تحریر: لیون ٹراٹسکی:-
انقلاب کا قطعی وقت آپہنچا تھا۔سمولنی (مجلس عاملہ کا دفتر) کو ایک قلعے میں تبدیل کیا جارہا تھا۔ اس کی چھتوں پر دو درجن مشین گن نصب کر دی گئی تھیں۔یہ پرانی مجلس عاملہ کی روایت تھی۔سمولنی کا کمانڈنیٹ کپٹن گریکوف ایک بہادر سپاہی تھا۔ دوسری طرف مشین گنوں کا چیف میرے پاس مجھے یہ بتانے آیا کہ اس کی کمپنی بالشویکوں کے ساتھ تھی۔ میں نے کسی کو شاید مارکن کو مشین گنوں کا معائنہ کرنے کو کہا۔جو بیکار پڑی رہنے سے ناکارہ ہوچکی تھیں۔سپاہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔ کرنسکی کو تحفظ دینے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مجھے ایک زیادہ بہتراور قابل اعتماد مشین گن کمپنی وہاں لانی پڑی۔
24 اکتوبر (رائج کیلنڈر کے حساب سے 6 نومبر ) کی صبح صادق تھی۔ میں ایک منزل گھوم رہا تھا۔ یہ دیکھنے کیلئے کہ ہر چیز ٹھیک ٹھاک تھی۔ اس سے دوسروں کا حوصلہ بڑھانا بھی مقصود تھا۔ابھی تھوڑا تھوڑا اندھیرا تھا۔ اس کے باوجود سپاہی اپنی مشین گنوں کو درست کرنے اور انہیں برآمدوں میں ادھر ادھر لے جانے میں لگے ہوئے تھے۔ ان کے بوٹوں کی چست آوازمجھ تک پہنچ رہی تھی۔یہ وہ کمپنی تھی جسے میں نے بلایا تھا۔چند سوشلسٹ ۔ انقلابی اور منشویک جوابھی تک سمولنی میں موجود تھے‘اپنی نیند میں ڈوبے خوفزدہ چہروں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔توپوں کی موسیقی ان کے نازم کانوں کو گراں گزر رہی تھی۔ایک کے بعد ایک وہ جلدی سے سمولنی سے چلے گئے۔اب عمارت پر ہمارا مکمل قبضہ تھا۔یہاں سے ایک بالشویک سرنے پورے شہر اور ملک کو دیکھنا تھا۔
صبح صبح پارٹی کے چھاپے کے دوکارکن جن میں ایک مرد اور ایک عورت تھی۔بھاگے بھاگے میرے پاس آئے اور سیڑھیوں میں مجھے سے ٹکرا گئے۔ حکومت نے پیٹرو گراڈ سوویٹ اور پارٹی کا اخبار بند اور پرنٹنگ پریس کا احاطہ سربمہر کر دیا تھا۔ لمحہ بھر کیلئے اس خبر نے ہمیں حیران کر دیا۔’’ہم مہر کو توڑ نہیں سکتے؟‘‘ عورت ہے پوچھا۔’’توڑ دو۔‘‘میں نے جواب دیا’’ہم آپ کے ساتھ بااعتبار آدمی بھیجتے ہیں۔‘‘’’ہم سے تھوڑے فاصلے پر سپاہیوں کی ایک بٹالین ہے۔ مجھے امید ہے وہ ہماری مدد کرے گی۔‘‘عورت نے کہا۔
فوجی انقلابی کمیٹی نے فوری طورپرایک حکم جاری کیا۔(1 ) انقلابی اخبار کی اشاعت کاکام جاری رہے۔ (2 )ادارتی سٹاف اور کمپوزر اپنا کام جاری رکھیں۔ (3 ) پرنٹنگ پریس کی حفاظت کاکام لوٹووسکی رجمنٹ اور چھٹی لیپرریزوبٹالین کے حوالے کردیا جائے۔اس کے بعد دونوں اخبارات کی اشاعت کاکام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہا۔
24 اکتوبر کو ٹیلی فون ایکسچینج پر گڑبڑ تھی۔زیر تربیت فوجی کیڈٹوں نے اس پر قبضہ کرلیا اور انہوں نے آپریٹروں کو ہمارے فون ملانے سے منع کر دیا یہ سبوتاز کی پہلی علامت تھی۔فوجی انقلابی کمیٹی نے جہاز رانوں کی ایک کمپنی وہاں بھیج دی جس نے ایکسچینج کے دروازے پر دو چھوٹی توپیں نصب کر دیں۔ ٹیلی فون سروس بحال ہوگئی۔اس طرح انتظامیہ کے اداروں کو تحویل میں لینے کاکام شروع ہوگیا۔
سمولنی کی تیسری منزل پر کونے والے ایک چھوٹے سے کمرے میں کمیٹی کا اجلاس مسلسل جاری تھا۔ فوجوں کی نقل و حرکت ‘محنت کشوں اور سپاہیوں کا رویہ ‘بارکوں میں مظاہرہ‘قتل عام کے منصوبہ سازوں کے ادارے‘بورژوا سیاست دانوں اور غیر ملکی سفارت کاروں کی سازشیں‘’’سرما محل‘‘ میں ہونے والے واقعات۔۔یہ سب رپورٹیں اورسابق سوویٹ میں شامل پارٹیوں کے اجلاس کی خبریں اس چھوٹے سے کمرے میں آرہی تھیں۔ محنت کش‘سپاہی‘مزدور‘سوشلسٹ فوجی طلباء‘ نوکر‘چھوٹے ملازموں کی بیویاں۔۔سب ہمارے پاس آرہے تھے‘اچھی اور بڑی ہر قسم کی خبریں لے کر۔
وہ سارا ہفتہ میں بمشکل سمولنی سے باہر نکل سکا۔ میں نے لباس تبدیل کیے بغیر چمڑے کے ایک صوفے پر اپنی راتیں گزار دیں۔ تھوڑی دیر کیلئے میری آنکھ لگ جاتی اور پھر جاگ جاتا۔ہرکارے‘سا ئیکلوں والے پیغام رساں‘ تاروالے اور لگاتار ٹیلی فون کالیں‘مجھے پل بھر آرام نہ لینے دیتیں۔فیصلہ کن لمحہ بہت نزدیک آرہا تھا۔اب پلٹ کر دیکھنے کی مہلت نہ رہی تھی۔
24 اکتوبرکی رات کو انقلابی کمیٹی کے ارکان مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ میں اکیلارہ گیا۔ بعد میں کامینیف آگیا۔وہ شورش کے خلاف تھا۔وہ رات میرے ساتھ گزارنے آیا تھا۔ہم دونوں اس چھوٹے سے کونے والے کمرے میں فیصلہ کن رات کو بیٹھے رہے۔ جیسے کوئی کپتان پل کی حفاظت پر مامور ہو۔
ہمارے کمرے کے ساتھ ہی ایک بڑي کمرے میں ٹیلی فون بوتھ تھا۔ٹیلی فون کی گھنٹی چھوٹے بڑے ہرکام کیلئے لگاتار بجتی رہتی جو خاموشی کو چونکا دیتی۔ پیٹرو گراڈکی ویران ‘نیم روشن سڑکیں جن پر سمندر سے آنے والی خزاں کی ہوا دندناتی پھر رہی تھی۔ذرا یہ منظر ذہن میں لائیں۔ بورژوازی اور افسر اپنے بستروں میں بے چین تھے۔وہ اندازہ لگا رہے تھے کہ ان خطرناک اور پراسرار سڑکوں کو کیاہورہا ہوگا۔محنت کشوں کی آبادیاں جنگی کیمپ میں نیند کی حالت میں تھیں۔ زار کے محلات میں حکومتی جماعتوں کی کا نفرنسیں مسلسل تھکاوٹ کی حالت میں جاری تھیں‘جہاں جمہوریت ،بادشاہت کے ابھی تک منڈلانے والے بھوت سے شانے رگڑرہی تھی ہال کی ریشمی اور مخملی فضااندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔اسے روشن رکھنے والے کوئلے کی رسد تھوڑی پڑ گئی ہے۔ اضلاع میں محنت کشوں‘سپاہیوں اور جہاز رانوں کی برچمیٹن کھلی آنکھوں سے ہر شے دیکھ رہی ہیں۔ نوجوان پرولتاریوں نے اپنے کندھوں پر رائفلیں اور چھوٹی گنیں رکھی ہوئی ہیں۔سڑکوں پر ناکے والے خود کو الاؤ سے گرم کررہے ہیں۔خزاں کی اس رات کو دارلحکومت کی زندگی ایک واقعہ کے بعد دوسرے واقعہ سے گزررہی ہے‘ ٹیلی فون کی چند کالوں کی منتظر ہے۔
شہروں ‘قصبوں اور دیہی علاقوں سے ساری رپورٹیں شہری منزل پر واقع اس چھوٹے سے کمرے میں آرہی ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے ہر چیز کا پہلے سے تعین کیا جا چکا ہے۔ ہر راہنما اپنی جگہ پر ہے۔ رابطے یقینی طورپر درست ہیں ۔بھول چوک کا کوئی امکان نہیں ہے۔ہم ہر بات کو ایک مرتبہ پھر ذہن میں دہراتے ہیں۔یہ فیصلہ کن رات ہے۔ابھی تھوڑی دیر پہلے شام کے وقت میں نے سوویٹوں کی دوسری کانگریس کے مندوبین سے کہا تھا۔’’اگر آپ مضبوطی سے کھڑے ہیں تو خانہ جنگی نہیں ہوگی۔ہمارا دشمن ہارتسلیم کرلے گا اور آپ کو وہ جگہ مل جائے گی جس کے آپ حق دار ہیں۔‘‘ فتح میں کوئی شک نہیں رہا۔ اس کے باوجود یہ لمحات بڑے نازک اور ہیجان خیز ہیں۔حکومت نے کل ہی فوج کو نقل و حمل کا حکم دیتے ہوئے جنگی جہاز ’’ارورا‘‘کو نیوا کے پانیوں سے نکل جانے کو کہا ہے۔ یہ وہی بالشویک جہاز ران ہیں جنہیں سکوبی لیف نے ٹوپی ہاتھ میں پکڑ کر اگست میں درخواست کی تھی کہ وہ ’’سرما محل‘‘ کو کورنیلوف سے بچائیں۔جہاز رانوں نے فوجی انقلابی کمیٹی سے ہدایت مانگیں۔’’ارورا‘‘کو اسی جگہ کھڑا رہنے کیلئے کہاگیا جہاں وہ کھڑا تھا۔پفلووسک سے ایک ٹیلی فون کال مجھے بتاتی ہے کہ حکومت مختلف جگہوں سے فوج دارلحکومت میں لارہی ہے۔کرنسکی نے سرما محل میں فوجی طلبا‘ افسروں اور خواتین کے حفاظتی دستوں کو جمع کرلیا ہے۔ میں کمساروں کو حکم دیتاہوں کہ وہ پیٹرو گراڈ کی طرف آنے والے ہرراستے پر سرکاری فوجوں کے مقابلے کیلئے مسلح عوام جمع کردیں۔ہماری تمام ہدایات اور رپورٹیں ٹیلی فون کے ذریعے آجارہی ہیں۔ حکومت کے ایجنٹ انہیں سنتے رہتے ہیں۔لیکن کیا وہ انہیں روک سکتے ہیں؟
’’اگر وہ زبان سے نہ رکیں تو ہتھیار استعمال کرو۔ اس میں جان جانے کا بھی خطرہ ہے۔‘‘ میں وقفے وقفے بعد یہ جملہ دہراتا رہتا ہوں۔ لیکن دل سے نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔انقلاب وسیر دل‘ رجائی اور نرم خو ہوتا ہے۔وہ اس میں کامیاب بھی رہتا ہے۔ دشمن عناصر اس کی گرم سانس میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ دن کے آغاز کے وقت(24 اکتوبر کو)حکم جاری کیا جاتا ہے کہ سڑکوں اور گلیوں میں فساد برپا کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی سے اڑادیا جائے۔ہمارے دشمن سڑکوں پر آنے کی جرات نہیں کر سکتے۔وہ چھپ گئے ہیں اب سڑکیں ہماری ہیں ہمارے کمسار پیٹرو گراڈ کی طرف آنے والے ہر راستے پر ہو شیار بیٹھے ہیں۔فوجیوں اور توپچیوں نے حکومت کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ فوجی طلب کا ایک مختصر سا گرہ ہمارا حصار توڑ کر شہر میں داخل ہو جاتا ہے۔ لیکن میں فون پر ان کی نقل و حرکت پر دھیان دیے ہوئے ہوں۔ آخر میں وہ سمولنی میں اپنا وفد بھیج دیتے ہیں۔ حکومت مدد حاصل کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ مگر اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے۔
سمولنی کے بیرونی حصار کو مشین گنوں کی ایک نئی رجمنٹ سے دہرا مضبوط کر دیا گیا ہے۔ تمام گریژنوں سے رابطہ بغیر کسی رکاوٹ کے بحال ہے۔ ڈیوٹی پر موجود سپاہی پوری طرح چوکنے ہیں۔ اور مخالف فوجوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔کمسار اپنی اپنی جگہوں پر ہیں۔ ہر گیریژن سے سپاہی سمولنی آئے ہوئے ہیں تاکہ کسی کیریژن سے رابطہ ٹوٹ جانے پر انہیں استعمال کیا جاسکے۔اضلاع سے آئے ہوئے مسلح لوگوں کی ٹولیاں سڑکوں پر مارچ کررہی ہیں ۔وہ ایک کے بعد دوسرے ادارے پر قابض ہو رہی ہیں۔ ان کا ہر جگہ دوستوں کی طرح بے صبری سے انتظار کیا جارہا ہے۔ ریلوے ٹرمینلوں پر خاص طورپر متعین کیے گئے کمسار آنے جانے والی ٹرینوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔یہاں سے کوئی پریشان کن خبر نہیں آرہی۔ہم شہر کی ہر اہم جگہ پر کسی مزاحمت اور قتل و غارت کے بغیر قبضہ کر رہے ہیں۔ٹیلی فون بتاتا رہتا ہے۔’’ہم یہاں ہیں۔‘‘
سب کچھ ٹھیک طرح ہورہا ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا ٹھیک طورپر ہو سکتا تھا۔ اب مجھے ٹیلی فون سے اٹھ جانا چاہیے۔ میں صوفے پر بیٹھ جاتا ہوں۔اعصابی تناؤ کم ہو جاتا ہے۔تھکاوٹ کی ایک مردہ سرسراہٹ مجھے دبوچ لیتی ہے۔
’’مجھے ایک سگریٹ دو۔‘‘میں کامینیف سے کہتا ہوں۔(ان دنوں میں سگریٹ پیتا تھا مگر کبھی کبھار) میں دو ایک کش لیتا ہوں۔پھر میرے منہ سے یہ لفظ نکلتے ہیں۔اسی کی کمی تھی۔‘‘اور میں بے ہوش ہو جاتاہوں۔ (بیماری یا جسمانی تکلیف کی حالت میں بے ہوش ہو جانے کی بیماری میں نے اپنی ماں سے ورثے میں پائی تھی۔ اسی لیے بعض امریکی ڈاکٹروں نے مجھے مرگی کا مریض کہا تھا) ہوش میں آنے پر میں کامینیف کا خوف زدہ چہرہ خود پر جھکا ہوا دیکھتا ہوں۔’’کوئی دوا لاؤں؟‘‘وہ پوچھتا ہے۔
’’ٹھیک ہوجاوں گا۔‘‘ میں جواب دیتا ہوں ’’کھانے کو کچھ ہے؟‘‘میں پوچھتا ہوں۔ میں یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ آخری بار میں نے کب کچھ کھایا تھا۔ کچھ یاد نہیں آتا۔ بہرحال کل تک تو میں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔
دوسری صبح میں بورژوا اور منشویک پاپولسٹ اخباروں پر جھپٹ پڑتا ہوں۔ شورش کے بارے میں ان میں ایک لفظ بھی نہیں تھا۔اس سے پہلے وہ قتل و غارت شورش اور خون کے دریا بہ جانے کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ اب جب کہ شورش واقعی برپا ہو چکی تھی وہ اس کے متعلق مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔وہ جنرل سٹاف سے ہامری بات چیت کو ہماری کمزوری اور ہمارے سفارتی بیانات کو ہماری متلون مزاجی سمجھ رہے تھے۔ اس دوران میں کسی افراتفری ‘سڑکوں پر لڑائی یا خون خرابے کے بغیر ایک ادارے کے بعد دوسرے ادارے پر ہمارے سپاہی‘جہاز ران اور سرخ گارڈ سمولنی سے جاری ہونے والے احکامات پر عمل کرکے قبضہ کرتے جارہے تھے۔
اگلی صبح پیٹرو گراڈ کے شہری ایک نئی حکومت کی خبر کے تحت اپنی حیرت زدہ آنکھیں ملتے ہوئے بیدار ہوئے۔یہ کیسے ممکن ہوا کہ اقتدار بالشویکوں کے ہاتھ میں آگیا تھا؟ میونسپل ڈوما کا ایک وفد مجھے ملنے کیلئے آیا اور مجھ سے چند عجیب قسم کے سوال پوچھے۔’’ آپ لوگ کوئی فوجی اقدام کریں گے۔؟اگر ایسا ہے تو کس لیے اور کب؟ ڈوما کو معلوم ہے؟ چوبیس گھنٹوں میں کیا ہونے والا ہے؟ سوویٹ نے امن وامان بحال کرنے اور عوم کو تحفظ کیلئے کیا کیا ہے؟‘‘اسی قسم کے دوسرے سوالات۔
میں نے انقلاب کا جدلیاتی پہلو سامنے رکھتے ہوئے جوابات دیے اور ڈوما کو دعوت دی کہ وہ فوجی انقلابی کمیٹی کے کام میں حصہ لینے کیلئے اپنا وفد بھیجے۔ اس بات نے انہیں شورش سے زیادہ خوف زدہ کر دیا۔ میں نے اپنے دفاع پر بات ختم کی۔’’اگر رہی سہی حکومت نے طاقت کا استعمال کی تو جواب طاقت سے دیا جائے گا۔‘‘
’’ہم سوویٹوں کو اقتدار دینے کے خلاف تھے۔کیا آپ ڈوما ختم کر دیں گے؟‘‘
میں نے جواب دیا۔’’موجودہ ڈوما گزرجانے والے کل کی ترجمانی کرتا ہے۔اگر کوئی جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا تو ہم عوام سے کہیں گے کہ وہ اقتدار کے مسئلے پر نیا ڈوما چن لیں۔‘‘وفد جیسے خالی ہاتھ آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔مگر وہ اپنے ساتھ ہماری یقینی فتح کا احساس لے کر گیا۔ راتوں رات بہت کچھ بدل گیا تھا۔ تین ہفتے پہلے ہم نے پیٹروگراڈ سوویٹ میں اکثریت حاصل کی تھی۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا‘ نہ پرنٹنگ پریس ،نہ فنڈز ، نہ کوئی شاخ۔ کل رات ہی حکومت نے فوجی انقلابی کمیٹی کے ارکان کی گرفتاری کے احکام جاری کئے تھے اور وہ ہمارا سراغ لگا رہی تھی۔ مگر آج میونسپل ڈوما کا ایک وفد اسی کمیٹی سے اپنی قسمت کےمتعلق پوچھنے آگیا تھا۔
سرمامحل میں حکومت کا اجلاس ابھی تک جاری تھا۔ مگراب یہ ایک شیڈوحکومت تھی۔ سیاسی طورپر اس کا وجود ختم ہو چکا تھا۔25 اکتوبر کو ہماری فوجوں نے سرمامحل کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ایک بچے دوپہر کو میں نے صورتحال کے بارے میں پیٹروگراڈ سوویٹ کے سامنے ایک بیان دیا۔اخبارات نے اسے کچھ اس طرح شائع کیا۔’’فوجی انقلابی کمیٹی کی طرف سے میں اعلان کرتا ہوں کہ عبوری حکومت کا اب کوئی وجود نہیں ہے۔(تالیاں)بعض وزیروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔(بہت خوب)دوسرے بھی چند گھنٹوں یا دنوں میں گرفتار کر لیے جائیں گے۔(تالیاں)فوجی انقلابی کمیٹی کے حکم پر گیریژن نے پارلیمنٹ کا اجلاس ختم کر دیا ہے۔ (بلند تالیاں)ہم ساری رات چوکسی کی حالت میں انقلابی سپاہیوں کو رجمنٹوں اور محنت کشوں کے دستوں کو ٹیلی فون پر ہدایات دیتے رہے۔وہ خاموشی سے اپنا کام کرنے میں مصروف رہے۔شہری ساری رات امن سے سوئے رہے۔انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ریلوے سٹیشن ‘ڈاک خانہ‘ تار گھر‘پیٹروگراڈ‘ٹیلی فون ایجنسی اور سٹیٹ بینک ۔۔ سب پر ہمارا قبضہ ہو چکا ہے۔(بلند تالیاں)سرمامحل پر ابھی قبضہ نہیں ہوا۔اس کی قسمت کا بھی چند منٹ میں فیصلہ ہو جائے گا۔(تحسین کے نعرے)‘‘
ممکن ہے کہ سادہ بیان اجتماع کے موڑ کے متعلق کوئی غلط تاثر قائم کردے۔میرے حافظے میں اس کی بعض تفصیلات موجود ہیں۔ جب میں نے سوویت کے اجلاس میں رات کے دوران میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی کا ذکر کیا توچند لمحوں تک ایک گھمبیر خاموشی چھا گئی۔پھر تالیاں بجنے لگیں‘پرزور نہیں بلکہ سوچ سے بھری تالیاں۔اجتماع ہیجان کیفیت میں تھا اور خود کو جدوجہد کیلئے تیار کر رہا تھا۔دوسری طرف محنت کش طبقے کو ایک ناقابل بیان ولوے نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔لیکن جب ہم نے اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھا تو یہی بے قابو ولولہ ایک پریشان قسم کے تفکر میں ڈھل گیا۔ایک اندیشے نے اس لمحے خود کو ظاہر کیا۔پرانے لوگوں اور نظام نے ہماری سخت مزاحمت کرنی تھی۔ ہمارے سامنے جدوجہد تھی‘بھوک تھی‘سردیاں آرہی تھیں‘خون اور موت دکھائی دے رہے تھے۔ ’’کیا ہم ان سب پر قابو پالیں گے؟‘‘ہم اپنے آپ سے پوچھ رہے تھے۔یہ سب ایک پریشان کن صورتحال کا ردعمل تھا۔ ’’ہم قابو پالیں گے‘‘سب کا ایک ہی جواب تھا۔نئے خطرے ابھی دور کہیں منڈلارہے تھے۔لیکن ایک عظیم فتح کا احساس ہمارے دل میں اتر گیا تھااور خون کے اندر کہیں سرسرا رہا تھااس احساس نے اس استقبالیے میں اپنا اظہار پایا جس کا انتظام لینن کی آمد پر کیا گیا تھا۔لینن چار ماہ کی غیر حاضری کے بعد لوگوں کے سامنے آیا تھا۔
اسی شام جب ہم سوویٹوں کی کانگریس کے افتتاح کا انتظارکر رہے تھے تو لینن اور میں ہال سے ملحقہ ایک کمرے میں آرام کررہے تھے۔کمرہ بالکل خالی تھا‘ ماسوا کرسیوں کے ۔کسی نے ہمارے لیے فرش پر کمبل بچھا دیا۔شاید وہ لینن کی بہن تھی جو ہمارے لئے سرہانے لائی تھی۔ہم ساتھ ساتھ لیٹے ہوئے تھے۔جسم اورروح تنے ہوئے تاروں کی طرح تھے۔ ہم نے یہ آرام بڑی محنت کے بعد کمایا تھا۔ نیند نہیں آرہی تھی۔لہذا ہم مدھم آواز میں باتیں کرنے لگے۔شورش ختم کرنے کے خیال سے لینن اب مصالحت کرچکا تھا۔اس کے اندر پلنے والے ڈر دور ہو گئے۔اس کی آواز میں ایک ایسا خلوص تھا جو شازہی نظر آتا تھا۔وہ سرخ گارڈوں ‘سپاہیوں اور جہاز رانوں کے ان ملے جلے ناکوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔جو شہری ہر جگہ لگے ہوئے تھے۔ ’’یہ کیسا حیرت ناک نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو ہاتھ میں بندوق پکڑی ہوئی ہے اور آگ تاپ رہے ہیں‘‘وہ اپنے گہرے احساس کو دہرائے جارہا تھا۔ آخر کار محنت کش اور سپاہی ایک جگہ اکٹھے ہوگئے تھے۔
پھر وہ اچانک بولنے لگا۔’’سرمامحل کا کیا ہو گا؟ اس پر ابھی تک قبضہ نہیں ہوا۔ اس میں کوئی خطرہ تونہیں ہے؟‘‘
میں سرما محل آپریشن کے متعلق فون پر پوچھنے کیلئے اٹھا مگر اس نے مجھے روک دیا۔’’تم لیٹے رہو۔میں کسی اور کو بھیج دیتا ہوں۔‘‘ہم زیادہ دیر تک آرام نہ کر سکے۔ سوویٹوں کی کانگریس کا اجلاس ہال میں شروع ہورہا تھا۔ لینن کی بہن الانوفا مجھے لینے بھاگی بھاگی آئی۔
’’ڈان تقریر کررہا ہے۔لوگ تمہاری تقریر سننا چاہتے ہیں۔‘‘
ڈان اپنی بار بار ٹوٹ جانے والی آواز میں سازشیوں کو لعن طعن کرنے کے علاوہ شورش کے ناگزیر انہدام کی پیشن گوئی کررہا تھا۔اس کا مطالبہ تھا کہ ہم سوشلسٹ انقلابیوں اور منشویکوں کے ساتھ اتحاد کرلیں۔ جو پارٹیاں کل تک اقتدار میں تھیں اور جو شکاری کتوں کی طرح ہمارا پیچھا کرکے ہمیں جیل میں ڈال رہی تھیں‘اب اقتدار چھن جانے پر ہمارے ساتھ اتحاد کا مطالبہ کررہی تھیں۔
میں نے ڈان کا جواب دیا۔اس جواب میں انقلاب کا گزر جانے والا کل بھی شامل تھا۔’’ایک شورش برپا ہوئی ہے۔یہ کوئی سازش نہیں ہے۔عوام کی بیداری کی کوئی منطق نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کا جواز تلاش کیا جاتا ہے۔ہم محنت کشوں کی اور سپاہیوں کی انقلابی طاقت کو مضبوط کررہے تھے۔ ایک عوامی شورش کیلئے ہم کھلم کھلا لوگوں کی رضا کو آگے لے جارہے تھے۔ ہماری شورش جیت گئی ہے۔اب ہم سے کہا جارہا ہے کہ ہم اپنی فتح کو بھول جائیں‘ اتحاد کر لیں ۔مگر کس کے ساتھ ؟تم تو بکھرے اور ٹوٹے ہوئے لوگ ہو۔تم دیوالیہ ہو چکے ہو۔ تمہارا کام ختم ہو چکا ہے۔ اب جہاں تمہاری جگہ ہے وہاں چلے جاؤ۔ تاریخ کے کوڑا گھر میں۔‘‘
3 ‘اپریل کو جو مکالہ شروع ہوا تھا‘پیٹرو گراڈ میں لینن کی آمد کے دن وہ مکمل ہو گیا۔
لیون ٹراٹسکی کی کتاب ’’میری زندگی‘‘ سے اقتباس
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – لینن