|تحریر: رابرٹو سارتی؛ ترجمہ: ولید خان|
لیبیا خانہ جنگی میں ڈوبا ہوا ہے۔ جنرل ہفتار نے اقوام متحدہ کی منظور نظر قومی مفاہمتی حکومت (GNA) اور اس کے سربراہ صدر فیاض ال سیراج کا تختہ الٹنے کے لئے خونریز جنگ شروع کر رکھی ہے۔ حملے کا آغاز اسی دن کیا گیا جب 14 اپریل کو قومی مفاہمتی کانفرنس منعقد کروانے کے لئے اقوام متحدہ کا جنرل سیکرٹری انٹونیو گوٹیریز طرابلس کے دورے پر لیبیا پہنچا۔ اس کا یہ دورہ اسی طرح بیکار گیا جس طرح سے اقوام متحدہ 2011ء سے لیبیا میں بیکار ہے۔
درحقیقت اقوام متحدہ کا کردار محض یہ رہ گیا تھا کہ جنگ کے نتیجے میں بننے والے حالات کی توسیع کرتے رہیں۔ دسمبر 2015ء میں طرابلس میں ال غاویل کی قیادت میں جنرل نیشنل کانگریس (GNC) جس کی حمایت ترکی اور قطر کر رہے ہیں اور برقہ کے مشرقی علاقے کے شہر طبرق میں خلیفہ ہفتار (جسے برقہ کا ”مردِآہن“ بھی کہا جاتا ہے) کی قیادت میں لیبیائی ایوانِ نمائندگان (جس کی حمایت مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور درپردہ فرانس کر رہے ہیں) کے درمیان ایک کمزور معاہدے کے تحت خانہ جنگی وقتی طور پر روک دی گئی۔ یہ معاہدہ ہمیشہ ایک کمزور ڈھکوسلہ ہی رہا جس کی کوئی بنیادیں نہیں تھیں۔ درحقیقت، طبرق میں ایوانِ نمائندگان نے سراج کو کبھی صدر تسلیم ہی نہیں کیا۔
جنگی سردار اور مغربی سامراج
”عالمی کمیونٹی“ سراج کو حقیقی صدر تسلیم کرتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایک جمہوری حکومت کا نمائندہ ہے کیونکہ اس کا کسی نے چناؤ کیا ہی نہیں۔ سراج ملک میں موجود مختلف نبرد آزما ملیشیاؤں کا مفاہمتی امیدوار تھا اور اپنے آغاز سے ہی وہ طرابلس میں ان کا ٹاؤٹ ہے۔ جو جنگی سردار اس ”جمہوریت کے علمبردار“ کی حمایت کرتے ہیں ان میں ہر رنگ نسل کے رجعتی اور بنیاد پرست قائدین موجود ہیں جن میں مِسراتا ملیشیا کے سلفی بھی موجود ہیں۔ لیکن شام کی طرح یہاں بھی مغربی جمہوریت نے اس وقت تک کے لئے چپ سادھ لی ہے جب تک یہ بہادر ”حریت پسند“ ان کے مفادات کے محافظ ہیں۔
اٹلی سراج کے اہم ترین حامیوں میں سے ہے۔ لیبیا سابق اطالوی کالونی ہے اور حال ہی میں یورپ (اور اٹلی)کی جانب پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی اہم گزرگاہ بن چکا ہے۔ یورپی یونین نے لیبیا کو 338 ملین یورو دیے ہیں تاکہ پناہ گزینوں کے سیلاب کو روکا جا سکے۔ اٹلی نے لیبیا کو 10 پٹرولنگ کشتیاں فراہم کی ہیں اور ایک معاہدے کے تحت درحقیقت سارا سیٹ اپ اطالوی حکومت کے ہی کنٹرول میں ہے۔
سراج اور اٹلی کے درمیان معاہدہ ڈیموکریٹک پارٹی کی کوششوں کا نتیجہ تھی جسے بعد میں موجودہ حکومت کے وزیرِ داخلہ سالوینی نے اور تقویت پہنچائی۔ اٹلی نے لیبیا یا کم از کم طرابلس کو ایک دیو ہیکل حراستی کیمپ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ملک میں کم از کم 7 لاکھ پناہ گزین موجود ہیں۔ روزانہ تشدد اور قتل کی وارداتیں ہو رہی ہیں لیکن جب تک یہ آنکھوں سے اوجھل ہیں اس وقت تک ذرائع ابلاغ میں کوئی خاص شور شرابا موجود نہیں ہے۔
لیکن سارے مسئلے میں معاشی مفادات کا بھی کلیدی عمل دخل ہے۔ لیبیا کے تیل کے ذخائر کا شمار افریقہ میں سب سے بڑے اور دنیا کے دس بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ اینی (اٹلی کی سب سے بڑی اور دنیا کی گیارہویں سب سے بڑی تیل اور گیس کمپنی) لیبیائی کمپنی NOC کے ساتھ مل کر لیبیائی پیداوار کا 70 فیصد پیدا کر رہی ہیں۔ اینی کی پوری پیداوار کا 15 فیصد لیبیا سے آ رہا ہے۔ فرانسیسی آئل کمپنی ٹوٹل نے پچھلے تین سالوں میں اپنی پیداوار دگنی کر لی ہے۔ اس کے زیادہ تر آپریشن برقہ میں موجود ہیں۔
سامراج قصوروار ہے
لیبیا میں اس وقت ہو کیا رہا ہے اس کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ بعض ذرائع ابلاغ کی پر فریب تشریح، کہ خانہ جنگی صرف بنیاد پرست یا انتہا پسند بدوؤں کا نتیجہ ہے، غلط ہے۔ درحقیقت، خانہ جنگی مختلف سامراجیوں کی علاقائی اور عالمی سطح پر لڑائیوں کا ایک عکس ہے جو اس وقت ملک میں ایک پراکسی جنگ میں ملوث ہیں۔ اس خانہ جنگی میں سامراجیوں کی پوری کوشش ہے کہ مختلف دھڑوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچایا جائے۔ لیکن اکثر ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ کٹھ پتلیاں اپنے پتلی بازوں کے خلاف ہی بغاوت کر دیتی ہیں۔
سراج اس وقت ”عالمی کمیونٹی“ کی حمایت پر ہی حکومت بنا کر بیٹھا ہے۔ لیکن قطر، ترکی اور اٹلی کے علاوہ اس کا سب سے کلیدی معاون امریکہ تھا جس نے 2016ء میں داعش پر شدید بمباری کر کے طرابلس حکومت کی معاونت کی۔ لیکن اس وقت سے اب تک شمالی افریقہ میں امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ سابق اطالوی وزیرِ اعظم جینتی لونی اور ٹرمپ کی ایک ملاقات کے دوران ٹرمپ نے دو ٹوک کہا کہ ”میں لیبیا میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں دیکھتا۔“
عراق میں امریکی خارجہ پالیسی کی شرمناک ناکامی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کا خیال ہے کہ دوبارہ ایک غلطی کو دہرانے سے اجتناب کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ پالیسی کی تبدیلی میں ہی نکلنا تھا۔ اب ہفتار کو ملک میں ”استحکام کے لئے ضروری عنصر“ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے(وال سٹریٹ جرنل)۔ ہفتار کے حملے سے محض چند دن پہلے امریکی کی افریقی کمان (AFRICOM)کے کمانڈر تھامس والڈ ہاؤسر کی ہفتار سے ملاقات ہوئی۔ پچھلے دو سالوں میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔
چند ہفتے پہلے مصری شہر شرم الشیخ میں یورپی یونین اور عرب ریاستوں کی لیگ کے درمیان ہونے والے سربراہی اجلاس میں مصری صدر السیسی (ہفتار کا کلیدی حامی) کو بحیرہ روم اور لیبیا کے جنوب کا ”محافظ“ مقرر کیا گیا تاکہ یورپ کو پناہ گزینوں کے ریلے سے محفوظ رکھا جا سکے۔
27 فروری کو ہفتار کی محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ”سعودی حکومت کے کچھ اعلیٰ مشیروں نے بتایا کہ سعودی عرب نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس آپریشن کے لئے کئی ملین ڈالر دے گا۔“(12 اپریل 2019ء)
حالات سازگار تھے۔ ہفتار نے ملک کے جنوب سے اپنے حملے کا آغاز کیا اور لیبیائی نیشنل آرمی (LNA) نے ال شرارہ اور ال فیل کے آئل فیلڈز پر قبضہ کر لیا جن کی مجموعی پیداوار 4 لاکھ بیرل یومیہ ہے۔اس وقت لیبیا کی تیل پیداوار کا بڑا حصہ طبرق حکومت کے قبضے میں ہے۔ اگلا منطقی قدم طرابلس پر حملہ تھا۔
مغربی ذرائع ابلاغ بلبلا اٹھے۔”یہ جمہوریت پر حملہ ہے!“،”لیبیا پر ایک آمر قبضہ کر رہا ہے!“۔ لیکن اس دوران کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ طرابلس حکومت کی معاون امریکی افواج خاموشی سے 7 اپریل کو ”عارضی طور پر“ ملک سے باہر منتقل ہو گئیں، بالکل انہی دنوں میں جب جنگ شدت اختیار کر گئی۔
اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل جنگ بندی کے لئے کوئی قرار داد پاس نہ کر سکی کیونکہ امریکہ اور روس اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ روس فی الحال ہفتار کو برباد نہیں کرنا چاہتا جبکہ امریکہ یہ انتظار کرر ہا ہے کہ فاتح کون ہو گا۔ بعد میں پتہ چلا کہ درحقیقت صدر ٹرمپ ہفتار کا ہی حامی ہے۔
اس دوران طرابلس نے فرانس کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں۔ لیبیا آبزرور کے مطابق، ”وزیر داخلہ باشاغا کا کہنا ہے کہ فرانس سے عدم تعاون میں ٹریننگ پروگرام اور دیگر دو طرفہ معاہدے بھی شامل ہیں کیونکہ فرانس ’جنگی مجرم‘ خلیفہ ہفتار کی حمایت کر رہا ہے۔“
پیرس نے ہفتار کی حمایت کی فوری تردید کی لیکن یہ جواب مخلصانہ سے زیادہ سفارتی تھا۔
ماکرون الجزائر کے حوالے سے بہت پریشان ہے جہاں انقلاب کی آگ تیزی سے پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس حوالے سے ہفتار علاقے میں ایک استحکامی عنصر ثابت ہو سکتا ہے۔ ہر سامراجی طاقت کا ایک پلان ہوتا ہے لیکن کیا وہ پلان کامیاب ہو پاتے ہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔
سرمایہ داری کا ڈراؤنا خواب
ہفتار کا حملہ رک گیا ہے، طرابلس ابھی تک مفتوح نہیں ہوا۔ دوسری طرف طرابلس میں سراج دکھاوا کر رہا ہے کہ وہ مزاحمت کر رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ملیشیا ہیں جو لڑ رہی ہیں، جیسے سبراتھا کی قیادت میں موجود طاقتور ملیشیا جو اس وقت GNA کی حمایت کر رہی ہے۔ سراج کی حکومت انتہائی کمزور ہے۔ اگر ملیشیاؤں کو محسوس ہو کہ سراج کی افادیت ختم ہو چکی ہے تو وہ ایک لمحے میں اسے اٹھا کر باہر پٹخ سکتے ہیں۔ اطالوی سامراج (جو سارا جوا سراج پر لگا رہا ہے)کی حالت بہت ہی مخدوش ہے اور اطالوی حکمران طبقے کی گراوٹ کی عکاس ہے۔
جیسے البرٹو نیگری (اٹلی میں مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سب سے زیادہ سنجیدہ ماہر) نے لکھا ہے کہ
”2011ء میں قذافی کی موت، اٹلی کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ خوفناک شکست تھی جس کو اس وقت اور اس کے بعد آنے والی ہر حکومت کے رویے نے اور بھی زیادہ گھمبیر بنا دیا۔ 3 اپریل کو وزیرِ اعظم کونتی، جب ہفتار جنوب میں اینی کے تیل کے کنوؤں پر یلغار کر رہا تھا، قطر پہنچا جہاں پرجوش سالوینی بھی اس کے ہمراہ تھا۔ جنگی نمائش پر وزیر نے ایک مشین گن کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوائیں اور ماضی میں دوحہ پر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کے الزامات بھی پسِ پشت ڈال دیئے گئے۔ لیکن آج تک قطر کے اتحاد سے کوئی جنگ جیتی نہیں گئی۔“
کو اس وقت اور اس کے بعد آنے والی ہر حکومت کے رویے نے اور بھی زیادہ گھمبیر بنا دیا۔ 3 اپریل کو وزیرِ اعظم کونتی، جب ہفتار جنوب میں اینی کے تیل کے کنوؤں پر یلغار کر رہا تھا، قطر پہنچا جہاں پرجوش سالوینی بھی اس کے ہمراہ تھا۔ جنگی نمائش پر وزیر نے ایک مشین گن کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوائیں اور ماضی میں دوحہ پر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کے الزامات بھی پسِ پشت ڈال دیئے گئے۔ لیکن آج تک قطر کے اتحاد سے کوئی جنگ جیتی نہیں گئی۔“
لیبیائی خانہ جنگی میں حقیقی شکست خوردہ کروڑوں عام مزدور اور ان کے خاندان ہیں جو اس آگ میں جل جل کر روزانہ مر رہے ہیں جبکہ اس قتل عام میں پورے افریقہ سے اکٹھے ہوئے پناہ گزین بھی شامل ہیں۔ 2011ء میں سامراجیوں کا خیال تھا کہ قذافی کی موت کے بعد سب کچھ اچھا ہو گیا ہے اور حالات معمول پر آ چکے ہیں۔ برطانوی اور فرانسیسی سامراج نے اس حوالے سے بھرپور کوششیں کیں کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ وہ اس کے بعد خراماں خراماں ٹہلتے لیبیا میں داخل ہوں گے اور ماضی کی طرح تمام دولت پر قابض ہو جائیں گے۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔
اٹلی نے امریکہ کی پیروی کی۔ بعد میں اوبامہ نے اعتراف کیا کہ لیبیا میں مداخلت ”میری حکومت کی سب سے بڑی غلطی تھی۔“ اس لئے نہیں کہ اس کا دل عوام کی اموات پر خون کے آنسو رو رہا تھا بلکہ اس لئے کہ اسے دیگر قوتوں نے ایک ایسی جنگ میں گھسیٹ لیا جس میں زمینی حقائق اس کے کنٹرول میں نہیں تھے۔
سامراج نے ملک میں ایک زندہ بھیانک خواب کو جنم دے دیا ہے۔ سامراج نے ملک میں قذافی کی آہنی حکومت کے زیرِ اثر دہائیوں سے سوتے تضادات کو بیدار کر دیا ہے۔ یہ براہ راست قذافی کے زیرِ قیادت 1969ء کا لیبیائی انقلاب ادھورا چھوڑنے کا نتیجہ ہے جس میں قدافی نے انقلاب کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہوئے سرمایہ داری کے مکمل خاتمے سے انکار کر دیا تھا۔
1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کا لیبیا افریقہ کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں سے ایک تھا۔ ایک قابلِ ذکر فلاحی ریاست تعمیر کی گئی اور ناخواندگی کا تقریباً خاتمہ کر دیا گیا۔ قذافی آمریت کی نسبتاً آزاد حیثیت مغربی سامراج کے لئے کسی صورت قابلِ قبول نہیں تھی اور انہوں نے عرب بہار کی آڑ میں پہلی فرصت میں قذافی کو ختم کر دیا۔
واشنگٹن، لندن اور پیرس کی یہ منطق تھی کہ ایک ناقابلِ کنٹرول شخص کی حکومت کے بجائے ایک بھڑکتی جہنم زیادہ قابلِ قبول ہے۔ اس فارمولے کو افغانستان سے عراق اور پچھلی ایک دہائی میں شام اور لیبیا میں بکثرت استعمال کیا گیا ہے۔
لیبیا میں آنے والے دنوں میں کیا صورتحال بنے گی، اس کا واضح تناظر تعمیر کرنا ناممکن ہے۔ ملیشیاؤں اور جنگی سرداروں کے رویوں سے لے کر بے تحاشہ ایسے عناصر ہیں جن کی سمتوں کا تعین قبل از وقت نہیں کیا جا سکتا۔
ایک حقیقت تو واضح ہے کہ سامراج ہی ذمہ دار ہے اور یہ مارکس وادیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تجزیئے کا آغاز ہر سامراجی قوت اور اس کے اداروں بشمول اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین، سے علیحدہ طبقاتی بنیادوں پر کرے۔
لیبیا کے مسائل کا حل کسی سفارت کاری سے نہیں بلکہ الجزائر اور سوڈان جیسے ہمسایہ ممالک میں طبقاتی جدوجہد سے منسلک ہے۔ کسی بھی ایک ملک میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب لیبیا سمیت پورے خطے بلکہ پورے عالم کی صورتحال کو تبدیل کر سکتا ہے۔