نوجوان لینن

|تحریر: راب سیویل، ترجمہ: ولید خان|

ایک صدی سے بالشویک پارٹی اور 1917ء میں برپا ہونے والے اکتوبر انقلاب کے قائد لینن کے خلاف حکمران طبقے نے جھوٹ اور لغویات کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس لئے یہ مضمون اس عظیم انقلابی کی زندگی پر ایک اہم تحریر ہے۔ ”مارکسزم کے دفاع میں“ میگزین کے شمارہ نمبر 36 میں پہلی مرتبہ شائع ہونے والا یہ مضمون لینن کے ابتدائی سالوں سے متعلق ہے۔ بچپن سے انقلابی بننے تک کا سفر، اِسکرا اخبار کے آغاز سے روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی دوسری کانگریس کے موقع تک، جس سے بالشویک پارٹی کے ابتدائی خدوخال واضح ہونے شروع ہوئے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

”لینن کو بہتر جاننے کے بعد مجھ پر اس کا ایک اور قابلِ تعریف پہلو آشکار ہوا جو فوری طور پر واضح نہیں ہوتا ۔۔۔ زندگی کے لیے حیران کن جوش و ولولہ۔ اس میں زندگی کے رنگ کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ آج یہ تحریر لکھتے وقت لینن کی عمر پچاس سال ہو چکی ہے لیکن وہ ابھی بھی نوجوان ہے، اس کی زندگی کا انداز نوجوان ہے۔“ (اناطولی لوناچارسکی، انقلابی خاکے، سال 1923ء)

”بطور سیاست دان لینن پر ترس کھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ ایک بے رحم مناظرہ باز، ایک سفاک دہشت گرد اور بغیر کسی ندامت کے، اپنی پارٹی اور اپنے تمام اقدامات کا محافظ تھا۔“ (رابرٹ سروس، لینن۔ ایک سیاسی زندگی، جلد نمبر 3، دی آئرن رنگ، سال 1995ء)

لینن کے بارے میں سچائی بیان کرتے وقت ایک فرد کو فوری طور پر انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا شکار اولیور کرامویل کا سوانح نگار تھامس کارلائل تھا۔ کارلائل کا کہنا تھا کہ اپنا کام شروع کرنے سے پہلے اسے ”مردہ کتوں کے پہاڑ، لعن طعن اور فراموشی کے دیو ہیکل بوجھ تلے دبے“ کرامویل کو کھود کر نکالنا پڑا تھا۔ اسی طرح لینن نہ صرف بورژوا تاریخ نگاروں کے جھوٹ اور لعن طعن بلکہ سٹالنسٹ غلط بیانی اور عقیدت نگاری کے پہاڑ تلے دبا دیا گیا ہے۔

بعد الذکر سے متعلق ٹراٹسکی نے درست لکھا تھا کہ ”طفیلیوں ]سٹالنسٹوں: مترجم[ کی تحریروں میں لینن کو کم و بیش ویسے ہی بنا کر پیش کیا جاتا ہے جیسے سوزدال (روس کا ایک قصبہ) کے آئیکون (عقیدت مندانہ مذہبی مصوری) مصور یسوع مسیح کو پیش کرتے ہیں ۔۔۔ ایک حقیقی تصویر کے برعکس ایک مسخ شدہ خاکہ۔ آئیکون مصور اپنی ذات سے بالاتر ہونے کی جتنی بھی کوشش کریں لیکن بالآخر وہ اپنے ذوق کا ہی اظہار کرتے ہیں اور نتیجتاً اپنی ہی خیال پرستانہ مصوری کر سکتے ہیں۔ کیونکہ طفیلی قیادت کی اتھارٹی عوام کو اپنی قطعیت پر شکوک و شبہات سے روک کر ہی قائم رکھی جاتی ہے، اس لئے طفیلی لٹریچر میں لینن کو صورتحال جانچنے والے ایک غیر معمولی دماغ اور انقلابی حکمت کار کے برعکس بے خطا فیصلوں والا ایک مشینی پتلا بنا کر پیش کیا جاتا ہے“۔

ٹراٹسکی نے نتیجہ اخذ کیا کہ:

”موجودہ طفیلیوں کا مطالبہ ہے کہ لینن کو خطا سے آزاد مانا جائے تاکہ پھر اس عقیدے کا سہارا لیا جا سکے“۔

اس قسم کی تحریروں کی ایک عمومی مثال میں بیان کیا گیا ہے کہ کیسے ”پوری دنیا کے محنت کشوں کے عظیم استاد کی پرنور اعلیٰ دماغی انسانیت کی کمیونزم کی طرف راہ کو منور کرتی ہے“۔ اور اس طرح کی لاتعداد مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

اس حکمت عملی سے پہلے لینن اور پھر سٹالن کا مسلک تخلیق کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لینن ایک غیر معمولی دماغ اور شاندار خصوصیات کا مالک تھا لیکن اس کے ساتھ وہ ایک خطا کار انسان بھی تھا ۔۔۔ اگرچہ اس کی غلطیاں باقیوں کے مقابلے میں بہت کم تھیں ۔۔۔ اور وہ ان کا اعتراف کرنے اور ان سے سیکھنے میں بے باک تھا۔ وہ ان بہت کم انسانوں میں سے ہے جس نے مارکسزم کو ایک عقیدے کے برعکس ایک مشعلِ راہ کے طور پر سمجھ کر حقیقی مہارت حاصل کی۔

شخصیت پرستی کے یہ سٹالنسٹ مسلک لینن کے لیے مکمل بیگانہ ہوتے جو اس طرح کی جاہ پرستی اور ”وفاداری“ کی تماشہ بازی سے شدید نفرت کرتا تھا۔ لینن کی بیوہ اور کامریڈ کروپسکایا نے تبصرہ کیا کہ وہ ہمیشہ آئیکونز کا مذاق اڑاتا تھا۔۔۔ ”اب وہ خود ایک آئیکون بن چکا ہے“۔ اس لئے یہ امر اور بھی زیادہ غلیظ اور پرتعفن ہے کہ اس کی بیوہ کی تمام تر مخالفت کے باوجود سٹالنسٹوں نے اس کی حنوط شدہ لاش کو ایک آئیکون بنا دیا۔

سٹالنزم کے انہدام کے بعد ان میں سے کئی لینن کے ”پجاری“ فوری طور پر اپنے سابقہ نظریات سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے بورژوا تاریخ دانوں اور تہمت بازوں کے تعصبات کے علم بردار بن گئے۔ اپنے نئے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے انہوں نے لینن، بالشویزم اور سوشلزم کے خلاف زہریلی مہم میں شمولیت اختیار کر لی۔

ہمیں معلوم ہے کہ کئی بورژوا تاریخ دانوں نے اپنی ساکھ اور قابلِ ذکر آمدن لینن پر بہتان تراشی کر کے بنائی ہے۔ پائپس، سروس اور فیگز جیسے کرداروں کا کام جھوٹ، غلط بیانی اور اشارے کنایوں پرمبنی ہے تاکہ نووارد قاری کو گمراہ کیا جا سکے۔

موجودہ مضمون کا مقصد، نوجوانی سے آغاز کرتے ہوئے، حقیقی لینن کو دکھانا ہے۔ امید ہے کہ اس طرح لینن کو مارکس اور اینگلز کی وفات کے بعد ان کے محافظ اور جانشین کے بطور سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ ہمیں امید ہے کہ اس کے بعد لوگ حقیقی طور پر لینن اور اس کے نظریات کو سمجھنے کے لیے اس کی تحریروں کا مطالعہ کریں گے۔

ولادیمیر ایلیچ الیانوف کی غیر معمولی زندگی 1870ء سے 1924ء کے دورانیے پر محیط ہے۔ لینن کی انقلابی زندگی کا آغاز انیسویں صدی کی آخری دہائی میں ہوا اور اس کا دورانیہ تیس سال سے زائد تھا۔

اس کی زندگی کو تاریخ میں فرد کے کردار پر مارکسی نقطہ نظر کی شاہکار مثال تصور کیا جا سکتا ہے۔ بورژوا نقطہ نظر کے مطابق مکمل طور پر حادثاتی واقعات کے تسلسل میں عظیم انسانوں کی مداخلت تاریخی دھارے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس نقطہ نظر کے برعکس مارکس وادی حادثات کے اس سمندر کی سطح کے نیچے موجود انسانی سماج کی سمت کو چلانے اور اس کا تعین کرنے والے عمومی قوانین کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خود لینن نے سال 1917ء میں کامیاب روسی انقلاب کے برپا ہونے تک انقلابی تبدیلی کے لیے تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ جدوجہد کی۔ انقلاب کا رونما ہونا لینن کی ذاتی مرضی یا قائل کرنے کی قوتوں کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ زار شاہی کی بند گلی اور بیدار ہوتے روسی محنت کش طبقے کے ارتقا کا نتیجہ تھا۔

Ulyanov family Image public domain

1879 میں اولیانوف خاندان۔ لینن دائیں ہاتھ پر بیٹھا ہے۔

 

لیکن کچھ مخصوص حالات میں ۔۔۔ جیسے سال 1917ء میں روس اور باقی دنیا میں بن گئے۔۔۔ فرد واحد کا کردار فیصلہ کن بن جاتا ہے اور وہ تاریخ کا دھارا تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ لینن کے بغیر بالشویزم اور ایک کامیاب اکتوبر انقلاب ناممکن تھا۔

تلاطم خیز دور

لینن کی ابتدائی زندگی میں روس ایک تلاطم خیز دور سے گزر رہا تھا۔ لینن کی جانب سے بعد میں ”اقوام کا جیل خانہ“ قرار دیا جانے والا یہ پسماندہ ملک دیو ہیکل تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔ زرعی غلامی سال 1861ء میں ختم ہو چکی تھی لیکن اس سے کسانوں (مزہک) کو آزادی نہیں ملی۔ اس کے برعکس کسانوں کو جاگیرداروں سے زمین خریدنی یا کرائے پر لینی پڑتی تھی جو جاگیردارانہ تابعداری سے معاشی تابعداری میں تبدیلی تھی اور نتیجے میں کسانوں پر دیو ہیکل قرضہ جات چڑھ گئے۔ درحقیقت پرانی غلامی کی جگہ نئی غلامی نے لے لی تھی۔ بادشاہت کے ستونوں، جاگیرداروں اور چرچ کی طاقت قائم و دائم رہی اور زار حاکم وقت رہا۔ یہ ایشیائی مطلق العنانیت کی ایک قسم تھی جس نے دنیا کو ”پوگروم“ (نسل کی بنیاد پر منظم قتل عام) اور ”ناؤٹ“ (روسی زار شاہی میں استعمال ہونے والا تازیانہ جس سے اکثر موت واقع ہو جاتی تھی) جیسی ”شاندار“ چیزیں دیں۔

مغرب میں جاگیرداری کا خاتمہ کرنے والا ایک بورژوا انقلاب روس میں برپا نہیں ہوا تھا۔ روسی بورژوازی تاریخی تاخیر زدگی کا شکار تھی۔ اس لئے وہ کمزور تھی اور جاگیرداروں، غیر ملکی سرمایہ داروں اور پرانی بادشاہت کے دامن سے لپٹی ہوئی تھی۔ اس لئے وہ بربادیوں کے بوجھ تلے دبے کسانوں کو قیادت فراہم کرنے سے قاصر تھی۔ اس تاخیر زدہ ارتقائی عمل کے سماجی اثرات نے خاص طور پر دانشوروں کو متاثر کیا۔ زار شاہی کے گھٹن آمیز ماحول میں وہ شدید ہیجانی اور باغیانہ جذبات سے لبریز تھے۔ اس سماجی پرت میں نوجوان اور خاص طور پر نوجوان طلبہ انقلابی نظریات کا ہراول دستہ ثابت ہوئے۔ سیاسی لکھاری اور سوشلسٹ نکولائی شرنی شیفسکی نے مزارعین کی نام نہاد آزادی پر تنقید کی، اسے زار شاہی نے آڑے ہاتھوں لیا اور قید بامشقت کی سزا دی۔ نکولائی روس میں انقلابی نوجوانوں کی ایک پوری نسل کے لئے جدوجہد کی علامت اور قابل تقلید مثال بن گیا۔

شرنی شیفسکی کی کتاب ”کیا کیا جائے؟“ نے نوجوان ولادیمیر ایلیچ کو دیگر نوجوانوں کی طرح بہت متاثر کیا۔ اس نے ایک ہی موسمِ گرما میں اس ناول کو پانچ مرتبہ پڑھا۔ سال 1904ء میں اس نے اپنے رہائشی ساتھی نکولائی والن تینوف کو بتایا کہ ”اس (ناول) نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔ یہ کتاب ایک انسان کو ہمیشہ کے لیے بدل دیتی ہے“۔

ولادیمیر ایلیچ کا والد الیانکولائی وچ الیانوف سمبرسک علاقے میں عوامی سکولوں کا ایک انسپکٹر تھا اور اس حوالے سے ایک باعزت حکومتی اہلکار تھا۔ اگرچہ وہ روسی آرتھوڈوکس چرچ کا متقی ممبر تھا لیکن اپنے خیالات میں ترقی پسند تھا۔ پیشہ وارانہ مہارت کی بنیاد پر اسے ڈائریکٹر جنرل آف سکولز بنا دیا گیا اور ”آفیشل سٹیٹ کونسلر“ خطاب کے ساتھ ایک وراثتی رئیس بھی بنا دیا گیا۔ لینن کی والدہ اینا الیزاروفا ایک متمول خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا والد ڈاکٹر اور ایک جاگیر کا مالک تھا جہاں الیانوف خاندان موسمِ گرما کی چھٹیاں گزارا کرتا تھا۔ وہ روسی، جرمن اور فرانسیسی زبان میں ماہر اور وسیع مطالعے کی مالک تھی۔ اگرچہ الیانوف خاندان بہت زیادہ امیر نہیں تھا لیکن ان کی زندگی آسودہ تھی۔

الیا نکولائی وچ اور اینا الیزاروفا کے چھ بچے جوان ہوئے جن میں سے پہلی بیٹی سال 1864ء میں پیدا ہوئی۔ سب سے بڑے بیٹے کا نام الیگزینڈر تھا جسے پیار سے ساشا کہا جاتا تھا اور وہ پورے خاندان کی آنکھوں کا تارہ تھا۔ باقی بہن بھائیوں میں ولادیمیر ایلیچ، اولگا، دمیتری اور ماریا شامل تھے۔ لینن کی ایک بہن کے مطابق ”ہم ایک دوستانہ اور دل جو خاندان تھے“۔ اچھے والدین ہونے کے ناطے الیا اور اینا نے اپنے بچوں کی پڑھائی اور ان کے مستقبل پر خصوصی توجہ دی۔ گھر پر شیکسپیئر، گوئٹے، پشکن اور دیگر لکھاریوں کی تحریریں اتوار کی شاموں میں باآواز بلند پڑھی جاتی تھیں۔ نوجوان لینن کو یقینا ایک اچھی تعلیم اور خوشحال خاندان کے تمام فوائد میسر تھے۔ اپنی عمومی ساخت میں الیانوف خاندان روسی انٹیلی جنشیہ کا ایک مثالی نمونہ تھا۔

زملیا ای ولیا

ٹراٹسکی نے لکھا ہے کہ ”الیانوف خاندان کی قسمت کو روسی انٹیلی جنشیہ کی اس ابتدائی انقلابی تحریک کی منطق اور بعد میں اس کے انہدام کی منطق کو جانے بغیر سمجھا نہیں جا سکتا“۔

ان پر آشوب سالوں میں ایک نئی تنظیم زملیا ای ولیا (زمین اور آزادی) تخلیق ہوئی۔ انہیں عرف عام میں ”پاپولسٹس“ کے نام سے جانا جاتا تھا اور یہ عمومی طور پر ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان طلبہ کی تحریک تھی۔ وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بڑی گرمجوشی سے ”عوام تک پہنچے“۔ ان کا مقصد دیہاتی کسانوں کو شعور فراہم کرنا اور زار شاہی کے ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کے لئے تیار کرنا تھا جس کی بنیاد ایک قسم کا کسان سوشلزم تھی۔ انہیں یقین تھا کہ مغربی سرمایہ داری رجعتی ہے اور اس لئے وہ روس کے لئے نئی راہوں کے متلاشی تھے۔ ان کا اعلان کردہ مقصد وہ چنگاری بننا تھا جو ایک کسان انقلاب برپا کر دے۔ پرانے نظام کے خلاف ایک کسان بغاوت کے لئے انہوں نے ان تھک محنت کی۔ لیکن عدم اطمینان کے باوجود کسان پسماندہ تھے۔ پروپیگنڈہ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ صرف بے نیاز ہی نہیں رہے بلکہ اکثر اوقات مشتعل ہو کر سرگرم نوجوانوں کو پولیس کے حوالے کر دیا کرتے تھے۔ نتیجتاً وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور ”عوام تک پہنچنے“ کی تحریک ناکام ہو گئی۔

زار شاہی کے جابرانہ کردار کی وجہ سے انقلابی گروہ خفیہ طور پر منظم ہو کر ہی کام کر سکتے تھے۔ کسان انقلاب برپا نہ ہونے کے بعد نوجوان انفرادی دہشت گردی کی طرف مائل ہو گئے تاکہ تبدیلی کو تیز کیا جاسکے۔ انہوں نے قابل نفرت پولیس سربراہان، جابروں، تشدد کرنے والوں اور پولیس اہلکاروں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ سال 1866ء میں زار الیگزینڈر دوم کو قتل کرنے کی پہلی کوشش کی گئی۔ اگرچہ یہ کوشش ناکام ہوئی لیکن ریاست بری طرح ہل گئی اور حکمران طبقے میں سراسیمگی پھیل گئی۔ لیکن ریاست نے جلد ہی اپنے پیر جما لیے اور اس کا جبر شدید تر ہو گیا۔

زملیا ای ولیا میں دو رجحانات ابھرے۔۔ ایک رجحان انفرادی دہشت گردی کا حامی تھا جبکہ دوسرا دیہات میں پروپیگنڈہ کرنے کی حمایت کرتا تھا۔ آخر کار تنظیم دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور پروپیگنڈہ کے حامیوں نے چرنی پیریدل (از سرِ نو سیاہ تقسیم) بنائی یعنی زمین کو ”سیاہ“ عوام میں برابر تقسیم کر دیا جائے۔ روس میں سیاہ عوام سے مراد استحصال زدہ کسان تھے۔

دہشت گردی کے حامیوں نے نارودنیا ولیا (عوام کی امنگ) بنائی۔ اس کے حامیوں کو ”نارودنک“ کہا جاتا تھا اور ریاست کے خلاف انفرادی دہشت گردی ان کا مقصد تھا۔ ان کا لائحہ عمل باکونن کے ”عمل کا پروپیگنڈہ“ سے مماثلت رکھتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ براہ راست عمل کے ذریعے مثال بن کر عوام کے جنگجوانہ جذبات بھڑکائے جا سکتے ہیں۔ ان کے ایک قائد زیلیابوف کے مطابق ”تاریخ بہت سست ہے۔ ہمیں اسے تیز کرنا ہے“۔ لینن نے اسے ”انفرادی لڑائی کی تھیوری“ کہا ہے ”جس کا فوری اثر ایک قلیل مدتی جذبے کا بھڑکنا ہے جبکہ بالواسطہ طور پر اس سے بے حسی جنم لیتی ہے اور اگلے واقعے کا بے عملی پر مبنی انتظار رہتا ہے“۔
ایک نارودنک لیفلیٹ کے مطابق ”جیسے ماضی میں عوام کی جنگیں ان کے قائدین انفرادی لڑائیوں کی صورت میں لڑا کرتے تھے اسی طرح آج دہشت گرد روس کی آزادی، آمریت کے ساتھ انفرادی جنگ میں جیتیں گے“۔

عملی طور پر انفرادی دہشت گردی کا طریقہ کار چند انقلابیوں کا مرہون منت تھا جس سے عوام کا کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ محض تماشائی تھے۔ ٹراٹسکی کے مطابق ”جنگجو نے پیغمبر کی جگہ لے لی“۔ مستقبل میں روسی سوشل ڈیموکریسی کی بنیادیں کھڑی کرنے میں فعال کردار ادا کرنے والی بہادر نوجوان خاتون ویرا زاسولچ نے سال 1878ء میں سینٹ پیٹرز برگ کے گورنر جنرل تریپوف کو گولی مار دی جس نے حال ہی میں ایک قیدی پر جسمانی تشدد کروایا تھا۔ ایک مشہور مقدمہ چلا لیکن بالآخر زاسولچ کو بری کر دیا گیا۔

Aleksandr Ulyanov Image public domain

لینن کا بھائی

بارہ سال قتل کرنے کی ناکام کوششوں کے بعد مارچ 1881ء (پرانا کیلنڈر) میں نارودنکس نے کامیابی سے شاہی بگھی کو بم سے تباہ کر دیا اور جیسے ہی زار الیگزینڈر دوم نمودار ہوا،ا سے ایک اور بم سے قتل کر دیا۔ لیکن اسی ایک واقعے نے اس تنظیم کی قسمت کا بھی فیصلہ کر دیا۔ عوام نے بغاوت نہیں کی اور تحریک شدید تشدد اور جبر کا نشانہ بن گئی۔ پانچ قاتلوں کو پھانسی دی گئی۔ رجعتی کوڑوں کی برسات میں پچاس سے کم افراد پر مشتمل تنظیم بکھرنا شروع ہو گئی اور ختم ہونے والے ممبران کے متبادل نہ مل سکے۔

ٹراٹسکی نے لکھا ہے کہ:

”غالباً بموں سے خود کو اڑانے کو تیار نوجوان مرد اور خواتین کی کوئی کمی نہیں تھی۔ لیکن اب انہیں متحد کرنے اور راستہ دکھانے کے لئے کوئی نہیں بچا تھا۔ پارٹی کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ اپنے ہی عمل میں دہشت نے پروپیگنڈہ دور میں حاصل کی گئی قوتوں کو متبادل ملنے سے پہلے ختم کر دیا۔ ’عوام کی امنگ‘ کے قائد زیلیابوف کے مطابق ’ہم اپنا سرمایہ استعمال کر رہے ہیں‘۔ کوئی شک نہیں کہ زار کے قاتلوں پر مقدمے نے انفرادی نوجوانوں کے جذبات بھڑکا دیے۔ اگرچہ پولیس نے سینٹ پیٹرزبرگ میں جلد ہی ان کا صفایا کر دیا لیکن ’عوام کی امنگ‘ کے مختلف گروہ دیگر صوبوں میں سال 1885ء تک بنتے رہے۔ لیکن اس سے دہشت کی ایک نئی لہر شروع نہیں ہو سکی۔ اپنے ہاتھ جلانے کے بعد انٹیلی جنشیہ کی اکثریت انقلابی آگ سے پیچھے ہٹ گئی“۔

زار کے قتل کے وقت لینن کی عمر گیارہ سال تھی اور اس سیاسی ڈرامے کے حوالے سے وہ بے خبر تھا۔ اپنی زندگی کے اس حصے میں وہ ادب اور سکول کی پڑھائی میں مگن تھا۔

لینن کا بھائی

قتل کے بعد نیا زار الیگزینڈر سوم تخت پر براجمان ہو ا۔ اصلاحات کی جگہ رد اصلاحات نے لے لی۔ یونیورسٹیوں کی آزادی چھین لی گئی اور مقامی حکومتیں (زیمستووز) مرکزی حکام کی آہنی گرفت میں آ گئیں۔ زار شاہی کا خاصہ، یہودی مخالف پوگروم(مشتعل ہجوم کے ذریعے جلاؤ گھیراؤ اور قتل و غارت) وسیع پیمانے پر منظم کئے گئے۔ لیکن اس تلاطم خیز دور میں ”عوام کی امنگ“ نے سینٹ پیٹرزبرگ یونیورسٹی میں سائنس پڑھنے والے لینن کے بڑے بھائی الیگزینڈر کو پہلے متوجہ اور بعد میں اپنا ممبر بنا لیا۔

مارچ 1887ء میں ”عمل کا پروپیگنڈہ“ کی تقلید میں طلبہ انقلابیوں نے نئے زار کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس گروہ کے ایک کلیدی ممبر، کیمسٹری کے طالب علم الیگزینڈر الیانوف نے نائٹروگلیسرین سے بم تیار کیے۔ قتل کا دن یکم مارچ رکھا گیا جو زار الیگزینڈر دوم کے قتل کی چھٹی برسی بھی تھی۔ لیکن منصوبہ ناکام ہو گیا اور کئی گرفتاریاں ہوئیں۔

مجوعی طور پر زار کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کے الزام میں پندرہ افراد پر مقدمہ چلا۔ ملزموں کی اکثریت کو طویل قید کی سزائیں دی گئیں۔ لیکن الیگزینڈر کو بنیادی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔ 8 مئی 1887ء کو اسے کال کوٹھری سے نکال کر پیٹر اور پال قلعے کے احاطے میں چار اور افراد کے ساتھ پھانسی دے دی گئی۔ اس نے اپنے کامریڈز کی طرف سے اعلان کیا کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے کیونکہ ”اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے موت سے زیادہ عظیم موت اور کوئی نہیں“۔ اس کی بہن اینا کبھی بھی اس منصوبہ بندی میں شامل نہیں تھی لیکن اسے بھی گرفتار کر لیا گیا۔ پھانسیوں کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔ الیگزینڈر کی ماں کو اپنے بیٹے کی پھانسی کا اس اخبار سے پتہ لگا جو اس نے اپنی بیٹی سے ملاقات پر جاتے وقت راستے میں خریدا تھا۔

نوجوان الیگزینڈر جس قربانی کے لئے تیار تھا وہ حیران کن ہے۔ یہ اکیس سالہ نوجوان اپنے مقصد کے لئے جان قربان کرنے کو تیار تھا۔ یہ خیال ہی عاجز کر دیتا ہے۔ کیا بہادری ہے! کیا ثابت قدمی ہے! کیا قربانی ہے!
الیگزینڈر نے احتیاط کی تھی کہ اس منصوبہ بندی میں اپنے بھائی کو شامل نہ کرے یہاں تک کہ اس نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ کروپسکایا کے مطابق دونوں کے مشترکہ شوق تھے لیکن ”عمر میں فرق شاید ایک وجہ تھی“۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ ”الیگزینڈر ایلیچ نے ولادیمیر کو کچھ نہیں بتایا“۔ اپنے چھوٹے بھائی سے وہ اپنی خفیہ انقلابی سرگرمیاں بھی چھپاتا رہا۔ لیکن ”اس میں کوئی شک نہیں کہ بھائی کی موت نے ولادیمیر ایلیچ پر گہرے اثرات مرتب کئے“۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

جب زار شاہی ریاست نے الیگزینڈر کو پھانسی دی اس وقت سترہ سالہ ولادیمیر ایلیچ سکول میں پڑھ رہا تھا۔ اس سانحے نے اسے دہلا کر رکھ دیا کیونکہ ایک سال پہلے اس کا والد 53 سال کی عمر میں فوت ہو چکا تھا۔ ان دونوں اموات نے نوجوان لینن میں شدید ہیجان برپا کر دیا جس کے بعد اس کا مذہب کی طرف رویہ تنقیدی ہو گیا اور اسے جلاد سے ہمیشہ کیلیے نفرت ہو گئی۔ اس کے بعد ضرور اس میں نارودنک اور ان کے محبوب مقصد کے حوالے سے ہمدردیاں گہری ہوئی ہوں گی۔

ان تمام سانحوں کے باوجود نوجوان ایلیچ سمبرسک سکول میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہا اور اپنی کلاس میں اول رہا۔ اسے لاطینی زبان اور ادب سے بہت زیادہ لگاؤ تھا اور اس نے اپنے نانا کی لائبریری کھنگال ڈالی۔ اسے شطرنج کا بہت شوق تھا۔ تاریخ کے عجیب و غریب لمحات میں سے ایک کا مظاہرہ دیکھیے کہ ایلیچ کے سکول کا ہیڈماسٹر مستقبل میں سال 1917ء کی عبوری حکومت کے سربراہ الیگزینڈر کرینسکی جسے لینن نے معزول کر دیا تھا، کا والد فیدور کرینسکی تھا۔ فیدور نے ولادیمیر کے حوالے سے تعریفی کلمات لکھے کہ ”بہت ہنرمند ہے، ان تھک محنتی اور اپنی حاضریوں میں پابند“۔ یہ محنتی خوبیاں ساری عمر اس کا خاصہ رہیں۔

اپنی شاندار تعلیمی حاصلات کے ذریعے لینن نے اپنے والد کی سابق درسگاہ کازان یونیورسٹی میں قانون پڑھنے کے لیے داخلہ لے لیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں نوجوان لینن طلبہ احتجاجوں میں شامل ہو کر آمرانہ ریاستی حکام کے شکنجے سے یونیورسٹی کی آزادی کا مطالبہ کرنے لگا۔ اس پاداش میں اسے 39 دیگر طلبہ سمیت یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ اگرچہ اس میں دہشت گردی کے لیے کچھ ہمدردیاں موجود تھیں لیکن اس نے اپنے بڑے بھائی کا راستہ نہیں اپنایا۔ اس کی سادہ وجہ ہے۔ یہ راستہ بند ہو چکا تھا۔ الیگزینڈر سوم پر قاتلانہ حملے کی کوشش کے بعد ملک میں ایسی فضا بن چکی تھی کہ اس سمت کسی قسم کی پیش قدمی اب ناممکن ہو چکی تھی۔ شدید رجعتیت کا دور دورہ تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہر چیز پر سیاہ سایہ پڑ چکا ہے۔

لیکن کہانی یہ بنائی گئی کہ اپنے بھائی کی پھانسی کے بعد ایلیچ چلا اٹھا کہ ”نہیں، ہم اس راستے پر نہیں چلیں گے۔ یہ راستہ غلط ہے“۔ یہ واضح طور پر سٹالنسٹوں کی کارستانی ہے جو لینن کو پیدائش سے ہی عظیم بنانا چاہتے تھے۔ ٹراٹسکی نے طنز کیا ہے کہ ”یہ الفاظ کسے کہے گئے؟ والدہ سینٹ پیٹرزبرگ میں تھی، اینا جیل میں تھی۔ قیاس ہے کہ ولادیمیر نے اپنی حکمت عملی تیرہ سالہ دمیتری اور نو سالہ ماریا کو بتائی۔۔۔“

ایلیچ کی ابھی بھی پرانے نارودنکس سے بہت زیادہ ہمدردی تھی۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ وہ ساری عمر اپنے بھائی سمیت ان جنگجوؤں کو خراج تحسین پیش کرتا رہا جو وراثت میں ایک دلیر روایت چھوڑ گئے تھے۔ گریگری زینوویف نے لینن کی زندگی پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ ”اس (لینن) نے ہمیں ہمیشہ پاپولسٹ انقلابیوں کی اس پہلی نسل، ان مٹھی بھر شاندار انقلابیوں کے لئے انتہائی تعظیم سکھائی ہے۔ اور کامریڈ لینن نے کبھی اس ورثے کو رد نہیں کیا۔ اس نے ہمیشہ کہا کہ یہ ہمارا اور صرف ہمارا ورثہ ہیں“۔

”محنت کی آزادی“ گروہ

پلیخانوف ”زمین اور آزادی“ سے علیحدہ غیر مستحکم چرنی پیریدل کی قیادت کر رہا تھا۔ شدید دباؤ میں اس کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو گیا۔ ڈائچ نے گلہ کیا کہ ”تنظیم کی قسمت پہلے دن سے ہی خراب تھی“۔ تنظیم کے قائدین پلیخانوف، زاسولچ، ڈائچ اور ایکسل راڈ کو بالآخر سال 1880ء اور 1881ء میں جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔

لیکن پانچ ممبران کا یہ جلا وطن گروہ نئی سماجی قوتوں یعنی صنعتی محنت کشوں کی جانب دیکھ رہا تھا جو بطور طبقہ انقلابی تبدیلی اور سوشلزم کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھے۔ روسی محنت کش طبقہ نوخیز تھا، تاریخ میں حال ہی میں نمودار ہوا تھا اور اس میں زیادہ تعداد لاکھوں کروڑوں بے دخل کسانوں کی تھی جنہیں زمینوں سے اکھاڑ کر شہروں اور دیو ہیکل فیکٹریوں میں دھکیل دیا گیا تھا۔ خوفناک استحصال کا شکار یہ طبقہ انقلابی پروپیگنڈہ کی طرف مائل ہو رہا تھا۔

ویرا زاسولچ کے ذریعے یہ گروہ لندن میں مارکس اور اینگلز کے ساتھ رابطے میں تھا۔ اس رابطے کے نتیجے میں یہ گروہ مارکسزم کی افادیت سے متفق ہو گیا اور مارکس کی وفات کے سال 1883ء میں انہوں نے ”محنت کی آزادی کے لئے گروہ“ تشکیل دیا جس کا مقصد روس میں مارکسزم کا پرچار تھا۔ اس طرح پلیخانوف کا گروہ پرانے ”پاپولزم“ اور ابھرتی سوشل ڈیموکریسی یعنی انقلابی مارکسزم کے درمیان ایک پل بن گیا۔

ٹراٹسکی نے لکھا کہ ”اس طرح ننھے سوئٹزرلینڈ میں مستقبل کی عظیم پارٹی، روسی سوشل ڈیموکریسی کا ایک نیوکلیس بن گیا جس نے بعد میں سوویت ریپبلک کے خالق بالشویزم کو جنم دیا۔ دنیا اتنی غافل ہوتی ہے کہ عظیم تاریخی واقعات کا جنم طبل بجا کر نہیں ہوتا اور ستارے کوئی پیش گوئی نہیں کرتے۔ پہلے آٹھ یا دس سال روسی مارکسزم کا جنم کوئی خاص قابل ذکر واقعہ نظر نہیں آتا تھا“۔

یہ گروہ اینگلز کی بقیہ ساری زندگی اس کے ساتھ خط و خطابت اور زاسولچ کی ملاقاتوں کے ذریعے رابطے میں رہا۔ یہ وہ رجعتی دور تھا جس میں روسی سوشل ڈیموکریسی کی جنین کا جنم ہوا۔ روس کی دھرتی پر پہلی سوشل ڈیموکریٹک تنظیم بننے میں مزید دس سال لگ گئے۔ انقلاب کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ان مٹھی بھر کامریڈز نے نارودنک نظریات کے خلاف جدوجہد کی جن کے مطابق روس باآسانی سرمایہ داری کو پھلانگ کر کسی قسم کا ”کسان“ سوشلزم حاصل کر لے گا۔ مارکس اور اینگلز نے اس سوال پر سال 1882ء میں پلیخانوف گروہ کی جانب سے چھپنے والے ”کمیونسٹ مینی فیسٹو“ کے دوسرے روسی ایڈیشن کے دیباچے میں بحث کی جس میں روسی مستقبل کو عالمی انقلاب کے ساتھ جوڑا گیا۔

”کمیونسٹ مینی فیسٹو کا مطمع نظر جدید بورژوا ملکیت کا ناگزیر طور پر عنقریب تحلیل ہونا تھا۔ لیکن روس میں ہمارے سامنے تیزی سے پھلتی پھولتی سرمایہ دارانہ لوٹ مار اور نوزائیدہ بورژوا ملکیت بھی موجود ہے لیکن دوسری طرف آدھی سے زیادہ زمین کسانوں کی مشترکہ ملکیت میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مجروح لیکن اجتماعی ملکیت کی ابتدائی شکل میں موجود روسی برادری براہ راست کمیونسٹ اجتماعی ملکیت کی زیادہ بلند شکل اختیار کر سکتی ہے؟ یا اس کے برعکس اسے تحلیل کے اسی عمل سے گزرنا ہے جو مغرب میں تاریخی ارتقا کا خاصہ ہے؟ آج اس کے ممکنات کا ایک ہی جواب ہے کہ اگر روسی انقلاب مغرب میں مزدور انقلاب کو مہمیز دیتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو تقویت دیں تو پھر روس میں زمین کی موجودہ اجتماعی ملکیت ایک کمیونسٹ ارتقا کا نکتہ آغاز بن سکتی ہے“۔

پلیخانوف کے گرد موجود اس جلا وطن گروہ میں مستقبل کے بالشویزم کے بیج موجود تھے۔ لیکن یہ لینن کی شخصیت تھی جس نے ان بیجوں کو پھوٹنے اور پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔

جلا وطنی سے اس گروہ نے مارکسی لٹریچر روس میں اسمگل کرنا شروع کیا اور رابطوں کے ذریعے زیادہ تر نوجوان طلبہ میں سوشل ڈیموکریٹک حلقے بنانے شروع کئے۔اس سرخیلی کام پر پلیخانوف کو روسی مارکسزم کے باپ کا خطاب ملا۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان حالات میں اس کا گروہ سماج سے مکمل طور پر کٹا ہوا تھا۔ یہ جنگل بیابان میں تنہائی کے سال تھے۔ لیکن یہی وہ سال تھے جن میں روسی سوشل ڈیموکریسی کی نظریاتی بنیادیں بننا شروع ہوئیں۔

ایک سیاسی سفر کا آغاز

سال 1888ء کے اوائل میں نوجوان لینن اپنے خاندان کے ساتھ سمارا منتقل ہو گیا۔ لیکن الیگزینڈر نام کے ساتھ منسوبی کا مطلب تھا کہ وہ مستقل پولیس کی کڑی نظر میں تھے۔ موسمِ خزاں میں وہ کازان منتقل ہو گئے۔ اٹھارہ سالہ ایلیچ نے ذہنی نشو ونما اور شعوری پختگی کی جانب اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس تیاری میں تقریباً چھ سال لگے جس دوران وہ مقامی انقلابی حلقوں سے رابطے میں رہا۔ غیر ملکی زبانوں پر دسترس نے اس کا مطالعہ وسیع کر دیا۔ طلبہ دوستوں کے ذریعے اس کی ”سرمایہ“ سمیت مارکس کی دیگر تحریروں تک رسائی ہوئی جن کا ا س نے تفصیلی مطالعہ شروع کر دیا۔

لیکن یہ اس کی سیاسی زندگی کا محض آغاز تھا۔ دیگر افراد کچھ بھی کہیں لیکن اس وقت وہ اپنے آپ کو سوشل ڈیموکریٹ تصور نہیں کرتا تھا۔ لیکن وہ تیزی سے سیکھ رہا تھا اور جب بھی اس کی رسائی ہوتی وہ مارکس کی تحریروں کا بہت سنجیدہ مطالعہ کرتا۔ وہ اپنے مطالعے میں آگے بڑھ رہا تھا لیکن اس میں ابھی بھی ”عوام کی امنگ“ کے حوالے سے ہمدردیاں موجود تھیں۔ اس کا ذہن ابھی بھی منتشر تھا۔ اس نے ابھی تک پلیخانوف کی کوئی تحریر نہیں پڑھی تھی اگرچہ بڑی مشکلوں کے بعد سینٹ پیٹرزبرگ میں اینگلز کی کتاب ”اینٹی ڈیورنگ“ اس کے ہاتھ لگ گئی۔

والدہ کی طرف سے حکام پر مسلسل دباؤ اور کئی ناکامیوں کے بعد بالآخر اسے ایک بیرونی طالب علم کے طور پر سینٹ پیٹرزبرگ یونیورسٹی میں قانون کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس وقت اسے ایک اور صدمہ ہوا جب اس کی انیس سالہ بہن اولگا کو ٹائیفائڈ بخار ہو گیا اور وہ چل بسی۔ ظالم زندگی کی سفاکی دیکھیے کہ یہ واقعہ الیگزینڈر کی برسی کے دن ہوا۔ لیکن ان صدمات کے باوجود ایلیچ بالآخر امتحان پاس کر کے فرسٹ کلاس ڈگری لینے میں کامیاب ہو گیا اور سمار ا شہر میں ایک وکیل کا معاون لگ گیا۔

1891-92ء کے دوران علاقے میں شدید قحط کے ساتھ ہیضہ اور ٹائفس کی وبائیں پھیل گئیں۔ چار لاکھ افراد کی اموات ہوئیں۔ ان سانحات کا نوجوان لینن پر بہت گہرا اثر پڑا اور اس کے انقلابی نظریات مزید پختہ ہو گئے۔ اس نے سمارا میں چار سال گزارے جہاں وہ انقلابیوں کی پرانی نسل کے ساتھ رابطے میں آگیا۔ ان میں سے زیادہ تر ”عوام کی امنگ“ سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک اندرونی لڑائی ناگزیر ہو چکی تھی تاکہ وہ ان روایات سے ناطہ توڑ کر مکمل طور پر مارکس وادی بن سکے۔ اسے سمجھ آگئی کہ اس کا قانونی کیریئر دریافت کردہ نئے اور زیادہ وسیع مقاصد سے متصادم ہے۔ اس لئے اس نے فیصلہ کن قدم اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو مکمل طور پر انقلاب کے لیے پیش کر دیا۔ بعد میں وہ قانونی پیشے میں اپنے مختصر کیریئر کے حوالے سے مذاق بھی کیا کرتا تھا۔

اسے پتا تھا کہ وہ ایسا شخص نہیں جو کسی کام سے محض دل لگی کرے۔ ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ ”ولادیمیر الیانوف کو شوقین مزاجی سے نفرت تھی“۔ یہ سمارا ہی تھا جہاں ایلیچ ایک انقلابی سوشل ڈیموکریٹ اور سخت گیر مارکس وادی بنا۔
اگست 1893ء کے اختتام پر ایلیچ سمارا اور اپنے خاندان کو چھوڑ کر دارالحکومت سینٹ پیٹرزبرگ منتقل ہو گیا جہاں اس نے ایک نئے سوشل ڈیموکریٹ حلقے میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کی ملاقات پیٹر ستروف اور میخائل توگان۔بارانوفسکی سمیت کئی کامریڈز سے ہوئی۔ یہ دونوں سیاسی طور پر جلد ہی لینن کا ساتھ چھوڑ کر لبرل ازم کے کیمپ میں چلے گئے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب لینن کی حقیقی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوا اور اب اس کی زندگی ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے ہدف میں ضم ہو گئی۔ اس کے نظریات ٹھوس شکل اختیار کرنے لگے اور وہ ایک شاگرد سے استاد بن گیا۔

23 سال کی عمر میں نوجوان لینن نا صرف ایک لکھاری یا نظریہ دان بلکہ مستقبل کی تحریک کا قائد بننے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس کی ابتدائی کاوشوں میں ”نام نہاد منڈی کے سوال پر“ تحریر میں ”سرمایہ“ کا گہرا علم نظر آتا ہے جسے اس نے جدید اعدادوشمار اور حقائق کے ساتھ جوڑ کر روس میں سرمایہ داری کے ارتقا کو بیان کیا اور نارودنکس کی بحثوں کا مفصل جواب دیا۔ ٹراٹسکی کے مطابق:

”بھائی کی پھانسی اور سینٹ پیٹرزبرگ میں منتقلی کے دوران گزرنے والے بیک وقت قلیل اور طویل چھ سالوں کے ثابت قدم کام کے دوران مستقبل کا لینن ابھرا۔ اسے ابھی اندرونی اور بیرونی کئی منازل طے کرنی تھیں، واضح طور پر مختلف مراحل جو اس کی بعد کی زندگی کے ارتقائی عمل میں نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے کردار، زندگی کے حوالے سے نظریات اور طریقہ کام کے بنیادی خدوخال سترہ اور ستائیس سال عمر کے درمیانی عرصے میں مربوط ہو چکے تھے“۔

صورتحال میں تبدیلی

لینن کے ارتقا میں یہ نئی معیاری تبدیلی کوئی حادثہ نہیں تھی۔ اس کی اپنی تبدیلی روس میں بدلتی صورتحال کی عکاس تھی۔ عالمی واقعات کا بھی اثر موجود تھا جن میں برطانیہ کے بندرگاہ کے محنت کشوں کی ہڑتال اور وہاں ”نئی یونین بازی“ کی لہر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سال 1889ء میں دوسری انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی گئی اور غیر قانونی جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے تقریباً پندرہ لاکھ ووٹ جیتے۔ اس دور میں روس میں طبقاتی جدوجہد اور ہڑتالیں مسلسل بڑھ رہی تھیں جن میں سے پہلے حقیقی محنت کش حلقے نمودار ہوئے۔ نوجوان بھی مارکس کے نظریات کی طرف راغب ہو رہے تھے۔

Georgi Plekhanov Image public domain

پلیخانوف

پارٹی منظم کرنے کے لیے لینن سمیت روسی مارکس وادی مغربی یورپ کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں اور خاص طور پر جرمن پارٹی کی طرف دیکھتے تھے۔ اس میں خاص طور پر SPD کے کارل کاؤتسکی، بیبل اور دیگر قائدین کے ہاتھوں ایڈورڈ برنسٹائن کے ترمیم پسند نظریات کی شکست نے اہم کردار ادا کیا۔

ہر جگہ کی طرح روس میں بھی سب سے پہلے انٹیلی جنشیہ اور خاص طور پر طلباء انقلابی نظریات پر منظم ہوئے۔ انقلابی پارٹی کی بھاری اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔

لینن اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے بہت سنجیدہ تھا۔ اس نے مارکسزم کا سطحی مطالعہ نہیں کیا بلکہ اس میں ڈوب گیا حالانکہ ان تحریروں کا حصول انتہائی مشکل تھا۔ اس نے ان نظریات کو طوطے کی طرح رٹنے کے برعکس اپنے رگ و پے میں اتارنے کا ہدف متعین کیا۔ اس نے اپنی تمام زندگی ہر کام کو اسی تندہی اور گہرائی سے سرانجام دیا۔ اس ابتدائی دور پر نظر دوڑاتے ہوئے لینن نے ان تجربات کو ”لیفٹ ونگ کمیونزم۔۔ ایک طفلانہ مرض“ میں تحریر کیا کہ:

”روس نے واحد درست انقلابی نظریہ مارکسزم نصف صدی کی انتہائی تکلیف دہ بے مثال آلام و مصائب اور قربانیوں، بے مثال انقلابی بہادری، بے پناہ توانائی، ان تھک تلاش، مطالعہ، عملی تجربات، مایوسیوں، تصدیقوں اور یورپی تجربات کے ساتھ موازنے سے حاصل کیا۔ زار شاہی کی وجہ سے سیاسی جلا وطنی نے انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں انقلابی روس کو عالمی رابطوں کی دولت اور عالمی انقلابی تحریک کی اشکال اور نظریات پر معلومات فراہم کیں جو کسی اور ملک کے پاس موجود نہیں تھیں“۔

یہ وہ انمول تاریخی تجربہ تھا جس نے روسی انقلابی تحریک کو اپنے خیالات سدھارنے اور کیڈرز کو کندن بننے میں مدد فراہم کی تاکہ وہ سال 1905ء اور سال 1917ء کے انقلابات کے لیے تیارہو سکیں۔ اس طرح روسی مارکسیوں کو دیگر ممالک پر بے پناہ سبقت حاصل تھی۔ سب سے بڑھ کر ان تمام تجربات نے لینن کے طریقہ کار کو بھی وضع کیا۔

اس لیے یہ کوئی حادثہ نہیں کہ مارکس کی شاہکار تحریر ”سرمایہ“ کا پہلا روسی ترجمہ اصلی تحریر کے پانچ سال بعد سال 1872ء میں شائع ہوا جبکہ پہلا فرانسیسی ترجمہ سال 1883ء اور پہلا انگریزی ترجمہ روسی ترجمے کے چودہ سال بعد سال 1886ء میں شائع ہوا۔

لینن بہت پرجوش تھا کہ مارکس وادی عملی سیاست میں نوارد محنت کشوں کی تحریکوں میں شامل ہوں۔ اس کیلیے اس نے سیمیاکانوف محنت کشوں کے لیے پہلی تقریر لکھی جس کی ہاتھوں سے چار کاپیاں بنائی گئیں اور لیفلیٹ بنا کر پھیلایا گیا۔ لافرم تمباکو فیکٹری میں ہڑتال کرنے والی محنت کش خواتین کو دیگر لیفلیٹ بھی دیے گئے۔ بعد میں ان ہاتھوں سے لکھے گئے لیفلیٹس کی کاپیاں بنائی گئیں اور انہیں مزید بانٹا گیا۔
لینن نے اینگلز کی بات پلّے باندھ لی کہ جدوجہد کے تین فرنٹ ہیں۔۔معاشی، سیاسی اور سب سے اہم نظریاتی۔اینگلز کی کتاب ”خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ سمیت مختلف مارکسی تحریروں کو حلقہ ممبران میں پڑھایا گیا۔ ولادیمیر ایلیچ نے بھی محنت کشوں کے گروہوں میں مارکس کی کتاب ”سرمایہ“ پڑھائی۔

سال 1894ء میں اس نے اپنی پہلی بڑی تحریر ”’عوام کے دوست‘ کون ہیں اور وہ سوشل ڈیموکریٹس سے کیسے لڑتے ہیں“ لکھی کی جو پاپولسٹ میخالوفسکی کے حوالے سے بحث مباحثہ ہے اور اس میں نارودنکس کو ہمیشہ کے لیے جواب دے دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے ایک اور شدید تنقید ”نارودنکس کا معاشی جوہر“ لکھی جس میں ستروف کی ترمیم پسندی کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ دونوں تحریریں غیر قانونی طور پر شائع ہوئیں۔

”عوام کے دوست کون ہیں“ میں لینن نے تاریخ کو بیان کرنے کے واحد سائنسی طریقہ کار یعنی مادی بنیادوں پر تاریخ کی تشریح کے خدوخال واضحکیے اور جدلیاتی مادیت سے شروع کر کے مارکسزم کا تفصیلی دفاع کیا۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ نارودنزم ”پیٹی بورژوا موقع پرستی“ میں غرق ہو چکی ہے جو لبرل ازم میں ضم ہو کر پیٹی بورژوا مفادات کا اظہار کر رہی ہے۔ پھر اس نے انقلابی سوشل ڈیموکریٹس کے فرائض پر تفصیلی بات کی کہ:

”روس میں سوشل ڈیموکریٹس کی سیاسی سرگرمیاں محنت کش تحریک کو منظم کرنا اور اس کی تعمیر میں فعال کردار ادا کرنا ہے، اس تحریک کو موجودہ نظریات سے عاری شاذونادر احتجاجوں، ’بلووں‘ اور ہڑتالوں کی کوششوں سے بورژوا آمریت کے خلاف پورے روسی محنت کش طبقے کی ایک منظم جدوجہد میں تبدیل کرنا ہے اور ضبط کرنے والوں کی ضبطگی کیلیے کام کرنا ہے اور محنت کشوں پر جبر کی بنیاد پر قائم سماجی نظام کو ختم کرنا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کی بنیاد مارکس وادیوں کا عمومی یقین ہے کہ روسی محنت کش پورے روس کی محنت کرنے والی استحصال زدہ عوام کے اکلوتے اور فطری نمائندے ہیں“۔

لینن نے کتاب میں نتیجہ اخذ کیا کہ:

”جب اس کے سب سے شعور یافتہ نمائندے سائنسی سوشلزم کے نظریات پر دسترس حاصل کر لیں گے، روسی محنت کش کے تاریخی کردار کو سمجھ جائیں گے، جب یہ نظریات وسیع پیمانے پر پھیل جائیں گے اور جب محنت کشوں میں مستحکم تنظیمیں بن جائیں گی تاکہ موجودہ شاذونادر معاشی جنگ کو شعوری طبقاتی جنگ میں تبدیل کیا جائے۔۔۔پھر روسی محنت کش تمام جمہوری عناصر کی قیادت کرتا ہوا آگے بڑھے گا، آمریت کا خاتمہ کرے گا اور روسی محنت کشوں کی (تمام دیگر ممالک کے محنت کشوں کے ساتھ) کھلم کھلا آزاد سیاسی جدوجہد کے راستے پر قیادت کرے گا تاکہ ایک کمیونسٹ انقلاب کامیاب ہو“۔

اس وقت لینن پلیخانوف کی تحریروں خاص طور پر سال 1895ء میں چھپنے والی ”تاریخ کے مونسٹ نقطہ نظر کا ارتقا“ سے بہت زیادہ متاثر تھا جس میں تاریخ کو پرکھنے کا مادی طریقہ کار زیرِ بحث لایا گیا تھا اور ستروف جیسے افراد پر شدید تنقید کی گئی تھی جو مارکسزم چھوڑ گئے تھے۔ لینن نے پلیخانوف کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کام نے ”روسی مارکس وادیوں کی ایک پوری نسل کی تربیت میں مدد کی ہے“۔

اس دور میں پلیخانوف کی تحریروں نے نارودنزم پر فیصلہ کن وار کیے۔ ان کے اس سوال پر کہ روس میں سرمایہ داری تعمیر ہو گی یا نہیں، پلیخانوف نے ناقابل تردید حقائق کے ساتھ ثابت کیا کہ روس سرمایہ دارانہ ارتقائی عمل میں داخل ہو چکا ہے اور کوئی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ اصل کام اس ارتقا کو روکنا نہیں ہے بلکہ نوخیز محنت کش طبقے کے انقلابی ممکنات کو نکھارتے ہوئے اسے ایک انقلابی پارٹی میں ڈھالنا ہے۔ نارودنکس کے برعکس پلیخانوف نے محنت کش طبقے کی اہمیت اور اس کے تاریخی مشن پر بہت زیادہ زور دیا۔ انفرادی دہشت گردی کے برعکس جدوجہد کی بنیاد محنت کش طبقے کی طبقاتی تحریک ہونی چاہیے۔ ایک طرف پلیخانوف نے نارودنکس کو فیصلہ کن جواب دیا تو دوسری طرف یہ لینن تھا جس کی کاوشوں سے سوشلسٹ حلقوں میں نارودنزم کو حتمی شکست فاش ہوئی۔

بیرون ملک لینن کا سفر

سال 1895ء کے آغاز میں ولادیمیر ایلیچ نمونیا سے بہت زیادہ بیمار ہو گیا اور اسے مئی میں علاج کے لیے بیرون ملک جانا پڑا۔ اس سفر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے پلیخانوف، ایکسل راڈ اور زاسولچ سے جنیوا اور زیوریخ میں ملاقاتیں کیں۔ پھر وہ پیرس پہنچا جہاں اس کی ملاقات کارل مارکس کے داماد پال لافارج سے ہوئی۔ اس کے بعد وہ برلن پہنچا اور اہم جرمن سوشل ڈیموکریٹ ولہم لائب نیخت سے اس کی ملاقات ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے لندن میں اینگلز سے ملاقات کی خواہش ضرور ہو گی۔ لیکن یہ سفر ممکن نہ ہو سکا۔ بدقسمتی سے اسے معلومنہیں تھا کہ اینگلز شدید بیمار ہے اور اس سال اگست میں وہ فوت ہو گیا۔

اینگلز روس میں موجود امکانات کے حوالے سے پرجوش تھا۔ اپنی وفات سے چند ماہ پہلے فروری 1895ء میں اینگلز نے پلیخانوف کو لکھ کر ”تاریخ کے مونسٹ نقطہ نظر کا ارتقا“ کی کاپی ملنے پر شکریہ ادا کیا تھا۔ اینگلز نے لکھا کہ ”ویرا نے مجھے تمہاری کتاب دی ہے جس کے لئے بہت شکریہ۔ میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا ہے لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔ بہرحال اپنے ملک میں اس کی اشاعت کرانا تمہاری بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہ آگے کا قدم ہے اور اگر ہم حال ہی میں حاصل کردہ اپنی نئی پوزیشن قائم نہیں بھی رکھ پاتے تو بھی ایک نظیر بن گئی ہے، برف پگھل گئی ہے“۔

ان دو عظیم اساتذہ کی جو تحریر لینن کے ہاتھ لگتی وہ اس کا بے صبری سے مطالعہ کرتا جاتا اور اس دوران بطور ایک شاگرد اس کا دل مارکس اور اینگلز کے لئے بیحد محبت سے لبریز ہو گیا۔ وہ خاص طور پر اینگلز کی قربانی، غیر معمولی دماغ اور انسانی خوبیوں کا قدر دان تھا۔ اس کی موت کے بعد لینن نے ایک مختصر تعزیت نامہ لکھا کہ:

”روسی انقلابیوں نے اپنا بہترین دوست کھو دیا ہے۔ ہمیں ہمیشہ فریڈرک اینگلز کو تعظیم سے یاد رکھنا ہے، محنت کش طبقے کا ایک عظیم جنگجو اور استاد“۔

لینن وسیع النظری اورلگن کے ساتھ مارکس اور اینگلز کے نقش قدم پر چلنے کیلیے پرعزم تھا۔ اپنے اساتذہ کی طرح لینن بھی ”آہنی قوت ارادی“ کا مالک تھا جو اسے اپنے ہمعصروں میں ممتاز کرتی تھی۔ پوتریسوف کے الفاظ میں ”لینن اکیلا آہنی قوتِ ارادی اور ناقابل تسخیر توانائی کے ساتھ تحریک، نصب العین اور اپنے آپ پر جنونی اعتماد رکھنے والا شخص تھا۔ یہ مظہر ہر جگہ لیکن خاص طور پر روس میں بہت نایاب ہے“۔ یاد رہے کہ پوتریسوف لینن کا شدید مخالف تھا۔

ظاہر ہے بورژوا تاریخ دان ایسی خصوصیات کو جنونیت، عدم برداشت اور تنگ نظری گردانتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں مستقبل میں ایک آمر کے بیج سمجھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ خصوصیات تمام عظیم انقلابیوں کا خاصہ ہیں چاہے وہ فرانسیسی انقلاب کا رابسپیئر ہو یا انگلش انقلاب کا کرامویل۔

نوجوان لینن جتنا اپنے کردار کو سمجھتا گیا اتنی ہی یہ خصوصیات اس میں پختہ ہوتی گئیں۔ مارکس اور لینن کے بعد وہ پلیخانوف کا بہت بڑا مداح تھا۔ پلیخانوف کے ساتھ اس کی ملاقاتیں فی الحال ایک استاد کے برعکس ایک شاگرد کی حیثیت میں تھیں۔ وہ ابھی اپنے نظریات اور علم کو وسیع کر رہا تھا۔ لیکن پوتریسوف کے مطابق ایلیچ ”ایک غیر معمولی اور طاقت ور دماغ تھا۔ اس کی ہر بات میں گہرائی تھی“۔

پچیس سالہ ولادیمیر ایلیچ ستمبر 1895ء میں غیر قانونی مواد سے بھراسوٹ کیس لے کر روس واپس پہنچا۔ سینٹ پیٹرزبرگ پہنچنے پر اس کی ملاقات ایک اور نوجوان انقلابی جولیس مارٹوف سے ہوئی جسے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ مارٹوف کا مارکسزم سے گہرا لگاؤ تھا۔ اس ملاقات کے بعد دونوں نوجوانوں نے قریبی تعاون کے ساتھ مارکسی حلقے تعمیر کیے اور جلد ہی ”محنت کش طبقے کی آزادی اور جدوجہد کی یونین“ کی بنیاد رکھی۔ سکول ٹیچر این۔ کے کروپسکایا بھی اس کام میں مگن ہو گئی۔ جلد ہی اوڈیسہ اور ٹولا میں برانچز بن گئیں۔ اگلے سال نیکولائف میں ایک نوجوان طالب علم لیو برونسٹائن (یہ نوجوان بعد میں ٹراٹسکی کے نام سے مشہور ہوا) نے ”جنوبی روسی محنت کشوں کی ایسوسی ایشن“ کی بنیادیں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس وقت ان حلقوں میں سرگرمیوں کا محور بنیادی طور پر نظریاتی بحث مباحثے سے محنت کشوں میں بڑھتی سیاسی جدوجہد کی طرف مائل ہو گیا۔ اس تبدیلی کا عکس لینن کی تحریروں جیسے ”فیکٹری محنت کشوں پر جرمانوں کے قانون کی تفصیل“ اور ”نیا فیکٹری قانون“ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مسلسل پروگرام، حکمت عملی اور تنظیم کے حوالے سے روسی مارکس وادیوں کے فرائض پر بھی لکھتا رہا۔ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں یہ گروہ مسلسل خفیہ پولیس اوخرانا کی کڑی نظر میں رہا۔ پلیخانوف کے ساتھ ملاقات کے بعد لینن اور اس کے کامریڈز محنت کشوں کا ایک غیر قانونی اخبار ”محنت کشوں کی جدوجہد“ شائع کرنے کا سوچ رہے تھے۔ لیکن دسمبر 1895ء میں ایلیچ اور مارٹوف دونوں کو دیگر کامریڈز سمیت اخبار کی رونمائی سے پہلے گرفتار کر لیا گیا۔ ان گرفتاریوں سے ان کی قوتیں کمزور ہو گئیں، کام کھٹائی کا شکار ہو گیا اور نیا اخبار کبھی نہ چھپ سکا۔

گرفتاری اور جلا وطنی

قید کے دوران ولادیمیر ایلیچ اپنے کامریڈز کے ساتھ ملاقاتوں اور پولیس کو نظر نہ آنے والی دودھ سے لکھی گئی خفیہ خط و خطابت کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہا۔ ولادیمیر قید میں بہت مصروف تھا کیونکہ ایک طرف وہ مسلسل لیفلیٹ لکھ رہا تھا اور دوسری طرف اپنی تصنیف ”روس میں سرمایہ داری کا ارتقا“ پر کام کر رہا تھا جو سال 1899ء میں شائع ہوئی۔ اس نے ”سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا مسودہ اور تفصیل“ بھی لکھا۔ اس مسودے میں اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ:

”لیکن مطلق العنانیت کے خلاف ہر سماجی تحریک کی حمایت کا اعلان کرنے کے ساتھ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اپنے آپ کو محنت کش تحریک سے علیحدہ نہیں کرتی کیونکہ محنت کش طبقے کے مخصوص مفادات ہیں اور یہ باقی تمام طبقات کے مفادات سے متصادم ہیں“۔

قید سے رہائی کے بعد اسے تین سال کے لیے مشرقی سائبیریا میں شوشینکو گاؤں جلا وطن کر دیا گیا جس کی کل آبادی ایک ہزار تھی۔ وہاں سینٹ پیٹرزبرگ میں اس کی ساتھی اور کامریڈ کروپسکایا اس کے ساتھ شامل ہو گئی۔ ایلیچ روس میں سرمایہ داری پر اپنی کتاب پر کام کرتا رہا اور کروپسکایا کے ساتھ مل کر اس نے سڈنی اور بیٹرس ویب کی کتاب ”صنعتی جمہوریت“ ترجمہ کی۔ اس ترجمے سے انتہائی ضروری آمدنی میسر ہوئی۔ شاموں میں وہ عام طور پر ادب یا فلسفے پر کتابیں پڑھا کرتا تھا۔۔۔ہیگل، کانٹ اور فرانسیسی مادیت پرست۔ کروپسکایا نے اس دور کے حوالے سے کہا ہے کہ ”عمومی طور پر جلا وطنی کوئی اتنی بری بھی نہیں تھی۔ یہ سال سنجیدہ مطالعے میں گزر گئے“۔

لینن مسلسل مستقبل کے کام کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس حوالے سے اس نے سال 1897ء کے اختتام پر ”روسی سوشل ڈیموکریسی کے فرائض“ پر لیفلیٹ لکھا۔ ”روسی سوشل ڈیموکریسی ابھی نوخیز ہے۔ یہ حال ہی میں اپنے جنین سے باہر آئی ہے جس میں نظریاتی سوال حاوی تھے۔ اس نے ابھی اپنی عملی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے“۔ ان سرگرمیوں کا مطلب انتہائی حوصلہ افزا امکانات سے بھرپور محنت کش طبقے کی جانب رخ کرنا تھا۔ ”اسلیے کام کرو کامریڈز! ہم نے قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا ہے!“۔

بڑے بھائی کے علاوہ سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے خاندان میں ولادیمیر ایلیچ ہی اکیلا نہیں تھا۔ اس کے چھوٹے بھائی دمیتری کو سال 1897ء میں ماسکو یونیورسٹی سے انقلابی سرگرمیوں کی پاداش میں نکال دیا گیا تھا جس کے بعد اسے گرفتار کر کے ٹولا جلا وطن کر دیا گیا۔ اس کی بہن ماریا کو بھی ملوث ہونے کی پاداش میں گرفتار کر کے نزہنی نوو گرود جلا وطن کر دیا گیا۔

مارچ 1898ء میں جلا وطنی کے دوران سوشل ڈیموکریسی کی پہلی کل روسی کانگریس مِنسک میں تین دن کے لئے منعقد ہوئی۔ کانگریس نے ایک مینی فیسٹو چھاپا اور ایک قیادت منتخب کی لیکن جلد ہی نو مندوبین میں سے اکثریت کو گرفتار کر لیا گیا۔ مینی فیسٹو تاحال مارکس وادی پیٹر سٹروف نے لکھا تھا اور اس میں کچھ جملے بڑے معنی خیز تھے کہ ”یورپ میں مشرق کی جانب جتنا سفر ہوتا ہے اتنا ہی سیاسی طور پر بورژوازی کمزور، ذلیل اور بزدل ہوتی جاتی ہے اور اتنا ہی زیادہ محنت کش طبقے کے سیاسی اور ثقافتی فرائض بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ ایک اہم قدم لیکن پہلا قدم ہے کہ محنت کش طبقے کے عظیم تاریخی مشن یعنی ایک سماجی نظام کی تعمیر جس میں انسان کسی دوسرے انسان کا استحصال نہ کر سکے، کو سمجھا جائے“۔

سائبیریا میں جلا وطنی کے دوران لینن کو ہفتے میں دو مرتبہ ڈاک وصول ہوتی تھی۔۔منگل اور جمعرات جس میں خطوط، کاغذات اور کتابیں ہوتی تھیں۔ وہ جلد ہی جلا وطن سوشل ڈیموکریٹس میں مرکزی فرد بن گیا جس سے جلا وطن کامریڈز ملاقاتیں کیا کرتے تھے لیکن اس کے لیے اجازت درکار ہوتی تھی۔ لیکن ایلیچ کو سب سے زیادہ اپنے کامریڈ جولیس مارٹوف کی یاد ستاتی تھی جسے بہت دور قطب شمالی کے جنوب توروخانسک جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ اس طویل فاصلے کے باوجود ان کے درمیان باقاعدہ خط و خطابت رہتی تھی۔

یہ وہ عرصہ تھا جب لینن نے مستقبل کا ایک منصوبہ بنایا، اس پر کروپسکایا کے ساتھ بحث مباحثہ کیا اور بعد میں اس پر اسکرا اخبار، ”کیا کرنا ہے؟“ اور ”ہمارے تنظیمی فرائض پر ایک کامریڈ کو خط“ لیفلیٹوں میں تفصیلی بحث کی۔ اس منصوبے کا ایک کلیدی حصہ ایک کل روسی سوشل ڈیموکریٹک اخبار کا اجرا تھا جسے ملک کے باہر سے شائع کیا جانا تھا۔ یہ ایک مرکزی اوزار ہو گا جو تنظیم کو یکجا رکھے گا اور محنت کش لکھاریوں کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے روس میں کام کو سمت دے گا۔ انقلابی کام کو ایسے مرکزی اوزار کی شدید ضرورت تھی جو کام کو سمت فراہم کرے۔

”قانونی“ مارکسزم

خبر آئی کہ ”قانونی مارکسزم“ کے اخبار ”زہن“ (زندگی) میں سٹروف اور توگان۔ بارانوفسکی کے مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں مارکسزم کے کچھ بنیادی نظریات کو چیلنج کیا گیا ہے۔ سٹروف نے لکھا کہ ”مارکس کا خیال تھا کہ سوشلزم کو بورژوازی کی تمام مادی اور ثقافتی حاصلات وراثت میں ملیں گی۔ اس کے ساتھ ہی اسے امید تھی کہ سوشلزم ایک بحران، معاشی انتشار اور غربت کا نتیجہ ہو گا!اس طرح کے مفروضوں کا حقیقی نتیجہ مایوس کن اور ’تباہ کن سوشلزم‘ ہو گا“۔

Iskra Image public domain

اسکرا اخبار کا پہلا شمارہ

”قانونی“ مارکسزم کا عجیب و غریب تصور روس کے مخصوص حالات میں ابھرا جہاں لبرلز کو زار شاہی آمریت کی مخالفت اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے محنت کش طبقے کی حمایت کی ضرورت تھی۔ اس لبرل انٹیلی جنشیہ میں مارکسی اثرات مکمل طور پر یکطرفہ تھے اور ان میں رتی برابر بھی مارکسزم کا انقلابی جوہر موجود نہیں تھا۔ وہ مارکسزم کو کمزور اور بے ضرر بنا کر روس میں سرمایہ داری کی ناگزیریت اور اس کیلیے اپنی حمایت کا جواز پیش کرتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ کیا کمیونسٹ مینی فیسٹو میں بھی سرمایہ داری کے ترقی پسندانہ کردار اور مشن کا ذکر نہیں جس نے پرانے نظام کو ختم کرنا ہے؟ ”قانونی“ مارکسزم کے اس عجیب و غریب جانور کے نمائندے پی۔بی سٹروف، ایس۔این۔ بلگاکوف اور توگان۔بارانوفسکی تھے جو بعد میں مکمل طور پر لبرل ہو گئے۔ لینن نے لکھا کہ ”اس حوالے سے تبصرہ کیے بغیر رہا نہیں جا سکتا کہ ہمارے لبرلز اور ریڈیکلز جب اپنے قانونی پریس کے صفحات میں مارکسزم کا ذکر کرتے ہیں تو اسے انتہائی تنگ نظر اور پراگندہ بنا دیتے ہیں۔ یہ کیا تماشا ہے! ذرا سوچیں کہ اس انقلابی نظریے کو کتنا مسخ کرنا پڑتا ہے تاکہ روسی سنسرشپ کے پروکسٹین بستر پر اسے لٹایا جا سکے!“ (یونانی دیو مالا میں پروکسٹیس شہر آٹیکا کا ایک لوہار اور ڈاکو تھا جس نے ایک لوہے کا بستر بنا رکھا تھا۔ وہ مسافروں کو بستر پر رات گزارنے کی دعوت دیتا تھا اور چھوٹے قد کے افراد کو ہتھوڑا مار مار کر لمبا اور دراز قد افراد کی ٹانگیں کاٹ کر انہیں بستر کے مطابق ڈھال دیتا تھا۔ کوئی فرد کبھی اس بستر کے مطابق پورا نہیں ہوتا تھا۔ اسے بعد میں تھیسیس نے مار ڈالا تھا۔ یہ حوالہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب یہ بتانا مقصود ہو کہ ایک پہلے سے طے شدہ فارمولے کے مطابق کسی چیز کو ڈھالنا مقصد ہے چاہے اس کے نتائج کچھ بھی نکلیں)۔

محنت کش طبقے کی تحریک کے ابتدائی مراحل میں لینن نے ان میں سے چند افراد کے ساتھ کام کیا تھا۔ آمریت کی موجودگی میں یہ انقلابی مارکسزم کی چھوٹی قوتوں کو کچھ قانونی راہیں فراہم کرتے تھے تاکہ یہ نظریات وسیع تر پرتوں تک پہنچائے جا سکیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ لینن ”قانونی مارکس وادیوں“ کے حوالے سے کوئی نرم رویہ رکھتا تھا۔ جیسے ہی وہ مارکسزم کے خلاف ہوئے لینن نے ان کے خلاف ایک پرعزم جدوجہد کی۔ لینن واضح تھا کہ بغیر کسی تبدیلی کے حقیقی مارکسزم کا پرچار مقصد ہے جو زار شاہی کی سنسرشپ کی موجودگی میں ایک غیر قانونی خفیہ اخبار کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔

مارکسزم پر سٹروف کے اعتراضات میں جرمنی کے ایڈورڈ برنسٹائن کے کئی ترمیم پسند خیالات کی چھاپ موجود تھی۔ سٹروف نے بعد میں ”قانونی“ مارکسزم کے رویے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”سچ تو یہ ہے کہ سوشلزم نے مجھ میں کبھی کوئی جذبات نہیں ابھارے، کشش تو دور کی بات ہے۔۔مجھے سوشلزم میں ایک نظریاتی قوت کے حوالے سے دلچسپی رہی جسے۔۔۔معاشرتی اور سیاسی آزادیوں کو حاصل کرنے یا ان کے خلاف استعمال کیا جا سکتا تھا“۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ اس نے اپنے آخری ایام بطور جلا وطن وائٹ رد انقلابی گزارے۔

پیٹی بورژوا دانشوروں کے ”قانونی مارکسزم“ کا ایک موقع پرست ہم منصب گروہ روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی موجود تھا یعنی ”اکانومزم“(معیشت پسندی)۔ اس طرح کے ترمیم پسند رجحانات کا ظہور ایک عالمی مظہر تھا جو جرمن تحریک میں برنسٹائن کے خیالات کی شکل میں آگے بڑھ رہا تھا۔ ”اکانومسٹس“ نے کوشش کی کہ محنت کش طبقے کی جدوجہد کو گھٹا کر محض ”دال روٹی“ کے مسائل تک محدود کر دیا جائے جس کی بنیاد سیاسی طور پر بانجھ تحریکیں اور سرگرمیاں ہوں۔ ان کیلیے نظریات ثانوی تھے جن کا طبقاتی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

نظریات کو کمتر سطح پر لانے کی کوششوں میں۔۔۔ جس کا مقصددرحقیقت تحریک کی قیادت حاصل کرنے کے لئے انقلابیوں کی جدوجہد کو ترک کرنا تھا۔۔۔”اکانومسٹس“ قانونی مارکس وادیوں کا ہی عکس تھے۔”اکانومسٹس“ کا ایک اخبار ”رابوچئے دیلو“ تھا (لینن اسی نام کا اخبار شائع کرنے کا خواہش مند تھا لیکن اسے بند کر دیا گیا)۔ اس اخبار میں وہ سوشل ڈیموکریٹس سے اپیلیں کرتے تھے کہ وہ اپنا انقلابی پروگرام ترک کر کے محض معاشی مطالبات پر آئیں۔ اس راستے پر چلنے کا منطقی انجام انقلابی پارٹی کا خاتمہ تھا۔

ایک کل روسی مارکسی اخبار

ان ترمیم پسند رجحانات کا مقابلہ کرنا وقت کی اشد ضرورت بن گیا۔ ولادیمیر ایلیچ کو یقین تھا کہ ایک کل روسی مارکسی اخبار اس حوالے سے کلیدی اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ اس لئے اس نے مارٹوف اور پوتریسوف سے بات چیت کی اور ایسے ایک کل روسی اخبار کے اجرا پر پرجوش خط و خطابت کی۔ متفق ہونے پر انہوں نے بحث مباحثہ کیا کہ کون اس میں لکھے گا، اس کی اشاعت کیسے ہو گی، اسے روس میں کیسے اسمگل کیا جائے گا اور اس کی سیاسی پوزیشن کیا ہو گی۔ پھر انہوں نے بیرون ملک سفر کر کے پلیخانوف سے ملاقات کا پروگرام بنایا۔ اس بحث مباحثے سے اسکرا (چنگاری) کا خیال پیدا ہوا جو جلد ہی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی بن گیا۔ لینن نے لکھا کہ ”اب بس ایک چیز کی کمی ہے کہ اس تمام بکھرے ہوئے کام کو ایک واحد پارٹی میں متحد کر دیا جائے“۔ یہ کام اسکرا کے ذریعے سرانجام پایا۔

Union of Struggle Image public domain

یونین آف سٹرگل فار دی لبریشن آف ورکنگ کلاس کا پیٹرزبرگ شہر کا چیپٹر۔ 1897

سال 1900ء فیصلہ کن ثابت ہوا۔ ایک نئی صدی کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ لینن اور کروپسکایا کی جلا وطنی بھی ختم ہو گئی۔ ان پر سینٹ پیٹرزبرگ، ماسکو یا کسی بھی صنعتی علاقے میں رہائش پر ممانعت تھی اس لیے سکاف میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد ولادیمیر ایلیچ نے بیرون ملک جانے کی اجازت مانگی۔ اجازت اس لیے ملی ہو گی کہ یہ انقلابی روس سے جتنا دور رہیں اتنا اچھا ہے۔ سینٹ پیٹرزبرگ میں ویرا زاسولچ کے ساتھ ایک حوصلہ افزا ملاقات کے بعد جس میں لینن نے نئے اخبار کے لئے حمایت کا اندازہ لگایا، وہ مارٹوف اور پوتریسوف سے ملاقات کے لیے سکاف واپس پہنچا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد پوتریسوف نے جرمنی پہنچ کر ”لیبر کی آزادی گروپ“ سے ملاقات کی اور جلا وطن سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر ایک اخبار کی اشاعت کے امکانات کا اندازہ لگایا۔ 16 جولائی 1900ء میں لینن روس سے زیوریخ پہنچا تاکہ ذاتی طور پر پلیخانوف سے ملاقات کر سکے۔

لینن نے اخبار کے لیے پلیخانوف کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بدقسمتی سے میٹنگ توقعات کے برعکس ہوئی۔ درحقیقت میٹنگ سے فوری جھگڑے اور پورے پراجیکٹ کے تعطل کے امکانات بن گئے۔
پلیخانوف کے ساتھ بحث مباحثے میں پوتریسوف بھی شامل ہوا۔ یہ واضح تھا کہ پلیخانوف ان دونوں نوواردوں کے حوالے سے مشکوک تھا اور بحث مباحثہ شدید تناؤ کا شکار ہو گیا۔ لینن کو پلیخانوف کے رویے پر شدید صدمہ ہوا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد لینن نے میٹنگ کے حوالے سے اپنے قریبی ترین کامریڈز کے لئے ایک تحریر ”کیسے ’چنگاری‘ تقریباً بجھ گئی تھی“ لکھی۔ حال ہی میں ”بیرون ملک روسی سوشل ڈیموکریٹس کی یونین“ کی اکثریت نے ”اکانومسٹ“ پوزیشن اپنا لی تھی جس پرتقسیم ہو گئی۔ اس وجہ سے پلیخانوف شدید تناؤ کا شکار تھا۔ اس کے بعد پلیخانوف اور اس کے حامی تنظیم چھوڑ گئے تھے۔ یہ حالیہ تجربہ اس کے رویے پر اثر انداز ہو رہا تھا۔ ان دونوں نوجوانوں سے ملاقات کے دوران پلیخانوف کا رویہ جارحانہ اور بدتمیز انہ تھا۔ جلد ہی صورتحال ناقابل برداشت ہو گئی۔

لینن کے مطابق ”ارسینیف (پوتریسوف) نے اعلان کر دیا کہ جہاں تک اس کا تعلق ہے، اس کے خیال میں اس کا پلیخانوف کے ساتھ ذاتی تعلق ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے اور اب یہ کبھی بحال نہیں ہو گا۔ وہ اس کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلق رکھے گا لیکن ذاتی تعلق اب ختم ہو چکا ہے۔ پلیخانوف کا رویہ اتنا تضحیک آمیز تھا کہ اس پر شک ہوتا تھا کہ وہ ہمارے حوالے سے ’آلودہ‘ خیالات رکھتا ہے (یعنی وہ ہمیں کیریئراسٹ سمجھتا ہے)۔ اس نے ہمیں قدموں تلے روند ڈالا وغیرہ۔ میں نے ان الزامات کی مکمل تائید کی۔ مجھ پر پلیخانوف کا ’سحر‘ ایک لمحے میں ختم ہو گیا اور میں حیران کن حد تک ناراض ہو گیا اور مجھے بہت صدمہ ہوا۔ کبھی بھی، کبھی بھی میں نے اپنی زندگی میں کسی اور انسان کی اتنی مخلص عزت اور تعظیم نہیں کی، کبھی بھی میں کسی انسان کے سامنے اتنی ’عاجزی‘ سے کھڑا نہیں ہوا اور کبھی بھی مجھے اتنی بری طرح ’ٹھوکر‘ نہیں لگی۔ ہاں ایسا ہی تھا، ہمیں واقعی ’ٹھوکریں‘ ماری گئیں“۔

لیکن زاسولچ اور ایکسل راڈ نے بیچ بچاؤ کر کے کر تصفیہ کرا دیا۔ پلیخانوف کے ساتھ آخری ملاقات میں اس نے اعتراف کیا کہ یہ ایک افسوسناک غلط فہمی تھی اور وہ شدید دباؤ میں تھا۔ ”پلیخانوف مہارت، شاندار مثالوں، مسکراہٹوں، بذلہ سنجی اور حوالہ جات کا پیکر بنا ہوا تھا جس نے ہمیں تمام ناراضگیوں کے باوجود ہنسنے پر مجبور کر دیا“۔

اس بنیاد پر ”چنگاری“ ایک مرتبہ پھر بھڑک اٹھی۔ اس سارے واقعے میں افراد اور تنظیم کے حوالے سے لینن کے صابر اور لچک دار رویے کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ بورژوا تاریخ دانوں اور اصلاح پسندوں کے آمر اور جابر ہونے کے الزامات سے کتنا مختلف ہے۔

اگر انصاف کیا جائے تو پلیخانوف کے رویے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اندرونی معاملات پر دھوکہ کھانے اور اپریل میں تازہ تقسیم کے بعد وہ پریشان تھا کہ تمام معاملات شروع سے واضح ہونے چاہیے۔ یہ بھی درست ہے کہ کئی سالوں کی جلا وطنی اور ایک چھوٹے گروپ میں قید نے اس پر اثرات مرتب کئے تھے اور وہ حقیقی صورتحال سے دور تھا۔ غیر پیشہ ورانہ طریقہ کار سے صاف ظاہر تھا کہ پلیخانوف کا گروہ ایک پروپیگنڈہ حلقہ بن کر رہ گیا ہے۔ بالآخر ایک سمجھوتہ ہو گیا کہ اسکرا کا ادارتی بورڈ چھ ممبران پر مشتمل ہو گا۔۔تجربہ کاروں میں سے پلیخانوف، ایکسل راڈ اور زاسولچ اور نئی نسل سے لینن، مارٹوف اور پوتریسوف۔ چونکہ بورڈ برابر تقسیم تھا اس لئے کسی بھی معاملے کے پھنسنے کی صورت میں پلیخانوف کا ووٹ فیصلہ کن قرار پایا۔ لینن نے لکھا ہے کہ:

”ہم نے آپس میں سمجھوتہ کیا کہ جو کچھ ہوا اس حوالے سے ہم اپنے قریبی ترین ساتھیوں کے علاوہ اور کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے۔۔ظاہراً ایسا لگتا تھا جیسے کچھ نہیں ہوا۔۔لیکن ایک بندھن ٹوٹ چکا تھا اور شاندار ذاتی تعلقات کی جگہ خشک پیشہ ورانہ تعلقات نے لے لی تھی جس میں ’اگر امن چاہتے ہو تو جنگ کی تیاری کرو‘ والا اصول کارفرما تھا“۔

اخبار کی اشاعت پر سمجھوتا ہو گیا اور اس کام کے لئے میونخ منتخب کیا گیا جہاں جرمن سوشل ڈیموکریٹک پریس نے اسے چھاپنا تھا۔ اس معاملے کو حل کرنے کے بعد روس میں اخبار کی رسد کے لیے ایک نیٹ ورک منظم کیا گیا۔ ادارتی بورڈ میونخ میں موجود ہو گا۔ پلیخانوف اور ایکسل راڈ سوئٹزر لینڈمیں رہائش پذیر تھے اور خط و خطابت اور کبھی جرمنی کا چکر لگا کر رابطہ رکھتے تھے۔ ستمبر میں ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جو عملی طور پر ترمیم پسندی کے خلاف اعلان جنگ تھا۔

اسکرا کا پہلا شمارہ 24 دسمبر 1900ء کو لائپ زِگ میں شائع ہوا اور سرورق پر ”اس چنگاری سے شعلہ بھڑک اٹھے گا“ لکھا ہوا تھا۔ بعد کے تمام شمارے میونخ سے شائع ہوئے۔ یہ تاریخ کا پہلا کل روس مارکسی خفیہ اخبار تھا جو روس میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ اپریل میں ایک نیا نظریاتی میگزین بھی شروع کیا جانا تھا۔ نظریات کی جنگ جیتنے اور اسکرا کو روسی تحریک کا حاوی رجحان بنانے کے لیے تمام تیاریاں مکمل تھیں۔

منشویک تاریخ دان ڈیوڈ شوب لکھتا ہے کہ:

”تمام شمارے برلن بھیجے جاتے تھے جہاں جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سرکاری اخبار ’ورورٹز!‘ (آگے بڑھو!) کے تہہ خانے میں انہیں رکھا جاتا تھا۔ اس زیر زمین سٹور روم میں مٹھی بھر قابل اعتماد جرمن سوشل ڈیموکریٹس احتیاط سے اسکرا کی تہہ کی ہوئی کاپیوں کے چھوٹے پیکٹ بنا کر انہیں پیکنگ کے ڈبوں میں چھپا دیتے تھے۔ انہیں روسی۔جرمن سرحد کے قریبی قصبوں میں بھیجا جاتا تھا جہاں پیشہ ور اسمگلر انہیں سرحد پار اسکرا کے منتظر ایجنٹوں تک پہنچاتے تھے۔ ان سرحدی علاقوں سے اخباروں کو خاص ایلچیوں کے ذریعے پوری روسی سلطنت میں خفیہ اسکرا کمیٹیوں تک پہنچا دیا جاتا تھا“۔

یہ ایک بہت مشکل اور خطرناک آپریشن تھا۔ انہیں جرمن پولیس اور اوخرانا ایجنٹوں سے بچنے کے لئے بہت تگ و دو کرنی پڑتی تھی جو روسی انقلابیوں کی تاک میں رہتے تھے۔ اخباروں کو مختلف انداز میں روس اسمگل کیا جاتا تھا۔۔ڈبل پلائی سوٹ کیس، خاص واسکٹ اور انڈر گارمنٹس اور اسکرٹوں میں بھی سی دیا جاتا تھا۔ کروپسکایا نے بیان کیا ہے کہ ”اپنے ساز و سامان کے ساتھ خواتین اسکرا کی تین سو سے چار سو کاپیاں اٹھا لیتی تھیں“۔

کروپسکایا کے مطابق شاید 10 فیصد انقلابی لٹریچر ہی اپنی منزل تک پہنچ پاتا تھا۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود اسکرا کا اجرا روسی انقلابی تحریک کی تاریخ میں ایک اہم سنگ بنیاد ہے۔

مرکزیت پر مبنی تنظیم

میونخ میں رہائش کے دوران لینن نے اسکرا اور دیگر تحریروں جیسے ”کیا کیا جائے؟“ اور ”کہاں سے شروع کیا جائے؟“ کے ذریعے پارٹی مشینری کو مضبوط اور مربوط کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ اس نے تنظیم کی کمزوریوں کی نشاندہی کی جو مقاصد کے حصول میں رکاوٹ تھیں۔ مقامی حلقے غیر مربوط اور عدم قیادت کا شکار تھے اور بے ترتیبی سے کام کر رہے تھے۔ کام کو پیشہ ور کرنے کی ضرورت مسلسل بڑھ رہی تھی اور لینن نے واضح خیالات استوار کیے کہ یہ کام کیسے ہو سکتا ہے۔

کام میں مرکزیت درکار تھی جسے دو کلیدی سنٹرز نے فراہم کرنا تھا۔۔۔ ایک مرکزی اخبار اور ایک مرکزی کمیٹی۔ مرکزی اخبار تنظیم کی نظریاتی قیادت کا ذمہ دار ہو گا اور بیرون ملک سے کام کو سمت دے گا جو مسلسل تاک میں بیٹھی خفیہ پولیس کی دسترس سے آزاد ہو گا جبکہ سنٹرل کمیٹی براہ راست اور عملی کام کے لیے ذمہ دار ہو گی۔

لینن نے لکھا ہے کہ:

”ہمیں تحریک کی قیادت کو مرکزیت فراہم کرنی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں جہاں تک ممکن ہو پارٹی کی ذمہ داریاں انفرادی ممبران، پارٹی کام میں شامل ہر فرد اور پارٹی حلقے یا اس سے منسلک حلقوں کو تفویض کرنی ہیں۔ یہ غیر مرکزیت، انقلابی مرکزیت اور صحت کے لیے لازم اولین شرط ہے“۔

لینن نے پارٹی کی تعمیر کیلیے اخبار کے مرکزی کردار پر بہت زور دیا۔ ”کہاں سے شروع کیا جائے؟“ میں اس نے لکھا کہ اخبار کا کردار محض ”نظریات کی ترویج، سیاسی تعلیم اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ ایک اخبار اجتماعی پروپیگنڈہ کار اور ایجی ٹیشن کے اوزار کے علاوہ ایک اجتماعی آرگنائزر بھی ہے۔ آخری حوالے سے اسے ایک زیر تعمیر عمارت کے گرد بنے ڈھانچے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو عمارت کی ساخت کی نشاندہی کرتا ہے اور معماروں کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے تاکہ کام کی تقسیم یقینی بنائی جا سکے اور منظم محنت کا اجتماعی ثمر حاصل کیا جا سکے۔ اخبار کی مدد سے اور اس کے ذریعے ایک مستقل تنظیم مقامی سرگرمیوں کے ساتھ عمومی مستقل کام میں فطری طور پر اپنے خدوخال تراشے گی اور اپنے ممبران کی سیاسی واقعات کی سنجیدہ جانکاری رکھنے، ان کی اہمیت جاننے اور عوام کی مختلف پرتوں پر اس کے اثرات کو سمجھنے کی تربیت کرے گی اور ان واقعات میں انقلابی پارٹی کے فعال کردار کے لئے لائحہ عمل تخلیق کرے گی“۔

لیکن لینن کے تیز و تند بحث مباحثے کا اصلی ہدف ”اکانومسٹس“ تھے جو مزدور تحریک کے خود رو پن پر بہت زور دیتے تھے۔ اس طرح اس نے پارٹی کی اہمیت اور ”پیشہ ورانہ انقلابیوں“ کی بنیادی ضرورت پر زور دیا جو اپنا تمام وقت تنظیمی سرگرمیوں اور تعمیر پر صرف کریں۔

لینن نے نے انقلابی تنظیم کو پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار کرنے کے خیالات کو ”کیا کیا جائے؟“ میں مزید نکھارا جو سال 1901ء میں مکمل ہوئی اور سال 1902ء میں شائع ہوئی۔ اس تصنیف کو انقلابیوں اور خاص طور پر روس میں کام سے منسلک انقلابیوں سے شاندار پذیرائی ملی۔ ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر، فعالیت اور فرائض پر یہ کتاب ایک کلاسیکی مارکسی تحریر ہے۔ لیکن اس پر بورژوا مبصرین اور اصلاح پسندوں نے تنقید کی ہے کیونکہ ان کے مطابق اس کتاب میں مطلق العنانیت اور سٹالن ازم کے بیج موجود ہیں۔ مثال کے طور پر انتھونی ریڈ اپنی کتاب ”جلتی دنیا“ میں دعویٰ کرتا ہے کہ:

”بالشویزم کی بنیاد جھوٹ تھی اور اس نے ایک نظیر بنا دی جس کی اگلے نوے سال تقلید جاری رہی۔ لینن کو جمہوریت نامنظور تھی، عوام پر اعتماد نہیں تھا اور تشدد کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اسے سخت گیر پیشہ ورانہ انقلابیوں کی ایک چھوٹی، شدید منظم اور سخت گیر پارٹی درکار تھی جو بالکل حکم کے عین مطابق کام کرے“۔

ظاہر ہے کہ یہ لینن پر بہتان تراشی ہے اور ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حقیقت پسند لینن جانتا تھا کہ روس میں محنت کشوں کے ساتھ جڑی ایک مرکزیت پر مبنی انقلاب کے لیے وقف پارٹی کی قیادت میں ہی ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ اس نے بالشویک پارٹی کی تعمیر میں یہی کام کرنے کی کوشش کی۔

”کیا کیا جائے؟“ میں اس نے نظریاتی وضاحت پر زور دیا کہ:

”انقلابی نظریات کے بغیر انقلابی تحریک ناممکن ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب موقع پرستی کے پرچار کی مرغوب روش اور عملی سرگرمی کی کمتر ترین اشکال کا سحر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، اس بات پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے“۔

پھر اس نے نظریاتی جدوجہد کے حوالے سے اینگلز کی بات کا حوالہ دیا کہ ”جو لوگ ’نظریہ دان‘ کا لفظ ناک چڑھائے بغیر بول نہیں سکتے“۔ لینن کے مطابق یہی وہ افراد ہیں جو اپنی جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
”اکانومسٹس“ اور ان کی خود روپن کی پوجا پر حملوں میں لینن نے، جیسا کہ بعد ازاں اس نے خود کہا، دوسری سمت چھڑی کچھ زیادہ ہی گھما دی۔ نتیجتاً وہ کاؤتسکی کا ایک غلط خیال تحریر کرتا ہے کہ محنت کشوں میں سوشلسٹ شعور باہر سے صرف انٹیلی جنشیہ ہی لا سکتی ہے اور محنت کش طبقہ اپنے آپ میں صرف ٹریڈ یونین شعور تک پہنچنے کی ہی صلاحیت رکھتا ہے۔

ظاہر ہے یہ غلط ہے۔ اگرچہ سوشلسٹ شعور کا سب سے بلند معیار، مارکسی نظریات، محنت کش طبقے نے نہیں لکھے اور یہ اپنے عہد کے سب سے ترقی یافتہ نظریات کا امتزاج تھا، لیکن یقینا محنت کش سیاسی اور انقلابی نتائج اخذ کرنے کے اہل تھے۔ برطانیہ میں چارٹسٹ تحریک کی تاریخ اس حقیقت کی شاندار مثال ہے۔

لینن نے اپنی غلطی کی نشاندہی کی اور ایک سال بعد روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی دوسری کانگریس میں تفصیلی بیان کیا کہ ”ہم سب جانتے ہیں کہ ’اکانومسٹس‘ نے چھڑی ایک طرف گھما دی تھی۔ اس چھڑی کو سیدھا کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ اسے دوسری سمت موڑا جائے اور یہی کام میں نے کیا“۔

اس لیے لینن کی غلطی بحث مباحثے میں ہونے والی ایک مبالغہ آرائی تھی جسے اس نے دوبارہ کبھی نہیں دہرایا۔

اس کے باوجود ”کیا کیا جائے؟“ میں لینن نے واضح طور پر آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا۔ کروپسکایا نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا کام ہے جسے ”ہر اس فرد کو لازمی پڑھنا چاہیے جو الفاظ میں ہی نہیں بلکہ عملی طور پر لینن اسٹ بننا چاہتا ہے“۔

اسکرا کا منظم کام اور خاص طور پر لینن کے کردار نے سال 1903ء کے موسم گرما میں روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی دوسری کانگریس کی راہ ہموار کی جو حقیقی طور پر تاسیسی کانگریس تھی۔کانگریس کی تمام تیاری لینن کے ہاتھوں میں تھی۔ کروپسکایا کا کہنا ہے کہ ”ولادیمیر ایلیچ کانگریس کے لیے کتنا بے تاب تھا!“

یہ دوسری کانگریس روس کی انقلابی تحریک میں ایک نیا باب ثابت ہوئی۔ اس کانگریس کے بعد واقعات کے تسلسل کی بنیاد پر روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی منشویزم اور بعد ازاں بالشویزم کے نام سے مشہور ہونے والے رجحانات میں تقسیم ہو گئی۔ آ پ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت لینن مستقبل میں اپنے کردار کے حوالے سے تیزی سے شعور یافتہ ہو رہا تھا۔ لیکن دوسری کانگریس اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات موجودہ مضمون کے پیرائے سے باہر ہیں۔ اس موضوع پر پھر کوئی تحریر لکھی جائے گی۔

اس دوران اس ارتقائی عمل اور پورے عہد کو مزید جاننے کے لئے ہم ایلن ووڈز کی شاندار تصنیف ”بالشویزم۔۔راہ انقلاب“ پڑھنا تجویز کرتے ہیں۔

Comments are closed.