|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: عرفان منصور|
بیروت کے ضلع ضاحیہ پر شدید فضائی حملوں سے اسرائیلی فوج حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کو دیگر اعلیٰ کمانڈروں کے ساتھ قتل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اطلاعات ہیں کہ حزب اللہ کے جنوبی محاذ کا سربراہ علی کراکی بھی اس حملے میں جاں بحق ہوا ہے۔ نیتن یاہو نے ذاتی طور پر اس حملے کا حکم دیا اور وہ واضح طور پر حزب اللہ اور اس کے اہم حمایتی ایران کو اسرائیل کے ساتھ مکمل جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ خطرہ اب پہلے سے کہیں زیادہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
امریکہ نے فوری طور پر اعلان کیا کہ اس حملے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں، حالانکہ اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ انہوں نے پیشگی اطلاع دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حملے میں نصراللہ کو قتل کرنے کے لیے جو میزائل استعمال کیے گئے وہ امریکہ نے فراہم کیے تھے۔ وہ خود کو اس سے الگ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، لیکن ہر کوئی امریکی سامراج کا کردار واضح طور پر دیکھ سکتا ہے۔
وہ جنگ بندی کی لفاظی کی بھرپور جگالی کرتے ہیں، لیکن جب بھی اسرائیل اپنے خونریز حملے کرتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ اسے امریکہ کی مسلسل حمایت حاصل ہو گی۔ بائیڈن اور اس کی انتظامیہ اور تمام مغربی حکومتیں جو اسرائیل کے نام نہاد ’حقِ دفاع‘ کی حمایت کرتی ہیں، ہزاروں فلسطینیوں کے خون میں سر سے پاؤں تک لتھڑی ہوئی ہیں۔ اب وہ اس میں لبنانیوں کا خون بھی شامل کر رہے ہیں۔
مغربی سامراجی طاقتیں، جن کی قیادت امریکہ کر رہا ہے، زیادہ سے زیادہ صرف امن کی باتیں کرتی ہیں، عارضی جنگ بندی کی تجاویز دیتی ہیں اور نیتن یاہو اور اس کی حکومت کی جانب سے پھیلائی جانے والی تباہی اور ہلاکتوں پر مگرمچھ کے آنسو بہاتی ہیں۔
لیکن وہ اسرائیل کو اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کرنا بند نہیں کریں گے، جو واحد عملی طریقہ ہے جس سے صیہونی جنگی مشین کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ وہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھیں گے، چاہے اس کا مطلب پورے مشرق وسطیٰ کو ایک علاقائی جنگ کی لپیٹ میں دھکیل دینا ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اسرائیل کا دفاع کرتے رہیں گے، چاہے ان کے اقدامات خطے کے لوگوں اور پوری دنیا کے لیے تباہ کن نتائج کا خطرہ ہی کیوں نہ پیدا کریں۔
اسرائیل کو اکثر دنیا بھر میں مظاہرین کی جانب سے ’دہشت گرد ریاست‘ کہا جاتا ہے۔ صیہونی اس بات پر شدید ناراض ہوتے ہیں اور لبنان میں حزب اللہ اور فلسطینی عوام پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں۔ یہاں بات بالکل واضح ہونی چاہیے: اصل مظلوم فلسطینی ہیں؛ وہی ہیں جنہیں اپنی سر زمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا ہے؛ وہی ہیں جنہیں پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے؛ وہی ہیں جنہوں نے بار ہا اجتماعی قتل و غارت کا سامنا کیا ہے اور حقیقی ظالم ریاست کا نام اسرائیل ہے۔ یہ وہ ریاست ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ اسے بمباری کرنے، تباہی پھیلانے، قتل اور زخمی کرنے کا حق حاصل ہے، تاکہ مظلوموں کو ان کی اوقات میں رکھا جا سکے۔
وہ خود کو ”مہذب“ ظاہر کرنا پسند کرتے ہیں اور انہیں بالکل پسند نہیں کہ انہیں دہشت گرد کہا جائے۔ لیکن اس حملے میں جو کچھ ہوا اسے اور کس طرح بیان کیا جا سکتا ہے؟ فضائی حملوں نے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوبی علاقے میں گنجان آباد مقامات کو نشانہ بنایا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران 800 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بے گناہ شہری ہیں، اور کم از کم 250000 افراد کو اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
بقاع وادی بھی شدید بمباری کا شکار ہوئی، جہاں ہزاروں لوگ اپنے علاقے سے فرار ہو چکے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق: ”جہاں کبھی فیکٹریاں، دکانیں اور گھر تھے، اب وہاں صرف راکھ کے ڈھیر، مُڑے تُڑے لوہے کے ٹکڑے اور شیشے کے ٹکڑے ہیں۔ زمردی سبز جھاڑیاں مٹی کی دبیز تہہ سے ڈھکی ہوئی ہیں اور بجلی کی تاریں جو دھماکوں میں اپنے لوہے کے کھمبوں سے اکھڑ گئی ہیں، ہوا میں جھولتی ہوئی سڑک کے اوپر لٹک رہی ہیں۔“
ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں واضح کیا کہ ایران نے مسلسل اشتعال انگیزیوں کے باوجود بے پناہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ مغربی میڈیا ہمیشہ ایران کو جارح اور اسرائیل کو مظلوم کے طور پر پیش کرتا ہے۔ لیکن یہاں جارح اسرائیل ہے۔ یہ اسرائیلی حکومت ہے، جس کی قیادت نیتن یاہو کر رہا ہے، جو پورے خطے میں ایک مکمل جنگ چاہتی ہے۔ نیتن یاہو کی اقوام متحدہ میں جمعہ کے روز کی تقریر نے یہ بات بالکل واضح کر دی۔
نیتن یاہو کی بات سن کر کوئی اس کے ارادوں پر شک نہیں کر سکتا۔ اس نے حزب اللہ کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عہد کیا۔
”جب تک حزب اللہ جنگ کا راستہ اختیار کرے گی، اسرائیل کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں اور اسرائیل کو پورا حق ہے کہ وہ اس خطرے کو ختم کرے“، اس نے کہا، ”ہم حزب اللہ کا پیچھا کرتے رہیں گے جب تک کہ ہمارے تمام مقاصد پورے نہیں ہو جاتے۔“
اس نے ایران اور پورے مشرق وسطیٰ کو بھی براہِ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا: ”ایسی کوئی جگہ نہیں، ایران میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں اسرائیل کا لمبا ہاتھ نہ پہنچ سکے اور یہ بات پورے مشرق وسطیٰ کے لیے بھی سچ ہے۔“
آئی ڈی ایف (IDF) کے چیف آف اسٹاف، ہرزی ہلیوی نے اگلے دن واضح کر دیا کہ کل کا حملہ اسرائیل کی بمباری مہم کا اختتام نہیں ہے۔ اس نے کہا: ”ابھی ہمارا جنگی خزانہ ختم نہیں ہوا۔ پیغام سادہ ہے: جو بھی اسرائیل کے شہریوں کو دھمکائے گا ہم جانتے ہیں کہ انہیں کیسے سبق سکھانا ہے۔“ یہ امن کی خواہش رکھنے والوں کی زبان نہیں ہے، بلکہ مکمل جنگ کے لیے پکارتی زبان ہے۔
اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) نے بیروت کے ضاحیہ کے رہائشیوں کو علاقے کو خالی کرنے اور شہر کے دیگر حصوں میں منتقل ہونے کے پیغامات جاری کیے ہیں، اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے آئندہ چند دنوں کے منصوبے کیا ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نداف شوشانی نے بہت صاف الفاظ میں کہا: ”کیا ہم وسیع تر اشتعال انگیزی کے لیے تیار ہیں؟ ہاں۔”انہوں نے مزید کہا کہ ”ہماری فورسز ہائی الرٹ پر ہیں۔“
ایرانی حکومت علاقائی جنگ نہیں چاہتی۔ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں حزب اللہ کے نپے تلے رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی فوجی تصادم کی شدت کو نہیں بڑھانا چاہتے تھے۔ وہ اس تنازع کو اسی سطح پر رکھنا چاہتے تھے جو گزشتہ سال سے سرحد پار چھوٹی جھڑپوں اور جواباً بمباریوں کی صورت میں رہا ہے۔
سامراجی طاقتیں، بالخصوص یورپی طاقتیں بھی علاقائی جنگ نہیں چاہتیں کیونکہ وہ اس سے اپنے لیے جنم لینے والے تباہ کن نتائج دیکھ سکتی ہیں۔ مگر حالات تیزی سے اسی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے وہ سب خوفزدہ ہیں۔
انقلابی کمیونسٹ ہمیشہ مظلوموں اور ظالموں میں لکیر کھینچتے ہیں اور ہم ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس جنگ کے شعلے بھڑکانے والوں کی فہرست میں نیتن یاہو، بائیڈن، اسٹارمر، میکرون اور مغرب کے دیگر تمام راہنما ہیں۔ ان کی جنگی حکمت عملیوں کو روکنے کے لیے صرف اپیل کرنا کافی نہیں ہے۔ یہ شیطان سے ایسی اپیل کرنے جیسا ہے کہ وہ گناہ نہ کرے۔ ان کی قوتِ سماعت شل ہو چکی ہے اس لیے انہیں ہر صورت ہٹانا لازمی ہو چکا ہے۔