پاکستان: آئے گا انقلاب یہاں!

|تحریر: آدم پال|

عالمی سطح پر سرمایہ داری کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے اور سامراجی جنگیں اور خونریزی مختلف خطوں کے ساتھ ساتھ اب مشرقِ وسطیٰ میں بھی ایک باقاعدہ جنگ کی جانب بڑھ چکی ہے۔ اس تمام صورتحال کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور آنے والے عرصے میں اس جنگ کے پھیلنے سے یہاں کا سماج بھی شدید متاثر ہو سکتا ہے۔

اسرائیل کے فلسطین پر جاری تاریخ کے بدترین مظالم کو ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور یہ بربریت ختم ہونے کی بجائے اب لبنان سمیت پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیل چکی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے لبنان پر شدید ترین فضائی بمباری کے بعد اب زمینی حملے کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی شام اور یمن پر بھی فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ اس کا جواب ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائیلوں کے ایک بڑے حملے کی صورت میں دیا گیا ہے جس سے اسرائیل اور ایران کے براہِ راست ایک دوسرے کے سامنے آنے کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں جہاں لبنان میں لاکھو ں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور سینکڑوں اس سامراجی جنگ کی بھینٹ چڑھ کر مر چکے ہیں وہاں آنے والے عرصے میں مزید ہلاکتوں کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ مختلف محاذوں پر سامراجی طاقتوں کی رسہ کشی بھی بڑھ چکی ہے جبکہ عالمی سرمایہ داری کا مالیاتی بحران بھی ہچکولے کھاتا ہوا کسی بڑی کھائی کے دہانے پر لڑکھڑا رہا ہے۔

پہلے ہی امریکی معیشت میں ایک recession کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جبکہ مالیاتی شعبے کا بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس معاشی و مالیاتی بحران کے اثرات امریکی سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں جبکہ امریکی سامراج کی بنیادیں بھی مسلسل کمزور ہو رہی ہیں۔ اس کی عکاسی مشرقِ وسطیٰ کی اس صورتحال میں بھی نظر آتی ہے جہاں نیتن یاہو امریکہ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو تحفظ دینے اور مخصوص مفادات کے تحت اس سامراجی جنگ کو پھیلاتا چلا جا رہا ہے۔

امریکی سامراج اور اس کے یورپی اتحادیوں کی پشت پناہی کے بغیر اسرائیل یہ سب کچھ نہیں کر سکتا لیکن اب نیتن یاہو کٹھ پتلی کے طور پر عمل کرنے کی بجائے اپنا صیہونی ایجنڈا بھی مسلط کر رہا ہے۔ یہی عوامل امریکی سامراج کی عالمی تعلقات پر گرفت کمزور ہونے کا عندیہ دیتے ہیں اور آنے والے عرصے میں یہ عمل مزید نئے تضادات اور تنازعات کو ابھارنے کا باعث بنے گا۔

پاکستان کا مالیاتی بحران

پاکستان کے حکمران طبقات بھی امریکی سامراج کے گماشتے ہیں اور اس کے مفادات کے تحت ہی اس ملک کے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کے زوال کے باعث اس ملک کا مالیاتی بحران بھی گہرا ہوا ہے جس کے باعث یہاں کے حکمران بھی اپنے سامراجی آقاؤں کے مفادات کے تحفظ کے لیے عوام پر زیادہ بڑے حملے کر رہے ہیں۔ ملک کے چوبیس کروڑ عوام پر تاریخ کی بد ترین مہنگائی اور بیروزگاری مسلط کرنے کے بعد بھی ان خونی درندوں کا پیٹ نہیں بھرا اور ایک دفعہ پھر عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کے نئے حملوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

اس وقت پاکستان کے میڈیا میں معیشت کی بحالی کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور اچھل اچھل کر بتایا جا رہا ہے کہ افراطِ زر کی شرح کم ہو گئی ہے اور اسی لیے سرکاری طور پر شرح سود بھی کم کی جا رہی ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے قرضے کی بھیک کے نئے معاہدے پر بھی بغلیں بجائی جا رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اب معیشت دوبارہ مستحکم ہو رہی ہے۔ یہ سب عوام کو دھوکہ دینے کے لیے حکمرانوں کا پراپیگنڈہ ہے جس کے بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت مہنگائی اور بیروزگاری کے بڑے حملے کیے جائیں گے۔

آئی ایم ایف سے بھیک لینے والے ممالک میں اب پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے اور یہ پچیسواں پروگرام ہے جو اس ملک کے عوام کو اس سود خور عالمی ادارے کے چنگل میں پھنسا کر ان کی لوٹ مار کو جاری رکھے گا۔ اس حوالے سے اس ملک میں جاری عوام کے معاشی قتل عام کی سب سے بڑی ذمہ داری آئی ایم ایف پر ہی عائد ہوتی ہے جس کے احکامات کے تحت یہاں کے تمام مالیاتی فیصلے کیے جاتے رہے ہیں۔ اب اس سامراجی چنگل کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کے بجٹ بھی مکمل طور پر اپنے عالمی آقا کے اشاروں پر بنائے جا رہے ہیں اور اس کے ذریعے بھی نئے ٹیکسوں کو مسلط کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح ٹیکسوں کی وصولی کی شدت میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ لیکن یہ سب سختیاں سرمایہ دار طبقے کے لیے نہیں ہو ں گی اور ان کی لوٹ مار، منافع خوری اور مزدور کی محنت کا استحصال اسی طرح جاری رہے گا۔ جبکہ عوام پر ٹیکسوں کے نئے بوجھ مسلط کیے جائیں گے تاکہ عالمی سامراجی اداروں اور اس ملک کے سرمایہ دار طبقے کی منافع کی ہوس کو پورا کیا جا سکے۔

اس ملک پر مسلط کردہ عوام دشمن حکمران ہر سال جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں میں اضافے کی شرح میں اضافے کے ٹارگٹ لیتے ہیں لیکن ابھی تک یہ شرح دنیا میں کم ترین سطح پر ہے۔ اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے عوام پر جنرل سیلز ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسوں میں بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل اضافہ ہوا ہے ۱ور بہت سی نئی اشیا بھی اس ٹیکس کی زد میں آتی گئیں ہیں جس سے مہنگائی کے طوفان عوام پر مسلط ہوئے لیکن یہ شرح ابھی بھی 9 فیصد کی کم ترین سطح پر ہی ہے۔

اس کو دنیا کے دیگر سرمایہ دارانہ ممالک کی سطح پر لانے کے لیے بھی سرمایہ داروں، بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں پر بھاری ٹیکس لگانے کی ضرورت ہے لیکن اس ملک کے حکمران کبھی یہ اقدام نہیں اٹھائیں گے بلکہ سرمایہ داروں کو مزید ریلیف دیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق یہ شرح اگلے تین سالوں میں 3.5 فیصد تک بڑھانی ہو گی جس کا نزلہ پھر عوام پر ہی گرے گا۔

عوام دشمن حکمران اور غلیظ سیاست

درحقیقت اس ملک کے حکمرانوں کا اصل مقصد ہی سرمایہ دار طبقے اور سامراجی آقاؤں کی لوٹ مار کو بڑھانا ہے اور اسی کے لیے ہی تمام تر پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ جبکہ سیاسی پارٹیوں کے ذریعے عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے نمائندے اقتدار میں آ کر عوام کی بھلائی کے لیے اقدامات کریں گے۔

اسی طرح کسی سڑک یا پل کا افتتاح کرتے ہوئے بھی یہ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ عوام کی سہولت کے لیے بنایا گیا ہے جبکہ اس کو بنانے کا مقصد ٹھیکیداروں سے لے کر تعمیراتی کمپنیوں کے منافعوں کی ہوس کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح عوام پر مہنگی بجلی کے بم گرانے سے لے کر عوامی اداروں کی نجکاری کرتے ہوئے بیروزگاری کے طوفان مسلط کرتے ہوئے بھی عوام کی ہمدردی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔

جبکہ آج اس ملک کے عوام یہ نتیجہ اخذ کر چکے ہیں کہ اس ملک کے حکمران وحشی درندوں سے بھی بدتر ہیں اور عوام کا خون پی کر اور کھال ادھیڑ کر خوش ہوتے ہیں اور جشن مناتے ہیں۔

حکمرانوں کے جشن تو اس معاشی بدحالی میں بھی جاری ہیں اور ان کے محلوں کی روشنیاں کبھی ماند نہیں ہوتیں۔ دوسری طرف عوام مہنگی بجلی کے باعث سخت گرمی میں پنکھا چلانے سے بھی ڈرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک میں بجلی کی کھپت میں ستمبر کے مہینے میں بیس فیصد کمی ہوئی ہے۔

دوسری جانب ملک کے دیوالیہ ہونے کے باوجود نجی بجلی گھروں یا آئی پی پیز کے منافعوں میں کمی نہیں آنے دی گئی اور وہ کھربوں روپے کی وصولیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں جن میں کوکا کولا اور نیسلے سے لے کر کاریں بنانے والی کمپنیاں شامل ہیں اربوں ڈالر لوٹ کر بیرون ملک منتقل کر رہی ہیں۔ اگر ان سرمایہ داروں کے منافعوں پر بھاری ٹیکس لگا دیا جائے تو عوام پر مزید کوئی بھی نیا ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

ریاست کا بحران

اس معاشی تباہ حالی میں حکمران طبقے کی سیاسی پارٹیاں آپس کی لڑائی کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس بحران نے جہاں اس ملک کی ریاست کی بنیادوں کو کمزور کیا ہے وہاں حکمران طبقہ بھی واضح طور پر مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔

جرنیلوں، ججوں سے لے کر تمام ریاستی عہدیداروں میں یہ دھڑے بندی واضح نظر آتی ہے۔ بحران کی شدت میں اضافے کی وجہ سے یہ دھڑے ایک دوسرے پر بد ترین حملے بھی کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالنے سے لے کر کورٹ مارشل کرنے تک کی دھمکیاں لگا رہے ہیں۔

اس میں ظاہر ہے امریکہ،چین اور سعودی عرب جیسی سامراجی طاقتوں کے احکامات بھی اہم ہیں جن کے مفادات کی تکمیل یہاں کے حکمرانوں کی اولین ترجیح ہے۔ برسر اقتدار دھڑا نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں لوٹ مار کے نئے ریکارڈ بنا رہا ہے جبکہ اپوزیشن میں موجود تحریک انصاف لوٹ مار کے لیے اپنی باری کے لیے پر تول رہی ہے۔

پختونخواہ میں اس کی صوبائی حکومت کو لوٹ مار میں پورا حصہ دیا گیا ہے لیکن وہ مرکز اور دیگر صوبوں میں بھی اقتدار میں آ کر اس لوٹ مار میں حصہ وصول کرنا چاہتی ہے۔ ان دونوں دھڑوں کی عوام دشمنی اور سامراجی غلامی میں کوئی فرق نہیں اور دونوں ہی آئی ایم ایف اور امریکی،چینی اور سعودی سامراج کی حکم عدولی کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔

اس ملک کو دیوالیہ کرنے اور عوام کے معاشی قتل کو مسلط کرنے میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا مرکزی کردار ہے اور یہ دونوں پارٹیاں اپنے اتحادیوں کے ساتھ اس ملک کے عوام کو ایک طویل عرصے سے لوٹ رہی ہیں۔ اس عمل میں اس ملک کے جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹوں نے بھی لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کیے ہیں اور اب موجود عہدیدار پرانے تمام ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف جب تحریک انصاف کو اقتدار ملا تو اس نے بھی انہی پالیسیوں کو جاری رکھا اور عوام پر مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری سمیت ایک کے بعد دوسرا عذاب مسلط کیا۔

اس وقت پاکستان کا حکمران طبقہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ کے خطے پر پڑنے والے اثرات کو بغور دیکھ رہا ہے اور اس بحران میں اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس سے مالی فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہا ہے۔ اس جنگ سے جہاں ان ممالک میں کام کرنے والے دسیوں لاکھ تارکین وطن متاثر ہوں گے، فرقہ وارانہ تعصبات شدت اختیار کریں گے، خطے کی ریاستوں کے بحران میں اضا فہ ہو گا اور عدم استحکام بڑھے گا وہاں یہ جنگیں سرمایہ دار طبقے کے منافعوں میں اضافوں کا باعث بھی بنیں گی۔ اسی طرح جہاں پاکستان سمیت ہر ملک کا حکمران طبقہ عوام پر بیرونی دشمن اور جنگ کا خوف مسلط کر کے اپنے اقتدار کو سہارا دینے کی کوشش کرے گا، وہاں عالمی سطح پر سامراجی طاقتوں کے بدلتے توازن سے مالی اور دفاعی نوعیت کا فائدہ اٹھانے کے لیے تمام حربے بھی استعمال کرے گا۔

اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں پر حکمرانوں نے ہمیشہ سامراجی جنگوں میں آقاؤں کی آشیر باد سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یہاں کے عوام کو بلی کا بکرا بنایا جبکہ خود دونوں ہاتھوں سے موٹی رقم وصول کر کے اپنی جیبوں میں ڈالتے رہے۔ امریکی سامراج کے مسلط کردہ ڈالر جہاد سے لے کر افغانستان میں ’دہشت گردی‘ کے خلاف نام نہاد جنگ میں اس ملک کے حکمرانوں نے ریکارڈ مال بنایا لیکن ان جنگوں کے نتیجے میں ملک کی عوام دہشت، خونریزی اور قتل و غارت کاشکار ہوتی رہی۔

آج بھی دہشت گردی کا یہ دھندا جاری ہے، افغان طالبان حکومت کو آج بھی ریاست پاکستان کے ایک دھڑے کی آشیر باد حاصل ہے اور آج بھی مذہبی بنیاد پرستی کی ریاستی پشت پناہی سمیت دیگر ایسی قوتوں کو سماج پر مسلط کر کے عوامی تحریکوں کو خوفزدہ یا سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی کے عفریت کو عوام کو غلام بنائے رکھنے کے لیے استعمال کرنا اس ریاست کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے اور جب تک یہ سرمایہ دارانہ ریاست موجود ہے یہ استعمال جاری رہے گا۔

حال ہی میں سندھ کے علاقے عمر کوٹ اور کوئٹہ میں ہونے والے واقعات نے اس حقیقت کو مزید عیاں کیا ہے۔ پہلے ریاستی ادارے اپنے ایجنٹوں یا گماشتہ مذہبی بنیاد پرست لیڈروں یا پارٹیوں کے ذریعے یہ قتل و غارت پھیلاتے تھے لیکن اب برا ہِ راست پولیس اہلکار قتل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو اس کھوکھلی ریاست کے حربوں کو واضح کرتا ہے اور یہ بھی عیاں کرتا ہے کہ یہ ریاست عوام میں زیادہ دہشت اور خوف پھیلانے کے عمل میں خود اپنی بنیادوں کو کمزور بھی کرتی جا رہی ہے اور اس کے سب سے کارگر سمجھے جانے والے ہتھیار کی حقیقت عوام پر واضح ہو چکی ہے۔

ریاست کے بحران اور ٹوٹ پھوٹ کا اظہار عدلیہ کے ججوں کی لڑائی میں بھی نظر آتا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف کھل کر زہر اگل رہے ہیں اور اپنے اور اپنے دھڑے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر حد عبور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس عدلیہ کی حقیقت ملک کے کسی بھی چھوٹے بڑے شہر کی عدالت میں جا کر چند منٹوں میں ہی دیکھی جا سکتی ہے جہاں لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور ججوں سے لے کر عدالتی اہلکاروں تک رشوت، دھونس اور دھاندلی عام ہو چکی ہے اور چھوٹے سے چھوٹا کام بھی بھاری رشوت اور دھونس کے بغیر ممکن نہیں۔

اب یہ لوٹ مار اور آپسی لڑائی سپریم کورٹ کے ججوں سے ہوتی ہوئی ایک نئی آئینی ترمیم تک جا پہنچی ہے جو اس ریاست، اس کے آئین اور اس کے اداروں کے فروعی اور غیر ضروری کردار کو عیاں کرتی ہے۔ اس ریاست کے تمام ادارے اس سماج پر سرمایہ دار طبقے کے خونی پنجے گاڑے رکھنے کا ہی کام کرتے ہیں اور محنت کش طبقہ جب بھی انقلاب میں ابھرے گا اس نظام اور اس کے تمام اداروں کو جڑ سے اکھاڑنے کا آغاز کرے گا۔

آئے گا انقلاب یہاں!

درحقیقت تمام معروضی حالات اس ملک میں ایک انقلابی صورتحال کے ابھرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور آنے والے عرصے میں حکمران طبقے کے اقدامات، جنگوں، قومی جبر کے حملوں، مذہبی بنیاد پرستی یا سیاسی بحران اور رسہ کشی یا کسی بھی دوسرے عنصر کے باعث اس ملک میں انقلابی تحریک ابھر سکتی ہے۔ اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں عوامی تحریکیں موجود ہیں اور حکمران طبقے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہی ہیں۔

”آزاد“ کشمیر میں بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ابھرنے والی کامیاب تحریک ابھی بھی جاری ہے اور حکمرانوں کی جانب سے مذہبی بنیاد پرستوں کے حملوں سمیت دیگر مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس تحریک نے گلگت بلتستان کی عوامی تحریک کے ساتھ جڑت بنا کر معیاری طور پر آگے کا قدم اٹھایا ہے۔ اسی طرح پشتون اور بلوچ عوام کی شاندار مزاحمتی تحریکیں بھی موجود ہیں جو آنے والے دنوں میں قوم پرستی کے فرسودہ نظریات کو رد کرتے ہوئے دیگر علاقوں کے ساتھ طبقاتی جڑت بناتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہیں۔

اس ملک کے انقلاب کا فیصلہ کن کردار یہاں کا محنت کش طبقہ ادا کرے گا جو اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر یہاں ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ محنت کش طبقے کی تحریکوں کے بھی آنے والے عرصے میں ابھرنے کے امکانات موجود ہیں اور اجرتوں میں اضافے اور پنشن کے حصول جیسی معاشی لڑائیوں سے بڑھ کر وہ ایک سیاسی لڑائی کی جانب بڑھ سکتا ہے جس میں وہ سیاسی افق پر موجود تمام رائج الوقت پارٹیوں کو رد کرتے ہوئے اپنی سیاسی جدوجہد کو انقلابی بنیادوں پر خود منظم کرے اور سیاسی اقتدار بزور طاقت حاصل کرنے کی جدوجہد کرے۔

اس کے لیے محنت کش طبقہ ملک گیر عام ہڑتال سے لے کر صنعتوں، مالیاتی اداروں، جاگیروں اور دیگر ذرائع پیداوار پر قبضہ کرتے ہوئے نجی ملکیت کے نظام کو اکھاڑنے جیسے اقدامات کی جانب بھی بڑھ سکتا ہے۔

ان انقلابی اقدامات کو تحفظ دینے کے لیے سیاسی اقتدار کا حصول بنیادی شرط ہے جس کے لیے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ذریعے اپنی سیاسی قیادت تراشنے کا عمل کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تمام امکانات عالمی اور ملکی صورتحال کی تیز ترین تبدیلیوں میں حقیقت بن کر انقلابیوں کو اپنی زندگی میں ہی میسر آ سکتے ہیں اور اس ملک سے ظالمانہ اور استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کرنے کے مواقع اسی نسل میں مل سکتے ہیں۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان اگر اس منزل کے حصول کے لیے آج سے ہی جدوجہد کا آغاز کریں تو آنے والا وقت انہیں کامیابی دلا سکتا ہے اور سوشلسٹ انقلاب کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔

Comments are closed.