|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: ولید خان|
جمعرات کی صبح امریکی بحری بیڑے نے شام کے صوبے حمص کے ہوائی اڈے الشعیرت پر کئی میزائل داغے۔ اب تک سات لوگوں کے ہلاک ہونے کی خبر ملی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ کئی جنگی ہوائی جہازوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
ٹرمپ نے کسی تفتیش یا کسی عالمی ادارے کی حمایت حاصل کرنے کی بھی زحمت کئے بغیر، شام میں مداخلت نہ کرنے کی اپنی سابقہ پوزیشن کے بالکل الٹ شامی افواج کے خلاف یکطرفہ حملہ کر دیا۔
To read this article in English, click here
اس حملے کی وجہ شامی ائرفورس کا شمال مشرقی شام میں خان شیخون کے قصبے پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بتائی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں کہ ہوا کیا ہے اور کس نے کیا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں جن ’’ماہرین‘‘ کا کثرت کے ساتھ تذکرہ کیا جاتا ہے ان کی اکثریت کا تعلق امدادی ایجنسیوں جیسا کہ Doctors Without Borders یا White Helmets سے ہے، جو ویسے ہی القاعدہ اور شام میں شدت پسندتحریک کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے بدنام ہو کر اپنی ساکھ کھو چکی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خان شیخون اور صوبہ ادلب، جس میں یہ قصبہ واقع ہے، دونوں القاعدہ کے شامی دھڑے کے کنٹرول میں ہیں جس کو حیات تحریر الشام (HTS) کے نام سے جانا جاتاہے۔ اس علاقے سے باہر آنے والی تمام معلومات پر شدت پسندوں کی آہنی گرفت ہے اور کسی بھی اطلاع کی تائید یا تردید کا کوئی طریقہ کار ممکن نہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسد حکومت اس طرح کا حملہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن فی الحال اس موقع پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ روسی معاونت کے بل بوتے پر اس وقت خانہ جنگی میں شام کا پلڑا بھاری ہے۔ میدان جنگ میں شامی افواج تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہیں اور چند ہی دنوں میں ’’امن مذاکرات‘‘ کے نتیجے میں شام کی پوزیشن انتہائی مستحکم ہونے والی ہے۔ کئی مرتبہ ٹرمپ حکومت کے نمائندوں نے اعتراف کیا ہے کہ شدت پسندوں کا صفایا کرنے اور شام کو مستحکم کرنے کیلئے اگر کوئی سنجیدہ قوت موجود ہے تو وہ اسد ہے۔ لیکن ساتھ ہی امریکی حکمران طبقے کا ایک اور دھڑا اس صورتحال کے حوالے سے انتہائی تشویش کا شکار ہے جس کے مطابق امریکہ اسد اور روس کو خطے میں کھلی چھوٹ دے رہا ہے۔ یہ دھڑا، اور اس کا حامی سعودی عرب؛ اسد، روس اور ایران کی فتح کو خطے میں اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کے حوالے سے انتہائی خطرناک سمجھتے ہیں۔
دسمبر 2016ء میں حلب کے دوبارہ شامی فوجوں کے قبضے میں چلے جانے کے بعد ان کی کٹھ پتلی طاقتوں، HTS اور اس کے حامیوں کی حالت مخدوش ہے۔ چند ہفتے پہلے اس کی واضح مثال ادلب میں سعودی عرب اور CIA کے حمایت یافتہ گروہوں کی حماہ پر بڑے پیمانے پر حملے کے بعد تیز تر پسپائی تھی۔ تمام بڑے فریقین کے درمیان ملک گیر جنگ بندی کے دسمبر معاہدے کے بعد یہ پہلا بڑے پیمانے کا حملہ تھا۔ حالیہ واقعات کا سب سے زیادہ فائدہ اسلامی انتہا پسندوں اور ان کے پشت پناہوں کو پہنچا ہے۔ اس تمام تر بحث کا حاصل یہ ہے کہ کوئی واضح ثبوت موجود نہیں کہ اسد حکومت اس کیمیائی حملے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن پھر ثبوتوں کے نہ ہونے نے آج تک امریکی سامراج کو کسی پر بمباری کرنے سے پہلے بھی کبھی نہیں روکا۔
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جنگ کرنے کا انتہائی ظالمانہ طریقہ کار ہے۔ لیکن سامراجیوں کا پراپیگنڈے کیلئے اس کیمیائی حملے کا استعمال انتہائی کراہت آمیز ہے۔ ایسے جیسے پورے خطے میں خوفناک بربریت، سفاک قتل عام اور بے دریغ لوٹ مار کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال گناہ کبیرہ ہے۔ ایسے جیسے کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ، لاکھوں بچوں کا قتل عام اور جدید مہذب زندگی کی تباہی و بربادی اخلاقی طور پر درست ہے جب تک یہ تلواروں، بندوقوں، بموں، ہوائی بمباری اور پابندیوں کے ذریعے کی جاتی رہے۔
محض چند ہفتے قبل امریکی فضائی بمباری کے نتیجے میں ایک تہہ خانے میں چھپے 200 عام شہریوں کے قتل عام کے بعد مغربی حمایت یافتہ موصل آپریشن روکنا پڑا تھا۔ عارضی طور پر آپریشن روکنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بمباری کے نتیجے میں عام شہری ہلاک ہو گئے ہیں بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ موصل کے لوگ، جو پچھلے چند سالوں سے داعش کے جبر تلے زندگی گزارنے پر مجبور تھے، ، عراقی اور اتحادی افواج کے شدید مخالف ہوتے جا رہے ہیں۔ البتہ جب روسی اور شامی حلب پر بمباری کر رہے تھے تو اس وقت ان کے مگرمچھ کے آنسو اور سینہ کوبی رکنے کا نام نہ لیتی تھی۔ لیکن آج موصل کے بارے میں کسی کی آواز نہیں نکلتی۔
یمن کو بھی باآسانی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ گلی سڑی سعودی بادشاہت کے ہاتھوں 13ملین مردوں، عورتوں اور بچوں کو دانستہ طور پر بھوکا ماراجا رہا ہے۔ روزانہ سکولوں اور ہسپتالوں پر ممنوعہ کلسٹر بموں کی بمباری کی جا رہی ہے جو کہ برطانوی اور امریکی کمپنیاں سعودی عرب کو بیچ رہی ہیں۔ اور یہاں پر برطانوی اور امریکی سامراج کا کیا کردار ہے؟ جنگ کیلئے فعال لاجسٹکس، انٹیلی جنس معلومات اور ناکہ بندی کیلئے بحری امداد۔
کسی بھی قوت نے آج تک مشرق وسطی میں اتنا قتل عام نہیں کیاجتنا امریکی سامراج نے کیا ہے۔ عراق پر حملہ اور قبضہ بھی ایسے ہی نام نہاد ’’ماہر ذرائع‘‘ کی بنیاد اور کیمیائی ہتھیاروں اور بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال پر کیا گیا تھاجو بعد میں ثابت ہوا کہ سب جھوٹ تھا۔ نوبل انعام یافتہ تنظیم ’فزیشن فار سوشل ریسپانسبلٹی‘ کے مطابق ان اقدامات کا براہ راست نتیجہ دس لاکھ لوگوں کی موت تھا۔ اس سے پہلے، خود اقوام متحدہ کے مطابق امریکی پابندیوں کے نتیجے میں 17لاکھ لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔ یعنی 1990ء سے لے کر اب تک امریکہ تقریباً 30 لاکھ لوگوں کا قتل عام کر چکا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اس ڈپلیٹڈ یورینیم کا کیا جو دونوں عراقی جنگوں میں استعمال کیا گیا؟ یا وہ سفید فاسفورس کے بم جنہیں امریکی فوجوں نے 2004ء میں فلوجہ پر بمباری میں استعمال کیا تھا اور جس کی وجہ سے آج بھی بچوں میں پیدائشی نقائص کی شرح دنیا میں بلند ترین ہے؟ جب 1996ء میں میڈلین آلبرائٹ سے امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے پانچ لاکھ لوگوں سے متعلق سوال کیا گیا تو اس نے کہا تھا کہ ’’ہمارا خیال ہے کہ یہ قیمت چکانا ٹھیک ہے۔ ‘‘
عراق میں وحشیانہ جنگ کے آغاز سے، امریکی سامراج نے پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا۔ امریکہ اور اس کے علاقائی حامیوں ترکی، اردن اور سعودی عرب نے شام میں ابتدائی انقلابی تحریک کو ہائی جیک کرنے کے مقاصد سے مداخلت کرتے ہوئے اسے ایک رجعتی فرقہ ورانہ تصادم کی طرف دھکیل دیا۔ القاعدہ اور دوسری رجعتی انتہا پسند تنظیموں کی براہ راست اور بالواسطہ حمایت نے ایک ایسا عفریت تخلیق کر دیا ہے جو کہ آنے والی کئی دہائیوں تک نہ صرف اس پورے خطے کو بلکہ مغرب کو بھی طاعون کی طرح چمٹا رہے گا۔
یہ واضح ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی حکمرا ن طبقے کیلئے شامی یا کسی بھی اور خطے کے لوگوں کا انجام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ نہ ہی وہ اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ کس نے کس کو قتل کیا ہے اور نہ ہی اس بات کی کہ انھوں نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے ٹرمپ کی اچانک قلابازی اس کی چند ہفتے پہلے کی پوزیشن سے بالکل الٹ ہے، جب اس نے دعویٰ کیا تھا کہ شام کے بحران سے باہر نکلنے کا واحد راستہ روس اور اسد کے ساتھ مشترکہ کوشش سے ہی ممکن ہے۔ یہ واضح ہے کہ ٹرمپ امریکی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے دباؤ میں ہے جو پیوٹن کے ساتھ بڑھتی نزدیکی کو روکنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹرمپ کے اس حوالے سے کوئی اخلاقی مسائل ہیں۔ اس تناظر میں کیمیائی حملہ ایک ’’آسان‘‘ بہانہ ہے جس کے ذریعے عوامی رائے کو کسی بھی حملے کی تیاری کیلئے استوار کیا جا سکتا ہے۔
یہ ایک خودغرضانہ اور نپی تلی چال تھی جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ امریکی حکمران طبقے اور اس کے حامیوں کے تنگ نظر مفادات کا تحفظ کیا جائے، اور پوری دنیا اور خاص طور پر روس کو واضح اشارہ دیا جائے کہ امریکی سامراج ابھی بھی شام میں ’’کھیل میں موجود‘‘ ہے، روسی۔ ایرانی۔ اسد اتحاد کو توڑنے اور مستقبل میں اسد کے ساتھ مذاکرات کی راہیں ہموار کی جائیں۔ یعنی، یہ سارا کھلواڑ اس رجعتی سامراجی خانہ جنگی کا ہی تسلسل ہے جس سے شامی عوام کو مزید کرب کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔
بدقسمتی سے مغرب میں بائیں بازو کا ایک بہت بڑا حصہ اس پراپیگنڈے کا حصہ بن چکا ہے اور مغربی سامراج اور ذرائع ابلاغ کی زبان بول رہا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ شام میں اسد حکومت یا روس کے کھلواڑمیں ترقی پسندی کی رتی بھی موجود نہیں۔ لیکن ان قوتوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں کچھ لوگ اس کرہ ارض پر موجود سب سے رجعتی طاقت یعنی امریکی سامراج کے کیمپ میں شامل ہو رہے ہیں۔ جلدبازی میں امریکی بمباری کی حمایت کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مغربی مداخلت نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ کو کس جانب دھکیل دیا ہے۔ ۔ بڑھتے ہوئے عدم استحکام اور بربریت کی جانب۔ بہرحال، یہ نام نہاد ’’بائیں بازو‘‘ کے حواری امریکہ کو مداخلت پر تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ ناکافی مداخلت پر تنقید کررہے ہیں!
حقیقت یہ ہے کہ محنت کش طبقے کی حقیقی انقلابی تحریک کی عدم موجودگی میں مغربی حمایت کے ساتھ اسد حکومت کی عسکری ذرائع سے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ داعش پورے شام کو تخت و تاراج کر دے گی اور مغربی حمایت یافتہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے داعش کے ساتھ کوئی بڑے اختلافات موجود نہیں۔ لیبیا میں مغربی مداخلت کی وجہ سے جو بربریت پھیلی ہے وہ اس طرح کی مداخلتوں کی رجعتیت کو عیاں کرنے کے لئے سبق ہونا چاہیئے۔ شامی عوام کو اس کا بخوبی اندازہ ہے اور اگر اس عمل کا کوئی نتیجہ نکلے گا تو وہ یہ کہ عوام اسد کے پیچھے آن کھڑی ہو گی۔
واحد حقیقی حل آزادانہ طبقاتی پوزیشن ہے۔ مغرب کے محنت کشوں اور نوجوانوں، جو حقیقت میں مشرق وسطیٰ سے بربریت اور مصائب کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، کیلئے ہمارا پیغام یہ ہے: دشمن ہمارے گھر میں موجود ہے! وہی لو گ، جو مغرب میں محنت کشوں پر حملے کر رہے ہیں، اپنے ہی گھروں میں کٹوتیوں کی ہولناکی لاگو کر رہے ہیں، بے روزگاری اور گرتے ہوئے معیار زندگی کے موجب ہیں ؛وہی مشرق وسطی میں دہائیوں سے محنت کش طبقے کے قاتل ہیں۔
مشرق وسطی میں سب سے زیادہ رجعتی قوتیں مغربی سامراجی اور ان کے حامی ہیں جو اس خطے کی عوام کو زیر کر کے غلامی کی بیڑیوں میں باندھ کر ان کا اندھا دھند استحصال کرنے کے خواہشمند ہیں اور اس کام کیلئے معاشرے کے سب سے رجعتی گروہوں اور پرتوں پر اکتفا کر رہے ہیں۔ مغربی سامراج کی حمایت کے بغیر خطے کے تمام جہادی گروہ اور تقریباً تمام رجعتی آمریتیں دھڑام سے گر جائیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ ہم اپنے سامراجی حکمرانوں کے حریفوں پیوٹن، اسد یا ایرانی ملاحوں کی حمایت نہیں کر سکتے جو کہ ان رجعتی شدت پسندوں کے ساتھ اپنے تنگ نظر مفادات کیلئے پل بھر میں معاملات طے کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
مشرق وسطی میں تباہی براہ راست عالمی سرمایہ داری کے بحران کا نتیجہ ہے۔ ایک پر انتشار نظام گہرے بحران کا شکار ہے جس کے کنارے بربریت کی دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ شام میں امریکی مداخلت صورتحال کو اور زیادہ گھمبیر کرنے کا باعث بنے گی۔ اس وقت ضرورت یہ نہیں ہے کہ مشرق وسطی میں جنگ پھیلائی جائے بلکہ اس جنگ کو حکمران طبقے کے خلاف طبقاتی جنگ کی صورت میں گھر واپس لایا جائے۔ ایک ایسا حکمران طبقہ جو سماج میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرتا بلکہ صرف ظلم، بربریت اور تباہی پھیلانے کا باعث ہے۔