ترجمہ: ( ولید خان )
اسٹیبلشمنٹ کے تقریباً تمام لوگ شامل ہیں: موجودہ اور سابقہ سربراہانِ مملکت، کاروباری رئیس اور نامور شخصیات۔ تاریخ کے سب سے بڑے دستاویزی مواد کے انکشاف کے بعد پتہ چل رہا ہے کہ کس طرح عالمی با اختیار طبقے نے موساک فونیسکا نامی پاناما کے قانونی تجارتی ادارے کی دو لاکھ سے زائد فرضی رجسٹرڈ تجارتی اداروں کے ذریعے بیرونِ ملک ٹیکس چھوٹ والے خطوں میں اپنی دولت چھپائی ہوئی ہے اور کس طرح سے ہر قسم کی تفتیش سے اپنی دولت کو دور رکھا ہوا ہے۔
یہ سوئٹز لینڈ جاتے پیسوں سے بھرے سوٹ کیس اٹھائے اسمگلروں کی طرح کوئی غیر پیشہ ورانہ حکمتِ عملی نہیں۔ جنہوں نے اس کام میں با اختیار طبقے کی دلالی کا کام ادا کیا ان میں دنیا کے دیو ہیکل بینک شامل ہیں جن میں HSBC, UBS, Societe Generale اور Credit Suisse شامل ہیں۔
ایک طرف ان حقائق کے فاش ہونے کے بعد صرف چند گندے انڈوں پر نہیں بلکہ پورے نظام پر سوالیہ نشان اٹھ گئے ہیں۔ کم از کم دنیا کے 500 سب سے بڑے تجارتی اداروں میں سے انتیس اس میں شامل ہیں۔ دوسری طرف یہ انکشافات عام لوگوں کیلئے کوئی خاص حیرانی کا باعث نہیں جنہیں کئی سالوں سے اسٹیبلشمنٹ کی شرمناک بداخلاقیات کی خبروں اور ہر ملک میں ٹیکس چوری کی روش سے متعلق آئے دن خبروں نے اب امرا اور طبقہ بالا کے متعلق کسی غلط فہمی کا شکار نہیں چھوڑا۔
وہ متحد ہیں
جو لوگ اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں ان کے نام پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بے شک کبھی کبھی سیاسی اور عارضی مفادات حکمران طبقے میں تضادات پیدا کرتے ہیں لیکن جب بات مالیاتی مفادات پر آتی ہے تو یہ سب اکٹھے ہیں۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پاناما کے اس قانونی تجارتی ادارے کے گاہکوں میں جہاں یوکرائن کا صدر پوروشینکو شامل ہے وہیں پر پیوٹن کے قریبی لوگ بھی شامل ہیں۔برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد، ارجنٹائن کے نئے صدر ماکری، سعودی بادشاہ سلمان اور متحدہ عرب امارات کے امیر خلیفہ کے نام پر بیرونِ ملک اکاؤنٹ کھولے گئے۔ اس فہرست میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے کافی سینئر عہدیداران بشمول چینی صدر شی جن پنگ کا بہنوئی بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیٹا بھی جزیرہِ کیمن میں ایک اکاؤنٹ کے ساتھ اس فہرست میں شامل ہے۔
موساک فونیسکا کتنے سرمایے کی دیکھ بھال کرتا ہے اس کا نہ پتہ لگا ہے اور شاید آئندہ بھی کبھی پتہ نہ لگ سکے۔پاناما دستاویز کے مطابق، پیوٹن کا ایک آدمی، سرگیج رودلگن، خفیہ طور پر کالے دھن کو سفید کرنے کی ایک سکیم چلاتا رہا ہے جس کی کل مالیت تقریباً دو ارب ڈالر ہے۔برطانیہ کے مستند اخبار گارڈئین کے مطابق ترقی پذیر ممالک سے سرمائے کی غیر قانونی منتقلی جو اس طرح کے اکاؤنٹس میں ہوتی ہے اس کی سالانہ مالیت ایک ہزار ارب ہے اور اس میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔
پاناما دستاویز اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہ نظام نہ تو ٹھیک کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی بہترے لائی جا سکتی ہے۔ 2008ء میں آئس لینڈ کا مالیاتی نظام منہدم ہو گیا۔ اس کے نتیجہ میں آئس لینڈ میں مالیاتی اداروں کو قومیایا تو گیا مگرمنڈی کے اس نظام کو للکارے بغیر جس میں یہ کام کرتے ہیں۔ لیکن ونٹرِس کا مالک کون ہے، ایک جزیرہِ برطانیہ ورجن میں رجسٹرڈ ادارہ ،جس کا آئس لینڈ کے قومایائے ہوئے مالیاتی اداروں پر (اور ریاست پر) 3.5 ملین یورو کا دعویٰ ہے ؟ یہ کوئی اور نہیں بلکہ ملک کا وزیرِ اعظم سوِکمندر ڈاویو گنلاؤگ سن ہے یا زیادہ وضاحت کے ساتھ اس کی بیوی۔
دستاویز کی خبر نکلنے کے 24 گھنٹوں کے اندر، 21 ہزار باشندوں نے (کل آبادی 320,000) ایک آن لائن عرضی پر دستخط کر دئے ہیں جس میں وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سرمایہ داروں کی منتظم کمیٹی
بے شک موساک فونیسکا نے یہ تاویل دے کر اپنا دفاع کیا ہے کہ وہ کبھی کسی غیر قانونی سرگرمی میں شامل نہیں رہے کیونکہ بیرونِ ملک یا ٹیکس چھوٹ والے ممالک میں اکاؤنٹ رکھانا قانونی جرم نہیں۔یہ ایک بڑی مبہم اور گھٹیا دلیل ہے لیکن اگر سرمایہ داروں کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ عین منطقی ہے۔ پاکستان کا وزیرِ اطلاعات جو پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف کا اس معاملے میں ملوث ہونے کا دفاع کر رہا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ’’ہر کسی کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کے ساتھ کیا کرے: انہیں سمندر میں پھینک دے، بیچ دے یا کسی ٹرسٹ فنڈ میں رکھ دے۔ یہ پاکستانی یا بین الاقوامی قانون کی نظر میں کوئی جرم نہیں‘‘۔
بے شک یہ سب سچ ہے اور ان انکشافات کے نتیجے میں شاید ہی کسی پر قانونی چارہ جوئی ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ داری کے اندر بے پناہ دولت بنا نا صرف معمول ہی نہیں بلکہ قابلِ ستائش بھی ہے۔لیکن اگر عوام کی اکثریت کی نظر سے دیکھا جائے جو معاشی جمود اور کٹوتیوں کے بے رحم حملوں سے چور چور ہیں، یہ قابلِ نفرت گھٹیا اقدامات ہیں۔جہاں نواز شریف کروڑوں ڈالر پاناما میں چھپانے میں مصروف ہے وہیں اس کے ملک کی 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے دو ڈالر سے کم یومیہ پر زندہ رہنے پر مجبور ہے۔
تمام تر دنیا میں حکومتیں نہ صرف اس شرمناک گھناؤنے عالمی سرمائے کے سٹے بازی کا تحفظ کرتی ہیں بلکہ فلاحی ریاست، پینشن، صحت اور تعلیم پر شدید کٹوتیاں لگاتے ہوئے اس سے براہِ راست فوائد بھی حاصل کرتی ہیں۔ ہر نئے رسوائے زمانہ واقعہ کے بعد سیاست دان ’مالیاتی منڈی کی ضابطہ کاری‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن پھر حقیقت میں ریاست پورے سرمایہ دار طبقے کی منتظم کمیٹی کا کردار ادا کرتے ہی نظر آتی ہے۔ برطانیہ کے وزیرِ خزانہ جارج اوسبورن نے ٹیکس چوری کو ’ناگوار خلاقیات‘ قرار دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ موساک فونیسکا جن ٹیکس چھوٹ جگہوں کا استعمال کرتا ہے ان میں سے آدھی برطانیہ کے اپنے زیرِ انتظام ہیں۔برطانیہ کا وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون لندن میں اگلے مہینے ٹیکس چوری پر ایک سربراہ کانفرنس منعقد کرا رہا ہے لیکن موساک فونیسکا سے متعلق اپنے خاندان کی دولت میں کلیدی کردار ادا کرنے کے حوالے سے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکاری ہے۔
یہ انکشافات پوری صورتحال کی غمازی نہیں کرتے۔ موساک فونیسکا ایک پوری انڈسٹری میں صرف ایک ادارہ ہے جس کا مقصد ہی جھوٹ اور فریب کی مدد سے 1 فیصد کی دولت میں اضافہ کرنا ہے۔ موساک فونیسکا کی طرح درجنوں اور ادارے ہیں جن کے اندرونی سرورز پر موجود دستاویز انتہائی دلچسپ ہوں گی جن میں ان عالمی امرأکے کرتوت واضح ہوں گے جو خوش قسمتی سے اس دفعہ ان انکشافات سے بچ گئے ہیں۔
طوفان کا آغاز
ان انکشافات کا سیاسی پہلو بھی ہے۔ اس تمام تر فاش کی گئیں دستاویز کی تفتیش انٹرنیشنل کنثورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس (ICIJ) نے کی ہے جو کہ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہے اور اس کی فنڈنگ میں فورڈ، کیلوگ، کارنیگی، راک فیلر اور دیگر ادارے شامل ہیں جو طویل عرصے سے امریکی حکمران طبقے کے مفادات کا تندہی سے دفاع کررہے ہیں۔ ان سب کے علاوہ ICIJ امریکی ادارے US ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلوپمنٹ (USAID) سے بھی فنڈنگ حاصل کرتی ہے جس کا مقصد’ ’ امریکی خارجہ پالیسی کی حمایت میں معاشی، ترقیاتی اور انسانی فلاح کی مدد فراہم کرنا ہے‘‘۔دوسرے الفاظ میں یہ امریکی حکومت کا حصہ ہیں اور CIA کے ساتھ قریبی تعلق میں کام کرتے ہیں۔
تفتیش کے دوران حاصل کئے شواہد کا زیادہ تر تعلق روسیوں سے ہے جن کے پیوٹن کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ شام کے صدر بشار الاسد کا بھی اپنے خاندان کے ساتھ ان شواہد میں کافی ذکر ہے۔لیکن حیران کن طورپر ایک بھی امریکی سیاستدان یا سرمایہ دار اس فہرست میں شامل نہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور اور بد عنوان حکمران طبقہ ہونے کے باوجود یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ امریکی 1 فیصد کم از کم اتنی ہی ٹیکس چوری نہیں کر رہے جتنا کہ باقی ممالک کے حکمران۔ وکی لیکس(Wikileaks) نے اس نکتہ پر ICIJ پر تنقید کی ہے کہ انہوں نے منکشف ہوئی تمام تر دستاویزات شائع نہیں کی جس کی وجہ سے معلومات میں موجود ان خلاؤں کی تفتیش کی جا سکے۔
یہ ممکن ہے کہ ان انکشافات کے بھرپور ڈرامائی اثر کیلئے موساک فونیسکا کے امریکی گاہکوں کی فہرست بعد میں شائع کی جائے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکی حکمران طبقہ کسی اور ادارے کو اپنی دولت چھپانے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جارج سوروس جو ICIJ کی فنڈنگ کرتا ہے اور ہیلری کلنٹن کی ڈیموکریٹ پارٹی کے بطور صدارتی امیدوار نامزدگی کی تحریک کیلئے کروڑوں ڈالر لگا چکا ہے، اپنے اثر و رسوخ کو معلومات کے شائع ہونے سے روکنے کیلئے استعمال کر رہا ہو، تاکہ اس سے برنی سینڈرز کی تحریک کو تباہ کن مہمیز نہ مل سکے۔
امر واقع کچھ بھی ہو، پاناما دستاویز نے دوبارہ یہ سچائی عریاں کر دی ہے کہ عالمی مالیاتی مفادات سے جڑا طاقتور سرمایہ دار اور حکمران طبقہ اپنی دولت کی حفاظت اور اس کی بڑھوتری کیلئے متحد ہے۔ واحد حل یہی ہے کہ اس دولت کو محنت کش طبقہ اپنے جمہوری قبضے میں لے۔ جو عوام کی اکثریت ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب ہے ایک سوشلسٹ سماج کی جدوجہد۔