میانمار: بدترین ریاستی جبر جاری۔۔عوام ثابت قدم!

|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: یار یوسفزئی|

بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں اور سڑکوں کے اوپر درجنوں ہلاکتوں کے باوجود میانمار کے عوام نے فوجی حکومت کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ فوج کا اقتدار پر قبضہ کیے ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک فوجی حکومت استحکام قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے برعکس طبقاتی تضادات میں شدت آتی جا رہی ہے اور یونینز کے اتحاد نے جاری فوجی جبر کے جواب میں دوسری عام ہڑتال کو منظم کیا ہے۔

عوام حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پُر عزم ہیں، جس کی تصدیق اتوار (7 مارچ) کو ہونے والے بڑے احتجاجوں نے کی، جو اس تحریک میں اب تک کے سب سے بڑے احتجاج تھے۔ فوجی حکومت کے پاس اس کا جواب دینے کے لیے جبر میں اضافے کے سوا اور کوئی حربہ نہ تھا۔ مثال کے طور پر منڈالے کے اندر اتوار کو جب سڑکوں پر ہزاروں لوگ نکل آئے تو کم از کم 70 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ مرکزی شہر رنگون اور ملک کے دیگر شہروں کے اندر بھی اس قسم کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ اب تک 1800 مظاہرین کو گرفتار اور 60 سے زائد کو قتل کیا جا چکا ہے۔

اتوار کو حالات کی کشیدگی میں اس وقت شدت آئی جب نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کا ایک مقامی قائد فوجی ہسپتال کے اندر مردہ حالت میں پایا گیا، جس کو سیکیورٹی فورسز نے گھر سے اغواء کیا تھا۔ اس کی لاش دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اسے بری طرح مارا پیٹا گیا تھا۔

ہفتے کے آخر میں پولیس نے دہشت پھیلانے کی مہم مزید تیز کر دی۔ پولیس اور فوج کے لیے رنگون شکار کا میدان بن چکا تھا، جنہوں نے شہر کے بعض محلوں میں لاک ڈاؤن نافذ کیا ہوا تھا۔ انہوں نے ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں کو بھی گھیرے میں لے لیا اور جھڑپوں کے دوران زخمی ہونے والے مظاہرین کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ سیکیورٹی فورسز نے طبی عملے پر حملہ کر کے انہیں گرفتار کیا، جن میں ایمبولینس میں کام کرنے والا عملہ بھی شامل تھا۔ سڑکیں خالی کرانے کے بعد بھی گولیاں چلتی رہیں، جس کا واضح مقصد لوگوں کو دہشت زدہ کرنا تھا۔

ملک بھر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مظاہرین کے اوپر جاری فوج اور پولیس کے خونی جبر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رنگون کے قریب واقع بدنامِ زمانہ انسین جیل میں 300 سے زائد طلبہ اور نوجوان زیرِ حراست ہیں۔ پچھلی رات (10 مارچ) کو ریاستی میڈیا کے ذریعے قائدانہ کردار ادا کرنے والے کچھ طالب علم کارکنان پر پینل کوڈ کی دفع 505 (A) کے تحت فردِ جرم عائد کیا گیا، جس کے مطابق کسی ایسے ”بیانیے، افواہ یا رپورٹ“ کو شائع کرنا یا پھیلانا جرم ہے ”جس کا مقصد ارادتاً یا غیر ارادی طور پر فوج، نیوی یا ایئر فورس کے کسی افسر، سپاہی، ملاح یا پائلٹ کو بغاوت پر اکسانا ہو یا جس میں انہیں اپنے فرائض بھلا کر اسے نہ نبھانے کی تلقین کی گئی ہو۔“

مثال کے طور پر اس ویڈیو میں دکھایا جانے والا نوجوان طالب علم 3 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا، جس کے اوپر جیل کے اندر ریاستی حکام کا جبر جاری ہے۔ وہ اس تحریک میں انتہائی سرگرم اور قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے اور آل برما فیڈریشن آف سٹوڈنٹ یونینز (اے بی ایف ایس یو) کا نائب صدر ہے۔ انسین جیل اپنے بد ترین اور غیر انسانی حالات کے لیے مشہور ہے، جس کے اندر قیدیوں کو مار پیٹ کر ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچائی جاتی ہے۔

بہرحال اس ساری دہشت سے اب بھی مطلوبہ اثرات نہیں پڑ رہے۔ جبر لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی بجائے انہیں عملی میدان میں مزید جوش و خروش کے ساتھ اترنے پر اکسا رہا ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ میانمار کی بڑی ٹریڈ یونینز نے 8مارچ بروزِ منگل کو نیچے سے دباؤ آنے کی وجہ سے اپنے ممبران سے عام ہڑتال جاری رکھنے کی اپیل کی اور کہا کہ میانمار کی معیشت جمہوریت کی بحالی تک مکمل طور پر منجمد رہے گی۔

https://twitter.com/redfishstream/status/1369641938916360197?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1369641938916360197%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.marxist.com%2Fresilience-myanmar-masses-bloody-clampdown.htm

ہڑتال کی کال پر بڑے شاپنگ سینٹرز سمیت چھوٹی دکانیں اور کئی کارخانے بھی بند رہے۔ تعمیراتی کام، زراعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبہ جات سے وابستہ محنت کشوں سمیت شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے محنت کش اور سرکاری محنت کش بھی اس میں شامل ہوئے۔ ملک کے متعدد قصبوں کے اندر بڑے جلسے منعقد کیے گئے۔

شمالی شہر مائتکینا، جو جاری احتجاجوں کے اہم مراکز میں سے ایک ہے، کے اندر پیر کے دن دو مظاہرین کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اس دوران شمالی قصبے اوکالاپا کے اندر سیکیورٹی فورسز گولیاں چلا کر لوگوں کو گرفتار کر رہی تھیں مگر اس کے باوجود وہاں پر مظاہرے جاری رہے۔

ہڑتال ابھی تک جاری ہے مگر پچھلے ہفتے کے بعد سے کچھ علاقوں کی سڑکوں پر سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کر کے جلسوں کی تعداد میں کمی لائی گئی ہے، خاص کر رنگون میں جہاں پر مظاہرین نے اپنے محلّوں کے دفاع کے لیے رکاوٹوں کو کھڑا کیا۔ مگر ملک کے دیگر حصوں میں بڑے بڑے جلسے منعقد ہوتے رہے ہیں، جیسا کہ منڈالے، مونیوا، ماگوے و دیگر۔

البتہ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ 7 مارچ کو ٹریڈ یونینز کا مشترکہ بیانیہ اگرچہ ایک خوش آئند پیش رفت تھا مگر وہ تھوڑی تاخیر سے جاری کیا گیا۔ اس قسم کی اپیل ’کُو‘ کے فوراً بعد کرنی چاہیئے تھی، اور یہ غیر معینہ مدت تک ہڑتال کی کال ہونی چاہیئے تھی، نہ کہ صرف ایک دن کے لیے، جیسا ’کُو‘ کے پورے تین ہفتے بعد 22 فروری کو کیا گیا۔

حالیہ کال پر بہت سے لوگ باہر نکلے ہیں مگر کال دینے میں تاخیر کرنے کی وجہ سے کچھ محنت کش تھکاوٹ کی علامات بھی دکھا رہے ہیں۔ فوج کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی ہفتوں تک ہڑتال جاری رکھنے کا مطلب، خاص کر نجی شعبوں میں، اجرت کھونا اور روزگار کھو جانے کا خطرہ بڑھ جانا ہے۔ محنت کشوں کو کوئی خاص مالی امداد میسر نہیں ہے۔

اس دوران حکومت نے خطرہ مول کر خونی جبر کو جاری رکھا ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں محنت کشوں کو یہ یقین ہونا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی فتح سے ہم کنار ہو جائیں گے۔ اگر وہ شکوک و شبہات کا شکار ہو جائیں تو حکومت کے مقابلے میں بڑی تعداد میں موجود ہونے کے باوجود وہ متحدہ طور پر آگے بڑھنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔

بہرحال میانمار کے محنت کش داد کے مستحق ہیں کہ اس مشکل صورتحال کے باوجود وہ اب بھی ہلینگ تھریار کی سڑکوں پر لڑ رہے ہیں، جو رنگون کا صنعتی قصبہ ہے۔ اس کچی آبادی والے علاقے میں کئی صنعتیں موجود ہیں، اور اگرچہ فوج کی موجودگی نے مظاہرین کو رنگون کے وسط میں اکٹھا ہونے سے روک دیا ہے، وہ اس کے باوجود اپنے مقامی علاقوں میں احتجاج کر رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے کوشش کی گئی کہ نجی بینکوں میں کام کرنے والے محنت کش معمول کے مطابق اپنا کام جاری رکھیں۔ اب تک وہ محض فوجی بینک کھلوانے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔ باقی ابھی تک ہڑتال کر رہے ہیں، اس صورتحال سے بھی جاری عوامی مزاحمت کی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔

اگرچہ محنت کش پُر عزم ہیں مگر حالیہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انقلابی حالات ہمیشہ کے لیے موجود نہیں رہتے۔ حالات چاہے جتنے بھی سازگار ہوں، کمزور اور متذبذب قیادت کی وجہ سے وہ بگڑ سکتے ہیں۔

پیر کے دن رنگون کے ضلع سینچانگ کے اندر سینکڑوں مظاہرین کو سیکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے لیا تھا، اور پولیس گولیاں چلا کر اور گھر گھر چھاپے مار کر تلاشی لے رہی تھی کہ کہیں ضلع کے باہر سے آئے ہوئے مظاہرین کو مقامی گھروں میں پناہ تو نہیں ملی ہے۔ آخرکار منگل کی صبح نوجوان وہاں سے نکل پائے۔ نوجوانوں سے یکجہتی کے لیے رات کو لگنے والے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہزاروں مظاہرین اکٹھے ہوئے۔ مظاہرین کو بڑے پیمانے پر حمایت حاصل تھی، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا تھا کہ مقامی باشندے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سخت سزاؤں کی پرواہ کیے بغیر نوجوانوں کو اپنے گھروں میں پناہ دے رہے تھے۔ کئی لوگوں نے اپنی گاڑیوں کے ذریعے نوجوانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل بھی کیا۔

9 یونینز کی جانب سے ہڑتال کو طوالت دینے کی کال ایک خوش آئند پیش رفت تھی۔ مگر جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، جس چیز کی ضرورت ہے، وہ غیر معینہ مدت تک عام ہڑتال ہے، جس کا مقصد ملک بھر کو منجمد کر کے رکھ دینا ہونا چاہیئے۔

عام ہڑتال کی کال دوسری مرتبہ دی جا چکی ہے مگر فوج پھر بھی پیچھے نہیں ہٹ رہی۔ فوجی افسران اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر وہ سویلین سیاست دانوں کو حکومت واپس دے دیتے ہیں تو وہ بہت کچھ کھو دیں گے۔ صرف فوج کے بیرکوں میں واپس چلے جانے سے عوام کی تسلی نہیں ہو گی، اس کے ساتھ وہ ان تمام لوگوں کے حوالے سے انصاف بھی طلب کریں گے جنہیں بے دردی سے قتل کیا گیا، جس کا ارتکاب فوج اور پولیس نے کیا ہے۔

پولیس کی صفیں منتشر

یہاں ”مسلح جتھوں“ پر بھی بات کرنا ضروری ہے؛ یعنی مراعات یافتہ اور ملکیتی طبقے کی خدمت پر مامور فوج اور پولیس۔ عموماً لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، جس کا مطلب اس میں موجود باشندوں کا بھی دفاع کرنا ہے۔ جہاں تک اپنے لوگوں کے دفاع کی بات ہے تو میانمار کے فوجی افسران کے ماضی کا ریکارڈ کچھ بہتر نہیں ہے۔ اس کے برعکس انہوں نے کئی مواقع پر سینکڑوں اور حتیٰ کہ ہزاروں لوگوں کا قتلِ عام کیا ہے، جیسا کہ 1988ء میں۔ نسلی اقلیتوں کی جانب بھی ان کا رویہ ماضی میں ظالمانہ رہا ہے، جیسا کہ روہنگیا اور دیگر اقلیتیں۔

میانمار کے اندر حقیقی انقلابی قیادت کے اہم فرائض میں سے ایک، فوج کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کروانا ہوگا۔ ایسا ہونے کے لیے ایک ایسی تحریک کی ضرورت پڑے گی جو فوج اور پولیس کے عام سپاہیوں کو یہ باور کروا سکے کہ ہمارا مقصد این ایل ڈی کو واپس لانا نہیں بلکہ اس سارے بوسیدہ نظام کا تختہ الٹنا ہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ این ایل ڈی کے معاشی پروگرام میں بڑے پیمانے پر نجکاری کرنا شامل ہے، جس کا مطلب اکثریت کے بلبوتے پر اقلیت کی دولت میں اضافہ کرنا ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ این ایل ڈی حکومت نسلی اقلیتوں پر ہونے والے جبر میں برابر کی شریک رہی ہے۔ اگرچہ عوام فوجی حکومت کے فوری خاتمے اور سویلین حکومت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس طریقے سے کچھ عرصے بعد فوجی افسران کا دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کا خطرہ نہیں ٹلے گا۔ جب این ایل ڈی اقتدار میں تھی تو انہوں نے فوج کے اختیارات ختم کرنے کی کچھ خاص کوشش نہیں کی تھی، اسی لیے موجودہ صورتحال میں فوج اور پولیس کے اندر سرکشی کا نتیجہ سخت سزاؤں کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

اس ساری صورتحال کے باوجود یہ ایک حیران کن بات تھی جب پولیس میں سے بعض نے خود کو عوام کے خلاف استعمال کیے جانے سے انکار کر دیا۔ مشہور کمیونسٹ شاعر برتولت بریخت نے اپنی ایک نظم میں لکھا تھا:

”جنرل! آدمی بڑا کار آمد ہے
وہ اڑ سکتا ہے اور وہ مار سکتا ہے
مگر اس میں ایک عیب ہے
وہ سوچ سکتا ہے“

اگرچہ پولیس کی ایک بڑی تعداد احکامات بجا لانے میں مصروف ہے، ان کے ایک حصّے کے بیچ انتشار بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ روزانہ کی بنیاد پر انہیں اپنے ہی لوگوں کے اوپر جبر کرنے کیلئے مجبور کیا جانا ہے۔ پُر عزم عوام اس بات کا احساس دلا رہے ہیں کہ اگر ایک باہمت اور سائنسی تناظر و حکمت عملی سے لیس قیادت موجود ہوتی تو کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا۔

ایک کیتھولک نن کی جانب سے پولیس کو نوجوانوں پر گولیاں نہ چلانے کی درخواست کے مناظر سے ظاہر ہوتا ہے، گو کہ ایک مسخ شدہ شکل میں، کہ سیکیورٹی فورسز کے عام سپاہیوں سے اپیل کرنے کے کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔

پولیس کے عام سپاہیوں کے لیے اپنے افسران کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا کوئی آسان بات نہیں ہوتی۔ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ ایسی حرکت کے نتیجے میں انہیں کن خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بڑے پیمانے پر پولیس کے عام سپاہیوں کو سرکشی پر آمادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں باور کرایا جائے کہ عوامی تحریک موجودہ فوجی حکومت کا تختہ الٹنے جا رہی ہے اور اس کے بعد جو حکومت آئے گی، وہ انہیں نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر سزائیں نہیں دے گی۔

بد قسمتی سے جس قیادت کی ضرورت ہے، این ایل ڈی کے قائدین وہ فراہم نہیں کر پا رہے۔ اسی لیے پولیس افسران کے اپنے عہدے چھوڑنے کی حالیہ اطلاعات بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں، اس سے ہمیں ہلکی سی جھلک دکھائی دیتی ہے کہ اگر محنت کش طبقے کے پاس ایک حقیقی انقلابی قیادت موجود ہوتی تو کیا کچھ ممکن ہو پاتا۔

فرانسیسی نیوز چینل فرانس 24 کے مطابق:

”ایک پولیس افسر کے ساتھ انٹرویو اور بھارتی پولیس کے خفیہ دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ میانمار کے بعض پولیس والے نہتے مظاہرین پر گولیاں چلانے سے انکار کر کے پڑوسی ملک بھارت فرار ہو چکے ہیں۔“

”بھارتی ریاست میزورم کی پولیس کو چار افسران نے مشترکہ بیانیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے جیسے سول نافرمانی کی تحریک زور پکڑتی گئی اور مختلف علاقوں میں کُو مخالف مظاہرین احتجاجوں کا انعقاد کرتے رہے، ہمیں مظاہرین کے اوپر گولیاں چلانے کے احکامات جاری کیے گئے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے اندر یہ ہمت نہیں تھی کہ اپنے لوگوں پر گولیاں چلاتے جو پُر امن طریقے سے مظاہرے کر رہے ہیں۔“‘

5 مارچ 2021ء کو شائع ہونے والے دی ایراواڈی کی رپورٹ کے مطابق: ”میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف جاری سول نافرمانی کی تحریک میں 600 سے زائد پولیس افسران شامل ہوئے ہیں۔۔۔“
اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ: ”فروری کے اواخر میں ہونے والے پُر تشدد کریک ڈاؤن کے باعث پولیس کے استعفوں میں شدید اضافہ ہوا ہے۔“ کئی سو پولیس افسران احتجاجوں میں بھی شریک ہوئے ہیں۔

سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ: ”سول نافرمانی کی تحریک میں شرکت کرنے والی پولیس نے کہا کہ وہ محض منتخب شدہ حکومت کو قبول کریں گے۔ بعض کا کہنا تھا کہ اگر نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے منتخب شدہ پارلیمانی ممبران پر مشتمل کمیٹی فوجی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنی فوج بنائے تو وہ اس میں اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔“

ایک ایسی فوج تیار کرنے کے امکانات ہر جگہ پر موجود ہیں۔ اگر فوج اور پولیس کے عام سپاہیوں سے کھلے الفاظ میں بغاوت کی اپیل کی گئی تو سیکیورٹی فورسز ریزہ ریزہ ہو سکتی ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد کُو کے خلاف جاری انقلابی تحریک کے ساتھ کھڑی ہو جائی گی۔

البتہ ایسا ہونے کے لیے تحریک کا خود کو منظم ڈھانچے میں ڈھالنا ضروری ہے، جیسا کہ ہم نے پچھلے مضامین میں وضاحت کی ہے، کام کی جگہوں پر، گلی محلوں اور گاؤں کے اندر منتخب شدہ ایکشن کمیٹیاں، جو باہمی تعاون کے ذریعے قومی سطح پر قائم ایک ایسی کمیٹی کے ساتھ منسلک ہوں جو عوام کی نمائندہ بن کر سامنے آئے۔ ایسی کمیٹی کے پاس اختیار ہوگا کہ پولیس اور فوج کے سپاہیوں کو اپیل کر کے انہیں طبقاتی بنیادوں پر اپنے ساتھ جوڑ دیں۔

مگر بات فوج کے بیچ طبقاتی پھوٹ ڈالنے پر ختم نہیں ہوتی، اس کے بعد محنت کشوں کی اپنی دفاعی کمیٹیاں بنانے کی ضرورت بھی پڑے گی جو محنت کشوں کی مسلح دفاعی فوج کے قیام کے لیے راہ ہموار کر یں گی۔ ایسی فوج کو جب کام کی جگہوں، دیہاتی علاقوں، شہروں کے محلوں، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں عوام کی حمایت حاصل ہوگی تو اس یہ ایک ناقابل تسخیر قوت بن جائے گی۔

دفاعی کمیٹیوں کے قیام کا خیال بڑے پیمانے پر لوگوں، خصوصاً نوجوانوں میں مقبول ہونے لگا ہے، یہاں تک کہ نسلی بنیادوں پر قائم مسلح گروہوں سے قومی سطح پر اتحاد بنا کر ریاستی فوج کے خلاف لڑنے کی درخواستیں کی جا چکی ہیں، اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ نہایت ہی سازگار انقلابی صورتحال ہے۔ مگر قیادت کا فقدان ایک کلیدی رکاوٹ بن چکا ہے۔

این ایل ڈی کے قائدین سے دفاعی کمیٹیوں کے قیام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ وہ سرمائے کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں اور اسی لیے بورژوا ریاست کے اداروں کو خطرے میں ڈالنے کا نہیں سوچیں گے۔ ضرورت محنت کش طبقے کی ایک ایسی خود مختار پارٹی کی ہے جو محنت کشوں کو اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کی انقلابی اپیل کرے گی اور اسی عمل کے دوران افواج کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرے گی۔

کیا اقوامِ متحدہ اور امریکی ریاست ردّ انقلاب کو روک سکتے ہیں؟

المیہ یہ ہے کہ عوام اس قسم کی اپیل کا پُر جوش انداز میں جواب دینے کو تیار ہیں مگر چونکہ انقلاب کا راستہ چننے والی قیادت کا فقدان ہے، اسی لیے اقوامِ متحدہ اور حتیٰ کہ امریکی ریاست سے اپیل کرنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ ان سے میانمار کے اندر مداخلت کر کے فوج کو اقتدار سے ہٹانے کی درخواستیں کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر آل برما فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز نے 4 مارچ 2021ء کو اس قسم کا ایک بیانیہ جاری کیا۔

Myanmar coup message to world

بعض ممالک میانمار کی فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کو ’کُو‘ ماننے سے انکاری ہیں جس کی وجہ سے اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں کے الفاظ کے حوالے سے نکتہ چینی کا شکار ہے۔ چین اور روس، خاص کر امریکی ریاست اور یورپی یونین کے ساتھ ’کُو‘ پر ردّ عمل کے حوالے سے متصادم ہیں، کیونکہ میانمار میں ان کے مفادات مختلف نوعیت کے ہیں۔

امریکی ریاست اور یورپی یونین کے نزدیک ملکی مفاد کے بہترین نمائندے آنگ سان سو چی اور این ایل ڈی ہیں۔ یہ سامراجی قوتیں میانمار کی معیشت مزید آزاد کرانے کے حق میں ہیں، جس کی وضاحت ہم نے اپنے پچھلے مضامین میں کی ہے۔ اس لیے وہ میانمار کی ”جمہوریت“ کے لیے اتنے فکر مند ہیں۔

جن لوگوں نے امریکی ریاست اور اقوامِ متحدہ سے اپیل کی ہے، ان کے لیے بری خبر یہ ہے کہ ماضی میں ”جمہوریت“ کے حوالے سے ان دونوں نے مختلف اوقات میں مختلف رویہ اپنایا ہے۔ جب ان کے مفاد کی بات ہوتی ہے تو وہ جمہوریت کا شور مچا دیتے ہیں۔ جب ان کے مفاد وابستہ نہیں ہوتے تو وہ آنکھیں پھیر کر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کے اندر اگرچہ جابر حکومت موجود ہے مگر مغربی ممالک کو ان کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کے پاس تیل کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں، اسی لیے ان کی حکومت کی کسی قسم کی مذمت نہیں کی جاتی۔

مزید برآں مذمت کے چند الفاظ اور کچھ فوجی افسران کے اوپر پابندیاں لگانے کے علاوہ امریکی ریاست میانمار کے اندر فوجی مداخلت کرنے کی جانب نہیں جائے گی، کیونکہ اس کا نتیجہ چین کے ساتھ براہِ راست تصادم کی صورت نکلے گا جو امریکہ اس وقت برداشت کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔

چین کا کردار

میانمار کے اندر جس واحد ملک کا امریکی ریاست سے بھی کہیں زیادہ اثر و رسوخ ہے وہ چین ہے، جس نے مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی کے حالیہ بیان کے مطابق ”حالات چاہے جو بھی رخ اختیار کریں، چین دوستی اور تعاون فروغ دینے کے راستے سے نہیں ہٹے گا۔“ اس نے مزید کہا کہ چین برطرف کیے جانے والی سولین حکومت اور موجودہ فوجی حکومت کے بیچ مفاہمت کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔

میانمار کے اندر استحکام کا آنا اس وقت چین کی سب سے بڑی خواہش بنی ہوئی ہے کیونکہ اس کے ملک کے اندر بے پناہ معاشی مفادات ہیں، جسے وہ اپنے حلقہ اثر کے اندر سمجھتا ہے۔ میانمار میں قدرتی وسائل کی بہتات ہے، جس کی چین کے ساتھ 2 ہزار 129 کلومیٹر لمبی سرحد منسلک ہے، 1990ء میں مغربی ممالک کی جانب سے پابندیاں لگ جانے کے نتیجے میں وہ خطے کے اندر چین کا معاشی شراکت دار بن گیا۔ 2000ء کے بعد میانمار کی معیشت کے اوپر چین کا غلبہ بہت بڑھ گیا۔

شی جن پنگ نے جنوری 2020ء میں میانمار کا دورہ کیا اور آنگ سان سو چی کے ساتھ ”33 معاہدوں پر دستخط کیے، جس میں بیلٹ اینڈ روڈ اِنیشی ایٹیو (BRI) کے کلیدی منصوبے شامل ہیں، جو چین کے تجارتی راستوں پر مشتمل ہے اور جسے اکیسویں صدی کا سِلک روڈ کہا جا رہا ہے۔ انہوں نے چین میانمار اکنامک کوریڈور (CMEC) کی تعمیر تیز کرنے پر اتفاق کیا، جو کہ اربوں ڈالر (کچھ ذرائع کے مطابق 100 ارب امریکی ڈالر) پر مشتمل ایک دیوہیکل تعمیراتی منصوبہ ہے، جس میں جنوب مشرقی چین کو بحرِ ہند کے ساتھ ریلوے کے ذریعے جوڑنے، متنازعہ رہنے والی راخائن ریاست میں ایک بڑی بندرگاہ بنانے، سرحد کے ساتھ سپیشل اکنامک زون قائم کرنے اور کاروباری مرکز دارالحکومت رنگون کے اندر نئے شہری پراجیکٹ کا منصوبہ شامل ہیں۔“ (ریوٹرز، 18 جنوری 2020ء)

چین اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے، جس کے پاس ویٹو کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اسی لیے وہ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کا ساتھ نہیں دے گا، فوجی مداخلت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تو میانمار کے اندر چین کیا حاصل کرنے کی امید میں ہے؟ کیا وہ کھلے عام فوج کی حمایت کر رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ چین ہر اس شخص کی حمایت کرے گا جو امن و استحکام اور سازگار کاروباری ماحول کو یقینی بنا سکے۔

کُو سے پہلے انہوں نے آنگ سان سو چی اور این ایل ڈی کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے تھے، اور این ایل ڈی کی قیادت بھی اچھی طرح سے جانتی تھی کہ شمالی سرحد پر واقع اپنے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار، اور ملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑے حصّہ دار کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا ان کے مفاد کے لیے کتنا ضروری ہے۔ در حقیقت این ایل ڈی کے اقتدار میں آنے کے بعد میانمار کے ساتھ چینی تعلقات کافی بہتر ہو چکے تھے۔ چین سو چی کو ایک ایسی شخصیت سمجھ رہا تھا جو استحکام کو یقینی بنا سکتی تھی۔

میانمار میں موجود چین کے سفیر چن ہائی نے اپنے حالیہ بیانیے میں کہا کہ ”این ایل ڈی اور تاتماڈو (فوج) دونوں چین کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔“

تو پھر چین کس کی حمایت کرے گا؟ بیجنگ کی حکومت جاری ہنگامے کو اس بڑی سرمایہ کاری کے لیے خطرہ سمجھتی ہے جو اس نے پچھلی دہائی کے دوران میانمار کے اندر کی ہے۔ چنانچہ وہ حمایت اسی کی کریں گے جو ان کے کاروبار کے لیے درکار سازگار ماحول کی فراہمی کی ضمانت دے سکے۔ اگر یہ ضمانت فوج دے سکی تو چین اس کے ساتھ تعلقات بنانے کی طرف جائے گا۔ اگر کہیں فوج ملک میں استحکام لانے میں ناکام ہو کر حالات کو اپنے قابو میں نہیں کر پائی، تو پھر یقینی طور پر چین مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اپنانے کے باوجود اپنی معاشی قوت کا استعمال کرتے ہوئے جرنیلوں کو این ایل ڈی اور سو چی کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرائیں گے۔

میانمار کے اندر چین کا کلیدی کردار موجود ہونے اور امریکی سامراجیت کا نسبتاً کمزور ہونے کی وجہ سے ہی امریکی ترجمان نیڈ پرائز نے کُو کے بعد اپنے بیانیے میں کہا تھا کہ:

”ہم نے چین سے درخواست کی ہے کہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے برمی فوج کے ساتھ اپنے تعلقات کو استعمال کریں اور اس کُو کا خاتمہ کریں۔“

حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ فوجی حکومت ابھی تک این ایل ڈی کا معتدل مؤقف اپنانے کی وجہ سے ہی قائم ہے۔ ان کے نزدیک اگر تحریک کو آگے بڑھا کر فوج کے لیے اپنی حکومت برقرار رکھنا ناممکن بنایا دیا جائے، تو اس کے بعد بھی اپنے محدود بورژوا لبرل نقطہ نظر کے مطابق وہ چین کی مدد کے محتاج ہوں گے، جس کے مطابق چینی افسر شاہی بورژوا جمہوریت کی بحالی کی خاطر میانمار کے فوجی افسران کے ساتھ معاہدے کر کے انہیں پیچھے ہٹانے پر مجبور ہو جائے گی۔

محنت کش طبقے کی بین الاقوامی یکجہتی

اقوامِ متحدہ، امریکی ریاست اور یورپی یونین سے کی جانے والی اپیلوں کی قیمت اس کاغذ سے بھی کم ہے جس پر وہ لکھے جاتے ہیں۔ میانمار کے اندر بڑی قوتوں کے مفادات آپس میں متصادم ہیں اور اسی لیے اقوامِ متحدہ سے چاہے جتنی بھی اپیلیں کی جائیں، اس سے میانمار کے عوام کو درکار مدد فراہم نہیں ہو پائے گی۔ ٹریڈ یونین قائدین کو اس خام خیالی کا شکار نہیں رہنا چاہیئے کہ اس قسم کی اپیلوں کے ذریعے کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بجائے انہیں دنیا بھر کے محنت کشوں سے اپیل کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کا آغاز وہ جنوب مغربی ایشیا کے محنت کشوں سے اپیل کرنے کے ذریعے کر سکتے ہیں، جہاں ابھی سے تحریکیں جاری ہیں، جیسا کہ تھائی لینڈ اور ملائشیا۔ جنوبی کوریا میں پہلے سے ہی میانمار کے عوام کی یکجہتی میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اس قسم کی اپیل کے اثرات بڑے گہرے ہوں گے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح تھائی لینڈ کا تین انگلیوں والا سیلوٹ، جو وہاں پر 2014ء کُو کے بعد سے چلتا آرہا تھا، نے قومی سرحدیں پار کر لیں اور میانمار کی سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں کیا جانے لگا۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مظاہرین خود کو ایک بین الاقوامی تحریک کے ساتھ جڑا ہوا تصور کرتے ہیں۔

اگر میانمار کے ٹریڈ یونین قائدین محض ملکی مظاہروں کے لیے اپیل نہ کریں بلکہ پڑوسی ممالک کے محنت کشوں سے بھی متحرک ہونے کی گزارش کریں، تو اس سے باقی ممالک کی حکومتوں پر بھی سخت دباؤ پڑے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹریڈ یونین قائدین ہر جگہ پر اپنے ملک کے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود سے باہر نکل کر محنت کشوں کی ایک آزادانہ تحریک کے بارے میں نہیں سوچتے۔

محنت کشوں کی بین الاقوامی یکجہتی کے بارے میں سوچنا بالکل بھی خیالی پلاؤ نہیں ہے۔ ماضی میں اس حوالے سے مقامی اور نچلی سطح پر اقدامات اٹھانے کی مثالیں موجود ہیں۔ مئی 2019ء کے اندر ہمیں اطالوی یونینز کی مثال ملتی ہے جنہوں نے جینیوا شہر کی بندرگاہ پر سعودیہ عرب کی اس کشتی میں بجلی کے جنریٹر لادنے سے انکار کر دیا جو ہتھیار منتقل کر رہی تھی۔ یہ کشتی اس سے پہلے بیلجئیم سے ہتھیار اٹھا کر جب فرانس کی لو آور بندرگاہ پر مزید ہتھیار اٹھانے کے لیے رکی تو فرانسیسی محنت کشوں نے اس کا راستہ روک دیا۔ یہ یمن میں جاری جنگ کے لیے سعودیہ عرب کی حمایت کے خلاف فرانسیسی اور اطالوی محنت کشوں کا احتجاج تھا۔

ایک دوسری سعودی کشتی کو بھی فرانسیسی بندرگاہ فوس سور میر پر روکا گیا تھا جو سعودی عرب ہتھیار لے جا رہی تھی۔ 2008ء کے اندر ہمیں ایک اور مثال ملتی ہے جب چین کی جانب سے زمبابوے ہتھیار منتقل کیے جا رہے تھے، جس کو جنوبی افریقہ کے محنت کشوں نے اپنے زمبابوے کے محنت کش ساتھیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے روک دیا اور اسے لادنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد اسے چین واپس کرنا پڑا۔

جب 1973ء میں چِلی کے اندر پنوشے کی قیادت میں کُو کیا گیا تھا تو اس دور میں محنت کشوں کی جانب سے حکومت کے بائیکاٹ کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک مثال سکاٹش محنت کشوں کے بائیکاٹ کی ہے جب کُو کے ایک سال بعد چلی کی ائیر فورس کے جہازوں کے انجن سکاٹ لینڈ میں موجود رولز رائس کے کارخانے بھیجے گئے تھے، مگر محنت کشوں نے ان پر کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

Scottish workers

تاریخ میں کئی بار محنت کش طبقے نے بین القوامی یکجہتی کا مظاہرہ کر کے اپنی عالمی طاقت کا اظہار کیا ہے۔ آج میانمار میں بھی یہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بہت نچلی سطح پر لیے جانے والے اقدامات ہیں جو ایک ملک کے محنت کشوں نے دوسرے ملک کے محنت کشوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے لیے تھے۔ آج اگر میانمار کی ٹریڈ یونین قیادت اقوامِ متحدہ اور امریکی ریاست سے گزارشات کرنے کی بجائے دنیا بھر کے محنت کشوں سے تحرک میں آنے کی اپیل کرے تو اس کا لازمی طور پر جواب ملے گا۔

چنانچہ میانمار کے اندر بھی اور باہر بھی محنت کشوں کی ایک آزادانہ تحریک کی ضرورت ہے۔ میانمار کے محنت کش قائدین اگر ایک بے باک اور انقلابی حکمت عملی اپنائیں اور محنت کشوں کی بین القوامی یکجہتی اس تحریک کو میسر آجائے تو اس خونی حکومت کا خاتمہ کرنا ممکن ہے۔

بہرحال درکار انقلابی قیادت کے بغیر، چاہے کچھ عرصے تک ہی سہی، فوجی حکومت برقرار رہے گی۔ وہ قیادت کے فقدان کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ پُر تشدد جبر اور دباؤ میں اضافہ کر کے، اور کارکنان پر حملے کر کے، وہ آخرکار استحکام لوٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ایسا ہونا کس حد تک ممکن ہے؟ ابھی کے لیے تو وہ منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ مگر انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں جب عوام تھک جائیں گے تو فوج اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے، جس کا مطلب فوجی آمریت کے تحت عارضی استحکام کا لوٹ آنا ہوگا۔ البتہ اگر ایسا ہو بھی جائے، یہ ایک ایسی حکومت ہوگی جس کی سماجی بنیادوں کا وجود نہیں ہوگا اور اس لیے وہ پچھلی فوجی حکومتوں کی طرح زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پائے گی۔

سماجی بنیاد کے بغیر وہ محض ڈنڈے کے زور پر ہی حکومت کر پائے گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک کمزور اور غیر مستحکم حکومت ہوگی۔ میانمار میں محنت کشوں کی ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے جو ٹریڈ یونین کے حقوق، ہڑتال کرنے اور دیگر حقوق کی عادی ہو چکی ہے۔ سرمایہ داری کے عالمی بحران کا دباؤ اس کے علاوہ ہوگا۔ سماجی اور معاشی حالات بگڑنے کی طرف جائیں گے اور اسی لیے عوام کے نزدیک فوج کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ چنانچہ یہ ایک دیر پا حکومت نہیں ہوگی۔

انقلاب کے لیے حالات مکمل تیار ہیں مگر اس کے لیے ایک پُر عزم انقلابی سوشلسٹ قیادت کی ضرورت ہے، جو انقلابی ممکنات کو حرکت میں لاتے ہوئے کامیابی سے حکومت کا تختہ الٹ دے اور سماج کو تبدیل کر کے رکھ دے۔

Comments are closed.