|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
7 فروری منگل کے دن سندھ بھر کی میل؍ فی میل نرسز اور نرسنگ طالبات نے اپنے مسائل کے حل کی خاطر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، جس میں کراچی پریس کلب کے سامنے 800 سے زائد سٹاف تین روزہ دھرنے میں شریک ہوا۔ اس کے علاوہ حیدرآباد سمیت اندرون سندھ کے دیگر شہروں میں موجود نرسزنے وہاں پر احتجاجی دھرنے دیئے۔ اس وقت سندھ بھر میں قریباً 3500 نرسز کام کرتی ہیں اور اس تحریک میں 70 سے 80 فیصد نرسز نے حصہ لیا۔ احتجاجی تحریک کی قیادت، پراونشل نرسنگ ایسوسی ایشن (PNA)اور ینگ نرسنگ ایسوسی ایشن(YNA) کے اتحاد پر مشتمل ’جوائنٹ نرسز ایکشن کمیٹی‘ نے کی۔
سندھ حکومت ایک لمبے عرصے سے شعبۂ صحت سے وابستہ سبھی ملازمین کا شدید استحصال کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اپنی چار ماہ کی تنخواہوں کے حصول کے لیے احتجاجاََ سڑکوں پر ڈیرے جمائے تھے۔ اس کے علاوہ پیرا میڈیکل سٹاف اور آنے والے دنوں میں ڈاکٹرز کے احتجاج بھی متوقع ہیں۔ جو کہ صوبہ بھر میں موجود شعبۂ صحت کی شدید تنزلی کا واضح اظہار ہے۔ جس کی وجہ سے شعبۂ صحت سے وابستہ طویل اور مشکل ترین ڈیوٹیاں سر انجام دینے والے سبھی ملازمین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
ان تین دنوں کی احتجاجی تحریک کے دوران سوائے ایمرجنسی، آئی سی یو اور لیبر روم کے علاوہ سبھی ڈیوٹیوں کا بائیکاٹ کیا گیا، مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے مطالبات منظور نہ کئے گئے تو نرسنگ سٹاف کی جانب سے ان ایمرجنسی سروسز کو بھی بند کر تے ہوئے مکمل ہڑتال کی جائے گی اور اس نقصان کی ساری ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔ نرسز کا کہنا تھا کہ گزشتہ پچیس، تیس سال سے نوکری کرنے کے باوجود بھی کبھی ان کا پروموشن نہیں کیا گیا۔ نرسز جس گریڈ پر بھرتی ہوتی ہیں اسی گریڈ پر ہی وہ ریٹائر ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر صوبوں میں نرسنگ سٹاف کو میسر سہولیات، یہاں سندھ میں نہیں دی جارہی۔ مثال کے طور پر پنجاب ، پختونخواہ اور بلوچستان میں نرسز کو ڈریس الاؤنس کی مد میں اکتیس سو روپے دیئے جاتے جبکہ سندھ میں محض تین سو روپے دیئے جاتے ہیں جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ نرسز کا کہنا تھا وہ دیگر صوبوں کی نرسز کو میسر سہولیات کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان کا مطالبہ بس یہی ہے کہ انہیں بھی وہ سہولیات دی جائیں جو ان کا جائز حق ہیں۔ مزید بنیادی مطالبات میں ہیلتھ اور میس (Mess) الاؤنس کے حصول کے علاوہ سٹوڈنٹ نرسز کے کے لیے (سکا لر شپ) مشاہرے کی رقم کو بیس ہزار کرنا شامل ہے۔ سندھ میں سٹوڈنٹ نرسز کو پڑھائی کے پہلے سال میں ہی کام پر لگا دیا جاتا ہے اور باقاعدہ ملازمین کی طرح ان نوجوان لڑکیوں کو بھی طویل ڈیوٹیاں کرنی پڑتی ہیں، جبکہ معاوضے میں انہیں دو تین ہزار ہی دیئے جاتے ہیں، سرکاری کاغذات میں 6800 کی رقم درج ہے جو ناکافی ہونے کے ساتھ ساتھ کہیں بھی ادا نہیں کی جاتی۔ نرسز کا کہنا تھا اس رقم کو بڑھا کر بیس ہزار کیا جائے اور اس کی فراہمی کو بھی ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ مزید مطالبات میں سٹاف نرسز کی تعد اد میں ایک ہزار اور ہیڈ نرسز کی تعداد میں دو سو کا اضافہ شامل کرنا شامل ہیں، کیونکہ اس وقت صوبے میں مریضوں اورنرسز کی شرح کا تناسب بہت خراب ہے، ایک نرس کو سو سے زائد مریض دیکھنے پڑتے ہیں، اس وجہ سے سہولت کا معیار نہ ہونے کے برابر ہے۔ معطل کی گئی نرسنگ سکول کی پرنسپل کی بحالی اورشعبۂ صحت کی پالیسیاں بنانے کے عمل میں نرسنگ ایسوسی ایشن کی شمولیت کو یقینی بنانا بھی مطالبات میں شامل ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے انعم پتافی نے تقریر کرتے ہوئے نرسز کے بلند حوصلوں اور شاندار جدوجہد کو سراہا۔ نرسز سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج وہ دور نہیں ہے کہ جس میں ہمیں اپنے جائز بنیادی مطالبات اور ضروریات خود بخود مل جائیں، آج اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت، حق اور مطالبے کے لیے سڑکوں پر آ کر شدید لڑائی کرنا پڑتی ہے، تب جا کر ان بہرے حکمرانوں کے کانوں تک ہماری آوازپہنچ پاتی ہے۔ کیونکہ حکمرانوں کی ترجیح ہم اور ہمارے مسائل نہیں ہیں۔ جدوجہد کے سوا ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہر آفت، تباہی اور ایمرجنسی کی کیفیت میں بیمار اور تکلیف میں مبتلا مریضوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے والی نرسز آج سڑکوں پر بیٹھی ہیں اور ابھی تک کوئی بھی حکومتی نمائندہ ان کے مسائل حل کرنا تو درکنار بلکہ سننے کو بھی نہیں آیا۔ انہوں نے احتجاجی نرسز کو تجویز دی کہ کسی حکومتی یا سرکاری اہلکار سے مذاکرات کرنے لیے ان کے دفاتر میں نہ جایا جائے، بلکہ مذاکرات کا سارا عمل اسی احتجاجی پنڈال میں سب کے سامنے ہونا چاہیے تاکہ سبھی شرکاء اسے سن سکیں اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو شفاف بنائیں۔ کیونکہ بند کمروں کے مذاکرات میں دھمکیاں دے کر قیادت کو خریدنے اور تحریک کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے تحریکیں پسپا ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ نرسز نے اس تجویز کو نہ صرف سراہا بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے، مذاکرات پنڈال میں ہی کروائے گئے۔
یہ بات تو سب پر واضح ہے کہ اس وقت سندھ حکومت اوپر بیان کئے گئے کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی معاشی سکت نہیں رکھتی، اس وجہ سے انہوں نے دھرنے کے تیسرے روز ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ کے ذریعے شروع کیے گئے مذاکرات کے عمل میں چال بازی سے کام لیتے ہوئے، مسائل کے حل کی خاطر نرسز اور سرکاری اہلکاروں پر مبنی چھ رکنی کمیٹی بنائی ہے جو کہ معاملات کی ’’چھان بین ‘‘ کرنے کے بعد انہیں حل کرے گی۔ یہ سراسر دھوکہ بازی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں آج سے پہلے بھی کبھی کسی کمیٹی نے معاملات کو حل کرنا تو دوربلکہ چھان بین کے اس عمل کو پورا تک نہیں ہونے دیا جاتا۔ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ اس قسم کی کمیٹیاں بنانے کا مقصد ہی معاملات کو ٹالتے ہوئے احتجاجی تحریکوں کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ نرسز کی باشعور قیادت خود کئی سالوں سے ان حکمرانوں کے سرکاری دفاتر کا چکر کاٹتی رہی ہے اور کوئی شنوائی نہ ہونے کے بعد ہی وہ احتجاجی تحریک کے اس عمل پر مجبور ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ کمیٹی بھی صرف اور صرف نرسز اتحاد کو توڑتے ہوئے تحریک کو ختم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ لیکن با ہمت اور با شعور نرسز کی اس سارے عمل پر نگاہ ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر مطالبات پر عمل در آمد نہ ہوا تو اس سے بھی بڑے پیمانے پر تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔
کراچی پریس کلب کے سامنے بیٹھ کر تین روز تک دھرنا دینے والی جرت مند نرسز کا حوصلہ دیدنی تھا۔ ’’جینا ہے تو لڑنا ہوگا ، دھرنا ہوگا! دھرنا ہوگا‘‘، ’’ ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے‘‘، ’’ساڈا حق ایتھے رکھ‘‘، ’’ایک ملک دو نظام ، نامنظور! نامنظور!‘‘، ’’زرداری تیرے صوبے میں اندھیر ہے، اندھیر ہے !‘‘ ’’!we want, Justice‘‘ اور’’ہمارے مطالبات ،پورے کرو!‘‘ جیسے نعرے مسلسل پنڈال میں گونجتے رہے۔