|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: ولید خان|
]نوٹ: یہ آرٹیکل 25 اکتوبر 2023ء کو لکھا گیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک زخمیوں اور اموات کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے، اور اسرائیل نے غزہ پر فوج کشی شروع کر دی ہے۔[
اسرائیل، غزہ پر فوج کشی کی تیاری کر رہا ہے اور امریکی صدر بائیڈن سے لے کر برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک، جرمن چانسلر شولز اور فرانسیسی صدر میکرون تک تمام سامراجی قائدین بہت زیادہ پریشان ہیں۔ ان کو خطرہ لاحق ہے کہ جب یہ ساری تباہ کاری ختم ہو گی تو ان کی نئی دنیا کیسی اور کیا ہو گی۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لبنان کے لئے برطانیہ کے سابق سفیر ٹام فلیچر نے فنانشل ٹائمز میگزین میں ایک مضمون (22 اکتوبر 2023ء) میں حکمران طبقے کے نکتہ نظر کو ان الفاظ میں سمیٹا ہے کہ ”مشرق وسطیٰ میں مداخلت کرو، تو نقصان ہو گا۔ مداخلت نہ کرو، تو نقصان ہو گا۔ دونوں کیفیات کے درمیان جھولتے رہو، تو بھی نقصان ہو گا“۔ دوسرے الفاظ میں سامراجی جو کچھ کریں گے، غلط کریں گے۔
لیکن وہ ایک ایسی صورتحال کے قیدی بن چکے ہیں جس میں وہ ناسرائیلی وزیر اعظم یتن یاہو کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں جبکہ اسے اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ لیکن نیتن یاہو کی شکل میں انہیں ایک مصیبت کا سامنا ہے۔ اس کی سوچ محض اسرائیلی حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ نہیں کر رہی ہے بلکہ اپنی سیاسی بقاء پر بھی کاربند ہے۔ اس نے اپنی ساری ساکھ ”حماس کو تباہ و برباد“ کرنے پر لگا رکھی ہے۔
اس ساری صورتحال میں اسرائیلی حکمران طبقہ واضح طور پر منقسم ہے۔ لیکن اگر نیتن یاہو کو موقع ملتا ہے تو سامراجی غزہ پر ممکنہ فوج کشی میں حصے دار بن جائیں گے جس کے نتیجے میں وہ کشت و خون ہو گا جو ابھی تک ہونے والے تمام مظالم اور تباہی و بربادی کو ہیچ کر دے گا۔ اس عمل میں تمام مغربی قائدین کے ہاتھ خون سے رنگے جائیں گے اور مشرق وسطیٰ اور اپنے ممالک کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی نظر میں ان کی ساکھ ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہو جائے گی۔
پریس میں کئی مضامین شائع ہو رہے ہیں کہ ایک مرتبہ فوج کشی شروع ہو گئی تو پھر اسرائیلی فوج کو کن ممکنات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ فنانشل ٹائمز میگزین، دی گارڈین اخبار، واشنگٹن پوسٹ اخبار، فارن پالیسی میگزین اور دیگر کئی اس معاملے کا تجزیہ کر رہے ہیں، انسانی جانوں کا تخمینہ لگا رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ اور دیگر دنیا پر اس کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان سب میں اتفاق ہے کہ یہ مہم انتہائی کٹھن ہو گی، اس کی معیاد اسرائیلی فوج کے موجودہ تخمینے سے کہیں زیادہ ہو گی اور غزہ میں فلسطینی عوام کو اس کی تباہ کن قیمت چکانی پڑے گی۔
19 اکتوبر کو فنانشل ٹائمز نے عراق اور افغانستان میں NATO افواج کے سابق سربراہ امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹراس کا تجزیہ بیان کیا کہ ”یہ انتہائی مشکل ہو گا۔۔۔ میں اس سے زیادہ مشکل حالات سوچ بھی نہیں سکتا“۔ اسی مضمون میں نیتن یاہو کے جنگی اہداف کا بھی ذکر ہے کہ ”حماس کی حاکمیت اور اس کی عسکری صلاحیتوں کا خاتمہ کرنا ہے؛ غزہ سے حملوں کے خطرے کا خاتمہ کرنا ہے؛ حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کو آزاد کرانا ہے اور اسرائیل کی سرحدوں اور شہریوں کا تحفظ کرنا ہے“۔
موصل کے اسباق
یہاں ہمیں ممکنہ طور پر غزہ میں تاریخی اموات اور تباہی و بربادی نظر آ رہی ہے۔ تاحال مارے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد 7 اکتوبر کو حماس کے حملے سے پہلے 2008-23ء کے درمیان مارے جانے والے فلسطینیوں کے برابر ہو چکی ہے! تین ہفتوں سے کم عرصے میں یوکرین کی ڈیڑھ سالہ جنگ میں مارے جانے والے شہریوں کا نصف سے زیادہ حصہ غزہ میں مارا جا چکا ہے۔
اگر نیتن یاہو فوج کشی کے منصوبے کو عملی جامہ پہناتا ہے تو اسرائیلی فوج کو جن حالات کا سامنا ہو گا اس کا اندازہ لگانے کے لئے ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ عراق میں 2016-17ء کے دوران جنگ میں موصل شہر کو داعش سے کیسے آزاد کرایا گیا تھا۔
موصل کی کل آبادی 20 لاکھ تھی جو آج کے غزہ میں موجود آبادی کے مساوی ہے۔ داعش نے شہر میں 8 ہزار جنگجو شہریوں میں چھپا رکھے تھے جو امریکی قیادت میں پیش قدمی کرتی 1 لاکھ عراقی فوج کا انتظار کر رہے تھے۔
فوج کشی کرنے سے پہلے شہر پر تباہ کن بمباری کی گئی لیکن نتیجتاً تباہ حال عمارات اور ملبے کا اتنا بڑا انبار لگ گیا کہ داعش اس کو چھپنے اور ڈھال بنانے کے لئے استعمال کر سکتی تھی۔
ایک مغربی سپیشل فورسز افسر جو موصل میں عراقی فوج کے ساتھ موجود تھا، کے مطابق ”شہروں میں ہزاروں چھپنے کی جگہیں ہوتی ہیں۔۔۔ اگر آپ کو دشمن کا صفایا کرنا ہے تو یہ کام گھر گھر مسلسل کرنا ہو گا۔ لیکن اس کے نتیجے میں آپ 360 ڈگری خطرے میں گھر جاتے ہیں۔ آپ محض آرام سے گزر نہیں سکتے“۔ موصل کو فتح کرنے میں نو مہینے لگ گئے جو تخمینے سے کہیں زیادہ عرصہ تھا۔
غزہ میں حماس جنگجوؤں کی موجودگی کے حوالے سے مختلف آراء ہیں لیکن یہ اعداد و شمار 30 ہزار سے 40 ہزار تک ہیں جن میں 10 ہزار تربیت یافتہ افراد موجود ہیں۔ فلسطینی اسلامی جہاد (PIJ) کے پاس بھی تقریباً 15 ہزار جنگجو موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت غزہ میں موصل میں موجود داعش کی قوتوں سے پانچ گنا زیادہ عددی قوت موجود ہے۔
لیکن غزہ میں صورتحال بھی مختلف ہے کیونکہ حماس اپنے گھر میں لڑ رہی ہے اور اس کا دفاع کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کا راستہ روکنے کے لئے حماس بھاری تعداد میں رضاکار بھی بھرتی کر سکتی ہے۔
پھر حماس کو تیاریوں کے لئے موصل میں داعش سے زیادہ وقت ملا ہے۔ انہوں نے سرنگوں کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک بنا رکھا ہے ۔۔۔ کچھ رپورٹس کے مطابق تقریباً 500 کلومیٹر ۔۔۔ جن میں جنگجو چھپ سکتے ہیں یا جہاں سے خفیہ حملے کئے جا سکتے ہیں۔ وہ اسرائیلی افواج کو مختلف اطراف سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ شہر کے ہر کونے پر ایک جنگ ہو گی۔ حماس کے پاس ماضی کے مقابلے میں زیادہ جدید ہتھیار بھی موجود ہیں جن میں بارودی سرنگیں، ٹینک کش میزائل اور مسلح ڈرون شامل ہیں۔
2008ء اور پھر 2014ء میں اسرائیلی افواج چند ہفتوں کے لئے غزہ میں داخل ہوئی تھیں۔ اس وقت جو کچھ ہوا تھا وہ محض ٹریلر ہے۔ ان دو آپریشنوں میں 3 ہزار 500 فلسطینی ہلاک جبکہ 70 اسرائیلی فوجی مارے گئے تھے۔ آج دیو ہیکل پیمانے پر منصوبہ بندی ہو رہی ہے اور اس کا نتیجہ دونوں اطراف جانوں کا بے تحاشہ ضیاع ہو گا جن میں سب سے بڑی تعداد شہریوں کی ہو گی۔
ماہرین کے مطابق غزہ پر کامیاب فوج کشی کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک حماس جنگجو کے مقابلے میں 5 اسرائیلی فوجی زمین پر موجود ہوں۔ اگر حماس جنگجوؤں کے حوالے سے 50 ہزار کا تخمینہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 2 لاکھ 50 ہزار اسرائیلی فوجی نتین یاہو کے بیان کردہ اہداف حاصل کرنے کے لئے درکار ہیں۔ انہوں نے اس سے زیادہ فوجیوں کو متحرک کیا ہے اگرچہ حزب اللہ خطرے کے پیش نظر ان میں سے کچھ کو شمالی سرحد پر بھی تعینات کیا گیا ہے۔ کاغذوں پر غزہ فوج کشی کے لئے درکار قوتیں موجود ہیں لیکن اس قسم کی مہم کو قائم رکھنا ایک بالکل مختلف کہانی ہے۔
ایک لمحے کے لئے عراق میں واقع موصل واپس چلتے ہیں۔ شہرت یافتہ صحافی پیٹرک کاکبرن نے دی انڈیپنڈنٹ میں ایک مضمون (19 جولائی 2017ء) میں لکھا کہ ”داعش سے موصل شہر واپس لینے کی خوفناک جنگ میں انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق 40 ہزار سے زیادہ شہری مارے گئے۔۔۔“۔
کاکبرن مزید لکھتا ہے کہ اس تعداد میں شہریوں کی ہلاکت کی وجوہات کیا تھیں:
”مغربی موصل میں قیامت خیز تباہی کا زیادہ تر الزام فضائی بمباری پر ڈالا گیا ہے لیکن زمین پر یہ واضح ہے کہ توپوں کے گولوں اور راکٹوں نے زیادہ تباہی مچائی تھی۔ اس کی تصدیق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی پچھلے ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ نے بھی کی جس کا عنوان ’کسی بھی قیمت پر: مغربی موصل، عراق میں شہریوں کی تباہی‘ تھا۔ اس کے مطابق حکومت نواز قوتوں نے مشرقی موصل پر حملے کے حتمی مراحل میں جنوری 2017ء سے اگلے چھ مہینوں میں مغربی موصل تک حملے کے دوران زیادہ اندھا دھند انداز میں گولہ بارود استعمال کیا“۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گلیوں میں لڑائی کے دوران عراقی فوج کو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا جس کے نتیجے میں بمباری کو مسلسل بڑھایا جاتا رہا۔ ہم غزہ میں بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ اسرائیلی فوج کو انتہائی مشکل علاقوں کا سامنا ہو گا اور اپنے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ دور رہ کر بمباری کریں گے تاکہ زمین پر موجود اپنی قوتوں کے کسی بھی علاقے میں آپریشن کی بھرپور معاونت کی جا سکے۔
خوفناک تباہی و بربادی کی تیاری کی جا رہی ہے
یہ سب غزہ کے شہریوں کے لئے کیا معنی رکھتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیسیوں ہزاروں اموات ہوں گی۔ موصل میں 40 ہزار کی اموات اس قسم کی فوج کشی کا ثبوت ہے۔ اسرائیلی فوج مسلسل فلسطینی شہریوں کو شمالی غزہ سے نکل کر جنوب کی جانب جانے کا حکم دے رہی ہے لیکن جنوب میں جو حالات ہیں انہوں نے پھر کچھ کو واپس شمال آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پانی سے لے کر دوائی، اشیائے خورد و نوش سے لے کر رہائش؛ ہر چیز کی ہر جگہ قلت ہے جبکہ کچھ کو جنوب جاتے ہوئے راستے میں اور جنوب پہنچ کر بھی بمباری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے غزہ شہر چھوڑ دیا ہے لیکن ابھی بھی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔
یہ مختصر آپریشن نہیں ہو گا۔ اسرائیلی فوج 50 روزہ جنگ کی بات کر رہی ہے لیکن موصل سے ثابت ہوتا ہے کہ تخمینے اور پیش گوئیاں بیکار مشق ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ کئی مہینے لگ سکتے ہیں، کچھ کے مطابق اس سے بھی زیادہ اور پھر شائد اسرائیلی افواج اپنے اہداف حاصل کر لے۔ نتیجتاً غزہ شہر ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔
ایک سابق اقوام متحدہ ”فلسطینی علاقہ جات میں خصوصی رپورٹر برائے انسانی حقوق“ مائیکل لنک کے الفاظ فارن پالیسی میگزین میں نقل کئے گئے ہیں کہ ”حماس کا خاتمہ کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اور یہ ہدف غزہ اور اس کے شہریوں کے ایک بڑے حصے کو تباہ و برباد کر کے ہی حاصل ہو سکتا ہے“۔
غزہ میں موجود فلسطینی عوام کے لئے یہ خوفناک تباہی و بربادی تیار کی جا رہی ہے۔ کئی اسرائیلی فوجی ہلاک ہوں گے اور حماس کی تحویل میں موجود 200 یرغمالی بھی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے جس نے اسرائیلی فوج کو ابھی تک فوج کشی سے روکا ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے کچھ عسکری قائدین اور موجودہ حکومت میں اختلاف ہے کہ فوج کشی کیسے کی جائے۔
مغرب کے سرمایہ دار قائدین بھی فوج کشی کو ٹالنے کے لئے دباو ڈال رہے ہیں کیونکہ ان کا اصرار ہے کہ حماس کی تحویل میں موجود یرغمالیوں کو کسی فوج کشی سے پہلے آزاد کرایا جائے۔
وہ غزہ میں امداد پہنچانے کے حوالے سے بھی کافی واویلا مچا رہے ہیں تاکہ اس پٹی میں تباہ حال انسانیت کی کچھ مدد ہو۔ سامراجیوں کے لئے اس میں ایک بہت اہم سیاسی نکتہ کارفرما ہے۔ اگر ان کی منشاء ہو تو فوج کشی نہ ہونے دی جائے۔ بہرحال ان کی منشاء پوری نہیں ہو گی اور ان کے پاس خطے میں اپنے واحد قابل اعتبار اتحادی کی ہر ممکن معاونت کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
لیکن اس راستے پر چلنے کے لئے کچھ نہ کچھ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے انہیں تماشہ لگانا پڑ رہا ہے کہ وہ غزہ میں موجود فلسطینی عوام کی تباہ حالی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے لئے سرگرم ہیں۔ بہر حال انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ غزہ میں ہولناک تباہ کاری بڑھنے کے ساتھ یہ حمایت بخارات بن کر اڑ جائے گی۔
اقوام متحدہ کے ماہرین پہلے ہی خبردار کر رہے ہیں کہ اگر معقول مقدار میں ضروری اشیاء کی غزہ میں فوری ترسیل کا آغاز نہیں ہوتا تو غزہ کی عوام ”بھوک کے خطرے سے بچ“ نہیں سکتی۔ پانی کے ذریعے ہیضے جیسی وباؤں کے پھیلنے کا خطرہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے کیونکہ صفائی ستھرائی اور صاف پانی کی دستیابی ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
اسرائیل نے پانی، ایندھن اور بجلی کی سپلائی کاٹ دی ہے۔ توانائی کے بغیر جو تھوڑا بہت پانی موجود ہے وہ ترسیل نہیں ہو سکتا اور نکاسی کے پلانٹ فعال نہیں ہو سکتے۔ کئی افراد سڑکوں پر یا پھر عارضی رہائشوں میں سونے پر مجبور ہیں۔ دیگر اپارٹمنٹوں میں 30-40 یا 100 تک کی تعداد میں افراد ٹھنسے ہوئے ہیں۔ زمینی آپریشن شروع ہونے کے بعد صورتحال اور بھی گھمبیر ہو جائے گی۔
ایک مرتبہ اسرائیلی فوج غزہ میں گھس آئے گی تو ٹی وی پر چلنے والی تصاویر اور ویڈیوز پوری دنیا میں کروڑوں انسانوں کی نیندیں حرام کر دیں گے جبکہ اس کے مشرق وسطیٰ کی عوام پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ ابھی سے پورے خطے میں دیو ہیکل احتجاج، عوامی ریلیاں اور مظاہرے منظم ہو رہے ہیں۔ یہ تحریک مسلسل بڑھتی اور پھیلتی جائے گی۔
یہ وجہ ہے کہ پچھلے ہفتے کے دن ”قاہرہ میں اجلاس برائے امن“ میں اردن، قطر، مصر، جنوبی افریقہ، فرانس، جرمنی، روس، چین، برطانیہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت دیگر نمائندگان جنگ کو ”ختم“ کرنے کے مختلف زاویوں پر بحث مباحثہ کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے۔ بہر حال ان میں کوئی سینیئر امریکی نمائندہ موجود نہیں تھا۔
یہ قائدین واضح طور پر شدید پریشان ہیں کہ ایک مرتبہ اسرائیلی افواج جب غزہ میں داخل ہو جائیں گی تو اس کے ان کے اپنے ممالک پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل سے کوئی نمائندہ اس اجلاس میں موجود نہیں تھا جبکہ یہ اسرائیلی جرنیل اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور اس کی جنگی کابینہ ہے جن کے پاس جنگ ”ختم“ کرنے کی طاقت موجود ہے۔ پچھلے ہفتے تمام تر گلابی الفاظ اور خوشنما تقاریر کے باوجود کوئی ایک موثر قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔
اس وقت اسرائیلی فوج مسلسل فوج کشی کی تیاری کر رہی ہے۔ ایک مرتبہ یہ عمل شروع ہو گیا تو تاریخی کشت و خون ہو گا۔ پورے خطے میں دباؤ ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ ہم نے دیکھا کہ پچھلے ہفتے ایک امریکی جنگی بحری جہاز نے یمن سے اسرائیل کی طرف آنے والے راکٹوں کو تباہ کیا ہے۔ عراق اور شام میں موجود امریکی فوجیوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ایران براہ راست اور لبنان میں اپنے اتحادی حزب اللہ کے ذریعے پورے خطے میں موجود امریکی یونٹوں پر خطرات بڑھا رہا ہے۔
فلسطین کے ساتھ بڑھتی یکجہتی
ہفتے کے دن لندن میں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی میں 3 لاکھ افراد نے احتجاج کیا۔ فرانس میں حکومت نے اس طرح کے احتجاجوں پر پابندی لگا دی لیکن بے پناہ دباؤ کے بعد پچھلے جمعرات ان کو یہ پابندی ختم کرنی پڑی۔ اس کے ساتھ ہی اتوار کے دن پیرس میں 30 ہزار افراد نے فلسطین کے جھنڈے لہراتے ہوئے مارچ کیا اور ”غزہ، پیرس تمہارے ساتھ ہے“ کا نعرہ بلند کیا۔ یہ فرانس میں منعقد ہونے والی اب تک سب سے بڑی یکجہتی ریلی ہے۔ پوری دنیا میں اس طرح کی کئی ریلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
غزہ میں قتل و غارت بڑھنے کے ساتھ یہ تحریک مسلسل بڑھے گی۔ میڈیا پورا زور لگا کر اسرائیل کے لئے عوامی حمایت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن یہ بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے اور جب ایک مرتبہ فوج کشی کے اثرات واضح ہونے شروع ہوں گے تو یہ کام ناممکن ہو جائے گا۔
کئی لوگوں کو پراپیگنڈہ ہوتا نظر آ رہا ہے، سب جھوٹ اور فریب ان پر واضح ہو رہا ہے۔ انہیں نظر آ رہا ہے کہ موجودہ بمباری اور مستقبل میں فوج کشی کا 7 اکتوبر کو ہونے والے حماس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فلسطینی عوام پر دہائیوں سے جاری ظلم و جبر کا ایک زیادہ بلند تر پیمانے پر تسلسل ہے جو 75 سال سے ایک ملک کے بغیر دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
فلسطینی عوام کے لئے مسلسل بڑھتی حمایت کا مقابلہ کرنے کے لئے میڈیا نے غزہ میں اسرائیلی جنگ کی مخالفت کو دہشت گردی کی حمایت قرار دینے یا یہودیوں سے دشمنی کا پراپیگنڈہ شروع کر دیا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ عمومی میڈیا۔۔۔ بی بی سی اس کی غلیظ ترین مثال ہے۔۔۔ 7 اکتوبر کو شمالی اسرائیل میں رونما ہونے والے واقعات کو ہر جگہ دکھا رہاہے اور حماس کے اقدامات کی ایک ایک تفصیل بیان کر رہا ہے۔
عام طور پر ایسے مناظر دکھائے نہیں جاتے کیونکہ انہیں بہت زیادہ حساس سمجھا جاتا ہے لیکن اب یہ ویڈیوز ہر جگہ دکھائی اور بیان کی جا رہی ہیں۔ ہدف واضح ہے کہ غزہ کی معصوم عوام کے قتل عام کے لئے ”عوامی حمایت“ حاصل کی جائے۔ یہ واضح ہے کہ کوئی بھی معقول انسان جنگ کے دونوں طرف انسانی قتل و غارت کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن لوگوں کو نظر آ رہا ہے کہ کیا پک رہا ہے اور وہ کسی صورت حمایت کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ہر مغربی سیاست دان جو اس بربریت کی حمایت میں اپنے ہاتھ رنگے گا اور منہ کالا کرے گا، جلد یا بدیر اپنی عوام کے غیض و غضب کا شکار ہو گا۔ سوناک نے اسرائیل میں نیتن یاہو کے ساتھ حالیہ ملاقات میں ہاتھ ملاتے ہوئے کہا تھا کہ ”آپ کوہم بھی فاتح دیکھنا چاہتے ہیں“۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ نیتن یاہو کے منصوبے کی حمایت کرتا ہے جس کی تفصیل اس مضمون میں بیان کی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ عورتوں اور بچوں کے بے دریغ اور اندھا دھند قتل عام کی حمایت کرتا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ میں 5 ہزار 791 افراد قتل ہو چکے ہیں (اتوار،24 اکتوبر)۔ ان میں 2 ہزار 360 بچے، 1 ہزار 421 خواتین اور 295 بزرگ شامل ہیں۔ اب تک 16 ہزار 297 افراد زخمی ہو چکے ہیں اور 1 ہزار 550 لاپتہ ہیں جن میں 870 بچے شامل ہیں۔
سوناک اس کی حمایت کر رہا ہے۔ جس طرح وہ برطانیہ کے محنت کش طبقے کا دوست نہیں ہے اسی طرح وہ سسکتی بلکتی فلسطینی عوام کا بھی دوست نہیں ہے۔ میکرون، شولز، میلونی اور یورپ کے تمام قائدین، سٹارمر اور دیگر ۔۔۔ سب کی یہی حقیقت ہے کہ وہ اپنے حکمران طبقات کے پالتو کتے ہیں اور ہر حکم پر خوشی خوشی دم ہلاتے ہیں۔
یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب حقیقی کمیونسٹ، حقیقی انقلابی مارکس وادی، مظلوم کی حمایت میں واضح انقلابی جھنڈا بلند کرتے ہیں اور ان تمام کی مخالفت کرتے ہیں جو ایک ایسے نظام کے حامی ہیں جہاں یہ قتل و غارت کھلے عام ہو رہا ہے۔ ہم محنت کشوں اور نوجوانوں کو سچ بتاتے ہیں، چاہے امراء اور طاقتور کی پراپیگنڈہ مشین کتنا ہی جھوٹ پھیلانے کی کوشش کرے۔
چند دن پہلے پیٹراس نے برطانوی تاریخ دان اینڈریو رابرٹس کے ساتھ ایک کتاب ”تنازعہ: 1945ء سے یوکرین تک جنگ کا ارتقاء“ شائع کی جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ”ایک خواب ابھرا کہ دنیا میں امن ہو گا“ جس کی بنیاد ”اقوام متحدہ کا قیام تھا جس کے تاسیسی منشور میں لکھا تھا کہ ’آنے والی نسلوں کو جنگ کی تباہی و بربادی سے محفوظ رکھا جائے گا“‘۔
لیکن انہوں نے سرد مہری سے بیان کیا ہے کہ:
”پروشیائی عسکری فلسفی اور نظریہ دان کارل وان کلازویتز نے جنگ کی تشریح کی تھی کہ یہ دیگر ذرائع سے سیاست کا تسلسل ہے اور جس طرح 1945ء میں سیاست کا خاتمہ نہیں ہوا، اسی طرح جنگ کا بھی خاتمہ نہیں ہوا۔ یقیناً دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے اب تک پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں تنازعہ جاری رہا ہے“۔
پیٹراس جس ”سیاست“ کی جانب اشارہ کر رہا ہے، اور جس کا وہ یقیناً محافظ ہے، وہ طبقاتی استحصال اور پوری دنیا کے عوام کی ایک مٹھی بھر خون کی پیاسی اقلیت (سرمایہ دار طبقات اور اس کے پالتو کتے) کے ہاتھوں لوٹ مار کی سیاست ہے۔ غزہ میں رونما ہونے والے واقعات یہ حقیقت واضح کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت پوری دنیا میں بسنے والے اربوں افراد کے شعور میں اتر رہی ہے جن میں سب سے اگلی صفوں میں نوجوان موجود ہیں۔