|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
9نومبر 2016ء کو ’’آزاد دنیا‘‘ کے باسی صبح کو جب اٹھے تو انہیں پتا چلا کہ ان کا نیا لیڈر منتخب ہو چکا ہے۔ ڈونلڈ جے۔ ٹرمپ کو امریکہ کا 45واں صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔ اس خبر کے جھٹکے تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئے کیونکہ یہ خبر انتخابات کے حوالے سے پر اعتماد نتائج کے بالکل الٹ خبر تھی۔
To read this article in English, click here
اسٹیبلشمنٹ اور اس کی سیاسی پارٹیاں اپنی جڑوں تک ہل گئیں۔ ہیلری کلنٹن، امریکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر امیدوار، نے کہا تھا کہ اگر ٹرمپ انتخابات میں کامیاب ہو جاتا ہے تو، ’’میں اس ملک کو پہچان نہیں پاؤں گی۔ ‘‘ لیکن ہیلری کلنٹن اور اس کے طبقے کو امریکہ میں اور دنیا کے تمام دوسرے ممالک میں موجود حقیقی صورتحال کا کبھی ادراک ہی نہیں تھا۔ ٹرمپ کے منتخب ہونے کو ہر جگہ پر سیاسی زلزلہ کہا جا رہا ہے۔ یہ تمثیل بھی صحیح ہے۔ سماج کی سطح سے نیچے ابلتا ہو غم و غصہ، بے چینی، نفرت اور تذبذب ہے۔ جس طرح زمین کی سطح کے نیچے ناقابل تصور قوتیں موجود ہیں جو باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہی ہیں، اسی طرح سے سماجی قوتیں بھی اپنے اظہار کی تلاش میں ہیں جو انہیں مروجہ سیاسی پارٹیوں اور قیادت میں مل نہیں رہا۔ یہ مظہر صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہم نے اس کا اظہار یورپی یونین پر برطانوی ریفرنڈم میں دیکھا۔ لیکن یہ انتخابات بریگزٹ سے ہزار گنا زیادہ اہم تھے۔ ہم اس وقت دنیا کی تاریخ میں ایک اہم تبدیلی کے گواہان ہیں۔ دی اکانومسٹ جریدے نے ان نتائج کا موازنہ برلن دیوار کے انہدام سے کیا اور تبصرہ کیا کہ ’’تاریخ واپس آ چکی ہے۔۔ شدید انتقام کے ساتھ۔ ‘‘
حکمران طبقے کا رویہ
حکمران طبقے کی نگاہ میں ٹرمپ ایک خطرہ ہے، صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ آزاد منش اور ناقابل کنٹرول ہے بلکہ اس کی زیادہ بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی محنت کش طبقے میں سیاسی ہیجان انگیزی اور واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اشتعال انگیزی نے خوفناک خوش فہمیوں کو جنم دیا ہے اور کروڑوں لوگوں میں بدستور قائم صورتحال کی مخالفت میں تحرک پیدا کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ نے ہر ممکن طریقے سے وائٹ ہاؤس تک اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے تمام تر طریقے آزما ڈالے اور اس کے باوجود ناکام رہے۔ اب آہستہ آہستہ حکمران طبقے کے طرم خان حقائق قبول کر رہے ہیں۔ یہ عدم مساوات کے خلاف احتجاج تھا جو ناقابل یقین حدوں کو چھو رہا ہے؛ بے روزگاری اور روزگار کے عدم تحفظ کے خلاف؛ ایک کرپٹ سپر اشرافیہ کے خلاف جو واشنگٹن کو خاندانی کاروبار کی طرح چلاتے رہے؛ طاقتور سیاسی شاہی گھرانوں بش اور کلنٹن کے خلاف جو سیاسی طاقت ایسے بانٹتے تھے جیسے کوئی جائیداد بانٹتا ہے اور سیاسی طاقت کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے تھے۔ سب سے بڑھ کر، یہ عام لوگوں کا احتجاج تھا جنہیں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ نہ کوئی ان کی بات سننے کو تیار ہے اور نہ ہی کوئی ان کے حالات سے متعلق پریشان۔ اسی مسئلے کی نشاندہی فنانشل ٹائمز جریدے، جو کہ برطانوی حکمران طبقے کا سب سے مستند نمائندہ ہے، نے ایک آرٹیکل ’’ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت واشنگٹن کو دھماکے سے اڑا دینے کا مینڈیٹ ہے‘‘ میں کی؛’’ٹرمپ کی جیت کے دور رس اثرات کا ادراک ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ ملک میں تمام رائے عامہ کے ادارے امریکی عوام کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ ایک ایسے آدمی کو منتخب کر کے جو امریکی آئینی تکلفات سے بے بہرہ ہے، امریکہ نے ایک خود کش بمبار کے مترادف سیاسی منتخب کو واشنگٹن بھیج دیا ہے۔ ٹرمپ کا مینڈیٹ نظام کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ اس کی ’’بریگزٹ سے دس گنا‘‘ کی پیشین گوئی کم درست تھی۔ برطانیہ نے اپنے آپ کو کاٹ کر حالات کے کرم پر چھوڑ دیا ہے لیکن اس کی وجوہات زیادہ تر مقامی تنگ نظری پر مبنی ہیں۔ دوسری طرف امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی عالمی ترتیب کا بانی بھی ہے اور اس کا محافظ بھی۔ ٹرمپ کی ساری کیمپین کا لب لباب ہی یہ تھا کہ وہ اس نظم و نسق کو ترک کر دے گا۔ وہ اپنے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے ایجنڈے کو کس طرح عمل میں لاتا ہے اس وقت ایک ثانوی حیثیت کا سوال ہے۔ امریکی عوام نے واضح طور پر ایک اشارہ دیا ہے۔ باقی دنیا اس کے مطابق اپنے عمل کا اظہار کرے گی۔ ‘‘
بین الاقوامی رد عمل
ڈونلڈ جے ٹرمپ باقی دنیا میں کوئی خاص دلچسپی رکھنے والا شخص نہیں لگتا ہے۔ لیکن باقی دنیا اس میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ ٹرمپ کے انتخاب نے مایوسی اور اضطراب کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں خوف و ہراس بھی پھیلا دیا ہے۔ عام طور پر امریکی صدارتی انتخابات میں جیتنے والے کو فوراً ساری دنیا کی سیاسی قیادت کی طرف سے مبارکباد کے پیغامات آتے ہیں۔ لیکن ان انتخابات میں صرف موت کا سکوت تھا جسے میرین لی پین نے ٹرمپ کو سرکاری طور پر نتائج کا اعلان ہونے سے تین گھنٹے پہلے مبارک باد دیتے ہوئے توڑا اور پھر کچھ دیر بعد ولادیمر پیوٹن نے مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔
جرمنی میں تمام اخباروں کی سرخیاں مایوسی اور بربادی کا اظہار کر رہی تھیں۔ ایک اخبار نے قیامت خیز انداز میں لکھا:’’ مغرب اپنے ہاتھوں تباہی راہ پر گامزن!‘‘ جرمن وزارت خارجہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ ان انتخابات کا وہ نتیجہ ہر گز نہیں نکلا جس کی جرمن حکومت یا عوام توقع کر رہے تھے۔ افسوس یہ ہے کہ بہرحال، یہ جرمن عوام نہیں بلکہ امریکی عوام ہے جو کہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اوول آفس میں کون بیٹھے گا۔ اینجیلا مرکل کو مجبوراً مبارک باد کی تقریر کرنا پڑی جس کا سرد اور رسمی لہجہ واضح تھا۔ اس کے بالکل برعکس، ماسکو میں انتہائی خوشی کا رد عمل تھا۔ ڈوما(روسی پارلیمنٹ) میں موجود ممبران نے پرجوش تالیاں بجا کر فیصلے کا خیر مقدم کیا اور ولادیمر پیوٹن نے کسی تاخیر کے بغیر ذاتی طور پر ٹرمپ کو مبارک باد دی۔ اس کی وجہ کوئی ایسا بھی راز نہیں ہے۔ عمومی طور پر، خارجہ پالیسی ٹرمپ کی اہم ترجیحات میں شامل نہیں ہو گی۔ اس میں صرف ایک چیز کی ٹرمپ نے واضح ترین وضاحت کی ہے اور وہ یہ کہ وہ روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے۔ پیوٹن نے خواہش کا اظہار کیا کہ وائٹ ہاؤس کا نیا باسی امریکی روسی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں اقوام کے باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے گا، یعنی دونوں ممالک کے بینکاروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ۔ اب ٹرمپ کی روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے، یہ ایک الگ بحث ہے کیونکہ ’’دونوں اقوام‘‘ کے مفادات یکسر مختلف ہیں۔ بہرحال، اس میں کوئی شک نہیں کہ کریملن میں موجود شخص اگلے کئی مہینے واشنگٹن میں متوقع سیاسی انتشار اور تذبذب کا بھرپور فائدہ اٹھا کر عالمی سطح پر اپنے کردار کو زیادہ وسیع کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا جس کی شروعات شام میں بھرپور جارحیت سے ہو گی۔ اوبامہ اس بارے میں بڑبڑاتا تو ہے لیکن کچھ نہیں کرتا۔ ٹرمپ نے اس سلسلے میں ابھی تک کچھ کہنے کی زحمت بھی نہیں کی۔
امریکہ، روس اور شام
ٹرمپ نے شام میں داعش کے خلاف لڑائی کو بڑھانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور روس کے درمیان زیادہ بہتر ہم آہنگی کیونکہ روس اب اس ملک میں زیادہ بااثر ہو چکا ہے۔ وہ لوگ، جن میں کچھ ’’بائیں بازو‘‘ کے لوگ بھی شامل ہیں، جوواویلا مچاتے رہتے ہیں کہ ’’کچھ نہ کچھ کرنا چاہیئے، ‘‘ ہوائی جہازوں کیلئے ممنوع علاقوں کی ’’فلاحی مقاصد‘‘ کیلئے حمایت کر رہے ہیں۔ لیکن یہ زمین پر سنجیدہ عسکری تدبیر کے بغیر ممکن نہیں اور صرف امریکہ ہی ہے جو یہ کام کر سکتا ہے۔ یہ مطالبہ کرنا کہ سامراجی شام میں مداخلت کر کے وہاں کی عوام کے مسائل حل کریں نہ صرف بیوقوفی ہے بلکہ شدید جرم ہے۔ کیا یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ تباہی کی وجہ عراق میں امریکہ اور اتحادیوں کی مجرمانہ مداخلت ہے؟ کیا وہ یہ بھول چکے ہیں کہ افغانستان اور لیبیا میں سامراجی مداخلت کی وجہ سے کیا تباہ کاریاں ہوئیں؟اور کیا ان کو نہیں پتہ کہ یہی سامراجی جنہیں یہ ’’حلب کو بچاؤ‘‘ کا کہہ رہے ہیں اپنے سعودی حلیفوں کے ساتھ سرگرمی سے اشتراک کر رہے ہیں جو یمن میں سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کر رہے ہیں، لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور جان بوجھ کر فاقوں سے موت کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں؟
لیکن اس بیوقوفی کو ایک طرف رکھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شام میں امریکہ کے پاس بہت کم آپشن موجود ہیں۔ صرف دو ہی راستے ہیں۔ پہلایہ کہ بھرپور عسکری مداخلت کی جائے جس میں شام میں فوجیں اتاری جائیں تاکہ صورتحال کو ہر ممکن حد تک تبدیل کیا جا سکے۔ یہ آپشن سیاسی اور عسکری اعتبار سے ناقابل عمل ہے۔ عراق اور افغانستان کا سبق یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کسی جنگ میں شامل ہونا آسان ہے لیکن اس میں سے باہر نکلنا ناممکن ہے۔ اور عراق اور افغانستان میں ہزیمت اٹھانے کے بعد امریکی عوام بیرون ملک نئی مہم جوئیوں کے شدید خلاف ہو چکی ہے۔ دوسری آپشن یہ ہے کہ روس سے ڈیل کر لی جائے۔ حقیقت میں اس آپشن پر اوبامہ حکومت پہلے سے ہچکچاہٹ کے ساتھ عمل درآمد کر رہی ہے۔ ٹرمپ کھلے عام وہی بات کر رہا ہے جو سنجیدہ لوگ نجی محفلوں میں کر رہے ہیں۔ شام میں اب فیصلے روس کر رہا ہے۔ اس لئے اس بات کے بڑے غالب امکانات ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ پیوٹن کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل کرنے کی کوشش کرے گا۔ کریملن میں موجود شخص ایک ایسا معاہدہ پیش کرے گا جس کے نتیجے میں اس کے پاس یوکرائن کا کنٹرول رہے اور ساتھ یہ ضمانت بھی ہو کہ NATO پرانے سوویت یونین کی ریپبلکوں پر نہ تو اثر انداز ہو گا اور نہ ہی پرانے سوویت یونین کے زیر اثر علاقوں، بشمول شام میں مداخلت ہو گی۔ اس کے بدلے میں امریکہ کو اپنے حلقہ اثر، بشمول لاطینی امریکہ میں کھلی چھوٹ حاصل ہو گی۔ اس کے کیوبا اور وینزویلا کیلئے سنجیدہ اور دور رس اثرات ہوں گے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے واشنگٹن کی توجہ مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید پر مرکوز رہی ہے۔ لیکن امریکہ اب دوبارہ لاطینی امریکہ پر توجہ دے گا۔ اگر وہ اپنی کیمپین میں کئے وعدے پر عمل کرتا ہے تو ٹرمپ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ریپبلکن اکثریت کو استعمال کرتے ہوئے اوبامہ حکومت میں کیوبا کے ساتھ بہتر کئے ہوئے تعلقات کو برباد کر نے کی کوشش کرے گا۔
وینزویلا میں صورتحال بہت پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے جہاں رد انقلابی حزب اختلاف معاشی بحران، شدید افراط زر، اشیائے خورد و نوش کی قلت اور شدید عدم تحفظ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جارحیت پر اتر رہی ہے۔ ابھی تک وہ حکومت الٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن ایسا لگتا ہے کہ معاملات انتہا کو پہنچ رہے ہیں۔ جتنا عرصہ بولیویرین قیادت شش و پنج میں رہتے ہوئے اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کرے گی، صورتحال اتنی ہی زیادہ گھمبیر ہوتی چلی جائے گی۔ ٹرمپ صدارت کی کرسی پر اس وقت بیٹھے گا جب وینزویلا میں حالات پھٹنے کی طرف جا رہے ہوں گے۔ وینزویلا کی حکومت کی طرف سے لئے گئے ہنگامی اقدامات قومی دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے کافی نہیں ہوں گے، غالباً اگلے بارہ مہینوں میں۔ دیوالیہ کی لٹکتی تلوار حزب اختلاف کو وسیع احتجاجوں کو شروع کرنے کیلئے مواقع فراہم کرے گی جس کی وجہ سے خون خرابہ ہو سکتا ہے۔
پوری صورتحال زوال کی جانب گامزن ہے جو متحارب قوتوں کے درمیان براہ راست ٹکراؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ ٹرمپ کی کامیابی بے شک ردِ انقلابی قوتوں کے حوصلے بڑھائے گی جو اپنے جارحانہ عزائم کے لیے واشنگٹن سے زیادہ حمایت کی توقع کریں گے۔
جہاں بھی دیکھیں واشنگٹن کو ایک طوفانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں مختلف سطحوں پر سماجی دھماکے پنپ رہے ہیں۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش تو یہی ہو گی کہ امریکہ کے دروازے بند کر دیے جائیں اور داخلی معاملات پر توجہ دی جائے لیکن جو شعلے امریکہ کی سرحدوں سے پرے بھڑک چکے ہیں وہ اس کی توجہ کے طلبگار ہوں گے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو یہ شعلے گھرکے دروازے کو جلا سکتے ہیں بلکہ پورے گھر کو بھی خاکستر کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ اور نیٹو
ٹرمپ کی کامیابی سے پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں یہ ممالک روس کی عالمی سطح پر ابھار سے خوفزدہ ہیں۔ ٹرمپ نے پہلے ہی نیٹو کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ یورپ، جنوبی کوریا اور جاپان اپنے دفاع کا بِل ادا کریں۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ اسلحہ پر اخراجات میں اضافہ کریں جس کے باعث انہیں عوام کے معیار زندگی میں مزید کٹوتیاں کرنی پڑیں گی۔ یہ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی پالیسی کا مطلب ہے، نقد رقم میں۔
فطری طور پر اس کا جواب امریکہ کے ’’اتحادیوں‘‘ کی جانب سے احتجاج کی شکل میں آیا۔ یورپی خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ امریکہ کی تنہائی کی جانب پسپائی کے نتیجے میں نیٹو کمزور ہو گا اور مشرقی یورپ کی فرنٹ لائن ریاستیں روس کا شکار بن سکتی ہیں جبکہ روس کے ایسے عزائم دکھائی نہیں دیتے کہ وہ پولینڈ، ایسٹونیا وغیرہ پر زبردستی قبضہ کرے۔ پیوٹن چاہتا ہے کہ وہ اپنے پچھواڑے کو کنٹرول کرنے کے لیے اکیلا ہو۔
یورپی یوکرائن میں روس کے کردار پر تلملا رہے ہیں لیکن یہ نظر انداز کر رہے ہیں کہ یہاں خون خرابے کا آغاز میں ابھارنے والے وہی تھے۔ ماسکوامریکیوں اور یورپیوں سے معاہدہ کرنے کی کوشش کرے گاتا کہ اس علاقے کا کنٹرول وہ رکھ سکے۔ ٹرمپ یہ کہہ چکا ہے کہ وہ روس کے کریمیا پر قبضے کو ختم نہیں کروانا چاہتا۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جسے ختم بھی نہیں کروایا جا سکتا اور امریکی یہ جانتے ہیں۔ یورپ ایک کمزور پوزیشن میں ہے۔ اس کے لیڈر ایک یورپی فوج کے قیام کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن اس کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر ملک کے قومی مفادات پہلے آئیں گے اور ایک مشترکہ کمانڈ بنانا ناممکن ہو گا۔ بریگزٹ مذاکرات کا آغاز اور جرمنی اور فرانس میں انتخابات سے یورپ مزید کمزور ہو گا۔ اس لیے کسی ایسے متحدہ مغربی اتحاد کا سوال پیدا نہیں ہوتا جوماسکو پر کسی چیز کے لیے دباؤ ڈال سکے۔
نتیجتاًاس کے امکانات زیادہ ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ روس پر پابندیوں کا خاتمہ کرے گی یا کم از کم دباؤ میں کمی کرے گی تا کہ کریملن کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچا جا سکے۔ ٹرمپ سابقہ سوویت علاقوں میں نیٹو کے پھیلاؤ کو محدود کرے گا۔ اور یوکرینیوں کو بھی اس جملے کی سچائی معلوم ہو گی کہ، ’’قوموں کے کوئی دوست نہیں ہوتے، صرف مفادات ہوتے ہیں‘‘۔ واشنگٹن کے مغربی اتحادی اسے پسند نہیں کریں گے لیکن انہیں اس کو سختی سے نگلنا ہی ہو گااور قبول کرنا ہو گا۔
برطانیہ کے ’’خصوصی تعلقات‘‘
برطانیہ کی کنزرویٹو وزیر اعظم تھریسا مے نے اظہار کیا کہ برطانیہ کہ امریکہ سے ’’خصوصی تعلقات‘‘ قائم رہیں گے اور پہلی فرصت میں اس کی ایک تجارتی معاہدے سے توثیق کر دی جائے گی۔ برطانیہ جلد ہی یورپ کی مشترکہ منڈی سے باہر ہو جائے گا اس لیے امریکہ سے ایک موٹا تازہ تجارتی معاہدہ اس کی دلی خواہش ہے۔ لیکن تجارتی معاملات میں دل کی بجائے دماغ زیادہ کارآمد عضو ہوتا ہے۔ ایسے ابہام جلد ہی مٹی میں مل گئے۔ اس خصوصی تعلق کی حقیقت اسی وقت عیاں ہو گئی جب منتخب صدر ٹرمپ نے نو دیگر ممالک کے سربراہان کو فون کرنے کے بعد برطانوی وزیر اعظم کو فون کیا۔ ان نو ممالک میں آسٹریلیا اور آئرلینڈ کے سربراہان بھی شامل تھے۔ یہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ کو سوچا سمجھا جواب تھا۔ لیکن اس سے بھی برا ہونے والا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران جب برطانوی وزیر خارجہ نیو یارک میں تھا تو اس نے ریپبلکن امیدوار کیخلاف بڑھک بازی کی تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ یہ کبھی بھی نہیں جیت سکتا۔ آج کل بورس جانسن امریکہ کے نئے منتخب صدر کے لیے تعریف و توصیف اور احترام کا اظہار کرتا پھر رہا ہے۔ وہ ٹرمپ انتظامیہ سے بڑے مواقع کی امیدیں لگا رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ لوگ ماضی کو بھول جائیں۔ خا ص طور پر یہ کہ ٹرمپ بورس جانسن کے ان بیانات کو بھول جائے۔ لیکن ٹرمپ ایسا شخص نہیں کہ ان باتوں کو بھول جائے۔ اس لیے برطانوی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی امیدوں سے جلد ہوا نکل جائے گی۔ دوسرا وہ اس امر کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسی ’’سب سے پہلے امریکہ ‘‘ کی ہے اور وہ ’’امریکہ کو عظیم‘‘ بنانا چاہتا ہے۔ ایسا وہ باقی دنیا کی قیمت پر کرے گا اور اس لیے برطانیہ کے ساتھ کسی قسم کے خصوصی تعلقات یا مہربانی وغیرہ کی گنجائش موجود نہیں۔
ان زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ٹرمپ نے برطانیہ کی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی UKIPکے سربراہ نائجل فراج سے بھی ملاقات کی۔ جو برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر بھی نہیں اور کسی بھی طرح حکومت کا نمائندہ نہیں۔ فراج اور ٹرمپ کی ایک سونے سے بنی ہوئی لفٹ میں تصاویر منظر عام پر آئیں جس میں وہ ایک ایسا گماشتہ اور بد قماش لگ رہا تھا جسے اچانک پاپائے روم کی طرف سے نجی ملاقات کا بلاوا آگیا ہو۔ اس ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آسکیں لیکن فراج باہر نکل کر یوں چل رہا تھا جیسے ہوا میں اڑ رہا ہو۔ اس ملاقات کے بعد فراج نے برطانوی وزیر اعظم کو پیغام دیا کہ وائٹ ہاؤس تک پیغام رسانی کے لیے اس کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں اور وہ رابطے کا کام سر انجام دے سکتا ہے۔ اس کی دعوت کے بعد وزیر اعظم کی جانب سے پہلے تو مکمل خاموشی نظر آئی پھر اس کو سختی سے رد کر دیا گیا۔ وزیر اعظم اور اس کے مشیر اپنی تذلیل کے باعث پیدا ہونے والی حقارت کو چھپا نہیں سکے۔ وہ یقین بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ان کی تذلیل کے لیے سب سے پہلے ٹرمپ جس شخص سے ملاقات کرے گا وہ یہ چھوٹا سامسخرہ ہو گا۔ ٹوری پارٹی کے قائدین کی انانیت کے لیے یہ حقیقت ہضم کرنا مشکل ہے کہ اب بحرالکاہل کے اس پار انہیں ایک عظیم برطانوی سلطنت کے طورنہیں بلکہ چھوٹا انگلینڈ کے طو ر پر دیکھا جاتا ہے۔
ٹرمپ کے معاشی اثرات
منڈیوں نے، جوکسی کا انتظار نہیں کرتیں، اس دھچکے پر فوری رد عمل کا اظہار کیا۔ فوری طور پر ایشیااور یورپ کی سٹاک ایکسچینجوں میں بڑی گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ اسٹاک ایکسچینجوں سے بڑے پیمانے پر رقم نکل کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے لگی جیسے سونا، جاپانی ین اورسوئس فرانک جن کی قیمت میں تیز اضافہ ہوا۔ درحقیقت ٹرمپ کی پالیسی بالکل بھی نئی نہیں۔ یہ متذبذب اور متضاد خیالات کا مرغوبہ ہے۔ اس میں کینیشین خسارے کی فنانسنگ کو مانیٹرسٹ پالیسی کی ٹیکس میں کٹوتیوں کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے یہ معاشیاتی جہالت ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت میں بڑے پیمانے کی سرکاری سطح پر سرمایہ کاری اور مالیاتی تحرک وقتی طور پر معیشت کو ابھار سکتا ہے۔ لیکن یہ اپنے ساتھ خطرات اور مسائل بھی لے کر آتا ہے۔ انفرااسٹرکچر پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ساتھ ٹیکسوں میں کمی کے باعث بڑے پیمانے پر خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کچھ اندازوں کے مطابق 2026ء تک قرضوں اور جی ڈی پی کا تناسب 25فیصد تک ہو جائے گا۔ درحقیقت یہ ایک نئے معاشی بحران کا نسخہ ہے۔ دی اکانومسٹ کا فیصلہ واضح ہے:’’ ابتدائی فائدوں کے بعد، آخر کارپاپولسٹ پالیسیاں اپنے تضادات کے بوجھ تلے منہدم ہو جاتی ہیں‘‘۔
ٹرمپ کی تحفظاتی پالیسیوں کی وکالت سے پورے سرمایہ دارانہ عالمی معاشی نظام کا تانا بانا خطرے میں ہے۔ ہر جگہ سیاست دان اور معیشت دان اسے خوف سے دیکھ رہے ہیں اور درست طور پر تنبیہہ کر رہے ہیں کہ اگر اس پر عملدرآمد ہوا تو صرف معاشی سست روی نہیں ہو گی بلکہ عالمی سطح پر ایک گہرے زوال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روزگار کا تحفظ تو دور کی بات اس سے 1930ء کے بعد کی سب سے بڑی بیروزگاری دیکھنے میں آئے گی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے عالمی معاشی نمو کی موٹر عالمی تجارت کا پھیلاؤ رہا ہے۔ 1930ء کا عظیم زوال تحفظاتی پالیسیوں کا نتیجہ تھا جس میں مقابلے میں کرنسیوں کی قدر میں کمی کی گئی۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے۔
ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ وہ NAFTAکو ختم کر دے گااور یورپ اور امریکہ کے مابین تجارتی معاہدے TTIPکو پھاڑ ڈالے گا۔ یہ پہلے ہی خطرات سے دوچار تھا اور اب ٹرمپ کے آنے کے بعداس کی موت یقینی ہے۔ ٹرمپ کی کامیابی سے TPPکی موت کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت جاپان کے جی ڈی پی میں 2030ء تک 2.7فیصد اضافے کے امکانات تھے۔ جاپانی معیشت ایشیا اور عالمی معیشت کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی میکسیکو کی کرنسی بھی بڑے پیمانے پر گر گئی۔ اگر ٹرمپ NAFTAسے باہر نکلنے کا اعلان کرتا ہے تو میکسیکو کی برآمدات کو دھچکا لگے گا جس کے سماجی اور سیاسی اثرات بڑے دھماکوں کی صورت میں مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ کی برازیل پر بھی نظر ہے۔ برازیل کے لیے امریکہ دوسرا بڑا برآمدی ملک ہے۔ لیکن ٹرمپ کے خیال میں اس ملک میں بھی تجارتی معاہدے ’’دوبارہ سے دیکھنے‘‘ کی ضرورت ہے۔
ٹرمپ نے چین پر امریکہ کا ’’بلادکار‘‘ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکہ کے تجارتی خسارے کا نصف دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین سے ہے۔ ٹرمپ چینی درآمدات پر بڑے ٹیکس لگانے کا خواہشمند ہے جیسے چین کے لوہے پر 45فیصدٹیکس۔ ان اقدامات سے چین کی برآمدات شدید متاثر ہوں گی خاص طور پر الیکٹرانکس کے شعبے میں۔ اس کے نتیجے میں چین بھی بدلہ لینے کے لیے ایسے ہی اقدامات کرے گاجس کے باعث چین سے ایک تجارتی جنگ چھڑ جائے گی۔ اس سے بھی 1930ء والے عظیم بحران والی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ یورپ چین سے بھی زیادہ ان تحفظاتی پالیسیوں کے خطرات سے دوچار ہے۔ یورو خطے کی 14فیصد برآمدات امریکہ جاتی ہیں۔ گوکہ یہ چین کی 18فیصد سے کم ہے لیکن یورو زون کاحالیہ عرصے میں برآمدات میں 40فیصد اضافہ امریکہ میں ہی ہوا ہے۔ اس لیے یورپ چین سے زیادہ خطر ے میں ہے۔ یورپ میں آٹھ سالہ معاشی بحران کے بعد حالات انتہائی دگر گوں ہیں۔ سنگل کرنسی کی حالت مخدوش ہے۔ کٹوتیوں کی پالیسیوں اور عوام کے معیار زندگی میں کمی کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ اوباما نے حال ہی میں یونان کا دورہ کر کے ’’یکجہتی‘‘ کا اظہار کیا۔ کچھ لوگوں کی تجویز ہے کہ وہ یونان کے قرضے ادا کرے۔ لیکن ٹرمپ کی موجودگی کے بعد ایسا ہونا ممکن نہیں۔
جون میں برطانیہ میں بریگزٹ ووٹ سے اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کا اظہار واضح طور پر نظر آیا۔ اسی طرح کے جذبات فرانس، جرمنی، اٹلی اور دیگر ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ چار دسمبرکو ہونے والے اطالوی ریفرنڈم میں ٹرمپ کی کامیابی کے اثرات نظر آئیں گے جہاں وزیر اعظم رینزی کو بغاوت کا سامنا ہے۔ شکست کے نتیجے میں رینزی کو ہوسکتا ہے گھر جانا پڑے اور فائیو سٹار موومنٹ کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔ یہ تحریک یورو سے علیحدگی کی وکالت کر رہی ہے۔ اس کے یورپی یونین کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ جیسا کہ نظر آتا ہے کہ یورپی یونین کی ممبر شپ پر ریفرنڈم کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس سے یورو اور یورپی یونین کا مستقبل خطرات میں نظر آتا ہے۔
کیا ٹرمپ سے فاشزم کا خطرہ ہے؟
ٹرمپ کی کامیابی سے دائیں بازو کی پارٹیوں اور مہاجرین کی مخالفت رکھنے والے سیاست دانوں کو تقویت ملے گی۔ جس کے پیش نظر بائیں بازو کے بہت سے حصے ’’فاشزم کے خطرے‘‘کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ مارکسزم ایک سائنس ہے اور ہر سائنس کی طرح یہاں بھی ہر فینامینا کے لیے مخصوص اصطلاح موجود ہے۔ فاشزم ایک مخصوص قسم کی رجعت ہے۔ کلاسیکی معنوں میں یہ پیٹی بورژوا اور لمپن پرولتاریہ کی ایک وسیع تحریک ہے جو مزدور تحریک کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا عزم رکھتی ہو۔ اور اپنی عوامی بنیادوں کے باعث ایسا کرنے کے قابل ہو۔ ہٹلر نے نہ صرف مزدوروں کی پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں کو ختم کیا بلکہ مزدوروں کے شطرنج کے کلب بھی بند کروا دیے۔ نازیوں کے زیر تحت بورژوا جمہوریت کی جگہ مطلق العنان آمریت نے لے لی۔ مزدور تحریک کو کچل دیا گیا اور مزدور تحریک کے حصے بخرے ہو گئے۔ ہر محلے میں مخبروں اور جاسوسوں کی فوج کے ذریعے وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ درست ہے کہ ٹرمپ ایک باؤلا رجعتی اور ایک متعصب نسل پرست اور مزدور تحریک کا دشمن ہے۔ لیکن وہ ہٹلر یا مسولینی نہیں۔ وہ ایک دائیں بازو کا فتنہ پرور ہے۔ لیکن اس کی بنیادبورژوا جمہوریت پر ہے۔ وہ نظام کو اکھاڑنا نہیں چاہتابلکہ اپنے آپ کو، اپنے خاندان اور کاروبار کو بڑھانا چاہتا ہے۔ یہ جلد ہی عمل میں نظر آئے گا۔ ہمیں تناسب کا احساس رکھنا چاہیے۔ جو لوگ مسلسل ’’فاشزم ‘‘کا شور مچا رہے ہیں وہ انتہائی منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ لوگوں کو کنفیوز کرتے ہوئے غلط راہ پر چلا رہے ہیں۔ کیونکہ جب حقیقی رجعتیت کا خطرہ ہو گا تو اس کا خاطر خواہ جواب نہیں دے پائیں گے۔ یہ شیر آیا شیر آیاوالی کہانی کی طرح ہے۔
ٹرمپ اور دیگر تمام رجعتیوں کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جو حقیقی قوت ان سے مقابلہ کر سکتی ہے وہ محنت کش طبقہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدور یونینوں اور محنت کشوں کی پارٹیوں کی جانب سے اس رجعت کیخلاف متحد ہو کر ایک منظم لڑائی لڑی جائے۔ لیکن ’’تمام ترقی پسندوں‘‘ کو یکجا کرتے ہوئے ’’جمہوریت کے دفاع‘‘ کی لڑائی لڑنا جس میں بورژوا پارٹیوں اور سیاست دانوں کا بھی دفاع کیا جائے غلط ہو گا۔ یہ شکست کا نسخہ ہے۔ امریکی انتخابات اس کا واضح اظہار ہیں۔
اب کیا؟
’’امریکہ نے پارٹی کی تبدیلی سے زیادہ طرز حکومت کی تبدیلی کے لیے ووٹ دیا ہے‘‘۔ ( دی اکانومسٹ)اس نتیجے کا حقیقی معنی یہ ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے سنٹر کی سیاست ختم ہو رہی ہے۔ امریکہ کی سیاست دائیں اور بائیں قطبین پر پہنچ چکی ہے۔ حکمران طبقے اور اس کے نظریہ دانوں کے لیے یہی خطرے کی گھنٹی ہے۔ ٹرمپ ایک ارب پتی اور رئیل اسٹیٹ کا کنگ ہے اور اس نظام کے لیے خطرہ نہیں۔ لیکن جن قوتوں کو اس نے کھول دیا ہے وہ اس نظام کے لیے خطرہ ہیں۔ کئی نسلوں سے امریکی سیاست دو ستونوں پر کھڑی تھی۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹ۔ جہاں تک بھی یاد جاتی ہے طاقت انہی دونوں قوتوں کے مابین منتقل ہوتی رہی۔ لیکن اب یہ اپ سیٹ ہو چکا ہے۔ اہم یہ ہے کہ پہلی دفعہ سیاستدانوں کو احساس ہوا کہ امریکہ میں محنت کش طبقہ بھی موجود ہے۔ کئی لوگ یہ کہتے تھے کہ امریکی سماج میں محنت کش طبقہ موجود ہی نہیں۔ اس لیے وہ صرف ’’مڈل کلاس‘‘ کی بات کرتے تھے۔ لیکن شمال کی ’’زنگ آلود‘‘ ریاستوں کے کروڑوں محرومی کا شکار ووٹروں نے ان کی توجہ اس طبقے کی جانب مبذول کروائی جو سب کچھ پیدا کرتی ہے لیکن ملکیت کسی چیز کی بھی نہیں رکھتی۔ ایک سیاسی مبصر نے کہا کہ’’وہاں بہت خطرہ ہے۔ ‘‘
ایک ماہر فریبی کی طرح اس نے بغاوت کے اس موڈ کے ساتھ رابطہ بنایا خاص طور پر مایوسی کے حامل صنعتی علاقوں مشی گن، وسکانسن اور اوہائیو میں۔ انہیں بتایا کہ میں تمہارا نمائندہ ہوں اور تمہاری ’’وکالت‘‘ کر رہا ہوں۔ در حقیقت ٹرمپ اپنے آپ کی ہی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن عدم اطمینان کا شکار محنت کشوں سے اپیل کر کے اس نے امریکی حکمران طبقے کے لیے خطرہ مول لے لیا ہے۔ اسے یہ غلطی مہنگی پڑے گی۔ موجودہ عہدسرمایہ داری کے گہرے بحران کا عہد ہے جس میں عوامی رائے عامہ دائیں اور بائیں جانب تیز ہچکولے کھا رہی ہے۔ عوام بحران سے باہر نکلنے کا رستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ پہلے ایک سمت پھر دوسری سمت دیکھتے ہیں۔ آٹھ سال قبل اوباما نے ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگا کر اس سے استفادہ حاصل کیا۔ اس کا بہت زبردست رسپانس ملا۔ لیکن اوباما نے تبدیلی کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
اسی وجہ سے ایک بڑا ردعمل اور دائیں جانب شفٹ نظر آیا لیکن اس میں بہت سے متضاد عناصر ہیں۔ انتخابات سے قبل اپنی آخری تقریر میں ٹرمپ نے امریکہ کے محنت کش طبقے سے اپیل کی تاکہ ان کی آواز سنی جا سکے۔ اس نے ’’بھولے جا چکے‘‘ امریکیوں سے اپیل کی۔ کروڑوں بیروزگار، بے چین اور بے گھر افراد سے زنگ کی پٹی میں رہنے والوں سے اور دیگر محروم علاقوں سے جنہیں سرمایہ داری نے برباد کر دیا ہے۔ ٹرمپ کو جلد پتہ چلے گا کہ بڑی کامیابی کے ساتھ بڑی ذمہ داریاں بھی آتی ہیں۔ اس کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اب اسے ان وعدوں کو پورا کرنا ہے۔ اس کے پاس ناکامی کا کوئی بہانہ بھی نہیں۔ کانگریس میں ری پبلکن کی اکثریت ہونے کے باعث وہ ڈیموکریٹوں پر یہ الزام نہیں لگا سکتا۔ اس پر دباؤ ہو گا کہ وہ وعدوں کی جلد از جلد تکمیل کرے۔
ٹرمپ کو جس مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا وہ یہ ہے کہ حکمران طبقے کے پاس بہت سے ایسے طریقے ہیں جن سے سیاستدانوں اور صدور کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ان کے پاس ایسی بہت سی لگامیں ہیں جن سے وہ یقینی طور پر ٹرمپ کو کنٹرول سے باہر نہیں جانے دیں گے۔ کاغذوں میں اس کے ہاتھوں میں بہت سی طاقت ہے۔ ری پبلکن صرف وائٹ ہاؤس کو ہی کنٹرول نہیں کرتے بلکہ ایوان نمائندگان اور سینٹ کابھی کنٹرول رکھتے ہیں۔ وہ آٹھ سال قبل اوباما کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور حیثیت میں ہیں۔
اوباما نے واضح کیا ہے کہ ٹرمپ کو جلد ہی اندازہ ہو جائیگا کہ انتخابی وعدوں اور اقتدار کی حقیقتوں میں کتنا فرق ہے۔ امریکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہی خواہش ہے۔ یہ امید پوری ہوتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ پہلے اشارے یہی مل رہے ہیں کہ ٹرمپ اپنے انتخابی وعدوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ آخر میں ٹرمپ ایک مزیدا دائیں بازو کا صدر ہو گاجو بڑے کاروباروں کے مفادات کا دفاع کرے گا۔ پہلے ہی سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ انتخابی مہم والے ٹرمپ کی نسبت صدر ٹرمپ ایک مختلف قسم کا جانور ہو گا۔ اس کے نتیجے میں مایوسی، بے چینی اور عدم اطمینان میں اضافہ ہو گا۔ دی اکانومسٹ کہتا ہے کہ ٹرمپ ناکام ہو گااور جو نتائج اس نے نکالے ہیں وہ اہم ہیں۔ ’’اس عوامی غصے کا خطرہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی ناکامی سے اس بے چینی میں اضافہ ہو گا جس کے باعث وہ جیتا ہے۔ اگر ایسا ہوا، تواس کی ناکامی سے ایسی راہ ہموار ہو گی جو نظام کو توڑنے کی جانب اس سے بھی زیادہ جھکاؤ رکھتی ہو۔ ‘‘
اس عمل میں وقت لگے گا۔ نئی انتظامیہ میں امریکی سماج کے بڑے حصے کی مبالغہ آمیز امیدیں کچھ دیر تک رہ سکتی ہیں۔ کسی شاعر نے کہا تھا کہ ’’ امید کا چشمہ انسان کے سینے میں ہمیشہ بہتا رہتا ہے‘‘۔ واقعات ان امیدوں کو بتدریج توڑیں گے اور ایک طاقتور رد عمل سامنے آئے گا۔ سیاست میں میکانکیت کی طرح ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ سہی لیکن یقینی طور پر پہیہ گھومے گا۔ اس سے مستقبل میں بائیں جانب اس سے بھی بڑے رجحان کی راہ ہموار ہو گی۔ جن لوگوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ان میں سے بہت سے لوگ برنی سینڈرز کے ’’ارب پتی طبقے کیخلاف سیاسی انقلاب‘‘ کے نعرے سے متاثر ہوئے تھے۔ وہ اسے ووٹ دینے کے لیے تیار تھے لیکن ہیلری کلنٹن کو نہیں۔ لیکن ڈیموکریٹ پارٹی میں سازشوں اور دھاندلیوں کے ذریعے اسے نکالا گیا۔ سینڈرز کی جانب سے ہیلری کی حمایت نے انہیں مایوس کیا اور انہوں نے یا تو ووٹ ہی نہیں دیا یا پھر گرین پارٹی اور ٹرمپ کو ووٹ دے دیا۔ ٹرمپ اس لئے کامیاب ہوا کیونکہ وہ ری پبلکن پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ڈٹا رہا۔ اگر برنی سینڈرز بھی ڈیموکریٹ پارٹی کے خلاف ڈٹ جاتا تو آج مضبوط پوزیشن میں ہوتا۔ لیکن اس کے معنی تھے کہ اسے اس پارٹی سے باہر آنا پڑتا۔ اور یہی آگے بڑھنے کا واحد رستہ ہے۔
ہم عالمی سطح پر بڑے پیمانے کی تبدیلیوں، انتشار اور بے یقینی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ امریکی انتخابات اس حقیقت کی صرف علامت ہیں۔ پرانا اسٹیٹس کوٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ عوام سیاسی زندگی میں بیدار ہو رہے ہیں۔ ابتدائی مراحل میں کنفیوژن ناگزیر ہے۔ عوام انقلابی کتابوں سے نہیں سیکھتے۔ وہ صرف تجربات سے سیکھتے ہیں اور یہ ایک تکلیف دہ تجربہ ہو گا۔ لیکن وہ سیکھیں گے ضرور۔ امریکی عوام اپنے پیر تلاش کر رہے ہیں۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کی نئی پرتیں تازہ دم ہیں اور اصلاح پسند یا سٹالنسٹ قیادت سے مجروح نہیں ہیں۔ وہ انقلابی خیالات سننے کے لیے بیتاب ہیں۔ سینڈرز کی کیمپین نے اسے بلاشک و شبہ ثابت کیا۔ یہ عمل کچھ وقت لے گا۔ بہت سے اتار چڑھاؤ آئیں گے۔ بہت بڑی جدوجہد کے بعد شکستیں، مایوسی اور رجعت بھی آئے گی۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ روس میں 1917ء میں فروری انقلاب کے بعد جولائی کی شکست اور کورنیلوف کی رجعت بھی آئی تھی۔ لیکن اس نے ایک نئے ابھار کی بنیاد رکھی جس کے باعث اکتوبر انقلاب فتح یاب ہوا۔ جلدیا بدیر یہ تحریک سماجی تبدیلی کی حقیقی تحریک کی سمت میں اپنا اظہار کرے گی۔ یعنی سوشلسٹ انقلاب کی جانب۔ بڑے واقعات کے لیے حالات تیار ہو رہے ہیں۔ ایسے عہد میں زندہ رہنا اور لڑناکتنی خوشی دیتا ہے!
18نومبر 2016ء