|تحریر: آفتاب اشرف|
نوعِ انسان کی سیاسی، سماجی اور معاشی تاریخ کو ٹھوس سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کا کارنامہ بلاشبہ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے سر انجام دیا۔ اگرچہ معروضی تاریخ نویسی کا آغازکلاسیکی یونانی عہد میں ہیروڈوٹس سے ہوا، جسے بعد ازاں ٹیسی ٹس اور پلوٹارک جیسے رومی ویونانی مؤرخین نے آگے بڑھایا لیکن ان مؤرخین کا زیادہ تر کام محض واقعات اور مختلف شخصیات کی زندگی کو ایک چنیدہ انداز میں تاریخ وار ترتیب دینے تک محدود تھا۔ غالباً قرونِ وسطیٰ کا عرب دانشور اور مؤرخ ابن خلدون وہ پہلا شخص تھا جس نے اپنی مشہور کتاب ”المقدمہ“ میں انسانی تاریخ کو بے ہنگم واقعات کے ایک گنجلک تسلسل کے طور پر دیکھنے کی بجائے تاریخی حقائق کی تہہ میں کارفرما قوانین کو کسی حد تک معروضی بنیادوں پر سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کی، لہٰذا اپنے فلسفیانہ نقطہ نظر کی تمام تر محدودیت اور غلطیوں کے باوجود اسے بجا طور پر ”فلسفہئ تاریخ“ کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ روشن خیالی کے عہد کے اطالوی دانشور اور مؤرخ باتیستا ویکو کو جدید فلسفہئ تاریخ کا بانی کہا جاتا ہے اور فلسفیانہ نقطہ نظرکے اختلاف کے باوجود کئی ایک بنیادی سائنسی خصائص رکھنے کی وجہ سے مارکس، ویکو کے کام کو مثبت انداز میں دیکھتا تھا۔ اسی طرح عظیم فلسفی ہیگل کا فلسفہئ تاریخ پر کام، جہاں ایک طرف جدلیاتی طریقہ کار کے استعمال کے کارن غیر معمولی تاریخی بصیرت کا ایک خزانہ ہے، وہیں دوسری طرف عینیت پرستی کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر یہ بھی ہیگلیائی جدلیات کی طرح اپنے سر کے بل کھڑا ہے۔ آخر کار یہ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز ہی تھے جنہوں نے افلاطون اور ارسطو سے لے کر فیورباخ اور ہیگل تک تمام فلسفے کے تعقلی مغز کوسموتے اور مزید نکھارتے ہوئے ”جدلیاتی مادیت“ کافلسفہ پروان چڑھایا اور مادی جدلیات کے طریقہ کار کا تاریخ پر اطلاق کرتے ہوئے تاریخ کے مادی نقطہ نظر یا ”تاریخی مادیت“کو پیش کیا جس کے متعلق ہماری دو ٹوک رائے ہے کہ یہ انسانی تاریخ کو سمجھنے کے لئے سب سے سائنسی، جدید اور درست نقطہ نظر ہے۔
مارکس اور اینگلز کے بعد ان کے نظریاتی شاگردوں، خاص کر جارجی پلیخانوف، لینن اور ٹراٹسکی نے تاریخی مادیت کے نقطہ نظر کو نکھارنے اور اس خزانے میں مزید اضافہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں ہماری انسانی سماج کے تاریخی ارتقا کے متعلق سمجھ بوجھ مزید بہتر ہوتی گئی۔ انہی اضافوں میں سے ایک ”ناہموار اور مشترکہ ترقی کا قانون“ ہے، جس کی بنیاد یعنی تاریخی ارتقا اور ترقی کی ناہمواریت کے متعلق ہمیں مارکس اور اینگلز کی تصانیف میں بھی کئی جگہوں پراشارے ملتے ہیں۔ مزید برآں، لینن نے بھی کئی ایک مرتبہ، خاص کر سامراج کے اپنے تجزئیے میں سرمایہ داری میں ترقی کی ناہمواریت کے مظہر کو بنیاد بنایا ہے۔ لیکن ناہموار ترقی کو اس کے جدلیاتی الٹ یعنی مشترکہ ترقی کے مظہر کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس پورے عمل کو ایک کُل کے طور پر دیکھنے اور اس تاریخی مظہر کو انقلابِ روس کا درست تناظر تخلیق کرنے سے لے کر اسے تاریخی ارتقا (یعنی سماج کے ارتقا) کے ایک عمومی قانون کی صورت دیتے ہوئے اس کا اطلاق پوری انسانی تاریخ (ماقبل از تاریخ عہد اس میں شامل نہیں) پر کرنے کا سہرا بلاشبہ لیون ٹراٹسکی کے سر ہے۔ اسی طرح ٹراٹسکی کے ”نظریہئ انقلابِ مسلسل“ کی بنیاد میں بھی یہی قانون کارفرما ہے۔ اس تحریر میں ہم ناہموار اور مشترکہ ترقی کے قانون کے بنیادی نکات، اس کے دونوں حصوں کے باہم جدلیاتی تعلق، اس قانون کے عملی اطلاق اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج اور ان کی اہمیت پر بحث کریں گے۔ اس مقصد کے لئے ہم نے جہاں مارکس، اینگلز، لینن اور خاص کر ٹراٹسکی کی تحریر وں سے سیر حاصل استفادہ کیا ہے، وہیں ٹیڈ گرانٹ، ایلن ووڈز اورامریکی دانشور جارج نوواک کی تصانیف سے بھی بہت سی اہم جانکاری حاصل کی ہے۔
قانون کا عمومی تعارف اور بنیادی نکات
انسانی سماج کا تاریخی ارتقا (ارتقا میں بتدریج ہونے والی مقداری اور دھماکہ خیز معیاری تبدیلیاں، دونوں شامل ہیں) کوئی سیدھی لکیر میں بتدریج ہونے والاہمہ جہت و ہمہ گیر طور پر ہموار اور متوازن عمل نہیں ہے۔ مارکس اور اینگلز نے بلاشبہ درست طور پر تاریخی مادیت کے تحت نوعِ انسان کے تاریخی ارتقا کو طرزِ پیداوار میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق قدیم کمیونزم، غلام داری، جاگیر داری اور سرمایہ داری میں تقسیم کیا، جبکہ ایشیائی سماجوں (خصوصاً ہندوستان) کے حوالے سے ایشیائی طرزِ پیداوارکا خیال بھی متعارف کروایا۔ لیکن یہ تاریخی ارتقا کا ایک انتہائی عمومی خاکہ ہے جو انسانی تاریخ کا ایک بنیادی خاکہ استوار کرنے کے لئے تو کافی ہے لیکن اگر ہم تاریخی ارتقا کے پر پیچ، متضاد، غیر ہموار، غیر متوازن اور دھماکہ خیز عمل کو مزید گہرائی میں جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں ناہموار اور مشترکہ ترقی کے قانون کی مدد لینا پڑتی ہے۔ لیکن یہ بالکل واضح ہونا چاہیے کہ ناہموار اور مشترکہ ترقی کا قانون کہیں بھی تاریخی مادیت کے کسی بنیادی نکتے سے متصادم نہیں بلکہ یہ جدلیاتی طور پر تاریخی مادیت کی ہی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور اس کے عمومی تھیوریٹیکل فریم ورک میں ہی آپریٹ کرتا ہے۔
اب تک کے تمام تاریخی ارتقا کے دوران مختلف سماج عمومی طور پر ایک رفتار اورایک لگے بندھے طے شدہ طریقہ کار پر چلتے ہوئے ایک ہموار اور متوازن انداز میں ارتقا پذیر نہیں ہوئے۔ اگر ہم معاملات کی جڑ میں جائیں تو یہ کہنا مناسب ہو گا کہ تاریخی ارتقا کے دوران مختلف سماجوں میں پیداواری قوتوں کی مقداری و معیاری بڑھوتری ایک سیدھی لکیر میں کسی پتھر پر لکیر نما طے شدہ ڈگر پر باہم ہموار اور ہم آہنگ انداز میں نہیں ہوئی۔ اپنے تاریخی پس منظر اور اس سے جنم لینے والے دیگرمقداری اور معیاری خصائص کی بدولت تاریخ کے کسی بھی مقام پربعض سماج پیداواری قوتوں کی مقداری و معیاری ترقی کے حوالے بہت آگے نکل جاتے ہیں جبکہ بعض بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ پیداواری قوتوں کی ترقی کی یہ ناہمواریت، حتمی تجزئیے میں، مختلف سماجوں میں ثقافت اور سیاسی و سماجی ڈھانچوں کے مابین مقداری و معیاری فرق اور ناہمواریت کا باعث بھی بنتی ہے۔ مزید برآں، کسی بھی سماج، چاہے ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ، کے اپنے اندر بھی معیشت، ثقافت اور سیاسی و سماجی ڈھانچوں کی تشکیل بھی کسی سیدھی لکیر میں ایک مکمل طور پر ہم آہنگ انداز میں نہیں ہوتی۔ مختلف وجوہات کے کارن معیشت و تکنیک کاری کے بعض پہلو ترقی کر جاتے ہیں تو بعض پسماندہ رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح، اگرچہ ”حتمی تجزئیے“ میں یہ معاشی بنیاد ہی ہوتی ہے جس پر کسی سماج کی ثقافت اور سیاسی و سماجی ڈھانچوں کا سُپر سٹرکچر کھڑا ہوتا ہے مگر معیشت اور سپر سٹرکچر کے بیچ بھی کوئی سیدھی لکیر کا میکانکی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا ارتقا ہر صورت میں ایک باہم، ہم آہنگ اور متوازن انداز میں ہوتا ہے۔ یعنی ٹراٹسکی کے الفاظ میں ترقی کی ناہمواریت تاریخ کا سب سے عمومی قانون ہے۔
مگر ابھی تک ہم سکے کے محض ایک رخ کو زیر بحث لائے ہیں۔ تاریخ میں ترقی کی ناہمواریت کے متعلق تو مارکس، اینگلز اور لینن بھی بخوبی آگاہ تھے اور ان کی تصانیف میں ہمیں جا بجا اس جانب اشارے بھی ملتے ہیں۔ ٹراٹسکی کا اصل کارنامہ ناہموار ترقی کے جدلیاتی الٹ یعنی مشترکہ ترقی کے تاریخی مظہر کی وضاحت کرنا اور ان دونوں عوامل کو ایک جدلیاتی ربط میں لاتے ہوئے بطور کُل ایک عمومی قانون کی شکل میں ڈھالنا تھا۔ در حقیقت ترقی یا تاریخی ارتقا کی ناہمواریت اور مشترکہ پن کا جدلیاتی تعلق، جدلیاتی منطق کے بنیادی ترین اصول یعنی ”ضدین کے اتفاق اور باہم انضمام“ پر ہی قائم ہے اور مادی جدلیات کے تاریخ پر اطلاق کی ایک شاندار مثال ہے۔
مختلف سماج جہاں اپنی اپنی مقداری و معیاری خصوصیات رکھتے ہیں وہیں یہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ، علیحدہ سیاروں پر نہیں بستے بلکہ کرۂ ارض پر موجود عالمی سماج کی کُلیت کے ہی مختلف اجزا ہیں اور ناگزیر طور پرایک آپسی جدلیاتی تعلق میں بندھے ہوئے ہیں۔ ایک کُل کا حصہ ہونے کے ناطے جہاں تمام سماج ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، وہیں عالمی سماج کی کُلیت، جو معیاری اعتبار سے اپنے اجزا سے مختلف اور برتر ہوتی ہے، بھی ان تمام سماجوں پر ایک فیصلہ کن انداز میں اثر ڈالتی ہے۔ اسی عالمی کُلیت کا حصہ اور اس کے تحت ہونے کے ناطے جب ترقی یافتہ اور پسماندہ سماج ایک دوسرے کے ساتھ باہم تعلق میں آتے ہیں تو مشترکہ ترقی کا دھماکہ خیز اور متضاد مظہر جنم لیتا ہے۔ اس مظہر میں ایک پسماندہ سماج، ترقی یافتہ سماج کے طرزِ پیداوار، معیشت اور تکنیک کاری کے بعض پہلوؤں اور اجزا کوتاریخی جبر کے تحت براہِ راست اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور ایسا کرتے وقت وہ ان تمام ارتقائی مراحل کومن وعن نہیں دہراتا جن سے گزر کر ترقی یافتہ سماج اس مقام تک پہنچا ہوتا ہے۔ وہ یا تو ان ارتقائی مراحل کو ایک لمبی جست کے ذریعے مکمل طور پر پھلانگ جاتا ہے یا پھر انہیں مخصوص مقامی حالات کے تحت ایک مختلف ڈگر پر سکیڑتے ہوئے برق رفتاری سے عبور کر تا ہے اور اس عمل میں بعض اوقات پسماندہ سماج بعض پہلوؤں یا حتیٰ کہ بحیثیت مجموعی، ایک ترقی یافتہ سماج سے برق رفتار تبدیلیوں کے باعث آگے بھی نکل جاتا ہے۔ مشترکہ ترقی کا یہ مظہر صرف طرزِ پیداوار، معیشت و تکنیک تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ ثقافت، سیاسی و سماجی ڈھانچوں، نظریات اور یہاں تک کہ انفرادی و سماجی نفسیات میں بھی اپنا اظہار کرتا ہے۔ یوں مشترکہ ترقی کا مظہر ایک طرف توتاریخ کے مختلف ارتقائی مراحل سے تعلق رکھنے والے قدیم اور جدید یعنی ضدین کا جزوی انضمام ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف یہ ترقی یافتہ سماج کے پسماندہ سماج کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں جنم لینے والے براہِ راست یا بالواسطہ تاریخی جبر کا نتیجہ ہوتا ہے لہٰذا یہ عوامل مشترکہ ترقی کے مظہر کواپنی سرشت میں ہی ایک انتہائی متضاداور دھماکہ خیز عمل بنا دیتے ہیں۔ اگرچہ، تاریخی ارتقا کی ناہمواریت اور مشترکہ پن میں ایک جدلیاتی تعلق ہوتا ہے اورمشترکہ ترقی بھی واپس ناہمواریت پر اثر انداز ہوتے ہوئے ایک لمبے عرصے میں اس کے بعض پہلوؤں کو گھٹانے اور بعض کو بڑھانے کا کارن بنتی ہے لیکن حتمی تجزئیے میں یہ ناہمواریت ہے جس کی کوکھ سے مشترکہ ترقی کا مظہر جنم لیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اسے’’ناہموار اور مشترکہ ترقی کا قانون“ کہتے ہیں نہ کہ اس کے الٹ۔
ٹھوس تاریخی مثالوں کے ذریعے بحث کو آگے بڑھانے سے قبل اس قانون کے حوالے سے ایک اہم وضاحت لازمی ہے۔ وہ یہ کہ اگرچہ اس قانون کا اطلاق عہدِ بربریت کے بالا مرحلے سے لے کر اب تک کی تمام انسانی تاریخ (یعنی سماج کی تاریخ) پر ہوتا ہے لیکن سرمایہ داری کی ظہور پذیری کے بعد اس قانون کی عملداری کو اس کی پوری شدت اور جوبن پر دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ اپنی مخصوص جوہری حرکیات کے تحت سرمایہ داری نے عالمی سماج کو بطور ایک کُل جس بلند معیاری پیمانے پر پہنچایا ہے، وہ اس سے قبل کوئی بھی طرزِ پیداوار حاصل نہیں کر سکا۔ ماقبل از سرمایہ داری عہد میں یہ کُلیت موجود تو تھی مگر مادی اور شعوری دونوں حوالوں سے ایک انتہائی خام اور ابتدائی شکل میں۔ لہٰذا آگے آنے والی بحث میں اگرچہ ہم ماقبل از سرمایہ داری عہد سے بھی اس قانون کی چند مثالیں دیں گے لیکن زیادہ تر بحث سرمایہ دارانہ عہد میں اس قانون کی عملداری کے متعلق ہی ہو گی۔
ناہموار اور مشترکہ ترقی۔۔کچھ تاریخی جھلکیاں
1۔ ایک دنیا اور کئی طرز ہائے پیداوار
اگر ہم پہلی صدی قبل از مسیح کی معلوم دنیا پر تاریخ کے مادی نقطہ نظر کے تحت ایک طائرانہ نگا ہ ڈالیں تو جو امر فوراً ہماری توجہ کھینچ لیتا ہے وہ ایک ہی وقت میں دنیا میں مختلف طرز ہائے پیداوار کی موجودگی ہے۔ ایک طرف سلطنتِ روم کی شکل میں غلام داری، جو اس عہد کا جدید ترین طرزِ پیداوار تھی، اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی تو دوسری طرف ہندوستان، چین، فارس، میسوپوٹیمیا اور دیگر کئی خطوں میں ایشیائی طرزِ پیداوار رائج تھا، جو غلام داری سے کم ازکم دوہزار سال پرانا نظام تھا۔ وسطی و جنوبی افریقہ، شمالی یورپ اور وسط ایشیا سمیت کرہئ ارض کے کئی خطے ایسے بھی تھے جو ابھی تک عہد تہذیب میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے اور وہاں بسنے والے قبائل عہدِ وحشت کے بالائی مرحلے سے لے کر عہدِ بربریت کے مختلف مراحل یا دوسرے الفاظ میں قدیم کمیونزم کے ارتقائی مرحلے میں ہی پھنسے ہوئے تھے۔ یہ ناہمواریت مشترکہ ترقی کے مظہر کو بھی جنم دے رہی تھی۔ جیسا کہ سلطنت روم کے یورپی مقبوضات میں بسنے والے کئی ایک قبائل نے رومن اثرات کے تحت بیچ کے تمام ارتقائی مراحل کو پھلانگتے ہوئے براہ راست جدید رومن دھات کاری، ہتھیار سازی اور فوجی طور طریقے سیکھے اور کچھ نے تو ان رومی تکنیکوں میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ وہ رومن فوج کو شکستیں دینے لگے۔ کچھ تاریخی ماخذوں کے مطابق 73 قبل مسیح کی مشہور غلام بغاوت کا لیڈرسپارٹیکس، جو تھریس (جنوب مشرقی یورپ کا ایک علاقہ) کا ایک قبائلی تھا، بھی غلام بنائے جانے سے قبل رومن نیم فوجی دستوں میں رہ چکا تھا اور رومن سپاہ گری کے طور طریقوں سے بخوبی واقف تھا۔
اسی طرح اگر ہم اپنے تاریخی سفر کو فاسٹ فارورڈ کر تے ہوئے 17 ویں صدی عیسوی کے وسط میں پہنچ جائیں تو تاریخی ارتقا کی ناہمواریت ہمیں پورے جوبن پر نظر آتی ہے۔ انگلستان میں دنیا کا پہلا بورژوا جمہوری انقلاب ہو چکا ہے اور سرمایہ داری تاریخ کے سٹیج پر پوری طرح نمودار ہو چکی ہے۔ مگر چند ساحلی تجارتی شہروں اور ولندیز کو چھوڑ کر یورپ کے زیادہ تر خطوں میں ابھی بھی جاگیر داری ہے جو تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہے اور پیداواری قوتوں کو ترقی دینے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ 14 ویں صدی عیسوی میں طاعون کی وبا کے ہلاکت خیز اثرات اور آنے والے عرصے میں پے در پے کسان بغاوتوں کے کارن جہاں یورپ میں سرف ڈم (Serfdom) کا خاتمہ ہوا اور جاگیر داری نہایت کمزور ہو گئی وہیں اسی عرصے میں مخصوص مقامی حالات کے تحت زار شاہی روس میں سرف ڈم بڑے پیمانے پر متعارف ہوا اور 17 ویں صدی کے وسط تک یہ پورے مغربی اور وسطی روس میں پھیل کر وہاں جاگیر داری کے ایک لمبے عرصے تک قائم رہنے کی بنیاد بن چکا تھا۔ اور عین اس عہد میں جب یورپ میں ابھرتی سرمایہ داری اور مرتی جاگیرداری کی یہ کشمکش جاری تھی، ہندوستان (مغل سلطنت)، چین، ایشیائے کوچک (سلطنتِ عثمانیہ) اور دیگر کئی خطوں میں ہزاروں سال پرانا ایشیائی طرزِ پیداوار ابھی تک رائج تھا۔ جبکہ بحرِ اوقیانوس کے پارنئی دنیا میں ریڈ انڈین قبائل کی ایک بڑی اکثریت قدیم کمیونزم کے ارتقائی مرحلے میں ہی پھنسی ہوئی تھی۔ یوں ایک ہی عہد میں کرۂ ارض پر تاریخی ارتقا کے مختلف مراحل سے تعلق رکھنے والے چار مختلف طرز ہائے پیداوار موجود تھے۔
2۔ سرمایہ داری۔۔اپنے سانچے میں دنیا کی تخلیق
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی وضاحت کی تھی کہ ناہموار اور مشترکہ ترقی کے قانون کا اطلاق اگرچہ انسانی سماج کی تمام تر تاریخ پر ہوتا ہے لیکن سرمایہ داری کے عہد میں اس کی عمل داری اپنے جوبن کو پہنچ جاتی ہے۔ ماضی کے تمام طرز ہائے پیداوار کے برعکس سرمایہ داری یونیورسل کموڈٹی پروڈکشن کا نظام ہے اور محنت کے زیادہ سے زیادہ استحصال کے ذریعے سرمائے کا زیادہ سے زیادہ ارتکاز اس کا ایک آہنی قانون ہے۔ ان دونوں جوہری خصوصیات اور انہی سے جنم لینے والی سرمایہ دارانہ مسابقت کے نتیجے میں سرمایہ داری نے اپنے ترقی پسندانہ عہد میں پیداواری قوتوں کو پہلے کبھی نہ دیکھی گئی سرعت کے ساتھ ترقی دی۔ مگر اس کے نتیجے میں جلد ہی پیداواری قوتوں کا نجی ملکیت کی زنجیروں کے ساتھ ساتھ قومی ریاست کی حدود سے بھی ٹکراؤ شروع ہو گیا۔ اس تضاد کو ٹالنے کی خاطرسرمایہ داری کا خام مال، نئی منڈیوں اور سستی لیبر کی تلاش میں اپنی یورپی جنم بھومی سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل جانا ناگزیر تھا اور پہلے قبضہ گیر روایتی کالونیل ازم اور بعد ازاں جدید سامراجیت کے ذریعے ایسا ہی ہوا۔ مگر ایسا ہونا اس لئے بھی ممکن ہواکہ تاریخی ارتقا کی ناہمواریت کے بدولت یورپی بورژوا سماج تاحال تاریخ کے پچھڑے ہوئے مراحل میں پھنسے کرۂ ارض کے دیگر سماجوں سے کہیں آگے نکل چکے تھے۔ تاریخی ناہمواریت مشترکہ ترقی کے دھماکہ خیز ملغوبوں کو جنم دینے کے لئے راہ ہموار کر چکی تھی۔
i) نئی دنیا۔۔قدیم اور جدید، آمنے سامنے
نئی دنیا یعنی شمالی اور جنوبی امریکہ میں یورپی کالونیل ازم کی کہانی تاریخی ناہمواریت اور اس سے جنم لینے والی مشترکہ ترقی کی سب سے شاندار مثالوں میں سے ایک ہے۔ 16 ویں اور 17 ویں صدی عیسوی میں توپوں سے مسلح بحری جہازوں پر سوار ہو کر امریکہ جانے والے یورپی ابھرتے ہوئے بورژوا سماج کے نمائندے تھے جبکہ ان کے مدمقابل شمالی امریکہ کے ریڈ انڈین قبائل ابھی تک قدیم کمیونزم جبکہ موجودہ میکسیکو کے علاقے کی ازٹک تہذیب ایشیائی طرزِ پیداوار سے ملتے جلتے نظام پر قائم تھی۔ ایک طرف کموڈٹی پروڈکشن اور نت نئی تکنیک کاری پر استوار تاریخ کا جدید ترین طرزِ پیداوار تھا اور دوسری طرف ایسے سماج تھے جو پہیے اور ہل کے استعمال سے بھی ناآشنا تھے۔ یورپی کالونیل ازم کے تحت بر اعظم امریکہ کے مقامی باشندوں پر جو ظلم و ستم ہوا، وہ ایک الگ داستان ہے لیکن فی الحال ہماری دلچسپی کا موضوع وہ مشترکہ ترقی کا مظہر ہے جسے اس ناہمواریت نے جنم دیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخی جبر کے تحت کس طرح ریڈ انڈین قبائل ایک جست میں بیچ کے تمام ارتقائی مراحل کو پھلانگتے ہوئے عہدِ وحشت میں استعمال ہونے والے پسماندہ تیر کمان اور پتھر کے پھلوں والی کلہاڑیوں سے براہ راست یورپی قبضہ گیروں سے چھینی ہوئی توڑے دار بندوقوں کے استعمال تک پہنچ جاتے ہیں۔ کس طرح یورپ کی شیئر ہولڈنگ بورژوا تجارتی کمپنیاں نوزائیدہ عالمی منڈی میں کھپت کے لئے امریکہ میں بورژوا بنیادوں پر بڑے پیمانے کی کاشتکاری کا آغاز کرتی ہیں۔ یوں جہاں ایک طرف ہل کے استعمال سے بھی ناآشنا ریڈ انڈینز کی زمین براہ راست زراعت کے جدید بورژوا طریقوں سے روشناس ہوتی ہے، وہیں دوسری طرف ریڈ انڈین قبائل کا غیر طبقاتی قدیم کمیونسٹ سماج غلام دارانہ اور جاگیر دارانہ طرزِ پیداوار کے ارتقائی مراحل سے گزرے بغیر ہی براہ راست بورژوا طرزِ پیداوار سے آشنائی پاتا ہے۔ یہ مشترکہ ترقی عجیب وغریب ملغوبوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ داری کی یورپی جنم بھومی میں غلام دارانہ طرزِ پیداوار کا خاتمہ ہوئے ایک ہزار سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا تھا لیکن زیادہ سے زیادہ منافع خوری کی ہوس میں امریکہ میں بورژوا کاشتکاری کا آغاز کرنے والی یورپی کمپنیوں اور سرمایہ داروں نے اس مقصد کے لئے اجرتی محنت کا استعمال کرنے کی بجائے غلاموں کا استعمال کیا کیونکہ امریکہ کے مخصوص حالات کے تحت غلام محنت کا استعمال سستا اور سہل تھا۔ یوں غلامی کے لفظ سے بھی ناآشنا امریکہ غلام دارانہ طرزِ پیداوار سے گزرے بغیر یورپ کی قبضہ گیر بورژوازی کے ہاتھوں غلامی کے سماجی ادارے سے متعارف ہوا لیکن یہاں یہ واضح رہے کہ بورژوا کاشتکاری میں غلام محنت کے استعمال سے اس کاشتکاری کی نوعیت تبدیل نہیں ہو جاتی اور یہ عالمی منڈی سے جڑی ایک بورژوا پیداواری سرگرمی ہی رہتی ہے لیکن مشترکہ ترقی کے تمام تر تضادات کے ساتھ۔ اسی طرح، بورژوا یورپی کالونیل ازم نے ریڈ انڈینز کے غیر طبقاتی قبائلی ڈھانچے کو بھی جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ یورپی تاجروں کے ذریعے بے شمار ریڈ انڈینز مختلف مقامی اشیاء خصوصاً کھالوں کی عالمی تجارت کے ساتھ منسلک ہوگئے اور یوں ہزاروں سالوں سے قدیم کمیونزم کے تحت رہنے والے قبیلے ایک ہی جست میں زر، روپے پیسے اور طبقاتی تفریق سے آشنا ہو ئے۔ اسی طرح، کچھ ریڈ انڈین قبائل بھی غلاموں کی تجارت میں ملوث ہو گئے اور شمالی امریکہ کے وسطی علاقوں سے دیگر انڈینز کو پکڑ کر بطور غلام یورپیوں کے ہاتھ بیچنے لگے۔ مشترکہ ترقی کے ان عجیب و غریب مظاہر نے مختصر عرصے میں ہی نجی ملکیت کے تصور سے ناآشنا ریڈ انڈینز میں ایسے بے شمار عناصر کو پیدا کر دیا جو اپنے حرص وطمع میں بورژوا یورپیوں سے کم نہ تھے۔
مگر بطور ایک خطہ شمالی امریکہ کو پسماندگی کا وہ مخصوص فائدہ بھی ہوا جسے ٹراٹسکی ”پسماندگی کا استحقاق“ قرار دیتا ہے۔ یعنی وسائل سے مالامال امریکہ کی کنواری سر زمین ماضی اور خصوصاً جاگیرداری کے کسی تاریخی کاٹھ کباڑ (فرسودہ سیاسی و سماجی اداروں، پیداواری رشتوں اورمتروکیت کا شکار قدیم حکمران اشرافیہ) کے بغیر جدید ترین بورژوا طرزِ پیداوار کی براہِ راست پیوند کاری کے لئے تیار تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انگلستان کے بعد دنیا کا دوسرا بورژوا جمہوری انقلاب کسی یورپی ملک میں نہیں بلکہ تاجِ برطانیہ کے خلاف جنگِ آزادی (1775-83ء) کی صورت میں شمالی امریکہ میں ہوا جس کے نتیجے میں شمالی امریکہ ایک ہی جست میں بورژوا آئین اور ریاست کی جدید ترین شکل سے براہِ راست روشناس ہوا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ وجود میں آئی، جو سول وار (1861-65ء) کے ذریعے مشترکہ ترقی کے پیداکردہ تضادات (یعنی غلامی) کا خاتمہ اور پورے شمالی امریکہ میں بورژوا جمہوری انقلاب کی تکمیل کرتے ہوئے 20 ویں صدی کی پہلی دہائیوں میں یورپ کو صنعتی پیداوار اور فوجی طاقت میں کہیں پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ قوت بن گئی اور آج تک اس مقام پر قائم ہے۔ گوکہ امریکہ کا یہ بورژوا جمہوری انقلاب یورپ سے آئے ہوئے نو آبادکاروں اور ان کی نئی نسل نے ہی کیا تھا اور اس میں مقامی آبادی کا کوئی کلیدی کردار موجود نہیں تھا لیکن اس کے باوجود امریکہ کے اپنے معروضی حالات اور ان مخصوص حالات میں ذرائع پیداوار کی ترقی نے ہی اس انقلاب کی بنیاد رکھی تھی۔
ii) بسمارک کا جرمنی اور شاہ میجی کا جاپان
ناہمواریت کا تاریخی جبر اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مشترکہ ترقی لازمی نہیں کہ براہ راست ہی ہو جیسا کہ امریکہ میں ہوا۔ بلکہ یہ مظہر بالواسطہ بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ بسمارک کے جرمنی اور شاہ میجی کے جاپان میں ہمیں نظر آتا ہے۔
جرمن بورژوازی تاریخ کے میدان میں برطانوی اور فرانسیسی بورژوازی کے مقابلے میں خاصی تاخیر سے وارد ہوئی تھی اور اپنی اسی تاریخی کمزوری کے کارن بورژوا جمہوری انقلاب کا کوئی بھی فریضہ پورا کرنے سے قاصر تھی۔ 19 ویں صدی عیسوی کے وسط میں جب برطانیہ ایک عالمی طاقت تھا، فرانس نپولین کی قیادت میں ایک بار پورے یورپ پر اپنے جھنڈے گاڑ نے کے بعد اب کالونیل قبضہ گیری کی دوڑ میں برطانیہ کے مد مقابل تھا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قیام کو لگ بھگ ستر سال کا عرصہ بیت چکا تھا، جرمن خطہ ابھی تک 39 مختلف شاہی ریاستوں اور راجواڑوں میں بٹاہوا تھا جن میں سے سوائے پروشیا کے باقی سب فوجی لحاظ سے بھی اتنی کمزور تھیں کہ باآسانی مغرب سے اپنے طاقتور بورژوا ہمسائیوں اور مشرق سے زار شاہی روس کی پسماندہ مگر مہیب افواج کا ترنوالہ بن سکتی تھیں۔ جرمن خطہ صرف مضبوط بورژوا بنیادوں پر ہی آگے بڑھ سکتا تھا مگر اس کے لئے جاگیرداری کے تاریخی کاٹھ کباڑ کا صفایا کرتے ہوئے ایک متحد قومی ریاست، ایک متحد منڈی، ایک کرنسی، ایک بورژوا قانون و ٹیکس سسٹم اور ایک متحد قومی فوج کی تخلیق لازمی تھی اور تاریخی دیری کا شکار کمزور جرمن بورژوازی یہ فرائض ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ یہ امر 1848-49ء میں جرمن خطے سمیت پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لینے والے بورژوا جمہوری انقلابات کی نئی لہر میں عملی طور پر بھی ثابت ہو چکا تھا۔ جرمن بورژوازی اس انقلاب کے دوران محنت کش طبقے کی سرکشی سے اتنی خوفزدہ تھی کہ ابتدائی مراحل میں ہی انقلاب سے غداری کر کے رجعتی جاگیر دار اشرافیہ اور شاہی قوتوں کے ساتھ سمجھوتے بازی پر اتر آئی۔ محنت کش سڑکوں پر پروشین شاہی فوج کی گولیاں کھاتے رہے اور جرمن بورژوازی نام نہاد فرینکفرٹ اسمبلی میں لایعنی بزدلانہ بحثوں اوربادشاہ کے نام بیکار اپیلوں میں وقت ضائع کرتی رہی اور بالآخر کھل کر ردِ انقلاب کے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔ یوں عوامی طاقت کے بلبوتے پر نیچے سے ایک بورژوا جمہوری انقلاب کرنے کا موقع جرمن بورژوازی کے تاریخی خصی پن کی وجہ سے ضائع ہو گیا۔ مگر پروشین جنکر (جاگیردار) اشرافیہ کا ایک سمجھدار دھڑا؛ جہاں ایک طرف 1848-49ء کے بورژوا جمہوری انقلاب کی ناکامی اورخصوصاً محنت کش طبقے کو ہونے والی خون ریز شکست سے بہت خوش تھا وہیں دوسری طرف یہ جرمن خطے کو لاحق بیرونی خطرات اور ایک نئے عوامی انقلاب، جس کی قیادت پرولتاریہ کے پاس جا سکتی تھی؛ سے خوفزدہ بھی تھا۔ ان خطرات کا سد باب کرنے کے لئے 1860ء کی دہائی میں آٹو وان بسمارک کی قیادت میں جنکر اشرافیہ کے اس دھڑے نے پروشین بادشاہت کے ساتھ مل کر ایک کنٹرولڈ طریقے سے ”اوپرسے“ بورژوا جمہوری انقلاب کے فرائض ادا کرتے ہوئے ایک جدید اور متحد جرمن قومی ریاست تشکیل کرنے کی ٹھانی۔ اس حوالے سے انہیں جنکر اشرافیہ کے باقی دھڑوں اور دیگر جرمن ریاستوں کے شاہی خاندانوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور فرانس، آسٹریا اور ڈنمارک جیسی ہمسایہ قوتوں کے خلاف جنگیں بھی لڑنا پڑیں لیکن پروشین فوج کے ذریعے لاگو کی جانے والی بسمارک کی ”بلڈ اینڈ آئرن پالیسی“ کے تحت بالآخرپورا جرمن خطہ قومی منڈی، قومی کرنسی اور دیگر بورژوا لوازمات کے ساتھ ایک جدید قومی ریاست کی صورت میں متحد ہو گیا جس نے جرمن سرمایہ داری کی انتہائی تیزی کے ساتھ ترقی کے لئے راستہ کھول دیا اور جرمنی 20 ویں صدی کی پہلی دہائی کے اختتام تک صنعتی پیداوار میں برطانیہ اور فرانس سے بھی آگے نکل گیا۔ مگر جنکر اشرافیہ کے ایک دھڑے کے ہاتھوں اوپر سے ہونے والا یہ جرمن بورژوا انقلاب مشترکہ ترقی کی ہر مثال کی طرح اپنی بنیاد میں تضادات بھی لئے ہوئے تھا۔ ایک طرف بھرپور ریاستی سرپرستی میں تیز رفتار جدید ترین صنعت کاری ہو رہی تھی تو دوسری طرف اس ریاست کی سربراہی وسیع اختیارات رکھنے والی ایک شہنشاہیت (پروشین بادشاہت) کے پاس تھی۔ ایک طرف بورژوازی تھی جو ریاستی سرپرستی میں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اب عالمی سطح پر مقابلے بازی کے لیے تیار تھی اور دوسری طرف پرانی جنکر اشرافیہ تھی جو زیادہ تر ریاستی مشینری، خصوصاً فوجی افسر شاہی میں حاوی تھی۔ تاریخ کے مختلف ارتقائی مراحل سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں حکمران طبقات ہزاروں تانوں بانوں سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک بھی تھے مگر ان کے آپسی تضادات بھی تھے۔ مزید برآں، جنکر اشرافیہ تو رجعتی تھی ہی لیکن اپنے تاریخی پس منظر اورمعروضی حالات کے کارن جرمن بورژوازی بھی دنیاکے طاقتور قومی سرمایہ دار طبقوں میں سب سے زیادہ رجعتی تھی لیکن اسی جرمنی میں 19 ویں صدی کی آخری دہائیوں میں دنیا کی سب سے طاقتور مزدور تحریک اور پرولتاریہ کی سب سے بڑی پارٹی یعنی جرمن سوشل ڈیموکریٹ پارٹی بھی موجود تھی۔ آنے والے وقت میں مشترکہ ترقی کے تضادات سے پیدا ہونے والی اس ناہمواریت نے جرمن فاشزم کے ابھار میں ایک فیصلہ کن تو نہیں لیکن ایک اہم کردار ضرور ادا کیا۔
کچھ ایسی ہی کہانی شاہ میجی کے جاپان کی بھی ہے۔ توکو گاوا شو گنیٹ کے تحت تقریباً ڈھائی سو سال تک باقی دنیا سے الگ تھلگ رہنے والا جاگیردارانہ جاپان ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ چکا تھا مگر 19 ویں صدی کے وسط تک آتے آتے جاپان کے لئے پر ہوس نگاہیں رکھنے والے مغربی اور خصوصاً بحر الکاہل کے پار سے آنے والے امریکی تاجروں کا راستہ روکنا اب مزید ممکن نہیں رہا تھا کیونکہ اپنی طاقتور بورژوا ریاستوں کی بھرپور آشیر باد رکھنے والے یہ تاجر اب توپ اور گن پاؤڈر کی زبان میں بات کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ ایسے میں جاپانی فیوڈل اشرافیہ کا ایک دور اندیش دھڑا بخوبی سمجھ چکا تھا کہ اگر معاملات ایسے ہی رہے تو جاپان جلد ہی مغربی طاقتوں کی ایک کالونی بن کر رہ جائے گا۔ لہٰذا بقا کے لئے ضروری تھاکہ جاپان شوگنیٹ تنہائی پسندی اور پسماندگی سے باہر آئے اور جدید خطوط پرآگے بڑھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی کے برعکس جاپان میں قومی بورژوازی تقریباً سرے سے ہی ناپید تھی اور جاگیری اشرافیہ کے ایک دھڑے نے شاہی خاندان (شہنشاہ میجی) کے ساتھ ملتے ہوئے مکمل طور پر طور پر ”اوپر سے“ کئے گئے اقدامات کے ذریعے جاپان کو ایک جدید بورژوا قومی ریاست بنانے کی ٹھانی جس کا آغاز 1868ء میں ”میجی ریسٹوریشن“ یا ”میجی انقلاب“ سے ہوا۔ اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں ریاستی سرپرستی کے تحت تیز رفتار جدید صنعت کاری کی گئی، شوگنیٹ کے فرسودہ جاگیری قوانین کا بہت حد تک خاتمہ کر کے جدید بورژوا قوانین لاگو کئے گئے اور ملک کے سماجی ڈھانچے کو بھی بڑی حد تک بورژوا خطوط پر ڈھالا گیا۔ اس سب کے خلاف جاگیری اشرافیہ کے کئی حصوں کی جانب سے شدید مزاحمت بھی کی گئی لیکن میجی ریاست نے انہیں کچل کر رکھ دیا۔ ان سب تبدیلیوں کے نتیجے میں جاپان 20 ویں صدی کی ابتدائی دہائیوں تک ایک بڑی صنعتی و فوجی طاقت بن کر ابھرا جو پورے مشرق بعید پر اپنے سامراجی پنجے گاڑنے کے لئے تیار ہو چکی تھی۔ مگر جاپان کی یہ مشترکہ ترقی جرمنی سے بھی زیادہ تضادات اپنے اندر سموئے ہوئے تھی۔ جاپان جدت اور قدامت کا ایک عجیب الخلقت ملغوبہ بن گیا جس میں جدید صنعتکاری بھی تھی اور قدیم فیوڈل اشرافیہ کی باقیات بھی قابل ذکر پیمانے پر موجود تھیں۔ جدید بورژوا قانون سازی بھی کی گئی لیکن شہنشاہیت بھی قائم رہی۔ جدید علوم کی ترویج بھی ہوئی لیکن بے شمار قدیم سماجی تعصبات بھی قائم رہے۔ جاپان ایک طاقتور بورژوا ریاست تھی لیکن اس کی ریاستی مشینری اور خصوصاً فوج پر بڑی حد تک قدیم جاگیری اشرافیہ کا ہی قبضہ تھا۔ یہاں تک کہ میجی ریسٹوریشن کے نتیجے میں جنم لینے والی جاپانی بورژوازی کا خمیر بھی جاگیر دار اشرافیہ سے ہی اٹھا تھا اور یہ بورژوازی اپنے طبقاتی مفادات کے تحت جہاں ایک طرف قدیم اشرافیہ کے ساتھ تضاد میں تھی وہیں خاندان اور خون کے رشتے ناتوں کے ذریعے اس کے ساتھ جڑی بھی ہوئی تھی۔ میجی ریسٹوریشن کے تحت ہونے والی مشترکہ ترقی کے ان تضادات کا خاتمہ یا دوسرے الفاظ میں جاپان کے بورژوا جمہوری انقلاب کی تکمیل دوسری عالمی جنگ میں شہنشاہی جاپان کی شکست کے بعد، سوویت یونین کے اثر ورسوخ اور چین سے امڈتی سرخ آندھی کا مقابلہ کرنے کی خاطر، امریکی مارشل پلان اور جنرل ڈگلس میک آرتھرکے فوجی بوٹوں تلے ہی ممکن ہوئی۔
ناہموار اور مشترکہ ترقی کی مندرجہ بالا دونوں مثالوں میں تین نکات خاص طور پر قابل غور ہیں۔ ایک تو یہ کہ جرمنی اور خصوصاً جاپان نے ”اوپرسے“ سے برپا کئے گئے بورژوا جمہوری انقلاب کے تحت جاگیر داری سے سرمایہ داری میں چھلانگ لگاتے ہوئے سرمایہ داری کے ان تمام ابتدائی مراحل کو نہیں دہرایا جن سے وہ برطانیہ یا فرانس میں گزری تھی بلکہ ایک ہی جست میں انہیں پھلانگتے ہوئے وہاں سے سٹارٹ لیا جہاں پر سرمایہ داری اپنی جنم بھومیوں میں ایک لمبے ارتقا کے بعد پہنچی تھی یعنی ریاستی آشیرباد میں قائم اجارہ دارانہ سرمایہ داری۔ دوسرا یہ کہ ان دونوں ممالک میں بورژوا جمہوری انقلاب کا فریضہ قومی بورژوازی نے نہیں بلکہ تاریخ کے پچھلے مرحلے سے تعلق رکھنے والے حکمران طبقے (جاگیری اشرافیہ) کے ایک حصے نے ادا کیایعنی ایک تاریخی حکمران طبقے نے حالات کے مخصوص جبر کے تحت درحقیقت دوسرے تاریخی حکمران طبقے کے فرائض سر انجام دیے۔ تیسرا یہ کہ مشترکہ ترقی کے تحت پسماندہ سماج پرہونے والی جدید پیوند کاری نے ایک مخصوص عرصے کے لئے ان سماجوں میں بادشاہت جیسے قدیم جاگیری اداروں کو ایک نیا کانٹینٹ عطا کرتے ہوئے سہارا دیا اور انہیں قائم رکھا۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے سماج اور ریاست کے چنیدہ شعبوں میں جدت کاری نے ایک مخصوص عرصے کے لئے روسی زار شاہی کی مطلق العنان قوت میں اضافہ کیا تھا یا بیسویں صدی میں تیل کی جدید صنعت اور پیٹرو ڈالرز نے رجعتی عرب بادشاہتوں کو ایک عرصے کے لئے تقویت بخشی ہے۔ یعنی بعض اوقات ناہموار اور مشترکہ ترقی کے تحت ہونے والی جدت کاری اپنے متضاد کردار کی وجہ سے سماج کے متروکیت کا شکار سیاسی و سماجی ڈھانچوں کو جدید کانٹینٹ عطا کرتے ہوئے وقتی طور پر انہیں تقویت دینے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
iii) ہندوستان اور برطانوی سامراج
جب ہندوستان کا ٹاکرا برطانوی سامراج سے ہواتو اس وقت ہندوستان میں ہزاروں سال سے چلا آنے والا ایشیائی طرزِ پیداوار ہی رائج تھا۔ یہاں پر کبھی بھی غلام داری اور جاگیر داری نہیں آئی تھی۔ یہاں کوئی مقامی بورژوازی وجود نہیں رکھتی تھی۔ اگرچہ، یہاں تاجر وں کی سماجی پرت ضرور موجود تھی لیکن وہ جدید معنوں میں بورژوا نہیں تھے اور نہ ہی ان کی ایشیائی طرزِ پیداوار کی حدود وقیود میں ہونے والی محدود تجارتی سرگرمیاں اپنی نوعیت میں یورپ کی تجارتی سرمایہ داری جیسی تھیں۔ اسی طرح، یہاں بہترین ہنر مند اور دستکار تو تھے لیکن وہ یا تو ایک دوسرے سے الگ تھلگ خود انحصار دیہاتوں میں موجود ہوتے تھے یا پھر بڑے شہروں میں مطلق العنان ریاست کی طرف سے قائم کردہ زیادہ تر دھات کاری، اسلحہ سازی اور تعمیراتی ساز وسامان کے کارخانوں میں۔ نہ یہاں کے شہروں میں یورپی شہروں کی طرح ہنر مندوں کی منظم اور طاقتور گلڈز تھیں اور نہ ہی کبھی نجی ملکیت میں قابل ذکر کارخانہ داری (مینو فیکچر) قائم ہوئی تھی۔ نتیجتاً یہاں کے شہروں کا کردار بھی یورپ کے بورژوا شہروں سے مختلف تھا اور وہ ہنر، صنعت وحرفت، پیداوار اور تجارت کا گڑھ ہونے کی بجائے اپنے جوہر میں شاہی استبداد کی شان و شوکت رکھنے والے انتظامی مراکز ہی تھے۔ اسی طرح، ایشیائی طرزِ پیداوار میں زرعی زمین کی نجی ملکیت کا ٹھوس تصور بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی اس کے پیداواری رشتے یورپ کی کلاسیکی جاگیر داری کی طرح زمین کے مالک (جاگیر دار) اور زمین سے بندھے دہقانوں (Serfs) کے باہم تعلق پر مبنی تھے۔ ایشیائی طرزِ پیداوار میں سلطنت کے حکمران (بادشاہ، راجہ، نواب وغیرہ) کو تمام زرعی زمین کا مالک تصور کیا جاتا تھا لیکن عملی طور پر زمین سماج کے بنیادی یونٹ یعنی دیہات کے مشترکہ استعمال میں ہوتی تھی اور دیہات کا مکھیا یا پنچایت ہر خاندان کی افرادی قوت کے لحاظ سے اسے مشترکہ زمین سے کاشت کے لئے قطعے الاٹ کرتے تھے، لیکن یہ الاٹمنٹ نجی ملکیت کے تصور سے بالکل بیگانہ ہوتی تھی۔ دیہات مرکزی حکومت کو لگان (ٹیکس) ادا کرنے کا پابند ہوتا تھا جس کے بدلے مرکزی حکومت بیرونی حملہ آوروں سے دفاع، گزر گاہوں کی تعمیر اور سب سے بڑھ کر آبپاشی کے منصوبوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کی ذمہ دار تھی جن کے بغیر بڑے پیمانے پر زراعت کا ہونا ناممکن تھا۔ مرکزی حکومت کے لئے دیہاتوں سے لگان اکٹھا کرنے کا کام ایک مخصوص سماج کی پرت کے ذمے تھا جنہیں تعلقدار، زمیندار یا منصب دار کہا جاتا تھا۔ یورپ کی جاگیر دار اشرافیہ کے برعکس یہ ’زمیندار‘ دیہاتوں یا زرعی زمین کے مالک نہیں ہوتے تھے اور ان کا کردار مرکزی حکومت کی طرف سے متعین کردہ نمائندوں کا ہوتا تھا جن کے ذمے شاہی فرمان کے ذریعے عطا کردہ اختیارات کے تحت اپنی عملداری میں دیے گئے دیہاتوں سے لگان اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی اور قانونی معاملات کو دیکھنا بھی تھا۔ اس کے علاوہ ضرورت پڑنے پر اپنی عملداری میں موجود دیہاتوں سے سپاہی بھرتی کر کے مرکزی حکومت کی جنگی کاروائیوں کے لئے لشکر تیار کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل تھا۔ اس سب کے بدلے یہ ’زمیندار‘ جمع شدہ لگان کا ایک طے شدہ حصہ بطور آمدن اپنے پاس رکھنے کا حق رکھتے تھے۔ اگرچہ، عمومی طور پر یہ تعلقدارانہ یا زمیندارانہ اختیارات نسل در نسل چلتے تھے لیکن مرکزی حکومت کسی بھی وقت ان تمام اختیارات کو واپس لینے یا زمیندار کی ’تعیناتی‘ کی جگہ تبدیل کرنے کا اختیار رکھتی تھی۔
ہندوستان کے تاریخی ارتقا میں کوسوں پیچھے رہ جانے کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو گا کہ 17 ویں صدی عیسوی کے اختتام پر جب مغل سلطنت اپنی شان و شوکت کے عروج پر تھی، بعض اندازوں کے مطابق عالمی جی ڈی پی کا 25 فیصد ہندوستان میں پیدا ہوتا تھا اور مغل فوج دنیا کی سب سے بڑی فوج تھی، اس وقت بھی مغل سلطنت کے پاس نہ تو کوئی بحریہ تھی اور نہ ہی تجارتی جہاز رانی کا بیڑہ۔ ہندوستان کی لمبی چوڑی ساحلی پٹی پر سورت کے علاوہ اور کوئی بڑی بندر گاہ نہیں تھی۔ اور ایسا اس لئے تھا کہ ایشیائی طرزِ پیداوار کی حرکیات کے تحت سمندری تجارت پر توجہ دیتے ہوئے عالمی تجارت کا حصہ بننے کی کوئی مادی ضرورت یا اس کے لئے کوئی مادی تحریک ہی نہیں تھی۔ بلاشبہ ہندوستان دولت مند تھا مگر یہ دولت ایک قدیم طرزِ پیداوار کی بنیاد پر صدیوں میں اکٹھی ہوئی تھی اور اپنی نوعیت میں یورپ کے بورژوا سماجوں میں ہونے والے سرمائے کے ارتکاز سے معیاری طور پر مختلف تھی۔ بلاشبہ ایک مخصوص وقت تک یہاں کے دستکاروں کا تیار کردہ سوتی کپڑا اپنی عمدگی میں یورپ کی ابتدائی نوعیت کی صنعت سے بہتر تھا مگر اہم بات یہ ہے کہ یہ عمدگی دستکاری کا اوجِ کمال تھی اور دستکاری کے ذریعے مقداری و معیاری حوالے سے اس سے آگے جانا ممکن نہ تھا لیکن بورژوا یورپ کی صنعت نے تو اپنے پوٹینشل کی محض پہلی جھلک ہی دکھلائی تھی۔ اس میں تو ابھی ہر حوالے سے بڑھوتری کا بے تحاشہ پوٹینشل موجود تھا۔
ہندوستان میں برطانوی سامراجیوں کی آمد سے قبل بھی بے شمار بیرونی حملہ آور آئے تھے۔ مگر ان کا تعلق (ایک سکندرِ اعظم کو چھوڑ کر) یا توہندوستان سے کہیں کمتر اور پسماندہ سماجوں سے تھا (تمام وسط ایشیائی حملہ آور وغیرہ) یا پھر ہندوستان کی ہی طرح ایشیائی طرزِ پیداوار پر قائم کسی دوسرے سماج سے (فارس)۔ یہ حملہ آور یا تو تھوڑا عرصہ یہاں ٹھہرتے، لوٹ مار کرتے اور واپس چلے جاتے یا پھر ادھر ہی رہ کر اپنی حکومت قائم کرتے اور کچھ ہی عرصے میں ہندوستان کے رنگ میں رنگے جاتے۔ ہزاروں سال کی تاریخ میں ہندوستان پر مختلف رنگ و نسل اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے بے شمار خاندانوں اور جنگجو قبیلوں کی حکومت رہی، بے شمار سلطنتوں کا عروج وزوال ہوا لیکن ایشیائی طرزِ پیداوار پر قائم سماج کا بنیادی ڈھانچہ جوں کا توں قائم رہا۔ مگر برطانوی سامراجی ماضی کے تمام حملہ آوروں سے مختلف تھے۔ ان کا تعلق جدید یورپی تہذیب سے تھا جو عہد کے سب سے ترقی یافتہ طرزِ پیداوار یعنی سرمایہ داری پر قائم تھی۔ تاریخی ارتقا کی ناہمواریت قدیم اور جدید کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لے آئی تھی اور اب کی بار اس ٹاکرے کا نتیجہ ماضی سے بالکل مختلف نکلنے والا تھا۔
برطانوی سامراج کی ایڑی تلے اس خطے میں لوٹ مار اور جبر واستحصال کا جو بازار گرم رہا، وہ ایک الگ المناک داستان ہے لیکن ابھی ہمارا موضوعِ بحث مشترکہ ترقی کے وہ انتہائی متضاد ملغوبے ہیں جو ایک قدیم تہذیب پر بورژوا طرزِ پیداوار کی سامراجی جبر کے ذریعے اوپر سے ہونے والی براہ راست پیوند کاری نے تخلیق کئے۔ 1764ء میں جنگِ بکسر میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی فیصلہ کن فتح کے بعد کمپنی نے کم و بیش گن پوائنٹ پر مغل شہنشاہ شاہ عالم دوم سے بنگال صوبے (موجودہ بنگلہ دیش، مغربی بنگال، آسام، بہار، اوڑیسہ وغیرہ) کے دیوانی اختیارات لے لئے جس کا مطلب یہ تھا کہ ان سب علاقوں سے ٹیکس (خصوصاً زرعی ٹیکس) اکٹھا کرنا اب کمپنی کا اختیار تھا۔ آنے والی دہائیوں میں زرعی ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن کمپنی کی ہندوستان سے ہونے والی کل آمدن کا انتہائی اہم حصہ بن گئی اور اس آمدن میں مسلسل اضافے کے لئے کمپنی نے جہاں ایک طرف لگان اکٹھا کرنے کے پرانے مغلیہ نظام کو تبدیل کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر استوار کردہ نئے ٹیکس نظام لاگو کئے وہیں اس عمل کے دوران پہلی مرتبہ ہندوستان میں زرعی زمین کی نجی ملکیت کے تصور کو بھی سماج میں متعارف کروایا۔ اس سلسلے میں پہلا بڑا قدم 1793ء میں بنگال پریزیڈنسی (سابقہ مغل بنگال صوبہ) میں لاگو کیا جانے والا ”پرماننٹ سیٹلمنٹ ایکٹ“ تھا جس کے ذریعے ایک نیا ٹیکس نظام متعارف کروایا گیا جسے زمینداری نظام بھی کہا جاتا تھا۔ پرانے مغلیہ نظام کے برعکس اس نظام میں سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا دعویٰ کرنے والے زمینداروں کو زمین کے مالکانہ حقوق دے دیے گئے اور ان بلند ٹیکس اہداف کو پورا کرنے کی خاطر انہیں عام کسانوں پر ہر طرح کا ظلم کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ جمع شدہ ٹیکس کا 1/11 واں حصہ زمیندار خود رکھتا تھا جبکہ 10/11 واں حصہ کمپنی کا ہوتا تھا۔ ٹیکس اہداف پورے کرنے میں مسلسل ناکامی کی صورت میں کمپنی زمیندار سے مالکانہ حقوق واپس لینے کا اختیار بھی رکھتی تھی۔ اسی طرح، 19 ویں صدی عیسوی کی ابتدائی دہائیوں میں جنوبی ہندوستان میں روئیت واری اور شمال وسطی ہندوستان میں محل واری ٹیکس نظام متعارف کروائے گئے جو چند خصوصیات میں زمینداری نظام سے مختلف ہونے کے باوجود زرعی زمین کی نجی ملکیت پر ہی استوار تھے۔ بائیں بازو کے حلقوں میں پائی جانے والی عام غلط فہمی کے برعکس کمپنی کی طرف سے ہندوستان میں متعارف کروائی جانے والی زرعی زمین کی نجی ملکیت اپنے جوہر میں جاگیر دارانہ نہیں بلکہ بورژوا زرعی ملکیت تھی، گو کہ جبر کے ذریعے اوپر سے مسلط کئے جانے کی مسخ شدگی کے ساتھ۔ یہ زرعی ملکیت نہ صرف ایک بورژوا ٹیکس نظام کے تحت تھی بلکہ اس پر ہونے والی پیداوار برطانیہ کی صنعتوں کی خام مال کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی میں ہونے والی کھپت کے ساتھ بھی منسلک تھی۔ اسی طرح، بڑے زرعی مالکان اور ان کی زمین پر کام کرنے والے مزارعوں کے بیچ بھی سرف ڈم (Serfdom) کا رشتہ نہ تھا اور نہ یہ مزارعے زمین کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ یوں سامراجی جبر کے تحت زرعی زمین کی نجی ملکیت کے تصور سے ناآشنا ہندوستان ایک ہی جست میں بیچ کے تمام تر ارتقائی مراحل کو پھلانگتے ہوئے براہ راست بورژوا زرعی ملکیت کے ساتھ متعارف ہوا۔ لیکن دوسری طرف ایشیائی طرزِ پیداوار کی باقیات بھی فوری طور پر ختم نہیں ہو گئیں بلکہ برٹش انڈیا کے مختلف علاقوں میں ایک لمبے عرصے تک یہ بھی ایک مسخ شدہ حالت میں زرعی زمین کی بورژوا ملکیت کے ساتھ قائم رہیں۔ یہاں تک کہ برطانوی سامراج کے یہاں سے جاتے سمے بھی ہندوستان کے کئی ایک علاقوں میں مشترکہ چراگاہوں اور جنگلی ذخیروں وغیرہ کا وجود تھا جو ایشیائی طرزِ پیداوار کی ہی رہی سہی باقیات تھیں۔
اسی طرح، برطانوی سامراج نے ہندوستان میں اپنے سامراجی مفادات کی بہتر تکمیل کے لئے ریلوے، تار برقی، جدید پوسٹل سروس سمیت کئی ایک سرمایہ دارانہ جدتیں متعارف کروائیں۔ جدید خطوط پر کئی ایک نئے شہر بسائے، نہری نظام کو وسعت اور جدت دی گئی اور بڑی بندر گاہیں تعمیر کیں۔ سائنسی اور تکنیکی علوم پر مبنی جدید نظام تعلیم متعارف کروایا۔ ایک کرنسی اور بورژوا قوانین لاگو کئے گئے۔ 19 ویں صدی کے اواخر میں یہاں قابلِ ذکر صنعتکاری کا آغاز بھی ہوا۔ مگر یہ سب برطانوی سامراجی مفادات کے تحت ہونے والی مشترکہ ترقی کے تحت ہو رہا تھا۔ لہٰذا جہاں تاریخ میں پچھڑا ہوا ہندوستان ایک ہی جست میں تمام ارتقائی مراحل کو پھلانگتے ہوئے ان بورژوا جدتوں سے براہ راست متعارف ہوا وہیں اس مشترکہ ترقی نے سماج کی ناہمواریت میں بھی اضافہ کیا۔ ریل آ گئی مگر اس کی پٹری کے ساتھ دیہاتوں کے کچے راستوں پر ہڑپہ کے دور کی بیل گاڑی بھی چلتی رہی۔ تار برقی اور پوسٹل سروس کے ذریعے دور دراز کے علاقوں میں بھی ملک کے تمام حصوں سے پیغامات پہنچ جاتے تھے لیکن یہ علاقے پینے کے صاف پانی کی ترسیل اور سیوریج جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رہے۔ کلکتہ، لائل پور، مدراس، بمبئی اور ایبٹ آباد جیسے جدید شہر بسائے گئے لیکن آبادی کی ایک بڑی اکثریت دیہاتوں میں ہزاروں سال پرانی تکنیک سے بنے کچے گھروں میں ہی رہتی تھی۔ جدید نہری نظام تعمیر ہوا لیکن دیہاتوں میں کاشت ہزاروں سال سے چلے آنے والے ہل سے ہی جاری رہی۔ سامراجی مفادات کی تکمیل کے لئے سائنسی اور تکنیکی تعلیم پر تو کچھ توجہ دی گئی لیکن انہی مفادات کے تحت تاریخ کو مسخ کیا گیا اور فلسفہ و سماجیات جیسے ’خطرناک علوم‘ کو نظر انداز کیا گیا۔ جب یہاں جدیدصنعتکاری بھی ہوئی تو وہ بھی برطانوی صنعت کی پروسیسڈ خام مال کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر چند مخصوص شعبوں میں ایک انتہائی یک رخے انداز میں کی گئی جس نے صنعتی میدان میں بھی شدید ناہمواریت کو جنم دیا۔ اسی طرح، ایشیائی طرزِ پیداوار کے قوانین اور انتظامی ڈھانچوں سے بورژوا قوانین اور انتظامی ڈھانچوں تک براہ راست چھلانگ تو لگا لی گئی مگر چونکہ یہ سب کچھ سامراجی جبر کے تحت ہو ا، لہٰذا ان میں یورپ کے بورژوا جمہوری انقلابات کے ”آزادی، مساوات اور اخوت“ کے لبرل نعروں کی رتی برابر جھلک بھی نہ تھی۔ سامراجی تسلط میں ہونے والی اس مشترکہ ترقی کے کارن جب یہاں مقامی بورژوا طبقہ پیدا ہوا تو اس کا کردار اپنے جنم سے ہی ایک کمپراڈور یعنی دلال بورژوازی کا تھا۔ سامراجی دایہ کے ہاتھوں اپنے تاخیر زدہ جنم اور تکنیک و ثقافت کے معاملے میں پیدائشی خصی پن کا شکار یہ دلال بورژوازی سامراجی آقاؤں کی بی ٹیم بن کر ہندوستان کے عوام کا استحصال تو کر سکتی تھی لیکن جدوجہد آزادی کی قیادت سے لے کر ایک جدید قومی ریاست اور صنعتی سماج کی تشکیل تک اپنا کوئی ایک بھی تاریخی فریضہ پورا کرنے سے بالکل قاصر رہی۔
iv) دورِ حاضر سے چند مثالیں
ناہموار اور مشترکہ ترقی کی مثالیں آج نام نہاد تیسری دنیا کے سماجوں میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ دیہاتوں میں سولنگ والی سڑک تک نہیں ہے اور پاس سے ہی کسی غیر ملکی بنک کے قرضے سے بننے والی جدید ترین موٹر وے گزر رہی ہے۔ افریقہ سے لے کر بر صغیر پاک وہند تک ایسے بے شمار خطے ہیں جہاں کی آبادی کے ایک بڑے حصے نے کبھی لینڈ لائن فون کا استعمال نہیں کیا اور ڈائریکٹ ہاتھ میں موبائل فون اٹھایا ہے لیکن دوسری طرف اس فون کو چارج کرنے کے لئے درکار بجلی دن میں سولہ گھنٹے غائب رہتی ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں چار جی انٹر نیٹ سروس دستیاب ہے لیکن وہاں تک پہنچنے کے لئے ایک سڑک ندارد۔ فضاؤں میں جدید طیارے محو پرواز ہیں لیکن نیچے گلی محلوں میں کھلے گٹروں کے تعفن اور جا بجا بکھرے گندگی کے ڈھیروں کے باعث پیدل چلنا محال ہے۔ گڑھوں سے بھری گرد آلود سڑکوں پر جدید ترین گاڑیاں چلتی ہیں۔ آبادیوں کے ایک قابلِ ذکر حصے تک بجلی کی مسلسل سپلائی پہنچانے میں ناکام ممالک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں مگر ان کے ایٹمی ریکٹروں کے قرب وجوار کے علاقوں میں لوگ جوہڑوں کا پانی پیتے ہیں۔ کبھی ٹائپ رائٹر، ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ کمپیوٹر کی شکل تک نہ دیکھ پانے والے لوگوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون ہیں لیکن وہ ان پر کچھ لکھ نہیں سکتے کیونکہ بنیادی تعلیمی سہولیات کے شدید فقدان کے باعث وہ ان پڑھ ہیں۔ ان ممالک میں غربت کے وسیع سمند ر ہیں مگر انہی سمندروں کے بیچ سرمائے کے ارتکاز کے ایسے مہیب جزیرے ہیں کہ ان پر بسنے والوں کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک کی یہ بورژوازی ثقافتی طور پر اتنی پچھڑی ہوئی ہے کہ شاید ہی انہوں نے ٹیلی فون ڈائریکٹری اور مقدس کتب کے سوا کوئی اور کتاب کھول کر دیکھی ہو، اور تکنیکی طور پر اتنی نااہل ہے کہ ترقی یافتہ بورژوا ممالک سے ٹیکنالوجی درآمد کئے بغیر ایک موٹر سائیکل تک خود نہیں بنا سکتی۔ ایک طرف شوپیس کے طور پر بلٹ ٹرینوں کے منصوبے بن رہے ہیں مگر دوسری طرف بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی خستہ حالی کے سبب عام آدمی کے لئے گھر سے باہر نکلنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ ان سماجوں میں نجی شعبے اور بعض اوقات پبلک سیکٹر میں بھی چند ایک عالمی معیار کے جدید ترین ہسپتال ہیں لیکن یونیورسل پبلک ہیلتھ کئیر کے فقدان کی وجہ سے آبادی کی ایک وسیع اکثریت ٹی بی، اسہال، نمونیہ، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی قابل علاج بیماریوں کے ہاتھوں قبل از وقت موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی بڑے شہر میں ہیں اور جیب میں چار پیسے بھی رکھتے ہیں تو جدید ترین گگ اکانومی کی بدولت گھر بیٹھے اپنی پسند کا کھانا منگوا سکتے ہیں مگر اسے کھا کر اگر آپ نے سرکاری واٹر سپلائی کا پانی پی لیا تو غالب امکان ہے کہ آپ کو پیلے یرقان کی شکل میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اسی طرح بنیادی ترین سماجی انفراسٹرکچر سے محروم، صدیوں پرانے طور طریقوں سے ماہی گیری کرنے والوں کی ساحلی بستی میں سامراجی سرمایہ کاری کے تحت جدید ترین ڈیپ واٹر پورٹ تو بن جاتی ہے لیکن یہ مشترکہ ’ترقی‘ اس علاقے کے باسیوں کو سیاسی، سماجی اور معاشی محرومی کی دلدل میں اور گہرائی تک دھکیل دیتی ہے۔ سماج میں کمپیوٹر، انٹر نیٹ، اسمارٹ فون اور سیٹلائیٹ ٹی وی جیسی جدید ترین ایجادات تو متعارف ہو گئی ہیں لیکن قومی مسئلے اور زرعی مسئلے جیسے بنیادی بورژوا سوالات نہ صرف ابھی تک حل طلب ہیں بلکہ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ پیچیدہ شکل اختیار کر گئے ہیں۔
مگر یہ داستان صرف تیسری دنیا کے ممالک تک ہی محدود نہیں۔ منڈی کی اندھی قوتوں کے تحت چلنے والے سرمایہ دارانہ نظام میں ترقی یافتہ ممالک میں بھی ناہمواریت کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو سکا۔ آج بھی برطانیہ میں انگلستان اور اسکاٹ لینڈ و شمالی آئر لینڈ، شمالی اور جنوبی اٹلی، مغربی اور مشرقی یورپ، امریکہ کی ساحلی اور وسطی ریاستوں کے مابین سوشل و فزیکل انفراسٹرکچر کے معاملے میں ایک قابلِ ذکر مقداری تفاوت موجود ہے جو پھر ناگزیر طور پر مشترکہ ترقی کے مظاہر کو بھی جنم دیتا رہتا ہے۔ باالفاظ دیگر یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ سرمایہ داری اپنی نامیاتی فطرت کے بدولت ناہموار اور مشترکہ ترقی کا خاتمہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔
v) سرمایہ داری کی تاریخی بیلنس شیٹ
ایک عمومی رائے یہ ہے کہ مشترکہ ترقی کے زبر دست دھماکوں کے باوجود سرمایہ داری نے ناہمواریت میں بھی زبر دست اضافہ کیا ہے۔ یہ ایک لحاظ سے بالکل درست ہے خاص کر اگر پہلے دی گئی مثالوں کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی مدِ نظر رکھا جائے کہ سرمایہ داری نے عالمی سطح پر طبقاتی ناہمواریت کو بھی تاریخ میں پہلے کبھی نہ دیکھی گئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ لیکن یہ محض تصویر کا ایک رخ ہے کیونکہ دوسری طرف اگر ایک تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سرمایہ داری نے پوری دنیا پر اپنے پنجے گاڑ تے ہوئے سماجی ارتقا کی تاریخی ناہمواریت کو بڑی حد تک کم بلکہ تقریباً ختم ہی کر کے رکھ دیا ہے۔ جب سرمایہ داری تاریخ کے سٹیج پر نمودار ہوئی تھی تو کرہئ ارض کے مختلف خطوں میں قدیم کمیونزم سے لے کر ایشیائی طرزِ پیداوار اور جاگیر داری تک مختلف طرز ہائے پیداوار رائج تھے۔ لیکن آج برازیل کے جنگلوں سے لے کر نیپال کے پہاڑوں اور الاسکا کے یخ بستہ میدانوں سے لے کر راجستھان کے جھلستے صحراؤں تک، ہر جگہ سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار ہی رائج ہے۔ اپنی تمام تر خونریزی اور ظلم و استحصال کے باوجود ماضی سے ورثے میں ملی ارتقائی ناہمواری کا خاتمہ سرمایہ داری کا وہ تاریخی کارنامہ ہے جس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔
3) نظریات، ثقافت اور سماجی نفسیات
ابھی تک کی بحث میں ہم نے ٹھوس تاریخی مثالوں کے ذریعے مختلف سماجوں کے پیداواری اور سیاسی وسماجی ڈھانچوں پر ناہموار اور مشترکہ ترقی کے اثرات کا جائزہ لیا ہے لیکن اس مظہر کے اثرات صرف انہی تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ناگزیر طور پر نظریات، ثقافت اور سماجی نفسیات کو بھی متاثر کرتے ہیں اور یہاں بھی ہمیں ناہمواریت اور اس کے کارن جنم لینے والے متضاد مشترکہ پن کے حیران کن ملغوبے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی سو چا ہے کہ انڈیا کے دفاعی ریسرچ کے ٹاپ ادارے ڈرڈو کے انجینئرز جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین کسی میزائل کے تجربے سے قبل پتھر کی مورتوں کے سامنے ماتھا کیوں ٹیکتے ہیں۔ پاکستان میں جدید مسافر طیاروں کے بحفاظت سفر کے لئے رن وے پر کالے بکرے کی قربانی کیوں دی جاتی ہے۔ بھارتی فضائیہ میں جدید ترین لڑاکا طیاروں کی شمولیت کے وقت دھرما پوجا کیوں کرائی جاتی ہے اور پاکستان میں ہزاروں کلومیٹر رینج کے کسی بیلسٹک میزائل کا تجربہ مذہبی دعاؤں سے شروع ہو کر مذہبی نعروں پر اختتام پذیر کیوں ہوتا ہے؟ آخر کیوں ان ممالک کی جدید ترین آبدوزوں، ٹینکوں، میزائلوں، طیارہ بردار جہازوں اور یہاں تک کے خلائی سیٹلائٹس کے نام بھی مذہبی ہستیوں اور قدیم اساطیری کرداروں پر رکھے جاتے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ان جیسے ممالک میں جب بھی کوئی جدید صنعت لگتی ہے، کوئی نئی یونیورسٹی بنتی ہے، کوئی جدید ترین ہسپتال بنتا ہے تو اس کی افتتاحی تقریب میں خوش بختی اور کامیابی کے لئے اور کچھ ہو نہ ہومذہبی شخصیات کی موجودگی، دعائیں اور مقدس کتب کے ورد ضرور شامل ہوتے ہیں؟ مجھے یہ سطور لکھتے وقت جاپان میں میجی ریسٹوریشن کے دور پر بنی ایک فلم ”دی لاسٹ سامورائی“ یاد آ رہی ہے جس کے ایک سین میں جدید ترین امریکی ساختہ رائفلیں ہاتھ میں تھامے سرکاری فوج کے سپاہی تیر و تلوار سے مسلح ترقی مخالف سامورائی قبیلے کے ساتھ جنگ سے قبل سامورائی جنگجوؤں سے منسوب مافوق الفطرت قوتوں کے خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہوتے ہیں۔ حتمی تجزئیے میں یہ سب ناہموار اور مشترکہ ترقی کے ثقافت اور سماجی نفسیات پر اثرات کی ہی ایک جھلک ہے۔
ان سماجوں میں ایک عام کہانی یہ ہے کہ ایک شخص جس کا دادا بھی ان پڑھ تھا اور باپ بھی، وہ تعلیم حاصل کرتا ہے اور سیدھا کسی سائنسی یا تکنیکی سبجیکٹ میں کوئی اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کر لیتا ہے، مگر کیااس سے اس کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی آؤٹ لُک بھی جدید اور منطقی ہو جاتی ہے؟ اکثریت کیسز میں ایسا ہونے کی بجائے اس کے بالکل الٹ اثرات آتے ہیں اور ایسے لوگوں کا سیاسی و سماجی نقطہ نظر اپنے ان پڑھ باپ دادا کے مقابلے میں کہیں زیادہ پسماندہ اور رجعتی ہو جاتا ہے۔ اعلیٰ سائنسی و تکنیکی تعلیم رکھنے والے ان افراد کی مسجدوں، مندروں اور کلیساؤں میں آمدو رفت آبادی کے ان پڑھ حصے کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہی لوگ ہوتے ہیں کہ جب وہ اپنی بیٹی کو موبائل فون پر کسی نوجوان سے بات کرتے دیکھتے ہیں تو فوراً ان کی غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ گاؤں کی ان پڑھ عورتیں پردہ نہیں کرتیں لیکن اسی گاؤں کی کوئی لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو جائے تو سر سے پیر تک عبائے میں لپٹی نظر آتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان افراد کے ان پڑھ والدین نے بڑی محنت مشقت کر کے ان کو جدید تعلیم دلوائی ہوتی ہے مگر یہ اپنی آخرت سنوارنے کے چکر میں اپنے بچوں کو جدید ترین سکولوں، کالجوں میں بھیجنے کے ساتھ ساتھ انہیں مدرسوں میں بھی لازمی بھیجتے ہیں بلکہ اپنے گاہکوں (پڑھے لکھے والدین) کو خوش کرنے کی خاطر اب تو زیادہ تر جدید تعلیمی اداروں نے سخت گیر مذہبی تعلیم کو اپنے نصاب کا باقاعدہ حصہ بنا لیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان، انڈیا اور ان جیسے دیگر سماجوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ انٹیلی جنشیہ کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی آؤٹ لُک ان سماجوں کی ان پڑھ یا نیم تعلیم یافتہ محنت کش عوام کے مقابلے میں نہایت رجعتی اور پسماندہ ہے۔ یہ امر یقینی طور پر رسمی منطق یا کامن سینس کو حیران وپریشان کر کے رکھ دیتا ہے لیکن چونکہ یہ ناہموار اور مشترکہ ترقی کے ضدین کے باہم انضمام پر مبنی مظہر کا شاخسانہ ہے، لہٰذا اسے سمجھا بھی صرف جدلیاتی بنیادوں پر ہی جا سکتا ہے۔
موضوعِ بحث سماجوں کی ثقافت اور سماجی اقدار بھی قدامت اور جدت کا ایک عجیب وغریب ملغوبہ بن چکی ہیں۔ قدیم زرعی اور قبائلی روایات میں لگے سرمایہ دارانہ اقدار کے تڑکے نے پرانی ثقافتی و سماجی بنتروں کے کانٹینٹ کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ مثال کے طور پر مشترکہ خاندانی نظام، جو کہ ماضی میں باہمی سپورٹ کا ایک اہم ادارہ ہوتا تھا، آج مسابقت، رقابت اور گھٹیا مقابلے بازی کا اکھاڑہ بن چکا ہے۔ جہیز، جو کہ کسی دور میں ماں باپ کی اپنی بیٹی سے محبت کا ایک اظہار ہوتا تھا، آج شوبازی اور شادی بیاہ کے معاملات میں بھی کاروباری نفسیات کی سرایت کے تحت ایک بوجھ اور سماجی لعنت بن چکا ہے۔ یہاں کے کئی کلچرز کی قدیم روایات میں شادی کے موقع پر لڑکے کا خاندان لڑکی کے والد کو کچھ رقم یا تحفے تحائف دیتا تھا جس کا مقصد لڑکی کے والدین پر شادی کے بوجھ کو کم کرنا ہوتا تھا۔ مگر آج یہ قدیم روایت کئی علاقوں میں لڑکیوں کی خریدو فروخت کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی آج غیرت کے نام پر ہونے والے زیادہ تر قتل درحقیقت زرعی ملکیت کے جھگڑے اور ایسے دیگر تنازعات نپٹانے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ عیدیں اور دیگر تہوار آج بورژوا مقابلے بازی سے مسموم فضا میں خوشی سے زیادہ افسردگی اور بے چینی کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں تک کہ محرم جیسے تاریخی طور پر پُرسوز موقع کو بھی اب فیشن برانڈز کالے رنگ کے ڈیزائنر کپڑے بیچنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
بالکل ویسے جس طرح پسماندہ سماج ترقی یافتہ سماجوں کے براہِ راست یا بالواسطہ تاریخی جبر کے تحت طرزِ پیداوار اور تکنیک کاری کے معاملوں میں براہ راست لمبی جست لگاتے ہیں ایسے ہی وہ ناہموار اور مشترکہ ترقی کے تحت پیدا ہونے والے نئے تقاضوں اور مسائل کو حل کرنے کی خاطر بیچ کے ارتقائی مراحل دہرائے بغیر جدید ترین نظریات بھی ترقی یافتہ سماجوں سے براہِ راست مستعار لے لیتے ہیں۔ مگردیگر معاملات میں مشترکہ ترقی کے متضاد کردار کی طرح اس معاملے میں بھی جہاں اس امر کی ایک جہت ترقی پسندانہ ہوتی ہے وہیں اس امر کا بھی بھاری امکان ہوتا ہے کہ ان جدید نظریات کو ان کی فلسفیانہ بنیادوں کے ساتھ ایک کُلیت کے طور پر سمجھنے، پرکھنے اور اختیار کرنے کی بھرپور شعوری کوششوں کی عدم موجودگی میں ادھر بھی قدیم اور جدید کا ایک متضاد ملغوبہ تیار ہو جائے۔ مثال کے طور پربرطانوی سامراجی قبضے سے قبل ہندوستان ایک تاریخی خطہ تو ضرور تھا مگر ایک قومی وحدت ہرگز نہیں۔ یہ درست ہے کہ اپنے عروج پر موریہ اور مغل سلطنتوں کی تقریباً پورے خطہئ ہندوستان پر عملداری تھی مگر یہ کوئی جدید معنوں میں سیاسی وحدت نہیں تھی۔ درحقیقت، قومیت ہے ہی ایک بورژوا تصور اور کوئی ماقبل از سرمایہ داری طرزِ پیداوار اس تصور کو جنم دینے کے لئے درکار مادی بنیادیں فراہم نہیں کر سکتا تھا۔ ہندوستانی قومیت کے تصور کو جنم دینے کے لئے درکار مادی بنیادیں بھی، لاشعوری طور پر، یہاں برطانوی سامراج نے اپنے مفادات کو تکمیل دیتے ہوئے خود تعمیر کیں۔ یعنی ریلوے، تار برقی اور پوسٹل سروس، جو پورے ہندوستان کو آپس میں جوڑتی تھی؛ ایک کرنسی، ایک نظامِ قانون، ایک نظامِ تعلیم اور سامراجی استحصال کے لئے تخلیق ہونے والی ایک منڈی۔ سامراجی جبر کے تحت ہونے والی اس مشترکہ ترقی نے وقت کے ساتھ ہندوستانی قومیت کے تصور کو بھی جنم دیا لیکن یہ تصور بھی اپنی مادی بنیادوں کی طرح قدیم اور جدید کا ایک ملغوبہ تھا۔ اس کا واضح اظہار ہمیں 20 ویں صدی عیسوی کے اوائل میں ہندوستانی قوم پرستی کے تینوں بڑے لیڈروں یعنی مہاراشٹرا کے بال گنگا دھر تلک، پنجاب کے لالہ لاجپت رائے اور بنگال کے بپن چندرا پال کے نظریات میں ملتا ہے، جو جدید قومیت اور قدیم مذہبی و روحانی تصورات کا ایک عجیب و غریب ملغوبہ تھے، جن میں ہندوستانی قومیت کے نظریاتی سانچے کی تعمیر اور قومی امنگوں کی ترجمانی کے لئے، جدید قومیت کی بورژوا لبرل فلسفیانہ بنیادوں کی بجائے ہندومت کی مقد س کتب اور قدیم اساطیری قصوں سے دلائل تراشے گئے تھے۔ بعد ازاں، انڈین نیشنل کانگریس نے بھی گاندھی کے زیرِ قیادت ہندوستانی قومیت کے انہی مذہبی تڑکہ لگے تصورات کو باقاعدہ طور پر قبول کر لیا جس کے نتیجے میں سماج میں مذہبی منافرت کو بھی ہوا ملی۔ یہاں تک کہ ایک وقت آنے پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے بھی سٹالنسٹ زوال پذیری کے تحت مذہبی بنیادوں پر ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کو الگ الگ ’قوم‘ تسلیم کر لیا۔ یوں اس ساری صورتحال میں ہندوستانی قومیت کا یہ متضاد تصوراتی ملغوبہ بالواسطہ طور پربرطانیہ کی ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی سامراجی پالیسی کی راہ ہموار کرنے کا کارن بنا۔
ایسی ہی صورتحال ہمیں میجی ریسٹوریشن کے دور میں جنم لینے والی جاپانی قوم پرستی اور بسمارک کے متحدہ جرمنی کی قومی رومانویت کی نظر آتی ہے جو جدید قومی تصورات اور قدیم مذہبی و اساطیری قصوں کا ایک عجیب و غریب متضاد ملغوبہ تھیں۔ مگر بعض اوقات جیسے ناہموار اور مشترکہ ترقی کے تحت کچھ پسماندہ سماج تھوڑے ہی عرصے میں بعض مخصوص پیداواری اور تکنیکی شعبوں میں ترقی یافتہ سماجوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ویسے ہی نظریات کے معاملے میں بھی ایسا ہو سکتا ہے اور مثالیں موجود ہیں کہ ایسے سماجوں نے نظریات کے معاملے میں جب جست لگائی تو اس دور کے سب سے ترقی یافتہ سماجوں سے بھی آگے نکل گئے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال شمالی امریکہ میں بنی تھی۔ یہاں قدیم کمیونزم کے تاریخی مرحلے میں پھنسے ریڈ انڈینز اتنے پسماندہ تھے کہ ان کے ابھی کوئی ٹھوس مذہبی و سماجی نظریات ہی نہیں تھے اور ویسے بھی یورپی قبضہ گیری کے براہِ راست اور بالواسطہ اثرات کے تحت ان کی آبادی گھٹ کر بہت تھوڑی رہ گئی تھی۔ لہٰذا یہاں یورپ سے براہ راست متعارف ہونے والا جدید قومیت کا تصور نہ صرف جدید اور قدیم کے تضاد سے پاک تھا بلکہ کئی پہلوؤں میں اپنی یورپی جنم بھومی کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ بھی تھا۔ ایسے ہی 1930-40ء کی دہائیوں میں جب دنیا کے سب سے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک امریکہ کا محنت کش طبقہ بورژوا سیاسی نظام کے گھن چکر میں پھنسا تھا اوربورژوازی کے ’سمجھدار‘ نمائندے صدر روز ویلٹ کو محنت کشوں میں بھی ٹھیک ٹھاک مقبولیت حاصل تھی، اس وقت پسماندہ نیم سرمایہ دارانہ چین کے دور دراز دیہاتوں میں کسانوں کی جھونپڑیوں میں مارکس، اینگلز، لینن اور ماؤزے تنگ کی تصاویر ٹنگی ہوتی تھیں۔ مگر اس سلسلے میں سب سے شاندار مثال زار شاہی روس کی ہے جہاں لبرل بورژوا نظریات کبھی قابلِ ذکر سماجی حمایت نہیں حاصل کر سکے اور مطلق العنانی اور نیم جاگیردارانہ و نیم سرمایہ دارانہ پسماندگی سے نجات حاصل کر کے ایک خوشحال زندگی بسر کرنے کی خواہش نے محنت کش طبقے، باغی نوجوانوں اور سماج کی مظلوم پرتوں کو دور جدید کے سب سے سائنسی نظریے یعنی مارکسزم کی طرف مائل کر دیا اور اسی عمل کے دوران پسماندہ روس سے نہ صرف لینن اور ٹراٹسکی جیسی نابغہئ روزگار شخصیات ابھریں جو مارکس اور اینگلز کے بہترین شاگرد ثابت ہوئے بلکہ بالشویک پارٹی جیسی جدید ترین سیاسی تشکیل اور (انتہائی مختصر دورانیے کے پیرس کمیون کو چھوڑ کر) دنیا کا پہلا مزدور انقلاب بھی۔
4۔ انقلابِ روس، ٹراٹسکی اور نظریہ انقلابِ مسلسل
19 ویں صدی عیسوی کا زار شاہی روس بورژوا یورپ کی ہمسائیگی میں واقع ایک مہیب اور انتہائی رجعتی مطلق العنان جاگیردارانہ قوت تھا۔ اپنی مطلق العنانی کے دوام کی خاطر زارشاہی کا ہمیشہ یورپی سیاست میں ایک رجعتی اور ردِ انقلابی کردار ہو گا، یہ بات صدی کے اوائل میں نپولینائی افواج کے خلاف زار شاہی روس کے ہراول کردار سے لے کر آنے والی دہائیوں کے بے شمار واقعات میں زار شاہی کے اقدامات سے ثابت شدہ تھی۔ لیکن 19 ویں صدی کی اختتامی دہائیوں تک ایک مہیب قوت ہونے کے باوجود زار شاہی روس اپنی جاگیردارانہ پسماندگی کے کارن ترقی، خصوصاً صنعت اور تکنیک میں، بورژوا یورپی قوتوں سے کہیں پیچھے رہ چکا تھا اور اس امر نے اب زار شاہی کو اس خوف میں مبتلا کر دیا تھا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو جلد یا بدیر یورپ کی ترقی یافتہ سامراجی قوتیں اسے فوجی میدان میں بھی زیر کرتے ہوئے مکمل طور پر اپنا مطیع بنا لیں گی۔ مزید برآں، ہمسائیگی میں ترقی یافتہ یورپ کی موجودگی پسماندہ روسی سماج میں سیاسی، سماجی و معاشی تبدیلی کی تیزی سے جڑ پکڑتی امنگوں کا بھی ایک بڑا کارن تھی جو زار شاہی کے لئے شدید پریشانی کا سبب بن رہی تھیں۔ اس ساری صورتحال کے سد باب کے لئے زارشاہی نے مطلق العنان ریاست کے سخت کنٹرول میں ”اوپرسے“ سماج اور معیشت کے چنیدہ شعبوں میں جدت کاری لانے کی ٹھانی۔ 1861ء میں شاہی فرمان کے ذریعے روس میں سرف ڈم کا خاتمہ کر دیا گیا، اگرچہ اوپر سے ایک مطق العنان طریقے سے کی گئی اس ’لبرل‘ ریفارم کا زیادہ تر فائدہ جاگیر دار اشرافیہ اور امیر کسانوں (کولاکوں) کو ہوا اور عام دہقانوں کے حالات زندگی مزید ابتر ہو گئے لیکن آنے والے عرصے میں روسی پرولتاریہ کا جنم بھی ’آزاد‘ ہو کر بھوکوں مرنے والے ان انہی دہقانوں سے ہوا۔ 1880ء کی دہائی میں ریاستی سرپرستی میں صنعتکاری کے بڑے منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ اس سلسلے میں کوئلے، خام لوہے اورسٹیل، پیٹرولیم، مشین ٹولز اور دیگر بھاری صنعتوں پر خصوصی توجہ دی گئی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل اور بعض دیگر اشیائے صرف کی پیداوار پر مبنی لائٹ انڈسٹری کو بھی پروان چڑھایا گیا۔ ہتھیار سازی کی بڑی فیکٹریاں لگائی گئیں، شپ بلڈنگ یارڈز تعمیر کئے گئے اور ریلوے و تار برقی جیسے فزیکل انفرا سٹرکچر میں بھی قابلِ ذکر اضافہ کیا گیا۔ بینکاری کے نظام کو تیزی کے ساتھ وسعت اور جدت دی گئی۔ ناگزیر طور پر اس سب جدت کاری کے لئے درکار جدید ہنر مند افرادی قوت کی تیاری کے لئے سائنسی و تکنیکی علوم کی کئی ایک یونیورسٹیاں اور سکولز بھی کھولے گئے۔
مگر مطلق العنان جاگیری ریاست کی سرپرستی میں ہونے والی یہ جدت کاری ناہموار اور مشترکہ ترقی کے شدید تضادات لئے ہوئے تھی۔ اول تو یہ معیشت اور انفراسٹرکچر کے محض چند ایک شعبوں تک ہی محدود تھی اور وہ بھی زیادہ تر مغربی روس میں۔ جبکہ باقی سارا سماج قرونِ وسطیٰ کی جاگیردارانہ تاریکی میں ہی ڈوبا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ زار شاہی روس کی یہ ناہمواریت بسمارک کے جرمنی اور میجی جاپان سے بھی کہیں زیادہ شدید تھی۔ لیکن دوسری طرف اس کا مشترکہ پن بھی بعض مخصوص پہلوؤں میں انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ مثال کے طور پر ہتھیار سازی کو چھوڑ کر باقی تمام صنعت اور بینکاری میں برطانیہ، فرانس، امریکہ اور جرمنی کی سامراجی سرمایہ کاری کا ایک انتہائی کلیدی کردار تھا اور تاریخی دیری کا شکار روس کی نام نہاد قومی بورژوازی روز اول سے ہی بیرونی سامراجی سرمایہ کاروں کے ایک جونیئر پارٹنرکا کردار رکھتی تھی۔ بیرونی سامراجی سرمائے کی اس اجارہ داری کے کارن روسی صنعت نے تکنیک اور پیداواری یونٹوں کے حجم کے معاملے میں بھی بیچ کے تمام ارتقائی مراحل کو ایک ہی جست میں پھلانگتے ہوئے مغرب سے درآمد کردہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی بنیاد پربہت بڑے حجم کے صنعتی یونٹ قائم کئے۔ یہاں تک کہ روس میں لگنے والے کئی ایک صنعتی یونٹوں کا حجم اور ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تعدادان مغربی ممالک کے صنعتی یونٹوں سے بھی زیادہ تھی جہاں کے سرمائے اور تکنیک سے یہ لگائے گئے تھے۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی اس صنعت کا زیادہ تر حصہ مغربی روس کے بڑے شہروں، خاص کر سینٹ پیٹرز برگ اور ماسکو میں مرتکز تھا، جو بیک وقت مطلق العنان ریاست کے سیاسی اقتدار کامرکز بھی تھے۔
ناہموار اور مشترکہ ترقی کے اس انتہائی متضاد مظہر کے تحت زار شاہی روس میں دو نئے متحارب طبقات کا جنم ہوا۔ ایک طرف ریاستی پہل گامی اور سرپرستی کے تحت ہونے والی جدت کاری کے ذریعے تاریخی دیری کے ساتھ نمودار ہونے والی روسی بورژوازی تھی جو نہ صرف مکمل طور پر سامراجی سرمائے کی مطیع تھی بلکہ ہزاروں معاشی، سیاسی و سماجی تانوں بانوں کے ذریعے جاگیر دار اشرافیہ کے ساتھ بھی جڑی ہوئی تھی اور اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ اور نجی ملکیت کے دفاع کے لئے مطلق العنان زار شاہی کی طرف دیکھتی تھی۔ جبکہ دوسری طرف روس کا نوزائیدہ محنت کش طبقہ تھا، جو اگرچہ سماج کی ایک قلیل اقلیت تھا، لیکن جس کی اکثریت کلیدی سیاسی، سماجی و معاشی اہمیت کے حامل بڑے شہروں کے بھاری بھر کم صنعتی یونٹوں میں مرتکز تھی۔ مزید برآں، اپنے جنم سے ہی ننگے ریاستی جبر اور ملکی و بیرونی بورژوازی کے شدید ترین استحصال کا شکار یہ طبقہ بہت جلد جدوجہد کے میدان میں اتر آیا تھا اور منظم ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
ناہموار اور مشترکہ ترقی کے کارن پیدا ہونے والی یہ وہ تمام تر معروضی صورتحال تھی جس نے روسی سوشل ڈیموکریسی میں انقلابِ روس کے تناظر کے حوالے سے 20 ویں صدی کے اوائل میں تیز وتند مباحثوں کو جنم دیاجس میں تین نقطہ نگاہ سامنے آئے، جو اس بات پر تو متفق تھے کہ آنے والے روسی انقلاب کا بنیادی مقصد مطلق العنانیت اور جاگیر دارانہ باقیات کا خاتمہ کرتے ہوئے زرعی سوال اور مظلوم قومیتوں کے سوال کو حل کرنا یعنی دوسرے الفاظ میں نامکمل بورژوا جمہوری فرائض کی تکمیل ہو گا، لیکن کون سا طبقہ اس انقلاب کی قیادت کرے گا؟ محنت کش طبقے اور اس کی سیاسی پارٹیوں کا اس انقلاب میں کیا کردار ہو گا اور انقلاب کے بعد معرضِ وجود میں آنے والی ریاست و حکومت کی ساخت کیا ہو گی؟ ان سوالات پر ان تینوں نقطہ ہائے نظر کا جزوی یا کُلی اختلاف تھا۔ ان میں سے ایک نقطہ نظر تو منشویکوں کا تھا جن کا ماننا تھا کہ، چونکہ انقلابِ روس کا بنیادی کردار بورژوا جمہوری ہے لہٰذا اس کی قیادت بھی قومی بورژوازی ہی کرے گی اور محنت کش طبقے اور کسانوں کو بورژوازی کی قیادت میں چلنا ہو گا۔ یہ نقطہ نظر اصلاح پسندی کے زیر اثر دوسری انٹر نیشنل کے رگ و ریشے میں سرایت کر جانے والی میکانکی معاشی تخفیف پسندی کی ایک شاندار مثال تھا۔ دوسرا نقطہ نظر لینن اور بالشویک رجحان کا تھا جو ”پرولتاریہ اور کسانوں کی انقلابی جمہوری آمریت“ کہلاتا تھا جبکہ تیسرا نقطہ نظر ٹراٹسکی کا ”نظریہ انقلابِ مسلسل“ تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی اس بات پر تو متفق تھے کہ اپنے تاریخی خصی پن اور نامیاتی کمزوری کے کارن روس کی قومی بورژوازی اپنا کوئی ایک بھی تاریخی فریضہ پورا کرنے سے قاصر ہے، لہٰذا روس میں بورژوا جمہوری فرائض کی انقلابی تکمیل کا فریضہ پرولتاریہ اور کسانوں کا ایک اتحاد سر انجام دے گا جس میں قائدانہ کردار محنت کش طبقے کا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ہی انقلابِ روس کوعالمی مزدور تحریک کے طبقاتی مفادات کے نقطہ نظر سے دیکھتے تھے اور اسے عالمی سوشلسٹ تبدیلی کی ایک کڑی سمجھتے تھے۔ لیکن اس سے آگے دونوں کے نقطہ ہائے نظر میں اختلاف تھا۔ اس اختلاف نظر کی تفصیلات میں جانا فی الحال ہمارا موضوعِ بحث نہیں لہٰذا یہاں ہم مختصراً صرف ٹراٹسکی کے نظریہ انقلابِ مسلسل کے حوالے سے بات کریں گے۔
ٹراٹسکی کا نظریہ انقلابِ مسلسل روس میں ناہموار اور مشترکہ ترقی کے کارن پیدا ہونے والی مخصوص معروضی صورتحال کے جدلیاتی تجزئیے کی بنیاد پر استوار ہوا۔ اس کے ذریعے ٹراٹسکی نے دوسری انٹرنیشنل میں رائج ہر ایک ملک کو عالمی معیشت کی کُلیت سے کاٹتے ہوئے بالکل الگ تھلگ طور پر دیکھنے اور تمام پسماندہ ممالک کے تاریخی ارتقا کو برطانیہ اور فرانس جیسے کلاسیکی بورژوا ممالک کی ہو بہو کاپی بننے جیسے میکانکی خیالات کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس نظریے کے تحت ٹراٹسکی نے جہاں ایک طرف ایک عالمی کُل کا حصہ ہونے کے ناطے زار شاہی روس پر پڑنے والے عالمی معیشت و سیاست کے اثرات کا جائزہ لیا وہیں دوسری طرف ان اثرات کے تحت ہونے والی ناہموار اور مشترکہ ترقی، جس کی تفصیلات ہم پہلے زیر بحث لا چکے ہیں، کے کارن جنم لینے والی معروضی تبدیلیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے درست طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ روس کی قومی بورژوازی اپنے تاریخی خصی پن کے کارن اپنا کوئی بھی تاریخی فریضہ پورا کرنے سے قاصر ہے اور ان فرائض کی انقلابی تکمیل کا فریضہ روس کے حجم میں چھوٹے لیکن انتہائی مرتکز، منظم اور لڑاکا پرولتاریہ کے کاندھوں پر آن پڑا ہے جسے وہ کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے سرانجام دے گا۔ بلاشبہ ٹراٹسکی یہ بخوبی سمجھتا تھا کہ آنے والے روسی انقلاب کے فوری فرائض بورژوا جمہوری نوعیت کے ہوں گے لیکن سوال یہ تھاکہ کیا کسانوں اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کی انقلابی قیادت کرتے ہوئے ان فرائض کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والا پرولتاریہ خود کو بس یہاں تک ہی محدود رکھ پائے گا؟ کیا انقلاب کی قیادت اسے زار شاہی، جاگیر دار اشرافیہ اور سامراجی سرمائے کے ساتھ ساتھ ان سب سے جڑی (اور پرولتاریہ سے خوفزدہ) روسی بورژوازی کے ساتھ بھی براہ راست تصادم میں نہیں لے آئے گی؟ کیا بورژوا جمہوری انقلاب کی قیادت کرنے والا سرکش پرولتاریہ اپنے لئے کچھ نہیں چاہے گا اور بورژوا جمہوری فرائض کی تکمیل کے بعد چپ چاپ ہتھیار پھینک کر اپنے آپ کو بورژوازی کے سامنے مزید استحصال کے لئے پیش کر دے گا اور اگر ایسا ہونا ناممکن ہے تو پھر کیا بورژوازی کی طرف سے مزاحمت نہیں ہو گی اور کیا یہ مزاحمت پرولتاریہ کو بورژوا ملکیت اور پیداواری رشتوں کے ساتھ براہ راست تصادم میں نہیں لے آئے گی؟ ٹراٹسکی کے نزدیک اس تصادم میں روسی پرولتاریہ کے پاس آگے بڑھنے کا واحد آپشن یہ ہو گا کہ وہ بورژوا جمہوری حدود سے باہر نکلتے ہوئے بورژوا ملکیت پر ہاتھ ڈالے اور سماج کی سوشلسٹ بنیادوں پر تنظیمِ نو کا آغاز کرے۔ یوں بورژوا جمہوری فرائض کی تکمیل سے شروع ہونے والا انقلاب، نام نہاد سرمایہ دارانہ پھیلاؤ کے ایک طویل مرحلے کو جنم دینے کی بجائے، اپنی حرکیات کے تحت براہِ راست ایک سوشلسٹ انقلاب میں تبدیل ہو جائے گا۔ اور یقینی طور پرانقلاب کے اس مسلسل کردار کے باعث روس میں کوئی بورژوا رِپبلک نہیں بلکہ عام کسانوں کی حمایت کے ساتھ ایک پرولتاری آمریت یعنی سوویت جمہوریہ قائم ہو گی بلکہ بہتر الفاظ میں یہ پرولتاریہ کی آمریت ہی ہو گی جو روس میں ادھورے بورژوا جمہوری فرائض کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچائے گی اور ساتھ ہی ساتھ سماج کی سوشلسٹ تنظیمِ نو کا آغاز بھی کرے گی۔ یوں پرلے درجے کے بد دیانت اوربہتان تراش سٹالنسٹوں کی تمام تر گھٹیا دروغ گوئی کے بالکل بر عکس ٹراٹسکی، درحقیقت، پوری دوسری انٹر نیشنل میں وہ پہلا شخص تھا جس نے پسماندہ روس میں ترقی یافتہ مغربی ممالک سے بھی پہلے ایک سوشلسٹ انقلاب کے برپا ہونے اور مزدور ریاست کے قیام کا تناظر تخلیق کیا۔ مگر انقلابِ روس کا یہ مسلسل کردار صرف داخلی یا قومی سطح تک ہی محدود نہ تھا۔ بلکہ ٹراٹسکی کے مطابق یہ خارجی یا بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مسلسل کردار کا حامل تھا کیونکہ روس میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی اور پرولتاریہ کی آمریت کا قیام ناگزیر طور پر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ یورپی ممالک میں بھی انقلابی دھماکوں کو جنم دینے کا کارن بنے گی اور یورپ کا محنت کش طبقہ، سوویت محنت کشوں کی ہر قسم کی بھرپور مدد کے ساتھ، ترقی یافتہ ممالک میں سوشلسٹ انقلابات اور پرولتاری آمریتوں کے ایک پورے سلسلے کو جنم دے گاجس کا انت ایک عالمی سوشلسٹ سماج کے قیام پر ہو گا۔ ٹراٹسکی کو (اور مارکس، اینگلز سے لے کر لینن تک کو بھی) کبھی بھی یہ یوٹوپیائی غلط فہمی نہیں تھی کہ کسی ایک ملک، خاص کر روس جیسے پسماندہ ملک، کی قومی حدود میں رہتے ہوئے ایک مکمل سوشلسٹ سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ٹراٹسکی درست طور پر سمجھتا تھاکہ روس کا محنت کش طبقہ کسانوں کی حمایت کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے سماج کی سوشلسٹ تنظیمِ نو کا آغاز تو کر سکتا ہے مگر اس سوشلسٹ تبدیلی کی تکمیل صرف عالمی سطح پر ہی ممکن ہے۔ باالفاظ دیگر سوشلسٹ انقلاب کا آغاز تو کسی ایک ملک سے ہو سکتا ہے، چاہے وہ روس جیسا پسماندہ ملک ہی کیوں نہ ہو، لیکن اس کی تکمیل یعنی ایک مکمل سوشلسٹ سماج کا قیام اور کمیونزم کی جانب سفر کا آغاز کئی ایک بورژوا ممالک، اور خاص کر ترقی یافتہ ممالک، میں کامیاب سوشلسٹ انقلابات کے ذریعے ایک عالمی سوشلسٹ سماج کی تخلیق سے ہی ممکن ہے۔ لیکن اگر بالفرض کسی بھی معروضی یا موضوعی وجوہات کے کارن ایسا نہیں ہو پاتا اور سوشلسٹ انقلاب روس جیسے پسماندہ ملک میں تنہا رہ جاتا ہے تو اس کی داخلی مادی و ثقافتی پسماندگی اور عالمی سرمایہ داری کا دباؤ جلد یا بدیر ردِ انقلابی قوتوں کو حاوی کرتے ہوئے پرولتاریہ کی آمریت اور مزدور ریاست کے خاتمے کا سبب بنے گا۔ واضح رہے کہ یہ بات کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی مزدور انقلاب کے تنہا رہ جانے کی صورت میں بالکل درست ہے کیونکہ ترقی یافتہ پیداواری قو تیں کسی بھی ملک کے عالمی منڈی اور عالمی تقسیمِ محنت یعنی عالمی معیشت کی کُلیت پر انحصار کو کم کرنے کی بجائے مزید بڑھا دیتی ہیں۔
1917ء میں فروری انقلاب کے بعد لینن بھی، اپنے راستے سے، بعینہ انہی نتائج تک پہنچا جن تک ٹراٹسکی 1905-6ء میں نظریہ انقلابِ مسلسل کے ذریعے پہنچا تھا اور یوں محنت کش طبقے کے ان دونوں عظیم قائدین نے صرف تنظیمی طور پر ہی نہیں بلکہ سیاسی و نظریاتی طور پربھی یکجا ہو کر اکتوبر کے عظیم مزدور انقلاب کی قیادت کی۔ بعد ازاں، 1919ء میں لینن اور ٹراٹسکی نے اکتوبر انقلاب کے تجربات کے عمومی نچوڑ کو عالمی پرولتاریہ تک پہنچانے اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو تیزی سے آگے بڑھانے کی خاطر تیسری یا کمیونسٹ انٹر نیشنل کی بنیاد رکھی۔ کمیونسٹ انٹر نیشنل کی پہلی چاروں کانگریسوں، لیکن خصوصاً 1920ء میں منعقد ہونے والی دوسری کانگریس میں قومی اور نوآبادیاتی سوال پر ہونے والی بحث میں پسماندہ یا نو آبادیاتی ممالک کی سامراج کے براہِ راست یا بالواسطہ تسلط کے خلاف قومی جدوجہدِ آزادی میں ان ممالک کی کمپراڈور قومی بورژوازی کی تاریخی نااہلیت کے کارن سامراج کے ساتھ سمجھوتے بازی، محنت کش طبقے کے قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود کسانوں کی حمایت جیتتے ہوئے ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت اور اس کے ساتھ ساتھ سوویت روس کی موجودگی اور ترقی یافتہ بورژوا ممالک میں سوشلسٹ انقلابات کی کامیابی (جو اس وقت متوقع تھی) کے نتیجے میں ان پسماندہ ممالک کو ملنے والی معاشی و تکنیکی مددکی بدولت ان ممالک کی سرمایہ داری کے مرحلے کو بائی پاس کرتے ہوئے نیم جاگیری پسماندگی سے سوشلزم میں براہِ راست جست کے بھر پور نظریاتی امکانات کے حوالے سے تشکیل پانے والی سیاسی ہم آہنگی، حتمی تجزئیے میں ٹراٹسکی کے انقلابِ روس کے متعلق نظریہ انقلابِ مسلسل سے اخذ کردہ نتائج، جنہیں انقلاب روس نے بالکل درست ثابت کیا تھا، کی ہی جنرلائیزیشن تھی۔
1919-23ء کے عرصے میں جرمنی، اٹلی اور ہنگری میں اٹھنے والے مزدور انقلابات کی ناکامی، سامراج کی جانب سے مسلط کردہ خانہ جنگی سے برباد حال پسماندہ سوویت یونین کی عالمی تنہائی و معاشی ناکہ بندی، اس ساری صورتحال سے پیدا ہونے والی شدید مادی قلت، اس قلت سے جنم لینے اور ابھار پانے والی افسر شاہی، سٹالن کی قیادت میں مزدور جمہوریت کا خاتمہ اور انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پذیری، اس سٹالنسٹ افسر شاہی کی اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کی ہوس کے تحت ”مرحلہ وار انقلاب“ اور ”ایک ملک میں سوشلزم“ جیسے رجعتی انقلاب دشمن نظریات کے ذریعے عالمی مزدور تحریک اور انقلابات سے کھلی غداری، اسی سٹالنسٹ ماڈل کے تحت دیگر افسرشاہانہ مزدور ریاستوں کا قیام، ان مسخ شدہ مزدور ریاستوں کی افسر شاہیوں کی تنگ نظر قومی مفادات کے تحت آپسی چپقلش اور انہی تمام وجوہات کے کارن آخر کار 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام، مشرقی بلاک کے خاتمہ اور چین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی نے ٹراٹسکی کے نظریہئ انقلابِ مسلسل کو تاریخ کی کسوٹی پر بالکل درست ثابت کیا ہے۔ لہٰذا ہم ببانگ دہل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آج عالمی مزدور تحریک اور خصوصاً پسماندہ بورژوا ممالک کے محنت کش طبقے، غریب کسانوں اور مظلوم قومیتوں کے پاس آگے بڑھنے کے لئے واحد درست قابلِ عمل راستہ نظریہئ انقلابِ مسلسل ہی ہے۔
ناہموار اور مشترکہ ترقی۔۔کیا یہ کوئی لافانی قانون ہے؟
نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس قانون کی عمل داری کے لئے پیداواری قوتوں کی ترقی کے حوالے سے قابلِ ذکر پیمانے کی ناہمواریت کا ہونا لازمی ہے جو کہ پھر مشترکہ ترقی کے مظہر کو جنم دیتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس پیمانے کی ناہمواریت ہمیشہ سے موجود تھی؟ نوعِ انسان کا عہدِ وحشت دسیوں لاکھ سال پر محیط ماقبل از تاریخ عرصہ تھا جس میں انسان کی اوزار سازی اور دیگر معاملات میں تکنیکی ترقی اتنی سست رو تھی کہ بحیثیت مجموعی اس کی شرح صفر کے آس پاس ہی رہی۔ معمولی مقداری تبدیلیاں بھی مجتمع ہوتے ہوتے لاکھوں سال لے لیتی تھیں جب کہ 20 لاکھ سال سے زائد کے اس تمام عرصے میں معیاری تبدیلیاں تو بمشکل چند ایک ہیں۔ سماج تو دور کی بات ابھی قبائل بھی وجود پذیر نہیں ہوئے تھے اور نوعِ انسان ایک دوسرے سے الگ تھلگ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بکھری ہوئی تھی۔ پیداواری قوتوں کی شرحِ ترقی انتہائی کم ہونے کے سبب یہ تمام گروہ کم و بیش ترقی کی ایک ہی سطح پر تھے اور ان میں قدیم کمیونسٹ طرزِ پیداوار رائج تھا۔ لگ بھگ 15 ہزار سال قبل شروع ہونے والے عہدِ بربریت کے ابتدائی اور درمیانی مراحل میں انسان نے پتھر کے باریک اوزار بنانے، جانور پالنے، گلہ بانی اور سب سے بڑھ کر ابتدائی نوعیت کی زراعت کا فن سیکھا۔ مزید برآں قبائل وجود پذیر ہونا شروع ہوئے۔ یوں، اگرچہ، عہدِ بربریت کے اس دور میں انسان کی شرحِ ترقی کی رفتار عہدِ وحشت کی نسبت کچھ تیز ہوئی لیکن ابھی بھی یہ ایسی نہیں تھی کہ قابلِ ذکر پیمانے کی ناہمواریت کو جنم دے سکے۔ بحیثیتِ مجموعی، نوعِ انسان ابھی بھی پتھر کے دور میں ہی تھی اور قدیم کمیونزم کا طرزِ پیداوار ہی رائج تھا۔ یہ صرف عہدِ بربریت کا سب سے بالا یا آخری مرحلہ تھا (لگ بھگ 8 ہزار سال قبل) جس میں زراعت میں ہونے والی ترقی کے کارن کچھ قبائل دیہاتوں کی شکل میں کسی ایک جگہ پر مستقل یا نیم مستقل طور پر سکونت پذیر ہونے کے قابل ہوئے۔ اسی عرصے میں ہمیں پیداواری قوتوں کی اس ترقی کی بدولت فوری ضرورت پوری ہونے کے بعد بھی بچ جانے والی سرپلس پیداوار اور اس کی ملکیت کی بنیاد پر مستقل سکونت پذیر دیہی کمیونٹیوں میں جنم لینے والے سماجی تفاوت کے ابتدائی شواہد ملتے ہیں۔ یہی وہ عہد بھی ہے جس میں ہمیں ترقی کی ناہمواریت کے پہلے واضح آثار بھی ملتے ہیں کہ وادیئ دجلہ و فرات، وادیئ نیل، وادیئ سندھ اور چین کے یانگ زے دریاکی وادی میں بسنے والے یہ زرعی کلچرز پیداواری قوتوں کی ترقی کے حوالے سے باقی دنیا سے آگے نکل چکے تھے۔ انہی علاقوں میں بسنے والے ان زرعی کلچرز کی مزید مادی و تکنیکی ترقی، ذرائع پیداوار پر قابض ایک حکمران طبقے کی تخلیق اور طبقاتی تقسیم کا آغاز، دیہی کمیونٹیوں کے پھیلاؤ اور ابتدائی سماج کی تشکیل کے ذریعے بالآخر آج سے محض 5 سے 6 ہزار سال پہلے ما قبل از تاریخ دور کا اختتام ہوتا ہے اور انسان عہدِ تہذیب میں داخل ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا علاقوں میں قدیم کمیونزم کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ایشیائی طرزِ پیداوار، جو جدید تحقیق سے ملنے والے شواہد کے مطابق غلام داری سے بھی کہیں قدیم ہے، کی بنیاد پر ہڑپہ، مصر اور سمیر جیسی عظیم الشان تہذیبوں کا جنم ہوتا ہے۔ یہ عہدِ تہذیب ہے جس میں پہلی مرتبہ ترقی کی ناہمواریت اس سطح تک پہنچتی ہے جہاں پر وہ مشترکہ ترقی کے مظہر کو جنم دینے کے قابل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ناہموار اور مشترکہ ترقی کے قانون کی عمل داری کا آغاز عہدِ تہذیب یا زیادہ سے زیادہ عہدِ بربریت کے آخری مرحلے سے ہوتا ہے۔
مگر جیسے ناہموار اور مشترکہ ترقی ہمیشہ سے وجود نہیں رکھتی تھی اور پیداواری قوتوں کی ترقی کے ایک مخصوص مرحلے اور طبقات کی تخلیق نے اسے جنم دیا، ویسے ہی یہ ہمیشہ موجود بھی نہیں رہے گی۔ جیسا کہ ہم اس تحریر میں پہلے تفصیلی وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ سرمایہ داری ہے جس میں ہمیں اس قانون کی عمل داری اپنے جوبن پر نظر آتی ہے اور سرمایہ داری میں ہونے والی ناہموار اور مشترکہ ترقی نے جہاں کئی ایک پہلوؤں سے ناہمواریت میں زبر دست اضافہ کیا ہے وہیں ایک تاریخی نقطہ نظر سے اس کا تقریباً خاتمہ بھی کر دیا ہے۔ مگر چونکہ سرمایہ داری ایک چھوٹی سی سماجی اقلیت کی منافع خوری کے لئے منڈی کی اندھی قوتوں کے سہارے چلنے والا نظام ہے لہٰذا اس میں ناہموار یت اور نتیجتاً مشترکہ ترقی کے مظہر کا مکمل خاتمہ ہونا ممکن نہیں۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت اور ان پر محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول پر مشتمل منصوبہ بند معیشت رکھنے والا ایک عالمی سوشلسٹ سماج تخلیق کیا جائے۔ اس حوالے سے ہمارے پاس سوویت یونین کی مثال موجود ہے جہاں قومی حدود کی جکڑن اورتمام تر افسر شاہانہ مسخ شدگی کے باوجودمنصوبہ بند معیشت نے ترقی کی ناہمواریت کا بڑے پیمانے پر خاتمہ کیا۔ یقینی طور پر سوویت وسط ایشیا اور سائبیریا کے دور افتادہ شہر ماسکو اور لینن گراڈ جتنے ترقی یافتہ تو نہیں تھے لیکن وہاں بھی زندگی کی تمام جدید بنیادی سہولیات میسر تھیں۔ ایک طرف اگر سوویت یونین خلائی دوڑ میں اپنے جھنڈے گاڑ رہا تھا تو دوسری طرف ایسا نہیں تھا کہ لوگ بے گھری کے عالم میں فٹ پاتھوں پر سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں کیونکہ منصوبہ بندی کے تحت معیشت و سماج کو ہمہ گیر و ہمہ جہت ترقی دینے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اب اگر مزدور جمہوریت کے مکمل فقدان، طفیلیہ افسر شاہی کے آمرانہ کنٹرول اور ایک ملک کی حدود میں قید ہونے کے باوجود سوویت منصوبہ بند معیشت یہ سب حاصل کر سکتی ہے تو پھر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پرولتاریہ کے بھرپور شعوری جمہوری کنٹرول میں چلنے والی ایک عالمی منصوبہ بند معیشت میں نوع انسان کو ہمہ گیر و ہمہ جہت ترقی دیتے ہوئے ناہمواریت کے مکمل خاتمے کا کتنا زبردست پو ٹینشل موجود ہوگا اور ناہمواریت کا خاتمہ ناگزیر طور پرمشترکہ ترقی کے مظہر کے بھی خاتمے کا سبب بنے گا۔ یوں اینگلز کے الفاظ میں یہ نوع انسان کی عظیم جست ہو گی ”جبر کی اقلیم سے آزادی کی اقلیم میں۔۔۔“