|تحریر: سنگر خان|
سوات اور گرد و نواح میں پچھلے ایک ہفتے سے جاری موسلا دھار بارشوں اور بادل پھٹ برسات کی وجہ سے دریائے سوات اور متعدد برساتی نالوں میں طغیانی آگئی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس صورتحال سے متاثرہ علاقوں میں شانگلہ، مدین، بحرین، بشگرام، تیرات اور سخرہ شامل ہیں۔
شانگلہ میں موسلا دھار بارشوں اور سیلابی ریلوں کے وجہ سے متعدد مکانات تباہ ہوگئے ہیں جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق مجموعی طور پر 13 افراد شدید زخمی ہوگئے ہیں اور زخمیوں اور اموات کی تعداد میں اضافے کے امکانات موجود ہیں۔
سوات کے علاقے مدین اور بحرین میں موسلا دھار بارشوں کے باعث بحرین بازار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ متعدد گھر، دکانیں اور ہوٹل سیلابی ریلے کی زد میں آکر تباہ ہوگئے ہیں۔ سوات کے علاقے بشاگرام میں بادل پھٹ برسات کے باعث گاؤں میں سیلابی ریلے بننے سے سینکڑوں گھروں کو نقصان پہنچا ہے اور اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں 12 افراد زیر آب آکر جاں بحق ہوگئے ہیں۔
مختلف مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کے باعث مضافاتی علاقوں کا مین سوست شاہراہ کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ مختلف جگہوں پر دریا کے اوپر واقع پل پانی کے ساتھ بہہ کر تباہ ہوگئے ہیں۔
سیلابی ریلوں نے دریا کنارے نسب بجلی کے پولز کو گرادیا ہے جس کے باعث ضلع کے بیشتر علاقوں کی بجلی کی فراہمی معطل ہے۔
طبقاتی تقسیم
سرمایہ دارانہ نظام کے اندر آنے والا ہر بحران اور آفت سماج میں موجود طبقاتی تفریق کو عوام کے سامنے عیاں کردیتا ہے۔ ان موسلا دھار بارشوں کی بات کریں تو یہی بارشیں ہوتی ہیں جو سرمایہ داروں، حکمرانوں اور امیر زادوں کے لیے اپنے ساتھ خوشگوار موسم لے کر آتی ہیں مگر ایک غریب اور مزدور پر یہ بارشیں کہر اور غذاب بن کر برستی ہیں۔ اسی بارش سے ایک طرف ایک امیر شخص اپنے بنگلے میں بیٹھ کر مخصوص پکوانوں کے ساتھ لطف اندوز ہورہا ہوتا ہے تو دوسری طرف یہی بارش ایک غریب کو شب بیداری، بے گھری اور فاقے کاٹنے پر مجبور کرتی ہے۔
دریائے سوات، بالائی پہاڑوں کے دامن میں سے گزر کر میدانی علاقوں میں آتا ہے۔ سیلابی ریلوں کے دوران یہ اپنے ساتھ جنگلوں سے قیمتی لکڑیاں بہا کر لے آتا ہے۔ بے روزگاری کے مارے غریب نوجوان سیلابی ریلوں کے دوران دریا کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہاں سے ان قیمتی لکڑیوں کو اکٹھا کر کے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کر سکیں۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک اور موت کے سرکس کی مانند کام ہے جس کے وجہ سے ہر سال درجنوں نوجوان اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
حکومتی بے حسی
ہر سال برسات کے موسم میں یہاں سیلابی صورتحال بنتی ہے اور کچھ مرتبہ یہ سیلابی صورتحال انتہائی خطرناک شکل اختیار کر لیتی ہے۔ 2010ء میں بھی کچھ اسی نوعیت کے سیلاب نے سوات اور گرد ونوح میں تباہی پھیلائی تھی۔ اس وقت عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت نے ریلف پیکج کا اعلان کیا تھا مگر تاحال اس ریلف پیکج سے کوئی بھی محنت کش مستفید نہیں ہوسکا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر ریلف پیکج صرف سرمایہ داروں یا ان کے دلالوں کے لئے ہی ہوتا ہے۔
دریائے سوات میں ہر سال برسات میں طغیانی آتی ہے جسے دریا کے دونوں کناروں پر مضبوط سیفٹی والز کی تعمیر سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ان والز سے دیگر بہت سارے فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں، مگر موجودہ نظام میں ہر منصوبہ حکمران طبقے کی کرپشن کے لیے شروع کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر سال دریا کے کنارے سیفٹی والز کی تعمیر کے منصوبوں کا آغاز کیا جاتا ہے۔ یہ منصوبے ایک تو چند ہی مقامات تک محدود ہوتے ہیں اور ساتھ ہی انجیئنر سے لے کر ایوانوں میں بیٹھے ہوئے نظام کے دلالوں کے لیے کمائی کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ اپنے کمیشنز کے چکر میں ان منصوبوں میں ناقص اور غیر معیاری مواد استعمال کیا جاتا ہے اور پانی کی ایک ہی لہر ان منصوبوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ ایک منصوبہ بند معیشت میں انہی دریاوں کو منصوبہ بندی کے تحت سماج کے فائدے کے لئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے، مگر وہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی ممکن ہے۔ سوشلسٹ انقلاب ہی اس مسئلہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل کا واحد حل ہے۔