|تحریر: آفتاب اشرف|
حاوی دانش کے مطابق سماج پر حق حکمرانی صرف سرمایہ دار طبقے اور اس کے نمائندوں کو حاصل ہے چاہے وہ سیاستدان ہوں یا سول و فوجی ریاستی افسر شاہی۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے جس میں دولت پیدا کرنے کے تمام ذرائع یعنی ذرائع پیداوار (فیکٹریاں، صنعتی مشینری، بینک، بڑے زرعی فارم، معدنی وسائل وغیرہ) ایک مٹھی بھر سرمایہ دار اقلیت کی نجی ملکیت میں ہوتے ہیں اور تمام تر پیداوار کا واحد مقصد محنت کشوں کے زیادہ سے زیادہ استحصال کے ذریعے منافع حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ سرمایہ دار طبقے کی دولت میں ہر وقت اضافہ ہوتا رہے۔
اسی طرح ریاست پاکستان بھی ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے اور یہ سرمایہ دار طبقے کے سیاسی، سماجی اور معاشی مفادات کی ہی نمائندہ و محافظ ہے نہ کہ یہاں کے 25 کروڑ عوام کی۔ اسی لیے اس ریاست کا آئین و قانون، پارلیمنٹ، عدلیہ، سول افسر شاہی، پولیس، فوج، خفیہ ایجنسیاں غرضیکہ ہر قانونی، انتظامی و مسلح ادارہ سرمایہ دار انہ نظام و طبقے کے مفادات کا محافظ جبکہ محنت کش عوام کا بدترین دشمن ہے۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ چونکہ پاکستان عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے اور اس کی تکنیکی و ثقافتی طور پر پسماندہ سرمایہ داری ایک طرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عوام دشمن عالمی مالیاتی اداروں جبکہ دوسری طرف امریکہ، چین، سعودی عرب وغیرہ جیسے سامراجی ممالک و ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معاشی بیساکھیوں کے بغیر نہیں چل سکتی، لہٰذا پاکستان کے سرمایہ دار طبقے اور ریاست کا ایک اہم ترین فریضہ ان عالمی سامراجی سرمایہ داروں کی یہاں جاری لوٹ مار کو مکمل سہولت کاری اور تحفظ فراہم کرنا ہے جس کے بدلے میں لوٹ کا ایک حصہ انہیں بھی ملتا ہے۔
اسی طرح نون لیگ سے لے کر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سے لے کر قوم پرست و مذہبی پارٹیوں تک سیاسی افق پر نظر آنے والی تمام رائج الوقت سیاسی پارٹیاں بھی طبقہ امراء، ریاستی افسر شاہی کے مختلف دھڑوں اور عالمی سامراجی سرمایہ داروں کی ہی نمائندہ اور دلال ہیں اور ان کی آپسی مخاصمت صرف اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ داری کی لڑائی ہے تاکہ لوٹ مار کے مال کی بندر بانٹ میں اپنا حصہ بڑھایا جا سکے۔
یہی تمام وجوہات ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ دارانہ میڈیا سے لے کر دانشورانہ اور اکیڈیمک حلقوں تک، جب بھی سیاست اور اقتدار کی بحث ہوتی ہے تو اس میں ہمیں کہیں بھی محنت کش طبقے کا تذکرہ تک نہیں ملتا۔ لیکن کیا واقعی محنت کش طبقہ اتنا غیر اہم ہے؟ اور کیا واقعی میں اقتدار کے سوال کا محنت کش طبقے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا؟
درحقیقت ایسا سوچنا ٹھوس زمینی حقائق کی سراسر نفی کرنا ہے۔ بڑے بڑے بنگلوں کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھے ’اعلیٰ دماغ‘ خواتین و حضرات جو مرضی کہہ لیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ سماج محنت کش طبقے کے خون پسینے کے بل پر چلتا ہے۔ آخر تمام تر صنعتوں میں پیداوار کون کرتا ہے؟ پاور پلانٹس اور بجلی کی ترسیل کے نظام سے لے کر ریلوے، ائیر پورٹس، بندر گاہوں کو کون چلاتا ہے؟ سڑکوں سے لے کر بلند و بالا عمارتوں، یہاں تک کہ امراء کے پر تعیش محلات کو کون تعمیر کرتا ہے؟
زمین کی تہہ میں اتر کر معدنیات کون نکالتا ہے؟ ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کو بناتا کون ہے؟ انہیں چلاتا کون ہے؟ ان میں جلنے کے لیے ریفائنریوں میں تیل کون صاف کرتا ہے؟ ہسپتال اور یونیورسٹیاں کس نے تعمیر کی ہیں اور انہیں چلانے والے کون ہیں؟ دھرتی کا سینہ چیر کر اناج کون اگاتا ہے؟ ساحل سے دور سمندروں میں جا کر کون مچھلی پکڑ کر لاتا ہے؟ بڑے بڑے بحری جہاز، ہوائی جہاز بنانے والے، انہیں چلانے والے کون ہیں؟ یہ کس کی محنت ہے جس کی بدولت مواصلات کا نظام چلتا ہے اور رابطہ کاری ممکن ہوتی ہے؟۔۔
جی ہاں، آپ درست سمجھے۔۔ یہ سب کچھ محنت کش طبقے کی محنت کے بلبوتے پر ہی ہوتا ہے۔ اس سے قبل کہ کوئی ’سیانا‘ دانشور اعتراض کرے ہم پہلے ہی واضح کر دیں کہ ہر وہ فرد جس کے پاس اپنی گزر بسر کے لیے محنت کی منڈی میں اپنی قوت محنت بیچنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، وہ مزدور ہے۔ اس میں جسمانی یا ذہنی محنت کی کوئی تفریق نہیں۔ لہٰذا ملازمت پیشہ سائنسدان، انجینئرز، ٹیکنیشین، اساتذہ، ڈاکٹرز وغیرہ بھی مزدور یا نیم مزدور ہی ہیں، چاہے ان کی اجرت جسمانی مشقت کرنے والے یا غیر ہنر یافتہ محنت کشوں سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
یہاں تک کہ وہ اسٹینو جس کے بغیر کوئی اعلیٰ سرکاری افسر ایک لیٹر یا حکم نامہ تک جاری نہیں کر سکتا اور وہ سپاہی جن کے بغیر میڈلوں سے سجی وردیوں والے جرنیل جنگ لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے، وہ بھی محنت کش ہی ہوتے ہیں۔ یعنی سرمایہ دارانہ ریاستی مشینری بھی محنت کشوں کے دم پر ہی چلتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو یہ اعتراض ہے کہ فیکٹریاں، ان میں موجود مشینری، خام مال وغیرہ تو سرمایہ دار کی ہی ملکیت ہوتا ہے تو ہم اسے بتاتے چلیں کہ ان سب کو بنانے والے بھی محنت کش ہی ہوتے ہیں۔
لیکن ہماری ان تمام باتوں کا سرمایہ داری کے ٹوڈی دانشوروں کے پاس ایک ہی سکہ بند جواب ہے کہ ”جو بھی ہے، سرمایہ تو سرمایہ دار کا ہی ہوتا ہے نا اور وہ ہی رسک لے کر سرمایہ کاری کرتا ہے، تو پھر تمام پیداوار کا مالک بھی وہی ہوا۔“ اس اعتراض کے جواب میں ایک تو سیدھی سی بات ہم یہ کہیں گے کہ اگر سرمایہ دار کو اپنے سرمائے پر اتنا ہی زعم ہے تو وہ بینک سے نوٹوں کے بنڈل یا سونے کی ڈلیاں نکالے اور انہیں زمین پر پھینک دے۔
اگر مزدور کی محنت کے بغیر یہ نوٹ یا سونا خود بخود ایک فیکٹری، مشینری، خام مال اور پیداوار میں تبدیل ہو جائیں تو پھر یہ سب واقعی سرمایہ دار کا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ بلکہ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ کاغذ کا بننا اور ٹکسال میں نوٹوں کا چھپنا یا سونے کو تلاشنے سے لے کر اس کی صفائی اور ڈلیوں میں ڈھلنے تک کا سارا کام بھی محنت کش ہی سر انجام دیتے ہیں۔ مگر آگے بڑھنے سے قبل یہاں تھوڑا مزید گہرائی میں جا کر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سرمایہ بذات خود ہوتا کیا ہے اور اس کا ماخذ کیا ہے؟
عام غلط فہمی کے برعکس سرمائے کا ماخذ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے تحت منڈی میں اشیاء کا تبادلہ نہیں بلکہ پیداوار کے عمل کے دوران محنت کش طبقے کے استحصال سے حاصل کردہ قدر زائد ہوتی ہے۔ سرمایہ دار اجرت کے بدلے مزدور کی محنت (یعنی محنت کی کوئی فکسڈ مقدار) نہیں بلکہ اس کی قوت محنت (ایک دن، ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کام کرنے کی صلاحیت) خریدتا ہے۔ لہٰذا اگر ورکنگ ڈے بالفرض 8 گھنٹوں کا ہے تو مزدور پہلے 6 گھنٹوں کی پیداوار سے نہ صرف اپنی اس دن کی اجرت بلکہ استعمال ہونے والے خام مال، مشینری کی گھسائی، استعمال شدہ بجلی وغیرہ کے برابر قدر پیدا کر دیتا ہے۔
اگرچہ سماجی انصاف کے تمام تر تقاضوں کے مطابق سرمایہ دار اور مزدور کا حساب برابر ہو چکا ہے لیکن چونکہ سرمایہ دار نے ایک دن کی اجرت کے عوض مزدور کی 6 گھنٹے کی محنت نہیں بلکہ پورے دن کی قوت محنت خریدی ہے لہٰذا وہ مزدور سے مزید کام کرواتا ہے اور اگلے 2 گھنٹوں کے پیداواری عمل میں مزدور جو قدر تخلیق کرتا ہے، وہ قدر زائد کہلاتی ہے۔ یہ وہ قدر ہوتی ہے جس کے عوض مزدور کو کوئی (اضافی) اجرت ادا نہیں کی جاتی۔ یہ قدر زائد، جو درحقیقت مزدور کی غیر ادا شدہ اجرت ہوتی ہے، عرف عام میں منافع کہلاتی ہے۔
اس کے ایک حصے سے سرمایہ دار فیکٹری کا کرایہ، بینک کے سود کی قسط اور دیگر متفرق اخراجات ادا کرتا ہے، پیچھے جو بچتا ہے وہ اس مخصوص سرمایہ دار کا خالص منافع ہوتا ہے۔ یہی منافع اس مخصوص سرمایہ دار کا سرمایہ بنتا ہے جسے وہ مزدور کے استحصال پر مبنی اس پیداواری عمل کو مزید وسعت دینے، یعنی سرمائے کے مزید پھیلاؤ اور بڑھوتری، کے لیے استعمال میں لاتا ہے۔
سرمایہ دار کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ شرح استحصال کو بڑھائے یعنی مزدور سے زیادہ سے زیادہ قدر زائد نچوڑے۔ اس مقصد کے لیے وہ اوقات کار میں اضافے، تیز ترین پیداوار کے لیے جدید مشینری کے استعمال یا عموماً دونوں طریقوں کا بیک وقت استعمال کرتا ہے۔ یہی وہ استحصالی گھن چکر ہے جس کے نتیجے میں مزدور ساری عمر کام کرنے کے باوجود غریب سے غریب تر جبکہ کوئی ذہنی یا جسمانی مشقت نہ کرنے والا سرمایہ دار، امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے۔
مزید برآں جب سارے سرمایہ دار باہمی مسابقت اور زیادہ سے زیادہ منافع کی ہوس میں مزدور کی شرح استحصال بڑھاتے جاتے ہیں تو اس سے ایک طرف تو منڈی کی قوت خرید گرتی جاتی ہے، کیونکہ سرمایہ داروں کی پیدا کردہ اشیاء کو خود سرمایہ داروں نے نہیں بلکہ زیادہ تر محنت کشوں پر مشتمل منڈی نے خریدنا ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف جدید مشینری کے استعمال سے شرح پیداوار میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
اسی تضاد کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام میں زائد پیداوار یا زائد پیداواری صلاحیت کے بحران آتے ہیں جو کہ پھر فیکٹریوں کی بندش اور بیروزگاری کی صورت میں بڑے پیمانے پر پیداواری قوتوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ لیکن جہاں سرمایہ دار ہر وقت محنت کشوں کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں وہیں مزدور بھی یونین اور مزدور تحریک میں منظم ہوتے ہوئے اجرتوں میں اضافے، اوقات کار میں کمی وغیرہ کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تاکہ اپنی شرح استحصال کو کم کر سکیں۔
اسی لیے سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بنیادی تضاد سرمائے اور محنت کا تضاد ہے جسے اس نظام کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے حل کرنا ممکن نہیں کیونکہ سرمایہ دار کے فائدے میں مزدور کا نقصان ہے جبکہ مزدور کے فائدے میں سرمایہ دار کا نقصان ہے۔
سرمائے اور محنت کے اس بنیادی ترین تضاد کی چھاپ ہمیں سرمایہ دارانہ سماج اور ریاست کے ہر ایک پہلو پر بدرجہ اتم نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سرمایہ دار طبقے کے منافع اور عوامی فلاح میں بھی ایک بھر پور ٹکراؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر سرمایہ دارانہ نظام میں سرکاری سطح پر صحت اور تعلیم کا بجٹ بڑھا کر عوام کو مفت یا سستی صحت و تعلیم کی سرکاری سہولیات مہیا کی جائیں تو پھر سرمایہ دار طبقے کے نجی ہسپتال اور تعلیمی ادارے تو بند ہو جائیں گے۔
اسی طرح اگر سرکاری پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر کیا جائے تو نجی ٹرانسپورٹ کا کاروبار تو ٹھپ ہو جائے گا۔ اگر حکومت سرکاری سطح پر پائپ لائن کے ذریعے ہر گھر تک پینے کا صاف پانی مہیا کرنے لگے تو پھر نجی کمپنیوں کا بوتل والا پانی کون خریدے گا۔ اور چونکہ سرمایہ دارانہ نظام و ریاست میں حکومت ہمیشہ سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی ہی نمائندہ و محافظ ہوتی ہے لہٰذا حکومتی پالیسیاں ہمیشہ ان کے مفادات میں بنتی ہیں نہ کہ عوامی فلاح کے لیے۔
یہاں یاد رہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت آج تک دنیا بھر میں جب بھی کوئی مزدور دوست یا عوام دوست اصلاحات ہوئی ہیں، وہ سرمایہ دار طبقے کی دریا دلی کا نتیجہ نہیں بلکہ انہیں محنت کش طبقے اور عوام نے زبر دست جدوجہد اور قربانیوں کے بعد سرمایہ داروں کے خونی پنجے سے چھینا ہے۔ مزید برآں سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ تاک میں رہتا ہے اور جیسے ہی اسے مزدور تحریک کی کمزوری کے کارن موقع ملتا ہے، وہ بھرپور ریاستی آشیرباد کے ساتھ ان اصلاحات کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ سرمایہ دارانہ نظام اتنا غیر انسانی اور عوام دشمن ہے کہ اس میں قدرتی آفات یا ماحولیاتی مسائل بھی سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافے کا ہی موجب بنتے ہیں۔ جیسے کہ سیلاب یا زلزلے کی تباہی کے بعد ہر قسم کے تعمیراتی سامان کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور کنسٹرکشن کمپنیوں کا کاروبار بھی خوب چمک اٹھتا ہے یا زہریلی سموگ کے موسم میں نجی ہسپتالوں، فارما سوٹیکل کمپنیوں اور فیس ماسک بنانے والے فیکٹری مالکان کی چاندی ہو جاتی ہے۔
اسی طرح سامراجی جنگوں اور وسائل کی لوٹ مار کے لیے کی جانے والی فوجی کاروائیوں میں جہاں عام سپاہی اور عوام مرتے ہیں وہیں ہتھیار ساز کمپنیوں سے لے کر تابوت اور کفن کا کپڑا بنانے والی فیکٹریوں تک کی لاٹری لگ جاتی ہے۔ ایسے ہی منافعوں میں کمی سے بچنے کے لیے فیکٹریوں کا زہریلا مواد بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے دریاؤں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ اور اس جیسے اور بہت سے اقدامات ہمارے کرۂ ارض کو مکمل ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔
اگر اس تمام تر مظہر کے سیاسی پہلوؤں پر بات کی جائے تو سرمائے اور محنت کے اس تضاد میں سرمایہ دارانہ ریاست کا ہر قانونی، انتظامی و مسلح ادارہ ہمیشہ سرمایہ دار طبقے کی بھرپور حمایت اور طرفداری کرتا نظر آتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں فوج کا حتمی مقصد نام نہاد ملک و قوم کی حفاظت نہیں بلکہ محنت کش طبقے کی انقلابی بغاوت کے خلاف سرمایہ دار طبقے اور اس کی نجی ملکیت و منافعوں کا مسلح دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح پولیس کا اصل کام عوام کے حق میں امن و امان برقرار رکھنا نہیں بلکہ سرمایہ داروں کے حق میں نام نہاد ’صنعتی امن و امان‘ برقرار رکھنا یا دوسرے الفاظ میں اس امر کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ سرمایہ دار طبقے کے اندھا دھند استحصال اور لوٹ مار کے خلاف کوئی بغاوت نہ کر دے۔
یہی وجہ ہے کہ یونین سازی اور مزدوروں کے منظم ہونے کی ہر کوشش یا محنت کش عوام کے اپنے حقوق کی خاطر کسی بھی احتجاج کو پولیس فوری طور پر کچلنے کی کوشش کرتی ہے۔ پارلیمنٹ میں سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ہونے والی نام نہاد قانون سازی کا مقصد عوام کی فلاح نہیں بلکہ انہیں قابو میں رکھنے اور سرمایہ دارانہ استحصال کی زیادہ سے زیادہ سہولت کاری کرنا ہوتا ہے۔
جہاں تک عدالتوں کی بات ہے تو ان کا اصل مقصد انصاف کرنا نہیں بلکہ سرمایہ دار طبقے کی لوٹ مار اور جبر کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ویسے بھی سرمایہ داری میں ہر شے کی طرح قانون و انصاف بھی بکاؤ ہوتا ہے اور زیادہ پیسے والا شخص اسے خرید لیتا ہے۔
یہاں تک کہ سرمایہ دارانہ ریاست کا نظام تعلیم، رائج الوقت دانش، میڈیا اور اخلاقی پیمانے بھی حکمرانوں کی طرف کچھ یوں ترتیب دیے جاتے ہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھنے والی ہر سوچ کی بیخ کنی کریں، سرمایہ دارانہ نظام کو ازلی و ابدی اور سرمایہ دارانہ استحصال و طبقاتی تفریق کو فطری امر بنا کر پیش کریں، طبقاتی تضاد کو دبائیں جبکہ قومی، نسلی، لسانی ثقافتی، مذہبی غرضیکہ محنت کش عوام کو تقسیم کرنے والے ہر تضاد کو ابھاریں۔
لیکن ان تمام مسائل کا مکمل اور مستقل حل کیا ہے؟ یہ تو ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے سرمائے اور محنت کا جوہری تضاد ختم نہیں کیا جا سکتا اور اس تضاد کے خاتمے کے بغیر طبقاتی تفاوت، مہنگائی، بھوک و افلاس، بیروزگاری، لا علاجی، بے گھری، ناخواندگی، نجکاری، ٹھیکیداری، سوشل و فزیکل انفراسٹرکچر کی پسماندگی، آزادی تحریر و تقریر اور انجمن سازی پر پابندیاں، صنفی جبر، قومی و مذہبی جبر اور سماج کے دیگر تمام مسائل کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔
لہٰذا پہلے کی گئی تمام تر بحث اور دلائل کا نتیجہ یہی ہے کہ اس تضاد کے خاتمے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا ہی خاتمہ کرنا پڑے گا۔ ہم نے پہلے یہ بتایا ہے کہ سرمایہ دار، مزدور کی قوت محنت خریدتا ہے۔ لیکن آخر مزدور اجرت کے عوض اسے اپنی قوت محنت فروخت کرنے پر مجبور کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں تمام ذرائع پیداوار مٹھی بھر سرمایہ داروں کی نجی ملکیت میں ہوتے ہیں جبکہ محنت کش طبقہ ان سے مکمل طور پر محروم ہوتا ہے، لہٰذا اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے اپنی قوت محنت بیچنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
لہٰذا اس مسئلے کا واحد مکمل اور مستقل حل یہی ہے کہ محنت کش طبقہ تمام ذرائع پیداوار پر سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں اپنی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لے اور ایک منصوبہ بند انداز میں سماج کی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیداوار کو منظم کرے۔ یعنی ایک ایسا سماج جہاں امیر اور غریب نہیں ہوں گے، پیداوار کا مقصد منافع خوری نہیں بلکہ انسانی و سماجی ضروریات کی تکمیل ہو گا۔ لہٰذا پورے سماج کو تمام بنیادی ضروریات کی مفت و معیاری فراہمی ممکن ہو سکے گی، ہر ایک سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور اسے اہلیت کے مطابق دیا جائے گا۔
اگر کسی ’دانشور‘ کو یہ اعتراض ہے کہ محنت کش طبقہ تو پیدوار منظم کرنے اور سماج چلانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا تو یہ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ سماج کے تمام تر مشکل جسمانی، تکنیکی اور علمی نوعیت کے کام تو پہلے ہی محنت کش طبقہ سر انجام دیتا ہے جبکہ سرمایہ دار طبقے کا ا س سب میں کردار بالکل فروعی ہو چکا ہے۔ لہٰذا اگر محنت کش طبقہ تمام تر جسمانی و ذہنی مشقت کر سکتا ہے تو پھر حقیقی جمہوری انداز میں پیداوار کو منظم کرنا، سماج کو چلانا یا انتظامی ریکارڈ کیپنگ کرنا اس کے لیے ہرگز کوئی مشکل کام نہیں۔
مزید برآں پہلے کی گئی تمام تر بحث سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ سماج پر حق حکمرانی اسے اپنی محنت سے زندگانی بخشنے والے محنت کش طبقے کا ہی بنتا ہے نہ کہ اپنے جوتے خود پالش کرنے یا اپنی گاڑی کا ٹائر خود تبدیل کرنے کی صلاحیت سے محروم سرمایہ داروں کا۔
لیکن واضح رہے کہ سرمایہ دار طبقہ کبھی بھی رضا کارانہ طور پر یا دلائل سے متاثر ہو کر اپنی نجی ملکیت اور حق حکمرانی سے دستبردار نہیں ہو گا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ صرف ایک مزدور انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے جس میں محنت کش طبقہ غریب کسانوں، بیروزگار نوجوانوں، طلبہ، محکوم قومیتوں اور عوام کی دیگر تمام مظلوم پرتوں و حصوں کی قیادت کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو بزور طاقت جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
یاد رہے کہ سرمایہ دارطبقے کی نمائندہ و محافظ سرمایہ دارانہ ریاست اپنی پوری جابرانہ قوت کے ساتھ مزدور انقلاب کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ لہٰذا محنت کش عوام کی انقلابی تحریک کو ایک طرف ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے پورے سماج و معیشت کا پہیہ جام کرتے ہوئے اور دوسری طرف ”وردی والے محنت کشوں“ یعنی مسلح افواج کے عام سپاہیوں کو طبقاتی بنیادوں پر اپنے ساتھ ملاتے ہوئے سرمایہ دارانہ ریاست کو نہ صرف شکست دینا ہو گی بلکہ اس کو مکمل طور پر مسمار کرتے ہوئے محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کے منتخب کردہ جمہوری نمائندوں پر مبنی انقلابی کمیٹیوں پر مشتمل ایک مزدور ریاست تعمیر کرنا ہو گی جس میں اقتدار اعلیٰ مکمل طور پر مسلح محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کے پاس ہو گا۔
جن نظریات کے تحت ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کا تما م تر تجزیہ کیا ہے اور اس کا واحد سائنسی متبادل پیش کیا ہے، انہیں مارکسزم لینن ازم، سائنسی سوشلزم یا کمیونزم کہا جاتا ہے۔ یہی محنت کش طبقے کے واحد سچے اور حقیقی نظریات ہیں، جنہیں مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی جیسے عالمی مزدور طبقے کے عظیم اساتذہ اور انقلابی قائدین نے تخلیق و ترتیب دیا ہے۔
انہی نظریات کے تحت 1917ء میں روس کے محنت کشوں نے بالشویک پارٹی کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے دنیا کی پہلی مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت قائم کی تھی۔ ان نظریات کے بغیر محنت کش طبقہ اپنی حتمی نجات کی لڑائی نہیں لڑ سکتا بلکہ آج عالمی سرمایہ داری کے شدید نامیاتی بحران کے عہد میں تو ان نظریات کی بغیر فوری حاصلات کی کامیاب جدوجہد کرنا بھی نہایت مشکل ہو چکا ہے۔
مزدور انقلاب یا سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد اور کامیابی کے لیے محنت کش طبقے کو ان نظریات سے مسلح ہوتے ہوئے منظم ہونا پڑے گا لیکن یہ سب خود بخود نہیں ہو گا۔ اس مقصد کے لیے محنت کش طبقے کی ایک لڑاکا انقلابی پارٹی کا ہونا لازمی ہے جو کہ محنت کشوں کو کمیونسٹ نظریات سے روشناس کراتے ہوئے انہیں منظم کرے اور انقلابی تحریک میں ان کی قیادت کرے۔
مزید برآں چونکہ سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے، لہٰذا اس کے خلاف مزدور جدوجہد کو بھی کسی ایک ملک تک محدود نہیں کیا جا سکتا اور سوشلسٹ انقلاب کا آغاز تو ایک یا چند ممالک سے ہو سکتا ہے لیکن پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور ایک عالمی سوشلسٹ سماج کے قیام کے بغیر اس کی حتمی فتح ناممکن ہے۔ اس مقصد کے لیے دنیا بھر کے محنت کشوں کی ایک عالمی انقلابی پارٹی یعنی مزدور انٹرنیشنل کی تعمیر بھی ضروری ہے۔
اس وقت ”انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل“ دنیا بھر کے درجنوں ممالک کے محنت کشوں پر مشتمل اسی انقلابی قوت کو تعمیر کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل کا پاکستان سیکشن ”انقلابی کمیونسٹ پارٹی“ کہلاتا ہے۔ جس کے ترجمان اخبار میں آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں۔
ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ اگر آپ سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و استحصال، غربت و افلاس،طبقاتی اونچ نیچ، جنگوں، ماحولیاتی تباہی اور دیگر تمام سیاسی، سماجی و معاشی مسائل کے خاتمے کے خواہاں ہیں اور نوع انساں کے ایک روشن غیر طبقاتی مستقبل کی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں تو فوراً سے پہلے انقلابی کمیونسٹ پارٹی اور انٹرنیشنل کا ممبر بن کر اس انقلابی کارواں کا حصہ بنیں۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں