اپنا کھانا ساتھ لائے تھے۔ صبح کے چار بجے حفاظتی دستے کے سربراہ، جو کہ ایک انارکسٹ تھا، نے کہا کہ، ’’ہم تھک چکے ہیں۔ میں مشورہ دوں گا کہ آپ میٹنگ ختم کریں اور سب کو گھر جانے دیں‘‘۔ اور یہ ایک ایسی اسمبلی کا انجام تھا جس کی خاطر کوئی لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ یہ سوویت جمہوریت کو پسند کرنے والے محنت کش طبقے کے لئے مطلوبہ حد تک جمہوری نہ تھی اور دوسری طرف کسی بھی شکل میں بادشاہت کی بحالی کے لئے خانہ جنگی کی تیاری کرنے والے بورژوا جرنیلوں کے لئے یہ ضرورت سے زیادہ جمہوری تھی۔
4۔ بالشویکوں نے خانہ جنگی میں بے تحاشہ ظلم وجبر کیا تھا
جنگ ایک جہنم ہوتی ہے۔ دونوں فریقین پر تشدد ذرائع سے ایک دوسرے کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ خانہ جنگی، جنگ کی سب سے بھیانک شکل ہوتی ہے۔ جیتنے والا فریق سب کچھ جیت لیتا ہے اور ہارنے والا سب کچھ ہار جاتا ہے۔ اگر کوئی ایک فریق تشدد کے ذرائع پر اجارہ داری رکھتا ہے، تو وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود سماج کی اکثریت کو دہشت زدہ کر کے مطیع بنا سکتا ہے۔ مطلق ا لعنانیت کو شکست دینے کے لئے اکثریت کو اقلیت کے تشد د کا جواب دینا پڑتا ہے۔
روسی خانہ جنگی کا مطالعہ کرنے والے کسی بھی با ضمیر شخص پر یہ حقیقت فوراً واضح ہو جاتی ہے کہ زیادہ تر جبر و تشدد وائٹ گارڈز اور سامراجی ممالک کی حملہ آور افواج نے کیا تھا۔
اپنے ابتدائی دنوں میں تو انقلاب در حقیقت ضرورت سے زیادہ ہی مہربان اور فراخ دل تھا۔ بالشویکوں نے اسی فراخ دلی کا بار بار مظاہرہ کرتے ہوئے کئی بد نام ترین رجعتیوں اور رد انقلابیوں کی زندگی بھی بخش دی۔ ہم اس کی وجوہات سمجھ سکتے ہیں۔ فتح مند انقلاب منتقم مزاج نہیں ہوتا اور پر امن طریقے سے سماج کو آگے بڑھانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں لینن اور ٹراٹسکی نے کئی بار یہ کہا کہ بہت سی جانیں بچ سکتی تھیں اگر انقلاب ابتدا سے ہی اپنے دشمنوں کے ساتھ سختی سے نمٹتا، اور یہ بلا شبہ بالکل درست ہے۔
انقلاب نے سخت اقدامات صرف رد انقلابی قوتوں کے بہیمانہ جبر وتشدد کے جواب میں ہی کرنے شروع کئے۔ طبقاتی جدوجہد جمہوریت کی رسمی حدود کو پھاڑ کر باہر نکل چکی تھی۔ رد انقلابیوں نے بہت پہلے ہی اپنے چہرے سے جمہوریت اور عدم تشدد کا نقاب اتار پھینکا تھا اور اب وہ انقلاب کو شکست دینے کے لئے جبر، تشدد، دہشت گردی اور قتل عام سمیت ہر میسر طریقہ استعمال کر رہے تھے۔
رد انقلابی افواج کی سفاکی کا اندازہ خانہ جنگی کی ابتدا میں ہی ہونے والے ایک واقعے سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے ٹرین کی تین بوگیاں مارے جانے والے ریڈ گارڈز کی لاشوں سے بھر کرقحط زدہ پیٹرو گراڈ واپس بھجوائیں۔ قابل اعتراض حالت میں رکھی جانے والی ان منجمد لاشوں پر لکھا تھا، ’’پیٹرو گراڈ کے لئے تازہ گوشت‘‘۔
وائٹ گارڈز بالشویکوں، سرخ فوج کے قیدیوں، غرض بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے کسی بھی شخص پر سفاکانہ مظالم ڈھانے کے لئے مشہور تھے۔ پکڑے جانے والے انقلابیوں کے اعضا کاٹ دینا، انہیں زندہ دفنانے سے قبل ان کی آنکھیں نکال دینا، یہ سب وائٹ گارڈز کے پسندیدہ ترین مشاغل تھے۔
جنرل ڈینیکن کی افواج اپنے مقبوضہ علاقوں میں لوٹ مار، عصمت دری اور قتل وغارت کرنے کے لئے بد نام تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق لاکھوں لوگ ان رجعتیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
قاری ہمارے الفاظ پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کا پابند نہیں ہے۔ اس وقت کے امریکی سفیر، جو سوویت طاقت کا ہمدرد تو ہرگز نہ تھا، نے کہا:
’’تمام مقبوضہ (رد انقلابیوں کے زیر تسلط)سا ئبیر یا میں۔ ۔ ۔ لوگوں کو کسی الزام کے بغیر ہی اندھا دھند گرفتار کیا جا رہا ہے، کسی برائے نام مقدمے کے بھی بغیر مارا جا رہا ہے، کسی اتھارٹی کے بغیر ان کی املاک ضبط کی جا رہی ہیں۔ خوف و دہشت نے ہر ایک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر شک کرتے ہیں اور ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کوئی مخبر یا کوئی دشمن ان پر بالشویک ہونے کا الزام لگا کر ان کو فی الفور موت کے منہ میں پہنچا دے گا۔ ‘‘
جاپانی افواج کے حمایت یافتہ اور ایڈمرل کولچاک کے اتحادی ایک اتامان(روایتی کوساک آقا)کے متعلق ایک سینئر فوجی ڈاکٹر نے آن ریکارڈ کہاکہ یہ شخص’’ایک بیمار ذہنیت کا حامل اور انسانی خون کا پیاسا انا پرست ہے۔ ‘‘
امریکی جنرل گریوز نے وائٹ گارڈز کے طرز عمل کو بیان کرتے ہوئے کہا:
’’سیمیونوف اور کالمیکوف کے سپاہی، جاپانیوں کی چھتر چھایا تلے، وحشی جانوروں کی طرح دیہاتوں میں دندناتے پھر رہیں اور انہوں نے قتل وغارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اگر جاپان چاہے تو یہ سب کچھ ایک دن میں ختم کر سکتا ہے۔ جب اس وحشیانہ قتل عام کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ قتل کئے جانے والے لوگ بالشویکوں کے ہمدرد تھے اور بظاہر یہ وضاحت دنیا کو مطمئن کر دیتی ہے۔ مشرقی سائبیریا میں حالات نہایت خوفناک ہیں اور انسانی زندگی وہاں سب سے سستی چیز ہے۔ ‘‘
کہا جاتا ہے کہ وائٹ گارڈز کے مظالم نے بہت سے سیاسی اعتدال پسندوں کو بھی بالشویکوں کا حامی بنا دیا۔
سیمیونوف تو ابتدائی طرز کے ڈیتھ کیمپ بھی تعمیر کر رہا تھا۔ 19اگست 1919ء کو کرنل سٹیفانوف نے ٹرین کی 52بوگیوں میں بھرے قیدیوں کو ذبح کرڈالا اور اس سے اگلے ہی دن مزید 1600افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انسانوں کو ذبح کرنے کے لئے بنائے جانے والے یہ ڈیتھ کیمپ پوری خانہ جنگی کے دوران سرگرم عمل رہے۔ گریوز لکھتا ہے کہ
’’میرا نہیں خیال کہ پچھلی چالیس سالہ تاریخ میں دنیا کا کوئی اور ایسا ملک ہو گاجس میں کسی پوچھ گچھ اور سزا کے خوف کے بغیر قتل کرنا اتنا آسان ہو گا جتنا کہ ایڈمرل کو لچاک کے زیر تسلط سائبیریا میں تھا۔ ‘‘
کولچاک کے دار الحکومت میں درجنوں لاشیں تار برقی کے کھمبوں کے ساتھ لٹک رہی ہوتی تھیں اور ریلوے لائن کے دونوں اطراف بوگیوں سے نکال کر قتل کئے جانے والے قیدیوں کی لاشیں بکھری پڑی ہوتی تھیں۔
آخر میں اپنے تما م تر مشاہدات کو سمیٹتے ہوئے جنرل گریوز وائٹ گارڈز کی دہشت گردی کے متعلق لکھتا ہے:
’’خوفناک قتل عام کیا گیا لیکن دنیا کے خیال کے برعکس یہ بالشویکوں نے نہیں کیا۔ میں پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ مشرقی سائبیریا میں اگر بالشویکوں نے ایک فرد کو قتل کیاتو بالشویکوں کے مخالفین نے ایک سو افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ‘‘
سوویتوں کو اس جبر وتشدد کے خلاف اپنا دفاع کرنا تھا۔ ایک خانہ جنگی کے دوران کوئی حکومت بھی مسلح مخالفین کو اپنے علاقے میں منظم ہونے، نقل وحرکت کرنے اور اخبار شائع کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
تاریخ میں کبھی بھی کسی حکمران طبقے نے اپنا اقتدار ایک لڑائی کے بغیر نہیں چھوڑا۔ رد انقلاب کی وحشیانہ مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لئے، ہر عہد میں انقلابات اپنے دفاع کی خاطرسخت اور جابرانہ اقدامات کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہی سب انقلاب انگلستان، امریکی انقلاب، انقلاب فرانس، امریکی خانہ جنگی اور روسی خانہ جنگی سمیت تاریخ کے دوسرے بے شمار انقلابات میں ہوا ہے۔
مارک ٹوئن نے اپنے ناول’’آ کونیٹی کٹ یانکی ان کنگ آرتھرز کورٹ‘‘میں انقلابی تشدد کا شاندار تاریخی دفاع کیا ہے۔ اگرچہ وہ یہ بات انقلاب فرانس میں’دہشت کے راج‘ کے حوالے سے کرتا ہے لیکن یہ انقلاب روس سمیت کسی بھی انقلاب کے دفاع میں کہی جا سکتی ہے:
’’دہشت کے راج دو تھے، اگر ہم اپنی یاد داشت پر زور دیں اور تھوڑا غور کریں تو؛ایک وہ جو جذبات کی تندی میں قتل کرتا تھا، دوسرا وہ جو سرد مہری کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارتا تھا؛ ایک محض چند مہینوں پر محیط تھا، دوسرا ایک ہزار سال پر مبنی تھا؛ ایک نے دس ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا، جبکہ دوسرے نے لاکھوں کروڑوں کو؛ لیکن ہماری ساری کپکپاہٹ صرف کم تر اور وقتی دہشت کی ’ہولناکیوں‘ کے لئے ہی مختص ہے؛حالانکہ بھوک، سردی، بے عزتی اور سفاکی کے ہاتھوں عمر بھر سسک سسک کر مرنے کے مقابلے میں کلہاڑے کے ذریعے ملنے والی ایک صاف ستھری اور تیز موت ہے ہی کیا؟ آسمانی بجلی سے واقع ہونے والی فوری موت کا مقابلہ کیا سلگتی ہوئی لکڑیوں پر ملنے والی سست اور اذیت ناک موت سے کیا جا سکتا ہے؟ایک شہر کے قبرستان میں اس مختصر سی دہشت کے نتیجے میں بھرنے والے تابوت بآسانی دفنائے جا سکتے ہیں، جس سے نفرت کرنا اور جس کا افسوس کرنا ہمیں بڑی جاں فشانی سے سکھایا جاتا ہے؛ لیکن پورا فرانس بھی اس قدیم اور حقیقی دہشت کے نتیجے میں بھرنے والے تابوتوں کو اپنی زمین میں نہیں سمو سکتا۔ ۔ ۔ وہ ناقابل بیان حد تک تلخ اور ہولناک دہشت جس کو اس کی تمام تر وسعت میں دیکھنا اور اس پر افسوس کرنا ہم میں سے کسی کو نہیں سکھایا جاتا۔ ‘‘
5۔ رومانوف خاندان(شاہی خاندان) کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیاتھا
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کو یہ تو پتہ ہے کہ رومانوف خاندان کو ’قتل‘ کر دیا گیا تھامگر یہ کیوں نہیں علم کہ کم و بیش اسی وقت برطانوی سامراجیوں نے باکو میں 26سوویت کمیساروں کوکسی مقدمے کے بغیر انتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا؟ کیا آپ کو ان 4600سے زائد پر امن مظاہرین کے بارے میں کچھ علم ہے جنہیں جنوری 1905ء میں اس وقت گولیوں سے بھون دیا گیا تھاجب وہ ’چھوٹے باپ‘، زار نکولس دوم کو اپنے مطالبات پر مشتمل ایک عرضی دینا چاہ رہے تھے؟ کیا آپ کو پتہ ہے کہ زار سامی دشمن ’’یونین آف دی رشین پیپل‘‘ کا ممبر تھا، اسے فنڈ کرتا تھا، اس کی زبردست حمایت کرتا تھا اور بڑے فخر سے اس کا بیج لگاتا تھا؟
یہ تنظیم زار کی خفیہ پولیس کی مدد سے یہودی آبادیوں کا منظم قتل عام کرانے کی ذمہ دار تھی۔ ا س کے دوران مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں پر قتل، تشدد، عصمت دری، آتش زنی اور لوٹ مار سمیت ہر ممکن ظلم کیا جاتا تھا۔ اوڈیسہ میں صرف ایک ایسے قتل عام کے دوران ہی800یہودیوں کو قتل کر دیا گیا، 5000زخمی ہوئے اور ایک لاکھ کو در بدر ہونا پڑا۔ ایسا نہیں تھا کہ زار کو ان مظالم کا علم نہ تھا بلکہ اس نے تو اپنی ماں کو لکھے گئے ایک خط میں اس سب کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے ’’محب وطن‘‘ لوگوں کے حرکات قرار دیاتھا۔ ایک دوسرے خط میں بالٹک کے کسانوں پر ڈھائے جانے والے ریاستی جبر کا تذکرہ کرتے ہوئے اس نے لکھا’’دہشت کا جواب دہشت سے دینا چاہیے‘‘۔ اس کے دور حکومت میں ہزاروں انقلابیوں کو قتل کیا گیا، ہزاروں کوتنگ و تاریک جیلوں میں قید رکھا گیا یا پھر ٹھٹھر کر مرنے کے لئے سائبیریا جلا وطن کر دیا گیا۔ اس کا آخری جرم فروری انقلاب کے دوران مظاہرین پر سیدھا گولی چلانے کا حکم دینا تھا۔ یقیناً ’’خونی نکولس‘‘ کا خطاب اسے ایسے ہی نہیں ملا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے زار نکولس کوایک خاموش اور عاجز انسان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرنامنافقت کی انتہا ہے۔ کیا یہ کبھی بادشاہ چارلس اول اور لوئی چہار دہم کی موت کا غم بھی مناتے ہیں جن کی سر کٹی لاشوں پر چل کر بورژوازی اقتدار میں آئی تھی؟ کیا یہ لوگ کبھی صدام حسین، بن لادن، چاؤ شسکو اور دیگر ایسے افراد کے قتل پر بھی روتے ہیں، جن کا رویہ مغرب کی طرف دوستانہ نہیں تھا؟ہیلری کلنٹن تو قذافی کی موت پر ہنستی ہوئی دیکھی گئی تھی۔ ہمیں بھی ان افراد کی موت کا کوئی دکھ نہیں ہے لیکن زار نکولس بھی ان میں سے کسی سے بہتر نہ تھا۔ کیا یہ منافق کبھی عراق اور افغانستان میں بش اور بلیئر کی بمباری سے جاں بحق ہونے والے ہزاروں بچوںیا پاکستان میں اوبامہ کے ڈرون حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں پر بھی دکھی ہوتے ہیں؟ہرگز نہیں، کیونکہ مارے جانے والے بے نام اور غریب لوگ ہیں اور امرا کے لئے ان کو بھول جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔
کچھ لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نکولس ایک جابر حکمران تھا، لیکن وہ اس کے پورے خاندان کو مار دئیے جانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ یقینایہ افسوس ناک تھالیکن اپنے دور حکومت میں نکولس تو بے شمار غریب گھرانوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہوئے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں جھجکتا تھا۔ ٹراٹسکی کی خواہش رومانوف خاندان پر ایک عوامی مقدمہ چلانے کی تھی، تا کہ ساری دنیا ان کے جرائم کے متعلق جان سکے۔ مگر خانہ جنگی کے دوران ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ 1918ء میں وائٹ گارڈز، یکاترین برگ کے گرد گھیرا تنگ کرتے جا رہے تھے، جہاں پر رومانوف خاندان کو ایک آرام دہ گھر میں زیر حراست رکھا گیا تھا۔ اگر شاہی خاندان کا کوئی بھی فرد رد انقلابی افواج کے ہاتھ لگ جاتاتو وہ اسے ملک بھر میں رجعتی قوتوں کوایک نکتے پر اکٹھا کرنے کے لئے استعمال کرتے۔
اگرچہ یکاترین برگ خالصتاً فوجی نقطہ نظر سے ایک غیر اہم علاقہ تھا لیکن رومانوف خاندان کی موجودگی کے کارن یہ اچانک ہی رد انقلابی افواج کی توجہ کا مرکز بن گیااور لاکھوں نہتے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں۔ سرخ فوج کے پاس علاقے کا بھر پور دفاع کرنے کے لئے درکار وسائل نہ تھے۔ وائٹ گارڈز کے خوفناک حملے کی زد میں آئے ہوئے یکاترین برگ کے بالشویکوں کے پاس شاہی خاندان کو مارنے کے سوا اس قتل عام کو روکنے کا اور کوئی طریقہ نہ تھا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے رد انقلابیوں کے اکٹھا ہونے کے لئے درکار کسی ممکنہ طاقتور سربراہ کو بھی ختم کرڈالا۔
یہ(سامراجی) ہمیں بتاتے ہیں کہ ایٹم بموں سے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے دو لاکھ مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام اس لئے ضروری تھاکیونکہ اس سے’’جانیں بچیں اور جنگ مختصر ہوگئی‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ رومانوف خاندان کے خاتمے سے رجعتیوں کے حوصلے پست ہو گئے اور نتیجتاً خانہ جنگی کے مختصر ہو جانے کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگیاں بچ گئیں۔
اصل میں سرمایہ داروں کواعتراض اس لئے ہے کہ یہاں پر ہمارے سامنے امرا کے غریبوں پر اور ظالموں کے مظلوموں پرتشدد کی بجائے غلاموں کی مزاحمتی لڑائی اور فتح کی مثال ہے۔ ورنہ جب رومنوں نے سپارٹیکس کی بغاوت کو شکست دی تھی، تو انہوں نے روم جانے والے راستے کے دونوں طرف باقیوں کو چیتاؤنی دینے کی خاطر مارے جانے والے ہزاروں غلاموں کی لاشیں لٹکا دیں تھیں۔
لاکھوں کروڑوں گمنام لوگ سرمایہ داری کے جبر واستحصال کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہم یہاں زار نکولس کی ہی بات کو دہرائیں گے کہ ’’دہشت کا جواب دہشت سے دینا چاہیے‘‘۔ بالشویک محنت کشوں نے طمانچہ کھانے کی خاطر اپنا دوسرا گال سامنے نہیں کیا، کیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ دنیا پر کبھی کمزوروں نے حکمرانی نہیں کی۔ ایک نئی دنیا تخلیق کرنے کی خاطر غریب اکثریت کا تشدد لازمی طور پر مزاحمتی کردار کا حامل ہوتا ہے اور اس کا دورانیہ بھی اس تشدد کی نسبت کہیں کم ہوتا ہے جسے طبقہ امرا اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کی خاطر مسلسل روا رکھتا ہے۔ ہم ہرگز تشدد نہیں چاہتے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اکثریت کو اقلیت کے تشدد سے اپنا بھرپور دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔
6۔ ٹراٹسکی نے کرونستاد کے جہازیوں کا قتل عام کرایا
مارچ 1921ء کی کرونستاد بغاوت کے حوالے سے انارکسٹ بالشویک انقلاب پر بہت تنقید کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ’کرونستاد، کرونستاد‘ چلانے والوں نے اس بغاوت کے حقیقی پس منظر اور حالات و واقعات کے متعلق بہت کم پڑھا ہوتا ہے۔ کرونستاد کا واقعہ دراصل ایک انتہائی افسوس ناک المیہ تھا، نہ کہ ’غیر جمہوری‘ بالشویکوں کے آمرانہ اقدامات کی ایک مثال۔
کرونستاد کا نام بلاشبہ بالشویک انقلاب کی تاریخ میں ایک قابل فخر مقام رکھتا ہے۔ قلعے سے پیٹروگراڈ کی بندر گاہ کا دفاع کرنے والے یہ جہاز راں انقلاب روس کے سب سے زیادہ ریڈیکل اور بہادر سپاہیوں میں سے ایک تھے۔ لیکن1921ء میں بغاوت کرنے والے کرونستاد کے جہاز رانوں کا 1917ء کے ہیرووں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ 1917ء کے جہاز رانوں نے خانہ جنگی میں وائٹ گارڈز کیخلاف جنگی کار وائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان میں سے کئی مارے گئے یا کسی دوسرے مقام پر تعینات کر دیے گئے۔ 1921ء میں کرونستاد جہازرانوں کی بھاری اکثریت کسانوں کے بیٹوں پر مشتمل تھی۔
خانہ جنگی جیتنے کیلئے سوویتوں کو ’’جنگی کمیونزم‘‘کی پالیسی اختیار کرنا پڑی۔ اس پالیسی کے مطابق سوویت حکومت سرخ فوج اور شہروں میں اسلحہ ساز صنعتوں کے محنت کشوں کو زندہ رکھنے کی خاطر کسانوں کی اجناس بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار رکھتی تھی۔ ابتدا میں تو کسان یہ قربانی دینے کو ہنسی خوشی تیار تھے کیونکہ یہ سوویت حکومت تھی جس نے جاگیر داروں کی واپسی کا راستہ روک رکھا تھا۔ لیکن جیسے جیسے خانہ جنگی طویل ہوتی گئی، معاشی تحفظات کسانوں کی سیاسی ہمدردیوں پر غالب آناشروع ہو گئے۔ کسانوں نے زرعی اجناس کی آزادانہ تجارت کا مطالبہ کرنا شروع کر دیااور یہی 1921ء میں کرونستاد کے جہازرانوں(کسانوں کے بیٹوں) کا بنیادی مطالبہ بھی تھا۔ ان میں مٹھی بھر انارکسٹ بھی تھے اور ان کی پیش کردہ چند قرار دادیں منظور بھی ہوئیں لیکن اصل مسئلہ زرعی اجناس کی آزاد تجارت کا ہی تھا۔
موسم سرما کے اختتام تک مزدور حکومت نے باغیوں سے مذاکرات کا آغاز کر دیا۔ بدقسمتی سے حکومت کے پاس وقت بہت کم تھا اور خطرہ تھا کہ جزیرے تک جانے والا برفانی راستہ پگھل کر ختم ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پیٹروگراڈ کی بحری رسد کا کنٹرول مکمل طور پر باغیوں کے ہاتھ لگ جاتااور وہ ایک خانہ جنگی کے دوران پرولتاریہ کے دارالحکومت کو بھوکا مارنے کی پوزیشن میں آجاتے۔ ایسا ہونے دینا یقیناًایک مجرمانہ غفلت ہوتی اور سوویت حکومت کے پاس ایک مسلح کاروائی کے ذریعے جزیرے کا کنٹرول واپس لینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
کرونستاد بغاوت اور اس کی بیخ کنی یقیناًخانہ جنگی کا ایک افسوس ناک اور غمگین باب تھا۔ اگر مزید مذاکرات کا وقت ہوتا تو شاید یہ سب نہ ہوتا۔ لیکن بالشویکوں کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ بعد میں سیاسی بغض کی وجہ سے اس افسوس ناک واقعے کا سارا ’’الزام‘‘ٹراٹسکی پر ڈال دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ لبرلز اور بورژوازی، سٹالن ازم کے خلاف ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن کی جدوجہد کو داغدار کرنے کے لئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ٹراٹسکی نے بعد میں وضاحت کی کہ جزیرے پر حملے سے اس کا کوئی براہ راست تعلق نہ تھا، لیکن بہر حال سرخ فوج کے سربراہ کے طور پر وہ یہ قدم اٹھائے جانے کی سیاسی ضرورت سے بالکل اتفاق کرتا تھا۔
مختلف باغی جہازرانوں کی انفرادی خواہشات چاہے کچھ بھی ہوں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے اقدامات کی وجہ سے نہ صرف جزیرہ بلکہ پورا شہر فن لینڈ میں موجود رد انقلابی افواج کے ہاتھ لگ جاتا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرونستاد کے بعد کے عرصے میں بالشویکوں کو احساس ہو گیا کہ ان کی جنگی کمیونزم کی پالیسی اب اپنی عمر پوری کر چکی ہے اور یوں ’نیو اکنامک پالیسی‘(NEP ) کا آغاز ہوا۔ نیپ کے تحت حکومت نے زرعی اجناس کی آزادانہ تجارت کی اجازت دے دی۔ اس لئے یہ پورا واقعہ مزید افسوسناک روپ دھار جاتا ہے۔ بہرحال انارکسٹوں نے نیپ کی بھی مخالفت کی حالانکہ کرونستاد کے باغیوں کا مرکزی مطالبہ ہی زرعی اجناس کی آزادانہ تجارت کے متعلق تھا۔ اپنی پوری تاریخ میں مستقل مزاجی کبھی بھی انارکسٹوں کا شیوہ نہیں رہی ہے۔
7۔ سٹالن ازم، بالشویزم کا ناگزیر نتیجہ ہے
یہ ثابت کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی کہ سٹالن ازم اور آمریت بالشویزم کا ناگزیر نتیجہ ہیں۔ 1917ء کے انقلابیوں پر اس سے بڑا اور کوئی بہتان نہیں ہوسکتاکہ انہیں ان لوگوں کی صف میں کھڑا کر دیا جائے جنہوں نے انہیں دغا دیا، قید میں ڈالا اور قتل کیا۔ خون کا ایک دریا ہے جو بالشویزم اور سٹالن ازم کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ 1942ء تک انقلاب کے وقت کی تقریباً ساری ہی بالشویک سنٹرل کمیٹی کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر کی موت سٹالن کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ اگر سٹالن ازم لینن کی پارٹی کا ہی منطقی نتیجہ تھا تو پھر یہ سب کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟کوئی بھی اس سادہ سے بنیادی سوال کا جواب نہیں دے پاتا۔
سٹالن ازم کے ابھار کا ہرگز بھی لینن ازم کے کسی نام نہاد ’اولین گناہ‘ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ 1917ء کی بالشویک پارٹی صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ معاشی جمہوریت کی بھی قائل تھی۔ یعنی کہ گراس روٹ لیول کی سوویت جمہوریت اورذرائع پیداوار پر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کا ملاپ۔ یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ جمہوریت سے کہیں زیادہ جمہوری تھا، جس کی پارلیمانی سیاست سرمائے کے ہاتھوں مسخ ہو جاتی ہے اور جوفیکٹری کی سطح پر بد ترین آمریت کا روپ دھار لیتی ہے۔
بدقسمتی سے زار شاہی روس میں خواندگی کی شرح نہایت کم تھی۔ آبادی کا 90فیصد کسانوں پر مشتمل تھا اور 30 فیصد سے بھی کم لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ ایسی صورتحال میں نوزائیدہ مزدور ریاست کوسماج چلانے کے لئے زار کے دور کی نوکر شاہی کا استعمال کرنا پڑا۔ یہ انقلاب کے ابتدائی سالوں(1917ء تا1921ء)میں قابل قبول تھا، جب محنت کش ان بیورو کریٹس کو سختی سے کنٹرول میں رکھتے تھے۔ لیکن عالمی جنگ کے چار سالوں اور خانہ جنگی کے تین سالوں بعد محنت کش تھک چکے تھے۔ محنت کش طبقے کے سب سے بہادر اور شعور یافتہ عناصر نے خانہ جنگی میں ہر اول سپاہیوں کا کردار ادا کیا اور بد قسمتی سے ان گمنام ہیرووں کی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں ماری گئی۔
اگرچہ سوویت حکومت نے خانہ جنگی جیت لی لیکن ملکی معیشت سالوں کی جنگی تباہ کاری اور سامراجی ناکہ بندی کی وجہ سے بالکل برباد ہو چکی تھی۔ زیادہ تر محنت کش اب اپنے بال بچوں کے پاس گھر لوٹنا چاہتے تھے۔ اس پس منظر میں زار شاہی دور کے بیورو کریٹ محنت کشوں کے کنٹرول سے باہر نکلنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے محنت کشوں کو پرے دھکیلنا شروع کر دیا اور بتدریج ان کے جمہوری کنٹرول کا صفایا کر دیا۔
سٹالن اس نوکر شاہی کا نمائندہ تھا۔ 1917ء کے واقعات میں اس کا ایک ثانوی سا کردار تھا، لیکن وہ محنت کشوں کے بڑھتے ہوئے عدم تحرک کے باعث طاقت پکڑتی بیوروکریسی کا نمائندہ بن کر سوویت سیاست میں نمایاں حیثیت اختیار کر گیا۔ ریاستی اہلکاروں سے سوالات پوچھنے والے محنت کشوں کو طنزیہ جواب دیا جاتا تھاکہ’’تم کیا سمجھتے ہو، کیا یہ 1918ء ہے؟‘‘لینن نے ٹراٹسکی کے ساتھ مل کر اپنی زندگی کی آخری لڑائی اس افسر شاہانہ زوال پذیری اور بالخصوص سٹالن کیخلاف لڑی۔ لینن نے سوویت ریاستی مشینری کے بارے میں کہا:
’’یہ اس کار کی مانند ہے جو اپنے ڈرائیور کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ کسی اور کی خواہش کے مطابق چل رہی ہو؛جیسے کوئی پر سرار ہاتھ اسے چلا رہا ہو۔ خدا جانے کس کا، شاید کسی منافع خور کا، یا پھر کسی سرمایہ دار کا، یا دونوں کا۔ ‘‘ایک اور جگہ اس نے کہا:’’یہ ریاستی آپر یٹس جسے ہم اپنا کہتے ہیں، درحقیقت ہمارے لئے خاصہ بیگانہ ہے؛یہ بورژوازی اور زار شاہی(کی باقیات) کا ایک ملغوبہ ہے اور پچھلے پانچ سال میں دوسرے ممالک کی مدد کے بغیر اس سے جان چھڑانا ممکن نہ تھا۔ اور چونکہ ہم زیادہ تر عرصہ فوجی کاروائیوں اور قحط کیخلاف جدوجہد میں مصروف رہے ہیں۔ ۔ ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معمولی سی تعداد میں موجود سوویت شعور رکھنے والے مزدورروسی شاؤنسٹ گندگی کی اس لہر میں اس طرح ڈوب کر رہ جائیں گے، جیسے مکھی دودھ میں ڈوب جاتی ہے۔ ‘‘
اپنی آخری وصیت میں، جسے بعد ازاں دبا دیا گیا، لینن نے سٹالن کیخلاف کھلی لڑائی چھیڑ دی۔ 24دسمبر 1922ء کو اس نے لکھا:
’’جنرل سیکرٹری ہونے کے ناطے، کامریڈ سٹالن کے ہاتھ میں بے تحاشہ اختیارات آ گئے ہیں، اور مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ ان اختیارات کے استعمال میں مناسب احتیاط برت سکیں گے۔ ‘‘
لیکن گیارہ دن بعد ہی لینن نے اپنی وصیت میں مزید اضافہ کیا:
’’سٹالن بہت بد تمیز ہے اور یہ خامی اگرچہ ہمارے درمیان یا پھر کمیونسٹوں کے باہم معاملات میں تو برداشت کی جا سکتی ہے، لیکن ایک سیکرٹری جنرل میں اس کا ہونا ناقابل بر داشت ہے۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ کامریڈزاس کے متعلق سوچیں کہ سٹالن کو اس ذمہ داری سے ہٹا کر اس کی جگہ کسی ایسے شخص کو لایا جائے جو کہ سٹالن کے مقابلے میں ایک خوبی کا حامل ہو، یعنی کہ زیادہ متحمل مزاج ہو، کامریڈز کے ساتھ زیادہ وفادار ہو، زیادہ نرم ہواور زیادہ خیال رکھنے والا ہو، کم درشت ہو، وغیرہ۔ ‘‘
مندرجہ بالا سطور سے ہمیں واضح طور پر اندازہ ہو جاتا ہے کہ لینن کا بیورو کریسی اورسٹالن کی طرف کیا رویہ تھا۔
انارکسٹ سٹالن ازم کے ابھار کا سارا ملبہ جمہوری مر کزیت کے اصول پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ ایک عجیب وغریب آئینی منطق ہے جس کے مطابق اگر ایک میٹنگ کو چلانے کاصرف طریقہ کار درست ہوتو لوگوں کا رویہ ایک دوسرے کے ساتھ خود بخود بہتر ہو جائے گا۔
جمہوری مرکزیت ہی جمہوریت کی واحد عملی شکل ہے۔ اس کے بنیادی اصول بحث مباحثے کی مکمل آزادی اور عمل میں بھر پور اتحاد و اتفاق پر مبنی ہیں۔ جمہوری مرکزیت کا عملی اظہار ہمیں محنت کشوں کی ہر ہڑتال میں نظر آتا ہے: یونین ممبرز کی میٹنگ میں تمام محنت کش ہڑتال پر جانے یا نہ جانے کے متعلق کھل کر بحث کر سکتے ہیں۔ پھر اس معاملے پر ووٹنگ کرائی جاتی ہے۔ بالفرض اگر 70فیصد مزدور ہڑتال کے حق میں ووٹ دیتے ہیں، تو اگلے دن تمام مزدوروں(سو فیصد) کو پکٹ لائن پر موجود ہونا چائیے ورنہ ہڑتال کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اقلیت کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے لیکن مستقبل کا لائحہ عمل اکثریتی رائے کے مطابق طے پاتا ہے۔
جمہوری مرکزیت کی ضد میں ایک طرف ’خالص‘ انارکزم ہے، جس میں کوئی بھی گروپ کے جمہوری فیصلوں کا پابند نہیں ہوتااور نتیجتاً گروپ پہلا ہی چیلنج درپیش آنے پر بکھر جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف سٹالن ازم کی افسر شاہانہ مرکزیت ہے، جس میں بحث مباحثے کی کوئی آزادی نہیں ہے۔ یہاں پر بھی سٹالن ازم بالشویزم کے بالکل الٹ ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اکثر انارکسٹ تنظیمیں جن میں کوئی ’لیڈر‘ نہیں ہوتا درحقیقت بد ترین قسم کی افسر شاہانہ مرکزیت کا شکار ہوتی ہیں۔ جمہوری طور پر منتخب شدہ اور جواب دہ قیادت کی غیر موجودگی میں یہ کردار غیر منتخب خفیہ لیڈر ادا کرتے ہیں: یعنی عمومی طور پر کمرے میں موجود سب سے اونچا بولنے والا زور آور شخص۔ فیصلے تو بہر حال کئے ہی جاتے ہیں لیکن کسی کے پاس ان کو چیلنج کرنے کا جمہوری حق نہیں ہوتا۔
’’لیکن بالشویکوں نے تو تمام اپوزیشن پارٹیوں پر پابندی عائد کر دی تھی!‘‘ ہمارے لبرل اور انارکسٹ دوست ہم آواز ہو کر چیختے ہیں۔ ایسا کرنا کبھی بھی مزدور ریاست کی خواہش نہیں تھی۔ بدقسمتی سے سوویتوں میں موجود ہر اپوزیشن پارٹی حتمی طور پر یا تو ردانقلابی افواج کی طرف ہوگئی یا پھر اس نے سوویت حکومت پر دہشت گردی کے حملے کرنا شروع کر دئیے۔ کوئی بھی جمہوری معاشرہ دہشت گردی کرنے والوں کو قانون ساز اسمبلی میں بیٹھ کر قوانین بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ذرا سوچئے کہ اگر القاعدہ لندن میں اپنا ایک پارلیمانی امیدوار کھڑا کرنے یا نیو یارک کے گورنر کا انتخاب لڑنے کی کوشش کرے تو لوگوں کا ردعمل کیا ہوگا۔
مارکسسٹ کثیر الجماعتی جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں، لیکن کوئی بھی شخص یا پارٹی جو عوام کی جمہوری رضا کیخلاف ہتھیار اٹھائے گی فوراًاپنے جمہوری حقوق کھو دے گی۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ٹراٹسکی کی لیفٹ اپوزیشن، جو بالشویزم کی حقیقی وارث تھی، جمہوری حقوق کے تحفظ کی لڑائی میں پیش پیش تھی۔ بعد ازاں وہ سائبیریا جلاوطن کئے جانے والوں میں بھی سرفہرست تھے اور ٹراٹسکی بھی ایک سٹالنسٹ ایجنٹ کے ہاتھوں ہی قتل ہوا۔ روسی انقلاب کے دشمن سٹالن ازم کے خلاف جدوجہد کرنے والے ان ہیروز کو بآسانی بھول جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ٹراٹسکی کی لیفٹ اپوزیشن اور سٹالن کی افسر شاہی کے مابین جدوجہد یا دوسرے الفاظ میں عالمی مزدور انقلاب اور ’ایک ملک میں سوشلزم‘کے مابین اس لڑائی میں سامراجیوں کی ہمدردیاں واضح طور پر ’عملیت پسند‘ سٹالن کے ساتھ تھیں۔
یہ جھوٹ کہ سٹالن ازم بالشویزم کا نا گزیر نتیجہ ہے، دراصل ایک انتہائی مجرد خیال پر مبنی ہے۔ یہ ہمیں انقلاب روس اور کمیونسٹ انٹر نیشنل کی زوال پذیری کے متعلق کچھ بھی نہیں بتاتا۔ یہ زار شاہی روس کی پسماندگی، خانہ جنگی، اکیس سامراجی افواج کے حملے، ترقی یافتہ مغربی ممالک میں انقلابات کی ناکامی اور انقلاب روس کی تنہائی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس جھوٹ کا پرچار کرنے والے لبرل، اصلاح پسند اور انارکسٹ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ نوکر شاہی سماجی حالات کی پیداوار ہونے کی بجائے انسانی جینیات میں کسی خرابی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بیورو کریسی قلت کا ناگزیر نتیجہ ہوتی ہے اورخانہ جنگی اور وراثت میں ملنے والی تکنیکی پسماندگی نے نوزائیدہ مزدور ریاست میں بے تحاشہ قلت کو جنم دیا تھا۔
قلت سے نپٹنے کے لئے فوری طور پر دو طریقہ کار اختیار کئے جا سکتے ہیں۔ سرمایہ داری اس کا حل اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے نکالتی ہے تا کہ صرف امیر لوگ ہی انہیں خرید سکیں لیکن سوشلسٹ تو یہ طریقہ کار اختیار نہیں کر سکتے۔ اگر ایک سوشلسٹ سماج کو قلت کا سامنا کرنا پڑے تو ناگزیر طور پر اشیا کی راشننگ کی جائے گی اور لوگوں کو اپنی باری کے انتظار میں لائن میں لگنا پڑے گا۔ لائن کا ڈسپلن قائم رکھنے کے لئے وہاں ایک پولیس والا بھی تعینات کرنا پڑے گا۔ لیکن پھر پولیس والے کو بھی اپنا حصہ چاہیے ہوگا اور عمومی طور پر وہ اپنی خدمات کے صلے میں باقیوں سے بہتر حصہ لینا چاہے گا۔ یہی افسر شاہی کے جنم کی معاشی بنیادیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک حقیقی سوشلسٹ سماج صرف جدید ٹیکنالوجی کے بلبوتے پر ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔ اگر 23-1918ء کا جرمن انقلاب کامیاب ہو جاتاتو نہ صرف یہ کہ سٹالنسٹ بیوروکریسی کا ابھار نہ ہوتابلکہ عالمی انقلاب کا بھی آغاز ہوجاتا۔ جدید جرمن ٹیکنالوجی اور سوویت روس کے قدرتی وسائل کا ملاپ دنیا کو دکھا دیتاکہ ایک جمہوری منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کیا کچھ کر سکتی ہے۔
کینیڈا، برطانیہ، فرانس یا امریکہ جیسے کسی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک کو سوشلسٹ انقلاب کے بعدسوویت یونین جیسی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ ممالک 1917ء کے روس کی طرح ثقافتی طور پر پسماندہ نہیں ہیں، بلکہ ان میں تو لاکھوں ڈگری یافتہ نوجوان بیروز گار گھوم رہے ہیں۔ ان ممالک میں نہ ہی بھیانک قلت ہے اور نہ ہی تکنیکی پسماندگی۔ بلکہ ان میں تو بے شمار فیکٹریاں زائد پیداواری صلاحیت کے بحران کے باعث بند پڑی ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں ہیں جو اربوں ڈالر کی دولت پر سانپ بن کر بیٹھی ہیں۔
آج اکثریتی ممالک کی آبادی زیادہ تر محنت کش طبقے پر مشتمل ہے۔ 1945ء سے قبل زیادہ تر ممالک کی آبادی کی اکثریت کسانوں پر مشتمل تھی۔ شرح خواندگی آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ بالائی پرتوں کو چھوڑ کر، آج ریاستی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد 1917ء کی طرح مراعات یافتہ نہیں ہے۔ زیادہ تر ریاستی اہلکار آج وائٹ کالر مزدور ہیں جو یونین سازی میں شریک ہوتے ہیں اور ہڑتالیں بھی کرتے ہیں۔ آج ایک انقلاب کی صورت میں ریاستی اہلکاروں کی ایک کثیر تعداد کا رویہ ماضی کی زار شاہانہ یا سٹالنسٹ افسر شاہی سے مختلف ہوگا۔
لینن نے مزدور جمہوریت کے لئے مندرجہ ذیل اصول پیش کئے تھے:
تمام اہلکاروں کا جمہوری طور پر منتخب ہونا اور انہیں کسی بھی وقت واپس بلائے جانے کا حق، کوئی بھی اہلکار کسی ہنر مند مزدور سے زیادہ اجرت نہیں لے سکتا، تمام انتظامی ذمہ داریوں پر باری باری ہر ایک کی تعیناتی، عوام کے خلاف استعمال ہو سکنے والی کسی مستقل فوج کی عدم موجودگی۔
پسماندگی کی وجہ سے سوویت یونین میں ان اصولوں کا اطلاق نہیں کیا جا سکا۔ لیکن آج کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں انقلاب کی صورت میں یہ تمام اصول لاگو کئے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ لینن نے کہا تھا، جب ہر کوئی بیورو کریٹ ہو گا تو پھر کوئی بھی بیوروکریٹ نہیں ہوگا۔ سٹالن ازم ناگزیر ہر گز نہیں ہے۔
8۔ کمیونزم نے دس کروڑ لوگوں کو مار ڈالا
اخباری اداریوں سے لیکر سوشل میڈیا کے فورمز تک، ’’کمیونزم کے ہاتھوں مارے جانے والے دس کروڑ لوگ‘‘کی چیخ وپکار کسی بھی سنجیدہ بحث کو پٹری سے اتارنے کا آزمودہ نسخہ ہے۔ ’’تم ایک سوشلسٹ ہو؟دس کروڑ مارے گئے تھے‘‘، ’’تمہیں کم از کم اجرت میں اضافہ چاہیے؟دس کروڑ مارے گئے تھے‘‘، ’’تمہیں صحت کی سہولیات چاہیں ؟دس کروڑ مارے گئے تھے‘‘۔ جب بھی دائیں بازو کے پاس دلائل ختم ہو تے ہیں تو وہ اس جھوٹ کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔
حقیقت کیا ہے؟ اس دعوے کی بنیاد 1998ء میں لکھی جانے والی سٹیفین کورٹائس کی کتاب’’بلیک بک آف کمیونزم‘‘ ہے۔ زیادہ تر سنجیدہ ناقدین اس کتاب کو مبہم طریقہ کار اور منافقانہ پیمانے رکھنے والی ایک متعصبانہ تصنیف قرار دے چکے ہیں۔ حتی کہ اس کتاب کی تصنیف میں حصہ ڈالنے والے بعض لوگوں نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورٹائس ہر صورت میں ’دس کروڑ‘ کا عدد حاصل کرنا چاہتا تھا اور ان اعدادو شمار کو سچ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
اس کتاب میں جن اموات کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے 90فیصدسے زائد سٹالن ازم یا ماؤ ازم کے تحت واقع ہوئیں۔ ہم پہلے ہی تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ سٹالن ازم کا حقیقی مارکسزم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم ان حکومتوں کے حقیقی جرائم کی کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتے اور ساتھ ہی ساتھ ہم یہ نشان دہی بھی کرتے ہیں کہ سٹالن ازم کا پہلا نشانہ ٹراٹسکائیٹ بنے تھے، جو بالشویزم کے حقیقی وارث تھے۔ ہمیں نفرت ہے اس امر سے کہ رجعتی ہمارے کامریڈز کی اموات کو اس جھنڈے کو داغدار کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں جس کے سائے تلے وہ لڑے تھے۔
روسی خانہ جنگی کے دوران ہونے والی اموات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟کیا خانہ جنگی کے ذمہ دار محنت کش اور کسان تھے، جو آبادی کی اکثریت تھے، جو عالمی جنگ کا خاتمہ چاہتے تھے، جاگیروں کی کسانوں میں تقسیم، محکوم قومیتوں کے لئے حق خود ارادیت، اور سوشلزم چاہتے تھے؟یا پھر اس (خانہ جنگی) کی ذمہ داری رجعتی جر نیلوں، جاگیر داروں، مالکان، شاہ پرستوں اور اکیس حملہ آور سامراجی افواج پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے آبادی کی اکثریت کی خواہشات کا احترام نہیں کیا؟یہ ایسے ہی ہے جیسے ڈاکو آپ کے گھر پر حملہ کر دیں، جس کے نتیجے میں دونوں طرف ہلاکتیں ہوں:پھر یہ کس کا قصور ہوا؟رجعتیوں کی منطق کے مطابق توگھر والے قصور وار ہیں کیونکہ اگر وہ چپ کر کے ہتھیار ڈال دیتے تو کوئی بھی نہ مرتا۔ اس طرح تو کوئی غلاموں کی آزادی کا باعث بننے والی امریکی خانہ جنگی میں ہونے والی تمام اموات کا ذمہ دار بھی ابراہم لنکن کو ٹھہرا سکتا ہے۔
حتیٰ کہ سٹالنسٹوں پر کئے جانے والے حملے بھی منافقت سے بھر پور ہیں۔ مثلاً، اس کتاب میں افغانستان میں ہونے والی پندرہ لاکھ اموات، یعنی سوویت دوست حکومت کے دور میں ہونے والی تمام تر اموات، کا ذمہ دار سوویت یونین کو ٹھہرایا گیا ہے۔ لیکن اس چیز کا ذکر تک نہیں کیا گیا کہ سی آئی اے نے اس طویل خانہ جنگی میں نام نہاد مجاہدین کو نہ صرف بھر پور مالی امداد فراہم کی بلکہ انہیں جدید ترین ہتھیاروں سے بھی مسلح کیا۔ کتاب کا مصنف یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ان مجاہدین میں اسامہ بن لادن جیسے ’’حریت پسند‘‘ اور مستقبل کے طالبان بھی شامل تھے۔
دس کروڑ اموات والے پراپیگنڈے کے ساتھ ایک واقعہ خاص طور پر نتھی کیا جاتا ہے۔ 33-1932ء میں سوویت یونین میں پڑنے والے قحط جسے عام طور پر ’ہولو ڈومور‘ کہا جاتا ہے۔ بلیک بک کے مطابق اس قحط کے دوران سوویت یونین میں ساٹھ لاکھ اموات ہوئیں جن میں سے چالیس لاکھ افراد صرف یوکرائن میں ہلاک ہوئے۔ یوکرائن کی دائیں بازو کی قوم پرست حکومت اس قحط کو باقاعدہ نسل کشی کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے اکثر لوگوں میں قوم پرستی کے جذبات ابھارنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
سٹالن کی جبری اجتماع کاری جیسی مجرمانہ پالیسیوں کے نتیجے میں پڑنے والے اس قحط کی ذمہ داری مارکسسٹوں کے نزدیک بلاشبہ سٹالنسٹ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ٹراٹسکی نے اس کا تجزیہ اپنی شاہکار تصنیف ’’انقلاب سے غداری‘‘ میں کیا ہے۔ لیکن، ہم مارکسسٹ یوکرائنی قوم پرستوں کی کمیونسٹ دشمن ’مظلومیت‘کو بھی ہرگز تسلیم نہیں کرتے۔ درحقیقت سٹالن نے 1920ء کی دہائی میں نیو اکنامک پالیسی سے مالی فوائد حاصل کرنے والے کولاکوں(امیر کسان) پر تکیہ کرتے ہوئے ٹراٹسکی کی لیفٹ اپوزیشن کو شکست دی تھی۔ لیفٹ اپوزیشن رضاکارانہ اجتماع کاری کی پالیسی کی حامی تھی تا کہ کسانوں کو سوشلزم کے فوائد سے آگاہ کیاجا سکے۔
لیفٹ اپوزیشن کی شکست کے بعد سٹالن کو ادراک ہوا کہ کولاک سرمایہ داری کی طرف واپسی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں ذرائع پیداوار کی ریاستی ملکیت کی بنیادوں پر قائم بیورو کریسی کا اقتدار خطرے میں پڑ جاتا۔ لہٰذا سٹالن نے 180 ڈگری کی قلابازی کھائی اور کولاکوں پر حملہ کر دیا۔ اس نے ’’کولاکوں کو بطور طبقہ ختم کرنے‘‘کے لئے رضا کارانہ اجتماع کاری کی بجائے جبری اجتماع کاری کی پالیسی کو متعارف کروایا۔ اس مجرمانہ پالیسی کے نتیجے میں امیر کسانوں نے اپنی کھڑی فصلیں جلا دیں، بیج تلف کر دیا اور لائیو سٹاک کو ذبح کر دیا۔ اس سب کا نتیجہ قحط کی صورت میں نکلا۔ یوکرائن میں زیادہ بربادی اس لئے پھیلی کیونکہ وہ زراعت کا ایک انتہائی اہم مرکز تھا، اگرچہ ملک کے باقی حصے بھی اس سے خاصے متاثر ہوئے۔ بہرحال حقائق قوم پرستوں کے نسل کشی کے دعوؤں کوتو بالکل رد کر تے ہیں۔
بلیک بک میں استعمال کئے جانے والے منافقانہ طریقہ کار کا اطلاق اگر ہم سرمایہ داری پر کریں تو اس (سرمایہ داری) کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد اربوں میں نکلے گی۔ نوم چومسکی، جو سٹالن ازم یا ماؤ ازم کا حمایتی ہر گز نہیں ہے، نے ایسے ایک تجزئیے میں ہندوستان اور چین کا تقابلی جائزہ کیا تھا۔ چین کی منصوبہ بند معیشت کی بدولت وہاں صحت کی سہولیات انڈیا سے کہیں بہتر تھیں اور آبادی میں معاشی تفاوت بھی ہندوستان سے نہایت کم تھا۔ نتیجتاً 1979ء تک ہندوستان میں چین کی نسبت دس کروڑ زائد اموات ہو چکی تھیں۔ اسی طرح شمالی اور جنوبی امریکہ کی مقامی آبادی کو نیست ونابود کئے جانے کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟ یا پھر افریقہ کی سرمایہ دارانہ غلام تجارت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
1943ء میں پڑنے والے قحط بنگال، جس میں لاکھوں اموات ہوئیں تھیں، کاونسٹن چرچل بھی ذاتی طور پر ذمہ دار تھا۔ قحط کے دوران برطانوی مقبوضہ ہندوستان درحقیقت خوراک برآمد کر رہا تھا۔ اسی عرصے میں ونسٹن چرچل کو کہتے سنا گیا تھا’’میں ہندوستانیوں سے نفرت کرتا ہوں۔ وہ ایک وحشیانہ مذہب رکھنے والے وحشی لوگ ہیں۔ ‘‘ابھی ہم نے سامراجی پالیسیوں اور منافع خوری کے لئے لڑی جانے والی جنگوں میں مارے جانے والے لاکھوں کروڑوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا۔ دس لاکھ سے زائد تو صرف عراق میں ہی مارے گئے۔ اگر دونوں عالمی جنگوں اور لاتعداد ’’چھوٹی‘‘جنگوں کا حساب کتاب کیا جائے تو بات کہیں سے کہیں جا پہنچے گی۔
مارچ 2017ء میں یونیسیف کے ایک اندازے کے مطابق اگر موجودہ صورتحال اسی طرح برقرار رہی تو 2040ء تک ساٹھ کروڑ بچوں کو خوراک کی کمی، بیماری اور موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پچھلی رپورٹس میں وہ تفصیل سے بتا چکے ہیں کہ کس طرح ہر سال لاکھوں بچے صرف غربت کی وجہ سے قابل علاج بیماریوں کے ہاتھوں مرتے ہیں جبکہ دوسری طرف صرف آٹھ ارب پتیوں کے پاس دنیا کی غریب ترین آدھی آبادی کے برابر دولت ہے۔ اس حساب سے تو سرمایہ داری، سامراجیت اور کولونیل ازم کے کالے کرتوتوں پر مبنی ’’بلیک بکس‘‘ پر مشتمل ایک پوری لا ئبریری بنا ئی جا سکتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ بنی نوع انسان اس سماجی اور معاشی نظام کو اکھاڑ پھینکیں جس کے ہر ایک مسام سے انسانی خون ٹپک رہا ہے۔
9۔ سوویت یونین کا انہدام ثابت کرتا ہے کہ انسانی فطرت سرمایہ دارانہ ہے
عالمی معیشت کے طول پکڑتے حالیہ بحران کے تناظر میں ہمیں ہنسی آتی ہے جب دایاں بازوسرمایہ داری کا دفاع کرتے ہوئے اسے انسانی فطرت کے عین مطابق قرار دیتا ہے۔ ایک سماجی نظام کے طور پر سرمایہ داری صرف دو سے تین سو سال پہلے ہی معرض وجود میں آئی ہے جبکہ نوع انسان لاکھوں سال سے اس کرۂ ارض پر موجود ہے۔ کیا ہم اس حماقت پر یقین کر لیں کہ انسان نے اس سیارے پر اپنا 99.9 فیصد وقت ’’غیر فطری‘‘انداز میں گزارا ہے؟
دیگر کئی تصانیف میں عمومی فلسفیانہ اور سائنسی نقطہ نظر سے اس سوال کا تسلی بخش جواب دیا جا چکا ہے، لہٰذا ہم اس تمام بحث کو یہاں نہیں دہرائیں گے۔ دائیں بازو کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ سوویت یونین کا انہدام اس لئے ہوا کہ انسان فطری طور پر خود غرض ہے اور اگر اسے تحرک دینے کے لئے برخاستگی اور بھوک کا مسلسل خوف نہ ہو تووہ سستی کا شکار ہوجائے گا۔ یہ دلیل پھر ایک زمان ومکاں سے آزاد بے بنیاد تصور ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
انتہائی پسماندگی سے آغاز کرتے ہوئے، سوویت یونین کے عوام نے شاندار کارنامے سر انجام دئیے۔ اور یہ سب کچھ سٹالنسٹ افسر شاہی کی بد انتظامی کے باوجود حاصل کیا گیا۔ تمام ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک سے زیادہ ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان پیدا کرنے والے سوویت یونین کے عوام نہایت محنتی تھے۔ یہ سب منصوبہ بند معیشت کی حاصلات تھیں۔ 1913ء سے 1963ء کے درمیان، برطانیہ میں محنت کی پیداواریت میں 73فیصد، امریکہ میں 332فیصد جبکہ سوویت یونین میں 1310فیصد اضافہ ہوا۔ عظیم معاشی کساد بازاری کے دوران جب سرمایہ دارانہ ممالک کا سماجی بنتر تباہی کے دہانے پر پہنچا ہوا تھا، سوویت یونین سالانہ دس فیصد سے زائد شرح اضافہ کے ساتھ ترقی کر رہا تھا۔
سوویت یونین میں ایک لاکھ افراد کے لئے 205ڈاکٹرز تھے، جبکہ آسٹریا اور اٹلی میں یہ تعداد 170، امریکہ میں 150، مغربی جرمنی میں 144، برطانیہ اور فرانس میں 110اور سویڈن میں 101تھی۔ سال 1970ء میں سوویت یونین میں دولاکھ ستاون ہزار طلبا نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی جبکہ امریکہ میں یہ تعداد صرف پچاس ہزار تھی۔ اس سب کے نتیجے میں کئی غیر معمولی دریافتیں ہوئیں، جدید ٹیکنالوجی پروان چڑھی اور کئی نوبل انعام جیتے گئے۔ یہ کہنا کہ سوویت یونین کے انہدام کی وجہ وہاں کے لوگوں کی سستی اور کاہلی ہے، محنتی اور ذہین سوویت عوام پر سراسر بہتان تراشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اچھا، تو عوام اگر اتنے محنتی اور ذہین تھے تو پھرسوویت یونین کا انہدام کیوں ہوا؟اس کی ذمہ دار سٹالنسٹ افسر شاہی تھی۔ ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کو جمہوریت کی ویسے ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ انسانی جسم کو آکسیجن کی۔ سرمایہ داری میں منڈی بد انتظامی اور نااہلی کو قابو میں رکھتی ہے۔ اگر ایک کمپنی کی انتظامیہ نا اہل ہے تو وہ مقابلے سے باہر ہوکر دیوالیہ ہو جائے گی۔ لیکن ایک صحت مند منصوبہ بند معیشت میں یہ مزدوروں کا جمہوری کنٹرول ہوتا ہے جو بد انتظامی اور نا اہلی کا سد باب کرتا ہے۔ اگر ورکر کسی بد انتظامی کو دیکھیں گے تو وہ اسے درست کر دیں گے۔ اگر وہ یہ محسوس کریں گے کہ پیداوار کرنے کا کوئی اور بہتر طریقہ ہوسکتا ہے، تو وہ اسے لاگو کر دیں گے۔ مگر محنت کشوں کا ایسا جمہوری کنٹرول سٹالنسٹ افسر شاہی کے لئے موت تھی، جو کہ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر سماج پر آمرانہ گرفت قائم کئے ہوئے تھی۔
ماسکو میں بیٹھے ہوئے پچاس بیوروکریٹ سوویت صنعتکاری کے ابتدائی مر حلے کے دوران تو متعلقہ پلاننگ کر سکتے تھے، اگرچہ وہ بھی مزدور جمہوریت کے مقابلے میں انتہائی بھاری قیمت پر۔ لیکن 1960ء کی دہائی کے وسط سے گروتھ ریٹ گرنا شروع ہوگیا اور 1970ء کی دہائی میں یہ جمود کا شکار ہوگیا۔ معیشت افسر شاہانہ منصوبہ بندی کیلئے بہت پیچیدہ ہو چکی تھی۔ بد انتظامی، اقربا پروری، کرپشن اور نا اہلیت کے بوجھ نے افسر شاہی کو منصوبہ بند معیشت کے لئے ایک اضافی رکاوٹ سے مطلق زنجیر میں بدل دیا۔
پیداوار کے ٹارگٹ زبر دستی اوپر سے مسلط کئے جاتے تھے جن کو پورا کرنا معیار کی قربانی دئیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ افسر شاہانہ حماقتوں اور ضیاع کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو بھرنے کے لئے بلیک مارکیٹ کا جنم ہوا۔ یہ معاشی حقیقت سٹالنسٹ ریاستوں کے زوال کی بھر پور غمازی کرتی تھی۔ انہوں نے سماج کو چلانے کے لئے تقریباً سبھی کچھ آزما کر دیکھا لیکن وہ ناکام رہے۔ واحد چیز جس کا انہوں نے تجربہ نہیں کیامزدور جمہوریت تھی(جو کہ مسئلے کا حقیقی حل تھی)، کیونکہ اس سے انہیں سماج پر اپنی گرفت ختم ہو جانے کا خدشہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سوویت محنت کش طبقے کابے تحاشہ تخلیقی پو ٹینشیل استعمال میں نہ آسکا اور ضائع ہو گیا۔
ذرائع پیداوار پر محنت کشوں کے کنٹرول اور ایک جمہوری منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کی جانب بڑھنے کی بجائے بیورو کریٹس نے سوویت عوام کی قیمت پر خود سرمایہ دار بننے کا فیصلہ کر لیا۔ تمام ریاستی اثاثوں کی لوٹ سیل لگا دی گئی، جس کے نتیجے میں روس کے موجودہ کرپٹ اور مافیائی سرمایہ دار طبقے کا جنم ہوا۔ اگر سرمایہ داری سوشلزم کے مقابلے میں ایک فطری نظام ہے، تو پھر یقیناً’فطرت کی طرف اس واپسی‘ کا نتیجہ پیداواری قوتوں کی زبردست ترقی کی صورت میں نکلا ہوگا؟ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ سرمایہ داری کی طرف واپسی تباہ کن ثابت ہوئی۔ جی ڈی پی میں ساٹھ فیصد کی کمی اور اوسط عمر میں پندرہ سال کی کمی واقع ہوئی۔ سرمایہ داری کی تمام سماجی بیماریاں ایک ہولناک وحشت کے ساتھ واپس پلٹ آئیں۔ ۔ ۔ کثرت شراب نوشی، جسم فروشی، نشے بازی، جرائم وغیرہ۔ عورتوں کی زندگی نہایت ابتر ہو گئی۔ بوڑھے لوگ اپنی آخری عمر میں در بدر ہو گئے۔ یہ تھیں سرمایہ داری کی دی ہوئی ’حاصلات‘۔
ایک حقیقی، صحت مند، جمہوری منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت محنت کش طبقے کی ان شاندار صلاحیتوں کو سامنے لا سکتی ہے جنہیں سرمایہ داری اور سٹالن ازم جان بوجھ کر دبا دیتے ہیں۔ MBAکے طلبا کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ورکرتو محض روبوٹ ہیں اور تمام علم اور تخلیقی خیالات کا سرچشمہ ’کیپٹنزآف انڈسٹری‘ ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سوٹڈ بوٹڈ خواتین و حضرات معاشی تباہ کاری، دیوالیہ پن اور شدید بیروز گاری کا سبب بننے کے باوجود اپنی جیبیں ڈالروں سے بھرتے رہتے ہیں۔
یہ فیکٹری ورکشاپ میں موجود محنت کش ہوتے ہیں جنہیں حقیقتاً یہ پتہ ہوتا ہے کہ پیداوار کیسے ہو رہی ہے اور اسے کس طرح سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ یہ انتظامیہ ہوتی ہے جو اپنی نا اہلی اور بد نظمی کی وجہ سے پیداوار میں رخنہ انداز ہوتی ہے۔ سرمایہ داری میں چونکہ محنت کش پیداوار سے بیگانہ ہوتے ہیں، اسی لئے وہ پیداواری عمل میں بہتری کے لئے کوئی نیا خیال بھی پیش نہیں کرتے۔ جبکہ سوشلسٹ سماج میں محنت کشوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا فائدہ انہیں اور ان کی کمیونٹی کو ہوگا، یہی وجہ ہے کہ سوشلزم میں تخلیق کاری کو ایک معیاری جست ملے گی۔ سرمایہ داری اور سٹالن ازم، دونوں کا یہ ماننا ہے کہ بنی نوع انسان کی اکثریت بے کار اور احمق ہے۔ جبکہ مارکسسٹوں کا ماننا یہ ہے کہ انسانیت کی بھاری اکثریت کے پاس سماج کو دینے کے لئے کچھ نہ کچھ ہے اور یہ سرمایہ دار، انتظامیہ اور بیوروکریسی ہے جو کہ ایک احمقانہ اور غیر فطری نظام کو مسلط کئے ہوئے ہے۔
10۔ انقلابِ روس کچھ بھی حاصل نہ کر سکا
وہ کہتے ہیں کہ انقلابِ روس کچھ بھی حاصل نہ کر سکا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر مالکان اور بینکاروں کے ٹوڈی ہر وقت یہ بات کیوں دہراتے رہتے ہیں؟ کوئی بھی غور و فکر کرنے والا شخص اس جھوٹ کی حقیقت جان جائے گا۔ اگر انقلاب سے کچھ حاصل نہیں ہوا تو اکتوبر کے واقعات سے اتنا خطرہ کیوں محسوس کرتے ہیں یہ سرمایہ دار؟درحقیقت ہمارے سامنے ایک ایسے ملک کی مثال ہے جو موجودہ پاکستان کے پسماندہ ترین دیہی علاقوں سے بھی زیادہ پسماندہ تھا اوروہ انقلاب کے بعد دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور بن گیا۔ اور پھر بھی ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ سوویت یونین سے ہم کچھ نہیں سیکھ سکتے۔ اس جھوٹ کو درحقیقت لغت میں لفظ جھوٹ کی تشریح کرتے ہوئے بطور مثال استعمال کیا جانا چاہیے۔
ہم نے پہلے سوویت منصوبہ بند معیشت کی شاندار تکنیکی اور معاشی ترقی پر بات کی ہے، جو کہ سٹالن ازم کی افسر شاہانہ جکڑبندیوں کے باوجود حاصل کی گئی۔ ہم اس میں کچھ مزید اضافہ کرنا چاہیں گے۔ سوویت یونین کی ایک انتہائی اہم کامیابی نازی جرمنی کو شکست دینا تھی، جس کا کم وبیش پورے یورپ(برطانیہ کے علاوہ)کے پیداواری وسائل پر قبضہ تھا۔ یہ بات مغربی سکولوں میں نہیں پڑھائی جاتی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں ہونے والی نوے فیصد لڑائی اور اموات مشرقی محاذ پر ہوئیں تھیں۔
چرچل اور روزویلٹ نے تو منصوبہ بنا رکھا تھا کہ جرمنی اور روس کو آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے کو تباہ کرنے دواور پھر جو کچھ بچ جائے گا اس کا ہم صفایا کر دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1944ء تک مغربی محاذ نہیں کھولا۔ کرسک کی جنگ تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ تھی اور ایک دفعہ جب جرمن فوج کو سٹالن گراڈ میں شکست ہوگئی تو پھر سرخ فوج نے انسانی تاریخ کی تیز ترین پیش قدمی کا مظاہرہ کیا۔ منصوبہ بند معیشت نے سوویت یونین کو تمام سرمایہ دار یورپ سے زیادہ پیداوار کرنے کا اہل بنا دیا۔ یہ سرخ فوج تھی جس نے یہودیوں کو ڈیتھ کیمپوں سے بچایا، مشرقی یورپ کو آزاد کرایااور ریشتاغ(جرمن پارلیمنٹ) پر سرخ جھنڈا لہرایا۔ اگر برطانیہ اور امریکہ مغربی محاذ نہ کھولتے تو سرخ فوج سے ان کا سامناجرمنی کی بجائے آبنائے انگلستان پر ہوتا۔ ڈی ڈے(مغربی محاذ کھولنے کا دن) سے پہلے اتحادیوں کی زیادہ تر کوششیں یورپ میں جنگ کی بجائے افریقہ اور بحر الکاہل میں اپنی نوآبادیوں پر گرفت قائم رکھنے پر مشتمل تھیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی سوویت یونین کی مکمل تباہی کے باوجود بھی منصوبہ بند معیشت مارشل پلان جیسی کسی بیرونی امداد کے بغیرہی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو گئی۔ 1945ء سے 1964ء کے دوران سوویت قومی آمدنی میں 570فیصد اضافہ ہواجبکہ امریکہ، جس کا جنگ میں بال بھی بیکا نہیں ہوا تھا، میں یہ اضافہ صرف 55فیصد تھا۔ اس پورے عرصے میں کوئی بھی سوویت یونین کی خلائی ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ خلا میں پہلا سیٹلائٹ سپوٹنک اور پہلا انسان یوری گیگر ین سوویت یونین نے ہی بھیجا۔
انقلاب کی حاصلات صرف معاشی ہی نہیں بلکہ سماجی بھی تھیں۔ جہاں برطانیہ میں خواتین کو 1928ء تک ووٹ ڈالنے کی اجازت تک نہ تھی، وہیں سوویت یونین میں خواتین کو 1918ء میں ہی مکمل قانونی برابری حاصل ہو گئی تھی۔ جبکہ کینیڈا میں 1929ء تک خواتین کو قانونی طور پر ’فرد‘ کے طور پر شمار ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ سوویت عائلی قوانین جینڈر نیوٹرل تھے اور ہم جنس پرستی کو مغرب سے نصف صدی پہلے قانونی طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اسقاط حمل کی قانونی طور پر اجازت تھی۔ بدقسمتی سے ان حاصلات میں سے بہت کچھ سٹالنسٹ رد انقلاب کی نظر ہو گیا۔ 1930ء کی دہائی میں ہونے والی پسپائی کے باوجود 1970ء تک یونیورسٹیوں میں داخل ہونے والے طلبہ و طالبات کی تعداد برابر تھی جبکہ زیادہ تر سرمایہ دارانہ ممالک میں ایسا نہ تھا۔ سوویت یونین میں تعلیم، علاج اور بچوں کی نگہداشت کی سہولیات مفت تھیں جبکہ امریکی عوام اس سب کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ 1927ء سے 1970ء تک خواتین کی اوسط متوقع عمر تیس سال کے اضافے کے ساتھ74سال ہوگئی جبکہ اسی عرصے میں بچوں کی شرح اموات میں نوے فیصد کمی واقع ہوئی۔
1920ء کی دہائی میں سوویت یونین میں سائنس اور ثقافت کو بے تحاشہ فروغ حاصل ہوا۔ انقلاب کے بعد آرٹ کے میدان میں بے شمار نئے تجربات کئے گئے۔ آئزن سٹائن نے شاندار کلاسیکی فلمیں بنائیں۔ شوسٹاکووچ اور دوسروں نے موسیقی میں انقلاب برپا کر دیااور بولشائی بیلٹ تو آج تک مشہور ہے۔ سوویت یونین اولمپک کھیلوں میں دنیا پر چھا گیا۔ سائنس کے میدان میں بھی زبردست ترقی ہوئی۔ تھیوڈور ڈوبزہنسکی نے ڈارون کے نظریہ ارتقا اور مینڈیلیف کی جینیات کو آپس میں ملا دیا۔ لیکن بدقسمتی سے اس شاندار ترقی کا راستہ آرٹ کے میدان میں سوشلسٹ حقیقت پسندی اور بیالوجی میں لائی سینکو ازم کے ذریعے روک دیا گیا۔ سٹالنسٹ بیوروکریسی کبھی بھی نوجوانوں کو تخلیق کی آزادی نہیں دے سکتی تھی۔ لیکن تمام تر سٹالنسٹ سنسر شپ کے باوجود سوویت کلاسیکی آرٹ دنیا میں کسی سے کم نہ تھا۔
تمام تر مادی، سماجی اور ثقافتی پسماندگی اور اندرونی وبیرونی حملوں کے باوجودبالشویک انقلاب نے معجزے کر دکھائے۔ ذرا سوچئے کہ آج کے محنت کش اور نوجوان کہیں بہتر ثقافتی اور تعلیمی معیار کے ساتھ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام پیداوار مسلسل سماج کو پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ پورا سماج آج ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ انسانیت کے تخلیقی پوٹینشیل کو آزاد کرنے کے لئے ہمیں ان زنجیروں کو توڑ پھینکنا ہو گا۔
اس آرٹیکل میں ہم نے سٹیٹس کو، کو قائم رکھنے کی خاطر بولے جانے والے دس سرفہرست جھوٹوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لینن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ تاریخ کی قوت محرکہ سچائی ہے، جھوٹ نہیں۔ ایک اور جگہ اس نے کہا تھا کہ مارکسزم اس لئے اتنا طاقتور ہے کیونکہ یہ سچ ہے۔
ایک انقلابی رجحان کو جھوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم کیوں اپنے آپ کو حقیقت کے متعلق دھوکے میں رکھنا چاہیں گے؟مارکسزم کا مقصد سماجی حالات کی مکمل اور سائنسی سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہے تا کہ ہم وقت آنے پر انہیں تبدیل کر سکیں۔ اگر ہم اپنے آپ سے جھوٹ بو لیں گے تو ایسا کبھی بھی نہیں کر سکیں گے۔ خوش قسمتی سے زیادہ سے زیادہ محنت کش اور نوجوان طبقاتی تفاوت کو برقرار رکھنے کے لئے بولے جانے والے جھوٹوں کی حقیقت جاننا شروع ہوگئے ہیں۔ انقلاب روس آج بھی پوری دنیا کے استحصال زدہ عوام کے لئے مشعل راہ ہے۔ سٹیٹس کو، کو بالشویزم کے نظریات اور انقلاب روس کے تجربے سے زیادہ اور کسی چیز سے خطرہ نہیں ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ تحریر محنت کشوں اور نوجوانوں کو ان حقائق سے مسلح کرے گی جن کی انہیں رجعتیوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے ضرورت ہے، تا کہ وہ سو سال بعد ایک نیا اکتوبر تعمیر کر سکیں، مگر اس دفعہ پہلے سے کہیں زیادہ بلند تر سطح پر۔