بن مانس سے آدمی تک پہنچنے میں محنت کا کردار

|تحریر: فریڈرک اینگلز، ترجمہ: ظ انصاری|

سیاسی معاشیات کے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ محنت ہر قسم کی دولت کا سرچشمہ ہے۔ واقعی ہے بھی ایسا ہی۔ فطرت کے بعد محنت کا ہی نمبر آتا ہے کہ فطرت وہ سروسامان مہیا کرتی ہے جسے محنت دولت میں ڈھال لیتی ہے۔ مگر اس کے سوا محنت غیر محدود لحاظ سے اور بہت کچھ ہے۔ تمام انسانی وجود کے لئے محنت ایک بنیادی اور اولین شرط ہے، اس کی بنیادی اہمیت اس درجہ ہے کہ ایک معنی میں ہم یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ محنت نے خود انسان کو تخلیق کیا ہے۔

آج سے لاکھوں سال پہلے جب وہ دور تھا جس کا ہم دو ٹوک طریقے سے ابھی تک تعین نہیں کر سکتے، زمین کی تاریخ کا وہ دور جسے ماہرینِ ارضیات تیسرے جُگ کا (Tertiary Period) زمانہ کہتے ہیں، غالباً اس کے ختم ہوتے وقت انسان سے ملتے جلتے بن مانسوں کی کوئی ترقی یافتہ نسل کہیں گرم آب و ہوا کے علاقوں میں آباد تھی۔۔۔غالباً اس لمبے چوڑے براعظم پر آباد رہی ہو گی جو بعد میں بحرِ ہند میں غرقاب ہو گیا۔ ڈاروِن نے ہمارے اسلاف کا لگ بھگ نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ان کے جسم پر بال ہی بال تھے، داڑھیاں تھیں، اٹھے ہوئے کان تھے اور درختوں پر جھنڈ کے جھنڈ رہا کرتے تھے۔2؎

قیاساً، ان کے رہن سہن کے ڈھنگ کے سبب اوپر چڑھنے میں ہاتھوں کو پاؤں کے بہ نسبت مختلف عمل کرنا پڑتا تھا۔ نتیجتاً، یہ بن مانس رفتہ رفتہ ہاتھوں کی مدد سے چلنے کی عادت سے آزاد ہوتے گئے اور انہوں نے کھڑے قد سے چلنا پھرنا شروع کر دیا۔ یہی فیصلہ کن مرحلہ تھا بندر سے آدمی تک پہنچنے کا۔

اب تک جتنی قسموں کے بھی بن مانس ملتے ہیں، وہ سب سیدھے کھڑے ہو سکتے ہیں اور کھڑے قد سے چل پھر سکتے ہیں لیکن صرف اشد ضرورت کے وقت اور وہ بھی بے ڈول طریقے سے۔ ان کی قدرتی چال کچھ کھڑی، کچھ جھکی ہوئی ہوتی ہے اور اس میں ہاتھوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اکثر تو زمین پر بند پنجہ ٹیکتے ہیں اور ٹانگیں اچکا کر، اپنے لمبے بازوؤں کے درمیان جسم جھلاتے ہیں، بالکل ایسے جیسے لنجے لوگ بیساکھی کے سہارے سرکتے ہیں۔ مختصراً، چار ہاتھ پاؤں پر چلنے سے لے کر دو پاؤں پر چلنے کے طریقے تک جتنے مرحلے درمیان میں گزرے ہیں، ان سب کی کوئی نہ کوئی جھلک انسان نما بندروں میں آج بھی نظر آتی ہے۔ لیکن ان میں سے ہر ایک کے لئے کھڑے قد کی چال صرف ایک مجبوری کا معاملہ ہے۔

قرین قیاس یہی ہے کہ ہمارے ان اسلاف بن مانسوں میں یہ کھڑے قد کی چال پہلے تو ایک قاعدہ بنی اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ضرورت بنتی گئی، اور اس اثنا میں لازمی طور پر دیگر گونا گوں افعال ہاتھوں کے ذریعے ادا کیے جانے لگے۔ بن مانسوں میں آج بھی ہاتھ اور پاؤں کا جس طرح استعمال ہوتا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تخصیص موجود ہے۔ اوپر چڑھنے میں، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے، ہاتھ ایک کام انجام دیتے ہیں اور پاؤں دوسراکام۔ ہاتھوں سے خاص کر خوراک بٹورنے اور سنبھالنے کا کام اسی طرح لیا جاتا ہے جیسے نچلے درجے کے ممالیہ جانور (Mammals) اگلے پنجوں سے کام لیتے ہیں۔ بہت سے بن مانس ہاتھوں کا استعمال درختوں پر اپنا ٹھکانا بنانے میں یا ٹہنیوں کے درمیان ایسی چھت لگانے میں کرتے ہیں جس میں وہ خود کو موسم کی سختیوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ مثال کے طور پر چمپینزی (بغیر دُم کا بندر) یہی کرتا ہے۔ ہاتھ میں ڈنڈا پکڑ کر وہ دشمن سے اپنا بچاؤ کرتے ہیں اور انہی ہاتھوں سے دشمن پر پھلوں اور پتھروں کے گولے برساتے ہیں۔ جب آدمی انہیں پکڑ کر رکھتا ہے تو وہ آدمی کی نقل میں ہاتھوں سے چھوٹے موٹے کئی کام کرنے لگتے ہیں۔ یہیں سے نظر آتا ہے کہ آدمی سے سب سے زیادہ ملتے جلتے بن مانسوں کے نا پختہ ہاتھوں میں اور ان انسانی ہاتھوں میں کتنا بڑا فاصلہ حائل ہے جو لاکھوں سال کی محنت سے سدھر کر، ترقی کر کے اس درجے کو پہنچے ہیں۔ دونوں کے ہاتھوں میں ہڈیوں اور عضلات کی تعداد بھی برابر ہے اور ان کے جوڑ بند بھی ایک سے ہیں۔ پھر بھی سب سے پست سطح کا وحشی اپنے ہاتھوں سے سینکڑوں ایسے چھوٹے موٹے کام کر لیتا ہے کہ بن مانس ان کی نقل نہیں کر پاتا۔ کسی بن مانس نے آج تک اپنے ہاتھوں سے پتھر کا ایک کھردرا سا چاقو بھی نہیں بنایا۔

شروع شروع میں ہمارے ان اسلاف نے ہزاروں سال میں بندر سے آدمی تک کا فاصلہ طے کرتے وقت جن کاموں کے لئے آہستہ آہستہ اپنے ہاتھوں کا استعمال سیکھا ہو گا وہ بڑے سیدھے سادے کام رہے ہوں گے۔ سب سے پست سطح کے ایسے وحشی بھی جن کے متعلق قیاس کیا جا سکتا ہے کہ تنزل کے سبب جانوروں جیسی حالت کے ساتھ ساتھ وہ جسمانی انحطاط سے بھی دو چار ہیں، وہ بھی ان عبوری دور کی نیم انسانی مخلوق کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ پہلے پہل جب انسانی ہاتھوں نے سخت پتھر کو چاقو میں ڈھالنے کی تدبیر کی ہو گی، اس وقت تک اتنا زمانہ گزر گیا ہو گا جس کے سامنے ہمارے علم میں آیا ہوا تمام تاریخی زمانہ ہیچ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ایک بار پتھر کا چاقو بنا تو فیصلہ کن قدم اٹھ گیا، ہاتھ آزاد ہو گئے، اور چابک دستی تو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی ہی تھی۔ اس طرح جو لوچ اور لچک آتی گئی وہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل بھی ہوتی گئی، بڑھتی بھی چلی گئی۔

اب دیکھئے تو ہاتھ صرف محنت کرنے کا ایک عضو نہیں بلکہ خود محنت کی ہی پیداوار بھی ہے۔ محنت، نت نئے کاموں کی دھن، وراثت میں ملنے والے پختہ عضلات، لیگامنٹس اور بڑی مدت میں مخصوص شکل میں ڈھل جانے والی ہڈیوں، اوراس وراثت میں پائی ہوئی نفاست کے نئے اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر کاموں میں مسلسل استعمال نے مل ملا کر انسانی ہاتھ کو کمال کے اس درجے پر پہنچا دیا جہاں وہ مصوررفائیل کی تصویریں، بت تراش تھوروالڈسن کے مجسمے اور نغمہ نگار پگانینی کی موسیقی وجود میں لا سکے۔

مگر خود ہاتھ کا وجود تنہا نہیں تھا۔ ہاتھ تو ایک مکمل اور انتہائی پیچیدہ جاندار جسم کا محض ایک جزو تھا۔ جس شے سے ہاتھ کو فیض پہنچا اسی سے پورے جسم کو بھی پہنچا جو ہاتھ سے خدمت لیتا تھا۔ اور یہ عمل دو طرح تھا۔

پہلے، ڈارون کے لفظوں میں نشوونما کی ہم آہنگی کے قانون کے تحت جسم مستفیض ہوا۔ یہ قانون کہتا ہے کہ ایک مرکب جاندار وجود کے الگ الگ اعضا کی مخصوص اشکال، ہمیشہ دوسرے اعضا کی اپنی خاص شکلوں سے گہرا ربط رکھتی ہیں جن کا بظاہر آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ، وہ تمام جانور جن میں خون کے سرخ خلیے بغیر مرکزوں کے (Cell Nuclei) موجود ہوتے ہیں اور جن میں سر دو قفلیوں کے ذریعے ریڑھ کی پہلی ہڈی سے جڑا ہوتا ہے، ان سب میں بلا استثنا ایسے غدود پائے جاتے ہیں جن سے بچوں کو دودھ پلایا جا سکے۔ اسی طرح، دودھ پلانے والے جانوروں میں اگر سم نہیں، کھر ہوں گے تو ان کے معدے بھی جگالی کے لئے کئی منزلہ ہوں گے۔ بعض (اعضا کی) شکلوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے زیر اثر جسم کے دوسرے حصوں کی اشکال میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں، اگرچہ ہم اس ربط کی وضاحت نہیں کرسکتے۔ سر سے پاؤں تک سفید اور نیلی آنکھوں والی بلیاں ہمیشہ یا تقریباً بہری ہوتی ہیں۔ انسانی ہاتھوں کا رفتہ رفتہ کمال حاصل کرتے جانا اور اسی نسبت سے پیروں کا کھڑے قد کی چال کے مطابق ڈھلتے جانا، اسی ربط کی بدولت جسم کے دوسرے حصوں پر بھی یقینا اثر انداز ہوا۔ لیکن یہ عمل ابھی تک اتنا تحقیق طلب ہے کہ ہم اس حقیقت کو یوں ہی بیان کر دینے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے۔

اس سے بھی کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ ہاتھ کی نشوونما نے باقی جسم پر براہِ راست ایسا اثر ڈالا جو نظر میں بھی آتا ہے۔ معلوم ہے کہ ہمارے بندر سے مشابہہ پیشرو جھنڈ بنا کر رہنے کے عادی تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کا پتہ لگانا قطعی ممکن نہیں کہ تمام حیوانات میں سب سے زیادہ گھل مل کر رہنے والا حیوان— یعنی انسان اپنے سے ذرا پہلے کے الگ تھلگ رہنے والے پیشرو سے کہاں، کس مرحلے پر الگ ہوا۔ ہاتھ کی نشوونما کے ساتھ اور محنت سے آدمی کا فطرت پر قابو بڑھنا شروع ہوا اور اس نے بڑھتے ہوئے ہر ایک قدم پر اس کی نگاہ کو وسعت بخشی۔ قدرت کی دی ہوئی چیزوں میں وہ برابر نئی، اچھوتی، انجانی خاصیتوں کا پتہ لگاتا گیا۔ دوسری طرف یہ ہوا کہ محنت کی ترقی نے باہمی سہارے اور مل جل کر کام سرانجام دینے کی بدولت لازمی طور سے سماج کے الگ الگ لوگوں کو جوڑنے میں مدد دی کیوں کہ مل جل کر کام کرنے میں ہر ایک فرد بشر کو فائدے نظر آنے لگے۔ مختصر یہ کہ آدمی اپنی بناوٹ یا اٹھان کے دور میں ہی اس مقام پر پہنچ گیاجہاں ایک کو دوسرے سے کچھ نہ کچھ کہنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس ضرورت نے خاص عضو بخشا: بن مانس کے بے تربیت حلق میں آہستہ آہستہ زبان کے گھماؤ اور آواز کے اتار چڑھاؤ سے قطعی طور پر تبدیلی ہوئی اور وہ اس قابل ہو گیا کہ زیادہ ترقی یافتہ آوازیں حلق سے نکال سکے اور منہ کے اعضا ایک کے بعد ایک حرف کا تلفظ ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے گئے۔

جانوروں سے آدمی کا تقابل کیجئے تو ثابت ہو جائے گا کہ محنت کے عمل سے اور اسی عمل کے تسلسل میں زبان کی ابتدا کو سمجھنا درست ہو گا۔ سب سے زیادہ ترقی یافتہ جانوروں کو بھی جو تھوڑا بہت ایک دوسرے پر ظاہر کرنا (یا کہنا) ہوتا ہے، انہیں بھی مختلف تلفظ والی آوازوں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اپنی قدرتی حالت میں کسی جانور کو یہ کوتاہی یا بے بسی نہیں معلوم ہوتی کہ وہ آدمی کی بولی نہ ادا کر سکتا ہے، نہ سمجھ سکتا ہے۔ البتہ جب آدمی اسے پال لے تو اور بات ہے۔ کتا اور گھوڑا آدمی کے ساتھ رہتے رہتے تلفظ والی آوازوں کے سننے اور سمجھنے کی ایسی عمدہ صفت پیدا کر لیتے ہیں کہ اپنی سوجھ بوجھ کے دائرے میں کوئی بھی زبان آسانی سے سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ایسے جذبات کی وہ صلاحیت بھی حاصل کر لی —مثلاً انسان سے محبت اور شکر گزاری وغیرہ، جو کسی زمانے میں ان کے لئے بالکل اجنبی رہے ہوں گے۔ جس شخص کا ایسے جانوروں سے کافی واسطہ رہ چکا ہے وہ اس یقین سے بمشکل انکار کر سکتا ہے کہ اکثر موقعوں پر ان جانوروں کو کچھ نہ کچھ کہنے کی بے تابی ہونے لگتی ہے اور اب وہ نہ کہہ سکنے کو ایک بڑا عیب یا معذوری محسوس کرتے ہیں، اگرچہ بدقسمتی سے یہ بے بسی لاعلاج ہے کیوں کہ ان کے صوتی اعضا دوسری سمت میں پہلے ہی پختہ ہو چکے ہیں۔ مگر جن حیوانوں میں صوتی اعضا موجود ہیں ان میں خاص حدود کے اندر یہ معذوری بھی دور ہو جاتی ہے۔ پرندوں کے دَہنی اعضا کی ساخت آدمی سے انتہائی مختلف ہے۔ تاہم پرندے ایسے جانور ہیں جو بولنا سیکھ سکتے ہیں۔۔ اور پرندوں میں بھی سب سے ہولناک آواز کا پرندہ طوطا ہے، جو بولنے میں سب سے تیز ہے۔ اس پر یہ اعتراض اُٹھایا جا سکتا ہے کہ طوطا جو بولتا ہے سمجھتا نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ محض لذتِ گفتار کی خاطر اور انسانوں سے قربت کے لطف میں طوطا گھنٹوں ایک سانس بولتا چلا جاتا ہے اور جتنے لفظ اسے معلوم ہوں سب دوہرا ڈالتا ہے۔ لیکن اپنی سمجھ بوجھ کے دائرے میں وہ جو کہتا ہے اسے سمجھنا بھی سیکھ لیتا ہے۔ کسی طوطے کو گالی کوسنے کے لفظ اس ڈھب سے سکھا کر دیکھئے کہ وہ ان کا مطلب بھی سمجھتا جائے (گرم ملکوں سے واپس آتے ہوئے جہازی اپنی تفریح کے لئے یہ شغل اختیار کر لیتے ہیں) اور پھر ذرا طوطے کو ستا کر دیکھئے، وہ ایسی برمحل کھری کھری ملاحیاں سنا ڈالے گا جیسے برلن کا کوئی کُنجڑا(پھیری بان)۔ یہی بات کھانے کی چھوٹی موٹی چیزوں کے مانگنے پر بھی صادق آتی ہے۔

اول تو محنت اور پھر بعد میں اس کے ساتھ ساتھ قوت ناطقہ (گویائی) یہ دو سب سے اہم محرک تھے جو اپنے اثر سے بن مانس کے دماغ کو رفتہ رفتہ اس انسانی دماغ تک لائے جو اپنی مشابہت کے باوجود بن مانس کے دماغ سے بڑا بھی ہے اور زیادہ مکمل بھی۔ دماغ کی نشوونما ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے فوری اوزاروں، یعنی حواسوں (کے اعضا) کی ترقی بھی ہوئی۔ جیسے قوتِ ناطقہ کی رفتہ رفتہ ترقی سے عضوِ سماعت کا نکھرنا اور سدھرنا تال میل رکھتا ہے، ٹھیک اسی طرح دماغ کی ترقی بھی مجموعی طور پر تمام حواسوں کی ترقی اور نکھار کے ساتھ چلتی ہے۔ عقاب کی آنکھ آدمی کی نظر سے کہیں دور پہنچتی ہے لیکن انسانی آنکھ عقاب سے کہیں بڑھ کر چیزوں میں امتیاز کر سکتی ہے۔ کتے کو آدمی سے زیادہ سونگھنے کی حس (شامہ)میسر ہے لیکن بو اور بو کا فرق، جو انسان کو مختلف چیزوں کی شناخت دلاتا ہے، کتے کو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملا۔ اسی طرح، چھونے کی حس (لامسہ) جو بن مانس کو بالکل ابتدائی شکل میں بمشکل کسی قدر حاصل ہوتی ہے، خود انسانی ہاتھ کی نشوونما کے ساتھ ساتھ اور محنت کی راہ سے بڑھتی گئی۔

محنت اور قوتِ گفتار پر دماغ اور اس سے وابستہ حواس کی ترقی کا اثر، شعور میں آتا نکھار، تجرید بنانے اور فیصلہ کرنے کی قوت، یہ سب عوامل محنت اور گفتار دونوں کو برابر آگے بڑھتے رہنے کی تحریک دیتے رہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جوں ہی آدمی آخر کار بن مانس سے علیحدہ ایک وجود بن کر ابھرا تو یہ ترقی اپنے انجام کو پہنچ گئی بلکہ مجموعی طور پر اس کی زبردست پیش قدمی جاری رہی۔البتہ آدمی کے مختلف گروہوں اور مختلف زمانوں میں ترقی کے درجے اور ترقی کی سمت کا فرق بھی باقی رہا۔ ایسا بھی ہوتا رہا کہ کبھی کبھی اور کسی کسی جگہ ترقی کے بجائے عارضی تنزل آگیا۔ تاہم وہ عام طور پر آگے بڑھتا رہا۔ اس کے علاوہ ایک نیا عنصر زندگی میں داخل ہوا جس نے ایک طرف تو اس ترقی کو قوی تحرک دیا اور دوسری طرف اسے خاص ڈگر پر آگے بڑھایا، یہ نیا عنصر مکمل انسانی وجود کے ساتھ ابھرا اور اس کا نام تھا سماج۔

درختوں پر کود پھاند مچانے والے بندروں کے جھنڈ سے ہوتے ہوتے انسانی سماج تک پہنچنے میں لازمی طور پر لاکھوں سال لگے ہوں گے جو کرہئ ارض کی تاریخ میں اس سے زیادہ وقفے کی اہمیت نہیں رکھتے جتنا آدمی کی مدت حیات میں ایک سیکنڈ* لیکن بہرحال وہ وقت بھی آہی گیا، انسانی سماج ابھرا۔ وہ خاص بات کیا ہے جو بندروں کے جھنڈ اورانسانی سماج میں وجہئ امتیاز بنتی ہے؟ وہ محنت ہے۔ بندروں کی کھیپ اتنے میں ہی خوش تھی کہ جغرافیائی حالات اور پڑوس کی کھیپ کے مقابلے یا ٹکراؤ سے جتنی کچھ جگہ اسے اپنا پیٹ بھرنے کو میسر آجائے اسی پر بسرکر لے۔ پیٹ بھرنے کی نئی جگہیں حاصل کرنے کے لئے اس نے اپنے ٹھکانے بھی بدلے، مقابلے بھی کئے لیکن یہ ان کے بس کی بات نہ تھی کہ قدرتی حالت میں جو کچھ ان ٹھکانوں سے میسر آجاتا، اس سے کچھ زیادہ نکال لیں، سوائے اس کے کہ بے خبری میں وہ زمین کو اپنے فضلے سے اور زرخیز بنا دیں۔ جب منہ مارنے کی ساری جگہیں بھر گئیں تو بن مانسوں کی آبادی بھی تھم گئی۔ حد سے حد یہ کہ جتنے جانور موجود ہیں، اتنے ہی رہ جائیں۔ لیکن جانوروں کے وجود سے خوراک بہت ضائع ہوتی ہے، نہ صرف خوراک بلکہ اس کی کونپل بھی پنپنے سے پہلے برباد ہو جاتی ہے۔ شکاری تو چھوڑ بھی دے لیکن بھیڑ یا اس ہَرنی کو زندہ نہیں چھوڑتا جس کے بچے اگلے سال خوراک بن سکتے ہیں۔ یونان میں بھیڑ بکریوں نے چھوٹی جھاڑیاں بھی تناور ہونے سے پہلے کھا لیں اور تمام پہاڑیوں کی ہریالی چٹ کر گئیں جس کے سبب سے پہاڑ بنجر رہ گئے۔ یہ ”غارت گرانہ معیشت“ حیوانوں کی انواع میں رونما ہونے والی بتدریج مگر کایاپلٹ تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ امر ان کو اپنے روزمرہ کے غذائی معمول کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے پر مجبور کرتا ہے۔ یوں خوراک کی اس تبدیلی کی بدولت ان کے خون کی کیمیائی ساخت بدل جاتی ہے اور رفتہ رفتہ پوری کی پوری طبعی ساخت بھی تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔جانوروں کی جو انواع خود کو تبدیل شدہ حالات کے مطابق نہ ڈھال سکیں وہ نا پید ہو گئیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسی غارت گرانہ معیشت کی زبردست تاثیر ہی تھی جس نے ہمارے اسلاف کو بن مانس سے انسان کے درجے تک پہنچا دیا۔ بن مانسوں کی وہ نسل جو ذہانت میں اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت میں اپنے ہم جنسوں سے سبقت لے گئی ہو گی، اس پر غارت گرانہ معیشت کا اثر یہ ہونا چاہئے کہ جن پھل پودوں سے وہ اپنا پیٹ بھرتی رہی ہو گی اب ان میں اور پھل پودے ملا لئے ہوں گے اور خوراک کے درختوں میں زیادہ سے زیادہ غذائی حصوں کو شریک کر لیا ہو گا۔ نتیجہ یہ کہ خوراک کا میل برابر بدلتا چلا گیا اور اسی کے ساتھ جو غذائی اشیا بدن میں پہنچتی تھیں، وہ بھی بدلتی گئیں۔۔۔ یعنی وہ مادے جزو بدن ہوتے گئے جو بن مانس سے بدلتے بدلتے آدمی میں ڈھل جانے کی کیمیائی ضرورت کی تسکین کرتے تھے۔

یہ سب تو ہوا لیکن ابھی صحیح معنی میں محنت کا عمل دخل شروع نہیں ہوا تھا۔ محنت اوزار بنانے کے ساتھ ظہور میں آتی ہے۔ وہ کون سے قدیم ترین اوزار ہیں جو آج ہمیں ملتے ہیں؟ ماقبل تاریخ (Prehistoric) زمانے والے آدمی کی جو قدیم سے قدیم وراثت دستیاب ہوئی ہے، اس کو نظر میں رکھتے ہوئے، اور اولین تاریخی آبادیوں کے رہن سہن اور آج تک کے انتہائی خام وحشیوں کے طور طریقوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں جن قدیم سے قدیم اوزاروں کا پتہ چلتا ہے وہ شکار اور مچھلی پکڑنے کے اوزار ہیں، شکار والے اوزار تو ہتھیار کے کام بھی آتے تھے۔ لیکن شکار اور ماہی گیری خود اس تبدیلی کا ثبوت ہیں کہ محض سبزی خوری کے ساتھ ساتھ گوشت بھی کھایا جانے لگا ہے اور یہ تبدیلی ایک اور اہم قدم تھا بن مانس سے آدمی کی طرف سفر کی جانب۔ گوشت کی خوراک جسم کو تقریباً تیار حالت میں وہ انتہائی ضروری اجزا مہیا کر دیتی ہے جو جزو بدن ہو جاتے ہیں۔ اس نے نہ صرف ہاضمے کا وقت بلکہ آدمی کے جسم میں نباتاتی زندگی سے مطابقت رکھنے والے اور کئی نباتاتی عوامل کا وقت بھی کم کر دیا اور اس ترکیب سے اتنا وقت، سروسامان اور جذبہ شوق حاصل ہوا جس سے حیوانی زندگی زیادہ بھرپور اور زیادہ سرگرم عمل ہو سکے۔ یوں یہ تشکیل پاتا ہوا آدمی نباتات کی دنیا سے جتنا دور نکلتا گیااتنا ہی وہ حیوانات سے بلند و برتر ہوتا گیا۔ جس طرح جنگلی کتے بلی گوشت کی غذا کے ساتھ سبزی ترکاری کے عادی ہوتے ہی آدمی کی خدمت میں لگ جاتے ہیں، اسی طرح وہ آدمی جو بن مانس سے آگے کی جانب سفر کر رہا تھا سبزی ترکاری کی غذا کے ساتھ گوشت کھانے کی طرف مائل ہوا تو اس کے بدن کو طاقت اور جسم کو آزادی دینے میں اس خوراک سے بہت مدد ملی۔ گوشت کی خوراک کا دماغ پر سب سے گہرا اثر پڑا کہ دماغ کو غذائیت اور اٹھان کے لئے جن اجزا کی شدید ضرورت تھی وہ پہلے سے بھرپور مقدار میں نصیب ہونے لگے اور اب دماغ ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں زیادہ تیزی سے اور زیادہ خوبی کے ساتھ بڑھنے پنپنے لگا۔ ہم سبزی خوری کے حامیوں کو بصد احترام بتانا چاہتے ہیں کہ آدمی گوشت کی خوراک کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ اور اگر اس کے کارن وہ سب جاتیاں، جو ہمارے علم میں ہیں کسی نہ کسی وقت میں آدم خوری میں مبتلا رہی ہیں تو آج ہمیں اس بات سے کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے (برلن والوں کے اسلاف، ویلے ٹبینز یا ولزیئیز تو دسویں صدی تک اپنے والدین کا گوشت کھا لیا کرتے تھے)۔

گوشت کی غذاکے آنے سے دو فیصلہ کن پیشرفتیں ہوئیں۔۔۔ ایک تو آگ سے کام لینا اور دوسرا جانور پالنا۔ آگ کے استعمال نے ہاضمے کے عمل کو اور مختصر کر دیا کیوں کہ جب لقمہ پک کر منہ تک پہنچا تو گویا وہ نیم ہضم شدہ تھا؛ جانور پالنے کی بدولت گوشت کی غذا اور بھی زیادہ استعمال ہونے لگی کیوں کہ اس نے شکار کے علاوہ خوراک کی سپلائی کی ایک تازہ اور باقاعدہ راہ کھول دی۔ مزید برآں، دودھ اور دودھ کی اشیاء کی صورت میں ایک ایسی نئی غذا مہیا ہوگئی جو اپنی غذائی ترکیب میں گوشت سے کچھ کم مفید نہیں تھی۔ تو گویا یہ دونوں پیشرفتیں بجائے خود انسان کو فطرت کی پابندیوں سے آزاد کرنے میں نیا براہ راست ذریعہ ثابت ہوئیں۔ خواہ انسان اور اس کے سماج کی ترقی میں گوشت خوری کے بالواسطہ اثرات نے کتنی ہی بڑی خدمت انجام دی ہو، تاہم اگر تفصیل سے انہیں بیان کرنے بیٹھیں تو ہم اپنے موضوع سے دور نکل جائیں گے۔

جس طرح انسان نے قابلِ خوراک ہر ایک شے کو گلے اتارنا سیکھا، ایسے ہی یہ بھی معلوم کر لیا کہ کسی بھی آب و ہوا میں کیسے رہا جائے۔ دنیا میں جہاں بھی رہنے بسنے کی گنجائش دیکھی وہیں پھیل گیا اور وہی ایک ایسا حیوان تھا جو اپنی مرضی سے کہیں بھی ٹھکانا کر سکتا تھا۔ اور باقی حیوان مثلاً پالتوجانور اور کیڑے مکوڑے جو ہر قسم کی آب و ہوا میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں وہ اپنے آپ سے اس قابل نہیں ہوئے بلکہ آدمی کی بدولت ہوئے ہیں۔ اور یکساں طور پر گرم آب و ہوا والے خطوں سے، جو کہ آدمی کا اصل گھر تھے، سے ٹھنڈے علاقوں کی جانب نقل مکانی نے نئی ضروریات کو جنم دیا جہاں سال میں گرمی اور سردی دونوں کا دور ہوتا تھا۔ اب اسے سردی اور رطوبت سے بچاؤ کی خاطر سر چھپانے اور بدن ڈھانکنے کا سامان کرنا پڑا۔ چنانچہ، محنت کے نئے میدان کھلے، عمل کی نئی شکلیں سامنے آئیں جو آگے چل کر آدمی کو باقی حیوانات سے اور بھی جدا کرتی چلی گئیں۔

نہ صرف فرد بلکہ سماج میں بھی ہاتھوں، قوت گویائی کے اعضا اور دماغ ان تینوں کے مل جل کر کام کرنے سے انسان میں یہ صلاحیت اور سکت پیدا ہوئی کہ زیادہ سے زیادہ پیچیدہ کام کر سکے، اور ایک سے ایک بڑے مقصد کو نظر کے سامنے رکھ کر اسے حاصل کر سکے۔ ہر آنے والی نسل کا کام پچھلی سے مختلف، خوب سے خوب تر اور زیادہ رنگارنگ ہوتا گیا۔ اب تک شکار کرنا اور مویشی پالنا تھااور اب اس میں زراعت کا جوڑ بھی لگ گیا۔ پھر کتائی، بنائی کا نمبر آیا، دھات کاکام، برتن بنانا اور کشتی کھینا بھی شامل ہو گیا۔ تجارت اور صنعت کے جلو میں بالآخر آرٹ اور سائنس نے ظہور کیا۔ قبیلے تھے، بڑھ کر قومیں اور ریاستیں بن گئیں۔ قانون اور سیاست کی باری آئی اور انہیں کے ساتھ ساتھ انسانی چیزوں کی ذہنِ انسانی میں شاندار خیالی شبیہ نمودار ہوئی، یعنی مذہب۔ ان ساری تخلیقوں کے مقابل، جو یوں معلوم ہوتی تھیں گویا اول ذہنِ انسانی کی پیداوار ہیں اور پھر انسانی سماج پر چھائی ہوئی ہیں، دستِ محنت کا تیار کیا ہوا سیدھا سادا سامان کم حیثیت ہوکر پس منظر میں کھسکتا چلا گیا اور پس منظر میں اس کے کھسک جانے کی زیادہ تر وجہ یہ ہوئی کہ وہ دماغ، جو محنت کا ڈول ڈالتا تھا، وہ سماج کے اٹھان کے بالکل ابتدائی مرحلے میں ہی (مثلاً شروع کے خاندان میں ہی) اس قابل ہو گیا کہ محنت کا جو نقشہ اس نے تیار کیا ہے وہ اپنے ہاتھ کے بجائے دوسروں کے ہاتھوں پورا کرائے۔ تمدن کی تیز رفتار ترقی کا سہرا ذہنِ انسانی کے سر باندھ دیا گیا کہ یہ دماغ کی ہی ترقی اور سرگرمی کا حاصل حصول ہے۔ لوگ اس کے عادی ہو گئے کہ اپنے عمل کو ضرورتوں کا نتیجہ بتانے کے بجائے اپنے خیالات کا پھل سمجھا اور سمجھایا کریں (حالاں کہ ضرورت ہی اپنا پرتو دماغ پر ڈالتی اور وہاں تحریک پیدا کرتی ہے)۔ چنانچہ وقت گزرتا گیا اور کائنات کا عینیت پرستانہ (Idealist) نکتہ نظر جگہ بناتا گیا جس نے خاص کر کلاسیکی قدیم دنیا کے زوال کے بعد سے انسانی دماغوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اس کا اثر دماغوں پر آج تک اتنا چھایا ہوا ہے کہ ڈارون کے مکتب خیال کے سب سے خاص مادیت پسند علمائے فطرت بھی انسان کی ابتدا یا آغاز کے متعلق کوئی دو ٹوک خیال پیش کرنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ عینیت پرستی کے اثر نے انہیں اس قابل نہیں چھوڑا کہ ارتقا کے عمل میں اس کارنامے کو تسلیم کر لیں جو محنت نے انجام دیاہے۔

جیسا کہ مذکور ہوا ہے، جانور بھی آدمی ہی کی طرح اپنے عمل سے فطرت کے ماحول میں تبدیلی لاتے ہیں، اگرچہ اس حد تک تبدیلی نہیں کر پاتے، اور یہ تبدیلیاں، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں بعد میں خود انہی پر اثر کرتی ہیں اور ان کو بھی بدل دیتی ہیں۔ فطرت میں کوئی واقعہ الگ تھلگ نہیں رہتا۔ ہر شے کا دوسری پر اثر پڑتا ہے اور وہ دوسری ہر شے سے خود بھی متاثر ہوتی ہے۔ عالمِ فطرت کے ہمارے سائنس دان جو معمولی سے معمولی چیزوں کی تہہ میں نہیں اتر پاتے اس کی بیشتر وجہ یہی ہے کہ وہ عالم فطرت میں اس ہمہ پہلو حرکت اور عمل در عمل کے سلسلے کو بھول بیٹھتے ہیں۔ ذکر آ چکا ہے کہ یونان میں بکریوں نے جنگل کے پھر سے اگنے کی راہ بند کر دی؛ سینٹ ہیلینا کے جزیرے میں شروع کے نووارد اپنے ساتھ جو بکریوں اور سؤروں کے گلے لائے تھے انھوں نے وہاں کی پرانی ہریالی کا تقریباً بالکل ہی صفایا کر دیا اور اس طرح بعد کے جہازیوں اور آباد کاروں کے لائے ہوئے پودوں کے پھیلنے کے لئے زمین بھی ہموار کر دی۔ جانور انجانے میں اپنے اردگرد کی دنیا پر ایک پائیدار اثر چھوڑتے ہیں اور خود ان کی ذات تک یہ عمل محض اتفاقی ہوتا ہے۔ آدمی جتنا جتنا جانوروں سے دور ہوتا جاتا ہے، فطرت پر اس کا اثر بے خبری میں یا اتفاقیہ نہیں، بلکہ سوچا سمجھا، باقاعدہ ایسا عمل ہوتا ہے جس سے کچھ طے شدہ مقاصد مراد ہوتے ہیں۔ جانور جب کسی سرزمین کی ہریالی کا صفایا کرے تو اسے خبر نہیں ہوتی کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ آدمی یہی عمل اس نیت سے کرتا ہے کہ زمین صاف ہو تو فصل کی بوائی کی جائے، یا درخت لگائے جائیں یا انگور کی بیلیں چڑھائی جائیں جو اگنے پر اپنے سے کئی گنا زیادہ حاصل دیں گی۔ وہ مفید پودوں اور پالتو جانوروں کو ایک ملک سے دوسرے میں پہنچاتا ہے اور یوں پورے کے پورے براعظم کا نباتیہ و حیاتیہ تبدیل کر دیتا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مصنوعی نسل کشی کے ذریعے، آدمی کے ہاتھوں پودے اور جانور اس قدر ادل بدل جاتے ہیں کہ ان کی اصلیت کی پہچان نہیں رہتی۔ وہ جنگلی پودے جن سے ہمارے موجودہ اناج نکلے ہیں ایسے غائب ہوئے کہ ان کی تلاش فضول ہے۔ ان جنگلی جانوروں پر بھی اختلاف رائے چلا آتا ہے جن سے کتوں کی مختلف موجودہ نسلیں اور ویسے ہی آج کل کے گھوڑوں کی بے شمار نسلیں نکلی ہیں۔

ڈاروِن نے ہمارے اسلاف کا لگ بھگ نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ان کے جسم پر بال ہی بال تھے، داڑھیاں تھیں، اٹھے ہوئے کان تھے اور درختوں پر جھنڈ کے جھنڈ رہا کرتے تھے۔

یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ جانوروں میں سوچ سمجھ کر باقاعدہ کاروائی کرنے کی جو صلاحیت ہے اس پر اختلاف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ جہاں بھی مادہئ حیات (Protoplasm) یا زندہ سفید مادہ (Albumen) موجود ہے اور تعامل میں ہے، وہاں ابتدائی شکل میں عمل کا باقاعدہ انداز موجود ہوتا ہے، اور اگر خارج میں کوئی خاص محرک ہے تو خاص قسم کی جوابی حرکت کرتا ہے چاہے وہ کتنی ہی سادہ کیوں نہ ہو۔ یہ ردعمل یا جوابی کاروائی ان جسموں تک میں پائی جاتی ہے جن میں اعصابی خلیے کا کیا ذکر، خلیوں کا ہی وجود نہیں ہوتا۔ کیڑے مکوڑے چاٹ جانے والے پیڑ پودے جس طرح اپنے شکار کو پکڑتے ہیں اگرچہ وہ انجانے میں ایسا کرتے ہیں، خود اسی طریقے میں ایک باقاعدہ کاروائی ہوتی ہے۔ جانوروں میں جتنا ان کا اعصابی نظام ترقی یافتہ ہوتا ہے، سوچی سمجھی باقاعدہ کاروائی اسی تناسب سے بڑھتی ہے اور دودھ پلانے والے جانوروں میں خاصی ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے۔ انگلینڈ میں آدمی شکار پر نکلے تو یہ روزمرہ کامعمولی مشاہدہ ہوتا ہے کہ لومڑی کو اس علاقے کی اونچ نیچ کا جو لاجواب علم ہوتا ہے وہ اس کا کتنا نپا تلا استعمال کر کے شکاری کو غچہ دے کر نکل جانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، اسے زمین کا مفید مطلب موقع محل اچھی طرح معلوم ہوتا ہے اور وہ اس سے کام لیتی ہے تاکہ اس کی مہک بھی نہ پھوٹنے پائے۔ ہمارے یہاں پالتو جانوروں میں بھی، جو آدمی کے ساتھ رہنے سے کافی ترقی کر گئے ہیں، شرارت کی ویسی ہی سوچی سمجھی حرکتیں نظر آجائیں گی جیسی بچے کیا کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جس طرح رحمِ مادر میں انسانی جنین کے ارتقا کی تاریخ اس لاکھوں برس پر پھیلی ہوئی ارتقائی تاریخ کا ایک خلاصے میں دھرایا جانا ہے، جس میں ہمارے حیوانی اسلاف کیڑے سے ہوتے ہوئے جسمانی ارتقا کے تمام مرحلوں سے گزر چکے ہیں، ٹھیک اسی طرح آدمی کے بچے کی ذہنی نشو ونما انہی اسلاف کی، یا کم از کم ان میں جو بہت بعد کے تھے، ان کی ذہنی نشوونما کا اور بھی زیادہ خلاصے کی صورت میں دہرایا جانا ہے۔ کچھ بھی ہو، لیکن سبھی قسم کے جانوروں کی باقاعدہ کاروائی زمین پر اپنے ارادے کی چھاپ لگانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہ کام صرف آدمی کے بس کا تھا۔

مختصر یہ کہ جانور فطری ماحول کا محض استعمال کرتا ہے اور صرف اپنی موجودگی سے اس میں تبدیلیاں لاتا ہے؛ آدمی اپنی لائی ہوئی تبدیلیوں کے ذریعے فطرت سے اپنے مقاصد پورے کراتا ہے، اس کی تسخیر کرتا ہے۔ آدمی اور دوسرے حیوانوں میں یہی آخری اور مکمل حدِ فاصل ہے اور پھر دیکھئے تو محنت ہی ہے جو یہ حدِ فاصل کھینچتی ہے۔(* مسودے کے حاشیے پر اینگلز نے ایک لفظ لکھا ہے Veredlung یعنی ترقی)

تاہم انسان نے فطرت پر جو فتوحات پائی ہیں، ان کی بنا پر کچھ زیادہ خود ستائی نہیں کرنی چاہئے کیوں کہ ایسی ہر ایک فتح پر فطرت ہم سے انتقام لئے بغیر نہیں رہتی۔ یہ صحیح ہے کہ شروع میں تو ہر ایک فتح سے ہماری توقع کے مطابق نتیجہ نکلتا ہے لیکن دوسری تیسری باری میں بالکل ہی دوسرے قسم کے اور غیر متوقع اثرات ظاہر ہوتے ہیں جو اکثر و بیشتر پہلے نتیجے کو دھو ڈالتے ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے میسوپوٹیمیا، یونان اور ایشیائے کوچک اور دیگر علاقوں میں جنگل اس خیال سے صاف کئے تھے کہ زمین پر کاشت کریں گے، انہیں وہم وگمان بھی نہ ہو گا کہ جنگلوں کا صفایا کرتے وقت وہ بادل سمٹنے اور پانی اکٹھا ہونے کے مرکز بھی غائب کئے دے رہے ہیں اور یوں ان ملکوں میں مفت کی وہ مصیبت مول لے رہے ہیں جس میں آج کل مبتلا ہیں۔ جب الپس کوہستانی سلسلے کے اطالویوں نے جنوبی ڈھلانوں پر دیودار کے وہ جنگل خرچ کر لئے جو شمالی ڈھلانوں پر ایسی بہار دیتے ہیں، تو انہیں کیا خبر تھی کہ جنگلوں کا صفایا کر کے وہ اپنے علاقے کی ڈیری کی صنعت کی جڑوں پر کلہاڑی چلا رہے ہیں، جنگل تو اڑا دئے لیکن یہ خیال تک نہ آیا کہ اس حرکت سے وہ پہاڑی چشموں کو اس پانی سے محروم کر دیں گے جو سال کے زیادہ دنوں تک میسر آتا ہے اور راستہ بنا دیں گے کہ برسات کے دنوں میں پہاڑی ندی نالے ان پر اور زیادہ طوفانی دھارے چھوڑیں گے۔ یورپ میں آلو کی فصل پھیلانے والوں نے یہ کب سوچا تھا کہ نشاستہ بھرے ان جڑیلے گولوں سے وہ کنٹھ مالا کی بیماری (Scrofula) پھیلائے دے رہے ہیں۔ چنانچہ، ہر قدم پر ہمیں یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ فطرت پر باہر سے ہم اس طرح حکم نہیں چلا سکتے جیسے کوئی فاتح کسی غیر ملکی مفتوح پر من مانی حکمرانی کرتا ہے، ہم فطرت کے باہر نہیں، گوشت پوست، خون اور دماغ کے ساتھ ہم بھی فطرت سے وابستہ اور اسی کے درمیان سانس لیتے ہیں۔ فطرت پر ہمارا جتنا قابو ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اور مخلوق پر ہمیں یہ فضیلت حاصل ہے کہ فطرت کے قاعدے قانون سیکھ سکتے ہیں اور ان کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ روز بروز فطرت کے ان قاعدوں کی سوجھ بوجھ بڑھتی جاتی ہے اور ہم اچھی طرح ذہن نشین کرتے جا رہے ہیں کہ فطرت جس ڈگر پر چلی آرہی ہے، جب ہم اس میں دخل اندازی کرتے ہیں تو فوراً اس کا اثر کیا پڑتا ہے اور بہت دور جا کر اس کے کیا نتیجے نکلتے ہیں۔ خاص کر انیسویں صدی میں نیچرل سائنس میں ہونے والی زبردست ترقی کی بدولت اب ہم پہلے سے کہیں زیادہ اس قابل ہیں کہ اور کچھ نہیں تو ہماری روزمرہ کی پیداواری سرگرمیوں کے فطرت پر جو دور دراز کے اثرات پڑنے والے ہیں، ان کا پہلے سے اندازہ کر لیں اور اندازہ کر کے قابو پا سکیں۔ لیکن اس سمت میں جتنی ترقی ہوتی جائے گی، اسی قدر آدمی نہ صرف احساس کرے گا بلکہ اچھی طرح جانے گا کہ فطرت میں اور اس میں دوئی نہیں ہے اور اتنا ہی اس بے تکے اور نامعقول خیال کا قائم رہنا ناممکن ہوتا جائے گا جو ذہن انسانی اور مادے کے درمیان، آدمی اور فطرت کے درمیان، روح اور جسم کے درمیان تقابل کا قائل تھا، وہ خیال جو یورپ میں کلاسیکی قدامت کے زوال کے بعد ابھرا تھا اور جس خیال نے مسیحی اعتقاد میں اپنی معراج حاصل کر لی تھی۔

ہزاروں سال کی محنت کے بعد جا کر ہمیں تھوڑی سے آگاہی نصیب ہوئی کہ یہ جان سکیں کہ پیداوار کے عمل میں ہماری سرگرمی کے کیا دور رس قدرتی اثرات مرتب ہوں گے، لیکن اس سرگرمی کے دور رس سماجی اثرات کیا ہوں گے، ان کا پہلے سے اندازہ لگانا اور بھی زیادہ دشوار ہے۔ ابھی اوپر ہم نے آلو کی خوراک اور اس سے کنٹھ مالا کی بیماری پھیلنے کا ذکر کیا۔ مگر کنٹھ مالا کی یہ بیماری ہیچ نظر آتی ہے جب اس کا مقابلہ پورے کے پورے ملکوں کی عام آبادی پر پڑنے والے اثرات سے کیا جائے جہاں مزدوروں کو صرف آلوؤں کی خوراک تک محدود کر دیا گیا یا اس واقعے سے کہ آلو کی فصل میں پت روگ لگ جانے کے باعث 1848ء میں آئر لینڈ میں قحط پڑ گیا تھا جس سے آلو پر گزر بسر کرنے والی دس لاکھ کے قریب آبادی موت کے منہ میں اتر گئی اور بیس لاکھ آدمی وطن چھوڑ کر نکل گئے؟ جب عربوں نے شراب کشید کرنا سیکھا تھا تو انہیں کیا معلوم تھا کہ اس دریافت کے ذریعے وہ تب تک نامعلوم امریکی برِاعظم کے خانہ بدوش قبیلوں کو روئے زمین سے ناپید کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ایجاد کر رہے ہیں۔ بعد میں جب کولمبس نے اس امریکہ کو دریافت کیا تو اسے خبر بھی نہیں تھی کہ امریکہ کی دریافت سے سیاہ فام غلاموں کے کاروبار کی بنیاد پڑ جائے گی اور غلامی کے چلن کے نام ایک اور عمر کا پٹہ لکھا جائے گا جو یورپ میں کب کی رخصت ہوچکی تھی۔ وہ لوگ جو سترھویں اٹھارویں صدی میں بھاپ کا انجن ایجاد کرنے کی دھن میں لگے ہوئے تھے، وہ کہاں جانتے تھے کہ وہ ایک ایسا اوزار تیار کر رہے ہیں جو تمام دنیا میں سماجی رشتوں کو درہم برہم کرنے میں سارے اوزاروں سے بڑھ کر ثابت ہو گا۔ خاص کر یورپ میں تاریخ نے اس جدید اوزار کو یہ مامور کیا کہ تھوڑی سی تعداد کے ہاتھ میں دولت سمیٹ کر، بھاری اکثریت کو اس سے محروم کر کے اول تو بورژوازی کو سماجی اور سیاسی اقتدار بخش دے اور آگے چل کر اسی بورژوازی اور پرولتاریہ کے درمیان طبقاتی کشمکش بڑھائے جو صر ف اسی صورت انجام کو پہنچ سکتی ہے کہ بورژوازی کے اقتدار کا تختہ الٹ جائے اور ہر قسم کی طبقاتی مخاصمت کا صفایا ہو جائے۔ لیکن عالم فطرت کی طرح اس میدان میں بھی اب طویل اور اکثر بے درد تجربوں کے بعد، تاریخی مواد جمع کرنے اور اس کی چھان بین کرنے کے بعد ہم یہ سیکھنے لگے ہیں کہ پیداواری سرگرمی کے جو بالواسطہ اور دوررس سماجی اثرات آئندہ مرتب ہوں گے، ان کو پہلے سے نظر میں تول لیں اور اس طرح اب ہمیں یہ موقع میسر آنے لگا ہے کہ ان اثرات کو اپنے قابو میں بھی رکھیں اور انہیں ایک قاعدے سے چلائیں بھی۔

مگر اس قاعدے سے چلانے کے لئے صرف علم و آگاہی کافی نہیں، اس کے سوا کچھ اور بھی چاہیے۔ اس کے لیے ناصرف موجودہ طرز پیداوار بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پورے کے پورے سماجی نظام میں ایک انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے۔

اب تک جتنے پیداواری نظام چلتے رہے ہیں ان کامنشا محض اسی قدر تھا کہ محنت سے جو فوراً اور براہ راست کارآمد حاصل ملتا ہے وہ لے لیا جائے۔ اس کے دیگر نتائج، جو بعد میں ظاہر ہوتے ہیں اور بتدریج باربار دھرانے اور جمع ہونے سے کارگر ہوتے ہیں، ان پر کسی کی نظر نہ گئی۔ زمین کی ابتدائی مشترکہ ملکیت کا دور ایک جانب تو انسانی ترقی کے ایک ایسے درجے سے مطابقت میں تھا جہاں انسانوں کا فکری افق عمومی طور پر صرف فوری نتائج تک محدود تھا تو دوسری جانب دستیاب زمین کی فراوانی کی بدولت اس پسماندہ معیشت کے پڑنے والے بد اثرات کی کسی قدر تلافی بھی ہو جاتی تھی۔ جب یہ فالتو زمین فالتو نہ رہ گئی تو مشترکہ ملکیت پر بھی زوال آگیا۔ پیداوار کی جتنی ترقی یافتہ شکلیں آئیں وہ آبادی کو مختلف طبقوں میں بانٹتی چلی گئیں اور انھوں نے حاکم و محکوم طبقوں کے درمیان مستقل تضاد کی نوبت پہنچا دی۔ اس طرح سے حاکم طبقے کا اپنا مفاد ہی پیداوار کی ترقی کی اصلی کنجی رہ گئی کیونکہ اب پیداوار محکوموں کی گزر بسر کے انتہائی ضروری سامان بہم پہنچانے تک محدود نہیں رہی تھی۔ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار پر، جو آج کل کے مغربی یورپ میں جاری و ساری ہے، اس طریقے نے پوری مہر ہی لگا دی۔ مال کی پیداوار اور تبادلہ جن کے قبضہ قدرت میں ہے وہی فرداً فرداً سرمایہ دار اپنی کاروائی کے صرف اسی نتیجے سے سروکار رکھتے ہیں جو ہاتھ کے ہاتھ ان کی غرض پوری کرتا ہو۔ اس میں شک نہیں کہ اگر چہ جو مال بھی تیار کیا جائے یا جس کا تبادلہ کیا جائے، وہ بہرحال کسی نہ کسی ضرورت میں کام آتا ہے، تاہم یہ مفید نتیجہ نظروں سے اوجھل ہو کر رہ جاتا ہے اور اصل تحریک صرف اس منافع سے ہی ملتی ہے جو مال کے فروخت کرنے سے ہاتھ آئے۔

کلاسیکی سیاسی معاشیات، جو بورژوازی کی سماجی سائنس ہے، انسانی سرگرمی کے صرف ان براہ راست مطلوبہ سماجی اثرات کی جانچ کرتی ہے جن کا تعلق پیداوار اور تبادلے سے ہے۔ یہ بات سماج کی اس بناوٹ کے عین مطابق ہے جس سماج کا نظریاتی روپ خود سیاسی معاشیات میں موجود ہے۔ فرداً فرداً سرمایہ دار پیداوار اور تبادلے میں اس غرض سے لگے رہتے ہیں کہ ہاتھ کے ہاتھ منافع ملے۔ اس لئے ان کی نظر صرف فوری نتائج تک ہی محدود رہتی ہے۔ جب تک کوئی کارخانہ دار یا بیوپاری اپنا تیار کیا ہوا یا خریدا ہوا مال خاصے منافع پر اٹھا لیتا ہے وہ اسی پر مطمئن رہتا ہے اور اس سے سروکار نہیں رکھتا کہ بعد میں مال پر اور اس کے خریدار پر کیا گزرتی ہے۔ عین یہی بات اسی قسم کے عمل کے قدرتی اثرات پر صادق آتی ہے۔ کیوبا میں کھیت اگانے والے ہسپانویوں کو کیا پرواہ تھی کہ انہوں نے پہاڑی ڈھلانوں پر جنگل کے جنگل پھونک ڈالے اور ان کی راکھ سے اچھی خاصی کھاد لے لی جو کافی کے باغات کی انتہائی منافع بخش صرف ایک فصل کے لئے کافی تھی۔ انہوں نے ذرا فکر نہ کی کہ گرم ملکوں کی دھواں دھار بارش بعد میں پہاڑی زمین کی اوپر کی اکھڑی ہوئی پپڑی بہا لے جائے گی اور صرف ننگی چٹانیں چھوڑ جائے گی۔ فطرت سے واسطہ ہو یا سماج سے، دونوں حالتوں میں موجودہ طرزِ پیداوار کو زیادہ تران نتیجوں سے غرض رہتی ہے جو ہاتھ کے ہاتھ نکل آئیں اور جن سے وقتی طور پر خوب کام چل جائے۔ پھر اس پر تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس نیت سے جو کاروائی کی گئی تھی اس کے بہت آگے جا کر دور رس اثرات نہ صرف یہ کہ کچھ اور ہی بلکہ جو سوچا تھا اس کے بالکل الٹ نکلے؛ اور یہ کہ رسد اور مانگ میں جو ہم آہنگی ہے وہ اپنے الٹ میں بدل جاتی ہے، جیسا کہ ہر دس سال کی مدت میں صنعتی چکر سے ثابت ہوتا ہے اور تو اور، خود جرمنی نے بھی پچھلے ”انہدام“ میں اس کا مزا چکھ لیا3؎ اور یہ کہ نجی ملکیت جس کی بنیاد ذاتی محنت تھی وہ لازمی طور پر ارتقائی راستے سے گزر کر مزدوروں کی عدم ملکیت میں بدل جاتی ہے اور ساری دولت سمٹتے سمٹتے غیر محنت کش لوگوں کے ہاتھوں میں آجاتی ہے؛ اور یہ کہ…(*یہاں تک آ کر مسودے کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہے۔ ایڈیٹر)

نوٹس

1۔ یہ مضمون شروع میں اس خیال سے لکھا گیا تھا کہ ایک مفصل اور بڑی تصنیف پر تعارف کا کام دے گا۔ تصنیف زیرقلم کا عنوان تھا ”غلامی میں رکھنے کی تین بنیادی شکلیں“۔ لیکن جب اس خیال کے عملی جامہ پہننے کی نوبت نہ آئی تو آخر مجبوراً اینگلز نے اس تعارف یا دیباچے کا عنوان یوں کر دیا ”بن مانس سے آدمی تک پہنچنے میں محنت کا کردار“۔ اس مضمون میں اینگلز نے بتایا ہے کہ انسان کی جسمانی ساخت کو اور انسانی سماج کو ایک خاص طرز پر ڈھالنے میں محنت نے، اوزاروں کی ایجاد نے کیا فیصلہ کن کردار سر انجام دیا ہے۔ اینگلز یہاں یہ دکھاتا ہے کہ مدتوں تک کا تاریخی عمل اس نسل کو جو بن مانسوں سے مشابہ تھی، کیوں کر اس سے بالکل مختلف ھستی —– یعنی انسان کو وجود میں لے آیا۔

2۔ ملاحظہ ہو چارلس ڈارون کی کتاب The Descent of Man and Selection in Relation to Sex آدمی کا توارث اور صنفی انتخاب جو لندن میں 1871ء میں شائع ہوئی تھی۔

3۔ یہاں مراد ہے 1873ء کے عالمی معاشی بحران سے۔ جرمنی میں اس کی ابتدا مئی 1873ء میں ایک ہولناک سنکٹ سے ہوئی اور بحران کا اثر 1880ء کے قریب تک چلتا رہا۔

Comments are closed.