تحریر: ولادیمیر لینن(1913ء)
تمام متمدن دنیا میں مارکس کی تعلیمات سے بورژوا علم (سرکاری بھی اور اعتدال پسند بھی) بھڑکتا ہے اور سخت عداوت رکھتا ہے۔ اس کی نظر میں مارکس ازم کیا ہے، ایک ’’مہلک فرقہ‘‘۔اس کے سوا اور کسی قسم کے سلوک کی امید بھی نہیں کی جاسکتی کیو نکہ ایسے سماج میں جس کی بنیاد طبقاتی جدوجہد پر ہو، غیر ’’جانبدار‘‘ سماجی سا ئنس کا پایا جانا ممکن نہیں ہے۔ تمام سرکاری اور اعتدال پسند سا ئنس کسی نہ کسی طرح سے اجرتی غلامی کی وکالت کرتی ہے۔ لیکن مارکس ازم نے تو اس غلامی کے خلاف بے رحم جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اجرتی غلامی کے سماج میں سائنس سے یہ آس رکھنا کہ وہ غیر جانبداری برتے گی، بالکل ایسی ہی نادانی ہے جیسے کار خانہ دار سے اس سوال پر غیر جانبداری کی امید رکھنا کہ سرمائے کا منافع کم کرکے مزدوروں کی اجرت بڑھا دی جا ئے۔
مگر با ت صر ف اسی قدر نہیں ہے۔ فلسفہ کی تاریخ اور سماجی سا ئنس نہایت وضاحت کے ساتھ یہ جتاتی ہے کہ مارکس ازم میں ’’تنگ نظری‘‘ قسم کی کو ئی چیز دور دور موجود نہیں ہے، اس معنی میں کہ وہ کوئی بندھا ٹکا اور جامد نظریہ ہو، ایسا نظریہ جو دنیا کے تمدن کے ارتقا کی شاہراہ سے الگ تھلگ ابھرا ہو۔ اس کے برعکس مارکس کی بصیرت خاص طور پر اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے ان سوالوں کا جواب تیار کیا جو عالم انسانیت کے سب سے ممتاز دماغوں کی جانب سے اٹھا ئے گئے تھے۔مارکس کی تعلیمات فلسفے، سیاسی معاشیات (پو لیٹیکل اکانومی)اور اشتراکیت (سوشلزم) کے سب سے بڑے نما ئندوں کی تعلیمات کا بر ا ہ راست او رفوری تسلسل ہیں۔
مارکس کا نظریہ طاقتور ہے کیونکہ وہ سچا ہے۔ یہ نظریہ مکمل اور مربوط ہے او ر لوگوں کو ایک ایسا باضابطہ عالمی تصور مہیا کرتا ہے جو وہم پرستی، رجعت پرستی اور بورژوا زبردستی کی حمایت کی کسی شکل سے بھی میل نہیں کھا سکتا۔ یہ نظریہ جا ئز وارث ہے ان بہترین خیالات کا جو بنی نوع انسان نے انیسویں صدی کے جرمن فلسفے، انگریزی سیاسی معاشیات اور فرانسیسی اشتراکیت کی صورت میں میں تخلیق کئے تھے۔
مارکس ازم کے ان تین سرچشموں اور اس کے تینوں اجزا ے ترکیبی کے بارے میں ہم مختصر طور پر کچھ کہیں گے۔
1: مارکس ازم کا فلسفہ مادیت ہے۔یورپ کی جدید تاریخ کے تمام ادوار میں اور خاص طور سے اٹھارویں صدی کے آخر میں فرانس میں، جہاں قرون وسطیٰ کی ہر قسم کی خرافات کے خلاف، اداروں اور خیالات میں جاگیر داری کے خلاف فیصلہ کن جنگ ہو ئی، مادیت نے ثابت کر دیا کہ یہی ایک ایسا فلسفہ ہے جو مربوط اور بااصول ہے، جو طبعی سائنس کی تمام تعلیمات سے مطابقت رکھتاہے اور وہم پرستی اور ریاکاری وغیرہ کا مخالف ہے۔ چنانچہ جمہوریت کے دشمنوں نے اپنا سارا زور اس پر صرف کر دیا کہ مادیت کی ’’تردید کریں‘‘، اس کی جڑ کھود ڈالیں اور اسے بدنام کر دیں۔ انہوں نے فلسفیانہ عینیت (Idealism) کی مختلف شکلوں کی حمایت کی جوہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں مذہب کی تبلیغ یا اس کی تائید کو پہنچتی ہیں۔
مارکس اور اینگلز نے نہایت ثابت قدمی کے ساتھ فلسفیانہ مادیت کی مدافعت کی اور اس بنیاد سے انحراف اور گریز میں پوشیدہ سنگین غلط کاری کی بار بار وضاحت کی۔ مارکس اور اینگلز کی تصنیفات ’’ لڈوگ فا ئر باخ‘‘ او ر ’’انٹی ڈیورنگ‘‘ میں موجود ہیں اور یہ دونوں کتابیں ’’ کمیونسٹ پارٹی کا مینی فسٹو ‘‘ کی طرح ہر ایک طبقاتی شعور رکھنے والے مزدور کے دم کے ساتھ ہیں۔
لیکن مارکس نے اٹھارویں صدی کی مادیت پر بس نہیں کی۔ انہوں نے فلسفے کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے فلسفے کو جرمن کلاسیکی فلسفے کی دریافتوں، خاص کرہیگل کے نظام فکر سے مالا مال کیا جس نے خود فا ئر باخ کے نظریہ مادیت کو جنم دیا تھا۔ ان دریافتوں کا سب سے اہم پہلو ہے جدلیات یعنی ارتقا او رنشوونما کا نظریہ نہایت مکمل اور سب سے گہری شکل میں، جو یک طرفہ پن سے پاک ہے، اس انسانی علم و آگاہی کی نسبت کا نظریہ جو ہمیشہ نشوونما پاتے ہو ئے مادے کی عکاسی کرتی ہے۔ باوجود یہ کہ بورژوافلسفیوں کی تعلیمات ’’نئی‘‘ تراش خراش کے ساتھ پرانی اور فرسودہ عینیت کی طرف جاتی ہیں، طبعی سائنس کی تازہ دریافتوں یعنی ریڈیم، الیکٹرون اور اجزا کے قلب ماہیت نے مارکس کی جدلیاتی مادیت کی بہت نمایاں طور پر تصدیق کر دی ہے۔
مارکس نے فلسفیانہ مادیت کو گہرا ئی اورنشوونما بخشتے ہو ئے مکمل کیا اور فطرت کے متعلق اس کی معلومات کو انسانی سماج کے علم تک پھیلادیا۔ مارکس کی تاریخی مادیت سا نسی فکر کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ تاریخ اور سیاست کے بارے میں مختلف خیا لا ت کے اندر اس سے پیشتر افراتفری اور یک طرفہ فیصلوں کا جو بازار گرم تھا اس کی جگہ نمایاں طور پر ایک مربوط اور ہموار سا ئنسی نظریہ نے لے لی جو ہمیں بتاتا ہے کہ پیداواری طاقتوں کی نشوونما کے نتیجے میں سماجی زندگی کے ایک ڈھانچے میں سے دوسرا زیادہ ترقی یافتہ ڈھانچہ کیو نکر اُبھرتا ہے۔ مثال کے طور پر کیونکر جاگیر داری میں سے سرمایہ داری نمو دار ہوتی ہے۔
ٹھیک اسی طرح، جیسے انسان کا علم عالم فطرت (دوسرے لفظوں میں حرکت پذیرمادے ) کا عکس ہے جو کہ انسان سے بے نیاز اپنا وجود رکھتا ہے،اسی طرح انسان کا سماجی علم (یعنی مختلف خیالا ت اور فلسفیانہ، مذہبی، سیاسی نظر ئے وغیرہ) سماج کے اقتصادی نظام کا عکس ہے۔سیاسی ادارے اقتصادی بنیاد پر بالائی ڈھانچے ہیں۔ مثلاً ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ موجودہ یورپی ریاستوں کی مختلف شکلیں یہ خدمت انجام دیتی ہیں کہ پرولتاریہ پر بورژوازی کی حکمرانی کی قلعہ بندی کریں۔
مارکس کا فلسفہ مکمل فلسفیانہ مادیت ہے جس نے بنی نوع انسان کو اور خاص کر مزدور طبقے کو علم و خبر کا طاقت ور آلہ عطا کیا ہے۔
2: یہ تسلیم کر لینے کے بعد کہ معاشی نظام ہی وہ بنیاد ہے جس پر سیاسی عمارت کی اٹھان ہوتی ہے، مارکس نے اپنی بیشتر توجہ اس معاشی نظام کے مطالعے پر لگا دی۔ مارکس کی خاص تصنیف ’’سرمایہ‘‘ موجودہ یعنی سرمایہ دار سماج کے معاشی نظام کے مطالعے کا حاصل پیش کرتی ہے۔
کلاسیکی سیاسی معاشیات مارکس سے پہلے انگلینڈ میں جو تمام سرمایہ دار ملکوں میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھا، تشکیل پا چکی تھی۔ آدم اسمتھ اور ڈیوڈ ریکارڈو نے معاشی نظام میں چھان بین کر کے محنت کے نظریہ قدر (Value) کی بنیاد ڈال دی تھی۔ مارکس نے ان کے کام کو جاری رکھا۔ اس نظریے کو سختی سے ثابت کیا اور تسلسل اور ربط کے ساتھ آگے بڑھایا۔ انہوں نے بتایا کہ ہر ایک مال کی قدر کا فیصلہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس مال کی پیداوار پر سماجی اعتبار سے ضروری محنت کا جو وقت لگتا ہے اس کی مقدار کتنی ہے۔
جہا ں پر بورژوا ماہرین معاشیات نے وہ تعلق دیکھ لیا جو چیزوں کے درمیان پا یا جاتا ہے (ایک مال کا دوسرے سے تبادلہ) وہاں مارکس نے وہ تعلق دیکھا جو لوگوں کے درمیان ہو تا ہے۔ مالوں کا باہمی تبادلہ اس بندھن کو ظاہر کرتا ہے جو الگ الگ پیداوار کرنے والوں میں بازار کے ذریعے قا م ہوتا ہے۔ روپیہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ بندھن زیادہ سے زیادہ قریبی ہوتا جاتا جا رہا ہے اور الگ الگ پیداوار کرنے والوں کی ساری معاشی زندگی کو ایک کل میں اس طرح جوڑتا جا رہا ہے کہ وہ ا یک دوسرے سے بے تعلق نہیں ہوسکتے۔ سرمایہ اسی بندھن کے اور آگے بڑھ جانے کی علا مت ہے آدمی کی محنت کی قوت ایک مال بن جاتی ہے۔ اجرت پرکام کرنے والا اپنی محنت کی قوت کو اس کے ہاتھ بیچتا ہے جو زمین کا، کار خانوں کا او رکام کے اوزاروں کامالک ہے۔ مزدور کام کے دن کا ایک حصہ اس لاگت کے لئے کام کرنے میں لگاتاہے جو خود اس کے اور گھر بار کے خرچ کے لئے ضروری ہے (یہ ہے مزدوری یا اجرت)، جب کہ دن کا دوسرا حصہ وہ بغیر اجرت کے کام کرتا ہے اور سرمایہ کے لئے قدر زا ئد (Surplus-Value) پیدا کرتا ہے۔ جو نفع کا اصل سرچشمہ، سرمایہ دار طبقے کی دولت کا سرچشمہ ہے۔ قدر زائد کا نظریہ مارکس کے معاشی نظر ے میں بنیاد کا پتھر ہے۔
مزدور کی محنت سے جو سرمایہ پیدا ہوتا ہے وہ چھوٹے مالکوں کا دیوالہ نکال کر اور بے روزگاروں کی فوج کھڑی کر کے مزدور کو دباتا ہے۔ صنعت میں تو بڑے پیمانے کی پیداوار کی جیت فوراً نظر میں آجاتی ہے لیکن زراعت میں بھی ہمیں یہی مظہر دکھا ئی دیتا ہے: بڑے پیمانے کی سرمایہ دارانہ زراعت کی برتری بڑھتی جاتی ہے، مشینری کا استعمال بڑھتا جاتا ہے، کسانوں کی معیشت نقد سرما ئیکے شکنجے میں پھنستی اور نیچے گرتی جاتی ہے اور پسماندہ ٹیکنیک کے بوجھ تلے تباہ ہو جاتی ہے۔زراعت میں چھوٹے پیمانے کی پیداوار کا زوا ل صنعت سے مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے لیکن یہ زوال بہرحال ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
چھوٹے پیمانے کی پیداوار کوتباہ کر کے سرمایہ اس راہ پر بڑھتا ہے کہ محنت کی کار گزاری کو بڑھا ئے اور بڑے سرمایہ داروں کی انجمنوں کے لئے اجارہ داری کی پوزیشن پیدا کرے۔ خود پیداوار زیادہ سے زیا دہ سماجی ہوتی جاتی ہے۔ سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں مزدور ایک باقاعدہ معاشی ترکیب میں ایک دوسرے سے وابستہ ہو جاتے ہیں لیکن اس اجتماعی محنت کی پیداوار مٹھی بھر سرمایہ داروں کے قبضہ قدرت میں ہوتی ہے۔ پیداوار کا نراج بڑھتا ہے اور اسی کے ساتھ بحران بھی، منڈیوں کے لئے اندھا دھند دوڑ ہوتی ہے اور عام آبادی کی زندگی احتیاج کا شکار ہوجا تی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام، سرما ے پر مزدوروں کا دارومدار بڑھاتے ہو ے مشترکہ محنت کی زبر دست طاقت پیداکرتا ہے۔
مارکس نے سرمایہ داری کے ارتقا کا پتہ لگایا کہ وہ منڈی کے لئے مال تیار کرنے کی معیشت کے ابتدائی آثار سے، شروع کے سیدھے سادے تبادلے سے لے کر سب سے اعلیٰ شکل یعنی بڑے پیمانے کی پیداوار تک پھیلی ہو ئی ہے۔
اور تمام سرمایہ دار ملکوں کا تجربہ، وہ نئے ہوں یا پرانے، مزدوروں کی سال بہ سال بڑھتی ہو ئی تعداد کو صاف طور سے اس مارکسی تحقیق کی سچا ئی دکھا رہا ہے۔
سرمایہ داری تمام دنیا میں فتح حاصل کر چکی ہے لیکن یہ فتح صرف ایک پیش خیمہ ہے اس فتح کا جو محنت کو سرمائے پر حاصل ہو ئی ہے۔
3: جب جاگیرداری کا تختہ الٹا جا چکا اور خدا کی زمین پر ’’ آزاد‘‘ سرمایہ دار سماج نمودار ہوا تو ساتھ ہی یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اس آزادی کا مطلب ہے محنت کشوں کو دبانے اور ان کی محنت سے ناجائز فا ئدہ اٹھانے کا نیا نظام۔ بہت سے اشتراکی نظر یے بھی فوراًا س ظلم و جبر کے عکس اور اس کے خلاف احتجاج کے طور پر ابھرنے لگے۔ لیکن شروع شروع کا سوشلزم خیالی (یوٹو پیا ئی) سوشلزم تھا۔ وہ سرمایہ دار سماج کی نکتہ چینی کرتا تھا، اس پر لعنت و ملامت کرتا تھا، اس کی بربادی کا خواب دیکھتا تھا، ایک بہتر نظام کے تصور میں کھو جاتا اور دولت مندوں کو قا ئل کرنے کی سخت کوشش کرتا تھا کہ دوسروں کی محنت سے ناجا ئز فائدہ اٹھانا غیر اخلاقی حرکت ہے۔
لیکن خیالی سوشلزم کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ اصلی راستہ دکھا سکے۔ سرمایہ داری میں اجرتی غلامی کا لب لباب وضاحت کے ساتھ بیان کرنا، یا سرمایہ داری کی نشوونما کے قاعدے قانونوں کو دریافت کرنا یا اس سماجی طاقت کی جانب اشارہ کرنا، جو نئے سماج کو جنم دینیکی صلا حیت رکھتی ہے، اس خیالی سوشلزم کے بس سے باہر تھا۔
اسی اثنا میں طوفانی انقلابوں نے، یورپ کے ہر جگہ اور خاص طورپر فرانس میں جاگیر داری، کسان غلامی (Serfdom)کے ڈھے جانے کے ساتھ برپاہو ئے،زیادہ سے زیادہ وضاحت کے ساتھ جتادیاکہ طبقوں کی جدوجہد تمام ارتقا کی بنیاد کا اور اسے آگے بڑھانے والی قوت کا کام کرتی ہے۔
جاگیر دار طبقے پر سیاسی آزادی کی ایک بھی فتح ایسی نہ تھی جو سخت مقابلے کے بغیر حاصل ہوئی ہو۔ ایک بھی سرمایہ دار ملک ایسانہ تھا جو کم و بیش آزاد اور جمہوری بنیاد پر قا ئم ہو اور جس کی نشوونما سرمایہ دار سماج کے مختلف طبقوں میں موت و حیات کی جنگ کے بغیر ہو گئی ہو۔
مارکس کی گہری بصیرت اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ سب سے پہلے وہی اس سے نتا ئج اخذ کر سکے اور ان نتائج کو جو دنیاکی تاریخ سے نکلتے ہیں استقلال اور تسلسل کے ساتھ منطبق کر سکے۔ یہ کلیہ طبقاتی جدوجہد کا نظریہ ہے۔
لوگ ہمیشہ سیاست میں دھوکا دے کر بے وقوف بنا ئے گئے ہیں اور خود بے وقوفی کا شکار ہو تے رہے ہیں اور اس وقت تک یہی ہوتا رہے گا جب تک کہ وہ یہ پتہ چلانا نہ سیکھ لیں کہ تمام اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور سماجی لفاظیوں، اعلانوں اور وعدوں کے پس پردہ کسی نہ کسی طبقے کے مفاد پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اصلاحوں اور ترقیوں کے مبلغوں کو پرانے نظام کے حامیوں کی طرف سے ہمیشہ بے وقوف بنایا جا ئے گا۔جب تک وہ یہ محسوس نہ کر لیں کہ ہر پرانا ادارہ، چاہے وہ کتنا ہی وحشیانہ اور فرسودہ نظر آتا ہو، لیکن اسے کچھ قوتیں ہی چلائے رکھتی ہیں۔ اور ان طبقوں کی رکاوٹ کو توڑنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہمارے گرد جو سماج ہے اسی سماج میں ان قوتوں کا پتہ لگایا جا ئے اور انہیں تربیت دی جا ئے، ان قوتوں کو جدوجہد کے لئے تیار کیا جا ئے کہ وہ ایک ایسی طاقت بن جا ئیں جو پرانے کو صاف کر کے نئے کو جنم دینے کے قابل ہو۔ اور اپنی سماجی حیثیت کی بنا پر ان قوتوں کو ایک ایسی طاقت بننا ہی پڑے گا۔
مارکس کی فلسفیانہ مادیت ہی نے پرولتاریہ کو ا’س روحانی غلامی سے نکلنے کا راستہ دکھایا جس میں تمام دبے ہوئے طبقے اس وقت تک پستے چلے آ ئے تھے۔ مارکس کا ہی معاشی نظریہ ہے جس نے سرمایہ داری کے عام نظام میں پرولتاریہ کی صحیح پو زیشن جتا ئی۔
پرولتاریہ کی آزاد تنظیمیں ساری دنیا میں امریکہ سے جاپان تک، سویڈن سے جنوبی افریقہ تک بڑھتی پھیلتی جارہی ہیں پرولتاریہ اپنی طبقاتی جدوجہد چلاکر زیادہ تعلیم و تربیت یافتہ اور باخبر ہوتا جارہا ہے، وہ بورژوا سماج کے تعصبات کے جالوں سے نکلتا جارہا ہے۔ زیادہ سے ز یادہ متحد ہوتا جارہا ہے اور سیکھ رہا ہے کہ اپنی کامیابیوں کو کیسے ناپے۔ پرولتاریہ اپنی قوتوں کو فولادی بنارہا ہے اور اس طرح بڑ ھ رہا ہے کہ اسے روکنا ممکن نہ ہو گا۔
پرسویش چینیے، شمارہ 3۔ مارچ 1913۔
لینن کا مجموعۂ تصانیف، جلد23
PDFفائل ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔