تحریر: | ریوولوشن، فرانس |
31 مارچ کو دس لاکھ سے زائد احتجاجی مظاہرین نے سڑکوں پر آکر فرانس کے نوجوانوں اور محنت کش طبقے میں لیبر قانون کی شدید عدم مقبولیت کو ثابت کر دیا ہے۔ اسی رات ہزاروں لوگوں او ر خاص کر نوجوانوں نے پیرس کے مشہور ریپبلک سکوائر پر پہلی مرتبہ رات بھر قبضہ کیے رکھا۔ انتہائی پُر جوش ماحول کی وجہ سے احتجا ج کرنے والے لوگ گھر جا نے اور نیند یا آرام سے انکاری ہوگئے۔ جب سے یہ سکوائر بنا ہے، ہر رات اس نے خود کو نوجوانوں اور محنت کشوں میں گھرا ہواپایا ہے۔
31 مارچ کی احتجاج سے بھرپور رات کو بھی حکومت نے الخمری کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کو واضح کرتے ہوئے احتجاج کا جواب دیا۔ یہ حیران کن نہیں ہے۔ صرف ردِ اصلاحات ہی آج فرانس کے حکمران طبقے کی معروضی ضروریات کو پورا کر سکتی ہیں۔ اگر یہ قانون بن گیا تو سرمایہ دارطبقہ محنت کشوں کا استحصال، تنخواہوں میں کٹوتی اور برطرفی پہلے سے کہیں زیادہ آزادی سے کر سکے گا۔ بڑے کاروباریوں کے لیے اس میں بہت فائدے ہیں اوراسی لیے ان کے خدمتگاروں صدر اولاندے اور وزیراعظم ویلس کے لیے بھی۔ یہ لوگ صرف اس وجہ سے ان تجویزکردہ ردِ اصلاحات کو واپس نہیں لیں گے کہ دس لاکھ لوگوں نے اس کے خلاف آج یا کل یا کبھی بھی ملک کی سڑکوں پر آ کراپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔
ان کے نزدیک 31 مارچ جیسے بڑے ’’عمل کرنے کے دنوں‘‘ کی وجہ سے حکومت کے محنت کشوں کے خلاف تیار کردہ عزائم کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سارے مزدورں پر اپنے ذاتی تجربے کی وجہ سے یہ حقیقت پہلے ہی آشکار ہو چکی ہے۔ فرانسیسی مزدوروں کو ابھی بھی وورتھ ’’اصلاحات‘‘ کے خلاف اٹھنے والی تحریک کی ناکامی یاد ہے کہ جس میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو ساٹھ سے باسٹھ سال تک بڑھایا گیا تھا۔ وہ تحریک جو 2010ء کے موسمِ خزاں میں ابھری تھی، جس کے تیس لاکھ سے زائدشرکا تھے جو کہ کئی سارے ’’ عمل کرنے کے دنوں ‘‘ کے باوجود بھی ناکام ہو گئی تھی۔ اس سب کے باوجود بھی فرانس میں یونین قیادت نے 2010ء کی تحریک سے کوئی اسباق نہیں حاصل کیے، جوکہ اب بھی ’’ لیبر قانون ‘‘ کے خلاف یہ’’عمل کرنے کے دن‘‘منظم کروا رہی ہے۔ یا شاید، یہ قیادت بس دکھا وا کر رہی ہے کہ اس نے کوئی اسباق نہیں حاصل کیے۔
یونین کی قیادت کا کردار
31 مارچ کی پریس ریلیز میں میں سی جی ٹی کی قیادت ( جس میں فرانس کی پانچ بڑی ٹریڈ یونینز شامل ہیں) نے کہا ہے کہ ’’ حکومت کو اس تجویز کردہ قانون سے دستبردار ہونا چاہیے۔کئی ہفتوں تک مسلسل ہٹ دھرمی کرنے کا کوئی حاصل وصول نہیں ہونا،جیسا کہ پہلے بھی نہیں ہوا تھا جب حکومت شہریت کی منسوخی کو قانون بنانا چاہتی تھی اور ایمرجنسی حالات کا نفاذ کرنا چاہتی تھی۔MEDEF ( جو کہ مالکوں کی سب سے بڑی ’’یونین ‘‘ ہے) کو حکومت جو تجاویز دے رہی ہے وہ متروک ہیں، نہ صرف فرانس بلکہ پورا یورپ پچھلے تیس سالوں سے مزدوروں کے حقوق اور تنخواہوں میں کمی کے تجربے سے گزر رہاہے، جس سے بیروزگاری بڑھی ہے اور شیئر ہولڈرز کے منافعوں میں اضافہ (2015ء میں25فیصد) ہوا ہے۔‘‘
CGT کی قیادت آخر کسے قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ یہ واضح نہیں ہو پا رہا۔ یہ حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ ہٹ دھرمی نہ کرے اور ایسی حکومتی پالیسیاں نہ لے کر آئے جس سے ’’ شیئر ہولڈرز کے منافعوں میں اضافہ ہو‘‘۔ کیا وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ در حقیقت یہی تو وہ نقطہ ہے، یہی نقطہ جس کے لیے یہ لیبر قانون اور دیگر تمام حکومتی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔حکومت ہٹ دھرم ہے اور یہ 2012کے بعد سے ہے کیونکہ حکومت یہ یقینی بنانا چاہتی ہے کہ ’’شیئر ہولڈرز کے منافعے بڑھتے رہیں‘‘۔اس کے علاوہ اس وقت یہاں’’ شہریت کی منسوخی ‘‘اور ’’ ایمرجنسی کے نفاذ‘‘ کے حوالے دینے کی کوئی بھی مناسبت نہیں ہے۔ہولاندے نے نیچے سے عوامی دباؤ کی بنا پر شہریت کی منسوخی کے قانون کی منظوری کو نہیں روکا تھا بلکہ اس لیے روکا تھا کہ اس سے پارلیمنٹ کی ناکامی کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا،جس کے لیے خاص کر دائیں بازو کے ڈپٹیز اور سینیٹرز مبارک با د کے مستحق ہیں۔جہاں تک ریاست میں ایمرجنسی کے نفاذ کا تعلق ہے تو اس کاخاتمہ ہونا تو ابھی باقی ہے۔
CGT کی قیادت حکومت کو کہہ رہی ہے کہ ’’کئی ہفتوں تک مسلسل بضد رہنے کا کو ئی حاصل وصول نہیں ہوگا‘‘۔ لیکن یہ ’’ لیبر قانون ‘‘کسی قسم کے غصے میں اٹھایا گیا کوئی غلطی پر مبنی اقدام نہیں ہے۔ایک بار پھر یہ حکمران طبقے کے بنیادی مفاد کی خدمت میں بُنا گیا ایک ردِ اصلاحاتی قدم ہے۔اسی لیے حکومت ’’کئی ہفتوں تک ہٹ دھرم رہنے پر‘‘پختہ ہے کہ ان ہفتوں میں اسے بس طے کئے گئے ’’عمل کرنے کے دنوں‘‘ کا سامنا ہی تو کرنا ہے، خواہ یہ’’ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں‘‘۔یہی وہ بات ہے جو CGT کی قیادت کو تمام نوجوانوں اور مزدوروں کو سمجھانی چاہیے اور اس جدوجہد کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ کامیاب جدوجہد کا راستہ بھی دکھانا چاہیے ۔
CTGاپنے بیان کو ان الفاظ میں ختم کرتی ہے کہ ’’31مارچ کی جدوجہد کے دوران شریک ہونے والی ہر ایک ٹریڈ یونین کو ہم یہ تجویز دیں گے کہ وہ اپنے ایکشن اپنی جدوجہد اپنی ہڑتالوں کو جاری رکھیں اور ان میں تیزی و شدت لائیں۔خاص طور پر پانچ اپریل کو پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرے کیلئے،پھر 9اپریل اور اس کے بعد بھی ، کہ جب تک یہ بل واپس نہیں لیا جاتا ۔اور جب تک ہم اپنے لیے نئے سماجی حقوق حاصل نہیں کر لیتے‘‘۔
CGT نے پانچ اپریل کے مظاہرے کے لیے پارلیمنٹ کا کہا ہے جس میں موجود اکثریت اس بل کی زور وشور سے حمایت کر رہی ہے۔تو پھر بات کیا ہے؟ کسی کو تو یہ سوچنا ہوگا۔ مزدور بغیر کچھ حاصل کئے ایک دن کی اجرت کیوں چھوڑیں، اس لیے پانچ اپریل کی ہڑتال نہ ہونے کے برابر ہوگی۔اسی طرح نو اپریل ،ہفتے کے دن بھی چند ایک ہڑتالیں ہی ہو پائیں گی۔احتجاجی دنوں کے طور پر یہ دن ختم ہوجائیں گے۔CGT کی پریس ریلیز عمل میں اور خاص کر ہڑتالوں میں ’’شدت‘‘ لانے کا کہتی ہے،لیکن در حقیقت یہ خود بھی کسی بڑی ہڑتال کے امکان کو دیکھ ہی نہیں رہی۔یہ ممکن ہے اور اس کی خواہش بھی کی جا رہی ہے کہ نو اپریل کااختتام اکتیس مارچ سے بھی بڑے دن کے طور پر ہو۔ لیکن کیا یہی وہ ’’عمل کرنے کا دن‘‘ ہوسکے گا جو حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دے؟ہمارے حساب سے اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
کیاواقعی CGT کی قیادت اتنی ہی پچھڑی ہوئی جتنا کہ اس کے اکتیس مارچ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے؟ ہمیں تو ایسا نہیں لگتا۔ وہ جانتے ہیں کہ حکومت الخمری بل ضرور پاس کروائے گی اور وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مختلف معاشی شعبوں میں پھیلتی اورزیادہ سے زیادہ لوگوں کو خود میں سموتی ہوتی ایک ہڑتال ہی حکومت کو بات منوانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ لیکن یہ پہلو انہیں اتنا ہی خوف زدہ کرتا ہے جتنا کہ یہ حکومت اور حکمران طبقے کو خوف زدہ کرتا ہے۔کیوں؟کیونکہ ایک پھیلتی ہوئی ہڑتالی تحریک بہت جلد اپنی ہی رفتار اور طاقت حاصل کر لے گی اور یونین قیادت کے کنٹرول سے ہی باہر ہو جائیگی، اور یہ1968ء کی طرح ہی انقلابی پہلوؤں پر مبنی ایک لامحدود عام ہڑتال کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے۔
صرف یہی امکان ہی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے،حکمران طبقہ صرف اس وقت ہی رعایتیں دیتا ہے جب اسے سب کچھ کھو جانے کا خوف کنارے لگا دے،خاص کر بحران کے وقتوں میں۔لیکن یونین قیادت کی نیتیں اس سے بڑھ کر کچھ کرنے کی نہیں ہیں۔وہ استحکام اور سکون کے خواہاں ہیں۔مزدوروں کے سامنے اچھا نظر آنے کے لیے وہ حکومت کو لیکچر دیتے ہیں، اسے کہتے ہیں کہ’’ ضد ‘‘نہ کرے اور محض خالی دھمکیاں دیتے ہیں۔اور اس سب کے ساتھ ساتھ صبر سے انتظار کرتے ہوئے تحریک کی پسپائی کا انتظار کرتے ہیں۔یہی سب اس وقت حقیقت میں فرانس کی ٹریڈ یونین قیادت میں ہو رہاہے۔2010ء کے موسمِ خزاں اور اس قیادت کی وجہ سے ہونے والی دوسری ناکامیوں کے تجربے کی روشنی میں ،بہت سے یونین کے کارکنان اب اس حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں۔
نوجوانوں کا تحرک
17 مارچ کے مظاہروں کے بعد ، نوجوانوں کے مظاہرے پولیس کے بدترین جبرو تشدد کا شکار رہے ہیں۔ اس زیادتی کے احکامات خود حکومت نے ہی دئیے ہیں۔ نوجوانوں کاکنٹرول سے باہر ہونے کا کردار، اس کا انقلابی پن اور تمام محنت کش طبقے پر ان کا جو اثر و رسوخ ہو سکتا ہے، اس سب کی وجہ سے حکومت ان سے خوفزدہ ہے۔ اس لیے حکومت یونیورسٹی اور ہائی سکول کے طالبِ علموں کے تحرک کو روکنے کے لیے لاٹھی چارج کرنے والی مسلح اور عام کپڑوں میں ملبوس پولیس کا استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ اس دوران کئی افراد زخمی اور گرفتار کئے گئے ہیں۔
اس قسم کے تشدد اورپولیس کے جبر کو روکنے کے لیے ٹریڈیونین قیادت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اجتماعی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے پولیس کی مداخلت کی بھرپورمخالفت کرے۔ کم سے کم وضع داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ درست پوزیشن کو اختیار کرنے کے لیے یونینزانتہائی سستی سے کام لے رہی ہیں۔موجودہ صورتحال کا جواز پیش کرتے ہوئے جو، نوجوانوں کا پولیس تشدد کا شکار بنا رہی ہے، ہمیں یہ بتا یا جا رہا ہے کہ نوجوانوں کے احتجاجی مظاہروں میں ’’انارکسٹ‘‘ اور’’ غنڈے‘‘ گھس کر گڑبڑ پیدا کر رہے ہیں اور پولیس کوتشدد کرنے پر اکسارہے ہیں۔چلیں بالفرض، ہم مان لیتے ہیں کہ یہ بات درست ہے۔تو کیا اس کے پیچھے کوئی وجہ ہے کہ CGT اور دیگر یونینز کی قیادتوں نے خود کو فاصلے پر رکھا ہوا ہے اور پولیس کو ان نوجوان لوگوں پر تشدد کرنے دیا جا رہا ہے؟مزید برآں ،ان نام نہاد ’’انارکسٹوں‘‘ میں سے بھی کتنے ہی وہ اکسانے والے گماشتے ہیں؟’’انارکسٹوں ‘‘ کا عذر واضح طور پر بے بنیاد ہے۔خاص کر پیرس میں، بہت سے نوجوان CGT کے رویے کی وجہ سے غصے میں ہیں۔
اس موضوع پر CGT, FO, FSU, Solidaires, UNEF, UNLاورFIDL کی دستخط شدہ اکتیس مارچ کی پریس ریلیز میں یونین قیادت کا رویہ واضح طور پر سامنے آ گیا ہے۔ اس پر یہ واحد متعلقہ پیراگراف ہے:’’دستخط کرنے والی ٹریڈ یونینز ایک پھر اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ حکام کو عوام کے احتجاج کرنے، جڑنے اور منظم ہونے کے حق کی ضمانت دینی چاہیے اوراس کے ساتھ ساتھ احتجاج کرنے والوں کی حفاظت کو بھی یقینی بنانا چاہیے‘‘۔ بس اتنا ہی کہا گیا ہے اورتقریباََ نا قابل یقین ہے: پریس ریلیز ،جبر کرنے والوں یعنی ’’عوام کے حکام‘‘ سے استدعا کرتی ہے کہ تشدد کا شکار لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ وہ نوجوان جنہوں نے گزشتہ ہفتوں میں گیسوں اور ڈنڈوں کا سامنا کیا ہو، انہیں یہ لطیفہ کسی طور بھی مزاحیہ نہیں لگنا۔
ہم ایک بار پھر سوال کرتے ہیں؛ کیا قومی ٹریڈ یونینز کی یہ قیادت اتنی معصوم ہے؟ کیا یہ پولیس تشدد میں حکومت کے کردار سے ناواقف ہیں؟ جواب ہے نہیں۔ وہ اس حرکت سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن وہ اس علم کی بنیا د پر کوئی نتیجے نہیں اخذکرنا چاہتے۔ کیوں؟ اس ایک سادہ سی وجہ ہے کہ وہ نوجوانوں کی جدوجہد، ان کے انقلابی پن، ان کی کنٹرول سے باہرہونے کی فطرت اوراس کے محنت کش طبقے پر پڑنے والے اثرات سے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں۔ اور ایک بار پھریہ بات کہ بہت سارے یونین کے کارکنان اس مایوس کن حقیقت سے آشنا ہیں۔
2010 ء کے اسباق
یہ تجزیہ کسی طور بھی ایک مایوس نتیجے کی طرف نہیں جاتا۔ یونین قیادت کا رویہ تحریک کی کامیابی میں صرف ایک اضافی رکاوٹ ہے، جس کے نیچے قوت اور لڑائی کے بے تحاشا ذخائر موجود ہیں۔لیکن یہ ایک رکاوٹ تو ہے، یونین کے متحرک کارکنان کو لازماََ اس قیادت کا تجزیہ کرتے ہوئے اہم عملی نتائج اخذ کرنا ہوں۔ انہیں یونین قیادت شدید دباؤ ڈالنا ہوگا کہ اپنی سمت تبدیل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے کاموں کو انتظامیہ اور اسی قیادت کے بنائے گئے شیڈول تک محدود نہیں کرنا چاہیے، جو کہ موجودہ صورتحال میں تحریک کو ڈھلان کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ انہیں نوجوانوں پر ہونے والے پولیس تشدد کے درمیان بھی مخالفت کرتے ہوئے مداخلت کا آغاز کرنا چاہیے۔
بہت سے شہروں میں ’’انٹر پروفیشنل عوامی اسمبلیاں‘‘ قائم ہوتی چلی گئیں، جن میں ٹریڈ یونینسٹ، ورکرز، نوجوانوں اور بیروزگاروں کی بہت بڑی تعداد ایک مشترکہ لڑائی کے لیے اکٹھی ہوتی چلی گئی۔ ان عوامی اسمبلیوں نے اپنے لیے ایک قومی سطح کے رابطے کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھ لیا تھا۔لیکن اس قومی سطح کے تقاضے سے عہدہ برا ہونے سے قبل ہی یہ تحریک ختم ہو گئی، تاہم اس تجربے نے نوخیز تحریکیوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے آشکارکردیا۔ ان میں جدوجہد کو جوش و جذبے اور جمہوری انداز میں ترتیب و تحریک دینے کی اہلیت واضح طور پر سامنے آگئی۔
اس 147La loi Travail148 نامی بل کے خلاف جدوجہد کو بھی صرف ایک ہی صورت میں کامیابی سے ہمکنار کروایا جا سکے گا کہ اگر ورکروں کی اکثریت کو اس تحریک میں شامل کیا جائے۔یونین کے بہت سے سرگرم لوگ اس بات کو سمجھ بھی رہے اور اس پر بات بھی کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو جنہیں 2010ء میں نظر انداز کیا گیاتھا، کو اگر اس جدوجہد میں شریک کیا جائے تو وہ ایک جوش جذبے کے ساتھ اس جدوجہد کو شکتی فراہم کر سکتے ہیں۔آنے والے دن اور ہفتے بہت اہم اور فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔
جدوجہد کا طریقہ اور حکمت عملی
منطقی طور پر اس بل کا روکا جانا ہی تحرک کا بنیادی ہدف اور تقاضا ہے۔ لیکن نوجوانوں کے نزدیک اصل خرابی کی جڑہی کلیتاً ’’نظام‘‘ ہے۔ اگر کسی مرحلے پر حکومت اپنے اس بل سے دستبردار ہوتی ہے تو بھی سرمایہ دارانہ نظام کا جاری و ساری بحران اپنی تباہ کاریاں برقرار رکھے گا۔بیروزگاری میں اضافہ اپنی ہولناکی جاری رکھے گا۔عدم تحفظ بڑھے گا، ہر قسم کی غربت میں اضافہ جبکہ ہاؤسنگ سمیت پبلک سروسز میں شدید کمی ہوگی۔
کام کرنے والے عوام کی مداخلت اور شمولیت کے لیے طریقِ کار اور لائحہ عمل فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ ورکروں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ مذکورہ بل اُن کے مفادات پر ایک بڑا حملہ ہے۔ سبھی تجزیے اس بات کی تصدیق اور نشاندہی کرتے ہیں۔ لیکن ان ورکروں کی اکثریت ، خاص طورپر نجی شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے چوبیس گھنٹے کی عام ہڑتال ،ایک بڑی قربانی ہوگی۔ ان کو نہ صرف یہ کہ ایک دن کی اجرت سے محروم ہونا پڑے گابلکہ اپنے مالکان کے ردِعمل سے بھی نبردآزما ہونا پڑے گا۔ ایسا کیوں اور کس لیے؟ صرف ’’ایکشن‘‘ کیلئے دنوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجودیہ سب حکومت کو قانون سے دستبردار نہیں کرا سکتا۔ یہی سبب ہے کہ ورکروں کی بھاری تعداد نے 31مارچ کی جدوجہد کی بھرپور حمایت تو کی لیکن اس میں شرکت نہیں کی۔ وہ یہ سمجھتے اور احساس رکھتے ہیں کہ ایک شدید تر ہوتے معاشی بحران کی موجودگی میں حکمران طبقہ اتنی آسانی سے اس بل سے دستبردار نہیں ہوگا۔ ورکرز بجا طور پرتحریک اور جدوجہد میں بھرپور شرکت کے خواہشمندہوں گے، بشرطیکہ ان کو اس بات کی تسلی اور آگاہی ہو کہ اس کے بعد ان کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔ محض ایک قانون سے دستبرداری ان کیلئے ناکافی اور غیر اطمینان بخش ہو گی۔ اس سے ورکروں پر مزید کسی اور حملے سے تو نجات مل جائے گی لیکن صرف اس سے ورکروں کو روزمرہ زندگی میں درپیش اور دن بدن بڑھتے مسائل کا کوئی مداوا نہیں ہو گا۔ ورکرز پہلے ہی ایک جبر مسلسل کا شکار ہیں ، یہ بل تو ان کے لیے مصائب میں بڑھوتری کا ہی ایک ذریعہ ہوگا۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یونین کی قیادت اس امر سے بخوبی آگاہ ہے اور وہ محض اس قانون ہی کی مخالفت نہیں کر رہی ہے بلکہ ’’اور دوسرے نعرے‘‘ بھی بلند کر رہی ہے۔ بالکل درست لیکن دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ قیادت کس طرح سے یہ کر رہی ہے! اور کیا قیادت ورکروں کی اکثریت کو اس بارے مطمئن بھی کر رہی ہے کہ نہیں۔
یہاں ہم ایک اور اقتباس سامنے لانا چاہتے ہیں جو یونین کی طرف سے جاری کیا گیا ہے، ’’ہم سب (زیر دستخطی ٹریڈ یونینز)اس بات کی تصدیق و تائید کرتے ہیں کہ ہم حکومت سے ملنے کے لیے دستیاب ہیں تاکہ مل بیٹھ کر روزگار، اجرتوں، پنشنوں، اوقات کار، سوشل سیکیورٹی، گروپ بینیفٹس، حالاتِ کار، اور ٹریڈ یونین کے کام کے لیے درکار تربیت کے حوالے سے تجاویز کو ترتیب دیا جاسکے۔ ان تجاویز سے سماجی ترقی میں اضافہ ہوگا بلکہ اس سے آنے والے کل کے لیے حقیقی انداز میں کام کو بھی بڑھوتری ملے گی‘‘۔
اس اقتباس میں دو مسائل سامنے آتے ہیں! پہلا یہ کہ مزدور قیادت ایک ایسی رجعتی حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہے کہ جو مزدور دشمن کالے قوانین مسلط کرنے پر تلی ہوئی ہے، ایسی حکومت کے ساتھ سماجی ترقی کیلئے مذاکرات پر خود کو پیش کرنا۔ حکومت اپنی پالیسیوں اور اقدامات سے محنت کشوں کے خلاف اعلان جنگ کر چکی ہے۔ اوریونین قیادت اس جنگجو حکومت کو امن بھائی چارے اور سماجی ترقی کی پیشکش کر رہی ہے۔ ورکرز اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ صرف انہی کی طاقت ہے جس کے بل بوتے پر مالکوں کی دلال حکومت سے اپنے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔ لیکن جب ورکرز اس قسم کے مصالحانہ و سفارتکارانہ انداز کو پڑھتے ، سنتے ہیں تو وہ اپنے اپنے کاندھے اچکاتے اور چلے جاتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح سے سماجی ترقی کی یہ تجاویز سرمایہ داری کے شدید بحران کی حالت میں کار فرما / کار آمدثابت ہو سکتی ہیں؟ یہ وہ سوال ہے کہ جو ورکروں کی اکثریت اپنے آپ سے کر تی اور کررہی ہے۔ اور یوں وہ بخوبی ادراک کرتے ہیں کہ بحران کی موجودگی میں حکمران طبقات سے کسی بھی نوعیت کی رعایت کا حصول ممکن نہیں ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’آرڈربُکس‘‘ خالی چلی آ رہی ہیں اور وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بیروزگاروں کی لائنیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ نہ صرف ان کی اپنی کمپنیوں بلکہ ’’ قومی ‘‘ سطح پر بھی ہر طرف ، مالکان رعایتیں دینا تو دور کی بات ، روزبروز اپنے ورکروں پر حملوں میں اضافے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ چنانچہ ورکرز بجا طور پر تشویش کا شکار ہیں کہ سرمایہ درانہ نظام کے بحران کی اس کیفیت میں کیسے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں گے؟ ’’روزگار، اجرتوں، پنشنوں، اوقات کار، سوشل سیکیورٹی، گروپ بینیفٹس، حالاتِ کار، اور ٹریڈ یونین کے کام کے لیے درکار تربیت کے حوالے سے تجاویز‘‘ حل کی بجائے ایک سوالیہ نشان ہیں۔
زندگی کے ہر شعبے میں حکمران طبقہ تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے۔ ہم کیسے اس رحجان کو روک سکتے یا دوسری طرف موڑ سکتے ہیں؟ اس سوال کاایک ہی حقیقی جواب ہے؛ اس نظام کو اکھاڑ پھینکا جائے! حکمران طبقات کو حکمرانی سے بے دخل کر دیا جائے۔ حکمرانی اور معیشت کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے تحت لایا جائے۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں طاقت کے سوال کو اپنے پروگرام میں مرکزی اہمیت دینا ہو گی اور یہ واضح کر کے بتانا ہوگا کہ نوجوانوں اور محنت کشوں کو درپیش مسائل و مصائب سے نجات کا کوئی اور راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ ا قتدار اور اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیں، اس کے بعد ہی سماج کو ازسرنو سوشلسٹ بنیادوں پر تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ محنت کشوں کی بھاری اکثریت ، نہ صرف یہ کہ اس بات کو سمجھے گی بلکہ اسے سمجھتے ہوئے وہ اس کے لیے جدوجہد میں خود کو جوش وجذبے کے ساتھ وابستہ کر لے گی کیونکہ ہر قسم کے سماجی جبرواستبداد کا اس کے علاوہ کوئی اور رستہ ہی نہیں ہے۔