نوجوان شاعروں کے نام

|تحریر: پارس جان|

دوستو! رسمی تکلفات اور تمہید سے گریز کرتے ہوئے میں سیدھا مدعے پر آنا چاہوں گا۔ گھبرائیں نہیں، اس تحریر کا مقصد روایتی وعظ و تبلیغ یا پندو نصیحت ہرگز نہیں بلکہ موجودہ حالات و واقعات اور آپ کے تخلیقی رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اپنے کچھ تجربات اور محسوسات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ سچ کہوں تو اس تحریر کا محرک حال ہی میں چند باصلاحیت نوجوان شعراء سے ہونے والی گفتگو ہے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ زیادہ تر نوجوان شعراء کمیونزم اور سوشلزم کو کوئی ادب اور فن مخالف سوچ، نظریہ یا نظام سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں کمیونسٹ انتہائی روکھے، خشک اور مردم بیزار لوگ ہوتے ہیں اور محض کثیف سماجی مسائل، معیشت اور سیاست میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ لہٰذا شاعری اور دیگر فنون سے منسلک لوگوں کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اس طرح کی سوچ نوجوان شعراء کے ہاں غالب ہونے کی وجہ دو بنیادی غلط تصورات ہیں جو متعصب ادیبوں اور ناقدین کے ذریعے نئی نسل تک پہنچے ہیں۔ اول تو یہ کہ ادب اور سیاست دو بالکل مختلف اور متضاد سماجی مظاہر ہیں اور دوم یہ کہ کمیونزم فرد کی آزادی کا قائل نہیں ہے اور جہاں جہاں کمیونسٹوں کو اقتدار ملا وہاں وہاں فرد کی آزادی کو کچل کر جمہوریت کی روح کے منافی اقدامات کیے گئے۔ لہٰذا میں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ کمیونزم کے بارے میں اس منفی پروپیگنڈے کا ادب اور شاعری کے ساتھ تعلق اور موافقت کے تناظر میں مؤثر اور جامع جواب دیا جائے اور بالخصوص آپ شاعر خواتین و حضرات کو حقیقی کمیونزم اور سوشلزم کے نظریات سے متعارف کروایا جائے۔

آپ میں سے کوئی بھی یہ سوچ یا کہہ سکتا ہے کہ ہم شاعروں کو کیا پڑی کہ ہم کمیونزم یا سوشلزم یا کسی بھی قسم کے نظریات کے بارے میں جانیں یا غور و فکر کریں؟ آپ یہ سوچنے اور کہنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ بظاہر ایسا ہی ہے اور ادب اور فن خالصتاً ایک انفرادی معاملہ محسوس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا تعلق تفکر، تعقل اور فہم و فراست کی بجائے جذبات اور محسوسات سے ہے اور شاعری خارج سے باطن میں نہیں آتی بلکہ یہ خالصتاً باطنی واردات ہے، جو اپنے ابلاغ کی ضرورت کے تحت مخصوص جمالیاتی شکل و صورت میں وارد ہوتی ہے۔ یہ نتیجہ اسی میکانکی طرز فکر کی پیداوار ہے جو ہمارے سماجی روزمرہ کا معمول ہے اور ہم اس وقت تک اس کے برعکس سوچنے کی جسارت نہیں کر سکتے جب تک ہم خود کو شعوری طور پر اس کے لیے تیار نہ کر لیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ نتیجہ نکالتے ہوئے یہ پہلے سے فرض کر لیا گیا ہے کہ جذبات اور سوچ بچار دو مختلف بلکہ بعض اوقات دو متضاد انسانی جبلتیں یا خصلتیں ہیں۔ حقیقت میں تھوڑا سا بھی روایتی اور مروجہ تعصبات سے بلند ہو کر دیکھنے کی کوشش کی جائے تو ہم فوراً واضح طور پر یہ جان سکتے ہیں کہ ہمارے محسوسات اور ہمارے شعور اور فکر کا باہمی رشتہ ناقابل علیحدگی ہے۔ دل دماغ کی مشاورت سے ہی خوش یا اداس ہوتا ہے اور دماغ جذبات کے دائرہ اثر سے کبھی نہیں نکل سکتا۔ اسی طرح دماغی اور جسمانی محنت کی تقسیم بھی فروعی اور اضافی ہے۔ در حقیقت ہم صرف دماغ سے نہیں بلکہ پورے جسم سے سوچتے ہیں، غیر معمولی حالات میں داخلی کشمکش اپنی جگہ مگر سوچنے والے جانور کی حیثیت سے دماغ اور دل کی یکسوئی ہی بنیادی انسانی خاصہ یا جوہر ہے۔ جس طرح بطور فرد ایک انسان مختلف اعضاء پر مشتمل ہے ایسے ہی ایک فرد سماج کا جزو ہے اور اس سماجی عمل اور اشتراک میں ہی بنیادی انسانی خاصے کا اظہار ممکن ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم شاعری میں اپنے غم، حسرتوں، رنج و الم، مسرت و شادمانی، حسد، رشک، محبت اور نفرت جیسے جذبات کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ جذبے ہمارے اندر کیوں ابھرتے ہیں، ہم کیوں اداس ہوتے ہیں، ہم کیوں بے پناہ مسرور ہو جاتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے اپنے ماحول، سماج اور فطرت کو جاننا بے حد ضروری ہے۔

حقیقت مروجہ تعصبات سے بالکل الٹ ہے اور یہ کمیونزم نہیں ہے جو فرد کی آزادی کے خلاف ہے یا انفرادیت کو کچل دینا چاہتا ہے بلکہ ہم جس سماج میں رہتے ہیں کیا بطور افراد ہم سب کے سینے ہماری آرزوؤں اور خوابوں کے مدفن نہیں بن چکے؟ اور اگر بے پناہ سعی اور جان مارنے کے بعد بھی کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کامیابی کا مطلب کسی خواب کی تعبیر کم ہوتا ہے بلکہ کسی خواب کو دفنا کر اس کے مقبرے پر کامیابی کی پہلی اینٹ رکھنی پڑتی ہے۔ مروجہ نظام اور اس کی اخلاقیات کی ساری بلند و بالا عمارت انہی غیر انسانی بنیادوں پر استوار ہے۔ دوستو! مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ نظام جس کی اخلاقیات ہماری خود سے بیگانگی اور نارسائی کی ذمہ دار ہے یہ کمیونسٹ یا سوشلسٹ نظام تو نہیں ہے۔ اس نظام کا نام سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اس نظام کا انکار ہی کمیونزم کا نقطہ آغاز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نظام اپنی اخلاقیات کی بندوق سے کمیونزم کا سینہ چھلنی کر دینا چاہتا ہے اور کمیونزم ایک متبادل نظریے کے طور پر سرمایہ دارانہ نظام سے مسلسل برسر پیکار ہے۔ لیکن ذرا غور کریں کہ کیا یہ سرمایہ دارانہ نظام فنکاروں، شاعروں اور ادیبوں سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں چھین کر ان کو پیداواری آلات یا مشین کے پرزوں میں تبدیل کرنے کے درپے نہیں ہے؟ جب سے یہ سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے یعنی گزشتہ 400 سالوں کی فن اور ادب کی تاریخ کا احاطہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ سارا ادب سرمایہ دارانہ نظام کی اخلاقی بنیادوں سے ٹکراؤ اور مزاحمت کی پیداوار ہے۔ کسی نہ کسی سرمایہ دارانہ قدر پر طنز اور اس کا مضحکہ اڑانے سے ہی بڑے ادب نے جنم لیا ہے۔ یوں کمیونزم اور ادب یا کمیونزم اور شاعری ایک دوسرے سے ہی نہیں بلکہ بنیادی انسانی جوہر سے بھی مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں اور دونوں کی بقا اور نجات انسانیت کی بقا اور نجات سے منسلک ہے۔

تنقید نگاری

یوں یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ گزشتہ سو سالوں میں دنیا بھر کی طرح ہمارے خطے میں بھی تخلیق کیے گئے ادب میں کمیونسٹوں کا حصہ اتنا زیادہ ہے کہ اگر اس کو نکال دیا جائے یا شمار میں نہ لایا جائے تو پھر یہ برتن خالی ہو جائے گا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ خالی برتن شور بہت کرتے ہیں۔ البتہ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا کہ میرا مقصد عہد حاضر میں تخلیق کی جانے والی شاعری پر تنقید ہرگز نہیں ہے اور میں کوئی پیشہ ور نقاد نہیں ہوں بلکہ سچ پوچھیں تو میں ان پیشہ ور ناقدین کا نقاد ہوں اور انہیں سراسر غیر ضروری، اضافی اور علم و ادب کے لیے مضر اور مہلک جراثیم سمجھتا ہوں جو ہماری پوری نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جو خود کچھ بھی قابلِ تحسین تخلیق نہیں کر پاتے وہ نقاد بن کر اپنی ناکامی کا غصہ اور بھڑاس نو عمر تخلیق کاروں پر نکالتے رہتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ تعمیری اور مثبت تنقید ممکن ہی نہیں، وہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ اس کی اشد ضرورت بھی ہے لیکن اس کا کردار نصابی، معلمانہ اور پیشہ ورانہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ سرمایہ دارانہ نصاب اور نظام درس و تدریس پر مٹھی بھر اقلیتی حکمران طبقے کی اجارہ داری ہے اور یہ ناقدین نئی نسل کو اس چھوٹی سی اقلیت کے مفادات کے تحت سوچنا اور تخلیق کرنا سکھاتے ہیں جو کہ خود شاعری کی اپنی روح کو مسخ کر دینے کے مترادف ہے۔ جو کوئی بھی حاوی اور رائج الوقت نظام سے متصادم کچھ تخلیق کرتا ہے وہ ان ناقدین کے زیر عتاب آ جاتا ہے اور جو بھی موجودہ نظام کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا رہتا ہے یہ اسے ’پاک صاف‘ ہونے کی سند جاری کر کے خود کو بھی برگزیدہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی تنقید کا محور عام طور پر اسلوب اور کرافٹ کے مسائل ہوتے ہیں اور یہ جدت کی آڑ میں نئی اصناف اور نئے اسلوب کے فروغ کی ترغیب دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں جبکہ کسی نئی ادبی صنف میں بات چاہے کتنی ہی فرسودہ، بے معنی اور لغو کی جا رہی ہو، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بات جتنی فرسودہ، جتنی بے معنی اور جتنی زیادہ لغو ہو گی یہ اسے اتنے ہی بڑے ادب کی سند جاری کر دیتے ہیں۔

دوسری طرف ان پیشہ ور ناقدین کے رد عمل کے طور پر بائیں بازو میں بھی حقیقی اور مثبت تنقید کا فقدان پایا جاتا ہے اور ایسے بہت سے سرخے ہر جگہ سینہ کوبی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ دیکھو دیکھو ادب مر گیا ہے، شاعری ختم ہو گئی ہے، سرمائے کا اژدہا ادب کو نگل چکا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مزید براں یہ خواتین و حضرات ہر وقت رومانوی نوسٹیلجیا کا شکار نظر آتے ہیں، واہ واہ کیا اعلیٰ موسیقی ہوا کرتی تھی، آئے ہائے کیسا کیسا شاعر پایا جاتا تھا، اب سب ختم ہو گیا، اس طرح کے جملے ٹھنڈی آہوں کی آمیزش سے آئے روز ہمیں بھی سینہ کوبی اور ماتم پر اکساتے رہتے ہیں۔ نوسٹیلجیا کے شکار بائیں بازو کے یہ ناقدین در حقیقت اپنی اپروچ اور نتائج میں پوسٹ ماڈرنسٹ ناقدین کے ہم نوا بن گئے ہیں جن کے خیال میں ترقی محض ایک واہمہ ہے اور ہم بطور انسان آگے جانے کی بجائے مسلسل پیچھے جا رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک انسان کی زندگی میں عشرے اور صدیاں بہت طویل عرصہ ہوا کرتے ہیں جبکہ بنی نوع انسان کی تاریخ میں ان کی وقعت بہت معمولی ہوتی ہے اور ترقی کا سفر کبھی سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتا اور نہ ہی معاشی اور ثقافتی ترقی ہموار اور ایک دوسرے سے میکانکی طور پر منسلک ہوتے ہیں۔ گویا عشروں اور برسوں پر اور کبھی کبھار صدیوں پر محیط جمود اور پسپائی کے ادوار کے باوجود علم و ادب کی مزاحمت نہ تو کبھی مری تھی اور نہ کبھی مر سکتی ہے۔ ہاں البتہ طبقاتی کشمکش کی طرح یہ کبھی اتنی پسپا اور سست ہو جاتی ہے کہ بظاہر اس کا ہونا اور نہ ہونا ایک جیسا ہی لگنے لگتا ہے۔ یاد رکھیں طویل جمود کے عہد کے خاتمے کا نقارہ سیاست سے بہت پہلے ادب کے میدان میں بجتا ہے اور انقلاب کی شکست کے بہت بعد تک ادب کے گنبد سے ’ہمت نہ ہارو، آگے بڑھو‘ کی اذانیں گونجتی رہتی ہیں اور پھر بالآخر یہ گونج ماند پڑ جاتی ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ کچھ دہائیاں ایسے ہی عہد پر مشتمل تھیں، جن میں سیاست کی طرح جمالیاتی میدان میں بھی بونے چھائے ہوئے تھے۔ لیکن یہ عہد بھی اپنے سے قبل کے دیگر ادوار کی طرح اب اپنی انتہاؤں پر پہنچ کر اپنے الٹ میں تبدیل ہونے والا ہے۔

شیکسپیئر اور غالب جیسے ادبی نابغے (جینیئس) روز روز پیدا نہیں ہوتے، لیکن بہت سے ادیبوں اور ادیبوں کی کئی نسلوں کی مزاحمت سے ان کے آنے کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔ یوں یہ نابغے خود ادب کے اس تاریخی ارتقا میں معیاری جست کا اظہار ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ پیدا نہیں ہو رہے ہوتے تو وہ بظاہر بے توقیر دور اپنی کوکھ میں ان کی پرورش اور نگہداشت جاری رکھتا ہے۔ اب ہم ایک عبوری عہد کے فیصلہ کن دوراہے پر پہنچ چکے ہیں اور اسی وجہ سے مجھے آپ دوستوں سے مکالمے کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔

شاعری کے بارے میں

اب کیا میں آپ لوگوں سے ایک سوال کرنے کی جسارت کر سکتا ہوں؟ سوال بہت سادہ ہے، شاعری کیا ہوتی ہے؟ یقیناً آپ لوگوں کو یہ سوال ناگوار گزرا ہو گا۔ ظاہر ہے آپ سب لوگ شاعر ہیں اور آپ کو پتہ ہی ہو گا کہ شاعری کیا ہوتی ہے۔ تو گویا یہ تو بہت آسان سوال ہوا۔ لیکن آپ دیکھیں گے کہ جونہی ہم اس پر بات کرنا شروع کریں گے تو یہ سادہ سا سوال پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا۔ بالکل ویسے ہی کہ جب ہم کسی بھی عام شخص سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ وقت کیا ہوتا ہے۔ تو وہ فوراً مسکرا دے گا اور کہے گا کہ ظاہر ہے مجھے پتہ ہے کہ وقت کیا ہوتا ہے۔ لیکن اصرار کرنے پر وہ یہ بتائے گا کہ اب کتنے بجے ہیں یا پھر یہ کہ دن، رات اور شام ہوتے ہیں یا پھر مہینے، سال اور صدیاں وغیرہ وغیرہ۔ اور جوں جوں وہ بولتا چلا جائے گا اسے اپنی نارسائی اور لاعلمی کا بھی احساس بڑھتا چلا جائے گا۔ اسی طرح بطور شاعر ہم میں سے کسی سے بھی جب شاعری کی بات کی جائے گی تو ہم بہت سی شاعری سنانا شروع کر دیں گے لیکن شاعری کے بارے میں جتنا ہم بات کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے اتنا ہی ہمیں اپنی لاعلمی کا احساس جکڑتا چلا جائے گا۔ لیکن آپ میں سے کوئی بھی پھر اعتراض اٹھائے گا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہ ہو کہ شاعری کیا ہوتی ہے جبکہ ہم تو متواتر اور باقاعدگی سے شاعری کرتے ہیں۔ جی ہاں یہ بالکل ممکن ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ہم نظام انہضام کے بارے میں کچھ بھی جانے بغیر بہت آسانی سے روزانہ اور دن میں کئی بار کھانا کھاتے اور ہضم کر لیتے ہیں۔ صرف کھانا ہضم کر لینے سے ہم نظام انہضام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان پاتے۔ لیکن نظام انہضام کا ماہر بننا ضروری بھی تو نہیں۔ بہرحال پھر بھی اگر ہم نظام انہضام کے بارے میں کچھ جانتے ہوں گے تو ہم اپنی خوراک اور غذا کے انتخاب میں زیادہ محتاط اور خود کے اور اپنے عزیز و اقارب کے لیے سود مند ہو جائیں گے۔

ظاہر ہے کہ جب شاعروں کے حلقے میں یہ بات ہو گی تو سب اپنے اپنے طریقے سے شاعری کی وضاحت کرنے کی کوشش شروع کر دیں گے۔ زیادہ تر لوگ قافیے اور ردیف وغیرہ سمجھانے کی کوشش کریں گے اور جو زیادہ ریاضت کرتے اور عبور رکھتے ہوں گے وہ اوزان اور بحور وغیرہ کا تذکرہ شروع کر دیں گے۔ لیکن اس ساری گفتگو کو ہم علمِ عروض تو کہہ سکتے ہیں لیکن شاعری ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ علمِ عروض شاعری سے متعلق ضرور ہے لیکن وہ شاعری کا جوہر ہرگز نہیں۔ تو پھر شاعری کیا ہے؟ چند ہفتے قبل مجھے آرٹس کونسل کراچی میں ایک مرحوم شاعر کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب میں شرکت کا موقع ملا جہاں پر ایک صاحب یہ فرما رہے تھے کہ شاعری محض الفاظ، معانی اور مفاہیم نہیں ہوتی۔ مزید انہوں نے کہا کہ شاعری محض علامات، استعارے اور تشبیہات بھی نہیں ہوتی، وہ ان سب سے بڑھ کر کچھ اور ہوتی ہے، لیکن وہ کیا ہوتی ہے اس کی وضاحت وہ نہیں کر پائے یا پھر وہ بتانا بھول گئے ہوں گے۔ یہ درست ہے کہ شاعری ان تمام مذکورہ اجزاء اور عوامل سے ماورا اور ممتاز بھی کچھ ہوتی ہے لیکن وہ ان تمام اجزاء کے بغیر بھی تو کچھ نہیں ہوتی۔ شاعری الفاظ، معانی، مفاہیم، علامات اور استعاروں پر مبنی ایک جمالیاتی اکائی اور نامیاتی کلیت (organic whole) کا نام ہے، ان میں سے کچھ بھی بالکل نکال باہر کریں گے تو پھر بھی شاعری باقی نہیں بچے گی۔ استعارات اور تشبیہات کے بغیر تو شاعری صحافت کے درجے تک بھی گر سکتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے پوسٹ ماڈرنسٹ دوستوں نے معانی اور مفاہیم کو شاعری سے بے دخل کر دیا اور اس اقدام کو جائز اور واحد ممکنہ ادبی تفسیر ثابت کرنے کے لیے مزید فلسفیانہ لایعنیت کو ڈھال بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ برملا اعلان کر دیا گیا کہ معانی اور مفاہیم کی اس لیے بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ معنی اور مفاہیم کسی بھی شے میں یا کسی بھی مظہر میں یا کسی بھی تاریخی عمل میں موجود ہی نہیں تو پھر شاعری میں یا ادب میں اس کی کیا ضرورت ہے۔

ٹھیک ہے، پھر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ اس حاوی سوچ کے نمائندہ شاعروں نے علم دشمن یعنی انسان دشمن سوچ کو الفاظ اور تراکیب میں لپیٹ کر شاعری کے نام پر فخریہ پیش کرنا شروع کر دیا۔ جیسے ایک بہت مقبول شاعر کی ایک نظم سننے کا اتفاق ہوا جس میں موصوف ارسطو سے لے کر مارکس تک بہت سے فلسفیوں اور نابغوں کا نام لے کر ان کی تضحیک کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور ان سب کی تعلیمات اور علم کو غیر ضروری اور اپنے محبوب کے گھر کے پتے (ایڈریس) کے علم کو حقیقی علم قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے شاعر کے لیے محبوب کے آستانے سے بڑی مقدس جگہ اور کیا ہو سکتی ہے، بھلے ہی وہاں اسے مسلسل دھتکار اور ’چھترول‘ ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے۔ یہ ایک عمومی وطیرہ ہے، حالانکہ محبوب کی فضیلت اور اس کے گھر اور بارگاہ تک پہنچنے کی خواہش کو بیان کرنے کے دیگر بہت سے طریقے اور زاویے ممکن ہیں، جیسا کہ ہمیں کلاسیکی شعرا کے ہاں یہ مضمون اتنی نفاست اور تغزل سے مرصع ملتا ہے کہ ایک ایک لفظ میں زندگی ناچتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جیسے غالب کا یہ شعر دیکھیے:

دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں

لیکن یہاں خاص طور پر ان عظیم لوگوں کی ہتک اس لیے بھی ضروری سمجھی گئی ہے کہ ایک طرف ان کے نام لے کر خود کو بڑا بنا کر پیش کیا جائے اور دوسرا حقیقی علم کو کم رتبہ اور بے معنی قرار دے کر اپنی لاعلمی اور جہالت کو ’درویشی اور حساسیت‘ کی سند کے طور پر پیش کیا جائے۔ اس طرح کا ادب جلدی پاپولر ہونے کا شارٹ کٹ بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی اتفاق نہیں کہ اسی عہد میں چاہت فتح علی خان بھی بہت پاپولر ہے۔ گویا پاپولر ہونا تو جیسے ایک گالی بن گیا ہے۔ پاپولر ادب عام طور پر بڑا اور حقیقی ادب نہیں ہوتا۔ حقیقی اور بڑا ادب پاپولر بھی ہو گا یا نہیں اس کا انحصار شاعر یا ادیب کی خصوصیات پر اور ریاضت پر کم بلکہ عہد کے عمومی کردار پر زیادہ ہوتا ہے۔

خوبصورتی کیا ہوتی ہے؟

آئیے شاعری کے جوہر (essence) کے بارے میں بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ شاعری کا تعلق دیگر فنون کی طرح خوبصورتی (Beauty) کے اظہاریے سے ہے۔ شاعری کا عمومی وظیفہ خوبصورتی کی تخلیق یا حسن کو اجاگر کرنا ہوتا ہے اور بدصورتی کی نشان دہی اور تضحیک کے بغیر خوبصورتی کو اجاگر نہیں کیا جا سکتا۔ شاعری سمیت تمام فنون اور ادب سے متعلقہ امور کے مطالعے پر مبنی فلسفے کی شاخ کو جمالیات کہا جاتا ہے۔

عظیم فلسفی ہیگل نے جمالیات کو ’خوبصورت کی سائنس‘ بھی کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شاعری کے جوہر کو جاننے کے لیے خوبصورتی اور حسن کے جوہر کو جاننا بہت ضروری ہے۔ ارے یہ کیا ہوا، آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ مطلب دوستو یہ سمجھنے کے لیے کہ شاعری کیا ہے، اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خوبصورتی کیا ہے اور ظاہر ہے کہ آپ سب دوستوں سے جب یہ سوال کیا جائے گا تو سب کہیں گے کہ ہمیں پتہ ہے کہ خوبصورتی کیا ہے۔ لیکن جب ہم اس کے بارے میں بات کرنا شروع کریں گے تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ہم نہیں جانتے کہ خوبصورتی کیا ہے۔ ہم خوبصورت بتانا شروع کر دیں گے۔ جیسا کہ خوبصورت لڑکی کے خال و خد، نین نقش وغیرہ وغیرہ۔ جو زیادہ پڑھے لکھے احباب ہوں گے وہ کہیں گے کہ خوبصورتی فطرت میں ہے یا فطرت کا خاصہ ہے۔ ہم کہیں گے کہ بھائی مان لیا اگر خوبصورتی فطرت میں ہوتی ہے تو پھر بدصورتی کہاں ہوتی ہے وہ بھی تو فطرت میں ہی ہوتی ہے، تو اس کی نشاندہی کیسے ہو گی کہ کیا خوبصورت ہے اور کیا بدصورت۔ کوئی بھی بات کاٹ کر کہہ سکتا ہے کہ بھائی دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ تو سوال جوں کا توں ہے کہ دیکھتے ہی کیسے پتہ چل جاتا ہے، وہ کیا اصول ہو جو ’دیکھتے ہی پتہ چل جانے‘ کے پسِ پردہ کار فرما ہے اور فطرت تو بہت قدیم ہے بلکہ ازلی ہے تو کیا سوچنے والی ہستی سے قبل بھی وہ خوبصورت تھی؟

ہرگز نہیں، امکانی طور پر تو وہ خوبصورت ہو سکتی ہے لیکن خوبصورتی کا تعلق بہرحال انسانوں سے ہے۔ کون سا رنگ، کون سا موسم، کون سا منظر انسانوں میں کون سے جذبے اور کون سی خواہش کو ابھارتا ہے، اسی بنیاد پر وہ خوبصورت یا بدصورت قرار دیے جاتے ہیں۔ جی بالکل فطرت میں ایک خاص ترتیب اور نظم و نسق موجود ہے وہی اسے خوبصورتی عطا کرتا ہے لیکن محض ترتیب اور نظم و نسق ہی خوبصورتی نہیں ہے۔ زیادہ تر دوست یہ جملہ دہرائیں گے کہ ’خوبصورتی تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے‘۔ مطلب یہ ہوا کہ خوبصورتی خالصتاً ایک موضوعی معاملہ ہے اور اس کا معروضیت سے کوئی تعلق نہیں۔ چلیں مان لیا لیکن پھر ایسا کیوں ہے کہ مخصوص ادوار اور مخصوص علاقوں میں خوبصورتی کے معیارات (انفرادی سطح پر بھی) ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ چلیں پھر ہیگل سے ہی رجوع کرتے ہیں اور اسی سے پوچھتے ہیں کہ میاں یہ خوبصورتی کس بلا کا نام ہے۔ ہیگل صاحب جواب دیتے ہیں کہ خوبصورتی مطلق خیال یا سپرٹ (spirit) کے حسیاتی اظہار کا نام ہے۔ ظاہر ہے یہاں حسیاتی سے مراد انسانی حسیات ہی ہیں۔ اب ہم یہاں ہیگل کے سپرٹ کے فلسفے پر زیادہ بات نہیں کریں گے، صرف یہی کہیں گے کہ ہیگل کے ہاں سپرٹ کا مطلب فطرت کی ’سچائی‘ ہے اور انسان بھی تو فطرت ہی کی ترقی یافتہ اور ارتقائی شکل ہے یعنی خوبصورتی کی ایک بنیادی شرط اور وصف سچائی ہے۔

لیکن سچائی کا صرف جمالیاتی تشخص ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے منطقی اور تعقلی پہلو بھی اہم ہوتے ہیں۔ ساری انسانی تاریخ سچائی کی تلاش کی تاریخ ہے۔ سچائی کی ’خوبصورتی‘ کی تلاش اور تراش خراش جمالیات کا وظیفہ ہے جبکہ سچائی کے طبعی خواص، علول (causes) اور محرکات کی تلاش کے لیے منطق، سائنس اور فلسفے وغیرہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ گویا شاعری کے لیے سچا ہونا بہرحال ضروری ہے۔ آپ کچھ بھی دانستہ جھوٹ لکھ دیں گے تو بھلے ہی وقتی طور پر اسے کتنی ہی پذیرائی کیوں نہ مل جائے، وہ شاعری نہیں بن جاتی۔ یہاں آپ کے ذہن میں ایک اور اہم سوال ضرور ابھرے گا کہ سچائی ہی اگر شاعری ہے تو پھر حقیقت اور افسانہ بھی ایک ہی ہوا تو پھر ادب کہاں گیا۔ جیسا کہ ’اصغر کے پانچ بیٹے ہیں‘ یہ سچ ہو سکتا ہے لیکن یہ شاعری تو ہرگز نہیں ہے۔ جی ہاں، ذرا یاد کیجیے کہ ہم نے کہا تھا کہ سچائی کا صرف ایک پہلو ہی ہمارا یعنی شاعری اور ادب کا موضوع ہے، اور وہ ہے خوبصورتی۔ لہٰذا سچائی اپنی کلیت میں (as a whole) ادب میں نمودار نہیں ہو سکتی۔ سچائی کے دیگر اہم پہلوؤں کے فقدان کی تلافی خوبصورتی کے مزید سنگھار (presentation) کے ذریعے کی جاتی ہے یعنی اس کی شکل (Form) کی کرافٹ سچائی کی کلیت کے فقدان کا ازالہ کر دیتی ہے اور سچائی اپنی کلیت کے بغیر بھی قابلِ رشک اور اتنی پرکشش ہو جاتی ہے کہ انسانی دل و دماغ اس کی طرف راغب ہوئے بنا رہ ہی نہیں پاتے۔ یوں یہ سچائی عمومی سچائی سے بلند ہو کر ادبی سچائی بن جاتی ہے، جو ادبی مبالغے کے ذریعے اپنی تکمیل کرتی ہے۔ اب جیسے ایک کھانا بنانے والی بظاہر ان پڑھ گھریلو عورت بخوبی جانتی ہے کہ کھانے میں نمک کی کتنی مقدار اسے مزیدار بناتی ہے اور کتنی مقدار اسے کھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑتی۔ ایسے ہی بڑا اور حقیقی شاعر بطورِ احسن جانتا ہے کہ کتنا مبالغہ ادبی چاشنی کی تشکیل کرے گا اور کس حد پر جا کر وہ جھوٹ بن جائے گا۔ شاعر آزاد ہے کہ وہ استعاروں اور تشبیہات کے ذریعے ناممکنات کا تصور پیش کرے، لیکن کردار سازی یا پلاٹ کے حوالے سے اس بظاہر ناممکن کا بھی ایک داخلی منطقی تسلسل ضروری ہے جو اسے ادب پارے کی کلیت سے جوڑے رکھتا ہے، ورنہ اعلیٰ پائے کی سماعتوں سے اسے تیز نمک کے کھانے کی طرح تھوک دینے کی شکایت نہیں کی جا سکتی۔

’دیوار سے گزر جانے‘ کی ایک شاعر جسارت کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ دیوار کے پار خوبصورتی کی استعاراتی تجسیم کا حق ادا کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔ چی گویرا کا شاید کبھی شیر یا چیتے سے سامنا نہ ہوا ہو لیکن چی گویرا پر نظم لکھنے والا شاعر اگر ایک منظر میں چی گویرا کو شیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے اور شیر کو ڈر کر بھاگتے ہوئے پیش کرے گا تو یہ واقعاتی طور پر غلط ہوتے ہوئے بھی جھوٹ نہیں ہو گا بلکہ اسے ادبی سچائی کا بہترین نمونہ قرار دیا جائے گا۔ جبکہ بیسیوں معصوم بچوں کو قتل کرنے والا ایک خود کش حملہ آور ظاہر ہے بہت بہادری کا کام کرتا ہے لیکن جب اس پر نظم لکھنے والا اس کے لیے جرات اور بہادری کے استعارے استعمال کرے گا تو یہ واقعاتی طور پر درست ہوتے ہوئے بھی یہ ادبی طور پر جھوٹ ہو گا اور ایک سچے شاعر پر فرض ہے کہ اسے بزدل اور جانور بنا کر پیش کرے، تبھی وہ شاعری یا ادب بن سکے گا۔ گویا ادبی مبالغے میں ادبی انصاف (poetic justice) کی لازمیت بھی ضروری ہو گی۔ یہ ادبی انصاف سماجی عدل و انصاف کا ہی جمالیاتی اظہار ہو گا۔

جمالیات کی اخلاقی بنیادیں

تو دوستو یہ ہے مارکسی جمالیات۔ ہم کمیونسٹ اسی جمالیات کے پرچارک ہیں اور یہی جمالیات ہماری اخلاقیات کی آئینہ دار بھی ہے جس کا مرکزی خیال ہمیشہ ’سماجی انصاف‘ ہی رہے گا۔ میں اس وقت آپ لوگوں کے چہروں پر حیرت کے تاثرات محسوس کر سکتا ہوں۔ کیونکہ آپ لوگوں کے دماغ میں کمیونزم اور کمیونسٹوں کی جو شبیہہ تھی وہ تو بالکل مختلف تھی۔ کمیونسٹ تو مادیت پرست ہوتے ہیں، صرف مادے کو ہی حقیقت سمجھتے ہیں اور انسانی آدرشوں اور محسوسات کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، محبت ان کے لیے گناہ ِبے لذت ہے اور لڑائی اور جنگ و جدل کی باتوں کے علاوہ انہیں کچھ نہیں سوجھتا وغیرہ وغیرہ۔ اس کے برعکس دوستو! میں پوری ذمہ داری سے یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ اگر آج کہیں واقعی آدرش وادی اور حساس دل موجود ہیں تو وہ کمیونسٹوں کے سینوں میں دھڑکتے ہیں۔ اگر کہیں تہذیب اور انسانیت کی بقا کے لیے ہول اٹھتا ہے تو وہ سب سے بڑھ کر کمیونسٹوں کے ہی دماغ ہیں۔ عوام کی لاشعوری اور انسانی جوہر کی نمائندہ فطری آرزوؤں کا مرتبط شعوری اظہار ہی کمیونزم ہے۔

اسی لیے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ مارکسزم وہ نظریہ ہے جسے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے دماغ کو دل کی براہِ راست معاونت درکار ہوتی ہے۔ ہمارے آدرش اس لیے روایتی دماغوں کو کھٹکتے ہیں کیونکہ یہ مروجہ آدرشوں سے متصادم ہیں۔ یہ ’میں میں‘ کی تکرار کی بجائے ’ہم‘ کی للکار ہیں۔ ہماری اخلاقیات اس لیے ’غیر اخلاقی‘ بتائی جاتی ہیں کیونکہ ان کی عمارت انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے۔ ہماری جمالیات بھی ہماری طرح اس لیے مردودِ حرم ہے کیونکہ ہمارے نزدیک حسن کا پیمانہ اور معیار بھی اجتماعی اور سماجی مفاد پر مبنی ہے۔ یہ اجتماعی مفاد تاریخی عمل میں انفرادیت سے متصادم ہونے کی بجائے اس کی واحد ممکنہ ’ظاہریت‘ بن کر نمودار ہوا ہے۔ تاریخ میں مختلف ادوار اور علاقائی اکائیوں میں خوبصورتی کے معیارات تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ یہ تاریخی عمل محض کسی فرد کی داخلیت کے نہیں بلکہ اجتماعی آرزوؤں کے مرہونِ منت ہی ہوتا ہے۔ دیہی معاشروں میں رہنے والے ایک نوجوان کو فربہ عورتیں زیادہ پُر کشش محسوس ہوتی ہیں کیونکہ وہ مشترکہ خاندان (combined family system) سے منسلک سماجی ذمہ داریوں کے لیے بھی زیادہ موزوں ہیں جبکہ میٹرو پولیٹن کی مسابقت زدہ چمکدار زندگی میں دبلی پتلی محبوبہ کی رفاقت میں ہی گزر بسر کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ حکمران طبقات بھی اسی سماجی نظم و نسق کو ثقافتی معیارات کے طور پر فروغ دے کر اپنے مخصوص طبقاتی مفادات کے ایک اوزار میں بدل دیتے ہیں۔ یہ عمل ہر سماج میں لا شعوری طور پر جاری و ساری رہتا ہے اور اس سماج کی ثقافتی زندگی اور ارتقا کی تعیین کرتا ہے۔

سچائی کیا ہے؟

ہمارے ناقدین ’سچائی‘ کو خوبصورتی کا معیار قرار دے دینے کے باعث ہی ہم سے نالاں نہیں ہیں۔ اصل مسئلہ انہیں ہمارے سچائی کے طے کردہ معیار اور پیمانے سے ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں سچائی بھی نسبتی (relative) ہوتی ہے۔ یعنی ہر فرد کی سچائی دوسرے سے مختلف ہو گی۔ یوں جمالیاتی اعتبار سے بھی ہر قسم کی لایعنیت اور بے مقصدیت کی ستائش کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہر فرد کی سچائی مختلف ہے تو سماج کے نمائندہ کرداروں اور سماج کی تبدیلی کے جمالیاتی محرکات اور عوامل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم کمیونسٹ پوری آب و تاب اور شد و مد سے سچائی کی معروضیت کا علم اٹھاتے ہیں اور سچائی کی اسی معروضیت کی بنیاد پر ہی ہم سماجی انصاف اور معاشی مساوات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ معروضی سچائی سے مراد ایسی سچائی ہر گز نہیں جو مطلق (absolute) ہو یا زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو۔ بلکہ یہ ایک مخصوص عہد کے لیے مطلق ہوتی ہے اور دائمی طور پر نسبتی اور متغیر۔ ایک مخصوص وقت اور عہد کے لیے مطلق سچائی بہت ساری نسبتی سچائیوں کا مرکب ہوتی ہے۔

عظیم کمیونسٹ رہنما اور انقلاب روس کے قائد لینن اپنی تصنیف ’مادیت اور تجربی تنقید‘ میں کس شاندار پیرائے میں اس مؤقف کی وضاحت کرتے ہیں، ملاحظہ کیجیے: ”جدید مادیت یعنی مارکسزم کے نقطہ نظر سے مطلق اور معروضی سچائی تک ہمارے علم کی رسائی کی حدود و قیود تاریخی طور پر مشروط ہوتی ہیں، لیکن ہماری سوچ سے ماورا اس سچائی کا وجود غیر مشروط ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی غیر مشروط ہوتی ہے کہ ہم اس سچائی سے قریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ تصویر کے خطوط اور نقوش تاریخی طور پر مشروط ہیں مگر یہ حقیقت کہ تصویر معروضی وجود کے حامل ماڈل کی عکاسی کرتی ہے، غیر مشروط ہے۔“ ہمارا معروضی سچائی کا یہی تصور ہی ہمارے ’مادیت پسند‘ فلسفے کی بنیاد ہے۔

ہمارے ناقدین جان بوجھ کر فلسفیانہ مادیت پسندی کو سماجی مادہ پرستی سے گڈمڈ کر دیتے ہیں۔ عام طور پر مادہ پرست شخص اسے کہا اور سمجھا جاتا ہے جو دولت اور شہرت کا پجاری ہو، جس کے کوئی اصول نہ ہوں اور ذاتی مفادات کا حصول ہی اس کا مقصدِ حیات ہو۔ جبکہ اصولوں پر قائم رہنے والے اور ذاتی مفادات کو اپنے اصولوں پر قربان کر دینے والے شخص کو آئیڈیل یا آدرش وادی سمجھا جاتا ہے۔ مارکسی فلسفہ یعنی جدلیاتی مادیت پسندی اس کے بالکل الٹ ہے۔ ہمارے ہاں مادیت پسندی سے مراد سماجی انصاف پر مبنی سخت اور کڑے اصولوں پر غیر مصالحانہ استقامت اور ثابت قدمی ہے اور اس سماجی انصاف کی بنیاد فطری اور تعقلی معروضی سچائی پر ہے۔ سرمایہ دار طبقے کے وظیفہ خوار بخوبی جانتے ہیں کہ یہ آدرش، یہ فکر، یہ نظریہ اور یہ نظام ان کے نظام اور حقِ حاکمیت کی موت ثابت ہو گا۔

آپ لوگ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں میں سچائی کی معروضیت پر اتنا اصرار کیوں کر رہا ہوں۔ میں پہلے وضاحت کر چکا ہوں کہ ادب آخری تجزیے میں سچائی کا جمالیاتی ابلاغ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے ہم عصر پیشہ ور ناقدین سچائی کی معروضیت کا انکار کر کے در حقیقت ادب کو اپنے بنیادی جوہر اور ادیب کو اس کے تاریخی وظیفے سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ سچائی کا جوہر عیاں نہیں ہوتا وہ ظاہریت کے کئی پردوں میں نہاں ہوتی ہے۔ شاعر اپنے استعاروں اور علامات کے ذریعے وہ پردے چاک کرتا چلا جاتا ہے۔ مروجہ استعاروں اور علامات کو اپنے نئے اور منفرد ادبی خیال کے پیرائے میں ڈھالنے یا اپنے نئے اور منفرد استعاروں کی تشکیل و تدوین کے لیے شاعر کو جہاں گہرے مشاہدے اور ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے وہیں ماضی کے عظیم الشان ورثے سے استفادہ کرنے کے لیے مطالعہ اور کتب سے شغف بھی بے پناہ ضروری ہوتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ جب شاعر کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ سچائی اول تو موجود ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو داخلی اور نسبتی ہے تو مطالعے اور کتاب کی ضرورت ہی کہاں رہ جاتی ہے بلکہ مشاہدہ بھی مشاہدہ کم اور مراقبہ زیادہ بن جاتا ہے۔

مافیہا (content) کو شکل (Form) کے مقابلے میں فروعی، غیر ضروری سمجھ لینے سے شاعر خود اپنے خیال سے زیادہ اپنے حلیے سے پہچانے جانے کی کوشش کرتا ہے اور شاعری کرنے سے زیادہ شاعر لگنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ میں سچائی کی معروضیت پر اسی لیے مصر ہوں تاکہ شاعر کی زندگی میں مطالعے، کتاب اور نظریات کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا جائے۔ مطالعے، کتابوں اور نظریات کو حقیر سمجھنے والے ادیبوں کے دماغ اکثر خالی ہوتے ہیں، جن کو ریاستی پراپیگنڈے کے بھوسے کا گودام بنانا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ جو شاعر حضرات فخریہ یہ اعلانات کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہمارا کوئی نظریہ نہیں ہے کیونکہ ادب تو ہمیشہ غیر سیاسی (apolitical) ہوتا ہے، ریاست کا نظریہ ہی ان کا نظریہ بن جاتا ہے۔ آج کل نظریے کی عدم ضرورت کو بھی ایک نظریہ ہی بنا دیا گیا ہے۔ اہل علم اور اہل ذوق بخوبی جانتے ہیں کہ شیکسپیئر سے لے کر اقبال اور یونانی رزمیہ سے لے کر فیض تک کوئی ادب یا ادیب کبھی غیر سیاسی نہیں رہا۔ لہٰذا کتاب، مطالعے اور نظریات کی ادب اور ادیب کو جتنی آج ضرورت ہے، شاید ہی ماضی میں کبھی رہی ہو۔ اس لیے محض عظیم شعرا کی شاعری ہی نہیں بلکہ تاریخ اور دیگر علوم سے شناسائی بھی آپ لوگوں کے دماغوں کو نئے استعاروں اور علامات کی تشکیل کے لیے زرخیز بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

جدت کا سراب

لیکن فلسفے اور سائنسی علوم سے شغف کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ شاعری کو ہی سائنس یا فلسفہ بنانے کی کوشش شروع کر دی جائے۔ جیسا کہ آج کل کچھ شاعروں کو خبط سوار ہے کہ ”ایٹم اور بلیک ہول“ جیسے موضوعات پر نظمیں لکھنا بہت ضروری ہے اور ’جدت‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ لوگ نظموں اور مصرعوں میں سائنسی اور فلسفیانہ اصطلاحات استعمال کر کے اپنی ’انفرادیت‘ کا لوہا منوانا چاہتے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یوں وہ ’پڑھے لکھے‘ بابو تو بن سکتے ہیں شاعر نہیں بن سکتے۔ میں پہلے بات کر چکا ہوں کہ ادبی سچائی معروضی سچائی کا جمالیاتی اظہار ہونے کے باعث انسانی جوہر کی نمائندگی میں معروضی سچائی سے کہیں بلند ہوتی ہے۔ انسانیت کی ترقی اور بہبود کے لیے سائنس اور فلسفے کی خدمات بلاشبہ کلیدی حیثیت رکھتی ہیں لیکن ادب کا اپنا ایک مقام ہے جو سائنس اور فلسفے سے اگر افضل نہیں تو کمتر کسی صورت نہیں ہے۔ اس لیے شاعری میں سائنس کی آمیزش سے یہ بابو لوگ شاعری کو آلودہ ہی کر رہے ہیں۔

اسی طرح تاریخ اور معاشرتی علوم کے مطالعے اور نظریات سے وابستگی کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ شعر کو نعرہ بنا کر جمالیاتی معیار سے گرا دیا جائے۔ یوں پروپیگنڈے کا ادب تو تخلیق کیا جا سکتا ہے، جو ایک خاص حد تک ضروری بھی ہوتا ہے (لیکن ایک خاص حد تک ہی) لیکن ادبی چاشنی سے محروم ہونے کے باعث اس کی تاثیر بھی دیرپا نہیں رہتی اور وہ جمالیاتی حظ (aesthetic pleasure) کی ترسیل میں ناکام ہو جاتا ہے۔ یوں نظریات سے وابستگی کا مطلب بھی ادب کو اس کے مقام سے گرانا نہیں بلکہ اتنا ارفع کرنا ہوتا ہے کہ نئے اور زیادہ جھنجھوڑ دینے والے استعاروں کے ذریعے قارئین کو روز مرہ زندگی کے غیر انسانی سرمایہ دارانہ معاملات سے نفرت اور حقارت محسوس ہونے لگے اور وہ کچھ بڑا کرنے اور سوچنے پر مجبور ہو جائیں۔ منشی پریم چند کے الفاظ میں ادب وہی ہے جو ’خوبیِ حسن کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ جذبہِ عشق کو بھی بیدار کرے‘۔

ہم جس خطے میں رہتے ہیں، اس کی عظیم ثقافتی اور جمالیاتی میراث ہے۔ برصغیر کی موسیقی کی طرح یہاں کی شاعری کا بھی دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ میر اور غالب کے ہاں جن استعاروں اور خیالات نے پرورش پائی ان کا بہت ساری ہم عصر ثقافتوں میں تصور بھی محال تھا۔ اس لیے ان عظیم نابغوں کا مطالعہ اشد ضروری ہے۔ لیکن ان عُظام کا مطالعہ کرنے کا مقصد روحانی سرشاری اور محظوظ ہونا تو ہونا چاہیے لیکن خود مقبول اور معروف ہونے کی ہوس میں ان کی بیہودہ نقالی کرنے کی کوشش شعرائے کرام کو اپنے زمانے سے کاٹ کر اعضائے معطل میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ شعراء اپنے کلام میں مصنوعی پیچیدگی پیدا کرنے کی کوشش میں کلام کو شعریت سے ہی محروم کر دیتے ہیں۔ غالب اور میر جیسے لوگوں کی عظمت کے محرکات جاننے کے لیے ان کے عہد سے ان کے تعلق کی تفہیم بہت ضروری ہے۔ ان مخصوص ادوار میں اس خطے میں فلسفے، سائنس اور دیگر علوم میں کوئی خاص قابلِ ذکر کام ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ لیکن فطرت خلا کو پسند نہیں کرتی۔ یہاں سچائی کی جستجو اور لگن فنون اور ادب کے دروازے سے ہی تاریخی افق پر نمودار ہوئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ باقی سارے دروازے یا تو مکمل طور پر بند تھے یا نیم وا ہونے کے باعث اس ریلے کو راستہ دینے کے اہل نہیں تھے۔ شاعری کے میدان میں یہ عمل اس وقت اپنی انتہاؤں کو پہنچا جب بہت سے فارسی شعرا ایران سے یہاں ہندوستان آ کر آباد ہو گئے اور ہندوستانی ثقافت کے زیرِ اثر آ کر یہاں انہوں نے فارسی شاعری کے ایک نئے اسلوب یا دبستان کو تخلیق کیا جسے ’سبک ہندی یا سبک اصفہانی جمالیات‘ کہا جاتا ہے۔

افضال سید صاحب کے بقول مرزا بیدل اس دبستان کا سب سے نمائندہ شاعر ہے۔ ان لوگوں کے تخلیق کردہ استعارے اور علامات اتنے بھرپور اور ہمہ جہت ہیں کہ اگر ان کے اشعار کے مفاہیم تک آپ پہنچ جائیں تو آج بھی آپ اپنے ہر دکھ اور رنج کو فراموش کر کے آسودگی اور راحت کے اس مقام کو چھو آتے ہیں جس کا سرمایہ دارانہ روزمرہ کے معمولات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ غالب نے اسی روایت کو اردو شاعری میں لا کر بیدل سے بھی بلند اور اعلیٰ پائے کی شاعری تخلیق کی۔ ان عُظام کے ہاں حسن کو عشق سے بھی کہیں بلند مقام دیا گیا تھا اور ان کے ہاں محبوب کی ستائش اور تحسین پرستش کے درجے تک جا پہنچتی ہے۔ لیکن ایسا کیسے اور کیونکر ممکن ہوا؟ اس کی وجہ برصغیر کا مخصوص سماجی نظام تھا جسے ایشائی طرزِ پیداوار کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کے باعث یہ خطہ وسائل سے مالا مال تھا اور لوگوں کو بے پناہ فراغت اور فرصت (leisure) دستیاب تھی۔ برصغیر کی کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ساتھ شاعری بھی جہاں سماجی عمل سے پیدا ہوئی وہیں دربار میں ہی پل بڑھ کر جوان ہوئی۔ یوں یہ ادب ہر ادب کی طرح اپنے مخصوص حالات اور عہد کی ہی پیداوار تھا۔

شاعر اور شاعری

ادب کے سماجی پیداوار ہونے کے تصور سے دو مغالطے جنم لینے کا اندیشہ سر اٹھاتا ہے۔ اول تو یہ کہ اگر ادب سماجی پیداوار ہی ہے تو پھر ان عُظام کا انفرادی کردار تو معدوم ہو گیا اور دوم یہ کہ مخصوص عہد کی سماجی پیداوار ہونے کے باعث ان سماجی رشتوں کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس ادب کو بھی غیر مؤثر ہو جانا چاہیے۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ سماج بھی افراد سے مل کر ہی بنتا ہے لیکن سماجی عمل خود افراد کو بھی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ادب کے سماجی پیداوار ہونے کا مطلب ادیب کے رتبے اور اس کی انفرادی کاوش اور ریاضت کے کردار کا کم ہو جانا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ سماج اپنے ارتقائی عمل میں جو امکانات پیدا کرتا ہے اس کے لیے سب سے زیادہ ہنرمند، محنت، لگن، جستجو اور ریاضت کرنے والے افراد ہی ان امکانات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے انہیں حقیقت کا روپ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یوں ان عُظام کی عدم موجودگی میں یہ تاریخی عمل سست یا تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔ یوں انفرادی عظمت کا کردار ایک وقت میں فیصلہ کن اہمیت کا حامل بھی ہوتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ مخصوص سماجی حالات سے جنم لینے کے بعد ادب اپنی آفاقی روح کے باعث اپنی تاثیر میں زمان و مکان سے آزاد ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس لیے اس کے بعد کی دنیا کے کسی بھی عہد کا، کوئی بھی زبان بولنے والا شخص اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ یوں ادب بیک وقت تاریخ کے درجے پر بھی فائز ہو جاتا ہے۔ اس لیے وہ لوگ جو آج اس طرح کا ادب تخلیق کرنے یا اس اسلوب کے احیا کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ تاریخ کا پہیہ پیچھے گھمانا چاہتے ہیں۔ ایشیائی طرزِ پیداوار میں بے پناہ فراوانی نے اس ادب کی تخلیق کی راہ ہموار کی تھی۔ وہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا تھا اور انگریز سامراج نے اوپر سے سرمایہ داری مسلط کر کے اس نظام کی شکست و ریخت کو مہمیز دی۔ غالب اسی تاریخی تبدیلی کا شاہد بھی ہے اور اس کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ شاید اسی غیر معمولی اتھل پتھل نے ہی اسے بیدل پر ’غالب‘ آنے کی صلاحیت بھی عطا کی تھی۔ لیکن آج ہم مکمل طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آج فراوانی کی بجائے آبادی کی اکثریت کے لیے بنیادی اشیائے صرف کی قلت اس لیے ہے کہ وہ اسے خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ فراغت ناپید ہے اور ذہنی تناؤ اور مسابقت عروج پر ہے۔ ایسے میں اس شاعرانہ پُر اسراریت (mysticism) کی تخلیق خارج از امکان ہے۔ آج ان نابغوں کا مطالعہ کرنے کا مقصد ان جیسا لکھنا سیکھنے کے لیے نہیں بلکہ ان کی طرح اپنے عہد میں سماجی افادیت کا حامل حقیقی ادب تخلیق کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہونا چاہیے۔ آج یہ سماج جس روحانی اذیت اور کرب سے دوچار ہے، حقیقی اور زندہ و پائندہ ادب اس اذیت سے چھٹکارا دلانے میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

ادب کی منڈی

اگر آج شاعر کی سماجی حیثیت کا 200 سال قبل کے برصغیر میں سماجی حیثیت سے موازنہ کیا جائے تو زمین اور آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ 19ویں صدی تک شاعر کا سماجی مقام بہت بلند تھا۔ اس سماج میں ذہنی پیداوار کو سماجی پیداوار کا لازمی اور افضل حصہ اور حقیقی سرمایہ گردانا جاتا تھا۔ آج سرمایہ داری نے ہر شے کی طرح ذہنی پیداوار کو بھی اجناس سازی (commodification) میں تبدیل کر دیا ہے اور یوں شاعر کو اپنی بقا کے لیے ایسا ادب پیدا کرنا پڑ رہا ہے جو دیگر اجناس کی طرح خریدا اور بیچا جا سکے۔ یوں تو امریکی سامراج کے ابھار سے ہی ادب میں کنزیومر ازم کا غلبہ ہونا شروع ہو گیا تھا مگر اب یہ فتنہ اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ لیکن تمام قنوطی تجزیوں اور بکاؤ شور و غل کے باوجود ادب اور ادیب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں اپنے بنیادی جوہر کو بچا کر تاریخ کے اس اہم موڑ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ادبی افق پر ایسے بہت سے ’ستارے‘ جگمگا رہے ہیں جن کو اصطلاح کے حقیقی معنوں میں ادیب نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کی تمام تر جگمگاہٹ کے نیچے حقیقی ادب کی مزاحمت مری نہیں بلکہ آج بھی زندہ ہے۔ قنوطی دانشور صرف حاوی رجحانات کو دیکھ کر ادب کے تاریک مستقبل کا عندیہ سنا رہے ہیں، وہ صرف نابغوں (جینیئس) کی موجودگی یا عدم موجودگی کی بنیاد پر ہی سارے ادبی منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ ایک میکانکی طریقہ ہے۔ وہ اس پراسیس کی مقداری جزیات کو دیکھنے کے اہل ہی نہیں ہیں۔

مشاعرہ اس خطے کی ثقافتی روایات کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ اِن دنوں اِس نے باقاعدہ ایک صنعت کی حیثیت حاصل کر لی ہے، تقریب سازی (event management) ایک باقاعدہ پیشہ بن چکی ہے اور این جی اوز کی اس شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نے شاعروں میں اس صنعت کے کل پرزے بننے کی دوڑ تیز تر کر دی ہے۔ مقبول شعرا جن کی ’طلب‘ زیادہ ہے، ان کے نرخ بھی سرمایہ دارانہ منڈی کے اصولوں کے تحت مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اب ہمارے قنوطی دانشور یہاں بھی چیختے، چلاتے نظر آتے ہیں۔ اوہ یہ دیکھو ادب کا جنازہ نکل رہا ہے، وہ دیکھو زبان رحلت فرما گئی وغیرہ وغیرہ۔ کچھ شاعر جو اس دوڑ میں مسابقت کی اہلیت نہیں رکھتے وہ بھی ان قنوطی دانشوروں کے ہمنوا بن جاتے ہیں۔ حقیقت میں زیادہ ’شور‘ مچا کر وہ اس صنعت کے ’گاڈ فادرز‘ کی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں۔ جونہی خود انہیں کسی مشاعرے کا دعوت نامہ موصول ہوتا ہے تو سر کے بل دوڑتے ہوئے حاضر ہو جاتے ہیں۔

بائیں بازو میں بھی جس طرح ایک وقت میں متوازی سینیما بہت اہم اور حقیقی آرٹ کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا، اسی طرح آج کل مشاعروں کو کوسنا، پیٹنا بھی ایک روایت بن چکی ہے اور وہ نوجوانوں کو وہی گھسا پٹا وعظ سنانے میں لگے رہتے ہیں کہ یہ سب بکواس ہے، مشاعروں سے بچو اور گوشہ نشینی میں ’حقیقی‘ ادب تخلیق کرتے رہو۔ اصل میں متوازی سینیما مزاح کا ایک طریقہ نہیں تھا بلکہ اصل لڑائی سے فرار کا راستہ تھا۔ آپ لڑائی کے میدان کا تعین خود نہیں کر سکتے، جہاں میدان سجتا ہے، وہیں جا کر اپنا ہنر آزمانا پڑتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کمرشل سینیما نے نام نہاد متوازی سینیما سے زیادہ اچھی اور شاندار فلمیں بنائیں۔ خیر یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے، لیکن ایک مثال ضرور ہے، جس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ ان غیر اہم لوگوں کو بالکل بھی توجہ نہ دیں۔ اس لیے یہ بحث اہم نہیں ہے کہ مشاعرہ پڑھنا چاہیے یا نہیں، اہم یہ ہے کہ آپ کیا تخلیق کر رہے ہیں اور آپ کے پاس کہنے، لکھنے اور سنانے کو کچھ ہے بھی یا نہیں۔ اگر آپ کے پاس سماجی افادے کا حامل کچھ ہے تو اسے سوشل میڈیا اور مشاعروں سمیت ہر ممکنہ پلیٹ فارم کے ذریعے عوام تک پہنچانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

البتہ کچھ سنجیدہ شعرائے کرام کا مزاج ایسا ہوتا ہے کہ وہ واقعی مشاعرے وغیرہ سے بیزاری اور اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں، ان کا عزت اور احترام اپنی جگہ لیکن مشاعرے کی روایت اپنی تمام تر سرمایہ دارانہ روش کے باوجود بالعموم ایک صحت مند روایت ہے اور اس کے حتمی طور پر اس صنعت کے گاڈفادرز اور ریاستی پالیسی سازوں کی توقعات کے الٹ اثرات مرتب ہوں گے۔ سینکڑوں اور بعض اوقات ہزاروں کی تعداد میں لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں اور طلبا و طالبات کا ایک جگہ جمع ہونا عہدِ حاضر میں بذاتِ خود ایک راست اور مثبت پیش رفت ہے۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ رہے ہیں کہ لوگ کسی بھی مقصد سے جمع ہوں، اپنے دکھ، درد بانٹنا شروع کر دیتے ہیں اور بات چلتی ہے تو پھر دور نکل ہی جاتی ہے۔ اس پراسیس میں خود ہی چھانٹی کے ذریعے غیر معیاری ادب مسترد ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس لیے سنجیدہ لکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ پاپولر شعراء سے حسد اور مسابقت کی سوچ کی بجائے ثابت قدمی سے اپنی ریاضت جاری رکھیں، ان کی کاوشیں از خود اس دباؤ میں اضافہ کر رہی ہیں جس سے پاپولر شعراء بھی زیادہ دیر خود کو بچا نہیں پائیں گے۔ یا تو وہ حقیقی عوامی ادب تخلیق کرنے پر مجبور ہوں گے یا پھر تاریخ میں محض ’مسخروں‘ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

ایسا نہیں ہے کہ ان تمام پاپولر شعرا میں حقیقی ادب کی تخلیقی استعداد ہی نہیں ہے بلکہ وہ اس صنعت کے زیرِ اثر جو کچھ تخلیق کر رہے ہیں اسے ہی عوامی ادب اس لیے سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ان کی شہرت، مانگ اور آمدن میں اضافے کا باعث ہے۔ لیکن ان میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو سنجیدہ تخلیق کار ہیں، لیکن وہ صرف وہی مشاعروں میں پیش کرتے ہیں، جس کی فوری مانگ ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ میرے حلقہ احباب میں بھی شامل ہیں، انہیں بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ ادب بھلے ہی ان کا پیشہ ہی کیوں نہ ہو، یہ ایک تاریخی ذمہ داری بھی ہے۔ سرمایہ دارانہ منڈی میں رسد کو کنٹرول کر کے مانگ کی از سرِ نو تعیین بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ شعرائے کرام جو خود کے لیے یا حلقہ احباب کے لیے لکھتے ہیں، ان پر فرض ہے کہ وہ اسے بھی اس منڈی میں متعارف کرواتے رہا کریں اور یوں اجتماعی ذوق کی افزودگی میں اپنا کردار ادا کریں، اس سے بھلے ہی وقتی طور پر ان کی ’آمدن‘ کم ہونے کا اندیشہ ہی کیوں نہ ہو۔ کارل مارکس کی کیا شاندار بات یاد آ گئی کہ لکھاری کو زندہ رہنے اور لکھنے کے لیے تو کمانا چاہیے لیکن کمانے کے لیے زندہ رہنا اور لکھنا نہیں چاہیے۔ اگر کوئی لکھاری ایسا کرتا ہے تو یہ تاریخی جرم ہے جو خود اپنی تخلیقیت پر اور ادب کی روح پر حملہ آور ہونے کے مترادف ہے۔

ادبی منظر نامہ

یہ ہماری خواہش ہی نہیں بلکہ اب ایک حقیقت بھی ہے کہ ادب کی گھائل روح کے زخم بھرنا شروع ہو گئے ہیں اور شاعروں اور ادیبوں کی ایک نئی اور تازہ دم پرت اپنے اوائل شباب میں ادب کی اس کموڈیفیکیشن کے خلاف برسرِ پیکار نظر آ رہی ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگ سوشل میڈیا کو اس مزاحمت کے اوزار کے طور پر بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ میں نے پہلے کہیں غیر سیاسی ادب کی بات کی تھی، تجزیاتی اعتبار سے وہ بات ضروری تھی لیکن واقعاتی اعتبار سے اب صورتحال اس کے بالکل الٹ ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ زیادہ تر نوجوان شعراء کے سیاسی میلان (politicization) میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بحیثیت مجموعی شاعری میں فروعی اور حقیقت پسندانہ ادب کا باہمی مقداری تناسب تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ خواتین شعرا بھی سماجی مسائل پر کھل کر قلم کشائی کر رہی ہیں۔ خاص طور پر پاکستانی ریاست کے حالیہ بحران نے حکمران طبقے کو مکمل طور پر عریاں کر دیا ہے اور نئی نسل کو اب اس سیاسی شطرنج کے سارے پیادوں کی تمام چالیں سمجھ آنا شروع ہو گئی ہیں اور یہ بھی سمجھ آ رہا ہے کہ ان پیادوں کی ڈوریں کن مداریوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اس نسل کو اپنے نمائندہ سیاسی اکابرین کی طرح نمائندہ شاعروں کی بھی تلاش ہے۔ اس سفر میں وہ وقتی طور پر بھلے ہی بھٹک جائیں لیکن جو سفر کرتے ہیں، وہی جانتے ہیں کہ بعض اوقات کوتاہی ہو جاتی ہے اور مسافر غلط موڑ بھی مڑ جاتے ہیں لیکن اس سے سارا سفر غلط نہیں ہو جاتا۔ اس وقت زیادہ تر مزاحمتی عناصر سیاسی افق پر ’کمتر برائی‘ کے اصول کے تحت تحریک انصاف کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ عمران خان کے جیل میں ہونے اور پارٹی کے زیرِ عتاب ہونے کے باعث یہ ایک فطری امر ہے۔ لیکن کیا یہ اس سفر کا آخری اور فیصلہ کن موڑ ہے۔ ہرگز نہیں، ابھی تو یہ محض ایک نئی شروعات ہے۔ اس سفر کے خوشگوار اور نا خوشگوار تجربات کے امتزاج سے یہ نئی نسل جہاں نئے سیاسی رہنما تخلیق کرے گی وہیں اپنے نمائندہ شاعر بھی خود تخلیق کرے گی۔ آپ سب دوستوں میں اس نمائندگی کی خواہش بھی موجود ہے اور صلاحیت بھی، جو کوئی بھی جمالیاتی معیار کو تج کر ادبی افق پر پاپولر اور جگمگاتے ’ستاروں‘ کے طلسم کی جکڑ میں آئے گا، یہ کارواں اسے روندتا ہوا آگے نکل جائے گا اور جو خود اپنے فن سے مخلص اور وفادار ہو گا وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ادب تخلیق کرنے کا اعزاز حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو گا۔

ریاستی پالیسی ساز بھی اپنے روایتی شاطرانہ انداز اپنا رہے ہیں اور ہر قسم کی سنسرشپ کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا سارے فساد کی جڑ ہے لہٰذا ان دنوں سوشل میڈیا زیر عتاب ہے۔ یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا نے سیاسی کے ساتھ ساتھ ادبی اجارہ داریوں کو بھی کمزور کیا ہے اور نئی آوازوں کی بازگشت اب دور تک سنی جا سکتی ہے لیکن یہ طاقت کے نشے میں بدمست حکام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے سماجی تضادات شدید ضرور ہوئے ہیں لیکن سوشل میڈیا خود ان تضادات کی وجہ نہیں ہے بلکہ ان تضادات کے اظہار کا محض ایک پلیٹ فارم ہے۔ تضادات اپنی جگہ نہ صرف موجود ہیں بلکہ زیادہ بھڑک رہے ہیں اور اگر وہ سوشل میڈیا پر ظاہر نہیں ہوں گے تو پھر کہیں نہ کہیں تو ان کا اظہار بہرحال ناگزیر ہے۔ لیکن ریاست کے تمام حربوں اور حیلوں کے باوجود فیض صاحب کے بقول ’عشاق کے نئے قافلے‘ نکلنا شروع ہو چکے ہیں۔ جن جن ’منہ پھٹوں‘ اور ’سر پھروں‘ پر ریاستی قہر نازل ہو گا، ان کی مقبولیت کم ہونے کی بجائے اور بڑھتی چلی جائے گی۔ آپ سب دوستوں سے درخواست ہے کہ اپنی اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق ان عناصر کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کیجئے، یا کم از کم ان کی مخالفت سے اجتناب کیجئے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ’خاموشی‘ میں ہی عافیت ہے وہ تاریخ سے مکمل طور پر نابلد ہیں۔

کچھ بزرگ بتاتے ہیں کہ جب ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف مزاحمتی تحریک عروج پر تھی تو براہِ راست ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ سنسر شپ بھی مسلط تھی اور تحریر و تقریر کی آزادیاں ناپید تھیں، لیکن سر پھروں کا شور کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا گیا۔ ان دنوں داغ دہلوی کی غزل ’تمہارے خط میں نیا ایک سلام کس کا تھا‘ کسی نے گائی تو بہت مقبول ہو گئی۔ کسی کاسہ لیس نے حکام بالا کو انتباہ کی کہ عالی پناہ اس غزل کا ایک مصرعہ آپ سرکار کے خلاف جاتا ہے، وہ مصرعہ تھا کہ ’مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا‘ کہا جاتا ہے کہ اس غزل پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی، حالانکہ وہ ایک روایتی، رومانوی غزل تھی۔ اسی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ریاستی حکام کا حسِ مزاح زیادہ اچھا نہیں ہوتا۔

آج تو صورتحال اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے اور ریاستی اشرافیہ شدید وسوسوں اور بے یقینی کا شکار (paranoid) ہے۔ آنے والے دنوں میں اس میں کمی آنے کی بجائے مزید شدت آئے گی۔ اور یہ حکمران اپنے سائے سے بھی بدگمان ہونا شروع ہو جائیں گے۔ تو یہ سنسر شپ کی تلوار تو کسی پر بھی گر سکتی ہے، خاموشی ایک خاص وقت تک ہی عافیت کی ضمانت ہو سکتی ہے، وہ وقت شاید گزر چکا ہے، یا گزرنے والا ہے۔ اس کے بعد خاموشی عافیت کی بجائے دعوتِ قہر میں تبدیل ہو جائے گی۔ اب تو قصیدہ گوئی کا دور بھی نہیں رہا۔ شکست خوردہ عناصر مذہبی شاعری میں پناہ لے سکتے ہیں لیکن وہاں جمالیات کا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے مزاحمت کے علاوہ سارے راستے بند ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن اس جمالیاتی سطح کی مزاحمت میں بھی دوست اور دشمن کی درست شناخت کے لیے سب سے کار آمد پیمانہ پھر نظریات ہی ہیں۔

سوچ لو، دیکھ لو

کمیونسٹ نظریات کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ تو غیر فطری ہے۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا 45000 معصوم فلسطینیوں کا قتلِ عام اور نسل کشی عین فطری ہے۔ اسی طرح نسل، مذہب، فرقے اور قوم کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام کی سرپرستی میں دنیا بھر میں جاری مار دھاڑ فطری ہے؟ کیا تمام وسائل ہوتے ہوئے بھی دنیا بھر میں کروڑوں نہیں اربوں انسانوں کا غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندہ رہنا فطری ہے۔ غربت فطری ہے؟ لاعلاجی فطری ہے؟ وبائیں فطری ہیں؟ کیا یہ طبقاتی خلیج فطری ہے جہاں کچھ مٹھی بھر جونکیں انسانی خون پر پلتی ہیں۔ چند بچے سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں اور باقی ماندہ وسیع تر اکثریت جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ حکمران طبقہ اور اس کی عیاشیاں فطری ہیں؟ کمیونزم اس طبقاتی معاشرے کے خاتمے کے علاوہ اور کیا ہے؟ ہم کمیونسٹوں کا دعویٰ ہے کہ اصل تفریق، امتیاز اور جنگ نسلوں، زبانوں اور فرقوں میں نہیں بلکہ امیر اور غریب میں ہے۔ کیا یہ مؤقف غلط ہے؟ کیا یہ ہمارے عہد کی سب سے بڑی سچائی نہیں ہے؟ اور اس کی خوبصورتی اس کے انکار اور مزاحمت میں ہے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2020ء سے لے کر اب تک دنیا کے پانچ امیر ترین لوگوں کی دولت اس لیے دوگنی ہو گئی ہے کیونکہ انہوں نے ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے کمائی کی ہے۔ امریکہ کے حالیہ انتخابات سے لے کر اب تک یعنی صرف پچاس دنوں میں دنیا کے امیر ترین شخص ایلن مسک کی دولت میں ایک سو بیس ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ جیف بیزوس نے ایک ماہ میں چھ کروڑ ستر لاکھ ڈالر کمائے ہیں۔ آپ کوپتہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ 2020ء سے لے کر اب تک، یعنی اسی دورانیے میں جب یہ ارب پتی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے، دنیا بھر میں پانچ ارب لوگ غربت کی دلدل میں دھنس گئے۔ جی ہاں! ایسے ہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایسے ہی کام کرتا ہے۔ وسائل کی نجی ملکیت کے باعث دولت سماج کے رگ و ریشے سے نکل کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر درجنوں لوگ امیر ہوتے ہیں، توان کی کامیابی کو ہمارے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی فضیلت کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ عین اسی اثنا میں کروڑوں نفوس غریب ہو چکے ہوتے ہیں۔ لاکھوں بزرگ قابلِ علاج بیماریوں سے مر چکے ہوتے ہیں۔ ہزاروں حاجت مند خواتین اپنے جسم نیلام کر چکی ہوتی ہیں۔ چائلڈ لیبر کا شکار بے شمار بچے درندگی کا شکار بن چکے ہوتے ہیں۔ جی ہاں! ایسے ہی ہے۔ یہ دونوں مظاہر لازم و ملزوم ہیں اور اسی لیے مالک اور محروم کے تضادات ناقابلِ مصالحت بھی ہیں۔ میر تقی میر بہت گھاگ تھا، وہ 250 سال پہلے جب سرمایہ داری کا یہاں محض آغاز ہی ہوا تھا، تبھی اس نظام کی سچائی کو جان گیا تھا اور اس نے ایک سچے نابغے (جینیئس) کی طرح اس سچائی کو رقم کر دیا:

امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے

پاکستان کے بھی تمام تر مسائل اسی سرمایہ دارانہ نظام کے مرہونِ منت ہیں۔ آپ اپنے محلے، شہر، گاؤں، دفاتر اور اداروں کے تجربات سے اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں؟ یہاں بھی امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ادبی منظر نامہ بھی سرمایہ دارانہ قوائد و ضوابط کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ جہاں بے شمار سچے فنکار عزت کی روزی روٹی کو ترس گئے ہیں اور چند کم ظرف جگہ جگہ چھلکتے نظر آتے ہیں۔ ہم کمیونسٹ اس سفاکانہ غیر فطری اور غیر تعقلی سرمایہ دارانہ نظام، اس کے جبر و استحصال سے انکار کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام محنت کش طبقے کی قیادت میں ایک انقلاب برپا کر کے اس غیر فطری نظام کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ ساری انسانی تاریخ انقلابات کی تاریخ ہے۔ جب ہمارے آباؤ اجداد ایسا کرتے آئے ہیں تو ہم اور ہماری اولادیں ایسا کیوں نہیں کر سکتیں۔ ادب کی ساری تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ادب بھی اس طبقاتی تسلط کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ ہم کمیونسٹ صرف غربت کے خاتمے کی ہی نہیں، صرف روٹی اور روزگار کے حق کی ہی نہیں بلکہ تہذیب و تمدن کو بربریت سے بچانے کی لڑائی بھی لڑ رہے ہیں۔ یہ طبقاتی جنگ ہے۔ یہ ظالم اور مظلوم کے مابین فیصلہ کن معرکے کی تیاری ہے۔ اس میں غیر جانبداری ظالم کی طرف داری کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ ہم کمیونسٹوں کا نعرہ ہے۔ ’انقلاب کے لیے فن اور ادب کی مکمل آزادی اور فن اور ادب کی مکمل آزادی کے لیے انقلاب‘۔

صاحبانِ ہنر! دیکھ لو، سوچ لو
کیا اگر کیا مگر، دیکھ لو سوچ لو
نوجواں نسل کے سینئہ چاک میں
برگزیدہ سبھی زخم روشن ہوئے
دخترِ وقت کی زرد پوشاک میں
سرخ لمحوں کے موتی مزین ہوئے
ہاتھ دو ہاتھ میں، تلخ حالات میں
پھر سے صف بن گئی، پھر سے رَن پڑ گیا
خیمئہ شام میں، دامنِ رات میں
نشترِ صبحِ نو دیکھیے گڑ گیا
پھر غزلخوانِ فردا کی دہلیز پر
مجلسِ خواب ہے، شورِ جمہور ہے
جو قلم ڈھال ہے، اس کو تلوار کر
پھر نیا معرکہ اب ذرا دور ہے
اُس طرف لشکرِ مال و زر ہے رواں
وہ طرف سر بسر ہوس انگیز ہے
اِس طرف طبقئہ در بدر ہے رواں
ہاں مگر حوصلہ تند ہے، تیز ہے
جو بھی ہے اُس طرف وہ ہمارا نہیں
بیچ کا راستہ اب گوارا نہیں
ہو اُدھر یا اِدھر دیکھ لو، سوچ لو
کیا اگر کیا مگر دیکھ لو، سوچ لو
صاحبانِ ہنر دیکھ لو، سوچ لو

Comments are closed.