|تحریر: ارسلان دانی|
امیر اور غریب پر مبنی نظام کو قائم رکھنے کے لیے حکمران تمام مسائل کی وجہ چند کرپٹ لوگوں کو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پورے نظام پر کوئی سوال نہ اٹھائے۔ اسی طرح محنت کش عوام میں یہ سوچ پھیلائی جاتی ہے کہ ان کی تقدیر کوئی ایک ہیرو یا نجات دہندہ ہی آ کر بدل سکتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ محنت کش عوام کو سماج اور تاریخ کا دھارا بدل دینے والی ان کی اصل طاقت کا احساس نہ ہونے دیا جائے۔
انقلابی کارکن جانتے ہیں کہ نجات دہندہ وجود نہیں رکھتے اور عوام ظلم و جبر سے اپنی نجات خود ہی حاصل کرتے ہیں۔ تاریخ میں برپا ہونے والے تمام انقلابوں کی کامیابی کی بنیاد ان میں شامل ہونے والے لاکھوں عوام کی براہِ راست شرکت ہی رہی ہے۔ کوئی بھی نام نہاد سیاسی لیڈر یا ہیرو جتنی بڑی عظمت کا دعویٰ کر لے، وہ سماج میں موجود تضادات اور معروضی حالات کو اپنی مرضی کے تابع نہیں کر سکتا۔
اسی لیے انقلابی پارٹیاں اپنی بنیاد محنت کش عوام کی انقلابی تحریک اور سیاسی سرگرمی پر ہی رکھتی ہیں اور ایک انقلابی تحریک میں عوام کی حمایت جیت کر ہی اقتدار میں آتی ہیں۔
دوسری جانب حکمران طبقہ عوام کو کیڑے مکوڑے اور حقیر سمجھتا ہے۔ اس کے خیال میں ایک مقبول شخصیت، بڑا لیڈر یا حکمران عوام کو کسی جانب بھی ہانک سکتا ہے۔ ان کے خیال میں ذرائع ابلاغ، نصاب تعلیم اور دیگر ذرائع سے عوامی رائے عامہ کو کسی بھی جانب موڑا جا سکتا ہے اور محنت کش طبقے کا آزادانہ کردار اور سیاسی تحرک وجود نہیں رکھتا۔ یہ دو متضاد نظریات ہی ان متحارب سیاسی قوتوں کی قیادتوں کے کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔
سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ سیاست میں جو لیڈر ہوتے ہیں ان کی شخصیت کے غبارے میں میڈیا کے ذریعے ہوا بھری جاتی ہے اور اسے نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان لیڈروں کا حتمی مقصد سرمایہ دار طبقے کو فائدہ پہچانا ہی ہوتا ہے اور یہ محنت کشوں کے استحصال سے ہی ممکن ہے۔
اس سیاست کا لیڈر بننے کے لیے عوام دشمن، ظالم اور سفاک ہونے کے ساتھ ساتھ جھوٹ، منافقت، عیاری، مکاری اور دھوکہ بازی جیسے غلیظ خصائص ہی درکار ہوتے ہیں۔ اسی لیے مروجہ سیاست میں ان خصائص کے حامل افراد ہی سیاست پر حاوی نظر آتے ہیں جن میں اکثریت امیر افراد یا ان کے گماشتوں کی ہے جو اسی تعفن زدہ کردار کے باعث ہی امیر ہوئے ہیں اور سیاست میں اس مقام تک پہنچے ہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد ان غلاظتوں پر پردہ ڈال کر انتہائی مکاری سے لیڈر کا عوام دوست امیج بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دوسری جانب انقلابی سیاست میں لیڈر شپ اپنی سیاسی و نظریاتی پختگی کی بنیاد پر قیادت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ انقلابی پارٹی کی بنیاد کوئی کرشماتی شخصیت نہیں بلکہ درست سائنسی نظریہ ہوتا ہے۔ پھر اس نظریے کے گرد چند افراد کو نہیں بلکہ ہزاروں کیڈرز کی ایک وسیع پرت کو منظم کرنا ہوتا ہے۔
ایک منظم اجتماعی قیادت کے بغیر کوئی بھی انقلابی پارٹی تحریک کی قیادت نہیں کر سکتی۔ اس لیے انقلابی پارٹیوں میں شخصیات کو نہیں بلکہ نظریات کو اہمیت دی جاتی ہے اور ہر کارکن اپنے سے بہتر نئے کارکن تیار کرنے میں مگن رہتا ہے۔
انقلابی پارٹی کی قیادت کا مقصد ذاتی مقبولیت یا مفاد حاصل کرنا نہیں بلکہ محنت کش طبقے کے مفادات کے لیے لڑنا ہوتا ہے۔ اس لیے انقلابی سیاست کرنے کے لیے نظریات پر عبور کے ساتھ جرات، حوصلے اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اور جتنے بڑے پیمانے پر کوئی انقلابی کارکن ان صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے اتنا ہی وہ قائدانہ کردار ادا کرتا چلا جاتا ہے۔
یہ صلاحیتیں بازار سے خریدی نہیں جا سکتیں بلکہ نظریاتی سچائی اور دیانتداری سے ہی یہ صلاحیتیں کسی بھی شخص میں بیدار ہوتی ہیں اور انقلابی کام میں لگن سے ڈٹے رہنے اور تمام مشکلات اور دشمنوں کے حملوں کا جرات سے مقابلہ کرنے سے ہی پروان چڑھتی ہیں۔ در حقیقت انقلابی قیادت پہلے سے تیار شدہ حالت میں کسی لیڈر کی شکل میں کبھی دستیاب نہیں ہوتی بلکہ انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل میں ہی تشکیل پاتی ہے۔
دیگر پارٹیوں کی طرح یہاں کوئی فرد واحد تمام فیصلے نہیں کرتا بلکہ جمہوری مرکزیت کے تحت اجتماعی قیادت اور فیصلہ سازی کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابی پارٹی میں شامل ہونے والے نئے افراد بہت تیزی سے اس نظام کی پیدا کردہ اخلاقی اور سماجی غلاظتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے پارٹی کی بلند ثقافت اپنا لیتے ہیں اور پارٹی کا باقاعدہ حصہ بنتے ہوئے اپنی نظریاتی تربیت اور کردار سازی کو تیزی سے آگے بڑھا کر قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں۔
اسی طرح شخصیت پرستی سمیت سماج کی تمام غلاظتوں کے مسلسل حملوں کا مقابلہ نظریاتی تربیت کے ذریعے کیا جاتا ہے۔