|تحریر: آدم پال|
گزشتہ چند دنوں سے پورے ملک میں تحریک لبیک کو ایک دفعہ پھر نئی قیادت میں بھرپور انداز میں لانچ کیا جا رہا ہے۔ کوئی ٹی وی چینل ایسا نہیں جس کی تمام اہم خبروں اور تجزیوں میں ریاستی پشت پناہی سے جاری اس لانچنگ کا ذکر نہ کیا جا رہا ہو، کوئی اخبار ایسا نہیں جس کی تمام سرخیوں میں یہ خبریں گردش نہ کر رہی ہوں اور کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو اس بحث میں برھ چڑھ کر حصہ نہ لے رہی ہو۔ جیسے کوئی کمپنی اپنا نیا صابن یا شیمپو لانچ کرتے وقت بڑے پیمانے پر تشہیری مہم کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور تمام اخبارات اور ٹی وی کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام کونے کھدروں میں پوسٹر اور بینر لگوائے جاتے ہیں اسی طرز پر پاکستان میں ایک نئی سیاسی پارٹی لانچ کی جاتی ہے۔ اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کی لانچنگ کا پورا عمل اس ملک کے محنت کش بھگت چکے ہیں جبکہ ماضی میں ایم کیو ایم سے لے کر نون لیگ تک بہت سی سیاسی پارٹیاں ریاستی اداروں کی جانب سے لانچ کی گئیں اور انہیں اس ملک کے عوام پر مسلط کیا گیا۔
لیکن یہاں یہ فرق کرنا ضروری ہے کہ حکمران طبقے کی جانب سے لانچ کی گئی پارٹیوں کو عوام کے کسی حصے کی حمایت ملتی ہے یا نہیں، اورساتھ ہی یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ریاستی اداروں کو اس قسم کے اقدامات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے اور عوام کے ٹیکسوں کو استعمال کر کے اور ریاستی اداروں کی پوری قوت استعمال کر کے ایسے ہتھکنڈے کیوں استعمال کیے جاتے ہیں۔
ابھی تک تحریک لبیک کو کسی بھی جگہ عوامی حمایت نہیں مل سکی اور نہ ہی اس کی قیادت تمام تر تشہیری مہم کے باوجود کوئی قابل ذکر اکٹھ کر سکی ہے۔ اس سے قبل فیض آباد دھرنے میں بھی بڑا اکٹھ کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اس کے لیے بہت سے ریاستی وسائل استعمال بھی کیے گئے تھے۔ ایک حاضر سروس جنرل مظاہرین میں پیسے تقسیم کرتا ہوا بھی نظر آیا تھا اور اس کی ویڈیو بہت سے لوگوں نے پورے ملک میں دیکھی بھی تھی۔ اس وقت بھی زیادہ بڑا اکٹھ مسلسل جاری نہیں رہ سکا تھالیکن اس کے باوجود اس مرکزی چوک کورکاوٹوں کے ساتھ بند رکھنے میں کامیابی کی وجہ ریاستی پشت پناہی تھی۔ اس دفعہ بھی ریاستی پشت پناہی کی بہت سی مثالیں پورے ملک میں موجود ہیں۔ درجن یا دو درجن افراد کے ساتھ مل کر مصروف ترین شاہراہوں کو بند کرنا یا پولیس ودیگر ریاستی اہلکاروں کو زد و کوب کرنا یا انہیں اغوا کرنا اور کچھ کو قتل تک کر دینا صرف اسی وقت ممکن ہے جب تک ان افراد کو مکمل ریاستی پشت پناہی کی ضمانت دے دی گئی ہو۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی یا اس کے کارکن ریاستی اداروں کی آشیر باد کے بغیر یہ اقدام نہیں اٹھاتے۔ اسی طرح ریاستی اداروں کی ہی آشیر باد سے انہیں مختلف شہروں کی انجمن تاجران سے بھی حمایت لے کر دی گئی تا کہ درمیانے طبقے میں اس پارٹی کی حمایت بنانے کی کوشش کی جائے اور آئندہ سیاسی منظر نامے پر اس ہتھکنڈے کو زیادہ مؤثر انداز میں استعمال کیا جا سکے۔ کالعدم قرار دینے سے بھی اس کی شہرت میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ فیصلہ بھی کچھ عرصے بعد واپس لیا جا سکتا ہے یا عدالت سے رد ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کو برقرار بھی رکھا جا تاہے تو نئے نام سے اس کے کام کا آغاز کروا دیا جائے گا جو اس سے پہلے بہت سی تنظیموں کے ساتھ ہو چکا ہے۔
فضل الرحمان اور دیگر رجعتی سیاسی عناصر سے بھی اس پارٹی کو حمایت ملنا واضح کرتا ہے کہ اس پارٹی کو ملک گیر سطح پر مشہور کروانے کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد کس قدر بے صبرے ہو چکے ہیں اور اپنے قیمتی اثاثوں کی جو شہرت پچھلے عرصے میں بنائی تھی اس کا نقاب بھی بیچ چوراہے میں لا کر اتار دیا ہے۔ پی ٹی ایم کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا اعلان کرنے اپوزیشن کے اس قائد کا عوام دشمن کردار ایک دفعہ پھر واضح ہو گیا ہے۔ فضل الرحمان کو اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کی قیادت کا کردار سونپا گیا تھا اور وہ انتہائی مکاری سے ان سیاسی پارٹیوں سے بڑا سیاسی قد بنانے کی کوششوں میں مصروف تھا اور اس حوالے سے اپنے نظریاتی مخالفین کو بھی گلے لگا چکا تھا۔ اس دوران اس نے پشتون تحفظ تحریک کی قیادت سے بھی ملاقاتیں کیں۔ پی ٹی ایم کی یہ تحریک سابقہ فاٹا کے علاقوں میں طالبان کی دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں کی بربادی کے بعد کے حالات کے خلاف احتجاج کر رہی تھی۔ فضل الرحمان آغاز سے ہی طالبا ن کی سرپرستی کرتا رہا ہے اس لیے اس کا پی ٹی ایم سے دوستانہ رویہ سب کے لیے حیران کن تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے کرم فرماؤں سے سخت ناراض ہے اور ان کو مزہ چکھانے کے لیے پی ٹی ایم سے راہ و رسم بڑھا رہا ہے۔ سابقہ فاٹا سے ابھرنے والی اس تحریک کی بنیاد میں ریاستی اداروں کے جبر کے خلاف نفرت بھی موجود تھی لیکن اس کی قیادت بھی انہیں درست راستہ نہیں دے سکی اور اسٹیبلشمنٹ کے انہی مہروں کے ساتھ گٹھ جوڑ میں مصروف ہو گئی جس کے باعث یہ تمام تر برباد پھیلی تھی۔ اسی طرح امریکی سامراج کی ایما پر چلنے والی اس تمام تر دہشت گردی سے لڑنے کے لیے انہوں نے امریکی سامراج سے ہی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جو ان کے نظریاتی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اس علاقے کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ رجعتی قوتوں اورریاستی اداروں کے گٹھ جوڑ کی بنیادیں کتنی گہری ہیں اور یہ کہ تمام رجعتی اور عوام دشمن قوتیں ریاستی اداروں اور سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی کے بغیر ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتیں اور عوامی غم و غصہ اور نفرت انہیں کچل کر رکھ دے گا۔ طالبان کو بنانے والوں اور سرپرستوں کو آج ہر کوئی جانتا ہے اور افغانستان سے لے کر پختونخوا تک ان سے محنت کش عوام کی نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اب تو وہ ایک دفعہ پھر امریکی سامراج کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ ایسے میں امریکی سامراج کے حامیوں اور طالبان کے ہمدردوں میں بھی رقابت اور محبت کا کھیل جاری ہے جبکہ عوام اس خونی چکر سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فضل الرحمان اور دیگر رجعتی قوتوں کے ساتھ بغل گیر ہونے والی قیادتوں کی حمایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ملک کے دیگر علاقوں میں بھی رجعتی قوتوں کے ساتھ ریاستی اداروں کے گٹھ جوڑ کی حقیقت بھی عوام پر عیاں ہو چکی ہے اور وہ ریاستی اداروں کی نئی پارٹی کی لانچنگ کے طریقہ کار سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں۔ حالیہ عرصے میں تحریک انصاف کا تجربہ اس حوالے سے بہت سبق آموز رہا ہے۔ تحریک انصاف کی لانچنگ کے دوران بھی پورے ملک میں دھرنے اور احتجاج کروائے گئے، پارلیمنٹ کا گھیراؤ بھی کروایا گیا جہاں چند ہزار افراد کے ساتھ تمام نقل و حمل مفلوج کر دی گئی۔ اس دوران طاہر القادری کی پارٹی اور مدرسوں کے طلباء اور ملازمین کو بھی بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا تا کہ تحریک انصاف کی عددی کمزوری کو کسی طرح پورا کیا جا سکے۔ اس حوالے سے پاکستانی میڈیا پر تو یہ خبر شائع نہیں ہو سکی لیکن عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ سادہ سی خبر سامنے آ گئی کہ طاہر القادری کے حامی گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور ان کے خاندان کے افراد کو دیہاڑی پر اپنے ساتھ بھرتی کرتے ہیں اور انہیں تقریریں سننے کے الگ پیسے دیے جاتے ہیں تاکہ لیڈر کی شعلہ بیانی کے دوران مجمع قائم رہ سکے۔ گو کہ ان تقریروں کے بعد ان افراد نے زیادہ پیسوں کا مطالبہ کیا تھا۔ تحریک انصاف کو 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے ہی حکومت میں لانے کا منصوبہ تیار ہو چکا تھا جسے اب ہر کوئی جانتا ہے۔ لیکن اس منصوبے میں واحد عنصر جس کی کمی تھی وہ اس پارٹی کی عوامی حمایت تھی، اس کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا گیا۔ تشہیری مہم کو نئی انتہاؤں تک لے جانے کے ساتھ ساتھ عوام کو ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں تک کا جھانسہ دینے کی کوشش کی گئی اور اسی طرح کے بہت سے سبز باغ دکھائے گئے۔ لیکن اس کے باوجود الیکشن والے دن اس ملکی تاریخ کی بد ترین دھاندلی بھی کرنا پڑ گئی جو ظاہر ہے چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔ یہی ظاہر کرتا ہے کہ ریاستی ادارے پوری قوت اور وسائل خرچ کر کے بھی محنت کش عوام کو اس پارٹی کی حمایت پر آمادہ نہیں کر سکے۔
تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد اس پارٹی کی مقبولیت کی جو افسوسناک حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن اس دوران دیگر تمام سیاسی پارٹیاں بھی اپنی حمایت کھوتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ سال سے اپوزیشن پارٹیوں کے پھٹے ہوئے غباروں میں دوبارہ ہوا بھرنے کے لیے پی ڈی ایم کو بنوایا گیا اور اس کے جلسے پورے ملک میں رکھے گئے تاکہ عوام کو کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا سکے لیکن اب اس کا بھی شیرازہ بکھر چکا ہے۔ اس حوالے سے ریاستی اداروں کو محنت کش عوام کی حقیقی تحریکوں کے رستے میں رکاوٹیں ڈالنے اور اپنے سیاسی مہرے اتارنے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی تھی خاص طور پر اس وقت جب ملک میں محنت کش طبقے کی تحریکیں زور پکڑتی جا رہی تھیں۔ اس حوالے سے کسی قسم کی بھی تاخیر اس نظام اور اس کے رکھوالوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتی تھی اس لیے تحریک لبیک کی لانچنگ نئی غیر تربیت یافتہ قیادت کے باوجود ضروری ہو گئی تھی جس پر عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔
اس وقت ملک میں کرونا وبا نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور صحت کا نظام زمین بوس ہو چکا ہے۔ لاہور شہر میں ہر روز درجنوں ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور ممکن ہے کہ یہ تعداد بڑھ کر سینکڑوں تک چلی جائے۔ ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہی صورتحال ہے اور لاکھوں زندگیاں داؤ پر لگ چکی ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کے حکمرانوں نے ویکسین خریدنے کی کوشش بھی نہیں کی اور نہ ہی انہیں عوام کی زندگیوں سے کسی بھی قسم کی کوئی دلچسپی ہے۔ لاک ڈاؤن اور دوسرے اقدامات بھی صرف اس لیے کیے جاتے ہیں تاکہ صورتحال ان کے کنٹرول سے باہر نہ ہو جائے۔ لیکن اب مکمل لاک ڈاؤن، جس کی اشد ضرورت ہے، نہیں کیا جا رہا کیونکہ حکمران عوام پر ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران کروڑوں لوگ بھوک کا شکار ہوتے ہیں جن کو راشن پہنچانے میں حکمران ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح پہلے ہی کروڑوں بے روزگار ہو چکے ہیں اور ان کو روزگار کی فراہمی میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔ روٹی اور علاج جیسی بنیادی ضروریات بھی جو ریاست عوام کو نہ فراہم کر سکے اس کے خلاف نفرت اور حقارت کا ابھرنا نا گزیر ہے اور وہی عمل اس وقت ملک میں نظر آ رہا ہے۔ اس دوران حکمرانوں نے عوام پر مہنگائی کے بد ترین حملے کیے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ کیا گیا ہے جبکہ آٹے، چینی سمیت بہت سی بنیادی اجناس کی قیمتیں سو فیصد سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہیں جس کے باعث کروڑوں افراد بھوک کے باعث موت کے منہ کی جانب سرک رہے ہیں۔ زراعت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے اور لاکھوں کسان دیوالیہ ہو رہے ہیں جبکہ صنعتوں کی بندش کے باعث لاکھوں مزدور بے روزگار ہیں۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل بھی پوری قوت کے ساتھ جاری ہے اور موجودہ حکومت نے لاکھوں افراد کو جبری برطرف کیا جبکہ حقیقی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے۔ دوسری جانب حکمرانوں کی عیاشیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں اور ویکسین پارٹیوں کی ویڈیوز عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہیں جہاں گھر کے تمام افراد اپنے ڈرائنگ روم میں ویکسین لگوا رہے ہیں جبکہ محنت کشوں کو ہسپتالوں کے دھکے کھانے کے باوجود ویکسین سمیت کسی بھی قسم کا علاج میسر نہیں، درحقیقت ہسپتالوں کی نجکاری کر دی گئی ہے اور عوام کے لیے اب کسی بھی قسم کی صحت کی سہولت موجود ہی نہیں۔
اس تمام عمل میں محنت کشوں کی تحریکیں بھی ابھر رہی ہیں جن کی میڈیا پر کسی بھی قسم کی کوئی کوریج نہیں کی جاتی اور ان کی خبریں دکھانے پر مکمل پابندی عائد ہے۔ سرکاری اداروں کے ملازمین کے جتنے بڑے اکٹھ گزشتہ چند ماہ میں ہوئے ہیں ان کے سامنے تحریک لبیک کے احتجاج نہ ہونے کے برابر ہیں۔ محنت کشوں کی تحریکوں میں مہنگائی، بے روزگاری کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے اور حکمران طبقے کے عوام دشمن کردار کو سامنے لایا جاتا ہے، اسی طرح اجرتوں میں اضافے اور دیگر بنیادی مطالبات کو سامنے لایا جاتا ہے۔ اسی طرح تمام سیاسی پارٹیوں کو رد کرنے کا عمل بھی جاری ہے اور واضح ہو چکا ہے کہ محنت کش کسی بھی مروجہ سیاسی پارٹی سے کسی بھی قسم کی امید نہیں رکھتے اور نہ ہی ان میں اپنے مسیحا تلاش کرتے ہیں۔ یہ صورتحال حکمران طبقے کے لیے انتہائی خوفناک ہے اور وہ سیاست جیسے اہم ترین عمل کو محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں کبھی بھی نہیں جانے دے سکتے۔ محنت کش طبقے نے اگر سیاست کے میدان میں قدم رکھ لیا اور معاشی مطالبات سے نکل کر سیاسی مطالبات کی جانب بڑھ گئے تو حکمرانوں کی حاکمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ گزشتہ عرصے میں تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں کی لانچنگ بھی اسی لیے ممکن ہو سکی تھی کیونکہ محنت کش طبقے کی کوئی بڑی تحریک ملک میں موجود نہیں تھی اور عوامی تحریکوں کی عدم موجودگی کے باعث ریاستی اداروں کے جبر میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ محنت کش طبقے کی اس خاموشی کی وجہ بھی اس کی اپنی روایتی پارٹیوں اور لیڈروں کی غداری تھی جس سے محنت کش اہم نتائج سیکھ کر اب آگے بڑھ چکے ہیں۔ لیکن حکمران طبقہ بھی انہیں اپنی سیاسی قوت کے اظہار کی جانب بڑھنے سے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
تحریک لبیک کی حالیہ تحریک میں موجودہ حالات کے حوالے سے کوئی بھی مطالبہ شامل نہیں اور ان کا سب سے اولین مطالبہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی ہے۔ اس مطالبے کو ردکرنے کے پیچھے حکومت یہ دلیل پیش کر رہی ہے کہ اس کے یورپ سمیت پوری دنیا سے سفارتی تعلقات ختم ہو جائیں گے۔ درحقیقت پاکستان سامراجی ممالک کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور یہاں موجود سرمایہ دارانہ نظام بھی عالمی سطح پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے اس ملک کے حکمران عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کوئی بھی قدام نہیں اٹھا سکتے۔ حکمرانوں کی تمام تر جائیدادیں مغربی ممالک میں موجود ہیں اور درحقیقت یہاں پر لوٹ مار اور بربادی پھیلا کر یہ لوگ اپنی جائیدادوں اور اگلی نسلوں کو مغربی ممالک میں ہی آباد کرتے ہیں۔ اس لیے یہ حکمران فرانس سے سفارتی تعلقات ختم نہیں کریں گے لیکن دوسری جانب تحریک لبیک کو بھی کسی طرح منا لیا جائے گا۔ کچھ سال قبل ڈنمارک کے حوالے سے ایسے ہی مطالبات سامنے آئے تھے لیکن اس کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات ختم نہیں ہوئے اور اس واقعے کو بھی آج لوگ بھلا چکے ہیں۔ اسی طرح فیض آباد دھرنے کے مطالبات بھی تسلیم نہیں ہوئے تھے لیکن یہ خبر ضرور اُڑی تھی کہ کروڑوں روپے کی رقم اور کئی ایکڑ زمین کی فراہمی کے عوض وہ دھرنا ختم کیا گیا تھا۔ یہی کچھ اس دفعہ بھی ممکن ہے اور حتمی مقصد جو کہ تحریک لبیک کو ملکی سطح پر مقبول کروانے کا تھا وہ کسی نہ کسی طرح حاصل کیا جائے گا اور آنے والے عرصے میں اس مقبولیت کو مختلف حربوں سے استعمال کیا جائے گا۔ پہلے ہی فراڈ الیکشنوں میں اس پارٹی کے ووٹوں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے اور اسے ملک بھر میں ایک سیاسی قوت بنانے کی پیش بندی نظر آ رہی ہے۔ یہ الیکشن کیسے ہوتے ہیں، ووٹوں کی گنتی کیسے ہوتی ہے اور انتخابات کے سارے عمل کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے، یہ سب اس ملک کے عوام کے لیے محض ایک لطیفہ ہی رہ گیا ہے۔ ایسے الیکشنوں کے بعد بننے والی پارلیمنٹ کا حال بھی یہی ہوتا ہے جو بقول مریم نواز کے اسلام آباد میں تعینات ایک کرنل کنٹرول کرتاہے۔ دوسری جانب سماج کی پچھڑی ہوئی پرتوں میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے ایسی پارٹیوں کی جانب رخ کرتے ہیں جنہیں ریاستی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ کسی بھی علاقے کے جرائم پیشہ افراد اپنے جرائم کوتحفظ دینے کے لیے بھی ایسی پارٹیوں کا حصہ بنتے ہیں اور انہیں افرادی قوت فراہم کرنے کے لیے بھی پورا زور لگاتے ہیں تاکہ اپنی خدمات کے عوض زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کر سکیں۔ درحقیقت اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں میں ایسے ہی جرائم پیشہ افراد براجمان ہیں اور انہیں ہی حکمران طبقہ اپنے مفادات کے لیے استعمال بھی کرتا ہے۔ لیکن یہ سب کاروبار اور اس کی پھیلائی گئی رجعتیت اسی وقت تک جاری رہ سکتی ہے جب تک محنت کش طبقے کی تحریک بڑے پیمانے پر موجود نہ ہو۔دوسری جانب اس رجعتیت کو بھی وسیع تر حمایت حاصل کرنے کے لیے اسٹیٹس کو کے خلاف انتہائی دائیں بازو سے تنگ نظر تعصب کی بنیاد پر حملے کرنے پڑتے ہیں۔ خادم رضوی اپنی تقریروں میں یہی کچھ کر رہا تھا اور عدلیہ کے ججوں اور جرنیلوں سے لے کر سیاسی پارٹیوں کی تمام قیادتوں کو ننگی گالیاں نکال رہا تھا جس کی وجہ سے اس کو ان پرتوں میں کچھ حمایت ملی تھی۔ ماضی میں ایم کیو ایم کا قائد الطاف حسین بھی یہی طریقہ کار استعمال کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے اسے مہاجروں کے درمیانے طبقے میں حمایت ملی تھی لیکن ایک طویل عرصہ مسلسل اقتدار میں رہنے کے بعد وہ ختم ہو چکی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے نواز شریف بھی درمیانے طبقے میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ پردائیں بازو سے حملے کر رہا ہے۔ لیکن اس کی بھی حدود ہیں اور اس تنقید کو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں مقید رکھنے کی کوشش میں ان قیادتوں کا اسٹیبلشمنٹ نوازکردار واضح ہو جاتا ہے۔ محنت کش طبقہ اس نظام سے شدید نفرت کرتا ہے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتا ہے لیکن دائیں بازو کے انتہا پسند لیڈر بھی اس نظام سے باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور اپنی تمام تنقید کو نظام کے ہی تابع رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ان حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے حکمران خود ہی نشان عبرت بنا دیتے ہیں اور نئے مہرے میدان میں اتار دیتے ہیں۔
سیاست میں حکمرانوں کی اس تمام تر بدمعاشی کی بنیادی وجہ محنت کش طبقے کی سیاسی عمل سے بیگانگی ہے لیکن یہ اب اپنے الٹ میں تبدیل ہو رہی ہے اور سیاست کی جانب محنت کش طبقہ بتدریج مائل ہو رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی تحریکوں کے دوران حکمران طبقے کی یہ تمام کٹھ پتلیاں ہوا میں معلق ہو جائیں گی اور عوام کی زندگیوں سے جڑے مسائل پر ہی سیاست ہو گی۔ حکمران طبقے کی تمام تر سیاست کو عوام رد کریں گے اور روٹی، کپڑے، مکان، علاج اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے باہر نکلیں گے۔ یہی یہاں کی سیاست کا مستقبل ہے۔
بہت سے لوگ بنیاد پرست قوتوں کے سماج پر حاوی ہونے کی گردان کرتے رہتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ یہاں پر گزشتہ ستر سال سے ہی حاوی ہیں اور اس ملک کو چلانے کے لیے ان کی خدمات شروع سے ہی حاصل کی جا رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود محنت کش طبقے کی تحریکیں اس حکمرانی کو چیلنج کرتی رہی ہیں اور عوام اپنے حقوق کے حصول کے لیے کئی دفعہ باہر نکلے ہیں۔ لیکن قیادتوں کی غداریاں اور درست نظریات کی عدم موجودگی کے باعث ان رجعتی حکمرانوں کو فیصلہ کن شکست نہیں دی جا سکی اور وہ ہر دفعہ زیادہ بربریت پھیلانے اور محنت کشوں پر مزید حملوں کے ساتھ دوبارہ نمو دار ہوئے ہیں۔ اس عمل میں انہیں تمام سامراجی ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی ہے اور عالمی مالیاتی ادارے بھی اس رجعتی ریاست کی مالی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ بہت سے نادان لبرل اس سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اس رجعتیت اور بنیاد پرستی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کسی بھی صورت ممکن نہیں۔
درحقیقت امریکی سامراج سمیت تمام یورپی ممالک مذہبی بنیاد پرستی کو اپنے اپنے ملک کی مزدور تحریکوں کو کچلنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد مذہبی بنیاد پرستی کا یہ استعمال کئی گنا بڑھ چکا ہے اور ”دہشت گردی“ کے خلاف نام نہاد جنگ سے لے کر مغربی ممالک میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں کے پیچھے بھی یہی مقاصد کار فرما ہیں۔ مغربی ممالک میں ہونے والے بہت سے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے وہاں کی ریاستوں کی پشت پناہی کو رد نہیں کیا جا سکتا جو ایسے وقت میں ہوئے جب ان ممالک میں عوامی تحریکیں حکمرانوں کو چیلنج کر رہی تھیں۔ ایسی صورتحال میں سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اس عفریت سے کسی بھی صورت نجات حاصل نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی سامراجی ممالک سے ان قوتوں کے خلاف بھیک مانگنے سے کوئی مسئلہ حل ہو گا۔ درحقیقت ان سامراجی ممالک کے حکمران جان بوجھ کر مذہبی اقلیتوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان پر تشدد لڑائیوں کا آغاز کرواتے ہیں تاکہ ان کی حکمرانی محفوظ رہ سکے اور ان کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کو روکا جا سکے۔ لڑائی کا آغاز کروانے کے بعد وہ انتہائی ”غیر جانبدار“ بنتے ہوئے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر فریقین میں صلح کی پیشکش کرتے ہوئے اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہیں۔ فرانس کے صدر نے بھی چند ماہ پہلے یہی کچھ کیا جبکہ اس وقت پیلی واسکٹ کی ملک گیر تحریک کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی ہڑتالوں کا طویل سلسلہ جاری تھا جن پر بد ترین پولیس تشدد اور جبرجاری ہے اور مظاہرین کو جھوٹے مقدمات میں سزائیں دی جارہی ہیں اور ان کے مسائل کا حل کسی لبرل حکمران کے پاس نہیں۔آج کے عہد میں لبرل ازم کا یہی منافقانہ اور قابل نفرت چہرہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید خون آلود اور حقارت آمیز ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لیے لبرل ازم اور رجعتی بنیادی پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ بن چکے ہیں۔ مغربی ممالک سے یہ عفریت پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ انڈیا میں کانگریس کی نام نہاد سیکولر حکومت نے مودی کی مذہبی بنیاد پرستی کی راہ ہموار کی تھی جس کا خمیازہ آج یہ پورا خطہ بھگت رہا ہے۔
اس سے نجات کا واحد حل ایک سوشلسٹ انقلاب ہے جو اس سرمایہ ادارانہ نظام کو بنیادوں سے اکھاڑ کرپھینک دے۔ امیر اور غریب کی تفریق کا خاتمہ ہو، سامراجی مالیاتی اداروں اور بینکوں کی غلامی کا مکمل خاتمہ ہو اور ذرائع پیداوار محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت میں ہوں۔ صرف اسی وقت اس سماج سے ہر طرح کے ظلم، جبر اور بربریت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور حکمران طبقے کے سیاسی ہتھکنڈوں سے بھی مکمل نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔