|تحریر: ٹیڈ گرانٹ (جون1943ء)، ترجمہ: آفتاب اشرف|
تیسری انٹرنیشنل کو باقاعدہ طور پر دفنا دیا گیا ہے۔ وہ ایک انتہائی تحقیر آمیز طریقے سے تاریخ میں گم ہو گئی ہے۔ سٹالن نے امریکی سامراج کے دباؤ کے تحت پوری دنیا میں بائیں بازو کے عام کارکنان تو دور کی بات، اس سے منسلک پارٹیوں سے بھی کوئی مشورہ کئے بغیر، کسی جمہوری بحث اور فیصلہ سازی کے بغیر، انتہائی جلد بازی میں اسے دفن کر دیا ہے۔
مگر یہ سمجھنے کے لئے کہ ایک ایسی تنظیم، جس سے پوری سرمایہ دارانہ دنیا ڈرتی تھی اور نفرت کرتی تھی آخر سرمایہ داری کے ہی ایما پرایسے ذلت آمیز انجام کو کیوں پہنچی، ہمیں مختصراً انٹرنیشنل کے طوفانی عروج وزوال کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس کے خاتمے کا اعلان محض اس امر کا اقرار تھا جس سے تمام باخبر لوگ پہلے ہی واقف تھے، یعنی کامنٹرن بطور عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ادارے کے کب کی مر چکی تھی۔ اس کے انجام کی پیش گوئی بہت عرصہ پہلے ہی کر دی گئی تھی۔
تیسری انٹرنیشنل پچھلی عالمی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سرمایہ داری کے بحران کی پیداوار تھی۔ انقلابِ روس نے پوری دنیا کے محنت کشوں میں ایک انقلابی لہر کو جنم دیا تھا۔ جنگ سے تنگ اور برباد حال عوام کے لئے یہ انقلاب امید اور جرأت کا پیغام تھا، جو انہیں سرمایہ داری کی تخلیق کردہ خون آشام درندگی سے باہر نکلنے کا راستہ دکھا رہا تھا۔ تیسری انٹرنیشنل کا جنم پہلی عالمی جنگ میں دوسری انٹرنیشنل کی غداری اور ٹوٹ پھوٹ کا براہ راست نتیجہ تھا۔
جرمنی، آسٹریا، ہنگری کے انقلابات اور اٹلی، فرانس اور حتیٰ کہ برطانیہ میں پیدا ہونے والی انقلابی صورتحال سرمایہ داری اور سامراج کے بحران کی غمازی کر رہی تھی۔ پورے یورپ پر سوشلسٹ انقلاب کا بھوت منڈلا رہا تھا۔ اس عرصے کے تقریباً تمام بورژوا سیاست دانوں کی تحاریر اور یاد داشتیں، بورژوازی میں حالات کا کنٹرول کھو دینے کے سبب پیدا ہونے والے خود اعتمادی کے بحران کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں۔ یہ سوشل ڈیموکریسی تھی، جس نے سرمایہ داری کو بچایا۔
طاقتور ٹریڈ یونین اور سوشلسٹ افسر شاہی نے عوامی تحریکوں کی قیادت سنبھال کرانہیں بے ضرر راستوں پر ڈالتے ہوئے ضائع کر دیا۔ جرمنی میں نوسکی اور شائیڈیمان نے جنکرز اور سرمایہ داروں کے ساتھ مل کرانقلاب کو تباہ کر دیا۔ طاقت نومبر1918ء کے انقلاب سے جنم لینے والی محنت کشوں، سپاہیوں، ملاحوں، کسانوں اور یہاں تک کہ طلبہ کی سوویتوں کے پاس تھی۔ سوشل ڈیموکریٹس نے یہ طاقت واپس بورژوازی کے ہاتھ میں تھما دی۔
اپنے اصلاح پسندانہ نظریات کے تحت وہ سرمایہ داری کوآہستہ آہستہ، بتدریج اور پر امن طریقے سے سوشلزم میں بدلنے کے خواہاں تھے۔ 1920ء میں اطالوی محنت کش فیکٹریوں پر قابض ہوچکے تھے۔ مگرسوشلسٹ پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے ان کی راہنمائی کرنے کی بجائے انہیں ’غیر آئینی اقدامات‘ اٹھانے سے منع کر دیا۔ یہی سب کچھ پورے یورپ میں ہوا۔ اس پروگرام کا نتیجہ آج بھی تاریخ کی سب سے زیادہ بھیانک اور خون ریز جنگ کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ لیکن یہ مارکسزم اور پرولتاری بین الاقوامیت کی غدار دوسری انٹرنیشنل کی ٹوٹ پھوٹ ہی تھی جس سے تیسری انٹرنیشنل کا جنم ہوا۔
پہلی عالمی جنگ کے آغاز پر ہی لینن نے بڑی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیسری انٹرنیشنل کے قیام کی بات کی۔ تیسری انٹرنیشنل کا باقاعدہ قیام مارچ1919ء میں ہوا تھا۔ اس کا اعلان کردہ مقصد اور مشن عالمی سرمایہ داری کا تختہ الٹتے ہو ئے متحد سوویت سوشلسٹ جمہوریاؤں کی ایک عالمی لڑی تخلیق کرنا تھا تا کہ وہ سوویت یونین کے ساتھ جڑجائے، جسے(سوویت یونین کو) بذات خود کسی آزادنہ حیثیت کی بجائے محض عالمی انقلاب کے بیس کیمپ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔اس کا انجام ناگزیر طور پر عالمی انقلاب کے انجام کے ساتھ جڑا ہو اتھا۔
تیسری انٹرنیشنل کی تخلیق نے نہایت تیزی کے ساتھ دنیا کے اہم ترین ممالک میں طاقتور کمیونسٹ پارٹیوں کو جنم دیا۔ جرمنی، فرانس، چیکو سلوواکیہ اور دیگر کئی ممالک میں وسیع عوامی پرتوں کی ممبر شپ رکھنے والی کمیونسٹ پارٹیاں تخلیق ہوئیں۔ برطانیہ میں بھی ایک چھوٹی مگر خاطر خواہ اثر ورسوخ رکھنے والی کمیونسٹ پارٹی کا جنم ہوا۔ ان تمام واقعات سے آنے والے عرصے میں عالمی انقلاب کی کامیابی یقینی نظر آ رہی تھی۔ پورے یورپ میں کمیونسٹ پارٹیاں سوشل ڈیموکریسی کوتہس نہس کرتے ہوئے مسلسل اپنی تعداد اور سیاسی اثر ورسوخ میں اضافہ کر رہی تھیں۔
پہلی عالمی جنگ نے عالمی سرمایہ داری کے کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کیا تھا بلکہ یہ انہیں اور بڑھانے کا سبب بنی تھی۔ سرمایہ داری لینن کے مطابق اپنی ’کمزور ترین کڑی‘ سے ٹوٹ چکی تھی۔ نوزائیدہ سوویت جمہوریہ کو بیرونی فوجی مداخلت کے ذریعے تباہ کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ جرمن سرمایہ داری، جو یورپ میں سب سے طاقتور تھی، اپنے وسائل، اپنے علاقے اور مقبوضات سے ہاتھ دھو چکی تھی۔ جنگی تاوان کی کمر توڑ ادائیگی نے اسے ایک ناممکن صورتحال سے دوچار کر دیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے ’فاتحین‘ یعنی برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں کی حالت بھی حتمی تجزئیے میں اس سے کچھ خاص بہتر نہ تھی۔
انقلابِ روس سے حوصلہ پا کر نوآبادیاتی اور نیم نوآبادیاتی ممالک کے عوام میں بھی انقلابی تحرک پیدا ہو رہا تھا۔ بذات خود سامراجی ممالک کے محنت کش عوام میں بھی شدید بے چینی پھیلی ہوئی تھی اور برطانوی و فرانسیسی سامراج کی معاشی صورتحال امریکی اور جاپانی سرمایہ داری کے مقابلے میں کہیں ابتر تھی۔ اس عالمی صورتحال کے پس منظر میں جرمنی میں 1923ء کی بغاوت برپا ہوئی۔ ورسائی معاہدے کے تحت لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے زبر دست پیداواری قوتیں رکھنے والا جرمنی بالکل مفلوج ہو کر رہ گیا تھااور نتیجتاً اب عالمی سرمایہ داری کی کمزور ترین کڑی بن چکا تھا۔
جنگی تاوان کی اقساط کی ادائیگی نہ کر سکنے پرفرانسیسی سرمایہ داروں نے روہر پر قبضہ کر لیا۔ اس سے جرمنی کی پہلے ہی سے بد حال معیشت مکمل طور پر منہدم ہو گئی۔ جرمن بورژوازی نے بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں اور درمیانے طبقے کے کندھوں پر منتقل کرنے کی کوشش کی۔ ایک برطانوی پاؤنڈ جو جنوری میں بیس سے چالیس جرمن مارک کے برابر تھا، جولائی میں پانچ ملین اور اگست میں 47ملین مارک کے برابر ہو گیا۔ حالات سے تنگ جرمن عوام کمیونزم کا رخ کرنے لگے۔
جیسا کہ (جرمن) کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر برینڈلر نے کامنٹرن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں کہا تھاکہ:
”ایک انقلابی ابھار کی علامات نظر آ رہی تھیں۔ ایک وقت میں محنت کشوں کی اکثریت ہمارے ساتھ تھی اور ہمیں یقین تھا کہ موافق حالات میں ہم فوری طور پر حملے کی طرف بڑھیں گے۔۔۔“
لیکن بد قسمتی سے انٹرنیشنل کی قیادت واقعات کے امتحان پر پورا اترنے اور ان کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی۔ جرمنی میں کامیابی ناگزیر طور پر پورے یورپ میں فتح کا سبب بنتی۔ لیکن 1917ء میں روس کی طرح 1923ء میں جرمن قیادت کے کئی حصے بھی شدید تذبذب کا شکار ہوگئے۔
اپنی نامیاتی موقع پرستی کے تحت سٹالن نے اس بات پر زور دیا کہ پارٹی کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے’روک‘ دینا چاہیے۔ اس کا نتیجہ جرمنی میں طاقت پر قبضہ کرنے کے لئے میسر سازگار موقع کے ضیاع اور کمیونسٹوں کی زبردست شکست کی صورت میں نکلا۔ ایسی ہی وجوہات کی بنا پر بلغاریہ میں انقلاب کو شکست ہوئی۔ قیادت کی غلطیوں کے باعث ہونے والی یورپی انقلاب کی شکست کے انتہائی خوفناک نتائج نکلے۔ جیسا کہ لینن نے1917ء میں روس میں (انقلاب سے قبل) مسلح سرکشی کی تیاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ:”روسی اور عالمی انقلاب کی کامیابی دو یا تین دن کی جدوجہد پر منحصر ہے۔“
عالمی انقلاب کی ناکامی اور سوویت یونین کی تنہائی، اس کی پسماندگی، سالوں تک جنگ، خانہ جنگی، بدحالی اور بربادی سے سوویت عوام میں جنم لینے والی تھکن اور یورپی محنت کشوں کی مدد نہ ملنے پر ان میں پھیلنے والی مایوسی: ان سب عوامل نے سوویت یونین میں رجعت کوجنم دیا۔
رجعتی اور تنگ نظر سوویت افسر شاہی، جو خود کو عوام سے بالا کرنے کا آغاز کر چکی تھی، کے مفادات کی (غالباً) لا شعوری غمازی کرتے ہوئے 1924ء میں سٹالن نے پہلی دفعہ ’ایک ملک میں سوشلزم‘ کی یوٹوپیائی اور غیر لیننی پالیسی پیش کی۔ یہ ’نظریہ‘ جرمن انقلاب کی ناکامی کا براہ راست نتیجہ تھا۔ یہ انقلابِ روس اور کیمونسٹ انٹر نیشنل کی بنیاد بننے والی پرولتاری بین الاقوامیت سے مونہہ موڑنے کی غمازی تھی۔
جنوری 1924ء میں سٹالن نے لینن کے جنازے پر، انقلابِ روس کی روایات کے مطابق پڑی عادت کے تحت، تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
”ہم سے بچھڑ کر کامریڈ لینن نے ہم پر کمیونسٹ انٹر نیشنل کے ساتھ وفا داری کو فرض کر دیا ہے۔ کامریڈ لینن، ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم اپنی زندگیاں دنیا بھر کے محنت کشوں کے اس اتحاد، یعنی کمیونسٹ انٹر نیشنل، کی بڑھوتری اور مضبوطی کے لئے صرف کر دیں گے۔“
اس وقت اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ایک ملک میں سوشلزم کا نظریہ سوویت یونین اور کامنٹرن کو کدھر لے جائے گا۔
ان دنوں سے لے کر آج تک کامنٹرن کی تاریخ سوویت افسر شاہی کی عملیت پسندانہ پالیسیوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ لینن نے ہمیشہ سوویت یونین کے مقدر کاعالمی محنت کش طبقے، اور خصوصاً اس کے ہراول دستے یعنی کمیونسٹ انٹر نیشنل، کے ساتھ جڑے ہونے پر زور دیا تھا۔ یہاں تک کہ سرخ فوج کے سپاہیوں کا حلف بھی انہیں دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ وفاداری کا پابند کرتا تھا۔ بلاشبہ سرخ فوج ایک آزاد ’قومی‘ قوت کی بجائے عالمی انقلاب کے ایک اوزار کے طور پر تخلیق کی گئی تھی۔
مگر ایک طویل عرصہ ہوا، یہ سب کچھ سٹالن کے ہاتھوں بدل چکا ہے۔ ٹراٹسکی، لینن کے ساتھ مل کر، جو اپنے آخری سالوں میں ابھرتی ہوئی صورتحال کو تشویش کے ساتھ دیکھ رہا تھا، 1923ء میں ہی بالشویک پارٹی اور سوویت ریاست کی افسر شاہانہ زوال پذیری کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر چکا تھا۔
قومی اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی رجعت کے پس منظر میں بین الاقوامیت پسندوں اورتھرمیڈورینز (تھرمیڈور: سماجی ردِ انقلاب کے بغیر سیاسی رجعت۔مترجم) کے درمیان جدوجہد بھی شدت اختیار کر گئی۔ لینن کے ساتھ اتحاد میں ٹراٹسکی نے بالشویک پارٹی اور سوویتوں میں مکمل جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔ لینن نے اسی مقصد کے تحت سٹالن کو پارٹی جنرل سیکرٹری کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ وہ افسر شاہی کا شخصی اظہار بن رہا تھا۔
لینن کی وفات کے بعدزینوویف، کامینیف اور سٹالن کے ’اتحادثلاثہ‘ نے لینن کی تجاویز کے خلاف سینٹرل کمیٹی سے فیصلہ لے لیا اور لینن کے نظریات، جن کا دفاع ٹراٹسکی کر رہا تھا، کے خلاف ایک مہم کا آغاز کر دیا۔ اس مقصد کے لئے ’ٹراٹسکی ازم‘ کو ایجاد کیا گیا۔ کامنٹرن کا مقدر بالشویک پارٹی کے مقدر کے ساتھ جڑا ہو اتھا، جو اپنے تجربے اور سیاسی اتھارٹی کی بدولت قدرتی طور پرانٹرنیشنل میں حاوی قوت تھی۔
عالمی انقلاب کی پالیسی کا ایک ملک میں سوشلزم کی پالیسی کے ساتھ تبدیل کیا جاناکامنٹرن کے دائیں طرف شدید جھکاؤ کی غمازی کرتا تھا۔ روس میں زینوویف اور کامینیف، سٹالن کی غیر مارکسی پالیسیوں کے باعث اپوزیشن کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے ٹراٹسکی اور اس کے حامیوں کے ساتھ اتحاد بنا لیا۔ سٹالن نے بخارن کے ساتھ مل کر ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ روس میں پانچ سالہ منصوبوں کے تحت صنعت کاری کی تجویز کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اپریل1927ء میں سینٹرل کمیٹی کی پلانری میٹنگ میں یہ الفاظ کہے:
”ہمارے لئے نیپر سٹرائے ہائیڈرو الیکٹرک سٹیشن تعمیر کرنے کی کوشش کرنا بالکل ایسے ہی ہو گاجیسے کوئی غریب کسان گائے کی بجائے گرامو فون خرید لے۔“
1927ء کے اختتام پر، پندرہویں پارٹی کانگریس کی تیاریوں کے دوران، جس کا مقصد لیفٹ اپوزیشن کو نکال باہر کرنا تھا، مولوٹوف نے کئی مرتبہ کہا:
”ہمیں کسی صورت بھی اجتماعی کاشت کاری کے متعلق غریب کسانوں کی خوش فہمیوں کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں ہے۔“
روس میں پالیسی یہ تھی کہ کولاکوں (امیر کسانوں) اور نیپ مین(1921ء کی نیو اکنامک پالیسی سے جنم لینے والے چھوٹے سرمایہ دار)کو معاشی ترقی کے بھر پور مواقع فراہم کئے جائیں۔ سٹالن کی بھر پور حمایت کے ساتھ بخارن کی طرف سے تخلیق کردہ نعرے ”اپنے آپ کو امیر بناؤ!“ میں اس پالیسی کا زبردست اظہار ہوتا ہے۔
سٹالن کی تمام تر توجہ ’سوویت یونین کے فوجی دفاع‘ کی خاطر اتحادی ڈھونڈنے پر مرکوز تھی اور اس امر نے کامنٹرن کی پالیسی کو شدید دائیں طرف دھکیل دیا۔ کامنٹرن کا کردار محض ایک سرحدی محافظ کا رہ گیا تھا۔ بالشویک پارٹی اور انٹرنیشنل میں موجود تضادات چینی انقلاب اور بر طانیہ کی صورتحال کے گرد کھل کر سامنے آ گئے۔ چین میں 1925-27ء کا انقلاب ایشیا کے لاکھوں عوام کو تحرک میں لا رہا تھا۔ کامنٹرن نے انقلاب کی کامیابی کے لئے محنت کشوں اور کسانوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے، جیسا کہ روس میں لینن کی پالیسی تھی، چینی سرمایہ داروں اور جر نیلوں پرانحصار کیا۔
لیفٹ اپوزیشن نے اس پالیسی کے نتائج کے متعلق پہلے ہی وارننگ دے دی تھی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی چین کی واحد مزدور پارٹی تھی اور محنت کش طبقے پر زبر دست اثر ورسوخ رکھتی تھی، مزید برآں کسان بھی روسی انقلاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جاگیروں پر قبضے کے ذریعے جاگیر داروں کے ہاتھوں اپنے صدیوں پرانے استحصال کا خاتمہ چاہتے تھے۔ لیکن کامنٹرن نے انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ مشرق میں بورژوا جمہوری اور سامراج مخالف انقلابات کے لئے محنت کش طبقے کی آزادانہ پالیسیاں اختیار کرنے سے انکار کردیا، جسے لینن کمیونسٹ پالیسی کی شرطِ اول قرار دیتا تھا۔
برطانیہ میں بھی، جہاں عوام میں انقلابی تحرک بیدار ہو رہا تھا، ایسی ہی پالیسیاں اپنائی گئیں۔ برطانوی عوام کی انقلابی بیداری کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقلیتی تحریک (برطانوی ٹریڈ یونینز کے بائیں بازو کی متحد تنظیم جو کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر تھی) کے ممبران کی تعداد دس لاکھ تھی جو برطانیہ میں کل ٹریڈ یونین ممبر شپ کا ایک چوتھائی تھے۔ لیکن سوویت یونین کے فوجی دفاع کی غرض سے روسی ٹریڈ یونینز نے برطانیہ کی ٹریڈ یونین کانگریس کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا۔ ٹراٹسکی نے بر طانیہ کی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک عام ہڑتال کا تناظر دیا۔
کمیونسٹ انٹر نیشنل اور (برطانوی) کمیونسٹ پارٹی کافریضہ تھا کہ وہ ٹریڈ یونین قیادت کی ناگزیر غداری کے متعلق محنت کشوں کو خبر دار کرتے اور انہیں اس کے لئے تیار کرتے، لیکن انہوں نے ٹریڈ یونین قیادت کے متعلق محنت کشوں کے ذہن میں خوش فہمیاں پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اور وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جب پہلے ہی برطانوی ٹریڈ یونین افسر شاہی نے روسی ٹریڈ یونینز کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی آڑ (روسی ٹریڈ یونینز کی سیاسی اتھارٹی کی وجہ سے) لے رکھی تھی۔ جب برطانوی ٹریڈ یونین افسر شاہی نے 1926ء کی عام ہڑتال سے غداری کی تو ٹراٹسکی نے مطالبہ کیا کہ روسی ٹریڈ یونینز فوراً ٹریڈ یونین کانگریس کے ساتھ قطع تعلق کر لیں لیکن سٹالن اور کامنٹرن نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
عام ہڑتال کے تقریباً ایک سال بعد،اینگلو-رشین کمیٹی کو اپنے مفادات کے لئے جی بھر کر استعمال کرنے کے بعد، برطانوی ٹریڈ یونین قیادت نے خود ہی روسی ٹریڈ یونینز کے ساتھ معاہدہ توڑ دیا۔ اس ’دھوکے‘ پر کامنٹرن کی چیخیں نکل گئیں۔ لیکن اس چیخ وپکار سے قطع نظربرطانیہ کی نوخیز کمیونسٹ پارٹی، جو کہ ان غیر معمولی واقعات کے دوران اپنی ممبر شپ میں بے تحاشا اضافہ کر سکتی تھی، انٹرنیشنل کی غلط پالیسیوں کے باعث بالکل مفلوج اور بے سمت ہو کر رہ گئی۔ وہ برطانوی محنت کشوں کی نظروں میں اپنی اتھارٹی کھو بیٹھی اور اس کا اثر ورسوخ تیزی سے تبا ہ وبرباد ہو گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سٹالن اور افسر شاہی کی پالیسیوں کی بدولت انٹر نیشنل کو ہونے والی پے در پے شکستوں نے وقتی طور پر سوویت یونین میں افسر شاہی کی طاقت کو بڑھاوا دیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی مزدور تحریک کی ان شکستوں نے سوویت عوام کا حوصلہ توڑ دیا اور ان میں مایوسی پھیلا دی۔لہٰذا وہ شکستیں اور ناکامیاں، جو سٹالن اور افسر شاہی کی پالیسی کا براہ راست نتیجہ تھیں، سوویت اقتدار پر ان کی گرفت مزید مضبوط کرنے کا سبب بنیں۔ ٹراٹسکی کی سربراہی میں لیفٹ اپوزیشن، جس نے اس تمام صورتحال کا بالکل درست تجزیہ و تناظر پیش کیا تھا، کو بالشویک پارٹی اور انٹر نیشنل سے نکال دیا گیا۔
سٹالن کی پالیسیوں کے داخلی نتائج اب کولاکوں اور نیپ مین کی تعداد، طاقت اور اثر ورسوخ میں تیز ی کے ساتھ ہونے والے اضافے کی صورت میں سامنے آ رہے تھے۔ سوویت یونین تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا۔ گھبراہٹ اور خوفزدگی کے عالم میں سٹالن اور افسر شاہی ٹراٹسکی اور اس کے ساتھیوں کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہو گئے، لیکن ایک انتہائی مسخ شدہ افسر شاہانہ شکل میں۔ روس میں پانچ سالہ منصوبوں، جن کی سٹالن نے کبھی اتنی سخت مخالفت کی تھی، کا آغاز کیا گیا۔
یہ منصوبہ بند معیشت ہی ہے جس کے ذریعے سوویت یونین نے اپنی سب سے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جس پر آج یہ اپنی جنگی کاوشوں کے لئے انحصار کر رہا ہے۔ لیکن داخلی سطح پر گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں کئے گئے بائیں جانب کے اقدامات کا اثر خارجہ پالیسی پر بھی ہوا اور عالمی سطح پر بھی ایسے ہی پریشانی اور جلد بازی کی کیفیت میں بائیں طرف جھکاؤ اختیار کیا گیا۔ سٹالن سوشل ڈیمو کریسی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے اور چین میں بورژوا عناصر پر انحصار کرنے کی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے بری طرح انگلیاں جلا بیٹھا تھا۔ اب اس نے گھبرا کر انٹرنیشنل کو تیزی سے دوسری جانب موڑ دیا۔ انٹرنیشنل کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چار سال تک اس کی کانگریس کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا۔ بالآخر جب کانگریس ہوئی تو اس میں کچھ نئی پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ یہ کہا گیا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کا دور ختم ہو چکا ہے اور اب ’تیسرے دور‘ کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس دور کا انت عالمی سرمایہ داری کے حتمی انہدام کی صورت میں ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل ڈیموکریسی کو، سٹالن کی مشہور زمانہ (لیکن اب دفن شدہ) تھیوری کے تحت ’سوشل فاشزم‘قرار دے دیا گیا۔ ’سوشل فاشسٹوں‘ کے ساتھ اب کسی قسم کے کوئی معاہدے نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ اب وہ محنت کش طبقے کو درپیش سب سے بڑا خطرہ تھے اور ان کا تباہ کیا جانا لازم تھا۔
یہ بالکل وہی عرصہ تھا جس میں 33-1929ء کا غیر معمولی معاشی بحران پوری سرمایہ دارانہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا۔ خاص طور پر اس نے جرمنی کو بہت متاثر کیا تھا۔ جرمن محنت کش ذلت اور تباہی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلے گئے۔ درمیانہ طبقہ بھی بالکل برباد ہو کر رہ گیا۔ بیروزگاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ یہ تعداد 80لاکھ تک جا پہنچی۔ تباہ حال درمیانہ طبقہ، جو 1918ء اور 1923ء کے انقلابات کی ناکامی اور کمیونسٹ قیادت کی غلطیوں کے باعث مزدور تحریک سے شدید مایوسی کا شکار تھا، اب اپنے مسائل کے حل کی خاطر ایک مختلف سمت میں دیکھنے لگا تھا۔
سرمایہ داروں کی بھرپور مالی امداد کے ساتھ فاشسٹوں نے درمیانے طبقے اور محنت کشوں کی پچھڑی ہوئی پرتوں میں جڑیں بنانا شروع کر دیں۔ ستمبر1930ء کے انتخابات میں انہوں نے تقریباً 65 لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل سے نکالے جانے کے باوجود ٹراٹسکی اور اس کے ساتھی ابھی بھی اپنے آپ کو انٹرنیشنل کا حصہ سمجھتے تھے اور انہوں نے کئی بار مطالبہ کیا کہ انہیں واپس انٹر نیشنل میں لیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کامنٹرن کی طرف سے اختیار کی گئی خود کش پالیسی پر زبر دست تنقید جاری رکھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان تباہ کن پالیسیوں کی بجائے لینن کی یونائیٹڈ فرنٹ(متحدہ محاذ) کی درست پالیسی کو واپس اختیار کیا جائے، تا کہ محنت کش عوام کو عمل کے اندر ان کے اپنے تجربات کے ذریعے کمیونزم کی طرف جیتا جا سکے۔
ہٹلر کی انتخابی جیت پر ٹراٹسکی نے فوراً خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ اپنے پمفلٹ بعنوان ”کمیونسٹ انٹرنیشنل کا بدلاؤ۔۔جرمنی کی صورتحال“سے ٹراٹسکی نے ایک مہم کا آغاز کیاجسے کامنٹرن کی عالمی لیفٹ اپوزیشن، جیسا کہ ٹراٹسکائیٹ خود کو سمجھتے تھے، نے تین سال تک جاری رکھا۔ جرمنی، فرانس، امریکہ، برطانیہ، دور دراز جنوبی افریقہ سمیت جن ممالک میں بھی ٹراٹسکائیٹس کے گروپس تھے، وہاں انہوں نے مہم چلائی کہ جرمن کمیونسٹ پارٹی کوہٹلر کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے سوشل ڈیموکریٹوں کے ساتھ ایک یونائیٹڈ فرنٹ بنانا چاہئے۔
کامنٹرن اور سٹالن کی براہ راست ہدایات پر جرمن کمیونسٹ پارٹی نے اس درست پالیسی کو ردِ انقلابی اور ’سوشل فاشسٹ‘ قرار دیا۔ وہ بضد تھے کہ سوشل ڈیموکریسی محنت کش طبقے کی ’مرکزی دشمن‘ہے اور جمہوریت اور فاشزم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ستمبر1930ء میں جرمن کمیونسٹ پارٹی کے رسالے ”روتے فاہن“ میں اعلان کیا گیا:
”گزشتہ رات ہٹلر کے لئے بہت عظیم تھی، مگر نازیوں کی نام نہاد انتخابی فتح اختتام کا آغاز ہے۔“
ان تمام سالوں میں کامنٹرن اپنے تباہ کن راستے پر گامزن رہی۔ جب ہٹلر نے پروشیا میں سوشل ڈیموکریٹ حکومت کو اقتدار سے اتارنے کی خاطر 1931ء میں ایک ریفرنڈم کرایا، تو کامنٹرن اور سٹالن کی براہ راست ہدایات پر جرمن کمیونسٹوں نے نازیوں کے ساتھ مل کرسوشل ڈیموکریٹس کے خلاف ووٹ ڈالا۔ یہاں تک کہ مئی 1932ء میں بھی برطانوی کمیونسٹ پارٹی کا اخبار ”ڈیلی ورکر“بڑے غرور کے ساتھ ٹراٹسکائیٹس پر الزام تراشی کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”یہ بہت اہم ہے کہ ٹراٹسکی فاشزم کے خلاف کمیونسٹ اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان ایک یونائیٹڈ فرنٹ کے قیام کا دفاع کر رہا ہے۔ موجودہ وقت میں اس سے زیادہ غلط اور ردِ انقلابی پالیسی نہیں دی جا سکتی تھی۔“
اسی عرصے میں ٹراٹسکی نے اس معاملے پر چار پمفلٹ اور درجنوں آرٹیکلز اور مینی فیسٹو لکھے۔ ہر جگہ جہا ں بھی ٹراٹسکائیٹس موجود تھے، انہوں نے کامنٹرن پر اپنی تباہ کن پالیسی تبدیل کرنے کے لئے ہر ممکن دباؤ ڈالا۔ مگر یہ سب بے سود گیا۔ جنوری1933ء میں ہٹلر ایک ایسے ملک میں کسی منظم مزاحمت کا سامنا کئے بغیر بر سر اقتدار آ گیاجو دنیا کا سب سے منظم محنت کش طبقہ اور روس سے باہر دنیا کی سب سے طاقتور کمیونسٹ پارٹی رکھتا تھا۔
یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ رجعت محنت کش طبقے کی کسی مزاحمت کا سامنا کئے بغیر ہی اقتدار پر قابض ہو گئی۔جرمن کمیونسٹ پارٹی کے حامیوں کی تعداد 60لاکھ تھی جبکہ سوشل ڈیموکریسی کے قریب کوئی 80لاکھ حمایتی تھے۔ متحد ہو کر وہ جرمنی کی سب سے بڑی طاقت بن سکتے تھے۔ مگر اس غداری نے جرمن کمیونسٹ پارٹی کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔
مگر کامنٹرن اپنی پھیلائی ہوئی تباہی کو پہچاننے تک سے انکاری تھی۔ اس کے برعکس اس نے بھر پور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو بالکل درست قرار دیا۔ وہ تنظیم جو تاریخ کے اسباق سے نہ سیکھ سکے، فنا ہو جاتی ہے۔ عالمی انقلاب کے اوزار کے طور پر کمیونسٹ انٹر نیشنل کی موت ہو چکی تھی۔ عالمی لیفٹ اپوزیشن نے اس سے ہر ناطہ توڑ دیا اور ایک نئی انٹرنیشنل کی ضرورت کا اعلان کیا۔ مگر وہ امر جو ہر اول پرتوں پر واضح ہو چکا تھا،اور نتیجتاً وہ کامنٹرن کی اصلاح کی کوششیں ترک کر چکے تھے،ابھی عوام کی وسیع ترین اکثریت پر واضح نہیں تھا۔صرف غیر معمولی واقعات ہی انہیں سکھا سکتے تھے۔
کمیونسٹ انٹرنیشنل اپنی اس غلط پالیسی پر 1934ء تک کاربند رہی۔ جب فرانس میں فاشسٹوں نے آسٹریا اور جرمنی میں فاشزم کی کامیابی سے حوصلہ پاتے ہوئے لبرل حکومت اور پارلیمنٹ کا تختہ الٹنے کی خاطر مسلح مظاہرے کئے تو فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی نے ان مظاہروں میں شرکت کی۔ مگر اب ہٹلر سے سوویت یونین کو لاحق خطرہ سب پر واضح ہو چکا تھا۔ سٹالن اور افسر شاہی شدید گھبراہٹ کا شکار ہو چکے تھے۔ عالمی انقلاب کے اوزار کے طور پر کمیونسٹ انٹر نیشنل کی صلاحیت پر اعتماد نہ کرنے کی وجہ سے سٹالن نے اسے کھل کر روسی خارجہ پالیسی کے ایک اوزار میں تبدیل کر دیا۔
کسی طبقاتی سماج میں کوئی تنظیم اگر محنت کش طبقے کے حقیقی مفادات کی نمائندگی کرنا چھوڑ دے تو وہ ناگزیر طور پربورژوازی کے دباؤ اور اثر ورسوخ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اتحادیوں کی تلاش میں سٹالن نے اب برطانیہ اور فرانس کی بورژوازی کا رخ کیا۔ اس مقصد کے لئے ’پاپولر فرنٹ‘ کی پالیسی کا آغاز کیا گیا اور1935ء میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ انٹر نیشنل کی آخری کانگریس میں اسے کامنٹرن کی آفیشل پالیسی کے طور پر اپنا لیا گیا۔ لبرل سرمایہ داروں کے ساتھ اتحاد اور اشتراک کی اس پالیسی کے خلاف لینن نے ساری عمر جدوجہد کی تھی۔ یہ کامنٹرن اور دنیا کی پہلی مزدور ریاست کی زوال پذیری کے ایک نئے مر حلے کی عکاسی کرتی تھی۔
سٹالن کی پالیسیوں کے باعث ہٹلر کے بر سر اقتدار آنے اورعالمی مزدور تحریک کو ہونے والی دیگر شکستوں کے سبب سوویت یونین پر افسر شاہی کا شکنجہ مزید سخت ہو گیا۔ افسر شاہانہ پرت نے اپنے آپ کو سوویت عوام سے نہایت بالا کرتے ہوئے اپنے اختیارات میں بے تحاشا اضافہ کر لیا تھا۔ مگر زوال پذیری کے اس مسلسل سفر میں معیاری جستیں بھی لگی تھیں۔ عالمی محنت کش طبقے کو ہونے والے شکستوں کا موجب بننے سے آگے بڑھ کر اب سٹالن ازم ویسے ہی دوسرے ممالک میں مزدور انقلابات کا مخالف بن چکا تھا۔ ماسکو مقدمات، پرانے بالشویکوں کا قتل، پارٹی سے بیدخلیاں، ہزاروں محنت کشوں، جو کہ روسی محنت کش طبقے کا ہر اول دستہ تھے، کا قتل عام اور جلا وطنی، ان سب اقدامات نے سوویت یونین میں سٹالنسٹ (سیاسی) ردِ انقلاب کو مکمل کر دیا۔
فرانس اور سپین میں ہونے والے واقعات ہر انقلابی کے ذہن میں تازہ ہیں۔ کامنٹرن نے ایسے انقلابات کو تباہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا جنہیں بآسانی پایہئ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا تھا۔ بلاشبہ وہ ردِ انقلاب کا ہر اول دستہ بن چکی تھی۔ عالمی محنت کش طبقے کی شکستوں کا ناگزیر نتیجہ ایک نئی عالمی جنگ کی صورت میں نکلا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہٹلر اور سٹالن کے بیچ ہونے والا معاہدہ اس جنگ کے آغاز کا فوری سبب بنا۔ اس طرح سٹالن عالمی مزدور تحریک اور کامنٹرن کی مزید تباہی کا سبب بنا۔ اس نے اب الٹی قلابازی کھاتے ہوئے ہٹلر کے مفاد میں ایک امن مہم کا آغاز کیا اور اسے بڑی چالاکی سے ’انقلابی پالیسی‘ کا لبادہ پہنا دیا۔
ٹراٹسکی نے مارچ 1933 ء میں ہی سٹالن اور ہٹلر کے بیچ ہونے والے معاہدے کی پیش گوئی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:
”حالیہ سالوں میں سٹالن کی عالمی پالیسی کا بنیادی خاصہ یہ ہے کہ وہ تیل،مینگنیز اور دیگر اشیا کی طرح مزدور تحریکوں کی بھی تجارت کرتا ہے۔ اس جملے میں رتی برابر بھی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ سٹالن کی نظر میں مختلف ممالک میں کامنٹرن کے سیکشنز اور مظلوم اقوام کی جدوجہدِ آزادی کی حیثیت محض سامراجی طاقتوں کے ساتھ سودے بازی میں استعمال ہونے والی ریز گاری کی ہے۔ جب اسے فرانس کی مدد چاہیے ہوتی ہے تو وہ فرانسیسی پرولتاریہ کو ریڈیکل بورژوازی کے تابع کر دیتا ہے۔ جب اسے جاپان کے خلاف چین کی حمایت کرنی ہوتی ہے تو وہ چینی پرولتاریہ کو کومنتانگ کے تابع کر دیتا ہے۔ ہٹلر کے ساتھ ایک معاہدہ ہونے کی صورت میں وہ کیا کرے گا؟ یقینی طور پر ہٹلر کو جرمن کمیونسٹ پارٹی کا گلا گھونٹنے کے لئے سٹالن کی کوئی خاص مدد درکار نہیں ہے۔ پارٹی کی تمام تر سابقہ پالیسی نے ویسے ہی اس کا حشر کر کے رکھ دیا ہے۔ مگر اس امر کا غالب امکان ہے کہ سٹالن جرمنی میں تمام غیر قانونی(پارٹی)کام کی امداد بند کرنے پر رضامند ہو جائے گا۔ اسے جن معاملات پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا، یہ ان میں سے سب سے زیادہ معمولی ہے، لہٰذا وہ ایسا کرنے پر فوراً مان جائے گا۔ کوئی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ تب فاشزم کے خلاف اس ہسٹریائی اور کھوکھلی مہم کو، جو کامنٹرن پچھلے چند سالوں سے چلا رہی ہے، انتہائی عیاری کے ساتھ دفن کر دیا جائے گا۔“
سٹالن کی اس پالیسی اور کامنٹرن کی ’سڑتی ہوئی لاش‘ کو سوویت یونین پر نازی حملے سے ناقابل تلافی زک پہنچی۔ لہٰذا کامنٹرن نے ایک اور الٹی قلابازی کھائی اور دوبارہ سے امریکی اور برطانوی سامراج کے تلوے چاٹنے لگی۔ مگر ان سامراجی طاقتوں پر سٹالن کے بڑھتے ہوئے انحصار کے ساتھ ہی اس پر ان بورژوا ’اتحادیوں‘ کا دباؤ بھی بڑھتا گیا۔ خاص طور پر امریکی سامراج ہٹلر کی شکست کے بعد یورپ میں سماجی انقلاب برپا ہونے کے خطرے کے خلاف ایک فیصلہ کن گارنٹی کے طور پرکامنٹرن کا خاتمہ چاہتا تھا۔
لمبے عرصے سے چلا آنے والا یہ دھوکا اب ختم ہو چکا ہے۔ سٹالن نے زوال شدہ کامنٹرن کو تحلیل کر دیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے دنیا کے تمام دیگر ممالک کے معاملے میں کھل کر سرمایہ دارنہ ردِ انقلاب کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اگرچہ سامراجیوں نے سٹالن کے ساتھ سودے بازی کرتے ہوئے اس سے یہ اقدام تو کروا لیا ہے، مگر انہیں اس کے نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔ یہ اقدام دنیا بھر میں نئے انقلابات کو برپا ہونے سے نہیں روک سکتا۔ اپنی زوال پذیری کے آغاز سے دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں کامنٹرن نے بے شمار ممالک میں انقلابات کو برباد کر ڈالا۔
آنے والی دہائیوں میں ہم سرمایہ داری کے انہدام اور ٹوٹ کر بکھرنے کے ساتھ کئی ایک انقلابات کا ابھار دیکھیں گے۔ دو عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے کا طوفانی عہد بھی اس آنے والے طلاطم خیز عہد کے مقابلے میں نسبتاً پر امن دکھائی دے گا۔ اسی اتھل پتھل اور طوفانوں کے اندر ہی عالمی انقلاب کا حقیقی اوزار تخلیق ہو گا۔ 1917-23ء تک کے کامنٹرن کے عظیم دن لوٹ آئیں گے۔ عالمی سطح پر مارکسزم کے نظریات کی حمایت میں اضافہ، ماضی کے وسیع تجربات، بالشویزم کی روایات اور محنت کش طبقے کی شکستوں کے اسباق ایک بار پھر استحصال کا شکار محکوموں کی سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے اور ایک عالم سوشلسٹ جمہوریہ کے قیام کی جانب راہنمائی کریں گے۔