|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
پچھلے جمعے کے دن پوری دنیا کو ماسکو میں عوام سے کھچا کھچ بھرے ایک کنسرٹ میں قتل عام کی دل دہلا دینے والی خوفناک خبر ملی۔ تادم تحریر رپورٹوں کے مطابق کم از کم 137 افراد اس ہولناک واقعے میں قتل ہو چکے ہیں۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کو بلاتفریق مسلح افراد کے ایک گروہ نے انتہائی سنگدلی سے قتل کر دیا۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بعد میں موصول ہونے والی خبروں کے مطابق ان مسلح افراد کا تعلق تاجکستان سے ہے۔ آج صبح کی خبروں کے مطابق ان چار میں سے تین نے دہشت گردی کا اعتراف کر لیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک نے اعتراف کیا ہے کہ اسے اس تباہ کاری کا معاوضہ بھی دیا گیا ہے (ادا کردہ رقم 10 ہزار 800 ڈالر بتائی جا رہی ہے جس میں سے نصف کی ادائیگی کر دی گئی تھی)۔
اسلامی دہشت گرد تنظیم داعش (خراسان) نے فوری طور پر ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ بعد میں مرکزی داعش تنظیم نے اپنے سرکاری پریس سے مسلح افراد کے جسموں کے ساتھ لگے کیمروں کی ویڈیوز بھی جاری کر دیں۔
اس کا مطلب ہے کہ داعش نے اگر براہ راست یہ حملہ منظم نہیں بھی کیا تو وہ کم ازکم مسلح افراد کے ساتھ رابطے میں تھی اور اس کی بہرحال کچھ نہ کچھ مداخلت ضرور تھی۔
مغربی میڈیا نے لمحہ ضائع کئے بغیر ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش میں گلا پھاڑ پھاڑ کر اس دعوے کو کوریج دی اور یوکرینی وابستگی کے کسی بھی دعوے کو مسترد کر دیا۔۔۔اس خیال کو انہوں نے سرے سے ہی ”مضحکہ خیز“ قرار دے دیا۔
اس واقعے پر قوم سے پہلے خطاب میں پیوٹن نے اعلانیہ کیف پر الزام نہیں لگایا ہے۔ لیکن اس نے یہ نشاندہی ضرور کی ہے کہ دہشت گردوں کو جب گرفتار کیا گیا تو اس وقت وہ ایک گاڑی میں سوار یوکرینی سرحد کی جانب بھاگ رہے تھے۔ اس نشاندہی میں ہی ایک قسم کا الزام چھپا ہوا ہے۔
کیا اس حملے کے پیچھے داعش کا ہاتھ ہے؟
سطحی طور پر تمام ثبوت داعش یا کم از کم اس کی کسی ایک شاخ جیسے داعش (خراسان) کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ عام نہتے افراد پر اس قتل عام کی بربریت نازل کرتے ہوئے قاتلوں کے ”تمام کافر مردہ باد!“ اور ”اللہ اکبر!“ کے نعرے اس حوالے سے کافی ثبوت ہیں۔
مسلح افراد یقیناً پیشہ ور ماہر تھے جنہوں نے اپنا قتل عام ماہر جراحی کی مانند سرانجام دیا۔ انہیں واضح طور پر اس جگہ کی ہر تفصیل معلوم تھی جس کی انہوں نے پہلے سے جاسوسی کر کھی تھی۔ انہیں پتہ تھا کہ کہاں اور کب حملہ کرنا ہے۔ انہوں نے ایک ایسا وقت چنا جب سڑکیں گاڑیوں سے بھری پڑی تھیں تاکہ بچانے والوں یا ایمرجنسی سروسز کو جگہ تک پہنچنے میں شدید دشواری ہو۔
اس سارے آپریشن پر داعش کی چھاپ ہے جو ہمیشہ کسی بھی دہشت گرد واقعے سے پہلے بہت احتیاط سے مکمل تیاری کرتی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود کچھ ایسے اشارے بھی ہیں جو ابتدائی تاثر کی نفی کرتے ہیں۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس بربریت کے فوری بعد قاتل عمارت سے بھاگ گئے۔ یہ عمل داعش اور دیگر اسلامی دہشت گرد تنظیموں کے عمومی عمل سے بالکل مختلف ہے۔
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اسلامی دہشت گرد کبھی بھی قتل گاہ نہیں چھوڑتے۔ وہ کبھی بھی نہیں بھاگتے بلکہ وہ موت تک لڑتے ہیں یا پھر خودکش جیکٹس پھاڑ کر اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیتے ہیں۔ وہ کبھی ہتھیار نہیں ڈالتے۔ درحقیقت مجھے ایک واقعہ بھی یاد نہیں جس میں ایسا ہوا ہو۔ اس میں ماضی میں روس کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات بھی شامل ہیں۔
اسلامی دہشت گردوں کے عمومی طریقہ کار کے برعکس وہ نہ صرف قتل گاہ سے بھاگے بلکہ جب فراری کے دوران مسلح افواج (بتایا جا رہا ہے کہ یہ چیچن تھے) نے ان کی گاڑی کا گھیراؤ کیا تو انہوں نے کسی بھی لڑائی کے بغیر ہتھیار پھینک کر گرفتاری دے دی۔
چیچن قائد کادیروف نے اپنے آدمیوں کی تعریف کی کہ انہوں نے دہشت گردوں کو مارے بغیر گرفتار کر لیا ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ بہت پراسرار ہے اور اس کی کوئی نہ کوئی وضاحت ہونی چاہیے۔
بتایا جا رہا ہے کہ دہشت گرد ایک سفید رینالٹ گاڑی کو تیزی سے یوکرینی سرحد کی طرف دوڑا رہے تھے۔ اپنے خطاب میں پیوٹن نے کہا کہ ثبوت موجود ہیں کہ ایک ”محفوظ راستہ“ تیار کیا گیا تھا تاکہ انہیں یوکرینی علاقے میں گھسنے کا موقع مل جائے۔
یہ بھی بہت پُراسرار ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان سرحد کی دونوں فریقین سخت نگرانی کرتے ہیں۔ پھر حال ہی میں سرحد پر یوکرینی حملوں کی وجہ سے یقیناً روس نے سرحد کی حفاظت مزید سخت کر دی ہوگی۔ بہر حال سرحد پر ان حملوں میں یوکرینیوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ یوکرینیوں نے سرحد کے اپنی طرف ”محفوظ راستہ“ بنایا بھی تھا تو بھاگتے دہشت گردوں کو پہلے روسی سرحد پار کرنی تھی۔۔۔اس کام سے زیادہ آسان شائد خودکشی ہے۔
لیکن ظاہر ہے کہ اور بھی وضاحتیں دی جا سکتی ہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ سرحد پر کسی ایسی جگہ کوئی راستہ کھولا گیا ہو جہاں دفاعی چوکیاں موجود نہیں ہیں جس کے ذریعے دہشت گرد فرار ہو رہے تھے۔
پھر ایک اور وضاحت۔۔۔جو زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے۔۔۔یہ ہے کہ انہیں ایک محفوظ راستے کا وعدہ کیا گیا ہو اگرچہ اس کا کوئی وجود نہ ہو۔ کچھ بھی وثوق سے کہنا ناممکن ہے۔
پھر ایک اور تفصیل بھی دلچسپ ہے کہ ایک گرفتار دہشت گرد نے اعتراف کر لیا ہے کہ اسے رقم ادا کی گئی ہے۔ یہ پھر داعش جیسی اسلامی دہشت گرد تنظیموں کے عمومی طریقہ کار کے بالکل خلاف ہے۔
جب بھی وہ کسی کو اپنا خونی کھلواڑ کرنے کے لئے بھرتی کرتے ہیں تو وہ پیسوں کے بجائے ایک شہید کی موت کا لالچ دیتے ہیں جس کا مطلب جنت کا یکطرفہ ٹکٹ ہے۔
پیسوں کا مطالبہ کرنا یا امید رکھنا مذہبی جنونیوں کا نہیں کرائے کے قاتلوں کا طریقہ کار ہے۔ درحقیقت شام اور عراق میں داعش کی ہولناک شکستوں نے تنظیم کو شدید کمزور کر دیا ہے جو تاحال منظر عام سے غائب تھی۔
مشرق وسطیٰ بیروزگار سابق دہشت گردوں سے بھرا پڑا ہو گا جو اپنا قاتلانہ ہنر کسی بھی پیسے والی اسامی کو بیچنے کے لئے تیار ہوں گے۔
اس میں ظاہر ہے ان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے روزگار کی پیشکش بھی شامل ہے جن کا اسلام یا جنت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ان کے پاس دینے کو بے پناہ پیسہ ہے۔ اگر ان دہشت گردوں کو واقعی پیسے دیے گئے ہیں تو پھر ایک ہی دلچسپ سوال رہ جاتا ہے۔۔۔پیسے دینے والا آجر کون تھا؟
اس سوال کے جواب میں ہمیں تصویر کو اس کی کلیت میں دیکھنا پڑے گا۔
جنگ ہاری جا چکی ہے
آفدیفکا میں یوکرین کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے بعد ہر ذی شعور انسان کو سمجھ آ چکی ہے کہ یوکرین میں جنگ ختم ہو چکی ہے۔ بائیڈن نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر تازہ عسکری پیکج منظور نہیں ہوتا تو شائد چند مہینوں میں پورا یوکرین ہی منہدم ہو جائے گا۔ مغربی حکمران حلقوں میں اس وقت سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔
لیکن منطقی نتیجہ اخذ کرنے اور ماسکو کے ساتھ کوئی معاہدہ کر کے اس ہتک آمیز شکست میں سے کچھ عزت بچانے کے برعکس۔۔۔کم از کم ایک آزاد یوکرینی ریاست کی کوئی شکل ہی بچا لی جائے۔۔۔سراسیمگی کا اظہار ہر روسی چیز کے خلاف ہیجانی غصے میں ہو رہا ہے۔
حکومتیں پاگلوں کی طرح پیسہ اور ہتھیار تلاش کر رہی ہیں کہ کیف کی کمک اور اذیت دونوں جاری رہیں۔ لیکن یورپی یونین جتنا مرضی پیسہ اکٹھا کر لے وہ امریکہ کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی کو پورا نہیں کر سکتی۔
یوکرین کے لئے پیش کردہ 61 بلین ڈالر کا پیکج کئی مہینوں سے ریپبلیکنز کی وجہ سے کانگریس میں کھٹائی کا شکار ہوا پڑا ہے۔ تادم تحریر کوئی امید نہیں ہے کہ یہ صورتحال تبدیل ہو گی۔
اگر پیسہ دستیاب ہو بھی جائے تو کوئی بنیادی حقیقت تبدیل نہیں ہو گی کیونکہ مغرب اتنے گولے، راکٹ اور ایئر ڈیفنس سسٹم بنا ہی نہیں سکتا جن کی یوکرین کو ضرورت ہے اور جو موجود ہیں وہ تیزی کے ساتھ تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔
روسیوں کو اب جنگ میں مکمل بالادستی حاصل ہو چکی ہے اور ان کی جنگی صنعتیں گولہ، ٹینک اور میزائل اتنی تیزی کے ساتھ پیدا کر رہی ہیں کہ اس کا مقابلہ اب مغرب اپنے خوابوں میں بھی نہیں کر سکتا۔ یوکرین کے پاس یہ تمام سامان تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور فوری طور پر اس کا متبادل موجود نہیں ہے۔
واشنگٹن کے اشارے
اگر پیسہ اور ہتھیار دونوں دستیاب ہو بھی جائیں تو بھی ایک کلیدی مسئلہ یہ ہے کہ لڑنے والی قوتیں ناپید ہیں۔ یوکرینی نقصان ہولناک سطح تک پہنچ چکا ہے۔
روسی وزارت دفاع کے مطابق اس سال کے آغاز سے اب تک یوکرینی نقصان (قتل اور زخمی) 71 ہزار تک پہنچ چکا ہے۔
پچھلے سال اسی سہ ماہی میں ہونے والا نقصان تین گنا کم تھا حالانکہ اس وقت باخموت کی خونی جنگ بھی جاری تھی۔ یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ روسی اعدادوشمار میں مبالغہ آرائی ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ میدان جنگ میں یوکرینی نقصانات ہوشربا حد تک پہنچ چکے ہیں۔ تمام مغربی ذرائع اس حقیقت سے اتفاق کر رہے ہیں اور کوئی بھی اس پر شک نہیں کر رہا ہے۔
اس حد تک انسانوں، ہتھیاروں اور بارود کا نقصان ناقابل برداشت ہے۔ اس لئے مستقبل میں امکانات انتہائی مایوس کن ہیں۔
مغرب یوکرینی خون کے آخری قطرے تک لڑنے مرنے کو تیار ہے۔ لیکن وہ یوکرین کے دفاع میں اپنا ایک بھی فوجی مروانے کو تیار نہیں ہیں۔ میکرون نے فوری طور پر یوکرین کی مدد کے لئے نیٹو افواج بھیجنے کا ہیجانی مطالبہ کیا جس کو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر پولینڈ جیسے ملک سمیت سب نے رد کر دیا گیا۔
نہیں۔ یوکرین کو اپنی جنگ خود لڑنی ہو گی جبکہ اس کے بہادر اتحادی اپنے آرام دہ دفتروں میں بیٹھے حمایت کے دلربا الفاظ بھونکتے رہیں گے۔ حوصلہ بڑھانے کی بہادرانہ لفاظی کے باوجود امریکی یوکرین کے کیچڑ زدہ میدان جنگ میں اپنے فوجی بھیج کر مروانے میں سب سے کم دلچسپی رکھتے ہیں۔
واشنگٹن اور دیگر یورپی دارالحکومتوں سے جو بھی اشارے موصول ہو رہے ہیں وہ کیف کے لئے قطعی حوصلہ مند نہیں ہیں۔ اگر پیرس، لندن اور واشنگٹن میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے تو پھر یوکرینی دارالحکومت میں موڈ یقینا خودکشی والا ہی ہو گا۔ دیوار سے لگے انسان سے کسی بھی قسم کی حماقت متوقع ہو سکتی ہے۔
کیریلو بودانوف کون ہے؟
کیریلو اولیکسیوفیچ بودانوف یوکرینی وزارت دفاع میں مرکزی ڈائریکٹوریٹ برائے یوکرینی انٹیلی جنس کا سربراہ ہے۔
بطور انٹیلی جنس سربراہ اس کا ریکارڈ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ یوکرینی فوج کو زیادہ بلند پیمانہ روسی حکمت عملی مسلسل ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔ اس کا سب سے واضح اظہار آفدیف کا پر قبضہ تھا جس کی یوکرینیوں کو کانو ں کان خبر نہ ہوئی۔
اس وقت سے اب تک روسی تمام فرنٹ لائنوں پر سست روی سے لیکن مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں۔ روسی گولہ باری نے یوکرینی افواج کے جوانوں، ہتھیاروں اور بارود کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور وہ اب یہ قیاس کرنے سے ہی قاصر ہو چکے ہیں کہ روسی جارحیت کہاں رونما ہو گی۔ اس لئے وہ کسی ایک جگہ اپنی قوتیں مجتمع کرنے میں بانجھ ہو چکے ہیں۔
اس حقیقت سے ہی یوکرینی انٹیلی جنس کی ناکامی واضح ہو جاتی ہے۔ لیکن بودانوف میں اگر مہارت اور معلومات اکٹھی کرنے کا فقدان ہے تو وہیں اس میں کچھ خصوصیات بھی موجود ہیں۔
کھل کر بات کی جائے تو بودانوف ایک مہم جو اور سازشی ہے جو خفیہ آپریشنوں کی چالبازیوں میں جیمز بانڈ کی طرح خاص مہارت رکھتا ہے۔ اس کا بنیادی ہنر دشمن علاقوں میں دہشت گرد کاروائیاں کرنا ہے۔۔۔تخریب کاری، قتل اور دیگر ایسے معاملات۔
یوکرینی 2024ء میں ”غیر روایتی“ جنگ کو بڑھانے کی مسلسل باتیں کر رہے ہیں (یعنی دہشت گرد حملے)۔ اس کی سمجھ بھی آتی ہے کیونکہ انہیں ”روایتی“ جنگ میں شکست ہو ری ہے۔
ہیجانی اقدامات
کرسک اور بیل گرود کے علاقوں میں سرحد پار روسی زمین پر کچھ چھوٹے دیہاتوں پر قبضہ کرنے کی حالیہ کوشش انہی ہیجانی اقدامات کا تسلسل ہے۔
عسکری انٹیلی جنس سربراہ کیریلو بودانوف نے دعویٰ کیا ہے کہ ”کریملن مخالف ملیشیاء“ اس آپریشن میں شامل تھیں اور یوکرینی افواج ان کو ”ہر ممکن“ امداد فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔
درحقیقت یہ ایک بڑی یوکرینی فورس کا آپریشن تھا جسے دیوہیکل نقصانات کے ساتھ پسپا ہونا پڑا۔۔۔ایک ایسی حقیقت جس سے مغربی میڈیا آنکھیں چرا رہا ہے۔ اس آپریشن پر واضح طور پر بودانوف کی پرچھائی دیکھی جا سکتی ہے۔
لیکن یہ ایسا شخص نہیں ہے جو چند سو یا ہزار فوجیوں کی موت پر آسانی سے اپنے اہداف سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ وہ دامن جھاڑ کر دیگر ذرائع سے اپنے اہداف، یعنی روس کا عدم استحکام اور عوام کی مایوسی، اس طرح کہ وہ حکومت اور جنگ کے خلاف ہو جائیں، حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
فنانشل ٹائمز میگزین نے حال ہی میں اس پراسرار شخص کی ایک دلچسپ منظر کشی کی ہے:
”وزارت دفاع کے GRU (مرکزی انٹیلی جنس یونٹ) کے سربراہ کے طور پر بودانوف روس کے خلاف یوکرین کی خفیہ جنگ کا حکمت کار ہے اور کیف کی مزاحمت میں بہادری کا استعارہ بن چکا ہے۔ کم از کم 10 قتل کی کوششوں سے بچنے والا مستقل طور پر دارلحکومت کے مضافات میں موجود آفس میں رہتا ہے جو دیواروں پر محب وطن فن پاروں اور جنگی یادداشتوں سے مزین ہے اور اس کا پالتو مینڈک پیترو اس کے ڈیسک پر پانی کے ایک ٹینک میں تیرتا رہتا ہے۔ بودانوف کی مہارت دشمن کے علاقوں یعنی روسی قبضے میں علاقوں اور خود روسی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔ لیکن یہ خفیہ سربراہ شاذونادر ہی کسی کامیابی کا اعتراف کرتا ہے اور ماسکو اور پوری دنیا کو اپنے ڈائریکٹوریٹ کی پہنچ اور قابلیت کے حوالے سے قیاس آرائیوں میں مبتلا رکھتا ہے“۔
سرحد کے پار روسی زمین پر کچھ دیہاتوں پر قبضے کرنے کی ناکام کوشش کے علاوہ وہ حالیہ عرصے میں مختلف ڈرون حملوں میں بھی ملوث ہے جن میں سینٹ پیٹرزبرگ، ایک آئل ٹرمینل اور یوکرینی سرحد کے شمال میں بریانسک کے علاقے میں ایک بارود فیکٹری اور تیل ڈپو پر حملہ شامل ہیں۔
یہ حکمت عملی مغربی حلقوں میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق:
”اس جارحانہ حکمت عملی نے یوکرین کے اکثر مغربی حامیوں کو پریشان کیا ہے، کچھ کو خوف ہے کہ اس کے نتیجے میں روسی صدر ولادیمر پیوٹن ایک شدید، یہاں تک کہ جوہری جواب بھی دے سکتا ہے۔ جاسوسی سربراہ اس قسم کے سوچ بچار کی پرواہ نہیں کر رہا اور اس نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ روس میں اندر تک گھس کر پیوٹن کی جنگی مشین کو تخریب کاری کا نشانہ بنائے گا۔ بودانوف کا کہنا ہے کہ ’ہم مستقبل قریب میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھتے۔ ہم اب تک جو کچھ کرتے آئے ہیں، اسے مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔“
اسلامی انتہا پسند اور یوکرین
بودانوف کے ان الفاظ کی کیا وضاحت ہونی چاہیے؟
پچھلے سال یوکرین کی پارلیمنٹ نے ایک خصوصی کمیٹی بنائی تاکہ روس کے اندر چھوٹی اور خودرو قومی تحریکوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے ایک قانونی فریم ورک بنایا جائے۔ اس کا غیر متزلزل ہدف یہ ہے کہ ”یوکرین اور بین البحر اوقیانوس (Trans-Atlantic) کمیونٹی کے درمیان دیرپا امن کو یقینی بنایا جائے۔“
نام نہاد نو آبادیاتی مخالف پالیسی کا مقصد ہی یہ ہے کہ روسی فیڈریشن کے ٹکڑے کر دیے جائیں۔ اس پالیسی کا مقصد قومی رجحانات کو ترغیب دینا ہے جس میں وسطی ایشیا اور کاکیشیا کے سب سے رجعتی اسلامی انتہا پسند بھی شامل ہیں۔
جاسوسی اور رد جاسوسی کی تاریک دنیا میں بودانوف کے ہم خیال لوگوں کے ساتھ رابطے ہوں گے، یعنی کہ سب سے بڑی بولی لگانے والے خریدار کو ہمیشہ خدمات پیش کرنے والے کرائے کے قاتل اور دہشت گردوں کے ساتھ۔
سب جانتے ہیں کہ اسلامی انتہا پسند (شامی تجربہ کار، چیچن) یوکرین میں روس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ایک سابق یوکرینی قومی دفاعی اور سیکورٹی کونسل ممبر، رد دہشت گردی اور عسکری انٹیلی جنس تجربہ کار، یف دوکیموف والیری اس وقت تاجکستان میں سفیر ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ وہ مسلح افراد جنہوں نے ماسکو میں تباہی و بربادی مچائی۔۔۔ جو سب ہی تاجک معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ کو یوکرینی انٹیلی جنس نے اس راستے سے بھرتی کیا ہو؟
ابھی تک یوکرین کا اس واقعے میں کوئی براہ راست یا بالواسطہ تعلق ثابت نہیں ہوا ہے۔ لیکن کوئی مجھ سے پوچھے کہ کیا بودانوف جیسا انسان اس طرح کا ہیجانی قدم اٹھا سکتا ہے تو میرا جواب مثبت ہو گا۔
بودانوف جیسا انسان روس کو نقصان پہنچانے کے لئے کچھ بھی کرے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ تباہی مچائی جائے اور عوام میں خوف و ہراس پھیلایا جائے تاکہ یوکرین کے خلاف جنگ کی حمایت کو ختم کیا جائے۔
لیکن اگر مقصد یہی تھا تو اس کا الٹا اثر پڑا ہے۔ عوام میں اس حملے نے خوف و ہراس اور غم و غصے کی ایک ایسی لہر پیدا کر دی ہے جس نے پیوٹن کا ہاتھ مزید مضبوط کیا ہے۔
اس حملے کی درندگی، اس کا بلاتفریق کردار اور خوفناک ظلم روس اور اس کی عوام میں اس موڈ کو شدید تقویت دے گا کہ ہم سب بیرونی دشمنوں کی یلغار میں ہیں۔
جن بیوقوفوں کو یہ امید ہے کہ پیوٹن کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اندرون ملک پیوٹن کی پوزیشن کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہو گی۔
انتخابات سے پہلے اس کی مقبولیت 86 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔۔۔ایسا ہندسہ جس کی مغرب نے بھی مخالفت نہیں کی ہے لیکن بہرحال وہ انتخابات کے 87 فیصد نتائج پر اعتراضات ضرور کر رہے ہیں۔
مغربی مبصرین کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر پیوٹن اتنا مقبول کیوں ہے۔ انہیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لئے روسی صدر کو مغرب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
نیٹو کے جارحانہ اقدامات اور ہمارے نام نہاد ”آزاد میڈیا“ کے روزانہ کی بنیاد پر مسلسل خوفناک اور غلیظ روس مخالف پروپیگنڈے نے روسی عوام کو قائل کر لیا ہے کہ مغرب ہمارا دشمن ہے۔ ویسے یہ سوچ حقیقت سے کچھ اتنی دور بھی نہیں ہے۔
ایسے حالات میں یہ فطری ہے کہ عوام حکومت کی حمایت میں کم از کم وقتی طور پر ہی صحیح لیکن صف آراء ہو گی۔ پیوٹن روس میں مزید جمہوری حقوق صلب کرے گا اور ناگزیر طور پر یوکرین کو انتہائی سخت اور کربناک جواب دیا جائے گا۔
یوکرین کے خلاف میزائل داغے جانے کی ایک لہر بھی چل چکی ہے جس میں مغربی یوکرین میں ایک ایئر فیلڈ کی تباہی بھی شامل ہے جس کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کہ یہاں مغربی F-16 لڑاکا طیاروں کے آمد کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔
روس میں نئی بھرتیوں کے حوالے سے بھی خبریں گرم ہیں۔ یہ سچ ہو سکتا ہے اور نہیں بھی۔ لیکن درحقیقت اس وقت روس میں کئی رضاکار جنگ میں شمولیت کے لئے تیار ہیں جبکہ یوکرینی جوان ایک ڈوبتے مقصد کے لئے مزید جانیں دینے پر پرجوش نہیں ہیں۔
CIA کیا جانتی تھی؟
میں نے نشاندہی کی ہے کہ امریکہ داعش کو مورد الزام ٹھہرانے میں بہت سرگرم تھا اور ساتھ ہی اس کا یہ بھرپور اصرار بھی تھا کہ اس حملے کا یوکرین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے یہ خبر تمام موجود ثبوتوں کی دستیابی یا کسی قسم کی روسی تفتیش سے پہلے ہی چلا دی تھی۔ ہمیشہ کی طرح وہ پہلے ہی اپنا دماغ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
حملے سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے امریکہ نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ روس میں ممکنہ طور پر دہشت گرد حملے ہو سکتے ہیں اور اس لئے کنسرٹ یا شاپنگ سینٹر جیسے بڑے اکٹھ والی جگہوں پر جانے سے اجتناب کیا جائے۔ پیوٹن نے اس تنبیہ کو شر انگیزی اور ”بلیک میل“ قرار دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد اس سوال پر بہت بحث مباحثہ ہو رہا ہے۔ مغربی میڈیا نے روسی انٹیلی جنس پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اس خبرداری کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
لیکن روسیوں کا کہنا ہے کہ ان کی انٹیلی جنس سروسز کے ساتھ کبھی کوئی معلومات براہ راست شیئر ہی نہیں کی گئیں۔ مخصوص معلومات کے علاوہ عمومی خبرداری کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
آج تک پتا نہیں چل سکا ہے کہ اس حملے کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس کے پاس کتنی معلومات موجود تھیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ خبر آئی کہاں سے تھی۔
ایسی معلومات سے فوری طور پر پتا چل جائے گا کہ اصلی تخریب کار کون ہے۔ کیا یہ معلومات کبھی منظر عام پر آئیں گی، ایک علیحدہ سوال ہے۔
ابھی تک دو مفروضے پیش کئے گئے ہیں 1) داعش اس دہشت گردی کی ذمہ دار ہے، اور 2) اس حملے میں درحقیقت یوکرینی خفیہ سروسز ملوث ہیں۔
ان دونوں مفروضوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ مسلح افراد داعش کے ہوں گے لیکن یہ ممکن ہے کہ دیگر زیادہ خفیہ فورسز کا ہاتھ بھی موجود ہے۔
ابھی تک ہمارے سامنے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں کہ اس دہشت گردی میں کیف کا کوئی ہاتھ تھا۔ لیکن اس طرح یہ مفروضہ غلط بھی ثابت نہیں ہو جاتا۔
یوکرینی اور اسلامی انتہا پسندوں، دونوں کے پاس اس حملے میں شامل ہونے کے لئے وجوہات موجود ہیں۔ ہمیں مزید انتظار کرنا پڑے گا تاکہ اس تاریک واقعے کے ٹھوس شواہد منظر عام پر آئیں۔
مجھے شک ہے کہ ہمیں پوری کہانی کبھی نہیں پتہ چلے گی۔ بہرحال یہ حملہ جس نے بھی کیا ہے، یوکرین کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔