|تحریر: الیساندرو گیارڈیلو، ترجمہ: اختر منیر|
انتونیو گرامچی 1937ء میں مسولینی کی فاشسٹ حکومت کے دوران دس سال جیل میں گزارنے کے بعد وفات پا گیا۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی، تاحال اس کے خیالات پر بحث جاری ہے اور اُن کی دوبارہ سے تشریح کی جا رہی ہے۔ گرامچی کون تھا؟ اس سوال کے ہر قسم کے عجیب و غریب اور حیرت انگیز جوابات دیے جا رہے ہیں جن میں پیٹی بورژوا تدریسی دانشوروں اور مزدور تحریک میں موجود ترمیم پسندوں کی جانب سے جعل سازی نہیں تو ابہام پیدا کرنے کی کوششیں ضرور شامل ہیں۔
انگریزی می پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”عظیم انقلابیوں کی زندگی کے دوران جابر طبقات کتوں کی طرح ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، ان کے نظریات کو شدید حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے خلاف جھوٹ اور نفرت کی بددیانت مہم چلاتے ہیں۔ ان کے مرنے کے بعد انہیں بے ضرر شبیہوں میں تبدیل کرنے اور ولی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے ناموں کو کھوکھلا کر کے انہیں مظلوم طبقات کی ”دلجوئی“ اور انہیں دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اسی دوران انقلابی نظریے کو اس کے جوہر سے محروم کر دیا جاتا ہے، تا کہ اس کی انقلابی دھار کو کند کرتے ہوئے اسے مسخ کیا جا سکے۔“ (ولادیمیر ایلچ لینن، ریاست اور انقلاب)
گرامچی کو اطالوی قوم کا بانی بنا کر پیش کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، جس کی بدولت برلسکونی جیسے دائیں بازو کے بورژوا سیاستدان بھی اس کی جانشینی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ یہ تو حد ہی ہو گئی ہے۔ اس سے قبل اسے پاپولر فرنٹ ازم کے ”تاریخی سمجھوتے“، یوروکمیونزم، کا نقیب بنا کر پیش کیا جاتا تھا، اور اب اسے ”پدرانِ قوم“ کی فہرست میں بھی شامل کیا جا رہا ہے، یعنی ایسی غیر جانبدار شخصیات جن کی سب عزت کریں، اس بات سے قطع نظر کہ وہ سیاسی لحاظ سے کس جانب کھڑے ہیں۔
یہ ہمارا اور ہر کمیونسٹ کا فرض ہے کہ وہ گرامچی کے نظریات کو مسخ کرنے کی تمام کوششوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو، چاہے وہ کوشش اصلاح پسند نقطہ نظر سے ہو یا پھر سماجی شاؤنسٹ نقطہ نظر سے۔
دی نیو آرڈر اور لیورنو سپلٹ
سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ گرامچی اور اس کے ساتھی ٹیورن میں The New Order (L’Ordine Nuovo) کے گرد منظم ہوئے۔ انہوں نے اکتوبر انقلاب کے عمومی اسباق کو مخصوص اطالوی صورتحال پر لاگو کرنے کا اہم کام سرانجام دیا اور یوں انہوں نے اطالوی محنت کش تحریک کی سب سے ترقی یافتہ پرت کی نمائندگی کی۔
”آرڈینووسٹس“ نے 1920ء میں فیکٹریوں پر قبضے کے دوران نہ صرف محنت کشوں کا دفاع کرتے ہوئے انہیں منظم کیا بلکہ صنعت پر محنت کشوں کے کنٹرول کے کردار کی وضاحت کرنے والے نظریاتی رہنماء بن کر بھی سامنے آئے۔ گرامچی کا خیال تھا کہ فیکٹری کمیٹیاں پیداوار کے شعبے میں محنت کشوں کا اوزار ہونے کے ساتھ ساتھ نئے سوشلسٹ سماج میں مزدور جمہوریت کی اساس بھی ہوا کرتی ہیں۔
1919-20ء کے اطالوی انقلاب کے دوران جسے، تاریخ میں ”دو انقلابی سالوں“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، گرامچی نے The New Order کے اوراق کا سہارا لیتے ہوئے اطالوی سوشلسٹ پارٹی (PSI) کو ترغیب دی کہ وہ صنعتی محنت کشوں اور کسانوں کو ”تمام اقتدار فیکٹری کمیٹیوں کے لیے“ کے نعرے کی بنیاد پر تعمیر شدہ انقلابی پروگرام سے لیس کرے۔
بلاشبہ یہ نظریات ٹیورن کے محنت کشوں کے ٹھوس تجربات کا حاصل تھے، مگر ہم گرامچی کی تحاریر پر بالشویکوں، سوویتوں اور اکتوبر انقلاب کے اثرات کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ گرامچی نے The New Order میں یہ الفاظ لکھے تھے: ”سوویت نے خود کو ایسے منظم سماج کی صورت میں امر ثابت کر دیا ہے جسے روسی عوام کی اکثریت کی مستقل اور بنیادی، معاشی اور سیاسی ضروریات کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔“
1919ء اور 1920ء کے دوران گرامچی کے دو مقاصد تھے جنہیں وہ، لینن کی پیروی کرتے ہوئے، انقلابی عمل کے لیے بنیادی تصور کرتا تھا۔ پہلا، طبقاتی جدوجہد اور محنت کشوں کی جمہوریت کے اوزاروں کی تخلیق تھا، جو محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں کو منظم کرنے کے لیے ضروری تھا۔ دوسرا، ایسی انقلابی قیادت کی تشکیل جو PSI اور عمومی محنت کش تحریک میں تمام اصلاح پسند اور معتدل رجحانات سے کنارہ کر سکے۔ توراتی جیسے اصلاح پسند اور سیراتی اور لزاری جیسے سنٹراسٹ انقلاب کی راہ میں رکاوٹ تھے: اول الذکر اس کی ضرورت سے ہی انکاری تھے اور آخرالذکر اس کے حق میں تھے مگر اس کی لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں تھے جو انقلاب سے منہ موڑنے کے مترادف تھا۔
گرامچی کی PSI میں گروہی جدوجہد نومبر 1920ء میں شروع ہوئی، جب ایمولا میں امیڈیو بورڈیگا نے کمیونسٹ دھڑے کی بنیاد رکھی۔ جنوری 1921ء میں لیورنو کے مقام پر یہ انقلابی دھڑا علیحدہ ہو گیا اور یوں اطالوی کمیونسٹ پارٹی (PCI) وجود میں آئی۔ لیورنو کانگریس پر 58,873 لڑاکا سوشلسٹوں اور پوری سوشلسٹ یوتھ نے کمیونسٹوں کا ساتھ دیا، 98,023 افراد سنٹراسٹ دھڑے کی طرف تھے اور 14,695 افراد توراتی کے اصلاح پسند دھڑے کے ساتھ تھے۔
کومنٹرن نے علیحدگی کی حمایت کی اور اس کی ایگزیکٹو کمیٹی نے توراتی کے اصلاح پسند دھڑے کو سوشلسٹ پارٹی سے نہ نکالنے کے سیراتی کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے PCI کو کومنٹرن کا واحد اطالوی سیکشن قرار دے دیا اور PSI کی خود ساختہ علیحدگی کو قبول کر لیا۔
کومنٹرن کی تیسری کانگریس (جون 1921ء) پر PSI نے کومنٹرن کی ممبرشپ حاصل کرنے کی درخواست کے لیے لزاری، مافی اور ربولڈی پر مشتمل اپنا وفد بھیجا۔ یہ درخواست رد کردی گئی مگر کومنٹرن کی قیادت نے PCI کو مشورہ دیا کہ PSI کے ساتھ مشترکہ محاذ(United Front) کا لائحہ عمل اپنایا جائے جس کا مقصد ان سوشلسٹوں کو اپنی جانب راغب کرنا تھا جو سوویت یونین کو پرجوش انداز میں دیکھتے تھے اور انقلابی راہ پر آگے بڑھ رہے تھے، مگر ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ انہیں سیراتی کی پارٹی سے علیحدہ ہونے کی ضرورت ہے۔
کانگریس کے موقع پر عالمی معاشی صورتحال پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے ٹراٹسکی نے انقلابی تحریک کے اتار کا منظر نامہ پیش کیا اور عبوری مانگوں کے حصول اور فاشزم سے لڑنے کی خاطر عوام کو جیتنے کے لیے مشترکہ محاذ کا لائحہ عمل اپنانے کی اہمیت پر زور دیا۔
کومنٹرن کو اندازہ تھا کہ PCI سے باہر موجود محنت کشوں کے پاس علیحدگی کی وجوہات کو سمجھنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اور انہیں جیتنے کے لیے محض انقلاب کا نعرہ کافی نہیں تھا، وہ پہلے ہی سیراتی سے یہ بیان بازی سن چکے تھے۔ کمیونسٹوں کو ایسے عملی اقدامات کی ضرورت تھی جو ان کی اس نئی پارٹی کے حقیقی انقلابی کردار کو واضح کر سکتے۔
مزید یہ کہ محنت کش حال ہی میں تاریخی شکست سے دوچار ہوئے تھے، کیونکہ اطالوی انقلاب کو CGL (اس وقت اٹلی کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین کنفیڈریشن تھی۔مترجم) اور PSI کے رہنماؤں کی جانب سے غداری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 1921ء کی بہار میں فاشسٹ متحرک ہو چکے تھے اور پورے ملک میں ٹریڈ یونینز، سوشلسٹ اور کمیونسٹ تنظیموں کے دفاتر کو آگ لگا رہے تھے۔ کمیونسٹوں کے پاس انہیں روکنے کا واحد راستہ یہ تھا کہ وہ سوشلسٹ محنت کشوں کو ایک مشترکہ محاذ بنانے کی پیشکش کرتے۔
بورڈیگا نے مشترکہ محاذ کے لائحہ عمل کو مسترد کر دیا اور وہ سوشلسٹوں کے ساتھ کسی قسم کے ”سمجھوتے“ کے خلاف تھا۔ ٹراٹسکی نے اس کے خلاف بحث کرتے ہوئے کہا: ”ہمارے نزدیک تیاری کا مطلب ایسے حالات پیدا کرنا ہے جو ہمارے لیے عوام کی وسیع حمایت کی ضمانت دے سکیں (۔۔۔) عوام کی منشاء پر نام نہاد ہراول دستے کے فیصلوں کو ترجیح دینا قطعاً مارکسی نہیں ہے اور اسے مسترد کرنا چاہیے۔“ اس نے مزید کہا: ”عوام کے بغیر انقلابی اقدامات نہیں کیے جا سکتے مگر عوام کبھی بھی مکمل طور پر خالص عناصر پر مشتمل نہیں ہوا کرتے۔“
بورڈیگا اس وقت PCI کا غیر متنازع رہنماء تھا۔ نئی پارٹی میں اس کے موقف کو بالادستی حاصل تھی اور نہ صرف گرامچی بلکہ PCI کی پوری قیادت کا بھی یہی موقف تھا۔
یہی وجہ تھی کہ پارٹی عوام کو جیتنے کی خواہش رکھنے کے باوجود مشترکہ محاذ کے لائحہ عمل کے خلاف تھی اور اس کا یہ موقف تھا کہ سوشلسٹوں کی غداری کو بے نقاب کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کے تعاون سے انکار کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ وہ ٹریڈ یونینوں میں مشترکہ محاذ بنانے پر تیار تھے، مگر سیاسی اور طبقاتی جدوجہد کے میدان میں نہیں۔
اپنے اس رویے کی بدولت PCI فاشسٹ گروہوں کی کامیابی میں بالواسطہ طور پر معاون ثابت ہوئی۔ جب ”Arditi del Popolo“ (فسطائیت مخالف جدوجہد کے اوزار) کی بنیاد رکھی گئی، جن کا مقصد سڑکوں پر فاشزم کے خلاف لڑنا تھا، تو محنت کشوں نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا اور زیادہ سے زیادہ سوشلسٹ، کمیونسٹ اور تمام علاقائی ٹریڈ یونین برانچیں ان کی جانب کھنچے چلے جانے لگے۔ PCI کی قیادت نے، کومنٹرن کے مشورے کے خلاف، حقارت آمیز رویہ اپناتے ہوئے Arditi del Popolo کا حصہ بننے والوں کو پارٹی سے نکالنا شروع کر دیا۔
بورڈیگا کو یہ خوش فہمی تھی کہ پارٹی محض اپنی منظم قوتوں اور لڑاکوں پر انحصار کرتے ہوئے فاشزم کے ابھار کو روک سکتی ہے۔ ایسے میں شکست ناگزیر تھی۔
گرامچی کی فرقہ پرستی کے خلاف جدوجہد
مئی 1922ء اور مئی 1924ء کے دوران گرامچی کو کومنٹرن کے اعلیٰ اداروں کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا (پہلے ماسکو اور پھر ویانا)۔ اس دوران اسے اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے موقع ملا، کچھ حد تک اس کا سہرا کومنٹرن کے رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی سخت بحثوں کو بھی جاتا ہے۔
اس کی نظر میں جنوری 1921ء، PCI کی تاریخ پیدائش، ”اطالوی بورژوازی کے عمومی بحران اور مزدور تحریک کے بحران، دونوں کے حوالے سے بڑا نازک لمحہ تھا۔ یہ علیحدگی تاریخی طور پر ضروری اور ناگزیر تھی، مگر عوام کی وسیع پرتیں اس کے لیے تیار نہیں تھیں اور اس سے گریزاں تھیں۔“
لہٰذا وہ بورڈیگا سے اختلاف کرنے لگا اور اس کے پارٹی کے تصور کو تنقید کا نشانہ بنانے لگا، جو عوام سے ان کی واضح دوری کا باعث تھا۔
اس نے بورڈیگا کی جانب سے کی جانے والی اپیل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا جس میں کومنٹرن کو PCI اور PSI کے انٹرنیشنلسٹ دھڑے (جسے ”ترزینی“ کہا جاتا تھا) کے درمیان الحاق کی کوششوں پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بورڈیگا کی اپیل کو پلمیرو توگلیاتی کی حمایت بھی حاصل تھی۔
دسمبر 1923ء میں، گرامچی نے PCI کے ایک ”معتدل“ دھڑے کے قیام کا خیال پیش کیا، جس کا مقصد بورڈیگا کی شدید فرقہ پرستی کے ساتھ ساتھ اینجلو تاسکا کے دائیں بازو کے موقف کی بھی مخالفت کرنا تھا۔ بورڈیگا کے دھڑے کے خلاف جدوجہد 1924ء میں کومو کانفرنس کے دوران شروع ہوئی اور 1926ء میں لیون کانگریس کے دوران اپنے عروج پر پہنچی۔
اس کانگریس پر گرامچی کے پیش کیے گئے تھیسس کو 90 فیصد سے زائد پارٹی کی حمایت حاصل ہوئی، جس میں کہا گیا تھا:
1۔ اطالوی سوشلسٹ انقلاب کی قیادت پورے ملک کے صنعتی اور زرعی محنت کش طبقات اور کسانوں کو کرنی ہو گی۔
2۔ محنت کش طبقہ انقلابی عمل اور عوام کی وسیع پرتوں کی قیادت سنبھال لیتا ہے۔
3۔ سماج کی تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے موجودہ نظام سے انقلابی بنیادوں پر الگ ہونا پڑے گا، جو کہ پارٹی کی جانب سے منظم شدہ عوامی بغاوت سے ہی ممکن ہے۔
4۔ دو سرخ سالوں کے دوران محنت کشوں کی شکست کا سبب ایک انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی تھا۔
5۔ PCI کو عوامی تنظیموں کے اندر، ان فوری مطالبات اور مقاصد کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے عوام کی اکثریت کو جیتنا ہو گا جنہیں وہ با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ عوام کے شعور کی پختگی اور ان کی اصلاح پسند تنظیموں سے علیحدگی کا واحد راستہ ہے۔
6۔ اس جدوجہد میں مشترکہ محاذ ایک بنیادی اوزار ہے۔ ان معروضی حالات میں محنت کشوں اور کسانوں کی حکومت کے مطالبے کو لے کر اس لائحہ عمل کو اپنانا چاہیے۔
پارٹی کے اس نئے لائحہ عمل کی بنیاد کومنٹرن کی پہلی چار کانگریسوں میں پیش کیے گئے تھیسز پر تھی، ان کے رجحانات کو سمجھتے ہوئے انہیں اٹلی کی ٹھوس صورتحال پر لاگو کیا گیا تھا۔
عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ سب درست ہے، اگرچہ اس تھیسس میں ”میکسیملسٹ گروہ“ (لزاری اور سیراتی کے گرد PSI کے سنٹر اسٹ اراکین) اور اصلاح پسندوں سے متعلق کچھ فرقہ پرست بیانات موجود تھے، جنہیں محنت کش تحریک کے دائیں بازو کی بجائے بورژوا قوتوں کا بایاں بازو قرار دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ پیش کیے گئے نعرے سوشلسٹ سماج کی طرف بڑھتے ہوئے عبوری مطالبات کی بجائے اصلاح پسند کردار کے حامل تھے۔
لیکن لیون کانگریس کے موقع پر گرامچی کے موقف کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ اس نے کھل کر پارٹی کو ”بالشویک بنانے“ کی ایک مبہم سی عالمی مہم کی حمایت کی۔ یہ سوویت اقتدار کے ابتدائی سال تھے اور نظریاتی نا سمجھی کی وجہ سے اسے روسی تجربے کی بنیاد پر نومولود کمیونسٹ پارٹیوں کی سیاسی تربیت کی بجائے ایک انتظامی جدوجہد کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ ”دھڑے بندیوں“ کے خلاف تادیبی حربے استعمال کیے جانے لگے اور سیاسی مخالفوں پر الزام تراشی کی جانے لگی اور تادیبی کارروائیوں اور بے دخلیوں کو خوش دلی سے قبول کیا جانے لگا۔
اس سب کو لینن کی وفات کے بعد کومنٹرن کی زوال پذیری کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ انٹرنیشنل، جو مکمل طور پر سٹالنسٹوں کے شکنجے میں تھی، نے لیفٹ اپوزیشن اور خاص طور پر ٹراٹسکی کے خلاف الزام تراشیوں اور دھمکیوں کی مہم کا آغاز کر رکھا تھا۔
یہ اس زوال پذیری کے عمل کی وجوہات کا تفصیل سے تجزیہ کرنے کے لیے موزوں جگہ نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم ٹراٹسکی کی مختلف تحاریر پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں جن میں ”سٹالنزم اور بالشویزم“، ”اکتوبر کے دفاع میں“ اور ”مزدور ریاست، تھرمیڈور اور بوناپارٹزم“ شامل ہیں۔
مگر عالمی سطح پر اس صورتحال اور PCI کے زیر زمین مشکل حالات میں کام کرنے کے باوجود گرامچی نے پارٹی میں مختلف دھڑوں کے قیام کے حق کا دفاع کیا (PCI نے ہمیشہ اس حق کا دفاع کیا)۔
گرامچی کا سٹالنزم کی طرف رویہ
1927ء میں اپنی گرفتاری سے کچھ عرصہ قبل گرامچی نے سوویت کمیونسٹ پارٹی (CPSU) کو PCI کی طرف سے ایک خط لکھا، جس سے اس وقت بالشویک پارٹی کے اندر جاری کشمکش کے متعلق اس کا موقف جانا جا سکتا ہے۔
گرامچی نے خصوصی طور پر اس وقت سوویت یونین میں موجود مسائل پر بات تو نہیں کی، مگر اس خط میں اس کا موقف اسے لیفٹ اپوزیشن کے ساتھ کھڑا نہیں کرتا۔
بہرحال، اس نے لیفٹ اپوزیشن پر کیے جانے والے حملوں کی مخالفت کی، جو پارٹی میں ہر قسم کی جمہوریت کے کچلے جانے کی راہ ہموار کر رہے تھے۔
عالمی طور پر جو حالات بن چکے تھے ان کو دیکھتے ہوئے گرامچی نے عمومی بہاؤ کی مخالف سمت میں تیرتے ہوئے بے دخلیوں کے خلاف ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن کا دفاع کیا اور (زینوویف اور کامینیف سمیت) ایک عظیم انقلابی اور استاد کے طور پر ٹراٹسکی کے کردار کو تسلیم کیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کیونکہ اس وقت ان رہنماؤں پر ردِ انقلابی ہونے کا الزام لگایا جارہا تھا۔
توگلیاتی اس وقت ماسکو میں تھا اور اس نے گرامچی کا یہ خط روکنے کی پوری کوشش کی۔ وہ اس کے موقف کے بالکل خلاف تھا۔ اس کے خیال میں PCI کو سوویت کمیونسٹ پارٹی کی اکثریت کا ساتھ دینے میں کوئی تحفظات نہیں ہونے چاہئیں۔ گرامچی نے توگلیاتی کو قدرے سخت جواب دیا:
”(۔۔۔) اگر ہم حالات کو ایسے ہی چلنے دیں اور انہیں ناگزیر تصور کر لیں تو ہم قابلِ رحم اور غیر ذمہ دار انقلابی ہوں گے (۔۔۔) تمہاری اس سوچ کا مجھ پر بہت گھٹیا تاثر پڑا ہے۔“
مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھلے ہی انٹرنیشنل اور اطالوی پارٹی میں افسر شاہانہ زوال پذیری کی کچھ ذمہ داری گرامچی پر بھی عائد ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود ہمیں اس کے آزادانہ موقف اور آخری تجزیے میں پارٹی کے ایک یک یکطرفہ تصور، جس میں اختلاف کو کچل دیا جاتا ہے، کو تسلیم کرنے سے انکار کو سراہنا پڑے گا۔
اس لحاظ سے گرامچی اور توگلیاتی، جس نے اس کے جیل جانے پر PCI کی قیادت سنبھالی، کے درمیان کافی اختلاف پایا جاتا تھا۔
اطالوی کمیونسٹ پارٹی کی افسر شاہانہ زوال پذیری اور ”تین کے گروہ“ کی بے دخلی
توگلیاتی متعین کردہ سٹالنسٹ رستے پر چل کر خوش تھا، اور اس نے پارٹی کو سوویت افسر شاہی کی خارجہ پالیسی کا ایک اوزار بنا کر رکھ دیا تھا۔ اس عمل کو اس بات سے ملی تقویت کہ سٹالنسٹ قیادت کے پاس دکھانے کو اکتوبر انقلاب کی شان و شوکت موجود تھی اور PCI کے اراکین کو یہ جاننے میں شدید مشکل کا سامنا تھا کہ درحقیقت سوویت یونین میں ہو کیا رہا ہے، کیونکہ وہ زیر زمین کام کرنے پر مجبور تھے۔
1928ء میں کومنٹرن نے ”سوشل فاشزم“ کی پالیسی اپنا لی، جسے تیسرا دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد یہ تھی کہ عالمی سطح پر ایک نئی انقلابی تحریکوں کی لہر ابھرنے والی ہے، اور اس تناظر میں اصل دشمن اصلاح پسند اور سوشلسٹ پارٹیاں ہیں، خاص طور پر وہ جو زیادہ بائیں جانب ہیں، جو محنت کش تحریک میں سامراجی کارندوں کا کردار ادا کرتی ہیں۔
مولوٹوف نے کومنٹرن کی ایک کانگرس پر اپنی مشہور تقریر میں کہا کہ فاشسٹ اور سوشلسٹ آپس میں ”جڑواں“ ہیں: یہیں سے اصلاح پسندوں کو ”سوشل فاشسٹ“ پکارا جانے لگا۔
پورے کے پورے یورپ میں یہ نظریہ غلط تھا۔ ٹراٹسکی نے ”کومنٹرن کی غلطیوں کا تیسرا دور“ میں اسے سختی سے رد کیا۔
مگر اٹلی کے معاملے میں یہ نظریہ زیادہ مضحکہ خیز تھا۔ ایسے حالات میں یہ کہنا کہ قبل از انقلاب صورتحال پیدا ہونے والی ہے معروضی صورتحال سے منہ موڑنے کے مترادف تھا، جب فاشزم اقتدار میں تھا، مسولینی کی مضبوط حمایت موجود تھی، محنت کش عوام غیر متحرک تھے اور PCI کے پاس زیر زمین لڑاکوں کا محدود سا نیٹ ورک تھا اور ان کے کچھ رہنماء جیل میں تھے۔
1930ء میں توگلیاتی کی مخالفت بھی ابھرنا شروع ہو گئی جس کی قیادت PCI کے پولٹ بیورو کے سات میں سے تین اراکین کر رہے تھے۔ تریسو، لیوناتی اور راوازولی نے ”سوشل فاشزم“ کے نظریے کی مخالفت کی اور اس کی بجائے ٹراٹسکی اور عالمی حزب اختلاف کے موقف کا ساتھ دیا۔
اس ”تین کے گروہ“ نے بورڈیگا کی قیادت میں PCI کے فرقہ پرستی کی جانب جھکاؤ کے خلاف پیش کردہ لیون تھیسس کے بہت سے بنیادی عناصر کی حمایت کی۔ لیکن بحث میں توگلیاتی دلائل کی بجائے توہین پر اتر آیا اور فوری طور پر ان تینوں سمیت پارٹی کے تقریباً تیس معروف اراکین کو بے دخل کر دیا گیا۔
اس کے کچھ ساتھیوں کے بیانات کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ گرامچی پر ان تینوں کی بے دخلی کا بہت برا اثر پڑا تھا۔ تریسو اس کے پسندیدہ شاگردوں میں سے ایک تھا۔ مگر اس کو سب سے زیادہ پریشان کرنے والی بات یہ تھی کہ وہ نکالے جانے والے کامریڈوں کے کچھ خیالات سے اتفاق کرتا تھا۔
1960ء کی دہائی میں PCI نے یہ خود تسلیم کیا کہ اس دور میں گرامچی پارٹی اور کومنٹرن کے موقف سے اتفاق نہ کرتا۔ پارٹی کے ایک کارکن ایتھوس لیسا کی جانب سے 1933ء میں لکھی گئی ایک رپورٹ کے مطابق گرامچی کچھ کمیونسٹوں کے اس سطحی تجزیے پر برہم تھا کہ فاشزم کا فوری انہدام ناگزیر ہے اور اٹلی بڑے آرام سے فاشسٹ آمریت سے پرولتاریہ کے اقتدار میں چلا جائے گا۔
گرامچی کے بھائی جینارو نے بہت سال بعد یہ بیان دیا کہ انتونیو، لیوناتی، تریسو اور راوازولی کے ساتھ اتفاق کرتا تھا، ان کی بے دخلی کا حامی نہیں تھا اور کومنٹرن کے موقف کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ سیندرو پرتینی کی گواہی کے مطابق گرامچی ”سوشل فاشزم“ کے نظریے سے بھی اتفاق نہیں کرتا تھا۔
یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ جیل میں لکھے گئے ایک مضمون میں گرامچی نے ہمہ گیر حق رائے دہی، براہ راست اور خفیہ ووٹنگ اور 18 سال اور اس سے زائد عمر کے تمام افراد کو ووٹ کے حق کی بنیاد پر ایک قانون ساز اسمبلی کے قیام کا مطالبہ سامنے رکھا، جو کہ وہی مطالبہ تھا جو ”تین کے گروہ“ نے بھی 1930ء میں ٹراٹسکی کو لکھے گئے ایک خط میں پیش کیا تھا۔
اس خط کے جواب میں ٹراٹسکی نے لکھا، ”انہی عبوری نعروں کی مدد سے، جن سے پرولتاری حکومت کی ضرورت سامنے آتی ہے، ہراول کمیونسٹوں کو تمام محنت کش طبقے کو جیتنا ہو گا، جس کے بعد محنت کش طبقے کو قوم کے تمام استحصال زدہ طبقات کو اپنے گرد جوڑنا ہو گا۔“
درحقیقت، عالمی سطح پر ٹراٹسکی اور گرامچی ہی اکیلے دو رہنماء تھے جو فاشزم کی درست وضاحت کر پائے، محض ایک سرمایہ دارانہ رجعت کے طور پر نہیں، بلکہ شہری اور دیہی پیٹی بورژوازی کی ایک بڑی تحریک کے طور پر جو محنت کشوں کی منظم تحریک، اس کی پارٹیوں سے لے کر ٹریڈ یونینوں اور یہاں تک کہ ان کے امداد باہمی پر مبنی اداروں اور تفریحی حلقوں کو بھی پر تشدد انداز میں کچل دینا چاہتی تھی۔
ہمیں یہ علم نہیں کہ اگر گرامچی تیسرے دور میں جیل سے باہر ہوتا تو کیا ہوتا۔ شاید وہ لیفٹ اپوزیشن کا حصہ بن جاتا، یا پھر شاید وہ 1926ء کی طرح ایک مرتبہ پھر پارٹی کے متحد رہنے کی اپیل کرتا۔
مگر اصل بات یہ ہے کہ گرامچی نے بدترین حالات میں تنہائی اور معلومات تک انتہائی مشکل رسائی کے باوجود ایک ایسا موقف اختیار کیا جو کومنٹرن کے ان رہنماؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ درست تھا جو عملی سیاسی جدوجہد کا حصہ تھے اور جنہیں اپنی سمت کے تعین کے لیے بہت سی عوامی پارٹیوں سے آنے والی معلومات اور ان کے تجربات بھی میسر تھے۔
اس سے گرامچی کی سیاسی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ محنت کش تحریک میں سٹالنزم کی تباہ کاریوں کا بھی۔
دی پریزن نوٹ بکس (The Prison Notebooks)
جیل میں گزرے دس سالوں کے دوران گرامچی نے بہت کچھ لکھا۔ دی پریزن نوٹ بکس (The Prison Notebooks)، جو پہلی مرتبہ 1948ء میں شائع ہوئی، گرامچی نے کڑی فاشسٹ نگرانی میں لکھی تھی۔ اسی وجہ سے وہ سیاسی کی بجائے سماجی کردار کی حامل زبان استعمال کرنے پر مجبور ہوا۔ درحقیقت، پریزن نوٹ بکس کا گرامچی، دی نیو آرڈر یا لیون تھیسس کے گرامچی سے کافی مختلف ہے۔
نوٹ بکس میں بلاشبہ کچھ بہت دلچسپ خیالات موجود ہیں، جنہیں یہ دعویٰ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے (خاص طور پر PCI کے رہنماؤں کی جانب سے مابعد از جنگ کے دور میں) کہ گرامچی محنت کشوں کے مرحلہ وار اقتدار حاصل کرنے کے خیال کی طرف بڑھ رہا تھا۔
اس لحاظ سے سب سے اہم عنصر بالادستی (Hegemony) کے تصور کی تشریح ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بالادستی کا تصور محض گرامچی کے ہاں نہیں پایا جاتا، یہ بیسویں صدی کے آغاز سے روسی سوشل ڈیموکریسی کے نظریاتی ورثے کا حصہ ہے۔
بالادستی (Hegemony) کا لفظ کومنٹرن کی تیسری کانگریس کے تھیسس میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔ اس میں یہ لفظ تمام محکوم طبقات کی سرمائے کے خلاف جدوجہد میں محنت کش طبقے کی قیادت میں آنے کے حوالے سے استعمال ہوا تھا۔
چوتھی کانگریس میں پیش کیے گئے تھیسس کے ایک حصے میں اس تصور کو مزید پھیلاتے ہوئے ”بالادستی (Hegemony)“ کی اصطلاح کا استعمال سرمایہ دارانہ نظام میں بورژوازی کے پرولتاریہ پر قائم تسلط کے لیے بھی کیا گیا تھا۔
یہ ان معنوں میں بالادستی (Hegemony) کی اصطلاح کے استعمال کی واحد مثال ہے اور ایک طرح سے یہ گرامچی کا نقطہ آغاز بھی ہے جہاں سے وہ محنت کش طبقے پر بورژوازی کی بالادستی کے گہرے تصور کو آگے لے کر چلتا ہے۔
گرامچی نے اس سوال پر بات کرنے کی کوشش کی ہے کہ مغرب میں انقلاب کا کردار (یعنی اس کی حکمت عملی۔مترجم) کیسا ہونا چاہیے، جہاں کی بورژوازی غیر متنازع طور پر روسی بورژوازی سے زیادہ مستحکم اور مضبوط ہے اور اس نے اپنی سماجی گرفت مضبوط کرنے اور محنت کش طبقے کی موافقت حاصل کرنے کے لیے مختلف میکانزمز پر مبنی ایک پورا جال بن رکھا ہے۔ گرامچی کے مطابق:
”مشرق میں ریاست سب کچھ تھی، سول سوسائٹی ابتدائی نوعیت کی اور بھربھری تھی۔ مغرب میں ریاست اور سول سوسائٹی کے درمیان ایک واضح تعلق ہے اور جب ریاست لڑکھڑاتی ہے تو سول سوسائٹی کا ایک مضبوط ڈھانچہ فوراً سامنے آجاتا ہے۔ ریاست محض ایک بیرونی خندق ہے جس کے پیچھے قلعوں اور مورچوں کا ایک مضبوط نظام ہے۔“
مغرب کے لیے کونسی انقلابی حکمت عملی ضروری ہے؟ گرامچی کے خیال میں یورپ کے لئے ”تحریک کی جنگ (War of Movement)“ جو انقلابِ روس میں استعمال ہوئی تھی، غیر افادی تھی اور اس کی بجائے ”پوزیشن کی جنگ (War of Position)“ (یعنی محنت کش طبقے اور اس کی پارٹی کی سیاسی، نظریاتی و ثقافتی بالادستی کے قیام کی جدوجہد۔مترجم) درست تدبیر ہے۔ اس کے مطابق لینن بھی اسی نتیجے پر پہنچا تھا اور مشترکہ محاذ بنانے کی صورت میں اس نے اسی سوال کا جواب دیا تھا۔
اس معاملے میں وہ ٹراٹسکی کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، جو ہمارے خیال میں بے جا ہے، جب وہ (گرامچی) نظریہئ انقلابِ مسلسل، تحریک کی جنگ اور سیاسی و عسکری محاذ پر براہ راست ٹکراؤ کے متعلق بات کرتا ہے۔ گرامچی غلط طور پر ٹراٹسکی کا موازنہ بورڈیگا اور جرمن کمیونسٹوں کے ساتھ کرتا ہے جنہوں نے مارچ 1921ء میں عوام کی حمایت کے بغیر بغاوت کر دی تھی جس کا نتیجہ بہت بڑے نقصانات اور جرمن کمیونسٹ پارٹی (KPD) کی شکست کی صورت میں سامنے آیا، جنہوں نے اپنے اس مہم جوئیانہ رویے کی بہت بڑی قیمت ادا کی۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید گرامچی نے کبھی ”انقلابِ مسلسل (The Permanent Revolution)“ پڑھی ہی نہیں تھی۔ اس نے محض اندازے سے اس نظریے کی تشریح کی تھی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ لینن کے ساتھ ٹراٹسکی بھی مشترکہ محاذ کی حکمت عملی کے بانیوں میں سے ایک تھا۔ اس نے مارچ 1921ء میں جرمن کمیونسٹوں کے فرقہ پرستانہ رویے کی شدید مذمت بھی کی تھی اور اس کی عسکری تحاریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ عسکری میدان میں فرونز اور تخاشیوسکی جیسے ”جارحانہ نظریہ دانوں“ کا بھی مخالف تھا۔
مگر اس حقیقت سے قطع نظر کہ قبل از انقلاب روسی سول سوسائٹی اتنی بھی بھربھری نہیں تھی، گرامچی دراصل خود سے ایک ایسا سوال پوچھ رہا ہے جس کا جواب توری کی جیل میں تنہا بیٹھ کر دینا آسان نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ مغرب میں انقلاب کے سوال کا ٹھوس جواب کبھی نہیں دے پایا۔
بلاشبہ اس کے خیالات کا سب سے اہم عنصر موافقت یا ہم آہنگی (Consensus) کا سوال ہے۔ نوٹ بکس میں ایک موقع پر گرامچی یہ دعویٰ کرتا معلوم ہوتا ہے (حالانکہ اس سے متصادم پیرے بھی موجود ہیں) کہ مغرب میں پارٹی کو 1917ء کے روس کے مقابلے میں وسیع تر بالا دستی حاصل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دشمن زیادہ طاقتور ہے اور جبر کی بجائے موافقت سے حکومت کرتا ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو بلاشبہ یہ بات بورژوا پارلیمانی جمہوریت کے حوالے سے درست ہے، اس کے باوجود کہ موافقت اور جبر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جنہیں بورژوا طبقہ اپنا غلبہ قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ضرورت کے مطابق انہیں آپس میں تبدیل بھی کرتا رہتا ہے۔
انقلاب کے معاملے میں بھی یہ بات درست ہے۔ محنت کش طبقہ سماج کی بالادست قوت بن جاتا ہے، مگر اس بالادستی اور سماج کے دیگر مظلوم طبقات وپرتوں کے ساتھ قائم ہونے والی موافقت کو لازمی طور پر طاقت کے استعمال کے ساتھ جوڑنا پڑتا ہے (ظاہر ہے کہ عوامی بنیادوں پر، نہ کہ انفرادی کردار کی حامل طاقت: یعنی اقلیت کے خلاف اکثریت کی طرف سے طاقت کا استعمال) تا کہ ان رجعتی قوتوں سے نمٹا جا سکے جو انقلاب کی دشمن ہیں۔
یہ سچ ہے کہ محنت کش طبقے کے لیے آبادی کی اکثریت کی موافقت کا حصول ضروری ہے، کچھ معاملات میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس مقصد کے لیے درمیانے طبقے کوکچھ مراعات بھی دینا پڑ سکتی ہیں (ہمیں NEP کی مثال سے یہ پتہ چلتا ہے)، لیکن اس حقیقت کا مطلب یہ نہیں کہ سماج کی تبدیلی کا عمل انقلابی طریقے سے ایک بغاوت اور سرکشی کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے۔
نوٹ بکس میں ریاست کے اس کلاسیکی مارکسی تصور پر کہیں بھی سوال نہیں اٹھایا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ گرامچی انقلابی اور کمیونسٹ سوچ کا حامل تھا۔
یہاں اس بات کا اضافہ بھی ضروری ہے کہ گرامچی کا پارٹی کا تصور سیاسی تعلیم یافتہ نظریاتی مارکسی کیڈرز پر مشتمل ایک انقلابی پارٹی کا روایتی تصور ہے۔ جب وہ مکمل طور پر دانشوروں پر مشتمل ایک پارٹی کا ذکر کرتا ہے تو یقینا اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پارٹی کے دروازے محنت کشوں اور عام عوام کے لیے بند ہونے چاہئیں۔ دراصل وہ ایک اعلیٰ سیاسی معیار کی پارٹی کی بات کرتا ہے جو محض کاغذوں میں موجود ممبران پر مشتمل نہ ہو بلکہ با شعور لڑاکوں پر مشتمل ہو جو پارٹی کے تمام پہلوؤں اور سرگرمیوں میں حصہ لیں۔
اس کے علاوہ، پرولتاری نقطہ نظر سے اطالوی دورِ احیاء (Risorgimento) کی تاریخ بیان کرنے کا سہرا بھی گرامچی کے سر جاتا ہے، جو بورژوازی کی جانب سے اٹلی کے انضمام کی بیان بازی کے برعکس ہے۔ مارکس اور اینگلز اطالوی حقیقت سے بہت کم آشنا تھے، اور اس لحاظ سے وہ کافی محدود رہے، خاص طور پر دورِ احیاء میں مازینی اور گیریبالڈی جیسے جمہوریت پسندوں کے ردِ انقلابی کردار پر تنقید کے حوالے سے، جو شروع میں پہلی انٹرنیشنل کا حصہ تھے۔
گرامچی گیریبالڈی اور جمہوریت پسندوں کی ان لبرلز کی ماتحتی اختیار کرنے کا بے رحم تجزیہ پیش کرتا ہے، جن کی قیادت کیوور اور بادشاہت کے پاس تھی۔ دورِ احیاء، ایک بورژوا انقلاب تھا جو اطالوی بورژوازی کی بزدلی کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکا، جن میں بادشاہ اور اشرافیہ سے جان چھڑانے کی ہمت نہیں تھی۔
عالمی منظر نامے پر دیر سے ابھرنے اور معاشی کمزوری کی وجہ سے اطالوی بورژوازی فرانسیسی جیکوبنز سے بہت مختلف تھی اور اس نے بالآخر بادشاہت سے ٹکرانے کی بجائے اس کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔ جمہوریت پسندوں نے اس اتحاد کا ساتھ دیا اور آخری تجزیے میں انہوں نے ہی اسے کامیاب بنایا۔
درحقیقت، جب غریب کسانوں نے سسلی میں گیریبالڈی کے ”ملی“ (ہزار افراد) کی آمد پر بڑے زمینداروں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا، جو بورژوا انقلاب کا ایک اہم فریضہ تھا، تو ان کا قتل عام کرنے والے بوربنز نہیں بلکہ خود گیریبالڈی اور بکسیو کی فوجیں تھیں۔
جنوبی اٹلی کے کم ترقی یافتہ ہونے کے پیچھے یہی تاریخی غداری تھی۔ گرامچی کے مطابق یہی امر ثابت کرتا تھا کہ بورژوازی زرعی سوال کو حل نہیں کر سکتی۔ اس مسئلے کا حل محض سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہو سکتا تھا، جو پرولتاریہ اور کسانوں کے اتحاد سے ہی ممکن تھا، ایک ایسا اتحاد جو انقلاب کی بنیاد بنتا۔ لہٰذا گرامچی کی نظر میں کم ترقی یافتہ جنوب کا مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے حل نہیں ہوسکتا تھا۔
یہ بات حیران کن ہے کہ یہ خیالات آج کے دور سے کس قدر مطابقت رکھتے ہیں، اور اطالوی بائیں بازو میں ان کے کتنے کم قاری ہیں، جو گرامچی کے گہرے انقلابی پیغام کو سمجھے بغیر اس کا جشن مناتا ہے۔