|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
پہلی عالمی جنگ روس کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہی تھی۔ جنگ کے میدان سے شکست در شکست کی خبریں آ رہی تھیں۔ معیشت کی بربادی کی وجہ سے اناج کی قلت پیدا ہو چکی تھی۔ دکانوں کے باہر بھوک سے ادھ موئی لاچار خواتین کا ہجوم اناج کو ترستا رہتا، جو کبھی نہ آتا۔
لیکن روسی سماج کی بالائی پرتوں میں معاملات بالکل مختلف تھے۔ ملک مٹھی بھر انحطاط شدہ مطلق العنان حکمرانوں کی آہنی گرفت میں تھا۔ بے پناہ امیر اشرافیہ اور بینکار وں کی دعوتوں میں شراب پانی کی طرح بہتی تھی۔ فوجی افسران، جن کی جگہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ میدان جنگ ہونی چاہیے تھی جہاں وہ جنگ کی ہولناکیوں میں روزانہ پس رہے تھے، ان دعوتوں میں تواتر سے مہمان بنے ہوتے تھے جہاں مہنگے مول کی داشتائیں کروڑ پتیوں اور شاہی دربانوں کے شانہ بشانہ لہوو لعب میں مصروف ہوتی تھیں۔
زار شاہی دربار کے تنازعات کی تعفن زدہ بو معاشرے کے ہر کونے، ہر فیکٹری اور ہر جوہڑ میں پھیل چکی تھی۔ غلیظ جوگی راسپوٹین کو قتل کر کے انقلاب کو محلاتی سازش کے ذریعے موخر کرنے کی کاوش رائیگاں ہو چکی تھی۔ ڈوما(روسی پارلیمان) میں موجود بورژوا لبرل حزب اختلاف زار کی منتیں کرتی رہی کہ کچھ اصلاحات اوپر سے لاگو کی جائیں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔۔ سب بے سود۔ نکولاس نے نخوت سے جواب دیا:
’’یہ عوام کے اعتماد کی باتیں کس قسم کی گفتگو ہے؟ عوام کو میرے اعتماد کی فکر ہونی چاہیے۔‘‘
بغاوت
لیکن سطح پر بظاہر سکون کے نیچے انقلاب کا سالماتی عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ 1916ء کے نومبر اور دسمبر کے قدرے سکون کے بعد 1917ء کے سال کا آغاز پیٹروگراڈ میں ہڑتالوں کی نئی لہر سے ہوا۔ صرف جنوری میں 270,000لوگوں نے ہڑتالیں کی جن میں سے 177,000 افراد پیٹروگراڈ میں تھے۔ ہڑتالوں کے ساتھ ساتھ عوامی اکٹھ اور مظاہرے ہو رہے تھے۔ یہ عوام کی عمومی تحریک کی شروعات تھیں۔
23فروری کا دن فیصلہ کن ثابت ہوا۔۔ جو کہ جولئین کیلنڈر کے مطابق، جس کو 1918ء تک روس میں استعمال کیا جاتا تھا، خواتین کا عالمی دن تھا اور اس تحریر میں تمام تاریخیں اسی کیلنڈر کے مطابق ہیں۔
اس دن کی صبح کو پچیس سالہ ملاح فیودر راسکولنیکوف نے کھڑکی سے باہر دیکھا اور سوچا،’’آج خواتین کا عالمی دن ہے۔ کیا آج گلیوں میں کچھ ہو گا؟‘‘ اور کچھ ہوا۔۔ جنگ کی ہولناکی، بے پناہ مہنگائی اور برسرروزگار خواتین کی انتہائی کربناک صورتحال کے خلاف بڑے عوامی اکٹھ۔ خواتین نے فیکٹریوں کی طرف مارچ کرتے ہوئے محنت کشوں کو باہر نکالا۔ پیٹروگراڈ شہر کے انگ انگ سے زندگی پھوٹ رہی تھی۔ جس بجلی کی تیزی کے ساتھ خواتین اور نوجوان تحرک میں آئے اس سے سرگرم سیاسی کارکن بھی ششدر رہ گئے۔
اگلے دن پیٹروگراڈ کے آدھے محنت کش، 200,000مزدور، ہڑتال پر تھے۔ فیکٹریوں میں دیو ہیکل اکٹھ اور مظاہرین کا بے پناہ ہجوم سڑکوں پر تھا۔ عوام کے ہجوم پولیس اور فوج کو پرے دھکیلتے ہوئے ’’روٹی‘‘، ’’امن‘‘ اور ’’ آمریت مردہ باد!‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے شہر کے وسط میں پہنچ گئے۔ انقلاب شروع ہو چکا تھا اور اس نے فوراً دیو ہیکل تحرک اختیار کرتے ہوئے اپنے راستے میں آ نے والی ہر شے کو اڑا کر رکھ دیا۔
زار نے ذاتی حیثیت میں اس حکم نامے پر دستخط کئے جس کے مطابق احتجاجی مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم تھا تاکہ ’’دارالحکومت میں کل کسی تعطل کے بغیر شورش کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔‘‘ 25 فروری کو کچھ سپاہیوں نے نہتے مظاہرین پر گولی چلا دی۔ شروع میں سپاہیوں نے ہوا میں گولیاں چلائیں۔ پاولووسک رجمنٹ کو محنت کشوں پر گولیاں چلانے کا حکم دیا گیا لیکن اس کے بجائے انہوں نے پولیس پر گولیاں چلا دیں۔ یہ فیصلہ کن لمحہ تھا۔ جن طاقتور قوتوں پر ریاست تکیہ کئے بیٹھی تھی اس طرح پگھل گئیں جیسے بہار کی تپش میں برف پگھلتی ہے ۔
کاغذوں میں حکومت کے پاس کافی قوتیں موجود تھیں لیکن جب فیصلے کی گھڑی آئی تو حکومت ہوا میں معلق ہو گئی۔ ایک بار جب پرولتاریہ تحرک میں آیا تو اس کا راستہ روکنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ فروری انقلاب(جیسا کہ اسے جانا جاتا ہے ورنہ 1918ء کے بعد کے کیلنڈر کے مطابق انقلاب دراصل مارچ میں رونما ہوا تھا) قدرے پر امن تھا کیونکہ کوئی سنجیدہ قوت پرانی حکومت کا دفاع کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ وسیع پیمانے پر سپاہی اور ہڑتالی ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل رہے تھے۔ محنت کش بیرکوں میں جا کر وردیوں میں ملبوس اپنے محنت کش بھائیوں سے اپیلیں کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ کوساک(Cossacks)، ایک مخصوص تربیت یافتہ فورس جسے احتجاجوں کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، بھی ناقابل اعتماد ثابت ہوئے۔ محنت کشوں کے تحرک کے سامنے گھڑ سوار کوساک خاموش کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ ان کے دائیں بائیں سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ ایک احتجاجی نے دیکھا کہ جب وہ ایک گھڑ سوار کوساک کے گھوڑے کے نیچے سے گزرا تو گھڑ سوار نے اسے آنکھ ماری۔ یہ ایک چھوٹا واقعہ ہمیں وہ سب کچھ بتانے کیلئے کافی ہے جو ہم جاننا چاہتے ہیں۔
دوہری طاقت
27فروری کے بعد دارلحکومت کا بیشتر حصہ محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا جس میں پل، گولہ بارود، ریلوے اسٹیشن، ٹیلی گراف اور پوسٹ آفس شامل تھے۔ 1905ء کے تجربات کی روشنی میں محنت کشوں نے سوویتیں(محنت کشوں کی پنچایتیں) تشکیل دیں تاکہ سماج کے نظام کار پر گرفت مضبوط کی جائے۔ مارچ تک طاقت سے محروم زار نکولاس تخت چھوڑ چکا تھا اور رومانوف شاہی خاندان قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔ طاقت محنت کش طبقے اور سپاہیوں کے ہاتھوں میں تھی لیکن نظریاتی قیادت کے فقدان کی وجہ سے وہ انقلاب کو منطقی انجام تک نہ پہنچا سکے۔ یہی فروری انقلاب کا بنیادی تضاد تھا۔
سوویت ایگزیکٹو کمیٹی میں اکثریت رکھنے والی اصلاح پسند قیادت (سوشلسٹ انقلابی’ایس۔آر‘ اور منشویک) کے پاس طاقت کے حصول کا کوئی تناظر نہیں تھا بلکہ وہ ہیجان زدہ ہو کر طاقت بورژوازی کے قدموں میں ڈالنے کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کیلئے بیتاب تھے حالانکہ بورژوازی کا انقلاب میں کوئی کردار نہیں تھا اور انقلاب کی شدت سے ان کی جان نکلی جا رہی تھی۔ مذہبی اعتقاد کی حد تک یہ یقین رکھتے ہوئے کہ بورژوازی ہی وہ واحد طبقہ ہے جو راج کرنے کے قابل ہے، وہ (ایس۔آر اور منشویک) حتی الامکان کوشش کر رہے تھے کہ محنت کشوں اور سپاہیوں کے ہاتھوں چھینی ہوئی طاقت کو جلد از جلد بورژوازی کے ’’روشن خیال‘‘ حصے کو منتقل کر دی جائے۔
لیکن ان لبرلز کی سماج میں کوئی حقیقی عوامی بنیادیں نہیں تھیں۔ بڑے دھندوں اور کاروباریوں کے نمائندوں کو یہ واضح تھا کہ وہ اقتدار کو سوویت قیادت کے بل بوتے پر ہی قائم رکھ سکتے ہیں۔ پرانے نظام کے حواریوں کو یقین تھا کہ یہ صرف ایک عارضی بندوبست ہے۔ عوام اپنے پاگل پن کے بوجھ تلے تھک جائے گی۔ تحریک کے مرنے کے بعد وہ ’’سوشلسٹوں‘‘ کے منہ پر لات مار کر نظام کو بحال کر لیں گے۔ لیکن فی الحال وہ ایک ایسی ’برائی‘ تھی جسے کسی زیادہ بڑے خطرے کے خوف سے وقتی طور پر برداشت کرنا ضروری تھا۔
لبرل بورژوازی نے فوری کنٹرول حاصل کرنے کی تگ و دو شروع کر دی۔ ڈوما کے سابق اسپیکر میخائل راڈزیانکو کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اپنے آپ کو روس کی عبوری حکومت گردانا۔ اس کمیٹی کے ایک اور معروف ممبر شلگن نے غلطی سے کمیٹی کے اصل مقاصد سے پردہ اٹھا دیا جب اس نے اعتراف کیا کہ:
’’اگر ہم طاقت اپنے ہاتھوں میں نہیں لیں گے تو ہماری جگہ اسے کوئی اورلے لے گا؛ وہ بدمعاش جنہوں نے ہر نسل کے بدمعاشوں کو پہلے ہی فیکٹریوں میں منتخب کر رکھا ہے۔‘‘
’’بدمعاشوں ‘‘سے مراد محنت کش پنچایتوں(سوویتوں) کے ممبران تھے۔ یہ فوری طور پر بننے والی پنچایتیں جدوجہد کیلئے وسیع پیمانے پر حمایت یافتہ کمیٹیاں تھیں جنہیں کام کی جگہوں پر جمہوری طریقہ کار سے منتخب کیا گیا تھا۔
عبوری حکومت
2مارچ کو باضابطہ طور پر عبوری حکومت کا انعقاد کیا گیاجس کے زیادہ تر ممبران بڑے زمیندار اور صنعت کار تھے۔ شہزادہ لووف کو وزیروں کی کونسل کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ کیڈٹ پارٹی کا سربراہ میلیوکوف وزیر خارجہ تھا۔ شوگر ملوں کا مالک اور زمیندار تیریش چینکو وزیر خزانہ تھا۔ تجارت اور صنعت ٹیکسٹائل مینوفیکچرر کونووالوف کے پاس تھی۔ امور جنگ اور بحری فوج اکتوبرسٹ گچکوف کے حصے میں آئے۔ کیڈٹ پارٹی ممبر شینگاریف کو زراعت سونپ دی گئی۔
ان رجعتی دلالوں کو سوویت نے روس کی حکومت سونپ دی! لبرلوں کا مقصد ہی یہ تھا کہ اوپر سے تھوڑی بہت مصنوعی تبدیلیاں کر کے کسی بھی طرح سے انقلاب کو روکا جائے تاکہ پرانے نظام کو جتنا ممکن ہو، بچا لیا جائے۔ اس مسخ شدہ مضحکہ خیز کھلواڑ میں محنت کشوں نے، جنہوں نے اپنا خون بہا کر رومانوف کو تخت حکمرانی سے نیچے پٹخ کر طاقت حاصل کی تھی، طاقت اپنی قیادت کو سونپی، جنہوں نے قیادت آگے لبرل بورژوازی کے قدموں میں ڈال دی، جنہوں نے پھر آگے قیادت اسی رومانوف کی جھولی میں ڈال دی۔
اس تمام تر کھلواڑ کی حقیقت محنت کشوں اور سپاہیوں پر واضح تھی، خاص طور پر سرگرم سیاسی کارکنوں پر، جن کا عبوری حکومت میں موجود بورژوا سیاست دانوں کی طرف رویہ بداعتمادی کی منازل تیزی سے طے کر رہا تھا۔ لیکن وہ اپنی قیادت پر اعتبار کرتے تھے، منشویک اور ایس آر، ’’معتدل سوشلسٹ‘‘ جو سوویت ایگزیکٹوکمیٹی میں اکثریت میں تھے، جن کا پیغام صبر تھا، جمہوریت کا تحفظ تھا، دستور ساز اسمبلی کا قیام تھا، وغیرہ وغیرہ۔
سوویت میں بھاری اکثریت رکھنے والی منشویک اور ایس آر قیادت بالشویکوں پر بہت سارے حوالوں سے حاوی تھی۔ ان کے پاس ڈ وما (پارلیمان) کے بڑے بڑے نام موجود تھے جنہیں عوام جنگ کے دنوں سے قانونی پریس کے ذریعے جانتی تھی۔ سیاسی نابالغ محنت کش اور کسان ،جو جمہوری سراب میں ڈوبے سیاسی منظر عام پر اپنا بھرپور اظہار کر رہے تھے، ان کیلئے وہ(منشویک اور ایس آر) آسان حل کی شکل میں موجود تھے۔ منشویک اور ایس آر، لبرل بورژوازی کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔ موخر الذکر پرانے نظام کی باقیات سے چمٹے ہوئے تھے۔ محنت کش اور کسان زندگی میں پہلی مرتبہ سیاسی میدان میں اترے تھے اور اپنا راستہ تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے لیکن ان کے پاس وہ عملی تجربہ موجود نہیں تھا جس کی بنا پر وہ پر اعتمادی سے اپنی قوتوں پر انحصار کرتے۔ وہ منشویک خطیبوں اور ’’بڑے ناموں‘‘ سے مرعوب ہوکر اپنے شک و شبہات اندر ہی سمو کر خاموش رہ جاتے۔
’’اتحاد‘‘ ، ’’جمہوریت کا تحفظ‘‘ ، تمام ’’ترقی پسند قوتوں‘‘ کا اتحاد وغیرہ کے نعروں کے ذریعے وہ یہ بحث کر رہے تھے کہ محنت کش طبقہ ’’اپنے بل بوتے پر‘‘ سماج کو تبدیل نہیں کر سکتا اور وہی مایوس کن، فروعی، فضول دلیلیں اُس وقت استعمال کی گئیں جو آج بھی استعمال کی جاتی ہیں کہ محنت کش سماج کو تبدیل کرنے کی طاقت سے محروم ہیں اور انہیں ہمیشہ کیلئے اپنے آپ کو سرمائے کی حکمرانی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ سوویتیں ’’لبرل بورژوازی پر دباؤ ڈالیں گی‘‘ تاکہ وہ محنت کشوں کے مفادات کیلئے کام کریں۔ اس طریقہ کار کے نتیجے میں’’دوہری قوت‘‘ کا خاتمہ ہو گیا۔
فروری میں بالشویکوں کے حالات
1917ء میں بالشویک پارٹی کی بڑھوتری یقینی طور پر سیاسی پارٹیوں کی پوری تاریخ میں سب سے حیران کن تبدیلی تھی۔ فروری میں پارٹی کی انتہائی قلیل ممبر شپ تھی، 15کروڑ آبادی کے ملک میں شاید 8000 ممبران۔ لیکن، اکتوبر تک بالشویک اتنے مضبوط ہو چکے تھے کہ انہوں نے اقتدار کے حصول کیلئے کروڑوں مزدوروں اور کسانوں کی قیادت کی۔
فیکٹریوں میں عام بالشویک ممبران کا عبوری حکومت کے حوالے سے شروع سے ہی شک و شبہات اور بد اعتمادی کا رویہ رہا۔ لیکن سائبیریا میں جلاوطنی سے واپس آنے والی قیادت، کامینیف اور سٹالن کے زیر اثر بالشویک قیادت کی طرف سے پیٹروگراڈ میں لی گئی سیاسی پوزیشنوں میں دائیں جانب تیزی سے جھکاؤ آیا۔ جس کا اظہار ان کے پرچے میں بھی فوری طور پر ہوا۔ 14مارچ کو پراودا کے شمارے میں، اپنی واپسی کے دو دن بعد کامینیف نے ایک اداریے میں سوال اٹھایا کہ:
’’جب صورتحال پہلے ہی برق رفتاری سے تبدیل ہو رہی ہے تو اس میں اور تیزی لانے سے کیا فرق پڑ جائے گا؟‘‘ سٹالن کی زیادہ محتاط انداز میں وہی پوزیشن تھی جو کامینیف کی تھی۔
سٹالن اور کامینیف نے ’’عوامی رائے‘‘ کے بے پناہ دباؤ کے نتیجے میں گھٹنے ٹیک دئیے تھے۔ جو سیاسی نقطہ نظر انہوں نے اختیار کیا اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ منشویکوں اور بالشویکوں کے درمیان فرق ختم ہو گیا ہے، یہاں تک کہ مارچ کی بالشویک کانفرنس میں انضمام کا سوال زیر بحث آیا۔ ظاہر ہے، اگر سٹالن اور کامینیف کی سیاسی پوزیشن کو تسلیم کر لیا جاتا تو پھر دو علیحدہ پارٹیوں کو قائم رکھنے کا کوئی سنجیدہ سیاسی جواز نہیں رہ جاتا تھا۔
سٹالن نے ایک مرتبہ منشویک اور بالشویک اختلافات کو ’’چائے کی پیالی میں بپھرا طوفان‘‘ کہا تھا۔ مارچ پارٹی کانفرنس کے دستاویزات میں ہمیں یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ:
’’سٹالن: آگے آگے بھاگتے ہوئے اختلافات کی پہلے سے پیش بندی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اختلافات کے بغیرکوئی سیاسی پارٹی نہیں ہوتی۔ ہم پارٹی میں معمولی اختلافات کی موجودگی میں اکٹھے رہ لیں گے۔ لیکن یہاں ایک سوال ہے۔۔جسے متحد کرنا ناممکن ہو اس کا اتحاد نہیں کیا جا سکتا۔ہم ان کے ساتھ ایک پارٹی ہوں گے جو زمروالڈ اور کینتھال پر متفق ہوں گے۔‘‘
اگر اس موقع پرستی کا بروقت سد باب نہ کیا جاتا تو یہ انقلاب کیلئے زہر قاتل ثابت ہوتی۔ سیاسی سمت کی تبدیلی کیلئے لینن کو 1917ء کے پورے سال پارٹی میں خوفناک لڑائی لڑنی پڑی جو آخر میں فتح پر ختم ہوئی۔ لیکن یہ سب کچھ فوراً اور آسانی سے نہیں ہو گیا۔ دور افتادہ سوئٹزر لینڈ سے لینن بڑھتی ہوئی تشویش کے ساتھ پیٹروگراڈ میں موجود بالشویک قیادت کے غلط سیاسی موقف اور اس کے اثرات کو دیکھ رہا تھا۔
لینن
زار کا تختہ دھڑن ہونے کی خبر ملتے ہی لینن نے فوراً 6 مارچ کو پیٹروگراڈ ٹیلی گراف بھیجا:
’’ہماری تدبیر: نئی حکومت پر نہ کوئی اعتماد اور نہ ہی اس کی کوئی حمایت؛ کرینسکی خاص طور پر مشکوک ہے؛ محنت کشوں کو مسلح کرنا ہی واحد ضمانت ہے؛ پیٹروگراڈشہر کے فوری کونسل انتخابات؛ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی سیاسی گٹھ جوڑ قابل قبول نہیں۔‘‘
لینن نے پراودا پر خطوط اور مضامین کی بوچھاڑ کر دی جس میں اس نے مستعدی سے مطالبہ کیا کہ محنت کش، لبرل بورژوازی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لیں۔ جیسے ہی پراودا نے اشاعت کی منظوری دی، لینن نے اپنے مشہور و معروف ’دور پار سے خطوط‘ بھیجنے شروع کر دئیے۔ ان مضامین کے مطالعے اور ان کے مارچ کانفرنس کی تقریروں سے موازنے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے ہم دو مختلف دنیاؤں میں رہ رہے ہیں۔ جب لینن کے خطوط پیٹروگراڈ کی بالشویک قیادت تک پہنچے تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ لینن اور اس کے قریب ترین ساتھیوں کے درمیان شدید تلخ اختلافات شروع ہو چکے تھے۔
بالشویک قیادت لینن کے خطوط کی وجہ سے اتنی شرمندہ تھی کہ انہوں نے خطوط کی اشاعت کو کئی دنوں تک روکے رکھا۔ جب انہوں نے دو میں سے ایک خط شائع کیابھی تو اس میں منشویکوں کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے کی مخالفت میں لینن کے لکھے گئے تمام پہرے کاٹ دئیے گئے۔ کچھ اسی قسم کا مستقبل لینن کے باقی مضامین کا منتظر تھا۔ انہیں سرے سے شائع ہی نہیں کیا گیا اورکچھ کو انتہائی مسخ شدہ حالت میں شائع کیا گیا۔
پراودا کے شمارے نمبر 27 میں کامینیف لکھتا ہے:
’’جہاں تک کامریڈ لینن کی عمومی حکمت عملی کا تعلق ہے تو ہم اس سے متفق نہیں ہیں، خاص طور پر اس مفروضے سے کہ بورژوا جمہوری انقلاب مکمل ہو چکا ہے اور پھر اس انقلاب کی سوشلسٹ انقلاب میں تبدیلی کے مفروضے کی جانب بڑھ جاتا ہے۔‘‘ اس تحریر سے کامینیف، سٹالن اور زیادہ تر ’’پرانے بالشویکوں‘‘ کی 1917ء کے موسم بہار میں عمومی رائے کا درست اظہار ہوتا ہے۔
ٹراٹسکی
اس وقت کی سوشل ڈیموکریسی کی تمام تر قیادت میں صرف ایک شخص اور تھا جس کی سیاسی پوزیشن لینن سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھی۔ وہ شخص لیون ٹراٹسکی تھا جس کے ساتھ ماضی میں لینن کے متعدد اختلافات ہوچکے تھے۔ جب ٹراٹسکی کو پہلی مرتبہ فروری انقلاب کی خبر ملی تو اس وقت وہ نیو یارک میں جلا وطن تھا۔ اس نے فوراً’ نوی میر‘ جریدے میں سلسلہ وار مضامین لکھے۔ واقعات کے تسلسل اور منطق نے لینن اور ٹراٹسکی کو اکٹھا کر دیا۔ آزادنہ طور پر مختلف سیاسی پوزیشنوں سے ابتدا کرتے ہوئے دونوں ایک ہی نتیجے پر پہنچے: بورژوازی روس کے مسائل حل نہیں کر سکتی۔ محنت کشوں کو اقتدار پر قبضہ کرنا ہو گا۔
ایک ایسے وقت میں جب ’’پرانے بالشویک‘‘ لینن کے واضح مشورے کے باوجود تیزی سے منشویکوں کے نزدیک آ رہے تھے، لینن کے خیالات انہیں خالص ’’ٹراٹسکی ازم‘‘ لگ رہے تھے اور وہ اتنے غلط بھی نہیں تھے۔
’’تمام طاقت سوویتوں کو‘‘
بورژوا تاریخ دانوں کی طرف سے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اکتوبر انقلاب محض ایک ’’کُو‘‘ تھا جسے لینن کی قیادت میں مٹھی بھر لوگوں نے کیا جبکہ فروری انقلاب عوام کی اپنی خودرو تحریک کا نتیجہ تھا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ بعد میں ہونے والا انقلاب ایک بری چیز تھی جس کا منطقی انجام آمریت تھی جبکہ پہلا انقلاب ’’جمہوریت کیلئے‘‘ تھا۔۔پورے سماج کا رضامندانہ تحرک۔ یہ دونوں مفروضے جھوٹ ہیں۔ وہ تاریخ دان، جو کسی واقعہ کے رونما ہو جانے کے بعد اچانک دانشمند ہو جاتے ہیں، اب یہ کہتے ہیں کہ اگر فروری انقلاب کو بالشویک ’’مسخ‘‘ نہ کرتے تو روس میں ایک جمہوری جنت وجود میں آ جاتی اور پھر بعد میں رونما ہونے والے تمام مسائل سے بچا جا سکتا تھا۔ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے۔ سال میں آگے آنے والے کارنیلوف کے واقعے نے ثابت کر دیا کہ دوہری طاقت کا اسقاط صورتحال کو کس طرف لے کر جا رہا تھا۔ عبوری حکومت محض ایک سراب تھی جس کی آڑ میں بکھری ہوئی رجعتی قوتیں اکٹھی ہورہی تھیں۔ روسی عوام کے سامنے سوال جمہوریت یا آمریت کا نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ محنت کشوں یا رجعتی قوتوں، دونوں میں سے کون اقتدار پر قابض ہو گا۔
سچائی یہ ہے کہ فروری میں ہی طاقت ر وسی محنت کشوں اور کسانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ اگر سوویت قیادت فیصلہ کن اقدام کرتی تو انقلاب خانہ جنگی کے بغیر امن و سکون سے اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا کیونکہ سوویتوں کو سماج کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ سوویتوں کی اصلاح پسند قیادتوں کی دھوکہ دہی اور بزدلی وہ واحد وجہ تھی کہ روس میں فوری طور پر ایک پر امن انقلاب نہیں ہوا۔
سوویتوں میں اصلاح پسند پارٹیاں، منشویک اور ایس آراکثریت میں جبکہ بالشویک اقلیت میں موجود تھے۔ اسی لئے لینن نے نعرہ دیا ’’تمام طاقت سویتوں کو۔‘‘ اصل کام اقتدار پر قبضہ کرنا نہیں تھا بلکہ اس اکثریت کی حمایت حاصل کرنا تھا جن کی اصلاح پسندوں کے حوالے سے خوش فہمیاں تھیں۔
اقتدار پر قبضہ کرو!
مارچ سے لے کر اکتوبر کی مسلح سرکشی تک، لینن اصرار کرتا رہا کہ سماج کی پر امن تبدیلی کی ضمانت کیلئے سوویتوں کی اصلاح پسند قیادت کو اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا۔ لینن نے ضمانت دی کہ اگر اصلاح پسند قیادت اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیتی ہے، تو پھر بالشویک اپنے آپ کو سوویتوں میں اکثریت حاصل کرنے کی پر امن جدوجہد تک محدود کر لیں گے۔ منشویک اور ایس آر نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ ہر صورت صرف بورژوازی کو حکمرانی کرنی ہے۔ اس سوچ کی وجہ سے ناگزیر طور پر رجعت کو آگے بڑھنے کا موقع مل گیا۔ عبوری حکومت کے پلو پیچھے حکمران طبقہ منظم ہو کر انتقام کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اس کا نتیجہ ’’جولائی کے دنوں‘‘ کی رجعت میں نکلا۔ محنت کشوں کو ایک شکست ہوئی، بالشویکوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی اور لینن کو فن لینڈ میں روپوش ہونا پڑا۔
اس تمام تر صورتحال کی وجہ سے رد انقلاب کیلئے راہ ہموار ہو گئی۔ جنرل کارنیلوف نے انقلاب کو کچلنے کیلئے پیٹروگراڈ کی طرف پیش قدمی کی۔ بالشویکوں نے ایک متحدہ فرنٹ کے ذریعے کارنیلوف کو شکست فاش دینے کا نعرہ بلند کیا۔ یہ واقعہ روسی انقلاب میں اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ عبوری مطالبات کے بروقت استعمال کے ساتھ (امن، روٹی اور زمین، تمام طاقت سوویتوں کیلئے) اور لچکدار طریقہ کار (متحدہ فرنٹ)کے ذریعے بالشویک سوویتوں میں محنت کشوں اور سپاہیوں کی اکثریت کو جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد ہی لینن نے اقتدار پر قبضے کا نعرہ آگے بڑھایا جس کے نتیجے میں 7نومبر 1917ء (جدید کیلنڈر کے مطابق)کو بالشویک فتح یاب ہوئے۔
اکتوبر انقلاب ایک کُو نہیں بلکہ تاریخ کا سب سے زیادہ جمہوری اور عوامی حمایت یافتہ انقلاب تھا۔ اگر بالشویک اقتدار پر قبضہ نہ کرتے تو پھر روسی انقلاب کا بھی وہی حال ہوتا جو اس سے پہلے پیرس کمیون کا ہوا تھا۔ روسی فاشزم مسولینی (اطالوی فاشسٹ) سے پانچ سال پہلے اقتدار میں آ جاتا۔ اس کے بجائے روسی محنت کشوں اور کسانوں نے سوویتوں کے ذریعے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے نسل انسانی کے سامنے نئی امیدیں اور نئے راستے کھول دئیے۔ تاریخ کی عظیم ترین انقلابی پارٹی کیلئے روزا لکسمبرگ کے یہ الفاظ بالشویک پارٹی کیلئے تاریخ کا فیصلہ ہیں:
’’یہ ضروری ہے کہ بالشویکوں کی پالیسیوں میں اہم کو غیر اہم سے اور جوہر کو حادثے سے علیحدہ کیا جائے۔ آج کے عہد میں، جب ہم پوری دنیا میں فیصلہ کن جدوجہدیں کر رہے ہیں، سوشلزم کے مسئلے کا سوال ماضی میں بھی اور اب حال میں بھی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ سوال صرف اِس یا اُس طریقہ کار کا نہیں بلکہ محنت کش طبقے میں تحرک کی سکت، فیصلہ کن عمل، سوشلزم کی جدوجہد کیلئے عزم کا سوال ہے۔ اس حوالے سے لینن اور ٹراٹسکی اوران کے ساتھی، وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے عالمی محنت کش طبقے کے سامنے مثال قائم کر دی؛ ابھی تک صرف یہی وہ لوگ ہیں جو ہٹن کے ساتھ کھڑے ہو کر نعرہ لگا سکتے ہیں:’’میں نے جرات کی!‘‘
’’یہی بالشویک پالیسی میں اہم اور ثابت قدم ہے۔ اس حوالے سے عالمی محنت کش طبقے کی سیاسی طاقت کے حصول کیلئے رہنمائی اور سوشلزم کو لاگو کرنے کے مسائل کو عمل میں لانے اور سرمائے اور محنت کے درمیان لڑائی کو فیصلہ کن مرحلے تک پہنچانے کیلئے ان کی خدمات تاریخی اور لافانی ہیں۔ روس میں یہ سوال صرف کھڑا ہی کیا جا سکتا تھا، اس کو حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اور اس حوالے سے ہر جگہ مستقبل بالشویزم کا ہے۔‘‘