’آزاد‘ کشمیر: کامیاب عوامی بغاوت کے دوران گرفتار کیے گئے اسیران کی رہائی کے لئے ہزاروں لوگ سڑکوں پر!

|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ، کشمیر|

27مئی کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر ”آزاد“ کشمیر کے تینوں ڈویژنز کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد کئے گئے جن میں ہزاروں کی تعداد میں محنت کش عوام شریک ہوئے۔

احتجاج کا مقصد اسیران ِتحریک میرپور پر قائم بلا جواز مقدمات کے خاتمے اور دیگر تسلیم شدہ مطالبات پر عمل درآمد تھا۔ یاد رہے کہ دو ہفتے قبل ’آزاد‘ کشمیر میں شاندار عوامی تحریک جس میں لاکھوں لوگوں نے جرات مندی سے حصہ لیا، نے بالآخر حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس تحریک کے دوران ریاست نے لوگوں پرفائر کھولا اورکئی لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیاتھا۔ اس تاریخی مارچ کی کامیابی کے بعد 19 مئی کو ایکشن کمیٹی نے اسیران تحریک (میرپور ڈویژن سے ایکشن کمیٹی کے پانچ رہنماؤں کو 11 مئی مارچ کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا) کی غیر مشروط رہائی کیلئے حکومت کو 27 مئی کی ڈیڈ لائن دی تھی، لیکن حکومت نے13 مئی کے وعدے کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بار پھر دھوکہ دہی اور منافقانہ روش کو دہرایا ہے۔

مذاکرات اورخوفناک ریاستی جبر کے ہتھکنڈوں کو عوامی طاقت نے شکست دیتے ہوئے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے اثرات پور خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں پر پڑے ہیں۔

9 سے 13 مئی تک عام حالات میں طاقت کی علامت سمجھے جانے والے ریاستی ادارے عوام کے سمندر کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ طاقت عام لوگوں کے ہاتھ میں تھی، اقتدار کے ایوان ویران پڑے تھے۔ ریاست ہوا میں معلق ہو چکی تھی۔ شکست خوردہ حکمران عوامی طاقت سے خائف ہو کر دو بنیادی مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے، بجلی کے یونٹ کی قیمت 3 روپے اور آٹے کے من کی قیمت 2 ہزار روپے مقرر کر دی گئی۔

اس کامیابی نے حکمرانوں کے ایوان لزرا دیے ہیں، اب وہ انتقام لینے اور تحریک میں پھوٹ ڈالنے کیلئے ایک ضلع کے رہنماؤں کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن 27 مئی کے پر زور احتجاجی مظاہروں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ بنیادی مطالبات پر عوام کی جیت ہو چکی ہے، لیکن تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی اور بے گناہ اسیران کو زیادہ دیر پابند سلاسل نہیں رکھا جا سکتا۔ ریاست کو ایک بار پھر منہ کی کھانی پڑے گی، عوامی طاقت پھر فتح یاب ہو گی۔

مظفرآباد، دھیرکوٹ، باغ، ریڑہ، تھوراڑ، راولاکوٹ، ہجیرہ، عباسپور، تراڑکھل، پلندری، کوٹلی، سہنسہ، ڈڈیال اور میرپور سمیت مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں لوگوں نے سراپا احتجاج ہو کر چارٹر آف ڈیمانڈ کے دیگر تسلیم شدہ مطالبات اور اسیران کی رہائی کیلئے نعرے لگائے۔ مقررین نے 5 جون کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے اس عزم کااعلان کیا کہ مطالبات پورے ہونے تک تحریک جاری رہے گی۔ مقررین نے نامور شاعر احمد فراز کی بلا جواز جبری گمشدگی کی بھرپور مذمت کی اور فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔

بلاشبہ حالیہ تحریک اس خطے کے عوام کی مزاحمتی تحریک میں ایک شاندار باب کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ جیتی گئی حاصلات کے دفاع اورنئے معاشی حملوں کے کو شکست دینے کیلئے عوام کے اتحاد کو قائم رکھا جائے۔ اس حوالے سے عوامی ایکشن کمیٹیوں کا ایک بنیادی قائدانہ کردار بنتا ہے۔ جبکہ تمام سیاسی پارٹیاں اور قیادتیں لوٹ مار کے اسی نظام پر ایمان لا چکی ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی نے زندگی محال کر دی تھی۔ ایسے میں عوامی ایکشن کمیٹیاں اور حالیہ تحریک کی جیت ایک امید کی کرن ثابت ہوئے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں سے عوام نے ضروری سیاسی نتائج اخذ کرتے ہوئے خود کو عوامی کمیٹیوں میں منظم کرتے ہوئے اپنے مسائل خود حل کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا اور مئی 2024ء کشمیر کی تاریخ کا اہم ترین ماہ بن گیا جب عوام نے اپنی اجتمائی طاقت سے پہلی کامیابی سمیٹی۔ لیکن یہ جدوجہدابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ ابھی محض آغاز ہے۔

چونکہ سرمایہ داروں اور حکمران طبقے کی لوٹ مار کیلئے قائم یہ نظام محنت کشوں اور عوام کے شدید استحصال پر ہی قائم ہے۔ حکمران اپنی لوٹ مار اور عیاشیوں کو جاری رکھنے کیلئے اس وقت پھر مہنگائی کے حملے کریں گے جب تحریک پیچھے جائے گی، جس طرح گلگت بلتستان میں 2014ء میں حاصل کی گئی گندم سبسڈی ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسے عوام نے کمیٹیوں کے گرد منظم تحریک کے ذریعے ناکام بنا دیا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹیوں کے گرد عوام کو منظم رکھنے کی جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔ مفت صحت و تعلیم کی معیاری سہولیات کی فراہمی، بیروزگاری کے خاتمے اور تباہ حال انفراسٹرکچرکی تعمیر جیسے دسیوں مسائل کا خاتمہ ایک منظم عوامی جدوجہد سے ہی ممکن ہے جس کی قیادت ملک کے طول و عرض میں موجود فیکٹریوں اور سرکاری اداروں میں کام کرنے والے وہ محنت کش کریں جو اپنی محنت سے پورا نظام چلا رہے ہیں۔

اس منظم عوامی مزاحمت کو کارل مارکس نے طبقاتی جدوجہد کا نام دیا تھا۔ اس طبقاتی جدوجہد کا منطقی انجام ایک سوشلسٹ انقلاب ہے جس میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں الغرض حکمران طبقے سے دولت پیدا کرنے والے ذرائع چھین کر مزدور ریاست کے کنٹرول میں لیے جائیں گے؛ یعنی دوسرے الفاظ میں محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں۔ ان تمام وسائل کو پھر مفت بجلی، تعلیم، صحت سمیت دیگر سماجی ضروریات پوری کرنے کیلئے استعمال میں لایا جائے گا نہ کہ چند امیروں کی عیاشیوں میں خرچ ہونے کیلئے۔

اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی تعمیر کرنے کی ہے جو پورے ملک کے محنت کشوں کو منظم کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک جاری سفر کو تیز کرے اور کامیاب بنائے۔

ہم پاکستان میں ایک ایسی ہی انقلابی کمیونسٹ پارٹی تعمیر کر رہے ہیں اور آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ اس کے ممبر بنیں اور منافع، لالچ، مقابلہ بازی، جنگوں، بیروزگاری، مہنگائی سمیت سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ دیگر غلاظتوں کے خاتمے کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔

ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے
اِک کھیت نہیں، اِک دیس نہیں، ہم ساری دنیا مانگیں گے

عوامی مزاحمت زندہ باد!
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کی جانب بڑھو!

 

Comments are closed.