|تحریر: زلمی پاسون|
29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے اٹھارہ مہینوں کے بعد ایک تحریری معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کا مقصد امریکی سامراج کی طرف سے مسلط کردہ طویل ترین جنگ کا خاتمہ قرار دیا جاتا ہے۔ معاہدے پر دستخط کی تقریب میں پاکستان، انڈیا، انڈونیشیا، تاجکستان، ازبکستان، ترکی اور قطر کے حکومتی نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اس معاہدے کے چار اہم نکات ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
1۔ 14 مہینوں کے اندر افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوج کا انخلاء ہو جائیگا۔
2۔ طالبان یہ ضمانت دیں گے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
3۔ 10 مارچ سے بین الافغان امن مذاکرات کا آغاز ہوگا۔
4۔ مستحکم اور مستقل جنگ بندی کرنی ہوگی۔
اس معاہدے میں یہ طے پایا ہے کہ نیٹو اور امریکی افواج کی تعداد 31,000 سے کم کر کے8,600 تک لائی جائے گی۔ جبکہ دوسری شرائط پر 135 دنوں کے اندر عملدرآمد ہونا شروع ہو جائے گا جس میں طالبان رہنماؤں کو دہشت گردی کی لسٹ سے ہٹانے کیلئے اقوام متحدہ کو درخواست دی جائے گی۔ جبکہ افغان فورسز کے ایک ہزار قیدیوں کے بدلے میں پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔دوسری طرف پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے افغان صدر اشرف غنی کا بیان سامنے آیا ہے کہ امریکہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اس بیان کے بعد طالبان نے افغان سیکیورٹی فورسز کیخلاف دوبارہ اپنی کاروائیوں کے آغاز کا اعلان کر دیاہے جس سے یہ ”تاریخی“ معاہدہ دستخطوں کی سیاہی سوکھنے سے پہلے ہی خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔
اس امن معاہدے، امریکی سامراج کی ذلت آمیز شکست اور طالبان کی خونریزی کی وجوہات کو جاننے کے لیے ہمیں قریباً دو دہائیوں سے جاری اس جنگ کو سمجھنا ہوگا، کہ اس جنگ کا آغاز کیونکر ہوا؟ اور جن طالبان کے ساتھ آج امن مذاکرات کیے جارہے ہیں، ان طالبان کے کردار اور ان کو بنانے والے سامراجیوں کے غلیظ کردار کو عوام کے سامنے لانا ہوگا۔ پچھلے 20 سال سے ان طالبان کو دہشت گرد قرار دینے والے امریکی سامراج سمیت دیگر علاقائی طاقتیں کیسے امن مذاکرات کے ٹیبل پر آگئے، ان وجوہات کو ڈھونڈنے کے لیے تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ناگزیر ہوگا۔
نام نہاد امن مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کی ٹائم لائن کچھ یوں ہے۔ 7دسمبر2019ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین مہینوں سے طالبان کے ساتھ معطل مذاکرات دوبارہ بحال کیے، اس حوالے سے صدر ٹرمپ نے 28نومبر2019ء کو افغانستان کا خفیہ دورہ کیا تھا جس میں اُس نے امریکی فوجی اڈے پر افغان صدر اشرف غنی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”طالبان افغانستان میں امن معاہدہ چاہتے ہیں“۔واضح رہے کہ7 ستمبر 2019ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے دس مہینوں سے جاری مذاکراتی عمل کو مردہ قرار دیتے ہوئے کیمپ ڈیوڈ میں طالبان سربراہان اور صدر افغانستان ڈاکٹر اشرف غنی سے طے شدہ ملاقات منسوخ کرتے ہوئے وقتی طور پر مذاکراتی عمل کو معطل کر دیا تھا۔ مذاکرات کے اس عمل سے پیچھے ہٹنے کی وجہ صدر ٹرمپ نے کابل شہر میں طالبان کی طرف سے اس خودکش حملہ حملے کو قرار دیا جس میں گیارہ عام شہریوں سمیت ایک امریکی فوجی مارا گیا تھا۔ یادرہے کہ نام نہاد امن مذاکرات کا یہ عمل گزشتہ سال کے اوائل میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہوا تھا جس میں صرف امریکی سامراج اور طالبان شامل تھے جبکہ اسکے علاوہ تیسرا فریق امریکہ کی یعنی کٹھ پتلی افغان حکومت موجود نہیں تھا۔مگر اس کے بعد حالات نے کافی حد تک کروٹ لی، جب امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے امن مذاکرات کی معطلی کے دوران کئی ہمسایہ ممالک کے دورے کیے، جبکہ طالبان نے بھی امن مذاکرات کی معطلی کے بعد روس،ایران اورپاکستان سمیت دیگر ممالک کے بھی دورے کیے۔ ان دوروں کی بنیادی وجہ دونوں فریقین کے اندرونی تضادات اور داخلی کمزوریاں ہیں۔ کیونکہ اس وقت نہ صرف امریکی سامراج کے حکمران طبقات اور اسٹیبلشمنٹ میں افغان جنگ کے مستقبل کے حوالے سے دھڑے بندی موجود ہے، بلکہ طالبان بھی آپسی تضادات کا شکار ہیں جن کا اظہار طالبان کے مختلف گروہوں کے ایک دوسرے پر حملوں سے ہوتا ہے۔ مذاکرات کے اس عمل کو سمجھنے کے لئے عالمی طور پر بدلتے ہوئے عہد کے اندر ہونے والی تندوتیز تبدیلیوں کا جائزہ لینا ضروریہے کیونکہ نام نہاد افغان امن مذاکرات کو اس پوری عالمی صورتحال سے کاٹ کر دیکھنا اور سمجھنا محض بیوقوفی ہوگی۔
2008 ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہو گئی تھی جس کا واضح اظہار 2011ء کی عرب بہار سمیت دنیا بھر میں ا بھرنے والی انقلابی تحریکوں میں ہوا۔ پچھلی پوری دہائی میں تحریکوں اور عوامی بغاوتوں کا یہ سلسلہ دنیا کے مختلف خطوں میں وقفے وقفے سے جاری رہا۔ لیکن سال 2019ء میں دنیا بھر میں پھر سے ایک بلند تر معیاری سطح پر احتجاجی تحریکوں کا آغاز ہوچکا ہے، جوکہ ہانگ کانگ سے لیکر فرانس،سوڈان سے لیکر الجزائر، ایران سے لیکر عراق اور انڈیا میں اپنا اظہار کر رہی ہیں۔مگر ان تحریکوں کو زائل کرنے اور دنیا کو بربریت کے موڑ پر لا کھڑا کرنے کے لئے عالمی بورژوازی اور سامراجی طاقتیں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کو جس تباہی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس میں عالمی و علاقائی سامراجی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر ہر روز ظلم کی ایک نئی داستان رقم کر رہے ہیں۔ مگر ان سب جرائم کی جڑ تک پہنچنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی نامیاتی زوال پذیری کے عمل کو سمجھنا ہوگا جس کی وجہ سے اس وقت ہر طرف تباہی پھیل چکی ہے اور اب 2008ء سے بھی بڑے عالمی مالیاتی بحران کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے کھلاڑی،یعنی امریکی سامراج کے کردار کو سمجھنا بھی لازمی ہے کیونکہ دنیا بھر میں اس وقت دہشت گردی،انتہاپسندی،خانہ جنگی،ظلم اور بربریت کے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری براہ راست یا بالواسطہ طور پر امریکی سامراج پر ہی عائد ہوتی ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران اور شکست وریخت کی وجہ سے امریکی سامراج بھی بتدریج کمزور ہو رہا ہے،گو کہ ابھی بھی وہ کرہ ارض کی سب سے بڑی اور رجعتی سامراجی قوت ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اس وقت تحفظاتی پالیسیوں کے ذریعے خود کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے جس میں چین سمیت یورپی یونین اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی جنگ اہم مثال ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں اٹھنے والی احتجاجی تحریکوں پر امریکہ اور چین اپنے تضادات ومفادات کی روشنی میں اثر انداز ہونے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتے۔ لیکن ان تمام حالات میں امریکی سامراج کا بڑھتا خصی پن کھل کر عیاں ہوا ہے جس کی مثالیں شام میں روسی سامراج کے آگے گھٹنے ٹیکنا،شمالی کوریا کے ساتھ ڈیل پر رضامند ہونا اور ایران پر حملے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے مذاکرات کی دعوت دینے سے دی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے اندر اپنی طویل ترین جنگ میں کسی فیصلہ کن کامیابی کے حصول میں ناکامی اور ماضی میں اپنے ہی تخلیق کردہ دہشت گردوں کے جتھوں (طالبان) کو مذاکرات کے لیے دعوت دینا،ان مذاکرات اور امن معاہدے کے لئے مسلسل طالبان کی پیش کردہ شرائط کو مانتے چلے جانا،درحقیقت طالبان کی طاقت کی نہیں بلکہ امریکی سامراج کے ضعف اور کمزوری کی نشانی ہے۔
افغانستان گزشتہ چار دہائیوں سے شدید عدم استحکام،جنگوں اور خانہ جنگی کا شکار رہا ہے جس کا سب سے بڑا ذمہ دار امریکی سامراج ہے۔ ان جنگوں کی وجہ سے سماجی زندگی کا ہر شعبہ متاثرہوا ہے اور ملک کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے افغانستان سے پناہ گزینوں کی ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان میں آمد کا سلسلہ پچھلے چالیس سالوں سے جاری ہے جبکہ افغانستان میں مقیم لوگ ایک ایسی کرب اور اذیت سے گزر رہے ہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف اگست 2019ء کے مہینے میں جنگ کی وجہ سے روزانہ ہونے والی اموات کی تعداد 74 تھی جبکہ اس سے پہلے کے سال کے اسی مہینے میں یہ تعداد 30 سے 40 اموات یومیہ تھی۔ اور یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب امریکی سامراج اور طالبان کے درمیان نام نہاد امن مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔واشنگٹن پوسٹ کی حالیہ دو ہزارصفحات پر مشتمل رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی مداخلت،2001ء سے لیکر اب تک 157,000 زندگیاں نگل چکی ہے۔ افغانستان میں جاری بربریت کا سلسلہ خطے کے تمام ممالک کے لئے ایک اہم اور بنیادی سوال ہے مگر خطے کے ممالک جن میں پاکستان، ایران، سعودی عرب،چین، روس اور انڈیا شامل ہیں کو اس بربریت سے کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ انہیں اپنے اپنے سامراجی عزائم عزیز ہیں، جن کی تکمیل کے لئے مظلوم افغان عوام کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ امریکی سامراج کی امداد سے افغانستان کو ایک مستحکم ریاست بنانے کا خواب دیکھنا شروع سے ہی محض اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا، اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر اشرف غنی جیسی سامراجی کٹھ پتلی کی سربراہی میں افغانستان ایک مستحکم ملک بن جائے گا تو اُن کے لیے عرض ہے کہ سرمایہ داری کی زوال پذیری اور اس کی تاریخی متروکیت کا اگر اندازہ لگانا ہے تو اس نظام کی ماں (برطانیہ) اور باپ (امریکہ) سمیت یورپی یونین،چین اور جاپان کی معاشی گراوٹ،سماجی انتشار،عوامی غصے اور سیاسی اتھل پتھل کو دیکھیے، کہ وہاں پر کیسے حالات ہیں، مگر ان لوگوں کی ناسمجھی پر ترس آتا ہے، کیونکہ یہ لوگ افغانستان کو کسی اور سیارے کا ملک سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ افغانستان میں برسرِ پیکار علاقائی سامراجی ممالک کے عزائم کو امریکی سامراج کی مداخلت سے پیدا ہونے والی صورتحال کیساتھ جوڑ کر دیکھنے کی اشد ضرورت ہے اور یہاں پر اس پہلو کے سلسلے میں تاریخ کو سمجھنا لازمی ہے۔
1978ء میں افغانستان کے ثور انقلاب کو ناکام کرنے اور پھر سوویت یونین کی مداخلت کے بعد اس کو شکست دینے کے لیے ڈالر جہاد کے عمل کو تیز کرنے میں امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور پاکستان بھی پیش پیش تھے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہ خطہ امریکی سامراج کی ترجیحات کی لسٹ میں بہت نیچے چلا گیا اور علاقائی سامراجی طاقتوں خصوصاً پاکستان نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں اپنی مداخلت کو زبردست بڑھاوا دیا جس کے نتیجے میں 1996ء میں طالبان کی حکومت بر سر اقتدار آئی۔ 2001ء میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد ایک بار پھر امریکی سامراج کواسلحہ ساز کمپنیوں کے منافعوں میں اضافہ کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے افغانستان میں مداخلت کرنے کا موقع ملا جس میں انھوں نے دو مہینوں کے اندر طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر کے اپنی دیگر کٹھ پتلیوں کو کابل کے تخت پر بٹھا دیا۔ اس صورتحال کو دنیا بھر کے لبرلز اور پاکستان میں موجود قوم پرستوں نے سراہتے ہوئے امریکی سامراج کی حمایت میں جلسے جلوس منعقد کیے۔ ان کا یہ بیوقوفانہ خیال تھا کہ امریکہ، افغانستان کو ایک مضبوط اور مغربی طرز پر ترقی یافتہ ملک بنا کر ان کے حوالے کرے گا۔ جبکہ 18 سال کی طویل ترین جنگ اور اذیت ناک عرصہ گزرنے کے بعد عالمی اور علاقائی سامراجی طاقتوں نے افغانستان کو پتھر کے زمانے سے بھی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ان زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے بعد صدر ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے کچھ ایسے حقارت آمیز بیانات بھی دیے جن سے بیچارے لبرلز اور زوال پذیر نظریات کے حامل قوم پرست پریشان ہوگئے مگر حالات و واقعات کی درست سمجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے آج تک وہ کسی بھی حل پر نہ پہنچ سکے ہیں اور نہ ہی پہنچ پائیں گے۔
2014 ء میں نیٹو افواج نے باقاعدہ طور پر اپنے فوجی مشن کو ختم کرتے ہوئے افغانستان کے امن عامہ کی ذمہ داری نئی تشکیل کردہ افغان افواج کو دے دی۔اس کے بعد پہلے ہی سے ابتر صورت حال مزید غیر مستحکم ہونے لگی اور ایران اور روس کو اپنی مداخلت بڑھانے کا موقع ملا۔ اس صورتحال میں عوام کی نمائندہ حقیقی سیاسی قوت اور منظم طاقت کے فقدان کے باعث طالبان کی رجعتی اور عوام دشمن قوتیں اس خلا کو پر کرنے لگیں جس میں انہیں امریکہ مخالف سامراجی قوتوں ی بھرپور معاونت حاصل تھی۔ مختلف سامراجی طاقتوں کی اس بالواسطہ لڑائی میں طالبان کو ابھرنے کا موقع ملاجس کا اظہار انہوں نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں بڑے حملے کرنے، امریکی اور افغان فوج کو شدید نقصان پہنچانے اور مختلف علاقوں پر وقتی طور پر قبضہ کرنے سے کیا۔ اس دوران طالبان بھی مکمل طور پر کسی بڑے علاقے پرقبضہ کر کے وہاں اپنی باقاعدہ حکومت تشکیل نہیں دے سکے اور مسلسل داخلی لڑائیوں کا شکار رہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے 70فیصد علاقوں میں طالبان کھلے عام متحرک ہیں، یہاں پر یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ طالبان کی طاقت کیا ہے؟ اس سوال کا انتہائی آسان جواب یہ ہے کہ طالبان کی طاقت کا راز امریکی سامراج کی کمزوری ہے اور یہ کمزوری سرمایہ داری کے نامیاتی زوال اور عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے ہے جس کی وجہ سے امریکی سامراج دنیا بھر میں وہ اثرورسوخبنانے میں ناکام نظر آ رہا ہے جسکا وہ پہلے اظہار کرتا تھا۔ اسی کمزوری کی باعث دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سامراج کے ایما پر بننے والا ورلڈ آرڈر بھی ٹوٹ کر بکھر چکا ہے اور امریکی سامراج دنیا بھر میں اپنے کیے گئے معاہدوں سے دست بردار ہو چکا ہے یا کسی طرح ان سے نکلنے کا سوچ رہا ہے۔ ایسے میں افغانستان کے اندر جو حالات بن چکے تھے اس میں امریکی سامراج شکست کا سامنا کر رہا تھا۔ افغانستان سے نکلنے کیلئے طالبان کے ساتھ 2018ء کے آواخر اور سال2019ء کے اوائل میں شروع ہونے والے نام نہاد”افغان امن مذاکرات“ اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں۔ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ صدر ٹرمپ کے انتخابی وعدوں میں ایک اہم وعدہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ کے سخت گیر دھڑے کے تحفظات کے باوجود اس عمل کو انتہائی تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا گیا۔ مگر یہ عمل اپنے آغاز میں ہی اختلافات کا شکار ہوگیا جب طالبان نے افغان حکومت کو اس مذاکراتی عمل میں فریق بنانے سے واضح طور پر منع کر دیا،جس سے ٹرمپ انتظامیہ اور امریکی کانگریس میں تضادات ابھرنے لگے مگر صدر ٹرمپ نے پھر بھی ان مذاکرات کو شروع کیا جس کے سلسلے میں اگلے دس مہینوں کے اندر قطری شہر دوحہ میں مذاکرات کے 9 راؤنڈ ہوئے۔ آخری راؤنڈ میں مسودہ تیار کر لیا گیا تھا جس پر دستخط ہونے تھے اور کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں اور صدر افغانستان ڈاکٹر اشرف غنی کی ٹرمپ سے ملاقات ہونی تھی لیکن صدر ٹرمپ نے 7 ستمبر کو ایک ٹویٹ کے ذریعے اس مسودے کو مردہ قرار دیتے ہوئے تمام عمل کو معطل کر دیا۔ اور جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ منسوخی کی وجہ کابل میں ایک دھماکے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کو قرار دیا گیا۔ مگر صرف یہ وجہ اس پورے عمل کو منسوخ کرنے کیلئے کافی نہیں کیونکہ گزشتہ دس مہینوں میں جاری مذاکرات کے دوران طالبان نے اپنی مسلح کارروائیوں میں تیزی لاتے ہوئے افغان فوج،حکومت اور امریکی و نیٹو افواج پر بھی حملے تیز کئے رکھے تھے جبکہ دوسری طرف امریکی بمباری بھی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی شدت اختیار کر چکی تھی۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا گوبظاہر ایک سادہ عمل لگتا ہے،مگر درحقیقت یہ انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہے۔ کیونکہ طالبان افغانستان میں اس وقت گراؤنڈ پر موجود ایک مسلح قوت ہیں، مگر ان کے اندر گروہ بندی اور دھڑے بندی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اور اس دھڑے بندی کا واضح اظہار طالبان کا آپس میں مذاکرات پسند اور مذاکرات مخالف گروہوں میں بٹ جانا ہے، جس کے نتیجے میں اگست2019ء کے مہینے میں ہرات میں مُلا رسول اور مُلا ہیبت اللہ کے گروہوں میں خونی تصادم کے نتیجے میں 34 کے قریب جنگجو ہلاک ہوئے،جبکہ اگست 2019ء ہی کے مہینے میں کلی قاسم کچلاک بلوچستان، گردی جنگل بلوچستان میں انہی گروپوں کے تصادم میں بھی کئی طالبان ہلاک و زخمی ہوئے۔جبکہ ہرات کے مقامی حکام کے مطابق طالبان کے آپسی لڑائیوں میں 600 سے زیادہ طالبان صرف ہرات میں ہی ہلاک ہوچکے ہیں۔مُلا عمر کے قریبی رشتہ داروں کا ایک دھڑا مُلا ہیبت اللہ کو امیر ماننے سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ وہ مُلاہیبت اللہ کے دھڑے کو روس،پاکستان اورایران کے دلال سمجھتے ہیں۔ مبینہ طور پرانہی اختلافات کے بنیاد پر مُلاعمر کے بیٹے مُلا یعقوب کو پشاور کے سفید پوش علاقے حیات آباد میں مارا گیا۔ گوکہ ان تمام تر اختلافات کو مدِنظر رکھتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا مشکل تھا مگر امریکی سامراج نے پاکستان کو یہ ٹاسک سونپ دیا،گوکہ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان،افغانستان سے امریکی سامراج کا مکمل انخلاء نہیں چاہتا اوراس کے ساتھ ساتھ طالبان پر بھی اس کا ماضی جیسا اثر ورسوخ نہیں رہ گیا، مگران تمام تر مشکلات کے باوجودمذاکرات کا آغاز ہوگیا۔ پاکستان کے طالبان پر کمزور پڑتے اثرو رسوخ کا ایک اظہار طالبان کی آپسی دھڑے بندیوں کی شکل میں ہوتا ہے، جبکہ موجودہ مذاکرات کے معاہدے کے بعد سابق طالبان سفیر ملا سلام ضعیف نے وائس آف امریکا کو ایک انٹرویو بھی دیا جس میں اس نے پاکستان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کے حوالے سے متنبہ کیا۔ اس سلسلے میں ان حقائق کا جاننا بھی ضروری ہے جو کہ پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات کی بدلتی نوعیت کی وجہ بنے ہیں۔اس حوالے سے عالمی وعلاقائی طور پر تندوتیز تبدیلیاں اور عالمی مالیاتی بحران سب سے پہلا عنصر ہے جس کی بنیاد پر مختلف عالمی و علاقائی سامراجی ممالک کے تعلقات میں پچھلے کچھ عرصے میں بہت بدلاؤ آیا ہے،اور ہر ملک اپنے مفادات کو فوقیت دیتے ہوئے نئے تعلقات استوار کررہا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں امریکی سامراج نے پاکستانی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات تبدیل کیے ہیں اور خطے میں انڈیا کو وہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار کر رہا ہے جو کہ ایک وقت میں پاکستان کا کردار تھا۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی ریاست نے چینی سامراج کے ساتھ قربتیں بڑھا دیں مگر بہت جلد عیاں ہونے لگا کہ امریکی سامراج کا طوق اتار پھینکنا اور مکمل طور پر چینی سامراج پر انحصار کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ جہاں امریکہ اپنی تمام تر گراوٹ کے باوجود ابھی اتنا بھی کمزور نہیں ہوا تھا وہیں چینی سامراج بھی یہ بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے پاکستانی ریاست نے اپنی طرف سے سرتوڑکوششیں کیں، اور بالآخر اس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کر لی مگر پاکستانی سامراجی ریاست سے یہ سب کچھ کروانے میں ملکی معیشت کے بحران،آئی ایم ایف کے قرضوں پر انحصار اورFATF کی لٹکتی تلوار نے ایک بنیادی کردار ادا کیا۔ ایک اور اہم نکتہ قابل غور ہے کہ طالبان بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہوئے ہیں یعنی پہلے اُن کا صرف پاکستان اور سعودی عرب پر انحصار تھا مگر بدلتے عہد کے ساتھ طالبان نے روس، چین، ایران اور انڈیا تک رسائی حاصل کرنے کی کامیاب کوششیں کیں اور خاص کر روس اور ایران کے کافی قریب آ گئے۔ گزشتہ سال امریکی سامراج سے مذاکرات معطل ہونے کے بعد طالبان کے ایک وفد نے روس اور ایران کا دورہ بھی کیا جس کی افغان حکومت نے شدید مذمت کی تھی۔ مگر یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ اپنی تمام تر دوغلی پالیسیوں کے باوجود طالبان پر پاکستانی اثرورسوخ اگرچہ کم ہوا ہے مگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ جبکہ دوسری جانب افغانستان میں کئی ایک بڑے وارلارڈز (War Lords) بھی ایک الگ گروپ کی شکل میں افغان حکومت کے خلاف موجود ہیں جو کہ ماسکو میں طالبان کے ساتھ کئی بار مذاکرات کر چکے ہیں۔ان وارلارڈز (War Lords) کے تعلقات روس، ایران اور ترکی سمیت خطے کے دیگر سامراجی ممالک کیساتھ قائم ہیں۔ مگر افغان حکومت کو اس مذاکراتی عمل کا حصہ نہ بنانا جہاں ایک طرف طالبان کی مرضی کے مطابق ہوا ہے وہیں دوسری طرف اس حوالے سے پاکستانی ریاست اور امریکی سامراج کی خاموشی بھی کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ 28 ستمبر کو افغانستان میں صدارتی انتخابات ہوئے جن کے نتیجے میں کئی ماہ کی کھینچا تانی کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی دوبارہ صدر بنا، مگر ساتھ ہی صدارتی امیدوار اور سابقہ چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے نہ صرف انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا بلکہ اس نے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد اپنے حمایت یافتہ ضلعوں میں متوازی حکومت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے مختلف اضلاع کے لیے اپنے گورنر وغیرہ کا انتخاب کیا۔ اشرف غنی مخالف تمام اُمیدواروں نے انتخابی نتائج کو مکمل طور مسترد کیا۔ اب یہاں پر یہ کھل کر سامنے آرہا ہے کہ افغانستان میں عبداللہ عبداللہ اور وار لارڈز کے روس، چین، ترکی، اور ایران کیساتھ قابل ذکر روابط موجود ہیں۔ ان انتخابات کو امریکی سامراج کی ترجیحات میں تبدیلی اور طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکرات کے نقطہ نظر سے دیکھنا اہم ہے۔ کئی ماہ کے تعطل کے بعد اشر ف غنی کا صدر بننا اس بات کو کافی حد تک درست ثابت کرتا ہے کہ موجودہ صدر کی سلیکشن میں طالبان کی منشاء بھی کسی حد تک شامل تھی۔ جبکہ اب بھی اشرف غنی کا کابینہ کا اعلان نہ کرنا اس امر کو مزید تقویت دیتا ہے کہ حکومت میں طالبان کو اہم حصہ دیا جاسکتا ہے، جوکہ عبداللہ عبداللہ، حامد کرزئی، رشید دوستم اور دیگر وار لارڈز کا اس پورے مذاکراتی عمل سے دوری اور اس کے لئے ناپسندیدگی کی غمازی کرتا ہے۔
اب واپس آتے ہیں مذاکرات کیجانب تو سب سے پہلے مذاکراتی عمل کی چار اہم شرائط جن میں غیر ملکی افواج کا مکمل انخلاء، افغانستان کو دہشتگردی کیلئے استعمال نہ کرنے کی ضمانت، تیسری شرط امریکہ کے نکلتے ہی افغان حکومت سے مذاکرات،ا مریکی سامراج کا انسداد دہشت گردی کے لیے چھوٹے فوجی یونٹس افغانستان میں بر قرار رکھنا شامل ہیں۔ ان شرائط کو اگر ہم سمجھنے کی کوشش کریں تو سب سے پہلے یہ واضح نظر آتا ہے کہ افغانستان سے امریکی سامراج مکمل انخلا نہیں کرے گا،کیونکہ افغانستان میں امریکی افواج کا رہنا اور اس کے فوجی اڈوں کی موجودگی سٹریٹجک اعتبار سے اہم ہے،بلکہ اگر یوں کہیں کہ ایران،روس اور چین کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات اور خطے میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے کے لیے افغانستان میں کسی نہ کسی حد تک اپنی موجودگی کو برقرار رکھنا امریکی سامراج کے لیے ناگزیر ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ جبکہ دیگر شرائط بھی قابل عمل نہیں سمجھی جا سکتیں کیونکہ داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکنا طالبان کے بس کی بات نہیں ہے۔ان شدت پسند تنظیموں کا خام مال یعنی (افرادی قوت) طالبان سے ناراض اور فراری لوگ ہیں جبکہ اپنے اپنے مفادات کے لئے انہیں مختلف سامراجی قوتوں کی حمایت بھی دستیاب ہو سکتی ہے جن میں خود امریکی سامراج بھی شامل ہے۔ افغان حکومت سے مذاکرات کے سلسلے میں ہمیں تاریخ کے جھروکوں کو دیکھنا ہوگا جب 1989ء میں سوویت یونین کے انخلاء کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوا، تب امریکی سامراج، سعودی عرب اور پاکستان کے حمایت یافتہ مجاہدین نے ڈاکٹر نجیب کی حکومت کو ہٹانے کی کوشش شروع کرتے ہوئے ایک نئی خانہ جنگی کو جنم دیا جس کا نتیجہ 1996ء میں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کی صورت میں نکلا۔مگر اس دفعہ منظر اگرچہ افغانستان سے سوویت انخلا کے بعد والی صورتحال جیسا نہیں ہے، مگر اس کے بالکل برعکس بھی نہیں ہے۔ اس وقت خطے کے دیگر سامراجی ممالک بھی طالبان کو مکمل حکومت دینے کے حق میں نہیں ہیں، اور نہ ہی طالبان ایسی پوزیشن میں ہیں، بلکہ افغانستان کے اندر ایک مخلوط اقتدار جس میں سب اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں،کے حق میں ہیں اورہر علاقائی طاقت اپنے پروردہ گروپ کو اس مخلوط حکومت میں سب سے طاقتور دیکھنا چاہتی ہے۔ اور ممکن بھی یہی ہے کہ امریکی سامراج اشرف غنی کیساتھ طالبان سمیت دیگر ناراض وار لارڈز کو کسی طرح حکومت میں بٹھا کر موجودہ عراق جیسی ایک انتہائی غیر مستحکم ریاست میں غیر مستحکم حکومت انسٹال کرکے افغانستان سے جان چھڑالے، کیونکہ اس وقت امریکی سامراج معاشی حوالے سے جس نہج پر پہنچ چکا ہے، وہاں پر مزید وہ اس جنگ کی طوالت کو برداشت نہیں کرسکتا۔گو کہ اس طرح کا کوئی ارینجمنٹ بنانا بھی کوئی آسان کام ہر گز نہیں ہو گا۔
اس سے پہلے 2019ء میں جب امریکی سامراج نے مذاکرات معطل کئے تھے تو اس کی بنیادی وجوہات میں ایک طرف اگر امریکی سامراج کے مختلف ادارے جیسے کہ سی آئی اے اور پینٹاگون ان مذاکرات کی طرز سے خوش نہیں تھے،جس میں طالبان کی طرف سے افغان حکومت کو مذاکرات سے باہر کرنے کی شرط بھی شامل تھی، جبکہ دوسری طرف ٹرمپ کے روایتی حربے تھے جن میں وہ پہلے ایسے حالات بنا دیتا ہے، کہ لبرلز اور نام نہاد بائیں بازو کے وہ تجزیہ نگار جو معروضی حالات سے کٹے ہوتے ہیں انہیں ٹرمپ کی دھمکیوں سے جنگ کی بو آنے لگتی ہے، مگر یہ سب صرف مخالف پر دباؤ بڑھا کر ایک اچھی ڈیل لینے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات، چینی سامراج کے ساتھ تجارتی جنگ اور ایران کے ساتھ مجوزہ مذاکرات کی دعوت اہم مثالیں ہیں۔ ان مذاکرات کی معطلی بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے طالبان پر دباؤ بڑھا کر ان کی شرائط کو کم کرانے یا نرم کرانے کی کوشش ہی تھی مگر اس میں ٹرمپ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ اٹھارہ مہینوں سے جاری رہنے والے مذاکرات میں امریکی سامراج وہ حاصل نہ کر سکا جس کی اسے امید تھی۔ نام نہاد امن مذاکرات کے حوالے سے خطے کی دیگر طاقتیں جن میں پاکستان، ایران، چین، ترکی، سعودی عرب اور انڈیا بھی سرگرم تھے مگر انکی اپنی محدودیت تھی جس کی وجہ سے وہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے قاصر تھے۔ اس صورتحال میں روس کا کردار بھی ایک محدود پیمانے پر موجود ہے مگر امریکی مخالفت کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی اتنی سکت نہیں رکھتا کہ اتنے پیچیدہ تضادات کو حل کر سکے۔ طالبان کی طرف سے روس کے دورے کا مقصد صرف امریکی سامراج پر مذاکرات کے عمل کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے دباؤ ڈالنا تھا، روس کے دورے کے بعد روسی خصوصی ایلچی برائے افغانستان کے اعلامیے میں انہوں نے مذاکرات کی بحالی اور غیر ملکی افواج کے انخلا پر زور دیا تھا۔ اس سے ہٹ کر اعلامیہ میں ایسا کچھ نہیں تھا جوکہ امریکی سامراج کے لیے دردِ سر ہو۔
افغانستان جو کہ پچھلے چالیس سالوں سے مسلسل تباہی و بربریت اور ظلم کا سامنا کر رہا ہے مگر اس طرح کے نام نہاد مذاکرات سے افغانستان کا مسئلہ حل ہونے کی امید لگانا محض خود فریبی اور سامراجی پروپیگنڈا ہے۔ اس طرح کا پروپیگنڈا یقیناً لبرل حضرات کے لیے کافی ہے جو کہ سماج کے اندر پنپنے والے تضادات کو سمجھنے سے مکمل طور پر قاصر ہیں۔ یہ وہ احمق ہیں جنہوں نے 2001ء میں امریکی سامراج کی افغانستان میں مداخلت کو نہ صرف خوش آمدید کہا تھا بلکہ اس سے توقع بھی باندھی تھی کہ امریکہ افغانستان کو ایک مضبوط اور جدید ریاست بنا ئے گا۔ مگر آج 19 سال گزرنے اور تقریبا ایک ٹریلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی افغانستان کا مسئلہ نہ صرف حل نہیں ہوا بلکہ اس خطیر رقم میں بھاری بھر کم کرپشن بھی سامنے آئی، جس کی وجہ سے گزشتہ سال امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے 160ملین ڈالر کے فنڈز کو روک دیا، جبکہ اس سارے عمل میں بنیادی انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اور تباہی کیوجہ سے مظلوم افغان عوام جھلس رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر دھماکوں کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بنیادی ضروریات اور سہولیات زندگی ناپید ہیں۔ صحت، تعلیم، روزگار، پینے کا صاف پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات مظلوم افغان عوام کے لئے ایک خواب ہیں۔ بی بی سی کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق افغانستان کے ہر گھر میں اوسطاً تین افراد مارے جا چکے ہیں اور ان میں اکثریت مردوں کی ہے،جس کی وجہ سے وہاں پر بچوں کی کفالت کی ذمہ داری ان ناخواندہ خواتین کی بن گئی ہے جو کہ ایسے پسماندہ سماج میں رہ رہی ہیں جہاں پر خواتین کے کام کرنے کو ایک جرم اور گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم افغان مظلوم عوام کی مظلومیت، غربت، پسماندگی، لاعلاجی، بے روزگاری اور دیگر اہم ایشوز پر لکھنے کی کوشش کریں تو اس کے لئے ایک الگ کتاب درکار ہو گی۔
امریکی انخلاء سے لبرلز اور قوم پرست یہ سوچ رہے ہیں کہ افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی طرف چلا جائے گااور ہر طرف بربادی اور تباہی ہوگی۔ مگر یہاں پر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ امریکی سامراج کی یہاں موجودگی سے کون سی ترقی اورخوشحالی ممکن ہے بلکہ گزشتہ دو سالوں میں ہونے والی خونریزی پوری جنگ میں سب سے زیادہ ہے اور اب اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ 19 سالوں میں امریکی سامراج کے ہوتے ہوئے کونسا امن تھا اور کونسی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں؟ ان 19 سالوں میں جو بربریت سامنے آئی ہے اسکی مثال نہیں ملتی، اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 19 سالوں میں 2 لاکھ کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں، جبکہ بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے سلسلے میں آج تک کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ جو بھی اقدامات ہوئے ہیں وہ افغان عوام کے لیے انتہائی ناکافی ہیں۔ اس حوالے سے کوئی بھی پیرامیٹر اُٹھا لیں تو پتہ چل جائے گا کہ افغانستان کہاں کھڑا ہے۔طالبان کی مسلح قوت ملک بھر میں کوئی جنگ مخالف سیاسی متبادل نہ ہونے کیوجہ سے زور پکڑتی گئی ہے ورنہ افغان سماج میں طالبان کے لیے کوئی ہمدردی موجود نہیں ہے۔مگر اس موضوع پر بھی نام نہاد لبرلز اور قوم پرست اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ افغان سماج مذہبی انتہاء پسندی سے لبریز ہے،جبکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔
افغانستان کا مسئلہ اس طرح کے نام نہاد مذاکرات سے حل ہونے والا نہیں ہے اور نہ ہی اس نظام کے اندر افغانستان سمیت مشرقی وسطیٰ اور دنیا بھر کے سلگتے مسائل اور بربریت سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ افغانستان اگرچہ ایک طویل عرصے سے انتشار زدہ ہے مگر افغان سماج کے اندر عوامی ارتعاش بھی موجود ہے اور وہاں پر سامراجی مظالم اور طالبان کی غارت گری سے نجات کیلئے عوام باہر نکلے ہیں جس کی مثالیں زابل سے کابل تک امن مارچ، جبکہ طالبان کے گڑھ ہلمند کے شہر لشکرگاہ میں خواتین کے دھرنے ہیں۔ اس کے علاوہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے افغانستان بھر میں عام لوگ شروع دن سے نکلتے رہے ہیں گو کہ پی ٹی ایم کی قیادت نے آج تک امریکہ کے سامراجی مظالم اور خوخوار سرمایہ د ارانہ نظام پر چپ سادھ کر ان کیساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ افغان سماج اب اس اذیت ناک صورتحال کو مزید برداشت کرنے سے یکسر قاصر ہے اور اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اس بربادی سے کوئی جنگ مخالف عوامی تحریک ابھر آئے گی جس کی کافی عرصے سے شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اگر ایسی کوئی تحریک اٹھتی ہے تو خطے کے مظلوم محنت کش عوام کے ساتھ طبقاتی جڑت ہی اس کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔اس تحریک کو عوام دشمن اور تنگ نظر قوم پرست قوتوں اور ان کے نظریات کیخلاف بھی ایک ناقابل مصالحت لڑائی لڑنی ہو گی جو ہمیشہ اس سرمایہ دارانہ اور سامراجی استحصال کے آلہ کار بنے ہیں۔ مگر یہاں پر انقلابی قیادت کا سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے جو انقلابی مارکسزم کے نظریات سے لیس ہو ۔ افغانستان کے مظلوم عوام کی اس جبر اور بربریت سے نجات خطے کے مظلوم عوام کے ساتھ جڑت اور اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر منحصر ہے۔ ظلم کے اس نظام کو بدلنا ہوگا اور طبقاتی وقومی استحصال سے پاک ایک سوشلسٹ سماج کو تعمیر کرنا ہو گا۔مگراس کے لیے افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک میں ایک مارکسسٹ لینن اسٹ انقلابی پارٹی کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہی آج افغانستان سمیت اس خطے کے انقلابیوں کا تاریخی فریضہ ہے۔
امریکی سامراج مردہ باد!
عالمی و علاقائی سامراجی طاقتیں مردہ باد!
مظلوم افغان عوام زندہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!