روسی نوجوان کیمونسٹ لیگ کی تیسری کل روسی کانگریس 2 تا 10 اکتوبر 1920، ماسکو میں منعقد ہوئی۔ لینن نے 2 اکتوبر کی شام کو اس کانگریس کے پہلے سیشن سے خطاب کیا۔ کانگریس میں 600 سے زائد ڈیلیگیٹس نے شرکت کی۔ لینن کی تقریر کا مکمل متن نیچے دیا گیا ہے۔
(کانگریس میں بہت پرزور تالیوں سے لینن کا استقبال کیاجاتا ہے) رفیقو! میں چاہتا ہوں کہ آج اس موضو ع پر آپ سے باتیں کروں کہ کمیونسٹ نوجو انوں کی لیگ کے سامنے کون کون سے بنیادی فریضے ہیں اوراسی سلسلے میں یہ کہ ایک اشتراکی رپبلک میں نوجوانوں کی تنظیموں کو عموماً کس طرح کا ہوناچاہئے۔
اس سوال پر غوروفکر کرنا اس لئے اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ خاص معنوں میں یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ نوجوان ہی ہیں جنہیں کمیونسٹ سماج کو تخلیق کرنے کااصل مسئلہ درپیش ہے یہ تو صاف ہے کہ کام کرنے والو ں کی وہ نسل جو سرمایہ دار معاشرے میں پلی بڑھی تھی، زیادہ سے زیادہ اتناہی کرسکتی ہے کہ پرانے سرمایہ دارانہ رہن سہن کو، جودوسروں کی محنت سے فائدہ اٹھانے پر تعمیر ہو اتھا، جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکنے کا فرض اپنے ہاتھوں انجام دے۔ یہ نسل زیادہ سے زیادہ اتنا کرسکے گی کہ ایسے سماجی ڈھانچے کو وجود میں لانے کا سوال نمٹانے جو پرولتاریہ اورمحنت کش طبقوں کو اپنے ہاتھ میں اقتدار رکھنے اورایک پائید اربنیاد ڈالنے میں مدد دے جس پر آئندہ تعمیر صرف وہی نسل کرسکتی ہے جو نئے حالات میں کام کرنے کے لئے قدم بڑھارہی ہے، ان حالات میں جب کہ لو گوں کے باہمی تعلقات میں استحصال یادوسروں کی محنت سے فائدہ اٹھانے کا قصہ پاک ہو چکا ہے۔
ہاں تو اس نقطہ نظرسے دیکھاجائے کہ نوجو انوں کے سامنے اہم فریضے کیاہیں تومجھے کہناپڑے گا کہ عموماً نوجوانوں کے اور خصوصاً کمیونسٹ نو جوانوں کی لیگوں اور ایسی ہی تمام دوسری تنظیموں کے ان فریضوں کو صرف ایک فقرے میں سمویا جاسکتاہے: علم حاصل کرنا۔
ٹھیک ہے، یہ کہنے کو صرف ’’ایک فقرہ‘‘ ہوا۔ اور اس سے پتہ نہیں چلتا کہ سب سے خاص اور اہم سوالوں کا جواب کیا ہے __کس کا علم حاصل کریں اور کیسے حاصل کریں؟ اب یہا ں سارا معاملہ یوں آن پڑتا ہے کہ پرانے سرمایہ دارانہ معاشرہ کو اوپر سے نیچے تک بدل ڈالنے کے ساتھ ساتھ یہ نہیں ہو سکتاکہ نئی نسلوں کی تعلیم، تربیت اور لکھائی پڑھائی پرانے خطوط پر ہو، جنہیں کمیونسٹ معاشرہ کو تخلیق کرنا ہے۔ اور پھر نوجوانوں کی تعلیم، تربیت اور لکھائی پڑھائی بہرحال شروع ہونی ہے اسی سروساماں سے جو پرانامعاشرہ ہمارے حوالے کرگیاہے۔ ہم کمیونزم کی تعمیر کر سکتے ہیں صرف اتنے ہی علم کے ذخیروں، تنظیموں اور اداروں سے، انسانی طاقت اور ذرائع کے اس سروسامان سے جو گزرے ہو ئے سماج سے ہمیں ملاہے۔ نوجوانوں کی تعلیم، تنظیم اورتربیت کے کام کو جڑ بنیاد سے بدل ڈالنے کے بعد ہی ہم نوجوان نسل کی محنت وجاں فشانی کی بدولت ایک ایسامعاشرہ حاصل کرسکیں گے جو پرانے معاشرہ سے مشابہ نہ ہوگا__یعنی کمیونسٹ معاشرہ۔ اسی لئے ہمیں لازم ہے کہ بہت تفصیل کے ساتھ اس سوال پر بحث کریں کہ ہمیں کیا سکھاناہے اور نوجوانوں کو کیسے سیکھناہے اگر وہ درحقیقت یہ چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کمیو نسٹ نوجوان کہے جانے کو اپنے عمل سے ثابت کردکھائیں اوریہ کہ انہیں کیسے تیار کیا جائے تاکہ جس کا م کی ہم نے ابتداکی ہے وہ اسے تعمیر کرسکیں اور تکمیل تک پہنچا سکیں۔
مجھے کہنا ہے کہ بظاہر پہلااور قدرتی جواب اس کا یہ ہوگاکہ نوجو انوں کی لیگ اور عام طور سے سارے نوجوانوں کو، جو کمیونزم کے دور میں داخل ہونا چاہئے اول توکمیونزم سیکھناچاہئے۔
مگر صرف اتناجواب ’’کمیو نزم سیکھنا‘‘ بہت غیر معین ہے۔ ہمیں کمیو نزم سیکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ پورا جو علم ہے اس میں سے کتنا حصہ الگ کرنا چاہئے کہ کمیونزم کا علم حاصل ہوسکے؟ یہیں سے خطروں کی پوری قطار ہمیں گھیرلیتی ہے جو اکثراس صورت میں ظاہر ہو تے ہیں کمیو نزم کاعلم حاصل کرنے کا سوال غلط طریقے سے پیش کیا جاتاہے یا اسے یک طرفہ دیکھاجاتاہے۔
قدرتی بات ہے کہ پہلا خیال جو آدمی کے دماغ میں آئے گا یہی ہو گا کہ کمیونزم کا علم حاصل کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس علم کا سارا ذخیرہ اپنایا جائے جوکمیو نزم کی نصابی کتابوں، کتابچوں اور دوسری مطبوعات میں موجود ہے۔ لیکن کمیونزم سیکھنے کی یہ تعریف بہت ہی بھونڈی اور ناکا فی ہو گی۔ اگر کمیو نزم کا علم حاصل کرنے کا مطلب صرف اسی قدر ہوتا کہ اس علم کو اپنایا اور جذب کرلیا جائے جو کمیونسٹ تحریروں، کتابوں اورکتابچوں میں پھیلاہوا ہے تو بہت ہی آسانی سے ہم کمیو نسٹ کتابی کیڑے اوربڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے حاسل کر سکتے تھے لیکن اس سے ہمیں اکثر نقصان اور مصیبت کا سامناکرناپڑتا کیونکہ اس طرح کے لو گ ان تمام چیزوں کو جو کمیونسٹ کتابوں اورکتابچوں میں موجود ہیں، سب کچھ حفظ کر دالنے اورخوب یاد کرلینے کے بعد اس قابل نہیں ہو پاتے کہ وہ ساراعلم اکٹھا کرسکیں اوراس طریقے سے عمل کرسکیں جس کا مطالبہ کمیونزم کرتاہے۔
گزرے ہو ئے سرمایہ دارانہ سماج نے جو سب سے بڑ ی برائی اور بدنصیبی ہمارے لئے چھوڑی ہے وہ یہ ہے کہ کتابوں اورزندگی کے عمل کے درمیان بالکل قطع تعلق رکھا کیونکہ ہمارے پاس ایسی کتابیں موجود تھیں جن میں ہر چیز بہترین طور پر لکھی ہوئی تھی، تاہم یہ کتابیں اکثر حالتوں میں بہت گھناؤ نے اور پرفریب جھوٹ کا پلندہ تھیں اورسرمایہ دارانہ سماج کی تصویر کشی اصلیت کے برعکس کرتی تھیں۔
لہذا یہ نہایت غلط ہوگاکہ جو صرف کتابوں میں کمیو نزم کی بابت لکھاہوا ہے اسے آدمی اپنے ذہن میں محفوظ کرلے۔ اب اپنی تقریروں اورمضامین میں ہم وہی نہیں دہراتے ہیں جوپہلے کتابوں میں کمیو نزم کے متعلق لکھا جاچکاہے۔ کیو نکہ ہماری تقریریں اور مضامین ہمہ گیر اور روزمرہ کے کام سے وابستہ ہیں۔ عمل کئے بغیر، جدوجہد کئے بغیر کمیونسٹ کتابچوں اور کتابوں سے لیا ہوا کمیونزم کاکتابی علم کسی کام کا نہیں کیونکہ اس سے تو وہی پرانی صورت حال قائم رہے گی کہ نظریے اور عمل کے درمیان خلیج حائل رہے، یہ وہی پرانی بے تعلقی ہوئی جو گزرے ہو ئے بورژوا سماج کی سب سے گھناؤ نی خصوصیت تھی۔
اس سے بھی بڑ ھ کر خطر ناک یہ ہے کہ ہم صرف کمیو نسٹ نعروں کو ہی گرہ میں باندھ لیں گے۔ اگر اس خطرے کو ہم نے بروقت نہیں بھانپ لیا اور اس سے بچ نکلنے کے لئے اپنی تمام کو ششیں نہیں کی تو نتیجہ یہ ہو گا کہ پانچ یادس لاکھ آدمی، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، جو اس طرح سے کمیو نزم سیکھیں گے اورخود کو کمیو نسٹ کہتے ہیں، وہ کمیو نزم کے مقصد کو بہت بڑا نقصان پہنچائیں گے۔
یہاں سوال یہ اٹھتاہے: ہمیں کمیو نزم کا علم حاصل کرنے کے لئے ان تمام باتوں کو کیسے جوڑناچاہئے؟ پرانے اسکول سے اور پرانی سائنس سے ہمیں کیا کیا حاصل کرنا چاہئے؟ پرانے اسکول ایساانسان تیار کرنے کے دعوے دار تھے جسے ہمہ پہلوتعلیم ملی ہو۔ پرانے اسکول کادعوی تھاکہ وہ عام طور سے علوم سکھاتاہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ یہ دعویٰ باطل تھا کیو نکہ پورے معاشرے کی بنیاد اور تشکیل طبقات میں لو گوں کی تقسیم پر تھی __استحصال کرنے والوں کا طبقہ اور استحصال کئے جانے والو ں کاطبقہ۔ لہذا قدرتی بات ہے کہ پرانا اسکول تمام کاتمام طبقاتی رنگ میں رنگے ہوئے ہونے کی وجہ سے صرف بورژوازی کی اولاد کو علم عطا کرتا تھا۔ بورژوا طبقے کی خاطر ایک ایک لفظ میں جعل فریب سے کام لیا جاتاتھا۔ ان اسکولوں میں مزدوروں اور کسانوں کی کم عمر نسلیں اتنی تعلیم وتربیت نہیں پاتی تھیں جتنا انہیں اسی بورژوازی کے مفاد میں تیار کیا جاتا تھا۔ انہیں اس طرح تربیت دی جاتی تھی کہ بڑ ے ہو کر بورژوازی کی خدمات بجا لائیں اوراس کے سکون وآسائش میں خلل ڈالے بغیر اس کو منافع فراہم کرسکیں۔ اسی لئے پرانی تعلیم کو مسترد کرتے وقت ہم نے اسے اپنا فریضہ قرار دیا ہے کہ اس میں سے صر ف اتنا لے لیں جتناصحیح معنوں میں کمیو نسٹ تعلیم کے لئے ضروری ہے۔
یہاں میں اس ملامت اوران الزامات پر آتا ہو ں جو پرانی تعلیم کے خلاف مستقل طور سے سننے میں آتے ہیں اورجن سے اکثر قطعی غلط معنی نکلتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پرانا اسکول صرف درسی کتابوں کی پڑھائی کا، رعب داب میں رکھنے کا اور رٹائی کا اسکول تھا۔ یہ درست ہے۔ مگر، پرانی تعلیم یاپرانے اسکول میں جو چیز بر ی تھی اور وہ جو ہمارے لئے مفید یاکار آمد ہے، ان دونوں میں تمیز کرنا چاہئے اس میں سے وہ چننا چاہئے جو کمیو نزم کے لئے مفید ہے۔
پرانا اسکول رٹائی کی تعلیم گاہ تھا: وہ طالب علموں کو فضول، سطحی اور لاحاصل معلومات کا ڈھیر گھول کرپی جانے پر مجبور کرتا تھا، یہ معلومات دماغ کو ٹھس کردیتی تھیں اور نوجو ان نسل کو ایک ہی قسم کے سانچے میں ڈھلے ہوئے اہلکار بناکر نکالتی تھیں لیکن آپ سے بڑی سخت غلطی سرزد ہو گی اگر آپ یہ نتیجہ نکالنے کو شش کریں کہ آدمی اس علم کو حاصل کئے بغیر کمیو نسٹ بن سکتا ہے جو علم انسانی نے ابھی تک جمع کیا ہے۔ یہ سوچنا غلط ہو گا کہ صرف کمیو نسٹ نعرے سیکھ لینا اورکمیونسٹ سائنس کا نچوڑ جان لینا کافی ہے اور علم کی اس میزان کی ضرورت نہیں جس کا کمیو نزم خود ایک نتیجہ ہے۔ اس بات کی مثال کہ علم انسانی کی کل میزان سے کمیونزم کیسے پیدا ہوا خود مارکس ازم سے ملتی ہے۔
آ پ نے پڑھا اور سنا ہو گاکہ کمیونسٹ نظریہ اور کمیونسٹ سائنس اگرچہ بڑ ی حد تک کارل مارکس کی تخلیق ہے لیکن مارکس ازم کی یہ تعلیمات 19ویں صد ی کے اس ایک فرد کی تخلیق نہیں چاہے وہ دانائے روزگار اشتراکی تھا، بلکہ یہ تعلیمات تمام دنیا میں لاکھوں او ر کروڑوں پرولتاریو ں کا علم بن چکی ہے جو سرمایہ داری کے خلاف اپنی جدوجہد میں اس سے کام لے رہے ہیں۔ اب اگر آپ سوال کریں: کیا وجہ ہے کہ مارکس کی تعلیمات نے سب سے انقلابی طبقے کے لاکھوں اور کروڑوں دلو ں میں جگہ کرلی؟ تو آپ کو اس کا ایک جواب ملے گا: وجہ یہ ہے کہ مارکس نے اس انسانی علم کی مضبوط بنیاد پر جو سر مایہ داری کے دوارن حاصل ہو چکاتھا اپنا نظریہ مرتب کیا۔ انسانی معاشرہ کے ارتقا کے اصولو ں کا گہر ا مطالعہ کرنے کے بعد مارکس نے سمجھ لیا کہ سرمایہ داری کا ارتقا لازمی ہے جو کمیونزم کی طرف لے جانے والا ہے، اور بڑی بات یہ ہے کہ مارکس نے اسی سرمایہ دار سماج کے بالکل ٹھیک ٹھیک نپے تلے، انتہائی تفصیلی اور بہت ہی گہر ے مطالعے کی بنیاد پر ان تمام چیزوں کو پوری طرح سمیٹ کر جو پہلے کی سائنس مرتب کرچکی تھی، یہ نظریہ ثابت کیا۔ مارکس نے ہر اس چیز کو، جو انسانی سماج کی پیدا کی ہو ئی تھی، تنقید نظر سے ناپ تول کر دیکھا، جذب کیااور ایک نکتے کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیا۔
ہمیں چاہئے کہ اس بات کو مد نظر رکھیں اس وقت جب، مثلاً ہم پر ولتاری ثقافت پر بحث کرتے ہوں۔ جب تک ہم پوری طرح اس کو سمجھ نہ لیں کہ وہ ثقافت جسے انسانیت کے پورے ا رتقانے جنم دیا ہے، اس کا صحیح علم حاصل کرکے اور اس میں ردوقبول سے کام لے کر ہی ہم پر ولتاری ثقافت تعمیر کرسکتے ہیں جب تک ہم اس بات کو سمجھ نہیں لیتے اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں کر سکیں گے۔ پرولتاری ثقافت کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارے میں کسی کو پتہ نہ ہو کہ کہاں سے نکل پڑی اور نہ یہ کچھ ایسے لو گوں کی ایجاد ہے جو خود کو پرولتاری ثقافت کا ماہر کہتے ہوں۔ یہ لغو بات ہے۔ پر ولتاری ثقافت کو علم انسانی کے ان خزانوں کی قدر تی نشوو نماکانتیجہ ہوناچاہئے جو انسانیت نے سرمایہ داری سماج کے تحت، جاگیرداری سماج اورنوکرشاہی سماج کے تحت حاصل کئے ہیں۔ یہی تمام راستے، یہی تمام راہیں پرولتاری ثقافت کی طرف لے جاتی رہی ہیں، لے جاتی ہیں اور لے جاتی رہیں گی، ٹھیک اسی طرح جیسے سیاسی معاشیات (پولیٹکل اکانومی) نے مارکس کے ہاتھوں بدل بدلا کرہمیں یہ دکھایا کہ طبقاتی جدوجہد سے گزرنااور پرولتاری انقلاب کی ابتداتک پہنچناناگزیر ہے۔
جب اکثر و بیشتر ہمارے سننے میں آتاہے کہ نوجو انوں کی طرف سے بولنے والے اور نئے طرزتعلیم کے بعض پر چارک پرانی تعلیم پر حملہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پرانا اسکول صرف رٹائی کا اسکول تھا، تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ اس پرانے اسکول میں جو اچھا تھا وہ ضرور لینا چاہئے۔ ہمیں اس سے وہ نظا م حاصل کرنا نہیں ہے جو نوعمروں کے دماغوں کو معلومات کے بے شمار بوجھ سے لاد دے جن معلومات میں نوے فیصد ی محض فضول باتیں ہوتی ہیں اور دس فیصدی توڑی موڑی ہوئی۔ مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اپنے آپ کو ہم صر ف کمیونسٹ نتیجو ں یاکلیوں تک محدود رکھیں اور کمیو نسٹ نعرے ہی سیکھتے رہیں۔ اس طریقے سے آپ کمیونزم تعمیر نہیں کر سکیں گے۔ کمیو نسٹ آپ تب ہی بن سکتے ہیں جب اپنے دماغ کو علم کے ان تمام خزانوں سے مالامال کریں جو ساری انسانیت کی دین ہیں۔
ٹھیک ہے، ہمیں رٹائی کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس کی ضرورت تو ہے کہ ہر طالب علم کے دماغ کو بنیادی حقائق کی معلومات دے کر تیار اور مکمل کریں کیونکہ اگر وہ تمام علم جو اس نے حاصل کیاہے دماغ نے جذب نہیں کیا تو کمیونزم کھوکھلااور صرف سائن بورڈ ہوگا اور کمیو نسٹ صرف لمبی چوڑی باتیں بگھارنے والاہوکر رہ جائے گا۔ اور صرف اتنا ہی نہیں کہ آپ اس علم کو ہضم یاجذب کریں بلکہ اسے اس طرح چھان بین کے بعد جذب کرناہے کہ کہیں دماغ میں کباڑ کاڈھیر نہ بھر جائے اوراس میں ان ہی حقائق کی دولت جمع ہو جو موجو دہ زمانے کے تعلیم یافتہ آدمی کے لئے لازمی ہے۔ کسی کمیو نسٹ کے دماغ میں یہ خیال سماجاتا ہے کہ کمیو نزم کا ڈھنڈوراپیٹتا پھرے چونکہ اس نے بنے بنائے نتیجے اور کلیے معلوم کرلئے ہیں اور ان پر سنجیدہ اور سخت محنت صرف نہیں کی ہے؛ اور نہ ان حقائق کو اچھی طرح سمجھاہے، جن کی اسے جانچ پڑ تال کرنی لازم تھی، تو ایسا کمیونسٹ بے حد قابل رحم ہوگا۔ اور اس طرح کا سطحی رویہ قطعی طور پر تباہ کن ثابت ہو گا۔ اگر مجھے یہ خبر ہے کہ میرے علم میں کمی ہے تو میں کوشش کروں گا کہ زیادہ علم حاصل کروں۔ لیکن اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ وہ کمیو نسٹ ہے اور اس کے لئے کوئی بھی چیزگہرائی سے جانناضروری نہیں تو ایسے آدمی کو کسی کمیونسٹ سے دور کی بھی نسبت نہیں ہو سکتی۔
پرانے اسکول نے ان ملازمت پیشہ لوگو ں کو تیار کرکے نکالا جو سرمایہ داروں کے لئے درکار تھے، پرانی تعلیم نے سائنس کے لوگوں کو ایسے آدمی بنادیاجو وہی لکھیں، وہی کہیں جس میں سرمایہ داروں کی مرضی ہو۔ اس کے معنی یہ ہو ئے کہ ہمیں پرانے اسکول کوتوڑ دیناہوگا، پرانی تعلیم کو مٹادینا ہو گا۔ لیکن اس توڑ ڈالنے یا مٹادینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو اس سے وہ سب حاصل نہیں کرنا چاہئے جو انسانیت نے جمع کیا ہے؛ اور جو انسان کے لئے لازمی ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس میں تمیز نہیں کرنی کہ سرمایہ داری کو کس چیزکی ضرورت تھے اور کمیونزم کو کس چیزکی ضرورت ہے؟
گزرے ہو ئے بورژوا سماج میں اکثر یت کی مرضی کے خلا ف جو اند ھے ضبط کے طریقے کا م میں لا ئے جاتے تھے، اب ہم انہیں ہٹا کر ان مزدوروں اور کسانو ں کے باشعور ڈسپلن کو جگہ دے رہے ہیں، جنہیں پرانے سماج سے نفر ت بھی ہے اوراسی کے ساتھ مصمم ارادہ، اس کی قابلیت اور تیا ری بھی کہ اس جدوجہد کے لئے ساری طاقتوں کو متحد اور منظم کریں تاکہ ان لا کھو ں اور کروڑوں انسانو ں کے مرضوں کو، جو ایک بڑے ملک کے پھیلے ہو ئے رقبے میں بے تنظیم اور بالکل بکھرے ہو ئے ہیں، جو ڑ کر واحد مرضی میں تبدیل کیا جاسکے کیونکہ جب تک ایک مرضی نہ ہو گی ہماری شکست لازمی ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کی اس یکجہتی اور یکدلی کے بغیر، ان کے اس باشعور ڈسپلن کے بغیر ہمارا مقصد غارت ہو جا ئے گا۔ اور جب تک یہ بات نہ ہو گی، ہم ہر گز اس قابل نہ ہوں گے کہ ساری دنیا کے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کو شکست دے سکیں۔ ہم بنیاد تک تعمیر نہیں کر پا ئیں گے، اس بنیاد پر ایک نیا کمیونسٹ معاشرہ تعمیر کرنا تودرکنار رہا۔ اسی طرح جب ہم پرانی تعلیم کو مسترد کرتے ہیں اور اس پرانے اسکول کے خلاف اپنے دلوں میں ایک مناسب اور واجب نفرت رکھتے ہیں اورجب ہم پرانے اسکول اور پرانی تعلیم کو مٹادینے کی تیاری پر خوشی سے کمربستہ ہیں تو ہمیں یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ پرانے طرزتعلیم اور پرانی رٹائی اور رعب داب رکھنے کی جگہ ہم میں یہ صلاحیت پیداکرنی چاہئے کہ ہم علم انسانی کا پورا خزانہ حاصلکر سکیں اوراس طرح سے حاصل کرسکیں کہ آپ کے لئے کمیو نزم کوئی ایسی چیز نہ بن جائے جسے آنکھیں بند کرکے زبانی یاد کرلیاگیاہو بلکہ وہ چیز ہو جس پر آپ نے خود غور فکرکیا ہو اور وہ ایسے نتیجوں اور کلیو ں کاحاصل ہوجو موجودہ تعلیم کے نقطہ نظرسے لازمی ہیں۔
بس جب ہم کمیو نزم کا علم حاصل کرنے کا فریضہ پیش کرتے ہیں تو بنیادی فریضے اس طرح سامنے رکھنے چاہئیں۔
اس بات کو آپ پر واضح کرنے کے لئے اس سوال کو اٹھانے کے لئے کہ کیوں کر علم حاصل کیاجائے، میں ایک عملی مثال دیتاہو ں۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ فوجی ذمہ داریوں کا سامناکرنے کے فوراً بعد، یعنی رپبلک کی حفاظت کی ذمہ داریوں کے بعد ہی ہمارے سامنے معاشی ذمہ داری آئی ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ جب تک صنعت اور زراعت میں پھر سے جان نہ ڈالیں __اور ان میں پرانے طریقوں سے جان نہیں ڈالنا ہے __تو کمیونسٹ معاشرہ تعمیر نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے لئے جدید بنیاد پر کام کرناہو گااور سائنس کی نئی سے نئی معلومات کو مد نظر رکھناہو گا۔ اور آپ جا نتے ہیں کہ یہ جد ید بنیاد کیا ہے۔ یہ ہے بجلی۔ جب پورے کا پورا ملک، صنعت اور زراعت کی تمام شاخوں کی بجلی کاری ہو چکے گی ا ور اس فریضے کو پورے طور پر انجام دیاجاچکے گا تب کہیں جاکر آپ اس قابل ہوں گے کہ اس کمیو نسٹ معاشرہ کی تعمیرکرسکیں جو پرانی نسل تعمیر نہیں کر سکتی۔ اب آپ کے سامنے جو فرض ہے وہ یہ ہے کہ سارے ملک کو معاشی طور پر پھر سے زندہ کیا جائے، اس کی زراعت بھی اور صنعت بھی ازسرنو منظم اور بحال ہو، بالکل جد ید ترین ٹکینکل بنیاد پر جو موجو دہ سائنس، ٹیکنالوجی اوربجلی ہے۔ آپ خوب اچھی طرح واقف ہیں کہ نہ ان پڑھ لو گ بجلی کاری کا کام انجام دے سکتے ہیں اورنہ محض معمولی لکھاپڑ ھا ہونا اس کے لئے کافی ہے۔ صرف اتنا جان لیناکہ بجلی کیا ہے، کافی نہیں۔ یہ جانناضروری ہے کہ صنعت میں اور زراعت میں اورصنعت وز راعت کی ایک ایک شاخ میں ٹکینک کے لحاظ سے بجلیکو کیسے کام میں لایا جا ئے۔ ہمیں خود بھی یہ کام سیکھناہے اور محنت کشوں کی ابھرتی ہو ئی نسل میں بھی سب کو سکھاناہے۔ یہ ہے وہ فریضہ جو ہر ایک باشعور کمیو نسٹ کو درپیش ہے اور ہر اس نوجوان کو جو خود کو کمیونسٹ شمار کرتا ہے اور جو صاف طور سے سمجھتاہے کہ کمسومول (کمیو نسٹ نوجوانوں کی لیگ) میں شامل ہو کر اس نے خودذمے لیاہے کہ وہ کمیونزم تعمیر کرنے میں پارٹی کی مدد کرے گا اور کمیونسٹ معاشرہ کی تخلیق کرنے میں ساری نوجوان نسل کا ہاتھ بٹائے گا۔ اسے یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ صرف جدید تعلیم کی بنیاد پر ہی یہ کام انجام دیا جاسکتاہے۔ اوراگر اس نے یہ تعلیم حاصل نہ کی تو کمیو نزم صرف ایک آرزوہو کر رہ جائے گا۔
پچھلی نسل کے سامنے اصل مسئلہ تھا بورژوازی کا تختہ الٹنا۔ تب بڑا کا م یہ تھا کہ بورژوازی پر تنقید کی جائے، عام لوگوں میں اس کے خلاف نفر ت کو ہو ادی جائے، ان کا طبقاتی شعور اور اپنی طاقتوں کو متحدکرنے کی قابلیت بڑھائی جائے۔ اب جو نئی نسل ہے اس کے سامنے پہلے سے کہیں زیادہ پیچید ہ کام ہے۔ آپ کو اپنی ساری طاقتیں تو جوڑنی ہی ہیں تاکہ سرمایہ داروں کے حملے کے جواب میں مزدوروں اورکسانوں کے اقتدار کا جھنڈا اونچارکھا جائے۔ آپ کو یہ توکرنا ہی ہے۔ آپ اسے خوب سمجھتے بھی ہیں اور ہر کمیو نسٹ اسے واضح طور پر پیش نظر رکھتابھی ہے۔ لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ آپ کو کمیونسٹ معاشرہ تعمیر کرناہے۔ اس کا پہلانصف کا م کئی پہلوؤ ں سے پوراکیاجاچکاہے۔ پرانانظام زندگی، جو مٹنے کے قابل تھا، مٹادیاجاچکاہے۔ وہ ڈھائے جانے کا مستحق تھا، ڈھاکرملبے کا ڈھیر بنادیاجاچکاہے۔ زمین ہموار کردی گئی ہے اوراس زمین پر نوخیزکمیونسٹ نسل کو کمیونسٹ معاشرہ کی عمارت کھڑی کرنا ہے۔ آپ کے سامنے جو فریضہ ہے وہ ہے تعمیر کا اورآپ اس کو صرف اسی صورت میں اداکرسکتے ہیں جب آپ تمام موجودہ علم پر مہارت حاصل کریں اور اس قابل ہو ں کہ کمیو نزم کو بنے بنائے، ازبر کئے ہو ئے فارمولوں، ہدایتوں، نسخوں، پہلے سے لکھی لکھائی تحریروں اور پروگراموں کے بجائے ایسی زندہ چیزمیں ڈھال سکیں جو آپ کے فوری کا م کو متحد کرسکے، اور کمیونزم کواپنے عملی کا م کا رہنمابناسکیں۔
یہ ہے آپ کافریضہ جس کی زیر ہدایت آپ کو تمام نوجوان نسل کو تعلیم وتربیت دینے اور اسے ابھارنے کاکام انجام دیناہے۔ آپ کو چاہئے کمیونسٹ معاشرہ کے ان لاکھوں کروڑوں معماروں میں سب سے آگے رہیں جو ہر ایک نوجوان مرد اور عورت کو ہوناہے۔ جب تک آپ نوجوان مزدوروں اورکسانوں کی ساری کی ساری آبادی کو کمیو نزم کی تعمیر کے کام میں نہیں لگائیں گے اس وقت تک کمیونسٹ سماج کی تعمیر نہیں کر سکیں گے۔
یہاں پر قدرتی طور سے یہ سوال میرے سامنے آتاہے کہ ہمیں کیسے کمیونزم کی تعلیم دینی چاہئے اور ہمارے طریقو ں کی خصوصیت کیا ہونی چاہئے۔
اب میں سب سے پہلے کمیو نسٹ اخلاقیات کے سوال پر گفتگو کروں گا۔
آپ پر لازم ہے کہ خود کو تربیت دے کر کمیونسٹ بنائیں۔ نوجوانوں کی انجمن کافریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی عملی سرگرمیو ں کو اس طرح سے منظم کرے، اس کے ممبرعلم حاصل کرکے، منظم ہوکر، متحد ہو کر اورجدوجہد میں حصہ لے کر خود کو پختہ کریں اور ان تمام لوگوں کو بھی جو اسے اپنارہنماسمجھتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ کمیو نسٹوں کی تربیت ہونی چاہئے۔ آج کے نوجوانوں کی تربیت، تعلیم اور لکھائی پڑھائی کاساراعمل اس طرح ہوناچاہئے کہ انہیں کمیونسٹ اخلاقیات کے تحت پروان چڑھنانصیب ہو۔
مگر کیا کمیونسٹ اخلاقیات کے نام کی کو ئی چیز موجود ہے؟ کیا کمیونسٹ اطوار وجود رکھتے ہیں؟ جی ہاں، ضرور رکھتے ہیں۔ اکثر ایساظاہر کیا جاتاہے کہ گویا ہماری اپنی کو ئی اخلاقیات ہی نہیں ہیں اوربورژوازی آئے دن ہم کمیونسٹوں پر الزام لگاتارہتا ہے کہ ہم، کمیو نسٹ، ساری اخلاقیات کو ہی اڑائے دے رے ہیں۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے مطلب خبط کرنے کااور مزدوروں اور کسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا۔
کن معنو ں میں ہم ان اطوارکو مسترد کرتے ہیں؟
ہم اس معنی میں انہیں مسترد کرتے ہیں جس میں بورژوازی ان کی تبلیغ کیاکرتاتھا، جو احکام غیبی سے اخلاقیات کے اصول اخذ کیاکرتا تھا۔ ہم خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کلیسا، جاگیردار اور بورژوازی نام خداکا لیتے تھے اور استحصال کرنے والوں کرنے کی حیثیت سے اپناکام نکالتے تھے۔ یایہ ہوتا تھاکہ ارکان اخلاق یا احکام خداوندی سے اخلاقی اصول اخذ کرنے کے بجائے یہ لوگ ان تصوریت پرست یانیم تصوریت ترکیبوں سے ایسے اخلاقی اصول تراشتے تھے جو احکام خداوندی سے بہت کچھ ملتے جلتے معلوم ہوں۔
ہم ایسی تمام اخلاقیات کے منکرہیں جو انسانی سماج اورطبقوں سے کو ئی تعلق نہیں رکھتیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اس قسم کی اخلاقیات محض ایک دھوکاہے، جعل سازی ہے اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے فائد ے کی خاطر مزدوروں اورکسانوں کی عقل کے لئے بھول بھلیوں کاکام دیتی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ ہماری اخلاقیات پرولتاریوں کی طبقاتی جدوجہد کے مفاد کی پوری طرح پابندہیں۔ ہماری اخلاقیات پرولتاریوں کی طبقاتی جد وجہدکے مفاد سے لی گئی ہیں۔ پرانے سماج کی بنیاداس جبر و تشد د پر تھی جو جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں تمام مزدوروں اور کسانوں پرکیاجاتاتھا۔ ہمیں اس ظلم وجبرکو مٹانا اور ان کے اقتدار کاتختہ الٹناتھا۔ لیکن اس کے لئے ہمیں اتحاد قائم کرناضروری تھا۔ اس قسم کااتحاد غیب سے تو ہونے سے رہا۔
یہ اتحاد صرف فیکٹریوں اور کارخانوں ہی کی بدولت قائم ہو سکتاتھا۔ اور ان پر ولتا ریو ں کے ذ ریعے جو تربیت پا کر اور ایک لمبے خواب غفلت سے بیدار ہو کر اٹھے تھے۔ جب یہ طبقہ ڈھل چکا تب ہی وہ عوامی تحر یک ابلی جس کا سرانجام آج ہماری نظروں کے سامنے ہے __یعنی سب سے کمزور ملکوں میں سے ایک ملک میں پر ولتاری انقلاب کی فتح، جو ملک تین سال سے تمام دنیاکے بورژوازی کے حملے کا منہ توڑ مقابلہ کررہاہے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ پرولتاری انقلاب کیسے ساری دنیامیں پھیلتاجارہاہے۔ اب ہم تجربے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ صرف پرولتاری ہی ایسی ٹھوس قوت پیدا کرسکتے تھے جس کے پیچھے بے تنظیم اور بکھرے ہوئے کسان چل رہے ہیں اور جو ایسی قوت ہے کہ استحصال کرنے والو ں کے تمام حملوں کے سامنے جمی رہی ہے۔ یہی وہ واحد طبقہ ہے جو محنت کش عوام کی مدد کر سکتا ہے تاکہ وہ متحد ہوں، اپنی صف بندی کریں اور قطعی طور پر ڈٹ جائیں، کمیونسٹ سماج کی بنیاد مضبوط کریں اور فیصلہ کن طور پر اس کی تعمیر کریں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں: ہمارے لئے ایسی اخلاقیات کا کوئی وجود نہیں جو سماج کے باہر سے اخذکی گئی ہوں، ایسی اخلاقیات محض دھوکاہیں۔ ہمارے نزدیک اخلاقیات وہ ہیں جو پرولتاریہ کی طبقاتی جد وجہد کے مفاد کی پابند ہیں۔
اس طبقاتی جد وجہد کے کیا معنی ہیں؟ معنی یہ ہیں کہ سماج کے ایک حصے کو دوسر ے حصے کی محنت ہڑپ کرلینے کی کھلی اجازت ہوتی ہے اگر معاشرہ کا ایک حصہ تمام زمین کو اپنے قبضے میں لے لیتاہے تولازم بات ہے کہ ایک جاگیر دار طبقہ ہو ا اور دوسرا کسان طبقہ۔ اگر سماج کا ایک حصہ ملوں اور فیکٹریو ں کا مالک ہے، حصص (shares) اور سرمایے کا مالک ہے تو دوسرا حصہ وہ ہے جو کہ ان کارخانوں میں کام کرتاہے تولازم بات ہے کہ ایک سرمایہ دار طبقہ ہوااور دوسرا پرولتاری طبقہ۔
شہنشاہ زار کو نکال باہر کرنا مشکل نہیں تھا۔ یہ صرف چند روزکی بات تھی۔ جاگیرداروں کونکال باہر کرنا بھی بہت مشکل نہ تھا۔ یہ کا م صرف چند مہینوں میں انجام پاسکتا تھا۔ اور نہ یہ بہت دشوار تھاکہ سرمایہ داروں کو نکال باہر کیا جائے۔ لیکن ان سب سے کہیں زیادہ مشکل ہے طبقوں کا صفایا کرنا، ابھی تک مزدوروں اور کسانوں کی ہی تقسیم باقی ہے۔ اگر کسان اپنے زمین کے ایک قطعے پر جم کربیٹھ جاتاہے۔ اور فالتو اناج کی ذخیرہ اندوزی کرتاہے یعنی وہ اناج جس کی نہ اسے اپنے لئے ضرورت ہے، نہ اپنے مویشیوں کے لئے، اور باقی لوگ اناج کے بغیر رہتے ہیں، تو وہ ہی کسان استحصال کرنے والا بن جاتاہے۔ جتنا زیادہ اناج وہ اپنے قبضے میں رکھے گا۔ اتنا ہی زیادہ فائد ے میں رہے گا۔ رہے دوسرے لوگ، تو مرنے دوانہیں بھوکا۔ ’’وہ جتنازیادہ بھوکے مریں گے اتنا ہی مہنگا یہ اناج بیچوں گا۔ ‘‘ ضرورت اس کی ہے کہ ہر شخص ایک ہی مشترکہ منصوبے کے تحت مشتر کہ نظم ونسق کے تحت کام کرے۔ کیایہ کرنا کچھ آسان ہے؟ دیکھتے ہیں آپ کہ اس کا فیصلہ کرلینااتناآسان نہیں ہے جتنازار کو، جاگیرداروں کواور سرمایہ داروں کو نکال باہر کرنا۔ ضرورت اس کی ہے کہ پرولتاری طبقہ کسانوں کے ایک حصے کونئے سرے سے تعلیم دے، نئے سرے سے ان کی تربیت کرے۔ جو محنت کش کسان ہیں ان کو اپنی طرف ملالے تاکہ ان کاشتکاروں کا زورتوڑا جاسکے جو دولت مند ہیں اور دوسروں کی مفلسی اور محتاجی سے نفع بٹور رہے ہیں۔ چنانچہ پرولتاری جدوجہد کا فریضہ صرف اس طرح ہی ادا نہیں ہوا کہ ہم نے زار کا تختہ الٹ دیا، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کونکال باہرکیا۔ اس کام کو آخر تک انجام دینااس نظام کافرض ہے جسے ہم پرولتاریہ کی آمریت کہتے ہیں۔
طبقاتی جدوجہد ابھی چل رہی ہے۔ اس نے اپنے روپ بدل لئے ہیں۔ یہ پرولتاریوں کی طبقاتی جدوجہد ہے تاکہ پرانے استحصال کرنے والوں کوبازیابی سے روکا جا سکے اور ناسمجھ کسانوں کی بکھری ہوئی بڑی سے بڑی تعداد کو ایک انجمن میں جوڑا جاسکے۔ طبقاتی جدوجہد جاری ہے اور ہمارا کام یہ ہے کہ تمام دوسرے مفادات کو اسی ایک جدوجہدکا پابند کردیں۔ ہم اپنی کمیونسٹ اخلاقیات کو اس کا پابند کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں: اخلاق وہ ہے جو پرانے استحصال کرنے والے سماج کو ختم کرنے میں اور تمام محنت کش عوام کو ان پرولتاریوں کے گرد متحد کرنے میں کام آئے جو نئے کمیونسٹ سماج کی تعمیرمیں مصروف ہیں۔
کمیونسٹ اخلاقیات وہ ہیں جو اس جد وجہد میں کام آتی ہیں، جو تمام استحصال کے مقابلے میں محنت کشوں کو یک جاکرتی ہیں اور ہر چھوٹی موٹی جائد اد کے خلاف انہیں متحد کرتی ہیں، کیونکہ یہی چھوٹی موٹی جائداد وہ سب کچھ ایک آدمی کے حوالے کردیتی ہے جو پورے معاشرہ کی محنت کا پھل ہے ہمارے ملک میں زمین مشترکہ ملکیت سمجھی جاتی ہے۔
اچھا، فرض کیجئے کہ اس مشترکہ ملکیت میں سے ایک خاص قطعہ میں اپنے لئے الگ کرلیتا ہوں اوراس پراناج اگاتا ہوں اس سے دوگناجس کی مجھے ضرورت ہے اورضرورت سے فالتو اناج منا فع پر بیچتاہو ں۔ فرض کیجئے کہ میری دلیل یہ ہے کہ لوگ جتنے زیادہ بھوکے ہوں گے، اتناہی مہنگا خریدیں گے۔ تو کیامیرا یہ عمل کمیونسٹ کا عمل ہوگا؟ جی نہیں۔ یہ استحصال کرنے والے اور ملکیت رکھنے والے کاعمل ہوگا۔ اس کا ہمیں مقابلہ کرناچاہئے۔ اگر اس سلسلے کو ہم نے چلنے دیاتوپھر سب کچھ الٹے قدموں چلے گااور سرمایہ داروں کا اقتدار اور بورژوازی کی طاقت بحال ہو جا ئے گی جیسا کہ اب سے پہلے کے انقلابوں میں ایک بار سے زیادہ ہوچکاہے۔ سرمایہ داروں اور بورژوازی کے اقتدار کی بحالی کوروکنے کے لئے ہمیں منافع خوری کی ممانعت کرنی ہوگی اورافراد کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ باقی لوگوں کے مصائب سے فائدہ اٹھاکر اپنی تجوریاں بھریں۔ اور اس کی خاطر محنت کشوں کو پرولتاریوں کے ساتھ متحد ہونالازم ہوگااور کمیونسٹ معاشرہ کی تعمیر کرنی پڑے گی۔ کمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ اور ان کی تنظیم کے بنیادی فریضے کاخاص پہلویہی ہے۔
پرانے سماج کی بنیاد اس اصول پرتھی: یاتو تم دوسرے کو لوٹو یادوسرا تم کولوٹے یاتم دوسرے کے لئے کام کرو یادوسر ا تمہارے لئے کام کرے یاتو تم غلام رکھویاغلام بنو۔ تویہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ جو لوگ ایسے سماج میں پلے بڑے ہیں ان کو ماں کے دودھ سے یہ نفسیات، یہ خصلت او ر یہ سمجھ ملی ہے: تم یا تو غلاموں کے آقاہو یاخود غلام ہو، یایہ کہ چھوٹی پونجی والے، معمولی سے ملازم پیشہ، چھوٹی حیثیت کے عہد ے دار یاعلمی ذہن کے آدمی __غرض کہ ایسے آدمی جسے صرف یہ فکر رہتی ہے کہ ملکیت اپنی ہونی چاہئے اور دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں۔
اگر یہ کھیت میرا ہے تو مجھے دوسرے سے غرض نہیں۔ اگر دوسر ے بھوکے مرتے ہیں، مرنے دو، اوراچھا ہے کیونکہ میری فصل کے دام اوراونچے اٹھیں گے۔ اگر میں اپنی جگہ پر ڈاکٹر، انجنئیر، مدرس یاملازم کی حیثیت سے ہوں تومجھے دوسروں کی کوئی فکر نہیں۔ ممکن ہے اگر انہیں جن کے ہاتھ میں طاقت ہے خوش رکھوں اور ان کادامن مضبوطی سے تھام لوں تو میری ملازمت بنی رہے گی اور ممکن ہے ترقی کا موقع مل جائے اورخود بورژوابن جاؤں۔ اس قسم کی نفسیا ت اور اس طرح کا مزاج کسی کمیونسٹ کا نہیں ہو سکتا۔ جب مزدوروں اور کسانوں نے ثابت کردیا کہ وہ خو د اپنے زور بازو سے اپنی حفاظت کرسکتے ہیں اور نئے سماج کو جنم دے سکتے ہیں تو یہیں سے نئی کمیونسٹ تربیت کی ابتد ا ہوئی، استحصال کرنے والوں کے خلاف جد وجہد کے دوران تربیت، پر ولتاریوں کے ساتھ اتحاد کے دوران تربیت، ٹٹ پونجیوں اور ان لو گوں کے خلاف جو صرف اپنے مطلب کی سوچتے ہیں، اور اس نفسیات اور ان عادتوں کے خلاف جن کاکہنا ہے: مجھے اپنے فائد ے سے غرض ہے دوسروں سے میراکیا واسطہ۔
یہ ہے اس سوال کا جواب کہ نوجواں اورابھرتی ہوئی نسل کو کمیونزم کیسے سیکھناچاہئے۔
وہ کمیونزم صرف اسی طرح سیکھ سکتے ہیں کہ اپنی لکھائی پڑھائی اور اپنی تعلیم وتربیت کاایک ایک قدم اس مسلسل جدوجہد سے جوڑدیں جو پرولتاری اور محنت کش لوگ پرانے استحصال کرنے والے سماج کے خلاف کررہے ہیں۔ جب ہم سے اخلاقیات کی بات کی جاتی ہے۔ تو ہم کہتے ہیں: کمیونسٹ کے لئے اخلاق سب کچھ اسی ایک متحد اور ٹھوس ڈسپلن میں ہے اوراس باشعور عوامی جدوجہد میں ہے جو استحصال کرنے والوں کے خلاف کی جا رہی ہے ہم اس پر عقید ہ نہیں رکھتے کہ اخلاق ابد ی ہوتے ہیں، اور اخلاق کے بارے جتنی باتیں بگھاری جاتی ہیں ہم ان کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اخلاق کاکام یہ ہے کہ وہ انسانی معاشرہ کو بلند ترسطح پر لے جانے کے اور محنت کو استحصا ل سے نجات دلانے کے مقصد میں ہاتھ بٹائے۔
اس کا م کو انجام دینے کے لئے ہمیں اس نئی نسل کی ضرورت ہے جس نے بورژوازی کے خلاف چلنے والی، باڈسپلن اورجان توڑ جد وجہد کے درمیان ہوش سنبھالنا شروع کیاہے۔ اس جدوجہد کے دوران وہ اصلی کمیونسٹوں کو تر بیت کے ہر ایک قدم کوا سی جدوجہد کے دوران وہ اصلی کمیونسٹوں کو تربیت دے کر تیار کرے گی۔ نئی نسل کی لکھائی پڑھائی اور تعلیم وتربیت کے ہر ایک قدم کو اسی جدوجہد کا پابند اوراسی سے وابستہ ہونا چاہئے۔ کمیونسٹ نوجوانوں کو جو تربیت دی جائے اس کا حاصل حصول یہ نہ ہوکہ دلپذیر تقر یر یں اوراخلاقی اصول ان کے حوالے کردئے جائیں۔ اس کانام تربیت نہیں ہے۔ جب لوگوں نے اپنی آنکھیں سے دیکھ لیاکہ ان کے ماں باپ کیسی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے جب جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کاجواان کے کاندھے پر رکھاہواتھا، جب انہوں نے بذات خود ان مصائب کاتجربہ کرلیاجواستحصال کرنے والوں کے خلاف جدوجہدچھیڑنے والوں پر گزرے ہیں، جب انہوں نے خوددیکھ لیاکہ ا س جدوجہد کو چلانے میں کیسی کیسی قربانیاں دینی پڑتی ہیں تاکہ جو کچھ جیتاجاچکاہے اس کی حفاظت کی جاسکے، اور جب انہوں نے جان لیاکہ جاگیردار اور سرمایہ دار کیسے وحشت ناک دشمن ہیں تواس ماحول میں ان کی تربیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ کمیونسٹ بن جاتے ہیں۔ کمیونسٹ اخلاق کی بنیاد کمیونزم کو برقرار رکھنے اور تکمیل تک پہنچانے کی جدوجہد ہے۔ یہی کمیونسٹ تربیت، تعلیم اورلکھائی پڑھائی کی بنیاد ہے اور یہی اس سوال کاجواب ہے کہ کمیونزم کیسے سیکھناچاہئے۔
ہم ایسی تعلیم وتربیت اور لکھائی پڑھائی کے قائل نہیں جو صرف اسکولوں تک محدود ہو اور ہلچل کی زندگی سے بے تعلق۔ جس وقت تک مزدور اور کسان جاگیر دار اور سرمایہ دار کے ہاتھوں دبائے کچلے جائیں گے، جب اسکول یاتعلیم جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں رے گی، تب تک نوجوان نسل بے نور اور جاہل رے گی۔ لیکن ہمارے اسکول کافرض ہے کہ وہ نوجوانوں کو علم کے بنیادی اصول سکھائے اور اس کی قابلیت پیدا کرے کہ وہ خود کمیونسٹ خیالات مرتب کرسکیں اور ان کو تیار کرکے تعلیم یافتہ انسان بنائے۔ اسکول کافرض ہے کہ جتنے عرصے لوگ اس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس کے دوران ان کو اس جدوجہد کا شریک بھی بنائے جو لوٹ کھسوٹ سے نجات حاصل کرنے کے لئے جاری ہے۔ کمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ اپنا نام تب ہی اونچا رکھ سکتی ہے اور درحقیقت کمیونسٹ نوجوان نسل کی لیگ کہلاسکتی ہے جب وہ اپنی تعلیم وتربیت اور لکھائی پڑھائی کے ہر ایک قدم کو اس عام جدوجہد سے ملادے جو سارے محنت کشوں کی طرف سے استحصال کرنے والوں کے خلاف چل رہی ہے کیونکہ آپ خوب جانتے ہیں کہ جب تک روس مزدوروں کی ایک اکیلی رپبلک رہے گااور باقی ساری دنیامیں وہی پرانابورژوانظام قائم رے گا اس وقت تک ہم ان کے مقابلے میں کمزور رہیں گے اور ہمیشہ ہمیں ایک نئے حملے کی مصیبت کاسامنارے گا۔ اور اگر ہم صرف اتنا کریں کہ ٹھوس اور یک دل ہوناسیکھ لیں توآگے کی جدوجہد میں ہماری جیت ہو گی اور جب ہم طاقتور ہو جائیں گے تو ناقابل شکست بن جائیں گے۔ تو دیکھئے کہ کمیونسٹ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپ پوری ابھرتی ہوئی نسل کو منظم اور متحد کریں اور اس جد وجہد میں تربیت اور عمد ہ ڈسپلن کی مثال قائم کریں۔ تب ہی آپ اس قابل ہوں گے کہ کمیونسٹ سماج کی عمارت کھڑی کرنے کاکام شروع کرسکیں اور اسے انجام تک پہنچا سکیں۔
اس بات کو آپ کے سامنے کرنے کے لئے میں ایک مثال پیش کرتاہوں۔ ہم خود کو کمیونسٹ کہتے ہیں۔ کمیونسٹ کون ہے؟ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ کمیونس __یعنی مشترکہ۔ تو کمیونسٹ معاشرہ وہ ہوا جس میں تمام چیزیں یعنی زمین، کار خانے، سب کی مشترکہ ملکیت ہو ں اورلو گ مل جل کرکام کرتے ہوں یہی کمیونزم ہے۔
کیا مل کر کام کرناممکن ہے اگر ہر شخص اپنے قطعہ زمین پر الگ الگ کاشت کرتا ہو؟ مل جل کریک جاکام کرناپلک جھپکتے ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ ناممکن ہے۔ یہ غیب سے نہیں ٹپکتا۔ اس کے لئے بڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ مصیبت سہنی ہوتی ہے اوراسے جنم دیناہوتاہے۔ جنم دینے کے لئے جدوجہد کی راہ طے کرنی پڑتی ہے۔ اس میں پرانی کتابوں سے کام نہیں چلتا۔ کوئی ان پر ایمان نہیں لائے گا۔ اس کے لئے آدمی کااپنا جیتاجاگتاتجربہ چاہئے۔ جب کو لچاک کی فوج سائبیریاسے اور دنیکن کی فوج جنوب سے بڑ ھنی شروع ہوئی توکسان ان کے طرفدار تھے۔ کسانوں کو بالشویزم ناپسند تھا کیونکہ بالشویک لوگ ایک قیمت مقر ر کرکے کسانوں کا اناج لے لیتے تھے۔ لیکن جب سائبیریااور یوکرین کے کسانوں نے دیکھاکہ کولچاک اور دنیکن کی حکمرانی کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے خود ہی اندازہ کرلیاکہ اب ایک ہی سبیل رہ جاتی ہے: یاتو سرمایہ دار کے پاس چلے جاؤ جوتمھیں فوراً جاگیردار کی غلامی میں دے دے گایامزدور کے پیچھے چلوجو درست ہے کہ دودھ اورشہد کی نہریں بہتی ہوئی جنت کاوعدہ نہیں کرتااور سخت جدوجہد میں تم سے آہنی ڈسپلن اور سختی اور توانائی کا تقاضہ کرتاہے؛ لیکن سرمایہ داروں کی اور جاگیرداروں کی غلامی سے نجات دلادے گا۔ جب ناسمجھ سے ناسمجھ کسانوں نے بھی خود اپنے تجربے سے اس کو سمجھ لیا، دیکھ لیا تووہ کمیونزم کے باشعور حامی بن گئے، ایسے حامی جو سخت مشکلات کے اسکول سے گزر چکے ہیں۔ ایسا ہی وہ تجربہ ہے جوکمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ کی تمام سرگرمیوں کی بنیاد بنناچاہئے۔
میں ان سوالات کاجواب دے چکاکہ پرانے اسکول اور پرانی سائنس سے کیا سیکھناہے، کیا حاصل کرنا ہے۔ اب میں اس سوال کاجواب دینے کی کوشش کروں گاکہ یہ کیسے سیکھناہے۔ جواب اس کا یہ ہے: اسکول کی سرگرمیوں کے ہر ایک اقدام کو، تعلیم لکھائی پڑھائی اورتربیت کے ہر ایک اقدام کو استحصال کرنے والوں کے خلاف تمام محنت کشوں کی جدوجہد سے اس طرح جوڑناکہ ان میں گڑبڑ نہ ہو۔
نوجوانوں کی بعض تنظیموں کے عملی تجربے سے میں اس کی چند مثالیں دوں گا، صاف طور پر یہ دکھانے کے لئے کہ کمیونزم کی اس تربیت کو کیسے چلاناچاہئے۔ دیکھئے کہ ہر شخص ناخواندگی اور جہالت کا خاتمہ کرنے کی باتیں کررہاہے۔ آپ واقف ہیں کہ اگر ملک جاہل ہو تواس میں کمیونسٹ معاشرہ کی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔ سوویت حکومت کاایک فرمان صادر کردینایاپارٹی کاکوئی خاص نعر ہ بلند کردینایاعمدہ کام کرنے والوں کی ایک تعد اد کو اس میں جٹادیناکافی نہیں ہے۔ نوجوان نسل کافرض ہے کہ وہ خود اس بار کو اپنے شانوں پر اٹھائے۔ کمیونزم کامطلب ہے کہ نوجوان لوگ یعنی نوعمر مرد عورتیں جو کمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ کے ممبر ہیں، خود کہیں: یہ کام ہمارا ہے، ہم متحد ہوں گے اور جہالت کاخاتمہ کرنے کے لئے دیہاتی علاقوں میں جائیں گے تاکہ ہماری ابھرتی ہوئی نسل میں کوئی ایک بھی ان پڑھ باقی نہ رے۔ ہم اس کوشش میں ہیں کہ ابھرتی ہو ئی نسل اپنی سرگرمیاں اس کام کے لئے وقف کردے۔ آپ آگاہ ہیں کہ جاہل ان پڑھ روس کوہم ایک دم تیزی سے پڑھے لکھے ملک میں تبدیل نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر نوجوانوں کی لیگ اس کام میں جت جاتی ہے اور اگر سارے نوجوان سب کے فائد ے کے لئے کمر بستہ ہوجاتے ہیں تویہ لیگ جس میں چار لاکھ نوجوان لڑکے لڑکیا ں منظم ہیں، اس کی مستحق ہوتی ہے کہ کمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ کہلاسکے۔ اس لیگ کے سامنے دوسرا فریضہ یہ ہے کہ خود علم کی کسی بھی واقفیت حاصل کرلینے کے بعد ان نوجوانوں کومدد دی جائے جواپنی ذاتی کوششوں کی بدولت خود کوجہالت کے اندھیر ے سے آزاد نہیں کراسکتے۔ کمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ کے ممبر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنی محنت اوراپنی کوششوں کو سب کی بھلائی کے لئے وقف کردے۔ کمیونسٹ تربیت اسی کو کہتے ہیں۔ اس قسم کے کام کے دوران ہی کوئی لڑکی یالڑکاصحیح معنوں میں کمیونسٹ بنتا ہے۔ جب انہیں اس کام میں عملی کامیابیاں حاصل ہوں گی تب ہی وہ کمیونسٹ بنیں گے۔
مثال کے طورپر اس کام کو لیجئے جو شہر کے آس پاس سبزی ترکاری کے کھیتو ں پر ہوتا ہے۔ کیا یہ کوئی کام نہیں ہے؟ یہ کمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ کے فرائض میں سے ایک ہے۔ لو گ بھوکے پیٹ بسر کر رے ہیں، کارخانوں اور فیکٹریو ں میں بھوک کاراج ہے۔ فاقہ کشی سے بچنے کے لئے سبزی ترکاری کے کھیتوں کو بڑھاناچاہئے۔ لیکن زراعت ابھی پرانے انداز سے چل رہی ہے۔ اس لئے لازمی ہے کہ زیادہ باشعور لوگ اس کام کااپنے ذمے لیں، تب دیکھیں گے کہ سبزی ترکاری کے کھیتوں کی تعد اد بڑ ھے گی، ان کارقبہ پھیلے گااور ان کاحاصل بہتر ہوگا۔ اس معاملے میں کمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ کی ہر شاخ کو چاہئے کہ وہ اسے اپنا کام سمجھے۔
اگر کمیو نسٹ نوجوانوں کی لیگ اپنے کام کو تمام میدانوں میں اس اسلوب سے منظم کرنے میں ناکام رہی تو اس کا مطلب یہ ہو گاکہ وہ پرانے بورژوا راستے پر ڈھلکی جارہی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی تربیت کو اس جدودجہد سے جوڑیں جو محنت کش استحصال کرنے والوں کے خلاف کررہے ہیں تاکہ اس فرضیہ کی ادائیگی میں جو کمیونزم کی تعلیمات کالازمہ ہے محنت کشوں کی مدد کی جاسکے۔
اس لیگ کے ممبر وں کا فرض ہے کہ ایک ایک فالتو گھنٹہ شہر کے باہر ترکاری کے کھیتوں کو بہتر بنانے میں صرف کریں یاکسی کارخانے میں، کسی فیکٹر ی میں نوعمر لوگوں کی تعلیم کا اہتمام کرنے وغیرہ میں لگائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس روس کو جو مفلسی کامارااور مصیبت زدہ ہے ایک خو ش حال ملک میں تبدیل کردیں۔ کمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ کاکام ہے کہ وہ اپنی لکھائی پڑ ھائی اور تعلیم وتربیت کو مزدوروں اور کسانوں کی محنت سے جوڑیں تاکہ وہ خود کو اسکولوں کی چہاردیواری میں بند کرکے نہ بیٹھ جائیں اور صرف کمیونسٹ کتابوں اور کتابچوں تک محدود نہ رہیں۔ مزدوروں اور کسانوں کے شانہ بشانہ کام کرنے سے ہی آدمی صحیح معنوں میں کمیونسٹ بن سکتا ہے۔ ہر شخص کو یہ دکھاناچاہئے کہ وہ سب جو نوجوانوں کی لیگ میں شامل ہیں پڑھے لکھے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ کام کرنا بھی جانتے ہیں۔ جب ہر شخص اپنی آنکھوں دیکھ لے گا کہ ہم نے پرانے اسکول اور قدیم تعلیم سے پرانے طرز کے رعب داب رکھنے کے طریقو ں کو بے دخل کرکے ان کی جگہ باشعور ڈسپلن کودے دی ہے اور تمام نوجوان مرد وعورت ’’سبوتنک‘‘ (چھٹی کے دن رضاکارانہ مفت کام) تحریک میں حصہ لے رے ہیں اور شہر سے باہر والے ایک ایک ترکاری کے کھیت کو کام میں لارہے ہیں تاکہ آبادی کی مدد کریں تو لوگ محنت مشقت کو اس نظر سے دیکھنا چھوڑ دیں گے جس نظر سے اب تک دیکھتے آئے ہیں۔
کمیو نسٹ نوجوانوں کی لیگ کافریضہ ہے کہ دیہات میں یا شہری محلوں میں اس قسم کے کاموں میں امداد منظم کرے۔ ایک چھوٹی سی مثال لیتا ہوں، جیسے صفائی ستھرائی کا خیال رکھنایا غذا تقسیم کرنا۔ پرانے سرمایہ دار سماج میں یہ کام کیسے ہوا کرتا تھا؟ ہر شخص صرف اپنے لئے کام کرتاتھا، کسی کو اس سے غرض نہ تھی کہ بوڑھوں یابیماروں کاکیا حال ہے، ساراگھر کاکام کاج صرف عورتوں پرلد ا ہوا تھا، اوروہ اس بوجھ کی وجہ سے محرومی اور غلامی کی حالت میں تھیں۔ اس مشکل کامقابلہ کسے کرناچاہئے؟ نوجوانوں کی لیگوں کو کرنا چاہئے۔ انہیں کہنا چاہئے کہ ہم یہ سب بد ل ڈالیں گے، نوجوانوں کے ایسے دستے تیار کریں گے جوصفائی ستھرائی رکھنے میں مدد کریں گے، غذاتقسیم کرانے میں ہاتھ بٹائیں گے، قاعد ے کے ساتھ ایک ایک گھر جاکر دیکھیں گے اور نہایت منظم طریقے سے پورے سماج کی بہتری کے لئے کا م کریں گے اور ایک قرینے کے ساتھ اپنے آدمیو ں کو بانٹ کر کام کریں گے اور دکھائیں گے کہ محنت کی جائے تو تنظیم اور قرینے سے کی جانی چاہئے۔
وہ نسل جو اب پچاس برس کے لگ بھگ ہے، اسے اپنی زندگی میں کمیونسٹ معاشرہ ہو جانے کی امید نہیں ہونی چاہئے۔ پہلے ہی یہ نسل سد ھار جائے گی۔ لیکن وہ نسل جو اس وقت جو اس وقت پند رہ برس کی ہے کمیونسٹ معاشرہ دیکھے گی بھی اور اسے خود اپنے ہاتھو ں تعمیر بھی کرے گی۔ اسے معلوم ہوناچاہئے کہ اس کی زندگی کاسارا مقصد یہ سماج تعمیر کرناہے۔ پرانے سماج کا طریقہ یہ تھا کہ کا م الگ الگ خاندان کیا کرتے تھے اور کوئی شخص ان کے کام یا محنت کو دوسرے سے جوڑتا نہیں تھا، سوائے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے جو عوام کو دبائے کچلے رکھتے تھے۔ ہمیں چاہئے کہ تمام محنت مشقت، خواہ اس میں کتنی ہی گندگی یا غلاظت ہو، چاہے کتنی ہی جاں فشانی کرنی پڑے، اسے اس طرح منظم کریں کہ ہر مزدور اور ہر کسان پکار اٹھے: میں اس بڑ ی فوج کا ایک حصہ ہوں جو آزادانہ محنت کرتی ہے اور میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے بغیر اپنی زندگی تعمیر کرسکتاہوں اور کمیونسٹ نظام قائم کرسکتاہوں۔ کمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ کا فرض ہے کہ ہر شخص کو شروع کی عمرہی باشعور اور باضابطہ محنت کی تربیت دے۔ اسی صورت میں ہم کو یقین ہو گاکہ آج جو مسائل ہمارے سامنے ہیں ان کا حل نکل آئے گا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں بجلی پھیلانے کے لئے کم ازکم دس سال کی مدت درکار ہو گی تاکہ ہماری غریب خستہ حال سرزمین کو ٹیکنالوجی یامشین کی نئی سے نئی برکت حاصل ہو سکے۔ چنانچہ یہ نسل جو فی الحال پندرہ برس کی ہے اور جو دس یابیس سال بعد کمیونسٹ معاشرہ میں بسر کررہی ہوگی، اسے اپنی تعلیم میں تمام فرائص کو اس طرح سے معین کرنا چاہئے کہ ہر روز ہر گاؤں میں، ہر شہر میں نوعمر لو گ مشترکہ محنت کے کسی نہ کسی مسئلے کے عملی حل میں لگ سکیں، چاہے وہ مسئلہ کتنا ہی ادنیٰ اور کتناہی معمولی کیو ں نہ ہو۔ جس حد تک کام ہر گاؤ ں میں ہوپائے گا، جس حد تک اس کام میں باہمی کمیونسٹ مقابلہ زور پکڑے گا، جس حد تک نوجوان یہ ثابت کریں گے کہ وہ اپنی محنت کو یک جا کرسکتے ہیں، اسی حد تک کمیونسٹ تعمیرکی کامیابیی یقینی ہو سکے گی۔ اپنے ایک ایک قدم کو ا س کمیونسٹ تعمیرکی کامیابی کے نقطہ نظر سے دیکھ بھال کراور خود سے یہ سوال کرکے کہ کیاہم نے متحد اور باشعور محنت کش بننے کے لئے اپنے بس کی ساری کوشش کرلی ہے، کمیونسٹ نوجوانوں کی لیگ اپنے 5 لاکھ کے قریب ممبروں کو محنت کی ایک متحد ہ فوج میں مربوط کرلے گی اور سب کی نظر میں عزت کا مقام حاصل کرے گی۔