|تحریر: عالمی مارکسی رجحان|
جنگ میں سب سے پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔ یوکرائن میں روس کی عسکری مداخلت میں بھی یہی ہوا ہے۔ مارکس وادیوں کو جھوٹ اور جنگی پروپیگنڈے کی زہریلی دھند میں اس جنگ کے حقائق کا تجزیہ کرنا ہے، اس کے محرکات کو سمجھنا ہے اور جنگ میں شامل مختلف پارٹیوں کے بہانوں اور جواز میں چھپے حقیقی مفادات کو جاننا ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمیں یہ سارا کام عالمی محنت کش طبقے کے مفادات کے ضمن میں کرنا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگرچہ ہم یوکرائن میں روسی مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس کی وجوہات ہیں جو آگے بیان ہوں گی۔ ان کا رکھیل میڈیا کی چیخ و پکار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارا سب سے پہلا فریضہ امریکی اور مغربی سامراج کے غلیظ جھوٹ اور منافقت کو بے نقاب کرنا ہے۔
وہ شور مچا رہے ہیں کہ یوکرائن پر روسی حملہ ”قومی خودمختاری“ اور ”عالمی قانون“ کی خلاف ورزی ہے۔
یہ الفاظ تعفن زدہ منافقت ہیں۔ قومی خودمختاری اور نام نہاد عالمی قانون کو نیست و نابود کرنے کی امریکی سامراج اور اس کے یورپی بوٹ پالشیوں کی ایک طویل خونی تاریخ ہے۔
اپنے سامراجی مفادات کے لئے انہوں نے خودمختار ریاستوں پر بمباری اور فوج کشی کی (عراق)، عوام کا قتلِ عام کیا (ویتنام)، فسطائی فوجی بغاوتیں منظم کیں (چلی)، اور سیاسی قتل کئے (آلاندے، لاممبا)۔ یہ دنیا میں آخری لوگ ہوں گے جن کے پاس امن، جمہوریت اور انسانی اقدار پر لیکچر دینے کا کوئی حق ہو گا۔
یوکرائنی خودمختاری کی بات بھی ایک سفید جھوٹ ہے کیونکہ سال 2014ء میں یورومیدان تحریک کے بعد پورے ملک پر امریکی تسلط مسلسل بڑھ رہا ہے۔ معیشت اور سیاسی طاقت کے تمام کلیدی اوزار چند کرپٹ امراء اور ان کی حکومت کے پاس ہیں جو پھر امریکی سامراج کی کٹھ پتلی اور مہرے ہیں۔
یوکرائن میں تمام معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف بناتا ہے اور امریکی سفارت خانہ حکومتیں بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ درحقیقت، موجودہ جنگ بڑی حد تک امریکی روسی مخاصمت کا نتیجہ ہے جس کا میدانِ جنگ اس وقت یوکرائن ہے۔
نیٹو کی جارحیت
سوویت یونین کے انہدام کے بعد عالمی سٹیج پر روس بہت زیادہ کمزور ہو گیا تھا۔ تمام وعدوں اور دعووں کے برعکس امریکی سامراج نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرق کی جانب اپنے اثرورسوخ کو بڑھاتے ہوئے نیٹو کو روس کی سرحد پر لا کر کھڑا کر دیا۔
اس حوالے سے امریکی سامراج اپنے آپ کو پوری دنیا کی اکلوتی قوت سمجھ رہا تھا اور واشنگٹن میں لوگ ایک ”نئے ورلڈ آرڈر“ کے اعلانات کر رہے تھے۔ امریکی سامراج نے سابق سوویت حلقہ اثر جیسے یوگوسلاویہ اور عراق میں مداخلت کی۔ روس کو نیٹو کی سربیا پر مسلط کردہ جنگ میں ذلت و رسوائی اٹھانی پڑی۔ اس کے بعد ”رنگین“ انقلابات کا ایک سلسلہ چل پڑا تاکہ مغرب نواز حکومتیں مسلط کی جائیں، مشرقی یورپ میں افواج تعینات کی گئیں، روسی سرحد پر جنگی مشقیں کی گئیں اور اسی طرح کی دیگر اشتعال انگیزی جاری رہی۔
لیکن ہر عمل کی ایک حد ہوتی ہے۔ پھر ایک ایسا مرحلہ آیا کہ روسی حکمران طبقے اور اس کے نمائندے پیوٹن نے کہا اب بس! یہ مرحلہ سال 2008ء میں رونما ہوا جب نیٹو میں شمولیت کی پلاننگ کرنے والے جارجیا پر روس نے فوج چڑھا دی۔
اس وقت امریکی سامراج عراق جنگ میں پھنسا ہوا تھا اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس نے ایک تندوتیز اور مختصر جنگ کر کے جارجیا کی فوج تباہ کر دی (جسے نیٹو نے مسلح اور تربیت یافتہ کیا تھا) اور پھر ملک میں سے اپنی حمایت کے لئے ابخازیان اور جنوبی اوسیتیا کی دو جمہوریہ بنا کر واپس چلا گیا۔
یوکرائن میں یورومیدان تحریک نے یانوکووچ حکومت کا خاتمہ کر دیا جو امریکی اور نیٹو مفادات کا اظہار تھا۔ لیکن اس مرتبہ یہ کام روس کے تاریخی سرحدی علاقے میں کیا گیا۔ یہ اشتعال انگیز کام حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا اور روس نے سال 2014ء میں کریمیا کو توڑ کر اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ کریمیا میں روسی زبان بولنے والی عوام آباد ہے اور یہاں سیواستوپول کی بندرگاہ میں روسی بحریہ کا بحیرہ اسود فلیٹ موجود ہے۔ انہوں نے روسی بولی علاقے دونباس کے باغیوں کو کیف میں رائٹ ونگ قوم پرست حکومت کے خلاف خانہ جنگی میں فوجی امداد دی۔ مغرب نے احتجاج کیا، پابندیاں لگائیں لیکن روس پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔
سال 2015ء میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ امریکہ شام میں افواج نہیں اتارے گا۔ روس نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں بشارالاسد کی حمایت میں اس خانہ جنگی میں مداخلت کرتے ہوئے اس کا فیصلہ کر دیا۔ شام روس کے لئے اس لئے اہم ہے کیونکہ یہاں پر بحیرہ روم میں روس کی واحد بحری بندرگاہ موجود ہے۔ اس خانہ جنگی کا نتیجہ امریکی سامراج کے لئے بہت بڑی پسپائی تھا اور وہ بھی ایک ایسے خطے میں جو ان کے لئے تزاویراتی حوالے سے بہت اہم ہے۔
اب پیوٹن روسی طاقت کے ایک اور اظہار کے موقعے کو بھانپ چکا ہے۔ حال ہی میں امریکہ کو افغانستان میں شرمناک شکست ہوئی ہے۔ روس سال 2020ء میں آزربائجان-آرمینیا جنگ میں امن کروانے میں کامیاب ہو گیا تھا، 2020-21ء میں بیلاروس میں لوکاشینکو کی حمایت میں مداخلت کی اور سال 2022ء میں قزاقستان میں فوجی مداخلت کی۔
زیلینسکی حکومت کی بڑھتی اشتعال انگیزی نے ایک مہلک کردار ادا کیا۔ سال 2014ء میں یانوکووچ حکومت کے خاتمے کے بعد یوکرائن حکومت نے نیٹو اور یورپی یونین کی ممبرشپ کے لئے مسلسل کوششیں شروع کر دیں۔ پھر اس معاملے کو سال 2020ء میں آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ سابق مسخرہ اور اب موجودہ صدر زیلینسکی سال 2019ء میں اس لئے منتخب ہوا تھا کیونکہ اسے غیر سیاسی سمجھا جاتا تھا جو سیاست کو ٹھیک کرے گا، امرا (Oligarchy) کو ٹھکانے لگائے گا اور روس کے ساتھ امن قائم کرے گا۔
لیکن انتہائی دائیں بازو کے دباؤ اور واشنگٹن کے پریشر میں اس نے بالکل الٹ پالیسیاں اپنا لیں۔
نیٹو ممبرشپ کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر ایجنڈے پر سر فہرست ہو گیا اور انتہائی شدومد سے اس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ روس درست طور پر اس سارے معاملے کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسا نہیں ہے، دیگر وہ ممالک اس وقت نیٹو کے ممبر ہیں جن کی سرحدیں روس سے ملحق ہیں۔ لیکن موجودہ صورتحال کی بنیاد ہی یہ حقیقت ہے کہ مغربی سامراج دہائیوں سے روس کو گھیرنے کی کوششیں کر رہا ہے اور اب روس اس کا جواب دے رہا ہے۔
کیا جنگ ناگزیر تھی؟
جدلیاتی طور پر ایک مخصوص مرحلے پر مقدار معیار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اگر فزکس کے قوانین کا حوالہ دیا جائے تو حالات ایک ایسے نقطہ تک پہنچ چکے تھے کہ جارحیت واضح طور پر ایجنڈے میں شامل ہو چکی تھی۔
لیکن جنگوں میں بھی مختلف آپشن ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اگر پیوٹن فوج کشی کے خطرات اور اخراجات کے بغیر اپنے مقاصد حاصل کر سکتا تو کبھی جارحیت نہ کرتا۔ ابتداء میں ایسے امکانات موجود تھے اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ درست مفروضہ ہے۔
کچھ ایسے اشارے موجود ہیں کہ امریکہ کچھ مخصوص رعایتیں دینے کے لئے تیار تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا؟ بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ مستقبلِ قریب میں یوکرائن کی نیٹو ممبرشپ ناممکن ہے۔ لیکن آخر میں حالات نے اپنا ہی راستہ بنا لیا۔
پیوٹن فوجی جارحیت کی دھمکی کو استعمال کر رہا تھا (اور ساتھ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا) تاکہ امریکی سامراج مذاکرات کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اس کے مطالبات واضح تھے۔۔یوکرائن کبھی نیٹو کا ممبر نہیں بنے گا، نیٹو مشرق کی طرف پیش قدمی ختم کرے گا اور یورپ میں سیکورٹی گارنٹی دی جائے گی۔
یہ مطالبات روسی سرمایہ داری کے مفادات کے عکاس ہیں اور ظاہر ہے واشنگٹن کے مفادات سے بالکل مختلف ہیں۔ اس لئے امریکی سامراج ایک بھی روسی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن اس کے ساتھ وہ یوکرائن میں فوج بھیجنے کو بھی تیار نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ فوجی جارحیت کی عدم موجودگی میں پابندیوں کی دھمکی کا پیوٹن پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
عوامل کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں۔ جب پیوٹن کو ممکنہ رعایتیں نہیں ملیں تو اس کے پاس عمل کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ باتوں کا وقت ختم ہو چکا تھا۔
امریکی سامراج کیوں کسی بھی رعایت کے حوالے سے اتنی شدید ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا تھا؟ کیونکہ وہ یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ دھمکیوں کے سامنے جھک گئے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پوری دنیا میں امریکی ساکھ مزید مجروح ہو جاتی۔ لیکن یہ بات پیوٹن کے نقطہ نظر سے روس کے لئے بھی درست تھی۔
روس کے مطالبات پر مغرب کی شدید ڈھٹائی کے بعد اس کے پاس دو ہی راستے بچے تھے کہ چپ کر کے پیچھے ہٹ جاتا یا اپنی دھمکیوں کو حقیقت بنا دیتا۔ اس صورتحال کی روشنی میں بعد کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
شطرنج کے کھلاڑی کی طرح پیوٹن پہلے ہی سمجھ چکا تھا کہ مغربی سامراج یوکرائن میں براہِ راست فوجیں نہیں بھیجے گا اور وہ پابندیوں کی قیمت کے حوالے سے بھی تیار ہو چکا تھا۔ یوکرائن کی سرحد پر 1 لاکھ 90 ہزار افواج کھڑی کرنے کے بعد اس کی اگلی چال کا فیصلہ ہو چکا تھا۔
کسی بھی جارحانہ جنگ کے لئے کوئی جواز چاہیئے ہوتا ہے۔ روس میں عوام کے لئے پیوٹن نے یہ جواز تراشا کہ یوکرائن دونیتسک پر بمباری کر رہا ہے۔ پیوٹن نے اسے ”نسل کشی“ کا نام دیا۔ یہ مبالغہ آرائی ہے لیکن اس موقف کو اس طرح مسترد نہیں کرنا چاہیئے جس طرح سامراجیوں نے کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دونباس کے روسی بولنے والی عوام کو یوکرائنی فوج کے ہاتھوں خوفناک تباہی سہنی پڑی ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں میں 14 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں اور ان میں سے زیادہ دونیتسک علاقے کی عام عوام ہے۔ اندازاً 80 فیصد بمباری کی ذمہ دار یوکرائنی فوج ہے۔
پیوٹن نے دونباس جمہوریاؤں کو تسلیم کر کے چیلنج دے دیا اور اپنے فیصلے کی حمایت میں فوج کشی کر دی۔ یہ اشارہ تھا کہ اب یوکرائن پر فوجی حملہ ہو گا۔
پیوٹن کے اقدامات کی وجوہات کیا ہیں؟
ظاہر ہے کہ اس ساری صورتحال میں پیوٹن اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے۔ اس کو امید ہے کہ قوم پرستانہ جذبات بھڑکا کر روس میں حالیہ دنوں میں معاشی بحران؛ محنت کشوں، پینشنوں اور جمہوری حقوق پر حملوں کی وجہ سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ بحال کی جاسکتی ہے۔
سال 2014ء میں کریمیا پر قبضہ کرنے کے بعد ایسا ہی ہوا تھا اور اس کا خیال ہے کہ اس مرتبہ بھی یہ چال کامیاب ہو گی۔
وہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ ایک بدمعاش ہے، مغرب کے خلاف کھڑا ہے اور جہاں کہیں بھی روسی بستے ہیں وہ ان کا دفاع کر رہا ہے۔ وہ دونباس کی روسی عوام کے دفاع کا ناٹک کر رہا ہے۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ پیوٹن کو دونباس کی عوام کے الام و مصائب میں کوئی دلچسپی نہیں۔
یوکرائن میں اپنے مقاصد پورے کرنے کے لئے اس نے دونیتسک اور لوہانسک جمہوریاؤں کو مہرہ بنایا ہے۔ یہ منسک معاہدوں کی اصل حقیقت ہے۔
درحقیقت پیوٹن پر شاہی عظمت کا بھوت سوار ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک زار کے طور پر دیکھتا ہے جو سال 1917ء سے پہلے کی روسی سلطنت اور اس کے رجعتی عظیم روسی شاونزم کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ یہ خیال کہ ایسا انسان یوکرائن میں کوئی ترقی پسند کردار ادا کر سکتا ہے انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
روسی سامراجیت
روس کوئی کمزور ملک نہیں ہے جو سامراج کے زیرِ تسلط ہو۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ روس خطے میں ایک قوت ہے جس کی پالیسیاں سامراجی ہیں۔ یوکرائن میں روسی جنگ کا اصل مقصد اپنا حلقہ اثر بڑھانا اور روسی سرمائے کے قومی سیکورٹی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
ایک ناامید ظاہریت پسند یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ لینن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”سامراجیت: سرمایہ داری کی آخری منزل“ میں سامراج کی جو تشریح کی ہے اس پر روس پورا نہیں اترتا۔ ایسا ہو سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ روس ایک سامراج نہیں ہے۔ اس اعتراض کا جواب بھی لینن کی کتاب میں موجود ہے۔
لینن نے روس کے حوالے سے لکھا تھا کہ ”معاشی طور پر انتہائی پسماندہ ملک جہاں جدید سرمایہ دارانہ سامراجیت، اگر کہا جائے، قبل از سرمایہ داری (سماجی) تعلقات کے ایک مخصوص بند جال میں مدغم ہے“۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے زار شاہی روس کو دنیا کی پانچ بڑی سامراجی قوتوں میں شامل کیا تھاحالانکہ زار شاہی روس معاشی طور پر پسماندہ تھا اور کبھی ایک کوپک کا سرمایہ برآمد نہیں کیا گیا تھا۔
آج کا روس سال 1917ء سے بہت مختلف ہے۔ اب وہ ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک ہے جہاں سرمائے کا بے پناہ ارتکاز ہے، جہاں بینکاری سیکٹر (انتہائی مرکزیت پر مبنی) معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
تیل اور گیس روسی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پھر یہ وسائل بیرونی اجارہ داریوں کے کنٹرول کے بجائے روسی امراء کے قبضے میں ہیں۔ روسی خارجہ پالیسی پر توانائی برآمدات (خاص طور پر یورپ) کی منڈیوں تک رسائی اور ان کی رسد کا بہت زیادہ اثرورسوخ ہے۔
یہ درست ہے کہ روس امریکہ کا ہم پلہ نہیں ہے۔ امریکہ آج بھی دنیا کا طاقتور ترین سامراج ہے۔ اس کے برعکس روس ایک چھوٹا یا درمیانے درجے کا سامراج ہے۔ اس کی معیشت امریکہ تو کیا یورپی سامراجی طاقتوں کے بھی ہم پلہ نہیں ہے۔
لیکن کوئی بھی معقول شخص یہ انکار نہیں کر سکتا کہ روس ایک علاقائی سامراجی قوت ہے جس کے وسطی ایشیاء، کاکیشیاء، مشرقِ وسطیٰ، مشرقی یورپ اور بلقان میں سامراجی عزائم موجود ہیں۔
روس کو سوویت یونین سے ورثے میں جوہری ہتھیار ملے ہیں اور حالیہ سالوں میں اپنی افواج کو جدید کرنے کے لئے دیو ہیکل سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ روس دنیا میں پانچواں سب سے زیادہ عسکری اخراجات کرنے والا ملک ہے اور جی ڈی پی میں سے سب سے زیادہ اخراجات کرنے والا (4.3 فیصد) دنیا میں تیسرا ملک ہے۔
روس یوکرائن میں ایک رجعتی سامراجی جنگ لڑ رہا ہے جس کی ہم حمایت نہیں کر سکتے۔ اس کے روس، یوکرائن اور عالمی طور پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان وجوہات کی بنیاد پر ہم یوکرائن میں روسی جنگ کی مذمت کرتے ہیں۔
یہ جنگ ان لوگوں میں قوم پرست بنیادوں پر نفرت پیدا کرنے کی سازش ہے جو ہزاروں سال سے بھائی چارے کے بندھن میں موجود ہیں۔ اس سے ایک طرف گھٹیا رجعتی یوکرائنی قوم پرستی پروان چڑھے گی اور دوسری طرف غلیظ روسی شاونزم جو قوم، نسل اور زبان کی بنیاد پر محنت کش کش طبقے میں دیو ہیکل دراڑیں ڈالنے کا سبب بنیں گے۔
قوم پرستی کے اس زہر کے خلاف سب سے اہم تریاق روسی محنت کش ہیں جنہیں ہر صورت محنت کش عالمگیریت کا رویہ اپنائے رکھ کر پیوٹن کی اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک رجعتی پالیسیوں اور غلیظ شاونزم کے خلاف جدوجہد کرنی ہے۔ آئی ایم ٹی کے روسی سیکشن کی اس حوالے سے پوزیشن ایک شاندار ماڈل ہے۔
یوکرائن کے محنت کشوں کو روسی جارحیت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ملک کو نام نہاد دوستوں اور اتحادیوں نے سفاک دھوکہ دیا ہے۔ مغربی سامراجی گدھوں نے دانستہ طور پر انہیں جنگ میں دھکیلا ہے اور اب جب یوکرائن ایک خونی دلدل میں ڈوب رہا ہے تو یہ کنارے پر بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ جہاں تک جنگ شروع ہونے کے بعد کچھ ہتھیاروں کی سپلائی کا تعلق ہے تو یہ ایک ہولناک سفاک سازش ہے۔ کسی قسم کی مدد میں افواج بھیجنے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور جس امداد کا وعدہ ہے وہ جنگ کو طوالت دینے کی کوشش ہے تاکہ روسی افواج ملک میں پھنس جائیں اور دونوں اطراف شدید کشت و خون ہو تاکہ روس کے خلاف گھٹیا پروپیگنڈہ کیا جا سکے۔
یوکرائن والو! اپنی آنکھیں کھولو اور سمجھو کہ تمہیں سرمایہ داری کی بھینٹ چڑھایا جا چکا ہے! پہچانو کہ تمہارے حقیقی دوست اور خیر خواہ عالمی محنت کش ہیں!
عالمی معاملات پر اثرات
یوکرائن میں جنگ کے پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ طاقت ور سامراج اور ردِ انقلابی قوت ہے۔ لیکن موجودہ بحران نے امریکی سامراج کی کمزوریوں کو ننگا کر دیا ہے۔
ان کمزوریوں کا انکشاف وقت گزرنے کے ساتھ عالمی سرمایہ داری کے عمومی بحران میں ہو جانا تھا۔ اس بحران کا اظہار دیو ہیکل عدم استحکام، جنگوں اور انتشار میں ہو رہا ہے جن میں اتنا خون اور پیسہ بہہ رہا ہے کہ دنیا کی امیر ترین قوم بھی اس کے آگے بے بس ہے۔
عراق اور افغانستان پر فوجی قبضوں نے پوری دنیا کے سامنے ان کمزوریوں کو ننگا کر دیا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ پیوٹن نے یوکرائن میں جنگ شروع کر دی۔ اس نے اندازہ لگایا کہ امریکی فوجی مداخلت نہیں کریں گے اور وہ درست ثابت ہوا ہے۔
مسلسل بیرونی جنگوں میں شکستوں نے کوئی ایک مسئلہ حل نہیں کیا بلکہ امریکہ کو دیوالیہ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ملک میں اب عوام کسی بیرونی فوجی مداخلت کی حمایت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بائیڈن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
چین خاص طور پر اس حقیقت کو نوٹ کرے گا جو اب امریکی سامراج کی مخالفت میں ایک قوت بن کر ابھر چکا ہے۔ چین نے دنیا کے مختلف خطوں میں امریکہ کو چیلنج کیا ہے اور واشنگٹن اسے روس سے کئی گنا زیادہ بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔
آج کا چین سال 1949ء کا کمزور معاشی طور پر پسماندہ ملک نہیں ہے۔ وہ ایک طاقتور جدید صنعتی ملک اور قابلِ ذکر فوجی قوت بن چکا ہے۔ تائیوان کے حوالے سے اس کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ چین کا موقف ہے کہ پرامن مذاکرات کے ذریعے تائیوان چین میں مدغم ہو گا لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو فوجی طریقہ کار موجود ہے۔
یوکرائن کا سارا معاملہ بیجنگ کے لئے امریکی فوجی قوت کی محدودیت کے حوالے سے ایک اہم سبق ہے۔ اگرچہ چین کھلم کھلا روس کی حمایت کر کے مغرب میں اپنے تجارتی پارٹنرز کو اشتعال نہیں دینا چاہتا لیکن اس نے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ نے یوکرائن کی نیٹو ممبرشپ کا معاملہ گھمبیر کر کے موجودہ صورتحال کو جنم دیا ہے۔
یہ واضح ہے کہ چین اور روس میں معاملات طے ہو چکے ہیں تاکہ پابندیوں کے اثرات کو ختم کیا جائے (یہ بھی ایک وجہ ہے کہ پابندیاں ناکام ہوں گی)۔ یوکرائن کا معاملہ مستقبل میں ناگزیر طور پر چینی اور روسی سامراج کو ایک بلاک میں ایک دوسرے کے قریب لائے گا۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے امریکہ کی راتوں کی نیند حرام ہو رہی ہے۔
امریکی سامراج اور یورپی اتحادیوں میں دراڑیں
یوکرائن جنگ میں امریکی اور روسی مفادات کے درمیان لڑائی نے واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادیوں میں موجود دراڑوں کو بھی واضح کر دیا ہے جس میں خاص طور پر روایتی حلیف فرانس اور جرمنی شامل ہیں۔ روایتی طور پر فرانسیسی بورژوازی نے ہمیشہ ایک مخصوص آزادی کا ناٹک کیا ہے جس میں جوہری ہتھیاروں کا حصول اور افریقہ اور دیگر خطوں میں اپنا اثرورسوخ بنانا شامل تھا۔ اس جنگ میں میکرون نے ایک آزادنہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو دو مہینوں بعد فرانس میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات ہیں۔ لیکن پیرس اور برلن کی پوزیشن کی بنیاد معاشی مفادات بھی ہیں۔
یورپ کا روسی گیس کی درآمدات (40 فیصد) پر دیو ہیکل انحصار ہے۔ یہ خاص طور پر جرمنی کے لئے درست ہے جو اپنی ضرورت کی 60 فیصد گیس روس سے درآمد کرتا ہے جبکہ روس میں اس کی اہم سرمایہ کاری بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی بحران کو مزید گھمبیر کرنے کے لئے کوئی اقدامات کرنے اور روس پر پابندیاں لگانے پر تذبذب کا شکار ہے۔
جس لمحے موجودہ جنگ ختم ہو گی (کوئی نہ کوئی انجام تو ضرور نکلے گا) ان اور دیگر پابندیوں کو خاموشی سے ختم کر دیا جائے گا کیونکہ یورپی معیشت اور خاص طور پر جرمن معیشت پر ان کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ تمام دعووں کے برعکس جرمنی مناسب قیمت پر روسی تیل اور گیس کا متبادل نہیں تلاش کر سکتا۔
جرمنی اپنے آپ میں ایک سامراجی قوت ہے اور اس کی خارجہ پالیسی جرمن سرمائے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ ان مفادات کا امریکی سرمائے کے مفادات سے ہم آہنگ ہونا لازمی نہیں ہے۔ جرمن سرمایہ یورپی یونین کے ذریعے یورپ کو کنٹرول کرتا ہے۔ پچھلے تیس سالوں سے جرمنی مشرقی یورپ اور بلقان (یوگوسلاویہ کے ٹکڑے کرنے میں جرمنی کا کلیدی کردار تھا) میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ چین کے ساتھ بہت قریبی تجارتی تعلقات ہیں۔
دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بعد جرمنی پر پابندیاں عائد تھیں کہ کس حد تک وہ اپنی افواج دوبارہ تعمیر کر سکتا ہے۔ جرمن حکمران طبقے نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ کبھی یہ تاثر نہ جائے کہ وہ بیرونی سامراجی فوجی مداخلتوں میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے اگرچہ جرمنی نیٹو کا ممبر ہے۔ آج صورتحال مختلف ہے۔ جرمنی نے ایک گرین پارٹی وزیرِ خارجہ کی قیادت میں 1990ء کی دہائی میں یوگوسلاویہ فوجیں بھیجی تھیں۔ سال 2003ء میں عراق جنگ کی مخالفت کے باوجود اس نے افغانستان میں فوجی بھیجے۔
اب جرمن سرمایہ یوکرائن میں جنگ کو جواز بنا کر دیو ہیکل فوجی اخراجات کر رہا ہے۔ یہ ناگزیر ہے کہ کسی بھی سامراجی قوت کے پاس اپنی معاشی قوت کے متوازی فوجی قوت نہ ہو۔
امریکی سامراج کا اصل دشمن روس نہیں چین ہے، اور اس حوالے سے واشنگٹن اپنی ایشیاء کی پالیسی کا اعلان بھی کر چکا ہے۔ اس جنگ میں چین نے روس کا ساتھ دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی چینی مفادات مکمل طور پر روسی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ چینی سامراج چینی سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے جس میں مغرب میں برآمدادی منڈیاں بھی شامل ہیں۔ اس لئے چین نہیں چاہتا کہ روسی اقدامات کی ذمہ داری اس پر آئے اگرچہ وہ ان کی حمایت ضرور کرتا ہے۔
امریکہ اور روس، اور امریکہ اور چین کے درمیان کسی نئی عالمی جنگ کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو جوہری جنگ کا خطرہ ہے لیکن سب سے بڑی وجہ کسی ایسی جنگ کی شدید عوامی مخالفت ہے۔ سرمایہ دار حب الوطنی، جمہوریت یا کسی عظیم مقصد کے لئے جنگ نہیں کرتے۔ وہ منافعوں، بیرونی منڈیوں کے حصول، خام مال کے وسائل (تیل) اور اپنے حلقہ اثر کو بڑھانے کے لئے جنگ کرتے ہیں۔
لیکن ایک جوہری جنگ سے دونوں اطراف شدید تباہی و بربادی ہو گی۔ اس کے لئے ایک جملہ بھی بنایا گیا ہے MAD (Mutually Assured Destruction)۔ ایسی کوئی بھی جنگ بینکاروں اور سرمایہ داروں کے مفادات میں نہیں ہو گی۔
معاشی اثرات
ایک اور اہم نقطہ یوکرائن میں جنگ اور روس پر مغربی پابندیوں کے عالمی معیشت پر اثرات ہیں۔
سال 2019ء کے آخر میں عالمی معیشت ایک نئی گراوٹ کی جانب رواں دواں تھی۔ وباء کے شاک کے بعد حالات کچھ معمول پر آنے کے بعد صورتحال بہت نازک ہے۔ تمام ممالک وباء سے پہلے کی پیداوار تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ عالمی معیشت تضادات سے بھرپور ہے۔ کوئی ایک شاک کساد بازاری کو جنم دے سکتا ہے۔
یوکرائن میں بحران سے تیل اور گیس کی قیمتیں بے قابو ہو رہی ہیں۔ اس سے عالمی معیشت میں افراطِ زر اور دیگر عوامل پر دباؤ اور بھی زیادہ بڑھ رہا ہے جس سے سٹیگ فلیشن یعنی معاشی جمود کے ساتھ بے قابو افراطِ زر کا تناظر مزید پختہ ہو رہا ہے۔ کچھ بورژوا معیشت دان کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ سے یوروزون اور برطانیہ کی جی ڈی پی بڑھوتری میں سال 2023ء اور 2024ء میں 0.5 فیصد کمی آئے گی۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب شرح نمو ویسے ہی بہت کمزور ہے۔
صورتحال تیزی کے ساتھ گھمبیر تر ہو سکتی ہے۔ پابندیوں کے روسی معیشت پر اثرات پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق روبل کی قدر میں شدید گراؤٹ ہو رہی ہے جس پر مرکزی بینک شرح سود بڑھانے پر مجبور ہوا ہے۔ افراطِ زر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور عوام کے ہجوم پریشانی کے عالم میں بینکوں سے پیسے نکال رہے ہیں۔ ماسکو سٹاک ایکسچینج بھی بند کر دی گئی۔
ان نتائج کا مغربی تجزیہ نگاروں نے بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا جبکہ ان کی اپنی سٹاک ایکسچینجوں میں بڑے نقصانات ہو رہے ہیں اور منڈیوں میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ لیکن روس پر فوری اثرات کا اثر جلد ختم ہو جائے گا اور ایک قسم کا توازن پیدا ہو جائے گا۔ عالمی معیشت کے لئے یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔
پابندیاں ایک دو دھاری تلوار ہوتی ہیں۔ ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ روس ان کا جواب لازمی دے گا۔ وہ یورپ کی گیس سپلائی کاٹنے کا حربہ استعمال کر سکتے ہیں اور میدویدیف پہلے ہی روس میں مغربی سرمائے پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔
محنت کش طبقے کا موقف
جنگیں محنت کش طبقے کے تمام رجحانات کا امتحان لیتی ہیں اور توقعات کے عین مطابق اصلاح پسندوں اور سوشل ڈیموکریٹس نے فوری طور پر اپنے حکمران طبقوں کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس وقت وہ روس کے خلاف پابندیوں کے سب سے زبردست حامی بنے ہوئے ہیں۔ مغرب میں لیفٹ اصلاح پسند مختلف کیمپوں میں بٹ چکے ہیں۔۔کچھ ”یوکرائن سے ہاتھ ہٹاؤ“ کے نعرے کے پیچھے اپنے حکمران طبقے کی حمایت کر رہے ہیں، کچھ بانجھ امن پسندی کا پرچار کرتے ہوئے دیو مالائی ”عالمی قانون“ کی پاسداری کا مطالبہ کررہے ہیں اور پرامید ہیں کہ ”سفارت کاری“ سے جنگ ختم ہو جائے گی۔
روس میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے توقعات کے مطابق اپنے حکمران طبقے اور پیوٹن کی سامراجی مداخلت کی مکمل حمایت کی ہے۔لیفٹ پر دیگر گروہ لبرلز کا دم چھلا بن کر حکمران طبقے کے دوسرے گروہ کی حمایت کر رہے ہیں۔
انقلابی مارکس وادیوں کی پوزیشن بالکل واضح ہونی چاہیئے۔۔طبقاتی بنیادوں پر اصولی موقف کہ ”محنت کش طبقے کا حقیقی دشمن گھر پر ہے“۔ نیٹو اور مغربی سامراجی بدمعاشوں پر کوئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ مغرب میں محنت کشوں اور سوشلسٹوں کو یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیئے۔
کریملن میں موجود رجعتی بدمعاشوں کے خلاف جدوجہد کرنا روسی محنت کشوں کا فریضہ ہے۔ مغرب میں انقلابیوں کا فریضہ اپنے حکمران طبقے، نیٹو اور امریکی سامراج کے خلاف جدوجہد ہے جو دنیا کی سب سے غلیظ ردِ انقلابی قوت ہے۔
ہم اس جنگ میں کسی کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ دونوں اطراف رجعتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حتمی تجزیے میں یہ دو سامراجی گروہوں کے درمیان جنگ ہے۔ ہم ان دونوں میں سے کسی کی حمایت نہیں کرتے۔ غریب خون میں رستے یوکرائن کی عوام اس جنگ میں مظلوم ہے، ایک ایسی جنگ جو انہوں نے بنائی نہ ان کی تمنا تھی۔
یوکرائن کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے رجعتیت اور الام و مصائب کے اس کھلواڑ کا ایک ہی متبادل ہے کہ یوکرائنی امراء، امریکی اور روسی سامراج کے خلاف طبقاتی اتحاد کی پالیسی اپنائی جائے۔ یوکرائن میں قومی سوال بہت پیچیدہ ہے اور اگر قوم پرستی (چاہے یوکرائنی یا روسی) کی بنیاد پر کسی بھی ملک نے حکومت کرنے کی کوشش کی تو ناگزیر نتیجہ ملک کا شیرازہ بکھرنا، نسل کشی اور خانہ جنگی ہو گا۔ یہ ہم پہلے بھی بہت مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔
حتمی طور پر تاریخی متروکیت کے عہد میں سرمایہ داری کا مطلب جنگ اور معاشی بحران ہے۔ اس ہولناکی کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہر ملک میں محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے اس گلے سڑے نظام کو ختم کر دے۔ اس کے لئے ایک انقلابی قیادت کی ضرورت ہے۔۔ایک ایسی قیادت جس کی بنیاد سوشلسٹ عالمگیریت ہو۔ اس لئے آج کا سب سے اہم اور سب سے بڑا فریضہ مارکسزم اور عالمی مارکسی رجحان کی قوتوں کو تعمیر کرنا ہے۔
28 فروری 2022ء