|تحریر: فریڈ ویسٹن؛ ترجمہ: ولید خان|
اٹلی میں کرونا وائرس بحران نے سرمایہ دارانہ نظام کا حقیقی چہرہ کروڑوں محنت کشوں کے سامنے ننگا کر دیا ہے۔ منافعوں کو زندگیوں پر سبقت دی جا رہی ہے لیکن محنت کش اس گھناؤنے جرم کا مقابلہ ریڈیکل ہڑتالوں سے کر رہے ہیں۔ اس تجربے سے دیگر ممالک کے مزدور کیا اسباق حاصل کر سکتے ہیں؟ فریڈ ویسٹن نے اس مضمون میں تفصیلی وضاحت کی ہے۔
دنیا اس وقت صحتِ عامہ اور معاشی انہدام کے حوالے سے ایک عالمی بحران میں داخل ہو چکی ہے جو کرہ ارض پر آباد تمام انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کر رہا ہے۔
ایک پیش گوئی کے مطابق اس سال کی دوسری سہ ماہی میں امریکی جی ڈی پی میں 30 فیصد تک گراوٹ اور بیروزگاری کی شرح 30 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ صورتحال چند ہفتے پہلے ناقابلِ یقین تھی۔ یہ بھی پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ چین میں پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں اس سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت 40 فیصد سکڑی جو پچھلے 50 سالوں میں سب سے بڑی گراوٹ ہے۔
اس وقت پوری دنیا معاشی بحران کا شکار ہو چکی ہے اور اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ پہلی سہ ماہی میں عالمی جی ڈی پی میں 0.8 فیصد کمی آئی۔ بظاہر تو یہ کچھ زیادہ نہیں لگتا لیکن اگر یہ بات مدِ نظر رکھی جائے کہ 2 فیصد سے کم عالمی شرحِ نمو کو معاشی بحران سمجھا جاتا ہے تو پھر اس کمی کی حقیقی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
جس کسی نے تاریخ کی کتابیں پڑھی ہیں یا اتنی عمر ہے کہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہوجانتا ہے کہ 1970ء کی دہائی دیو ہیکل طبقاتی جدوجہد کی دہائی تھی۔ 1974ء کا سال معاشی حوالے سے ایک فیصلہ کن موڑ تھا جب عالمی جی ڈی پی کی پچھلے سال کی تقریباً 6 فیصد شرح نمو کم ہو کر 1 فیصد سے بھی کم رہ گئی تھی۔ جی ڈی پی میں موجودہ عالمی گراوٹ کے بھی اسی طرح کے اثرات مرتب ہوں گے اور نتیجتاً طبقاتی جدوجہد بھی زیادہ بڑے اور وسیع عالمی پیمانے پر رونما ہو گی۔
تیز رفتار واقعات
واقعات تیزی کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔ یہ واقعی ”تیز تر ین موڑ اور اچانک تبدیلیوں، اچانک تبدیلیوں اور تیز ترین موڑ“ کا دور ہے۔ ہمیں تیزی کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہے۔ اگر ہم سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے تو ہمیں اپنی معمول کی روٹین سے ناطہ توڑنا پڑے گا اور اس کے مطابق متحرک ہونا پڑے گا۔
جس قسم کا وائرس اس وقت حملہ آور ہے، اس نے ناگزیر طور پر معیشت پر اثر انداز ہونا تھا لیکن موجودہ بحران کی تیزی اور گہرائی نظام میں اکٹھے ہوئے شدیدتضادات کی عکاس بھی ہیں۔ پورا ڈھانچہ ہی اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ کوئی معمولی واقع بھی اس کو زمین بوس کر دیتا۔ پچھلے دور میں سرمایہ دار طبقے نے اپنے نظام کو بچانے کے لیے منڈی کی معیشت سے متعلق ہر قانون کو توڑتے ہوئے ہر حربہ استعمال کیا۔ معیشت کے اندر کئی دہائیوں تک دیو ہیکل پیسہ ٹھونسا گیا جس کا نتیجہ قرضوں کے پہاڑ کی صورت میں نکلا۔ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سنجیدہ بورژوا تجزیہ نگاروں نے ان پالیسیوں کے حوالے سے متعدد بار خبردار کیا۔ لیکن یہ سوال لازمی ہے کہ ان کی دہائیوں کو کیوں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ اس کی وجہ محض معاشیات میں ہی تلاش نہیں کی جا سکتی۔ اس میں ایک سیاسی عنصر بھی شامل ہے۔
بورژوازی کے اپنے پروپیگنڈہ کے برخلاف۔۔ جن میں سے کچھ پر یہ خود بھی یقین رکھتے تھے۔۔ محنت کش طبقہ غائب نہیں ہوا۔ درحقیقت صورتحال اس کے بالکل الٹ تھی۔ اگر عددی حوالے سے دیکھا جائے تو اس وقت محنت کش طبقہ تاریخ کا طاقت ور ترین طبقہ بن چکا ہے۔ عالمی محنت کشوں کی تعداد 2.5 ارب کے لگ بھگ ہے جن میں سے صرف لوہے کی صنعت سے وابستہ مزدور 40 کروڑ ہیں۔ اور بورژوازی کو بہت اچھی طرح ادراک ہے کہ اتنی دیو ہیکل قوت کو صرف جبر و تشدد کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
کوئی بھی ایسا کام جس سے یہ کروڑوں افراد مشتعل ہو جائیں ایسی خوفناک انقلابی قوت کو جنم دے گا جس کا تاریخ نے پہلے کبھی نظارہ نہیں کیا۔ جیسا کہ مارکس نے بیان کیا تھا، سرمایہ داری اپنے گورکن خود پیدا کرتی ہے۔ پچھلے دور میں ایسا لگتا تھا کہ محنت کش طبقہ پسِ پردہ چلا گیا ہے۔ چند سال پہلے تک صنعتی افق پر کوئی خاص تحرک نظر نہیں آتا تھا۔ حالیہ عرصے میں یکے بعد دیگرے ممالک میں یہ صورتحال تبدیل ہونا شروع ہو گئی تھی۔
اب یہ عمل تیز تر ہو گیا ہے۔ محنت کش طبقہ اب اپنی حقیقی قوت کے طور پر رونما ہونا شروع ہو گیا ہے لیکن بہت کم لوگوں کو اس کا ادراک تھا۔ یہ عنصر تیزی کے ساتھ بہت سارے افراد کو واضح ہو رہا ہے اور پہلے سے موجود ریڈیکلائزیشن کا عمل بھی تیز تر ہو رہا ہے۔ اٹلی میں ہمیں اس عمل کی سب سے واضح مثال ملتی ہے جہاں ایک دور میں ہڑتالوں کی انتہائی کم شرح کے بعد اب وسیع تر ہڑتالیں رونما ہو رہی ہیں۔
موجودہ بحران سماج کی حقیقی طبقاتی شکل کو واضح کر رہا ہے۔ ہر ملک کی عوام نے دیکھا کہ جیسے ہی کرونا وائرس ان کے ہاں رونما ہوا تو ان کے سرمایہ داروں اور سیاست دانوں نے اس حوالے سے خطرات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ ٹرمپ اس کی سب سے بڑی مثال ہے جس نے شروع کے دنوں میں دعویٰ کیا کہ یہ ایک ڈرامہ ہے اور اب وہ کہہ رہا ہے کہ امریکہ دو ہفتوں میں واپس کام کرنا شروع کر دے گا۔ برطانیہ میں بورس جانسن، برازیل میں بولسونارو اور دیگر ممالک میں حکامِ اعلیٰ کا بھی یہی رویہ ہے۔ معیشت پر اثرات کا ادراک ہونے کے بعد سرمایہ داروں نے اپنے منافعوں کو محفوظ رکھنے کے لئے تمام اہم اور غیر اہم سیکٹروں میں پیداوار جاری رکھنے کی پوری کوششیں کیں۔
متحرک محنت کش طبقہ
مالکان کے اس رویے کے نتیجے میں ہڑتالوں کا سلسلہ چل پڑا ہے جس کا آغاز اٹلی سے ہوا۔ اٹلی اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہ ملک بن چکا ہے اور مزدوروں کو واضح ہو چکا تھا کہ مزدور ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد پر اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
4 مارچ کو ایک اعلان کے ذریعے لاک ڈاؤن شروع کیا گیا جس میں سکول اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں اور سماجی تفاصل کے حوالے سے مختلف اقدامات کئے گئے۔ سب لوگوں کے لئے ایک ہی پیغام تھا کہ گھروں میں بیٹھ جاؤ۔ لیکن ایک بہت بڑا استثنارکھا گیا۔۔مزدور! اس کا مطلب یہ تھا کہ کروڑوں لوگ ابھی بھی پبلک ٹرانسپورٹ اور کام کی جگہوں پر قریبی تعلق میں موجود تھے۔ وہاں آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے پر مجبور ہیں، چاہے دستانے، ماسک یا کوئی اور حفاظتی سامان موجود ہو یا نہ ہو۔
فیکٹریوں میں خودرو ہڑتالیں شروع ہو گئیں جیسے 9 مارچ کو نیپلز کے نزدیک پومی جیلیانو میں موجود FIAT فیکٹری اور 12 مارچ کو بولونیا میں بون فیگلیو فیکٹری۔ یہ اور دیگر مثالوں کی بنیاد پر ایک تحریک شروع ہو گئی جو یکے بعد دیگرے آگ کی طرح ہر فیکٹری میں پھیل گئی۔ وینیتو اور لومبارڈی سے لے کر جینوا کے بندرگاہ مزدوروں اور دیگر علاقوں میں۔ اور پھر موڈینا جیسے واقعات بھی رونما ہوئے جن میں پولیس نے سرگرم احتجاجی ٹریڈ یونین ممبران کو گرفتار کر لیا جس پر مزدور اور زیادہ مشتعل ہو گئے۔
یہاں ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ اس ساری صورتحال میں ٹریڈ یونین قیادت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ درحقیقت ان کا بالکل مختلف نکتہ نظر تھا اور وہ حکومت اور مالکان کے ساتھ جوڑ توڑ میں مصروف تھے تا کہ فیکٹریاں چالو رکھی جا سکیں۔
لیکن نیچے سے تحریک اس قدر شدید تھی کہ ٹریڈ یونین قیادت جو عام طور پر اپنا روایتی بھاری سیاسی وزن مزدوروں کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔۔ چاہے لفاظی کی حد تک ہی سہی۔۔کو مجبوراً ہڑتالوں کی حمایت کرنی پڑی۔ انہوں نے 12 مارچ کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں 22 مارچ تک فیکٹریوں کی بندش کا اعلان کیا گیا۔
شدید سماجی دباؤ کے نتیجے میں حکومت اور مالکان کو یونینز کے ساتھ مل کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا پڑا۔ لیکن پہلی ملاقات میں مسئلے کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کی گئی اورحکومت نے ایک اعلامیہ جاری کیا کہ پیداوار، درکار حفاظتی سامان کے ساتھ جاری رہے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب پورا حفاظتی سامان شعبہ صحت کے محنت کشوں کو بھی نہیں دیا جا رہا، یہ اعلامیہ ایک بھونڈا مذاق تھا اور مزدوروں نے اسے ماننے سے صاف انکار کر دیا۔
اگر قریبی تعلق وائرس کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ ہے تو تمام مزدوروں کو واضح تھا کہ اگر وہ کام پر جاتے ہیں تو سب مارے جائیں گے۔ اگر ہم دو نقشوں کو دیکھیں جن میں سے ایک متاثرین کے حوالے سے ہے اور دوسرا اٹلی کے مختلف علاقوں میں فیکٹریوں کی موجودگی کے حوالے سے تو واضح ہو جاتا ہے کہ دونوں میں باہمی تعلق موجود ہے۔ اٹلی میں لومبارڈی کے علاقے میں سب سے زیادہ صنعتیں موجود ہیں اور برگامو اور بریسیا کے علاقے فیکٹریوں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ دونوں صوبے اس وقت بھیانک کیفیت سے دوچار ہیں اور آئے روز بے تحاشا لوگ مر رہے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پوری دنیا نے دیکھا کہ فوجی ٹرک لاشیں بھر بھر کر لے کر جا رہے ہیں کیونکہ مقامی قبرستاوں میں جگہ ختم ہو چکی ہے۔ ان تصاویر اور ویڈیوز کے کروڑوں اطالوی عوام کی نفسیات پر شدید گہرے اثرات رونما ہوئے ہیں۔
اطالوی حکومت کی سازشیں
پس سماج سے مستقل دیو ہیکل دباؤ جاری رہا اوربالآخر اطالوی وزیرِ اعظم کو 21 مارچ کو ٹی وی پر آ کر اعلان کرنا پڑا کہ غیر اہم پیداوار بند کی جائے گی۔ یہی پورے ملک کے مزدوروں کا مطالبہ تھا۔ فتح واضح تھی۔ لیکن اگلے دن جاری ہونے والا اعلامیہ زبانی اعلان کے برعکس تھا۔
یہ واضح تھا کہ حکومت پر مالکان نے بے پناہ دباؤ ڈالا تھا۔ اس وقت بلی تھیلے سے باہر آگئی جب Confindustria (مالکان کی تنظیم) کے سربراہ نے کہا کہ اگر ہم پیداوار بند کر دیں گے تو ہمیں اربوں کا نقصان ہو گا اور اسٹاک مارکیٹ منہدم ہو جائے گی۔ ان الفاظ میں سرمایہ دار کروڑوں محنت کشوں کو بتا رہے تھے کہ منافع انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہیں۔
اس ساری صورتحال سے لڑائی ایک بلند تر سطح پر چلی گئی ہے۔ اس ہفتے ہم نے زیادہ ہڑتالیں دیکھی ہیں جن میں لومبارڈی کے علاقے میں ایک عام ہڑتال بھی شامل ہے۔ یہ تمام سیکٹروں میں عام ہڑتال کی طرز پر نہیں تھی۔ ہڑتال کی کال انجینئرنگ، کیمیکل اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں دی گئی تھی۔ موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ہڑتال کامیاب رہی جس میں 90 فیصد تک شمولیت موجود تھی۔ اس سے ہمیں فیکٹریوں میں حقیقی موڈ کا اندازہ ہوتا ہے۔
ایک ملک گیر عام ہڑتال کے لئے دباؤ بڑھتا جا رہا تھا اور سب سے بڑی یونین کنفیڈریشن CGIL کے جنرل سیکریٹری لاندینی نے دھمکی دی۔۔ کم از کم الفاظ کی حد تک۔۔ کہ غیر اہم فیکٹریاں بند کی جائیں۔ حکومتی سازشیں اور مالکان کی ننگی کوشش کہ غیر اہم پیداوار کو جاری رکھا جائے وہ تازیانے ہیں جنہوں نے کروڑوں افراد پر موجودہ سماجی نظام کی حقیقت واضح کر دی ہے۔
ماضی میں مڈل کلاس نیم دانشور حلقوں میں جس طرح سے اطالوی محنت کش طبقے کے وجود سے ہی انکار کر دیا جاتا تھا اب ممکن نہیں ہے۔ شام میں ذرائع ابلاغ کو ”operai“ کی موجودگی کا اعتراف کرنا پڑا۔۔ صنعتی مزدور۔ اور ان مزدوروں کی عوام میں بے پناہ ہمدردی موجود ہے۔ تعمیراتی صنعت میں بھی یہی صورتحال ہے۔
محنت کش طبقے کی ایک اور پرت ہے جو دیو ہیکل قیمت ادا کر رہی ہے۔۔اشیائے خوردو نوش یا دواساز صنعت میں کام کرنے والے مزدور۔ اور پھر ہسپتالوں میں کام کرنے والے مزدور موجود ہیں۔۔ڈاکٹر، نرسز، پیرامیڈیکس، صفائی کا عملہ، ایمبولینس کے مزدور وغیرہ۔ یہ وہ پرت ہے جو اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہے اور صد افسوس کہ ان میں سے کئی افراد کی اموات ہو رہی ہیں۔ اب تک ڈاکٹروں میں 41 اموات ہو چکی ہیں۔ نرسز میں خودکشیاں بڑھ رہی ہیں کیونکہ وہ یہ دیو ہیکل دباؤ برداشت نہیں کر پا رہیں۔
اطالوی شعبہ صحت میں مزدوروں کو خوفناک صورتحال میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ پچھلے دور میں کی جانے والی کٹوتیوں کی انہیں دیو ہیکل قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ایمبولینس کسی جگہ پہنچنے تک آٹھ گھنٹوں یا اس سے زیادہ وقت لے رہی ہیں۔ جب ایک مریض ہسپتال پہنچ جاتا ہے تو اکثر اسے ایک طویل انتظار کے بعد ICU نصیب ہوتا ہے۔ کئی مریضوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ ڈاکٹروں کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کون سے مریض علاج کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
زیادہ ICUs کا مطلب کم سے کم اموات ہو گا۔ جتنے زیادہ سخت حفاظتی اقدامات ہوں گے اور جتنا زیادہ مؤثر اور وافر مقدار میں حفاظتی سامان موجود ہو گا اس کا مطلب کم سے کم اموات ہوں گی۔
شعبہ صحت کے مزدور مسلسل حفاظتی سامان کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ موجودہ سامان ان کی حفاظت کے لئے کافی نہیں۔ پھر اس پرت کی پورے سماج میں دیو ہیکل ہمدردی موجود ہے اور ان کی بے سروسامانی سے پورا محنت کش طبقہ مجموعی طور پر اور زیادہ مشتعل ہو رہا ہے۔
یہ واضح ہو چکا ہے کہ ایک پوری منصوبہ بندی کے تحت شعبہ صحت کو تڑپا تڑپا کر مارا گیا ہے اور اس وجہ سے اتنی زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ موجودہ بھیانک صورتحال کا مطلب ہے کہ مستقبل میں عوامی شعبہ صحت کی حفاظت اور بہتری ایک کلیدی میدانِ جنگ بنے گی اور سرمایہ دار جن کے ذہنوں پر صرف اس سیکٹر سے منافع کمانے کا بھوت سوار ہے، قومی شعبہ صحت کی نجکاری کے حوالے سے مشکل میں پھنس جائیں گے۔
عالمی اثرات
جیسے جیسے وائرس دنیا کے دیگر ممالک میں پھیلتا جا رہا ہے ہمیں یہی صورتحال رونما ہوتی نظر آ رہی ہے۔ سب سے پہلے یہ صورتحال ہم نے یورپ میں اٹلی کے بعد سب سے زیادہ متاثر ملک اسپین میں دیکھی۔ 16 مارچ کو ہم نے میشلن، مرسیڈیز بینز، آئی ویکو، ائیر بس، کانٹیننٹل ٹائرز اور دیگر فیکٹریوں میں ہڑتالیں دیکھیں۔ ہم نے یہی صورتحال کینیڈا میں FIAT-Chrysler کی ہڑتال میں دیکھی جہاں کرونا وائرس سب سے اہم پریشانی بن چکا ہے۔ اسی طرح امریکہ اور فرانس سمیت دیگر ممالک میں یہی صورتحال ہے جیسے جیسے وائرس پھیلتا جا رہا ہے۔
برطانیہ میں بھی ہمیں یہی عمل شروع ہوتا نظر آ رہا ہے۔ حکومت وہی کچھ کر رہی ہے جو ہم نے اٹلی میں ہوتا دیکھا۔۔پانی سر سے گزرنے کے بعد ضروری اقدامات کئے گئے۔ دکانیں، ریسٹورنٹ، کیفے وغیرہ سب بند کر دیے گئے ہیں۔ لیکن حکومت نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ مینوفیکچرنگ اور تعمیرات جاری رہیں گی۔یعنی ایک طرف تو تعمیراتی مالکان اپنے گھروں میں محفوظ بیٹھے کام کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان کے مزدور منافعوں کی دیوی کے سامنے قربانی کے لئے مجبور کئے جا رہے ہیں۔ ہم برطانیہ میں بھی ہڑتالیں دیکھیں گے۔ ہم یکے بعد دیگرے تمام ممالک میں یہ سب ہوتا دیکھیں گے جہاں مزدور دیگر ممالک کے مزدوروں کے تجربات سے سیکھ رہے ہیں۔ اس وقت ہم عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد کا جنم دیکھ رہے ہیں۔
فیکٹریوں کو بند کرنے کی جدوجہد
اٹلی کے مزدور غیر اہم صنعتوں کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سوچ دیگر ممالک میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اگر مالکان مزاحمت کرتے ہیں تو وہ مزدووں کو مزید مشتعل کر یں گے۔ اس ساری صورتحال میں ایک نیا اہم عنصر شامل ہو چکا ہے۔۔ مزدور خود فیصلہ کر رہے ہیں کہ فیکٹریاں کیسے چلیں گی۔۔ یہ صورتحال کوئی سرمایہ دار برداشت نہیں کر سکتا۔
اس لئے پورے محنت کش طبقے کی ممکنہ ریڈیکلائزیشن کے سامنے حکمران طبقہ پسپائی اختیار کر تے ہوئے وقتی طور پر کچھ مطالبات مان سکتا ہے۔ اٹلی میں ہم یہی ہوتا دیکھ رہے ہیں جہاں کچھ کمپنیاں بند ہو چکی ہیں جبکہ دیگر کام جاری رکھنے کے لئے ہر قسم کا بہانہ تلاش کر رہی ہیں۔
ٹریڈ یونین قیادت بھی اس وقت پلِ صراط پر چل رہی ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ محنت کش طبقے کی ریڈیکلائزیشن کو روکنے کی پوری کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف مزدوروں کے مطالبات کو اظہار دینے کا ڈرامہ بھی کر رہی ہے۔
اب وزیرِ معاشیات کے ساتھ ملاقات کے بعد CGIL کا قائد لاندینی، جو کچھ دیر کے لئے ریڈیکل لفاظی کر رہا تھا، ایک غلیظ معاہدہ کر آیا ہے۔ کونتی حکومت نے شروع میں 94 صنعتوں کو اہم قرار دیا تھا۔ اس کو گھٹا دیا گیا ہے لیکن پھر بھی کئی غیر اہم صنعتیں ابھی بھی فعال ہیں۔ اندازاً 60-70 لاکھ مزدور ابھی بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ریٹیل ٹریڈ سیکٹر میں ہڑتالیں منظم کی گئی ہیں لیکن یہ واضح ہو چکا ہے کہ ٹریڈ یونین قیادت کسی صورت ایک ملک گیر ہڑتال کی کال نہیں دے گی۔
اس معاہدے پر دستخط کر کے ٹریڈ یونین قیادت محنت کش طبقے کو غیر متحرک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سرکاری طور پر ٹریڈ یونین حفاظت مہیا نہ کر کے قیادت مزدوروں کو ایک خطرناک مشکل میں ڈال رہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مزدور تحریک کی قیادت عین محنت کش طبقے کے تحرک کے آغاز پر اپنا پورا زور لگا کر صورتحال معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ٹریڈ یونین قیادت کی جدوجہد نہ کرنے کی بزدلانہ حکتِ عملی واضح ہو رہی ہے۔ مستقبل میں ٹریڈ یونینز کے اندر بھی ایک نئی جدوجہد شروع ہو گی جس میں عام ممبران نااہل غدار قیادت کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہم نے تاریخ میں کئی مرتبہ دیکھا ہے کہ جب حکمران طبقہ اس سطح پر خطرہ محسوس کرتا ہو تو وہ ہر طرح کی مراعات دینے کو تیار ہو جاتا ہے تاکہ کچھ وقت حاصل کیا جا سکے۔ عقل مند بورژوازی کو سمجھ ہے کہ اس طرح کے لمحات میں ریڈیکلائزیشن اتنی زیادہ بڑھ سکتی ہے کہ مزدور پورے سرمایہ دارانہ نظام کو ہی چیلنج کرنا شروع کر دیں گے اور دیگر طریقوں سے سماج کو چلانے کے راستے تلاش کرنے لگیں گے۔ اس پورے عمل کو آغاز میں ہی کچلنے کے لئے ٹریڈ یونین قیادت کی مدد کے ساتھ انہوں نے مان لیا ہے کہ کچھ صنعتوں کو بند کر دیا جائے لیکن یہ مزدوروں کے مطالبات سے بہت کم ہے۔
اس وقت اٹلی میں یہ تمام تر صورتحال ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ دیگر خطوں میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ حکومت اور مالکان ٹریڈ یونین قیادتوں کے ساتھ مل کر ایک دن وعدہ کچھ کرتی ہے لیکن اگلے دن عمل کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
یہ صورتحال آگ سے کھیلنا ہے اور وہ پسپائی اختیار کر سکتے ہیں۔ ایک اور وجہ بھی ہے جس نے سرمایہ داروں کو کچھ مطالبات ماننے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہر جگہ مانگ ختم ہو رہی ہے۔ مصنوعات کی پیداوار ہی کیوں کی جائے اگر انہیں بیچا ہی نہیں جا سکتا؟
پھر ایک اور عنصر بھی کارفرما ہے۔ زائد لیبر کا کیا کرنا ہے؟ کئی مزدور نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی 1930ء کی دہائی کے مشابہہ اگر دیو ہیکل بیروزگاری ہوتی ہے تو بھی محنت کش طبقہ مزید ریڈیکلائز ہو گا۔ پھر تو بالکل واضح ہو جائے گا کہ نظام ناکام ہو چکا ہے۔
اسی لئے عارضی نوکری، برخاستگی اور مراعات کے آسان حصول جیسے سماجی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ حکمران طبقہ آنے والے طوفان سے مقابلے کے لئے تیاری کر رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ملکی قرضہ پہلے ہی آسمان کو چھو چکا ہے۔ اس لئے مستقبل میں آج دی جانے والی مراعات کی بھاری قیمت وصول کی جائے گی۔
اس لئے آج طبقاتی دباؤ کو زائل کرنے کے لئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ مستقبل میں کرونا وائرس بحران کے ختم ہونے کے بعد اور زیادہ شدید طبقاتی جدوجہد کی بنیادیں بنا رہے ہیں۔
اس وقت محنت کش طبقے کی فوری پریشانی یہ ہے کہ اپنے لئے اور اپنے خاندانوں کے لئے ایک محفوظ ماحول بنایا جائے۔ تمام مالکان بندش کے لئے تیار نہیں اور موجودہ جدوجہد جاری رہے گی۔ اس لئے جن صنعتوں کو اہم گردانا گیا ہے ان میں کیا حفاظتی اقدامات ہوں گے اور کیسے لاگو کئے جائیں گے اور جن صنعتوں کو غیر اہم قرار دیا گیا ہے وہ جب کام جاری رکھنے کی کوششیں کریں گی تو انہیں بند کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ غرضیکہ حال اور مستقبل مسلسل لڑائیوں اور جدوجہد سے لبریز ہے۔
ٹریڈ یونین اشرافیہ نے جس معاہدے پر دستخط کئے ہیں اس میں یہ واضح ہی نہیں کہ کیا اہم ہے اور کیا غیر اہم۔ پھر اس میں ایسی شقیں بھی موجود ہیں جنہیں مالکان بھرپور استعمال کرنے کی کوششیں کریں گے۔ مثال کے طور پر صرف بولونیا میں بندش سے استثنا کے لئے 2 ہزار کمپنیوں نے سفارش کی ہوئی ہے۔ لیگوریا کے علاقے لا سپیزا میں دو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں The Leonardo اور MDBA کو ٹریڈ یونینز کے تمام تر اصرار کے باوجود مقامی حکومت نے بندش سے روک دیا ہے۔
جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ تمام غیر اہم کام پر معمور مزدوروں کو گھر بھیجا جا چکا ہے اور باقی رہ جانے والے مزدوروں کے لئے مناسب انتظامات کر لئے گئے ہیں۔ لیکن ان دو کمپنیوں کو دیگر فیکٹریاں سازوسامان فراہم کر رہی ہیں اور ان میں صورتحال اور بھی خراب ہے۔ اس وجہ سے مزدور بہت زیادہ مشتعل ہیں اور وہ یونین کی بھرپور حمایت کے ساتھ آٹھ گھنٹوں کی ہڑتال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ فیکٹری مالکان کے لئے جو ”اہم“ ہے وہ مزدور وں کا تحفظ نہیں بلکہ منافع ہیں۔ ائروسپیس، اسلحہ سازی، ہوٹل وغیرہ کی صنعتیں ”اہم“ فہرست میں شامل ہیں۔
ان معیارات کو لاگو کرتے ہوئے واضح ہے کہ وہ بیرگامو کے تجربات کو نظر انداز کر رہے ہیں جسے وبا کے اوائل کے دنوں میں ریڈ زون قرار نہیں دیا گیا صرف اس وجہ سے کہ وہاں بے تحاشہ فیکٹریاں موجود ہیں۔
اس لئے ایسے حالات موجود ہیں جن میں مالکان اور مزدوروں کے درمیان مسلسل لڑائیاں جاری رہیں گی کہ کیا ”اہم“ ہے، کونسی صنعتیں کھلی رہیں اور کونسی بند ہونی چاہیے۔ ٹریڈ یونین قیادت واضح طور پر مزدور اتحاد توڑ کر انہیں غیر متحرک کرنے کی پوری کوششیں کر رہی ہے۔
یہ دیگر ممالک کے محنت کش طبقے کے لئے بھی تنبیہ ہے۔۔۔نہ صرف مالکان اور حکومت بلکہ سب سے اہم اپنی ٹریڈ یونین قیادتوں کی طرف سے ہر قسم کی چالبازی اور سازش کے لئے تیار رہیں۔ یہاں عام ممبران میں سے نمائندگان کے انتخاب کا سوال اٹھتا ہے جو براہِ راست مذاکرات میں شامل ہوں اور واپس آ کر مزدوروں کو پل پل کی خبر دیں جن کے پاس اس مسئلے پر معاہدے کرنے اور لاگو کرنے کا حتمی اختیار ہو۔
ام المسائل اور ام الخبائث اس وقت قیادت ہے۔ ایک لڑاکا ٹریڈ یونین قیادت کے بغیر اور ایسے پلیٹ فارموں کی عدم موجودگی میں جن کے ذریعے مزدور اپنا سیاسی اظہار کر سکیں۔موجودہ ریڈیکل موڈ کمزور ہو کر بکھر جائے گا اور کچھ مزدوروں کو گھر بھیج دیا جائے گا اور کچھ مزدور کام پر واپس آ جائیں گے۔ایک مرتبہ جب یہ مرحلہ ختم ہو جائے گا تو اگلا دورگھر بیٹھ کر وبا کے اختتام کا انتظار ہو گا۔۔ کم از کم جو یہ حق جیت سکیں گے۔
شعور کی معیاری جست
لیکن یہ عمل کا اختتام نہیں ہو گا بلکہ شعور کی بیداری اور ریڈیکلائزیشن کے ایک گہرے اور جاری عمل کا محض ایک مرحلہ ہو گا۔ لوگ تیزی سے سیکھ رہے ہیں۔ نظام کے کردار کی آگاہی کے ساتھ ساتھ عوام کو اپنی قوت کا ادراک بھی ہو رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کو قائم و دائم رکھنے میں ایک کلیدی عنصر یہ ہے کہ محنت کش طبقے کو اپنی حقیقی قوتوں کا احساس نہیں۔ ایک ایسی صورتحال جو محنت کش طبقے کو یکجا کرتی ہے اور ان کی ممکنہ قوت کو نکھارتی ہے اور اس طاقت کا استعمال انہیں نتائج فراہم کرتا ہے۔۔ ایسی قوت کے ایک عام محنت کش کے شعور پر دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب محنت کشوں کو احساس ہوتا ہے کہ کس طرح متحد مربوط تحرک نتائج فراہم کرتا ہے تو ان کی اشتہا اور بھی بڑھ جاتی ہے اور انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اور بھی بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے ٹریڈ یونین قیادت کا انتہائی غلیظ اور مکروہ کردار ہے کیونکہ وہ تمام تر کوشش یہ کرتے ہیں کہ محنت کشوں کو طبقاتی جدوجہد کا یہ تجربہ حاصل نہ ہو جائے۔
اگرچہ، موجودہ بحران عوام کو چار دیواری میں بیٹھنے پر مجبور کر رہا ہے لیکن ریڈیکلائزیشن کا ایک وسیع تر عمل موجود ہے۔ محنت کش طبقہ نئے دور میں بالکل مختلف سوچ اور موڈ کے ساتھ داخل ہو گا۔ وہ نہ صرف نظام کے حقیقی کردار سے آگاہ ہو گا بلکہ اسے اپنی قوت کا بھی احساس ہو گا۔
سرمایہ دار طبقے کے لئے یہ صورتحال بہت پریشان کن ہے۔ انہیں اچھی طرح ادراک ہے کہ ایک مرتبہ جب وبا سر سے ٹل جائے گی تو کیا ہو گا۔ کئی کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہوں گی اور بیروزگاروں کی ایک فوج ہو گی جو مشکل وقت میں ریاست کی سماجی مداخلت کی عادی ہو گی۔ملکی قرضہ ان دیکھی انتہاؤں پر پہنچ چکا ہو گاجو فوری حل طلب مسئلہ بن چکا ہو گا۔ حکمران طبقے کے پاس ایک ہی طریقہ ہو گا کہ 2008ء کے مقابلے میں اور زیادہ متشدد کٹوتیاں کی جائیں۔
حکمران طبقہ اس سارے عمل سے بخوبی واقف ہے۔ وہ انتہائی پریشانی کے ساتھ طبقاتی جدوجہد کی سرگرمی اور اس کے نتیجے میں شعوری آگاہی کو دیکھ رہے ہیں۔ یہی مختلف حکومتوں کے متضاد کردار کی بنیاد ہے جو متضاد طبقاتی دباؤ کے نتیجے میں ایک پوزیشن سے دوسری پر چھلانگیں مار رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں وہ عوام کے سامنے ننگے ہو رہے ہیں۔ یہ ساری صورتحال سرمایہ دار طبقے اور بورژوا ریاستی اداروں کے نکتہ نظر سے تباہ کن ہے۔
اس حوالے سے یہ صورتحال واقعی جنگی ہے۔ جنگ میں شعور بڑی تیزی کے ساتھ اوپر سے لاگو قوم پرست اتحاد کی ابتدائی مراحل سے کھلی بغاوت تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں سب سے حیران کن عنصر یہ ہے کہ کتنی تیزی کے ساتھ طبقاتی تفریق پھٹ کر سامنے آئی ہے۔
ہر جگہ قومی اتحاد ابھارنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اٹلی میں اطالوی قومی جھنڈا اور قومی ترانہ اس موڈ کو ابھارنے کی کوشش میں بے دریغ استعمال ہو رہے ہیں۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونینز بار بار کہہ رہی ہیں کہ ”اس مسئلے میں ہم سب ایک ہیں“ وغیرہ۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں قیاس کیا جا رہا ہے کہ بورس جانسن کو اپنی 80 نشستوں کی برتری کے باوجود لیبر پارٹی سے مدد مانگنی پڑے گی۔
ہر جگہ ”قومی یگانگت“ کی فضا ہے۔ اٹلی میں حکومت نے حزبِ اختلاف سے ملاقات کی اور یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ حزبِ اختلاف کے ساتھ مل کر ایک ”ٹیکنیکل کمیٹی“ بھی تشکیل دی جائے گی۔
مالکان مستقبل کی تیاری کر رہے ہیں
ایک نئی صورتحال یہ ہے کہ سڑکوں پر پولیس اور فوج موجود ہے۔ ابھی تو عوام ان کی حمایت کر رہی ہے کیونکہ انہیں یہ لگ رہا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فوجی میڈیکل سٹاف کو اور ان کے جنگی ہسپتال قائم کرنے کے تجربات کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ فوجی ٹرانسپورٹ کو سازوسامان اور بدقسمتی سے میتوں کو لے جانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی پر روزانہ فوجی جرنیلوں کی ایسے پریڈ کرائی جاتی ہے جیسے وہ کرونا وائرس کے خلاف اس جنگ میں ایک اہم حصہ ہیں۔
ساتھ ہی عوام کی حرکات و سکنات کی موبائل نیٹ ورکس کے ذریعے نگرانی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اس ساری صورتحال میں ڈرون استعمال کرنا کیوں ضروری ہے۔ ایک مرتبہ پھر حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر کئی لوگ اس اقدام کو جائز سمجھیں گے۔لیکن ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ یہ پالیسی اس لئے بھی لاگو کی گئی ہے کہ عوام کوسڑکوں پر مسلح فوجی اور فوجی گاڑیوں کو دیکھنے اور وسیع تر نگرانی کی عادت پڑ جائے۔
حکمران طبقے کو اچھی طرح ادراک ہے کہ صورتحال میں کیا انقلابی ممکنات موجود ہیں اور جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ عوام سڑکوں پر واپس آجائے تو عوامی تحریکوں کا ایک نیا دور چل پڑے گا۔ اس لئے وہ اس ساری نئی کیفیت سے نپٹنے کے لئے اپنے پاس موجود ہر ہتھیار تیز کر رہے ہیں۔ مستقبل میں وہ سب سے زیادہ سرگرم محنت کشوں اور نوجوانوں کو روکنے کی کوشش کریں گے جو کام کی جگہوں اور کالجوں میں فطری قیادت بن کر ابھریں گے۔
وسیع تر ریڈیکلائزیشن کی وجہ یہ ادراک ہے کہ موجودہ صورتحال میں ”منڈی“ کی معیشت فعال نہیں رہ سکتی۔ کئی مضامین شائع ہو رہے ہیں جن میں بورژوا تجزیہ نگار بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ”ہم سب اب سوشلسٹ ہیں“۔ یعنی وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ معیشت میں ریاست کی براہِ راست مداخلت ناگزیر ہے۔ تمام ممالک میں سماجی دھماکوں سے خوفزدہ ریاستیں اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام کو دیو ہیکل مالیاتی امداد فراہم کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی کمپنیوں کو بے تحاشا پیسہ بھی دے رہے ہیں کہ وہ ڈوب نہ جائیں۔ منڈی ایسے تو کام نہیں کرتی!
عوام یہ سب یاد رکھے گی اور ایک مرتبہ جب بحران ٹل جائے گا تو وہ سوال کریں گے کہ ان اقدامات کو مزید جاری کیوں نہیں رکھا جا رہا۔لہٰذا طبقاتی جدوجہد کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا۔
انقلاب کی تلاش
اس عمل میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی سب سے زیادہ شعور یافتہ پرتوں میں ایک انقلابی شعور جنم لے رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سماج کی وسیع تر پرتیں انقلابی نظریات کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور حقیقی ثابت قدم انقلابی نظریات صرف مارکسزم میں ہی موجود ہیں۔ عوام جاننا چاہتی ہے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور اس کا حل کیا ہے۔ اس صورتحال میں انقلابی نظریات تیزی کے ساتھ سماج کی وسیع تر پرتوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
ہمارے سامنے اپنی روز مرہ زندگی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ کامریڈوں کے چھوٹے گروہ خود سے ایک نیا کام شروع کرتے ہیں اور اچانک انہیں بڑی تعداد میں سامعین میسر آ جاتے ہیں۔ اب صورتحال یہی رہے گی اور آنے والے دور میں تیزی اختیار کرے گی۔ حقیقی مارکسزم کی محدود قوتیں تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں اور سماج کی وسیع تر پرتوں تک پہنچ رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تمام ممالک کی محنت کش تحریک اور نوجوانوں میں مارکسی رجحان کی تیز تر تعمیر کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے دور میں نظریات بہت محدود پرتوں تک ہی پہنچ پاتے تھے اور انہیں ”انتہا پسند“ گردانا جاتا تھا۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ اب یہ نظریات وسیع تر پرتوں تک پہنچ سکتے ہیں اور ”انتہائی“ حالات سے یہ اور بھی زیادہ ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔شعور میں معیاری تبدیلی نے ایک نئی کیفیت کو جنم دے دیا ہے اور مارکس وادیوں کو اپنی کوششیں اور تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ محنت کش طبقے اور نوجوانوں میں ایک ایسی قوت تعمیر کی جائے جو سماج کو اس تاریخی بحران سے نجات دلائیں۔