|تحریر: مارکسزم کے دفاع میں، ترجمہ: علی عیسیٰ|
مورخہ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد سے مشرق وسطیٰ کی منطقی صورتحال غزہ کی جنگ تک محدود نہ رہی بلکہ متواتر جنگ کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس عمل کو روکنے کی تمام کوششیں ایک ہی ابتر ڈگر پر چل رہی ہیں۔ پہلے تو امریکہ ظاہری طور پر کشیدگی میں اضافہ کے حق میں نہیں تھا۔ لیکن ہر بار نتن یاہو کچھ ایسی حرکت کرتا ہے جس کے سبب جنگ کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اس چیز سے بخوبی واقف ہے کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کی پشت پناہی کرے گا۔
ٹھیک یہی صورتحال اسرائیل کے لبنان پر حملے کے وقت بھی نظر آئی کہ جب بائیڈن نے کھل کر یہ بیان دیا کہ وہ اسرائیل کو در پیش ”سیکیورٹی کے خطرات“ سے واقف ہے۔
نصراللہ کے قتل پر ایران کی جوابی کاروائی پر اسرائیلی حکام میں جشن کے منظر دکھائی دیے تھے۔ ان کے نزدیک یہ حملہ انھیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ایران کے جوہری تحقیقاتی مراکز پر حملے کیے جائیں۔ اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن کو شکست دی جائے اور بالخصوص امریکہ کو جنگ میں کھینچا جائے، جو کہ ابتداء ہی سے نتن یاہو کا مقصد بھی رہا ہے۔
تاہم، بائیڈن نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو ایران کے جوہری مراکز یا اس کے تیل کی تنصیبات کو نشانہ ہرگز نہیں بنانا چاہیے اور ”متناسب جوابی کاروائی“ ہونی چاہیے۔ جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہر بار جوابی کاروائی کے بعد ہونے والی کاروائی مزید بڑی سطح پر ہوتی ہے۔ در حقیقت، ایران کی دوسری بار میزائل داغنے کی کاروائی اپریل میں کی گئی کاروائی سے دو گنا شدید تھی۔
امریکیوں نے اپریل میں ایران سے آنے والے میزائلوں کو ناکام بنانے میں حصہ لیا تھا اور اس مرتبہ بھی وہ شامل تھے۔ جبکہ ایرانی حملے کے ردعمل میں امریکہ نے اسرائیل کو مزید طاقتور دفاعی ساز و سامان بھیجا اور ان کو چلانے کے لیے 200 اہلکار تعینات کیے۔
یہ سب نتن یاہو کے حق میں ہے۔ وہ شاید ایران کی جوہری یا تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی بجائے عارضی طور پر فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کو بہتر سمجھتا ہے۔ بہر حال، بائیڈن کچھ زیادہ ہی قیمت ادا کر رہا ہے۔ اس وقت اسرائیل میں متعدد امریکی فوجی اہلکار موجود ہیں۔ اگر ایران مزید حملے کرتا ہے تو یہ اہلکار خطرے کی زد میں ہوں گے۔ اگلی بار جب نتن یاہو ایران کو اسرائیل پر حملہ کرنے پر مجبور کرے گا اور اگر اس میں امریکی فوجی زخمی ہوتے ہیں، تو امریکہ کے لیے ایران کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچنا انتہائی مشکل ہو گا۔
ادھر، اسٹارمر نے بھی کہا ہے کہ برطانوی (جن کا قبرص میں ایک اڈہ ہے) بھی اس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح یہ تنازعہ نیٹو کے اہم ارکان کو جنگ میں دھکیل رہا ہے جس میں خصوصاً امریکہ جبکہ برطانیہ اور فرانس بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ اور اس کے باوجود چند ایرانی میزائل اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔
ایران کے اس جوابی حملے کے بعد پھر وہی رٹی رٹائی باتیں سننے کو مل رہی ہیں کہ ایران ہی اس جارحانہ پالیسی کے لیے قصور وار ہے۔ تمام خبریں ’ایرانی جارحیت‘ کی سرخیوں پر مرکوز ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل جارحیت اسرائیل پھیلا رہا ہے۔ نتن یاہو شعوری طور پر ایران کو اس تنازعے میں شامل کرنے کے لیے جنگ کو منظم طریقے سے بڑھا رہا ہے۔ وہ دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر بمباری سے لے کر جولائی کے اختتام میں تہران کے اندر حماس کے رہنما کو قتل کرنے تک مسلسل ایران کو اکساتا رہا ہے۔
جولائی میں اسمعیل ہانیہ اور حالیہ دنوں میں نصراللہ کے قتل نے ایرانیوں کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ وہ ایسی جوابی کاروائی کا منصوبہ بنانا چاہتے تھے کہ جس سے ان کا وقار بھی برقرار رہے اور جنگ کو ہوا نہ ملے۔
جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ ایران کی جانب سے کوئی بھی جوابی ردعمل نتن یاہو کو ایک بڑی جوابی کاروائی کا بہانہ فراہم کرتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جن کا وہ انتظار کر رہا ہوتا ہے۔
آنے والے دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ایک جوابی کاروائی کی توقع کرنا بالکل درست ہے۔ حالانکہ یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اسرائیل کب ایران کو نشانہ بنائے گا۔
چنانچہ صورتحال جنگ کی طرف گامزن ہے۔ امریکی سامراج اس تنازع کو لبنان تک محدود رکھتے ہوئے ایک وسیع علاقائی جنگ سے بچنا چاہتا ہے جو کہ یقینا ایران کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔
اسرائیل کی اندرونی صورتحال
ستمبر کے ابتدائی دنوں چھ مغویوں کے قتل کے واقعہ نے یہ واضح کر دیا کہ اسرائیلی سماج تقسیم کا شکار ہے۔
اسرائیلی سماج شدید دباؤ کا شکار ہے۔ اس کا اندازہ منشیات، سکون آور ادویات اور نیند کی گولیوں کے استعمال میں بڑے پیمانے پر اضافے سے لگایا جا سکتا ہے۔ لوگ شدید تناؤ میں ہیں۔ اسرائیلی معیشت کو سنجیدہ رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
تعمیراتی صنعت اور زراعت مفلوج ہیں۔ بہت سی کمپنیاں دیوالیہ پن اور بندش کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، اب عام شہری آبادی کو میزائلوں کے حملے کے حقیقی خطرات کا سامنا بھی ہے۔ یہ حقیقت تب نمایاں ہوئی جب دوسرے ایرانی میزائل حملے میں اسرائیل کے اندر کئی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ نتن یاہو کی پالیسی کی وجہ سے اسرائیلی معاشرہ کس قدر دباؤ میں ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
تاہم، اسرائیلی سماج میں جنگ کے معاملے میں زیادہ حمایت موجود نہیں ہے۔ بلکہ، آبادی کا ایک طبقہ ایسا ہے جو واقعی مغویوں کو بچانے کے لیے جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے۔ ان کی مغویوں کے لیے تشویش حقیقی ہے۔ جبکہ نتن یاہو کی تشویش مکمل طور پر جھوٹ و مکر پر مبنی ہے۔ نتن یاہو کو غزہ میں حماس کے ہاتھوں قیدی مغویوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے وہ محض مغویوں کے مسئلے کا استعمال جنگ کو بڑھانے کے لیے کر رہا ہے۔
یہ بات ستمبر میں پانی کی طرح واضح ہو گئی، جب نتن یاہو حماس کے ساتھ مذاکرات کی طرف قدم بڑھا کر جنگ بندی کے لیے بات چیت کا آغاز کر سکتا تھا، جس میں غزہ اور مصر کی سرحد کے ساتھ واقع فلادلفی کاریڈور (Philadelphi Corridor)سے آئی ڈی ایف (اسرائیلی دفاعی افواج) کی واپسی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ لیکن اس کے بالکل برعکس نتین یاہو نے سال بھر مذاکرات کو منظم طریقے سے سبوتاژ کیا۔
اس نے ہانیہ اور نصراللہ کو اسی وقت قتل کیا جب وہ جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات چاہتے تھے۔ نصراللہ کو تو قتل اس دن کیا گیا جب اس نے جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیا تھا۔ نتن یاہو نے مصر کی سرحد پر فلادلفی کاریڈور سے فوجیوں کو واپس بلانے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ حماس کے لیے ”ریڈ لائن“ ہے۔
تاہم، آبادی کی وسیع پرتوں نے ان چال بازیوں کو بھانپ لیا ہے۔ تقریباً سات لاکھ افراد احتجاج کے لیے اسرائیل کی سڑکوں پر نکل آئے۔ جس نے ایک عام ہڑتال کے جنم دیا۔ اگرچہ یہ ہڑتال مختصر مدت اور بے دلی سے کی گئی جس میں یونین کے رہنماؤں نے اسے مکمل طور پر نافذ کرنے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ جیسے باآسانی عدالتی مداخلت سے ختم کر دیا گیا۔ اسی لمحے، تمام رائے شماریوں نے نتن یاہو کی حمایت میں حیران کن حد تک کمی کو واضح تھا، اگر اس لمحے انتخابات ہوتے تو وہ اپنی اکثریت کھو دیتا۔
یہی بات نتن یاہو کی سوچ میں جگہ کر گئی۔ ایسی صورتحال کے مزید جاری رہنے کا مطلب اس کا زوال ہے۔ بلاشبہ اس کی اپنی قسمت بھی اس ساری صورتحال میں ایک اہم عنصر کے طور پر شامل رہی ہے۔
اس بند گلی سے نکلنے کے لیے اس نے کیا راستہ اپنایا؟ اس نے وہی کیا جو اس نے گزشتہ سال بھر میں کیا؛ اس نے حزب اللہ کو اسرائیل کے وجودی خطرے کے طور پر پیش کرتے ہوئے جنگ کی شدت میں اضافہ کیا۔ رائے شماریوں کے مطابق حزب اللہ کے خلاف جنگ کو غزہ جنگ کی نسبت زیادہ حمایت حاصل تھی۔
ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ حزب اللہ اسرائیل کے لیے حماس کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ اس کے پاس جدید ہتھیار اور گائیڈڈ میزائل ہیں۔ اور جس طرح نتن یاہو نے غزہ میں مغویوں کو استعمال کیا ہے اسی طرح اب وہ اسرائیل کے شمالی سرحد سے ساٹھ ہزار اسرائیلیوں کا انخلا کر رہا ہے۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ اسے ان لوگوں کوئی فکر نہیں ہے۔ کوئی کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے لیے لبنان کے ساتھ سرحد کو زیادہ محفوظ بنا رہا ہے؟
نتن یاہو پاگل نہیں ہے
نتن یاہو کے رویوں کو دیکھ کر کچھ لوگ اسے پاگل سمجھ رہے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ وہ ایک بہت شاطر سیاستدان ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ ایک سائیکوپیتھ (psychopath)ہو لیکن سائیکوپیتھ لوگ بہت چالاک ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ وہ تمام اموات اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بالکل بے نیاز ہے اور پورے خطے کے لاکھوں لوگوں پر اسی طرح کے مصائب ڈالنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہا ہے۔
اس نے اپنے فوجی سربراہوں سے شمالی سرحد پر کہا، ”اگر حزب اللہ مکمل جنگ میں آتا ہے تو ہم بیروت اور جنوبی لبنان کو غزہ میں تبدیل کر دیں گے۔“ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ ہم ہر روز اپنے ٹی وی کی سکرینوں پر اسے دیکھ رہے ہیں۔
سائیکوپیتھ لوگ اپنے بنیادی مفادات کے تحفظ میں بھی بے حد بے رحم سمجھے جاتے ہیں۔ نتن یاہو یقینی طور پر اس خصوصیت پر پورا اترتا ہے۔ تاہم، اسرائیل کے حکمران طبقے نے اسے اس راہ پر چلنے کی اجازت دے کر ایک بڑی غلطی کی ہے۔ غزہ میں ان کی صورتحال کو دیکھیں۔ مسلسل بارہ ماہ کی بمباری کے بعد کیا وہ جیت گئے ہیں؟ ان کے پاس سپر پاور، امریکہ کی حمایت ہے، ان کے پاس طاقتور ہتھیار اور جدید ترین ٹیکنالوجی ہے، لیکن کیا وہ جیتے ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ ان کے مقاصد کیا تھے؛ مغویوں کی رہائی اور حماس کا خاتمہ۔ وہ دونوں محاذوں پر ناکام رہے ہیں اور یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے جرنیل جنگ بندی چاہتے تھے۔ انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ حماس جیت رہا ہے، اسے کسی قسم کی شکست کا سامنا نہیں ہے۔ کیونکہ حماس تمام تر نقصانات کے باوجود آگے بڑھتا رہا ہے۔
اسرائیل کے مظالم کے سبب بھڑکتی انتقام و نفرت کی آگ یقینا حماس میں مزید لڑاکا جنگجوؤں کے شامل ہونے کا باعث بنے گی اور حماس میں یہ عمل غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔ حماس کی فتح اور اسرائیل کی شکست کی یہی وجہ ہے۔
اگر یہ غزہ کے حوالے سے سچ ہے تو لبنان میں یہ ایک ہزار گنا زیادہ سچ ثابت ہو گا۔ حالیہ عرصے میں کئی سنگین نقصانات کے باوجود حزب اللہ حماس نہیں بنا۔ یہ ایک کہیں زیادہ طاقتور جنگی قوت ہے۔ جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی شرح اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
لبنان میں جاری جنگ کا تناظر
حزب اللہ، حماس سے کہیں زیادہ پیشہ وارانہ فوجی قوت کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کے پاس وہ جنگجو ہیں جو شام میں لڑائی کے دوران سخت جان بن چکے ہیں۔ ان کے پاس ایسی ٹیکنالوجی اور ہتھیار ہیں جو حماس کے پاس کبھی نہیں رہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ مضبوط فضائی دفاعی نظام سے محروم ہیں اور نہ ہی فضائی قوت کے حامل ہیں اور یقینا بطور ایک فوجی قوت وہ آئی ڈی ایف سے کہیں زیادہ کمزور ہیں۔ لیکن ان کی حکمت عملی اسرائیلیوں کو مزید جنوبی لبنان میں کھینچنے پر مبنی ہے۔ جہاں انہیں حزب اللہ کے گراؤنڈ پر لڑنا ہو گا جو جنگ کی نوعیت کو تبدیل کر کے رکھ دے گی جو کہ اسرائیلی افواج کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔
بدھ 2 اکتوبر کو آٹھ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور درجنوں زخمی ہونے کا واقعہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی فوجیوں کے لیے سب سے بڑا نقصان تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ جنوبی لبنان میں گھسنے کے آغاز پر ہی اسرائیلی فوج کو سب سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگر یہ جنگ مکمل زمینی جنگ میں بدل جاتی ہے تو اس کا منظرنامہ کیسا ہو سکتا ہے۔ اسی دن تین اسرائیلی مرکاوا (Merkava) ٹینکوں کو گائیڈڈ راکٹوں سے تباہ کیا گیا جو کہ آئی ڈی ایف کے لیے مشکلات کا واضح اشارہ ہے۔
نتن یاہو نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ لبنان پر حملہ ایک فوری اور سادہ آپریشن ہو گا۔ اس کا کہنا ہے کہ ”ہم نے بہت سے اڈے تباہ کر دیے ہیں۔“ یہ سچ ہے کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے بارے میں برسوں تک مطالعہ کیا ہے، ان کے اڈوں، ان کے طریقہئ کار، ان کے کارکنوں وغیرہ کو سمجھا ہے۔
29 ستمبر کو فنانشل ٹائمز میں بعنوان ”کیسے اسرائیلی جاسوس حزب اللہ میں داخل ہوئے“ ایک دلچسپ مضمون شائع ہوا، جس میں لکھا گیا کہ کس طرح جب حزب اللہ کو شام میں زیادہ لوگوں کو بھرتی کرنا پڑا جس کے سبب اس دوران حزب اللہ میں داخل ہونا بہت آسان ہو گیا اور حزب اللہ میں بدعنوانی کے معاملات شروع ہو گئے جس کے سبب پیجر اور واکی ٹاکی حملوں جیسی کاروائیوں کے لیے آسانی ہو گئی۔
یہ تمام عناصر اسرائیل کے پہلے ڈرامائی حملے کو ممکن بنانے میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔ جس سے انہیں حزب اللہ کے مواصلاتی نظام میں داخل ہونے کا موقع ملا یقینا وہ اس وقت سے کام کر رہے تھے۔ پیجر حملے نے حزب اللہ کے اہم کمانڈروں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا۔ جس سے تقریباً تین ہزرا افراد زخمی اور درجنوں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مزید آگے بڑھ کر حزب اللہ کے رہنما نصر اللہ سمیت کئی اعلیٰ کمانڈروں کو قتل کیا۔ بنیادی طور انہوں نے یہ پیغام دینا چاہا کہ ”تم جہاں بھی ہو، ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں۔“
تاہم، اگرچہ حزب اللہ کو ایک بڑا حملہ جھیلنا پڑا ہے۔ جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسرائیل نے اسے بحیثیت تنظیم ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک نئی قیادت ترتیب دی ہے اور اب جوابی کاروائی کر رہے ہیں۔
زمینی طور پر وہ اپنے علاقے کے دفاع کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہم پہلے ہی دیکھ سکتے ہیں کہ لڑائی یہ ایک طویل جنگ میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں بڑی تباہی اور جانی نقصان ہو گا– وہ جنوبی لبنان کو کافی نقصان پہنچا سکتے ہیں – لیکن اسرائیلیوں کو غزہ کی نسبت یقینا زیادہ نقصانات کا سامنا ہو گا۔
نتن یاہو غرور اور تکبر کے احساس میں غرق ہے۔ اس کے پاس بائیڈن کے لیے وقت نہیں ہے۔ امریکہ میں طاقت کا خلا ہے جس سے نتن یاہو بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کو اس بات کا ادراک ہے کہ زبانی جملے بازی کے برعکس اسرائیل کو درکار ہتھیار ہمیشہ فراہم کیا جائے گا۔
اسرائیل کے صیہونی حکمران اس قدر غرور میں اندھے ہو چکے ہیں کہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انھیں ایرانی حکومت کو ختم کرنے کا موقع ہاتھ آیا ہے۔ بلاشبہ انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر اقدام کر لیا ہے اور حزب اللہ اور ایرانیوں کو بری طرح سے کم تر سمجھا ہے۔
تمام ہتھیاروں اور مغربی سامراجی قوتوں کی حمایت کے باوجود اسرائیل ایک چھوٹا ملک ہے جس کی آبادی کم اور وسائل محدود ہیں۔ ان کے پاس بہت سے ہتھیار اور میزائل تو ہیں لیکن انہیں دوبارہ ان کی ضرورت رہے گی اور یہ مہنگے بھی ہیں۔ اگر انہیں مسلسل میزائل حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو ان کے ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ پر یوکرائن کو میزائل فراہم کرنے کا دباؤ ہے۔ ان کے پاس لامحدود سپلائیز نہیں ہیں۔
فنانشل ٹائمز کے مضمون ”اسرائیل کو فضائی دفاعی میزائلوں کی کمی کا سامنا“ میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے سابق امریکی دفاعی اہلکار ڈانا اسٹرول کے الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ”اسرائیل کو گولہ بارود کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ اگر ایران اسرائیلی حملے کا جواب بڑے پیمانے پر فضائی حملے کی صورت میں دیتا ہے اور حزب اللہ بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے تو اسرائیل کے فضائی دفاع کو دباؤ کا سامنا ہو گا۔“
اس لیے اسرائیل طویل جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسرائیل کے بہترین طویل المدتی مفاد میں ایک مختصر اور کامیاب فتح تھی۔ لیکن جنوبی لبنان میں، آئی ڈی ایف ایک طویل تھکا دینے والی جنگ میں پھنسنے جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ، وسیع جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات بھی ہیں۔ نتن یاہو نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں واضح کر دیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں نہ صرف لبنان بلکہ ایران سمیت کہیں بھی حملہ کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اسٹیج پر اس کی جگل بازی نے دنیا بھر میں طاقتوں کے توازن میں ایک اہم تبدیلی کے امکانات کو اجاگر کیا ہے۔ مختصراً موجودہ وقت میں امریکہ دنیا پر اس طرح حاوی نہیں رہا، جس طرح اپنے دورِ عروج میں تھا۔
نتن یاہو بخوبی واقف ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے یعنی وہ اپنے ان تمام اقدام سے واقف ہے جس کے ذریعے امریکہ کو جنگی منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ شامل کیا جا سکے۔
جب وہ امریکہ میں تھا تو اس نے ہٹ دھرمی سے نصر اللہ کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا۔ یہاں تک کہ اس سارے معاملے کو فلمانے اور اس کی خبر نشر کرنے کا بھی بندوبست کیا۔ جبکہ بائیڈن انتظامیہ کا ردعمل کیا تھا؟ یہ کہ وہ ڈھٹائی سے جنوبی لبنان میں نتن یاہو کی جنگ کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ جنگ لبنان تک محدود رہے اور حزب اللہ پر حملے کیے جائیں۔ لیکن جو وہ چاہتے ہیں اور جو حقیقت میں ہونے والا ہے، دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ تمام سنجیدہ تجزیہ نگار واضح کر رہے ہیں کہ چھوٹے حملوں سے شروع ہونے والی جنگ ایک ہی جگہ نہیں رکے گی۔
امریکی مداخلت
لیکن نتن یاہو کے حزب اللہ پر حملے ایک واضح اشتعال انگیزی ہے جس کا مقصد ایران کو جنگ میں گھسیٹنا ہے۔ جیسا کہ دیکھا گیا کہ ایران نے اپنے وقار کو بچانے کے غرض سے اقدامات کیے ہیں۔ لیکن ایران کے اندر بھی تقسیم در تقسیم موجود ہے۔
ایران کا نیا صدر پزشکیان اصلاح پسند اور زیادہ اعتدال پسند دھڑے سے ہے۔ اس نے واضح طور پر کہا کہ ”ہم جنگ نہیں چاہتے۔“ وہ ایرانی حکومت کے اس دھڑے کی نمائندگی کرتا ہے جو مغرب کے ساتھ مذاکرات کی خواہش رکھتا ہے تاکہ تمام پابندیاں ختم کی جا سکیں اور ایران کو دوبارہ باہمی تعلقات میں لا کر تجارت وغیرہ کی سہولیات میسر آئیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ایران صدر کو امریکی حکمرانوں نے کچھ یوں کہا ہو گا کہ ”آپ رک جائیں، ہم آپ کو جنگ بندی کی ضمانت دیں گے۔“ وہ اس پر بے وقوفی سے یقین کر بیٹھا اور تقریباً دو مہینے تک اسرائیل پر جوابی حملا کرنے سے گریز کرتا رہا۔
اس کی پریشانی یہ ہے کہ وہ حکومت کے صرف ایک دھڑے کی نمائندگی کرتا ہے۔ جبکہ طاقتور قدامت پسند دھڑا پزشکیان کی مغرب کے لیے سمجھوتے کی پوزیشن سے خوش نہیں ہے۔ جس نے حزب اللہ کے ساتھ حکومت کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جو کہ تلخی کے تبادلے کا باعث بنا اور حزب اللہ میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ ایران انہیں دھوکہ دے رہا ہے۔
اس نے ایران کے اندر اس کی قیمت ادا کی۔ جب کہ قدامت پسندوں نے اس پر حملہ کیا اور انہیں سوشل میڈیا پر ذلیل کیا۔ پزشکیان کا موقف نتن یاہو کے لیے موزوں تھا لیکن ایرانی حکومت کی جانب سے اس معاملے میں آگے بڑھنے کی حدیں تھیں۔ نصر اللہ کا قتل واقعی ایک حد سے بڑھ کر اقدام تھا۔ جس نے ایرانی صدر کو ایک نہایت ہی غیر آرام دہ صورت حال میں ڈال دیا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صدر ایران میں حقیقی طاقت نہیں رکھتے۔ بلکہ، ’سپریم لیڈر‘ حکومت کے اندر اعلیٰ ترین اتھارٹی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ مسلح افواج کے کمانڈر اِن چیف ہے۔ آخر کار، صدر کو سپریم لیڈر نے نظرانداز کر دیا اور اسرائیل پر میزائل حملے کے لیے ہاں کر دی۔
لیکن اس بار بھی انہوں نے حملے سے قبل اطلاع دی تھی۔ اپریل کی نسبت اس حملے کی صرف دو گھنٹے قبل اطلاع دی گئی تھی، وہ بھی براہ راست اسرائیلی حکام کو نہیں بتایا گیا۔ بلاشبہ یہ ایک سنجیدہ چتاونی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگلی بار کوئی چتاونی نہیں دی جائے گی۔
اپنی داخلی لڑائی کے باوجود ایران کو جوابی حملہ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اور اب جب انہوں نے یہ کیا ہے تو اسرائیل زیادہ شدید جوابی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ نتن یاہو امید کرتا ہے کہ وہ ایک وسیع تر جنگ کی جانب بڑھے گا۔ جس میں نہ صرف ایران بلکہ وہ حوثی بھی شامل ہوں گے جنہوں نے میزائل فائر کیے ہیں، اور جنہیں اسرائیل نے نشانہ بنایا ہے۔
ایرانی حملہ، جس کا ہدف صرف مقامی مقامات تھے، اس بات کی چتاونی بھی تھا کہ اس کے نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے فوراً ہی اعلان کیا کہ حملہ آور میزائلوں کو ”90 فیصد“ نشانہ بنایا گیا ہے جنہیں بعد میں 75 فیصد تک کم کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے میزائل کامیابی سے گزر گئے اور سنگین نقصان کا باعث بنے۔ اس حملے کا اعتراف کرنے کے لیے وہ تیار نہیں ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ اور یہ صرف ایک چھوٹا سی چتاونی ہے کہ وہ اگلی بار کس صورتحال کی توقع کر سکتے ہیں۔
اگر یہ صورتحال ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اگر ایران اپنی پوری طاقت کا استعمال کرتا ہے تو اسرائیل کی فضائی دفاع کی فوج تمام ایرانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو اس صورت حال میں بڑے پیمانے پر مداخلت کرنی پڑے گی۔ اسرائیل میں THAAD میزائلوں کے دفاعی نظام کا بھیجا جانا اس بات کی تصدیق کا ثبوت ہے۔
تاہم، یہ صرف اسرائیل نہیں ہو گا جو میزائلی حملوں کے نشانے پر ہو گا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی اڈوں کے نیٹ ورک پھیلے ہوئے ہیں، ترکی سے لے کر سعودی عرب، کویت حتی کہ شام و عراق میں بھی تقریباً 40 ہزار امریکی فوجی ہیں۔ یہ ایرانی حمایت یافتہ اسلامی ملیشیا کے حملوں کے لیے آسان نشانہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایسے واقعات حالیہ دنوں میں ہو چکے ہیں جو کہ زیادہ وسیع پیمانے پر بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے حملے مزید دباؤ کا باعث بنیں گے جس کی وجہ سے امریکہ کو اپنا ردعمل ظاہر کرنا پڑے گا۔ امریکی فوج پہلے ہی اسرائیلیوں کے ساتھ مل کر ایک متفقہ، ’تناسبی‘ حملے پر بات چیت کر رہی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی حکمران طبقہ بھی طویل عرصے سے ایران کے سوال پر دھڑے بندی کا شکار ہے۔ چند ایسے عناصر ہیں جو کھلے عام حملے کی حامی ہیں۔ یہ عناصر اقلیت میں ہونے کے باجود امریکی حکمران طبقے کا ایک اہم حصہ ہیں۔
کبھی کبھار ایسا لگتا تھا کہ وہ ایران پر حملے کی زمین ہموار کر رہے ہیں۔ پھر، اوباما کے دور میں انہوں نے اپنی پالیسی بدل دی۔ انہوں نے ایران کو اپنے ساتھ لانے کی کوشش کی، تاکہ وہ ان کے جوہری تحقیق کے پلانٹس کا معائنہ کر سکیں۔ پھر ٹرمپ نے اس منصوبے پر پانی پھیر دیا اور تمام پچھلے معاہدے توڑ دیے۔ ایرانیوں نے اپنے جوہری ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھا۔ اب، چیزیں دوبارہ امریکی حکمران طبقے میں ایران پر اسرائیلی حملے کی حمایت میں جھک سکتی ہیں۔
اسرائیل اس حوالے سے بھی پُر عزم ہے کہ وہ ایران کے تیل کی ریفائنریوں یا جوہری تحقیق کے مراکز کو نشانہ بنائے گا۔ وہ دونوں پر حملے کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ امریکہ نے نتن یاہو کو اس راستے پر نہ جانے کی تنبیہ کی ہے۔ وہ حملے کے لیے تیار ہیں لیکن ان اہداف کے لیے نہیں جو عالمی نتائج کے حامل ہوں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب یوکرینیوں نے روسی تیل کی تنصیبات پر حملے کیے تو امریکیوں نے زور دار احتجاج کیا۔ انہوں نے یوکرینیوں سے کہا کہ وہ رک جائیں، اور وہ رک گئے۔
نتن یاہو فی الحال ان اہم تنصیبات پر حملے کی تیاری کرتے نظر نہیں آ رہا۔ لیکن ہر قدم پر، ہم نے ایک ہی بات دیکھی ہے۔ امریکہ ہر تفصیل پر تشویش کے زبانی اشارے دیتا آ رہا ہیں اور پھر وہ چاہے یا نہ چاہے، نتن یاہو کی پشت پر کھڑے رہنا اس (امریکہ) کی مجبوری بن چکی ہے۔
یہ کمزوری امریکہ کے طویل مدتی زوال اور نظام کے بحران کا عکاس پیش کرتی ہے۔ ہر ایک قدم پر وہ ایک خراب معاہدے میں سے بہتری کی کسی گنجائش کا طلب گار نظر آتا ہے۔
جنگوں کے لیے تیار ہوتا میدان
اگرچہ ایرانی حکومت دھڑے بندی کا شکار ہے۔ جس کا ایک دھڑا مغرب کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ لیکن اسرائیل ایران کو اپنے وجود کے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔ لہٰذا اصلاح پسند دھڑے کی خواہشات کے برعکس ایران کے لیے روس اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا مجبوری بنتا چلا جا رہا ہے۔
یہ اس جنگ کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ یہ آہستہ آہستہ یوکرین کی جنگ کے ساتھ جڑ رہا ہے جس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ دونوں تنازعات میں ایک ہی بڑی طاقت شامل ہے اور وہ ہے امریکہ۔ جو کہ یوکرین کی جنگ کے پشت پر بھی ہے اور نتن یاہو کی بھی کھلی حمایت کر رہا ہے۔
آئیے اس بارے میں ایک لمحے کے لیے سوچتے ہیں۔ اگر امریکہ پیوٹن کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ اگر امریکہ یوکرینیوں کو ایسے میزائل استعمال کرنے کی اجازت دینے کی دھمکی دیتا ہے جو روس کے اندر جا سکتے ہیں جس پر تاحال مغرب میں سرد مہری دکھائی دے رہی ہے، تو پیوٹن کے پاس جوابی حملے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک مہرہ مشرق وسطیٰ ہے، جہاں ایران کے ذریعے حملہ کیا جا سکتا ہے۔ ایران اور روس کے مفادات مختلف ہونے کے باجود مغرب کی جانب سے انھیں ایک عملی اتحاد میں دھکیلا جا رہا ہے۔
مثلاً گزشتہ سال ہی روس اور ایران نے مشترکہ طور پر آذربائیجان میں نئی ریلوے کی تعمیر پر اتفاق کیا جس سے پیوٹن کو خلیج تک جانے کے لیے ایک متبادل تجارتی راستہ قائم کرنے کی اجازت ملے گی۔ جو پرانی راہوں کی جگہ لے گا جو مغربی پابندیوں کی وجہ سے بند ہو گئی تھیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ایرانی حملوں کی کامیابی اور درستی، (جو اسرائیلی فوجی مقامات پر کیے گئے) میں روسی انٹیلیجنس اور سیٹلائٹس کی مدد شامل رہی ہو گی۔
اور روس صرف ایران کے ساتھ ہی تعلقات قائم نہیں کر رہا ہے۔ بلکہ روس اور حوثیوں کے درمیان حوثیوں کو مزید جدید میزائل کی فراہمی کے معاملات طے قرار پائے ہیں۔ یہ معاہدہ فی الوقت سعودی عرب کے دباؤ میں معطل کر دیا گیا ہے۔ تاہم، اگر امریکہ یوکرین کے ذریعے روس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو پیوٹن کے پاس جواب دینے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ سوچے گا کہ، ”تم مجھے میرے علاقے میں تنگ کر رہے ہو، میں تمہارے علاقے میں زیادہ تباہی پھیلاؤں گا۔“ مشرق وسطیٰ میں وہ ایسا ہی کرے گا۔
چین بھی پشت ہر بیٹھا ہوا ہے۔ جس کی مثال چین کا ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔
نتن یاہو کی بیوقوفی نے پورے خطے کو ایک علاقائی جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے جس میں امریکہ کواسرائیل کے دفاع میں شامل ہونا پڑے گا، اس کے لیے ضروری نہیں کہ امریکہ اپنے فوجی دستے بھیجے، البتہ وہ جنگی جہاز سمیت دیگر فوجی قوتیں اندر بھیجے گا۔ برطانیہ بھی قبرص میں اپنے فوجی اڈے کا استعمال کرتے ہوئے شرکت کرے گا، جسے اس وقت امریکہ بھی استعمال کر رہا ہے۔
ہم عالمی سطح ہر پر نئی اور واضح صف بندی رونما ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، جو یوکرین سے مشرق وسطیٰ تک پھیلا ہوئی ہے، جہاں ایک طرف امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی اور دوسری طرف روس ایران اور ان کی پشت میں چین واضح طور نظر آ رہے ہیں۔
بارود کی ڈھیر پر کھڑی عرب ریاستیں
مشرق وسطیٰ کے حالات عالمی معیشت پر براہ راست اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ جس روز ایران نے جوابی حملے کے تیاری کے متعلق اعلان کیا عین اسی دن تیل کی قیمتوں میں چند گھنٹوں کے اندر تقریباً چار یا پانچ ڈالر کے اضافے سمیت اسٹاک مارکیٹ کو گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اسرائیل نے ایران کے تیل کی تنصیبات پر حملے کا اعلان کیا تب تیل کی قیمت دوبارہ نیچے آ گئی۔ مختصراً، یہ کہ مشرق وسطیٰ میں وسیع جنگ کے امکان کے حوالے تیل کی منڈیاں کس قدر حساس ہیں، اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مگر ایک اسٹاک ایسا تھا جو نہیں گرا، بلکہ اس میں اضافہ ہوا۔ وہ دفاعی اسٹاک ہے۔ جس دن تمام دیگر اسٹاک گر رہے تھے لیکن یہ بڑھ رہا تھا۔ اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ داروں کی منافعے کی ہوس کا اندازہ اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ، ”جنگ شروع ہونے والی ہے۔ یہ اچھے اسٹاک ہیں، لہٰذا اس میں سرمایہ کاری کریں۔“
ایسی صورت حال میں جہاں عالمی معیشت یا تو سست روی کا شکار ہے یا آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے (کچھ ممالک اس وقت کساد بازاری کے دہانے پہ کھڑے ہیں)، مشرق وسطیٰ میں اچانک تبدیلی عالمی معیشت کے مزید سکڑنے کا باعث بن سکتی ہے۔
عدن میں حوثیوں کے حملوں کے باعث سوئز نہر کے ذریعے آمد و رفت پہلے ہی متاثر ہو چکی ہے۔ جس سے شپنگ کی قیمت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ جس نے عالمی معیشت بالخصوص یورپ پر باقاعدہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایشیا سے افریقہ کے گرد سامان کی شپنگ دوبارہ ترتیب دینا، چین سے یورپ تک کنٹینر بھیجنے کی قیمت کو تین گنا کر دیتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں علاقائی جنگ اس صورت حال کو مزید خراب کر سکتی ہے۔
اگر جنگ شروع ہو گئی تو غالباً ہارموز کے آبنائے (Strait of Hormuz) اور دیگر تجارتی راستوں کے بند ہونے صد فیصد امکانات موجود ہیں۔ یہ عالمی معیشت کے لیے مہلک ثابت ہو گا۔ اگر اسرائیل آئندہ کسی وقت ایرانی تیل کی تنصیبات پر حملہ کرتا ہے (ممکنہ طور پر امریکی انتخابات کے بعد) اور ردعمل میں ایران پڑوسی ممالک میں تیل کی تنصیبات پر حملہ کرتا ہے جیسا کہ اس نے دھمکی دی ہے، تو اس کے تیل کی قیمتوں پر براہ راست اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ایسے واقعات روس کو مضبوط کریں گے۔ کیونکہ پیوٹن تیل کی برآمدات سے زیادہ پیسہ کمانے لگے گا۔
یہ 1973ء کی یوم کیپور جنگ (Yom Kippur War) اور اس کے بعد سعودی عرب کے قیادت میں تیل پر پابندیوں کی یاد دلاتا ہے۔ عالمی معیشت کساد بازاری کی طرف بڑھ رہی تھی جسے 1974ء میں ایک سست روی میں دھکیلا گیا، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد کا پہلا سنگین معاشی بحران تھا۔
دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں شدید سماجی اور معاشی اثرات کی صورت میں اس کا اظہار ہو رہا ہے۔ اس خطے کے لوگ واقعی سرمایہ داری کے عالمی بحران کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
مثلاً مصر، جو سامراجی طاقتوں کے آگے ہمیشہ سجدہ ریز رہا ہے۔ مصر نے اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اچھے تعلقات قائم رکھے، غزہ کی سرحد پر اسرائیل کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کیا۔ جس کے نتیجے میں مصر کو رواں سال کے آغاز میں 8 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کی گئی۔
تمام قرضوں کی طرح اس قرض کی شرائط میں بھی بنیادی اشیاء کی سبسڈی میں زبردست کٹوتی جیسی سخت شرائط شامل ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں بے تہاشا اضافہ ہوا ہے، اس وقت محنت کش عوام کے لیے بجلی کے بل، گھر کرائے کے برابر تک پہنچ گئے ہیں۔ ریاستی سبسڈی میں کٹوتی کے سبب موسم گرما میں روٹی کی قیمتوں چار گنا اضافہ کیا گیا۔ مصر مسلسل غربت کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔
اردن کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ جہاں آئی ایم ایف کی جانب سے اسی طرح کی پالیسیاں نافذ کی گئی ہیں۔ جہاں 20 فیصد سے زائد بے روزگاری ہے۔ جس کی وجہ سے اردن خطے میں سب سے غیر مستحکم حکومتوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ ملک میں ایک بڑی فلسطینی آبادی بھی موجود ہے۔ جبکہ، حکومت واضح طور پر سامراج طاقتوں کی دلالی میں مصروف ہے۔
اپریل میں ایران نے جب اسرائیل پر جوابی حملہ کیا تو اردن نے یہ میزائل گرانے میں حصہ لیتے ہوئے یہ جواز فراہم کیا کہ وہ اردن کی فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے۔ یہ بات اردن کے محنت کش عوام کی آنکھوں سے اوجھل نہیں بلکہ وہ اس چیز کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ ان کا حکمران طبقہ کھلم کھلا صہیونیوں اور امریکیوں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے جن پر حکومت نے باضابطہ ریاستی جبر کا سہارا لیتے ہوئے سختی سے احتجاجوں کو کچلا۔
جب دنیا بھر کے سفارتکار امن امن کا وِرد کرتے ہیں تو اردن کے حکمران صف اول میں نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں اس بات کا خوف ہے کہ صدیوں سے ستم سہنے والے محنت کش عوام کسی عوامی تحریک کے ذریعے انھیں ملیا میٹ نہ کر دیں۔
عرب ریاستیں اس بحران کا صبر سے سامنا کرنا چاہتی ہیں کیونکہ یہی ان کی بقاء کا تعین کر سکتا ہے۔ نیتن یاہو کی وجہ سے پورا خطہ عدم استحکام کی زد میں ہے۔ جس کے باعث حکومتوں کے گرنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
وسیع انقلابی تبدیلی
موجودہ جنگ کے اثرات مشرق وسطیٰ سے بہت آگے جائیں گے۔ یہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں مزدوروں اور نوجوانوں کو مزید انقلابی نتائج اخذ کرنے کا کارن بنے گی۔ وہ تمام نوجوان جو کیمپوں، مظاہروں اور احتجاجوں میں شریک ہیں، اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ اتنے سارے اقدامات کے باوجود جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ کے ساتھ جو کیا، وہ اب لبنان میں بھی ہو رہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لبنان کی آبادی تقریباً چھ ملین ہے۔ یہ اعداد و شمار درست نہیں ہیں، کیونکہ وہاں شام سمیت کئی ممالک کے پناہ گزین موجود ہیں۔ جن میں تقریباً ایک ملین تو بے گھر کر دیے گئے ہیں۔ دو ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ صرف آغاز میں ہوا ہے۔ یہ سب کچھ وسیع تر سماجی پرتوں کے شعور پر اثرات مرتب کرے گا۔ اور جس طرح امریکہ اس میں حصہ لیتا جائے گا اتنا ہی یہ امریکی نوجوانوں اور مزدور طبقے کی لڑاکا پرتوں پر اثر ڈالے گا۔
یہ پہلے ہی امریکی صدارتی انتخابی مہم پر اثر انداز ہو چکا ہے۔ کچھ تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹرمپ کے لیے انتخابات میں ایک تحفہ ہے۔ ہم بالکل پیش گوئی نہیں کر سکتے کہ انتخابات کیسے ہوں گے، کیونکہ لگتا ہے کہ ہیرس اور ٹرمپ اس وقت برابر ہیں۔ لیکن جیسے امریکہ اس میں بڑھ چڑھ کر شامل ہو گا ویسے ویسے یہ امریکی نوجوان اور محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں میں بغاوت کو جنم دے گا۔ اور بلاشبہ یہ ویت نام جنگ میں امریکی عوام کی مزاحمت کی یاد کو تازہ کرے گا۔
برطانیہ میں اسٹارمر اپنی تقریر میں اسرائیل کی واضح حمایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ برطانیہ نے ایرانی میزائلوں کو گرانے میں حصہ لیا ہے۔ یہ حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ لیبر حکومت نہ صرف اسرائیل کی لفظی حمایت کر رہی ہے بلکہ آئی اے ایف کے ذریعے اسرائیلی فوج کی مدد کرتے ہوئے نیتن یاہو کی جنگ میں فعال طور پر بھی مدد کر رہی ہے۔
بطور کمیونسٹ اس لڑائی میں ہم شر پسندوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہمارا بڑا دشمن یہاں، ہمارے ہی گھر میں ہے۔ وہی لوگ جو غزہ اور لبنان میں جاری بربریت کی حمایت کر رہے ہیں۔ جو برطانیہ میں پنشنرز پر حملہ کر رہے ہیں۔ بزرگوں کے لیے ایندھن کی سبسڈی میں کٹوتی کر رہے ہیں۔
یہ قاتل جو بزرگ لوگوں کو سردی میں مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ میں ہزاروں لوگوں کے قتل و غارت گری، جلانے اور بھوک سے مرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ جو بربریت ہم روزانہ دیکھ رہے ہیں وہ ناقابل برداشت ہے۔
بچوں کے سر اور گردنوں میں گولیاں مارنا، ہسپتال کے بستر پر زندہ جلتے ہوئے مریض، دھماکوں سے جھلستے گاؤں، لاکھوں در بدر بے گھر مجبور لوگ اور پھر انہی نہتے عوام میں یہ اعلان کرنا کہ ”ہتھیار ڈال دو یا بھوک سے مر جاؤ۔“
اب سامراجیت خوف و ہراس پھیلانے کے سوا کچھ دینے سے قاصر ہے۔ پورے خطے کو تباہی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا اور مزید دھکیلنے کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔
آج یہ پہلے سے زیادہ واضح اور صاف ہے کہ سرمایہ داری اور سامراجیت کی موت میں ہی انسانیت کی بقاء ہے۔