|تحریر: آدم پال|
آج پوری دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے عہد سے گزر رہی ہے۔ ہر جانب حکمران طبقے کی جانب سے مسلط کردہ تباہی، بربادی اور بربریت کے مناظر نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب حکمران طبقات کے خلاف ابھرتی عوامی بغاوتیں اور انقلابات نظر آتے ہیں جن میں لاکھوں افراد اپنا سب کچھ قربان کر کے حکمران طبقے سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ فلسطین میں لاکھوں لوگوں پر مسلط کردہ اسرائیلی بربریت سے لے کر یوکرائن کی جنگ تک جہاں سامراجی طاقتوں کے مفادات کے ٹکراؤ کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جنگوں اور خانہ جنگیوں کا سلسلہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے اور اب تائیوان کے مسئلے پر ایک نئی جنگ کے بادل پورے مشرقِ بعید پر منڈلا رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف بنگلہ دیش اور سری لنکا سے لے کر کینیا تک مہنگائی، بیروزگاری اور عوام دشمن معاشی حملوں کے خلاف عوامی بغاوتیں بھی ابھرتی نظر آتی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں فلسطین کے حق میں ہونے والے لاکھوں افراد کے احتجاج سے لے کر پوری دنیا میں مزدوروں اور کسانوں کے لاکھوں کے احتجاج اور ہڑتالیں بھی اس عہد کا خاصا بن چکی ہیں۔ جنوبی کوریا میں سام سنگ کے مزدوروں کی ہڑتال سے لے کر ہانگ کانگ سمیت پورے چین میں ہونے والے ہزاروں احتجاجوں اور ہڑتالوں تک دنیا کا کوئی بھی کونا ایسا نہیں جو اس نظام کے زوال کے اثرات سے بچا ہو۔ ہر طرف نظام کا بحران پورے سماج کے تانے بانے کو ادھیڑ کر رکھ رہا ہے اور ریاستی اداروں سے لے کر سماجی زندگی، خاندان، ذاتی تعلقات اور ذہنی و نفسیاتی صحت تک ہر جگہ اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
عالمی مالیاتی بحران کی شدت بھی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ہر روز کہیں سے ایسی خبر آ جاتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ معیشت میں ایک نیا بحران امڈ آیا ہے۔ عالمی سطح پر گزشتہ عرصے میں بحران پر قابو پانے کے لیے سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سستے قرضے اور نوٹ چھاپ کر پیسہ بہایا گیا جس سے دنیا بھر کی معیشتوں کا قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ امریکہ اور یورپ جیسی ترقی یافتہ معیشتیں بھی اس قرضے تلے دب چکی ہیں۔ اسی عمل کے ناگزیر نتیجے کے طور پر افراطِ زر بڑھتا چلا گیا جس سے مہنگائی کی لہر نے تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسی دوران بیروزگاری اور دیگر مسائل کی وجہ سے عوام کا معیار زندگی بھی تیزی سے گرنے لگا اور معیشتوں کا بحران بڑھتا چلا گیا۔ اس سے نمٹنے کے لیے تاریخ کی کم ترین سطح پر موجود شرح سود کو مرکزی بینکوں کے ذریعے پھر تیزی سے بڑھایا گیا۔ اس سے شرح نمو میں کمی اور تجارت کے سکڑنے کا عمل شروع ہو گیا۔ اب پھر شرح سود میں کمی کے عمل کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اپنے تمام حربے استعمال کر کے بھی دنیا بھر کے حکمران طبقات اس معیشت کو منہدم ہونے سے ہی بچا سکے ہیں لیکن اس کو بحران سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کے اپنے تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ صورتحال ایک طویل عرصے تک جاری رہے گی۔ اس دوران بحران کے باوجود دنیا بھر کے سرمایہ دار طبقے کے منافعوں میں تو بڑے پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے لیکن عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو چکا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے اثرات پوری دنیا کی سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور ہر جانب سیاسی ہیجان، ٹوٹ پھوٹ اور کشیدگی نظر آتی ہے۔ دہائیوں اور صدیوں سے موجود سیاسی پارٹیاں ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں اور ان کی جگہ لینے کے لیے نئی سیاسی پارٹیاں، تحریکیں اور پلیٹ فارم تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ یہ رجحان دائیں اور بائیں جانب دونوں طرف موجود ہے۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس میں سیاسی ہم آہنگی اور توازن گزشتہ دہائی کی طرح موجود ہو۔ ہر جگہ دائیں اور بائیں کا یہ توازن ٹوٹ چکا ہے اور پرانی سیاست دم توڑ رہی ہے۔ اس کی جگہ ایک نئی سیاست کا جنم ہو رہا ہے جو پرانے سیاسی افق کو پھاڑ کر اپنا اظہار کر رہی ہے اور طبقاتی جنگ کی شدت کا اظہار سیاسی تحریکوں اور پارٹیوں میں کر رہی ہے۔ امریکہ سے لے کر برطانیہ اور انڈیا سے لے کر اسرائیل تک ہر جگہ پرانی سیاست کے مقابلے میں ایک نئی سیاست کا ظہور ہو رہا ہے اور ان سماجوں میں موجود طبقاتی کشمکش سیاست میں انتہا پسند رجحانات کو جنم دے رہی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں یہ طے ہے کہ پوری دنیا ایک بہت بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے اور پہلے جیسا استحکام اور روٹین موجود نہیں۔ سیاست سے لے کر معیشت تک بہت کچھ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ پر بننے والے مقدمات سے لے کر اس کی امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھلی جنگ کو ہی لے لیں تو نظر آتا ہے کہ ایسا پہلے اتنی شدت سے کبھی نہیں ہوا۔ اسی طرح 1861ء کے بعد ڈیڑھ صدی میں پہلی دفعہ امریکہ میں خانہ جنگی کی بحث چل رہی ہے۔ ٹرمپ کی صدارتی مہم کے دوران اس پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد یہ بحث مزید زور و شور سے شروع ہو چکی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگر ٹرمپ گولی سے مر جاتا تو اس کا باقاعدہ آغاز ہو جانا تھا۔ اسی طرح امریکہ سمیت تمام معیشتوں پر قرضوں کا حجم بھی کبھی نہ دیکھی گئی سطح پر پہنچ چکا ہے اور ان معیشتوں کو مسلسل بحرانوں میں دھکیل رہا ہے۔ پچھلی دہائی میں شرح سود بھی انسانی تاریخ کی کم ترین سطح پر تھی جبکہ ان مالیاتی بحرانوں میں سرمایہ داروں کی منافع خوری اور امارت اور غربت میں ایسی خلیج بھی انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ برطانیہ میں صدیوں سے موجود سیاسی پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور خود برطانوی وزیراعظم لز ٹرس صرف 49 دن وزیراعظم رہ کر چار صدی کی سب سے کم مدت تک براجمان رہنے والی وزیر اعظم بن چکی ہیں۔
اس طرح ہر ملک اور ہر شعبے کی ایک طویل فہرست ہے جس میں بہت کچھ نیا ہو رہا ہے۔ سب سے اہم گلوبل وارمنگ ہے جس کا مطلب ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس سیارے کو ہی تباہ کر رہا ہے۔ ہر سال تاریخ کے گرم ترین دن ریکارڈ کیے جا رہے ہیں اور اس سیارے کا عمومی درجہ حرارت بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں اور یہ مسئلہ یہاں رہنے والی تمام تر آبادی سمیت پورے سیارے کو موت کی جانب دھکیل رہا ہے۔ صرف ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے زہریلے مواد کے اخراج کو روکا جا سکتا ہے اور عمومی درجہ حرارت کو بڑھنے سے مزید روکا جا سکتا ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں ہر جگہ نئے عوامل دیکھنے میں آ رہے ہیں جن میں شدید گرمی کی لہریں، سیلاب، خشک سالیاں، سردی اور گرمی کے غیر معمولی ادوار اور دیگر قدرتی آفات شامل ہیں۔
اس تمام صورتحال کو کسی ایک یا چند افراد کی غلطیوں کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کسی ایک ملک کے حکمران کی نادانی یا غفلت کو بھی ذمہ دار قرار دے کر جان نہیں چھڑوائی جا سکتی۔ اگر پوری دنیا کے تمام ممالک ہی مالیاتی بحران کا شکار ہیں تو پھر ایسا بھی نہیں کہ ہر ملک میں موجود وزیر خزانہ یا مرکزی بینکوں کے سربراہ کسی ایک غلطی کے نتیجے میں یہاں پہنچے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں سطح سے نیچے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نظر آتا ہے کہ در حقیقت سرمایہ دارانہ نظام ہی بحران کا شکار ہے جس پر موجودہ تمام مالیاتی نظام اور ریاستی ادارے تشکیل دیے گئے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی سے لے کر معیشت اور سیاست تک نظام زندگی کا ہر شعبہ اور ہر پہلو ہی زوال اور بحران کا شکار نظر آتا ہے۔ اس سب کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جس کی بنیاد محنت کشوں کے استحصال پر مبنی ہے اور جو سرمایہ دار طبقے کے منافعوں میں ہوشربا اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔
آج سے ڈیڑھ سو سال قبل 1848ء میں مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں اس سارے عمل کو بیان کیا تھا اور واضح کیا تھا کہ کیسے یہ نظام پرانے تمام سماجی رشتوں کو اکھاڑتا چلا جا رہا ہے اور اس نظام کے تحت سماجی رشتے قائم کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس دوران عالمی منڈی کے قیام سے لے کر عالمی سیاست کو استوار کرنے تک اس نظام نے پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جاری یہ عمل آج پوری دنیا میں اپنی انتہا پر نظر آتا ہے اور اس نظام کا زوال بھی پوری دنیا کو تباہی اور بربادی کے کنارے لا چکا ہے۔ اسی مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز نے اس کا حل بھی پیش کیا تھا اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کو اکھاڑنے اور منافع کی ہوس پر مبنی اس نظام کو ختم کرنے کا منشور پیش کیا تھا۔ صرف ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی منڈی کی اس بے ہنگم معیشت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور پوری دنیا میں ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے بھوک، بیماری، محرومی اور ذلت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مینی فیسٹو کے آخر میں نعرہ دیا گیا تھا کہ، ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!“۔
سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد
یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد آج کس مرحلے پر ہے اور کیا دنیا میں ایسے کوئی آثار موجود ہیں کہ یہ نظام ختم ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہو۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ امریکی سامراج سمیت دنیا بھر کے حکمران طبقات انتہائی طاقتور ہیں اور وہ اس نظام کے خلاف ابھرنے والے ہر انقلاب کو کچل کر رکھ دیں گے۔ اس لیے بہت سے مایوس لوگ یہ نتیجہ بھی اخذ کرتے ہیں کہ کسی قسم کی جدوجہد کرنا ہی بیکار ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکمران طبقے کے پاس تمام تر وسائل موجود ہیں جن میں جدید اسلحے سے لیس فوجوں سے لے کر مالیاتی وسائل اور ریاستی مشینری شامل ہے جبکہ محنت کش عوام نہتے اور غیر منظم ہیں اس لیے ان کی کامیابی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو پھر انسانی تاریخ میں کبھی کوئی انقلاب برپا ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جبکہ ہمیں نظر آتا ہے کہ پوری انسانی تاریخ انقلابات سے بھری ہوئی ہے۔ انقلاب فرانس سمیت ماضی کے انقلابات کو اگر ایک طرف رکھ بھی دیں توصرف بیسویں صدی میں انقلابِ روس سے لے کر چین اور کیوبا تک انقلابات کی ایک طویل فہرست ہے۔ 1968-69ء کے عرصے میں تو فرانس سے لے کر پاکستان تک درجنوں ممالک میں عوامی تحریکیں اور انقلابات ابھرے تھے جو قیادت کی نااہلی کی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ نہیں سکے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔
اسی طرح 2011ء میں ابھرنے والے عرب انقلابات سے لے کر آج دنیا بھر میں جاری عوامی تحریکیں اس امر کی گواہ ہیں کہ حکمران طبقہ اپنے بد ترین جبر اور سماج پر بظاہر پوری گرفت رکھنے کے باوجود بھی انقلابات کو ابھرنے سے نہیں روک سکتا۔ کسی بھی ملک کا محنت کش طبقہ جب حالات زندگی کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو جائے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کو نہیں روک سکتی۔ ہم نے انہی انقلابات کے دوران بڑے بڑے بادشاہوں کے تخت گرتے دیکھے ہیں اور سماجوں کو مکمل طور پر تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ 1978ء میں ایران کا شاہ دنیا کا بظاہر سب سے مضبوط اور مستحکم حکمران تھا۔ اس کی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا شمار دنیا کی سب سے خوفناک جبر کرنے والے اداروں میں ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کے خلاف جب انقلابی تحریک ابھری تو وہ دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا اور حکمران طبقے کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ اس وقت ایران کی کمیونسٹ پارٹی نے فاش غلطیاں کیں جن کے باعث اقتدار ملاؤں کو پیش کر دیا گیا جس کے بعد ایک ردِ انقلاب کا آغاز ہو گیا اور سرمایہ دارانہ نظام اکھاڑا نہیں جا سکا۔ لیکن اس وقت ایسے حالات موجود تھے کہ ایران سے منڈی کی معیشت کو ختم کر کے سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کا آغاز کیا جا سکتا تھا۔
یہاں ایک اور سوال بھی ابھرتا ہے کہ اگر آج دنیا بھر میں عوامی تحریکیں اور انقلابات موجود ہیں تو پھر سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیوں نہیں ہو پا رہا اور جس طرح ماضی میں سرمایہ دار طبقہ مختلف حربوں سے اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہوا تھا تو وہ آج بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ صدی میں سوویت یونین سمیت دیگر منصوبہ بند معیشتوں کا انہدام بھی ایک سوالیہ نشان بن کر ابھرتا ہے اور اس پر بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ سوالات ہمیں معاملے کی بنیاد تک لے کر چلے جاتے ہیں اور ہم محنت کشوں اور بالخصوص نوجوانوں کے شعور میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر سمجھ سکتے ہیں کہ اس نظام کا زوال عوام کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے اور نظام کے خلاف ہونے والی جدوجہد کس نہج پر موجود ہے اور اسے فیصلہ کن مرحلے تک کیسے لے جایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے مختلف ممالک کی مثالوں کے ذریعے صورتحال کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔
کمیونزم کے نظریات کی مقبولیت
یہ کوئی اتفاق نہیں کہ آج پوری دنیا میں کمیونزم کے نظریات دوبارہ مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور دنیا کے سب سے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان کمیونسٹ نظریات نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ خود کو کمیونسٹ کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف سروے اور رپورٹیں شائع ہو چکی ہیں جن میں نوجوانوں سے براہ راست کمیونزم کے نظریے اور سوچ کے متعلق سوال کیے گئے اور انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کمیونزم کے نظریے کا دفاع کیا۔ ان رپورٹوں کے مطابق امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں ایسے نوجوانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فریزر انسٹیٹیوٹ کے گزشتہ سال کے ایک سروے کے مطابق 18 سے 34 سال کے وہ نوجوان جو کمیونزم کو اپنا آئیڈیل نظام مانتے ہیں ان کا تناسب برطانیہ میں 29 فیصد، امریکہ میں 20 فیصد جبکہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں 13 فیصد ہے۔ اس تناسب کا اگر آبادی کے حوالے سے حجم نکالا جائے تو یہ تعداد لاکھوں میں بنتی ہے۔ اس طرح کے دیگر بہت سے سروے بھی موجود ہیں جو اسی رجحان کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ سروے صرف چند ممالک تک محدود ہے لیکن دنیا کے اگر باقی ممالک کا سروے کروایا جائے تو وہاں بھی یہی رجحان تھوڑے بہت فرق کے ساتھ نظر آئے گا۔ اس رجحان کی بنیاد میں پھر سرمایہ دارانہ نظام کا زوال، تمام سیاسی پارٹیوں کی فرسودگی اور موجودہ نظام میں کسی بہتر مستقبل کی امید کا نہ ہونا ہے۔ اس رجحان کا اظہار مختلف تحریکوں اور عملی جدوجہد میں بھی ہوتا نظر آتا ہے۔
فلسطین کی یکجہتی میں دنیا بھر میں عوامی تحریکوں کا ابھرنا اسی عمل کا سطح پر اظہار ہے۔ یورپ اور امریکہ کے حکمران طبقات اسرائیل کی بربریت کی نہ صرف مکمل حمایت کر رہے ہیں بلکہ اس کے لیے ہر قسم کا اسلحہ اور مالیاتی امداد بھی فراہم کر رہے ہیں جس کو استعمال کر کے ہی اسرائیل فلسطینیوں پر تاریخ کے بد ترین مظالم برپا کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ چھیاسی ہزار سے زائد فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں جبکہ غزہ کی پٹی میں رہنے والے بیس لاکھ کے قریب فلسطینی در بدر ہو چکے ہیں اور بھوک، بیماری اور ذلت کا شکار ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے نوجوانوں نے یکجہتی کی بھی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور اپنی سامراجی حکومتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریک برپا کی ہے۔ اس تحریک پر بد ترین ریاستی جبر کیا گیا ہے اور جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کے حق کا دعویٰ کرنے والی ان ریاستوں نے اپنے ممالک میں جمہوری آزادیوں کو برے طریقے سے پامال کیا ہے۔
فلسطین کے حق میں اجلاس کرنے پر بد ترین پابندیاں لگائی گئی ہیں، میڈیا کو مکمل طور پر کنٹرول کیا گیا ہے، طلبہ کو یونیورسٹیوں سے بے دخل کیا گیا ہے اور جب طلبہ نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں یونیورسٹیوں پر قبضوں کا آغاز کیا تو ان پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور لاٹھی چارج، تشدد اور گرفتاریوں کے سلسلے کا آغاز کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود اس تحریک کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ لندن میں گزشتہ کئی مہینے سے ہر ہفتے لاکھوں افراد احتجاج کر رہے ہیں اور کئی احتجاجوں کا حجم دس سے بارہ لاکھ افراد تک بھی پہنچ گیا تھا۔ یہی صورتحال پیرس، برلن اور دیگر اہم شہروں کی تھی جہاں اسرائیل کی سفاکیت کے خلاف ہر قوم، مذہب، رنگ اور نسل کے لوگ شامل تھے اور تمام تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر انسانی ہمدردی اور حکمران طبقے سے نفرت کے جذبات کا کھل کر اظہار کر رہے تھے۔ اس دوران کئی ممالک میں مزدوروں کی جانب سے بھی عملی اقدام کیے گئے جب اسرائیل کو جانے والے بحری جہازوں پر سامان لوڈ کرنے یا انہیں کسی بندرگاہ سے گزرنے نہیں دیا گیا۔ اس حوالے سے اٹلی، اسپین، یونان، بیلجئیم اور دیگرممالک کی ان بندرگاہوں کے مزدور خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ آنے والے عرصے میں یہ جدوجہد اور یکجہتی کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔
نظام سے نفرت کا اظہار جہاں عوامی تحریکوں، ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں میں کھل کر نظر آتا ہے وہاں سیاسی عمل میں بھی اس کا اظہار ہوتا ہے اور دیکھا جا سکتا ہے کہ دہائیوں سے موجود سیاسی پارٹیاں اور ادارے عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں اور اب ان کی جگہ متبادل نظریات اور رجحانات والے افراد لے رہے ہیں۔ صرف سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ اب تو واضح طور پر ریاستی اداروں پر بھی کھل کر عدم اعتماد نظر آ رہا ہے اور پولیس سمیت پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر اداروں کو عوام کی اکثریت نہ صرف درست طور پر اپنا دشمن سمجھتی ہے بلکہ ان کو اکھاڑ پھینکنے کے جذبات بھی موجود ہیں۔ یہ سماجی عمل دنیا کے ہر ملک اور ہر خطے میں کم یا زیادہ شدت سے موجود ہے اور اس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہو رہا ہے۔ اس کی فوری وجہ کسی ملک کے سربراہ مملکت کی کرپشن یا غلط فیصلے ہو سکتے ہیں یا پھر کسی ایک سیاسی پارٹی کی عوام سے غداری ہو سکتی ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ نظام کا زوال اور شدید بحران ہے جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ کچھ سماجوں میں ہڑتالوں یا عوامی تحریکوں میں اس عمل کا اظہار اگر ابھی تک نہیں بھی ہوا تو یہ اخذ کرنا غلط ہو گا کہ وہاں پر عوام میں غم و غصہ موجود نہیں۔ کسی جگہ یہ دیر سے پھٹ کر تحریک کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور کہیں پر کچھ دیر پہلے لیکن عمومی رجحان تمام ممالک میں اسی جانب ہے۔
اس صورتحال کا اظہار جہاں ایک طرف کمیونزم کے نظریات کی مقبولیت میں ہو رہا ہے وہاں دوسری جانب انتہائی دائیں بازو کے رجحانات بھی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس کا اظہار امریکہ میں ٹرمپ کے ابھار سے لے کر برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو کی ریفارم پارٹی کی بڑھتی مقبولیت اور حالیہ انتخابات میں حاصل کردہ چالیس لاکھ ووٹوں سے بھی ہوتا ہے جو کُل ڈالے گئے ووٹوں کا 14فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح فرانس کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی امیدوار میری لی پین کی پارٹی نیشنل ریلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ایک تہائی ووٹ لے کر سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے جس نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا جبکہ دوسرے مرحلے میں بائیں بازو کے اتحاد اور صدر میکرون کی دائیں بازو کی پارٹی کے ساتھ موقع پرستانہ اور مصالحت پر مبنی انتخابی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے باعث اس پارٹی کو تیسرے نمبر تک محدود کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ 577 کے ایوان میں 142 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
یہ عمل بھی تقریباً تمام ممالک میں نظر آتا ہے اور انتہائی دائیں بازو کا ابھار بھی یہی واضح کرتا ہے کہ پرانے طریقوں سے اب سیاست اور سماج کو نہیں چلایا جا سکتا اور سرمایہ داری کے خونی چہرے پر موجود سوشل ڈیموکریسی اور فلاحی ریاست کا نقاب اب اتر چکا ہے۔ عوام کی اکثریت موجود ریاستی ڈھانچے اور پرانی سیاسی پارٹیوں کو رد کر چکے ہیں اور انتہائی اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں جو اس پورے نظام پر کاری ضربیں لگائیں اور اسے ملیا میٹ کر دیں۔ اسی لیے کوئی بھی سیاستدان جو دائیں یا بائیں سے انتہائی اقدامات لینے کا پروگرام پیش کرتا ہے اسے مقبولیت ملتی ہے اور جو سیاستدان پچھلی دہائیوں کی ڈگر پر منافقانہ انداز میں سیاست جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں بد ترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کا کردار
دائیں اور بائیں کے بڑھتے ہوئے تضاد میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ شدت آ رہی ہے اور جب عوام اپنی طرف سے ایک انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے کوئی فیصلہ کرتے ہیں لیکن ان کے حالات تبدیل نہیں ہوتے تو پھر وہ پہلے سے بھی زیادہ شدت سے آگے بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پہلے والے اقدام سے بھی زیادہ انتہائی اقدام کی جانب بڑھتے ہیں۔ ایک انقلابی تحریک ان کے حالات زندگی کو تبدیل نہیں کرتی تو بہت سی جگہوں پر ہمیں دوسری اور تیسری انقلابی تحریکیں ابھرتی نظر آتی ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے ابھرتی ہیں اور سماج کی مزید وسیع پرتیں ان میں شامل ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح نئے سیاسی رجحانات بھی کامیابی حاصل کرنے کے بعد جب عوام کے حالات زندگی تبدیل نہیں کر پاتے اور سرمایہ دار طبقے کے دباؤ کے تحت انہی کے مفاد میں کام کرنا شروع کر دیتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ عوام ان کو رد کر کے پہلے سے بھی زیادہ انتہا پسند رجحانات کی جانب بڑھتے ہیں۔ دنیا بھر میں کمیونزم کے نظریات کی مقبولیت تک پہنچنے کا مرحلہ بھی انہی تمام مراحل سے گزر کر آیا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں نوجوان اپنے تجربات اور پچھلی کم از کم ایک دہائی کے سیاسی عمل سے بڑی حد تک خود رو انداز میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ اسی لیے یہ نتیجہ کسی سائنسی بنیاد یا منظم انداز میں موجود نہیں اور کمیونزم کی موجودہ حمایت کی واحد وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر سماجی مسائل اور سرمایہ دارانہ نظام سے شدید نفرت ہے۔ اسی لیے یہاں پر کمیونسٹ پارٹی کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ اس عوامی غم و غصے اور کمیونزم کے نظریے کی حمایت کو ایک منظم قوت میں تبدیل کرنا اور سرمایہ داری کے خلاف ڈیڑھ صدی سے جاری جدوجہد سے ضروری نتائج اخذ کرتے ہوئے اسے آج کی طبقاتی جنگ میں کار آمد لانا ایک کمیونسٹ پارٹی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ انتہائی دائیں بازو کی قوتیں نہ صرف منظم ہیں بلکہ انہیں سرمایہ دار طبقے کے ایک حصے کی حمایت بھی حاصل ہے۔ سرمایہ دار طبقہ وقت پڑنے پر ان قوتوں کو محنت کش طبقے کے خلاف استعمال کرنے کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ اس لیے ان قوتوں کا نہ صرف سیاسی محاذ پر مقابلہ کرنا بلکہ ان کے کمیونزم پر نظریاتی حملوں کا جواب دینا اور انقلاب کی نظریاتی بنیادیں تیار کرنا بھی کمیونسٹ پارٹی کے فرائض میں شامل ہے۔
اس حوالے سے پوری دنیا میں ایک خلا محسوس کیا جا رہا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کمیونسٹ پارٹی خود رو انداز میں نہیں ابھر سکتی بلکہ اسے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے ذریعے تعمیر کرنا پڑتا ہے جس میں معاشی، سیاسی اور نظریاتی محاذ پر دشمن قوتوں کے خلاف مسلسل برسر پیکار رہتے ہوئے تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک دفعہ یہ پارٹی تمام تر مشکلات عبور کرتے ہوئے محنت کش طبقے کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو جائے تو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ابھرنے والے انقلابات کی فتح یقینی ہے۔
اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا بھر کے انقلابی کمیونسٹوں نے عالمی سطح پر انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے نام سے ایک نئی انٹرنیشنل کے قیام کا اعلان کیا ہے اور اس کے تحت دنیا بھر میں کمیونسٹ پارٹیوں کے قیام کے باقاعدہ اعلانات کیے جا رہے ہیں جنہیں ہر جگہ بڑے پیمانے پر پذیرائی مل رہی ہے۔ ان پارٹیوں کے کارکنان کی تعداد ابھی سینکڑوں میں ہے لیکن اپنے درست پروگرام اور لائحہ عمل کے باعث یہ امکانات موجود ہیں کہ آنے والے عرصے میں یہ ہزاروں اور لاکھوں میں جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اپنے اپنے ممالک میں یہ پارٹیاں انقلابی نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کا اعتماد جیتنے کی بھی کوشش کر رہی ہیں جو اس صورتحال میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تمام عمل یقینا سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا لیکن عمومی رجحان یہی نظر آتا ہے کہ ان پارٹیوں کے آگے بڑھنے کے مواقع اور امکانات جتنے آج موجود ہیں پہلے شاید کبھی بھی نہیں تھے۔
ان پارٹیوں کے سامنے بہت سے اہم سوال موجود ہیں جن کا درست جواب دیتے ہوئے ہی وہ آگے بڑھ سکتی ہیں۔ ان میں کمیونسٹ تحریک کی تاریخ پر ایک درست اور دو ٹوک مؤقف بھی اہم ہے کیونکہ کمیونزم کے دشمن اس حوالے سے بہت سے ابہام پھیلاتے رہتے ہیں اور کمیونزم کے خلاف پوسٹ ماڈرن ازم جیسے غیر منطقی فلسفوں کو پھیلانے کے ساتھ ساتھ کمیونزم کی حاصلات اور اس کی جدوجہد کی تاریخ کو بھی مسخ کیا جاتا ہے۔ جہاں پر کمیونزم کے مخالف سٹالنزم کے جرائم بھی کمیونسٹوں کے سر پر تھوپ دیے جاتے ہیں وہاں منصوبہ بند معیشت کی حاصلات پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور اسے دنیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح مستقبل میں منصوبہ بند معیشت کے ذریعے مسائل کے حل پر ابہام پیدا کیا جاتا ہے یا پھر اسے نا ممکن کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دنیا بھر کی انقلابی کمیونسٹ پارٹیاں ان سوالات کا نہ صرف جواب دے رہی ہیں بلکہ سیاسی اور نظریاتی محاذ پر تمام دشمن قوتوں کا بخوبی مقابلہ کر رہی ہیں۔ یہی وہ عنصر ہے جو ان پارٹیوں کی کامیابی کی ضمانت ہے اور کسی بھی دوسرے لیڈر یا سیاسی پارٹی کے پاس موجود نہیں۔
سوشل ڈیموکریسی اور کمیونزم
سرمایہ دارانہ نظام کو ایک طویل عرصے تک سہارا دینے والا سیاسی رجحان سوشل ڈیموکریسی ہے جو اب زوال پذیر ہے اور پوری دنیا سے اس رجحان کو شکستوں کا سامنا ہے۔ ان نظریات پر قائم سیاسی پارٹیاں رد ہو رہی ہیں اور جو لیڈر ان متروک نظریات سے ابھی تک چمٹے ہوئے ہیں انہیں بھی ناکامیوں کا سامنا ہے۔ اس سیاسی رجحان کے تحت سرمایہ دارانہ نظام کے ظالمانہ اور استحصالی نظام کو عوام کے لیے قابل قبول بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسی نظام کے اندر اصلاحات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سرمایہ داری کے تحت بھی عوام کا معیار زندگی بلند ہو سکتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جب سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے طویل ترین معاشی عروج کا دور آیا تو اس رجحان کو وسیع بنیادیں ملنی شروع ہوئیں۔ عوامی تحریکوں اور انقلابات کے خوف سے سرمایہ دار طبقے نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کے عمل کا آغاز کیا اور بہت سے سرمایہ دارانہ ممالک میں علاج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات عوام کو انتہائی سستے داموں فراہم کرنی شروع کیں۔ اس دوران سوویت یونین کی موجودگی اور چین اور کیوبا جیسے ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا عمل بھی جاری تھا اور دنیا بھر کی سامراجی طاقتیں اور سرمایہ دار طبقہ کمیونزم کے نظریات کے پھیلاؤ سے خوفزدہ تھا۔ اسی لیے سوشل ڈیموکریسی کے اصلاح پسندی یا ریفارم ازم کے نظریے کو بڑھنے کا موقع ملا اور اس نظریے پر موجود سیاسی پارٹیاں مختلف ممالک میں برسر اقتدار بھی آئیں۔
اس نظریے کی بنیادیں پہلی عالمی جنگ کے دوران استوار ہوئیں تھیں جب کمیونسٹ نظریات سے غداری کر کے دوسری انٹرنیشنل کی عالمی قیادت نے سرمایہ دارانہ نظام سے مفاہمت کر لی تھی۔ اس سے قبل سوشل ڈیموکریسی کی اصطلاح کمیونسٹوں کے لیے ہی استعمال کی جاتی تھی اور دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیاں خود کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں ہی کہتی تھیں۔ روس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی RSDLP اس کی ایک مثال ہے جس میں لینن اور ٹراٹسکی دونوں سرگرم عمل تھے۔ اس کے علاوہ جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹ پارٹی SPD بھی شامل ہے جو انیسویں صدی کے اواخر میں قائم ہوئی اور آغاز میں جس کا مقصد سرمایہ داری کا خاتمہ تھا۔
پہلی عالمی جنگ کے آغاز پر جب کاؤتسکی کی قیادت میں دوسری انٹرنیشنل نے اس سرمایہ دارانہ اور سامراجی جنگ کی حمایت کا اعلان کیا اور جرمنی سمیت دیگر ممالک کی سوشلسٹ پارٹیوں نے جنگ کی حمایت میں اسمبلیوں میں ووٹ دیا تو لینن اور ٹراٹسکی سمیت دیگر چند کمیونسٹوں نے اس سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ اسی لیے جب 1917ء میں روس کے کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے بعد ایک نئی انٹرنیشنل قائم کی گئی تو اس کام نام کمیونسٹ انٹرنیشنل رکھا گیا تاکہ کمیونسٹ واضح شناخت اور پہچان کے ساتھ دنیا بھر میں اپنا کام کر سکیں۔ اس کے بعد سے کمیونزم اور سوشل ڈیموکریسی دو مخالف رجحانات کے طور پر دنیا بھر کی سیاست میں موجود رہے ہیں۔
آج سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں سوشل ڈیموکریسی کے نظریات مقبولیت حاصل نہیں کر سکتے۔ اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے آج عوام کی حالت زار بہتر کرنا اور انہیں علاج اور تعلیم سمیت بنیادی ضروریات فراہم کرنا تو دور کی بات موجودہ صورتحال بھی برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ اس نظام کو جاری رکھنے کے لیے محنت کشوں پر بد ترین حملوں کی ضرورت ہے اور ان پر ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ ان سے بنیادی ضروریات بھی چھینی جا رہی ہیں۔ اسی لیے جہاں کہیں بھی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں بر سر اقتدار آ رہی ہیں وہ حکمران طبقے کے مفادات کے لیے یہی کام سر انجام دے رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کی رہی سہی حمایت بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ محنت کش طبقے کی حاصلات پر حملے گزشتہ پانچ سے چھ دہائیوں سے جاری ہیں۔ جیسے ہی سرمایہ داری میں معاشی چکر زوال کی جانب مڑتا ہے تو حکمران طبقہ عوام کی ماضی کی چھینی گئی حاصلات پر حملے شروع کر دیتا ہے۔ 1970ء کے عالمی معاشی بحران سے لے کر آج تک یہی عمل جاری ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی جا رہی ہے اور اب روٹی، کپڑے اور مکان جیسی بنیادی ضروریات بھی ترقی یافتہ ممالک میں مہیا نہیں کی جا رہیں۔
گزشتہ عرصے میں ترقی یافتہ ممالک میں نظام کے بحران کے باعث ابھرنے والی عوامی تحریکوں میں ایسے سوشل ڈیموکریٹک لیڈر بہت زیادہ مقبول ہوئے جو سرمایہ داری نظام پر پہلے کی نسبت زیادہ شدت سے حملے کر رہے تھے اور نظام میں ریڈیکل اصلاحات کا اعلان کر رہے تھے۔ ان میں برطانیہ میں جیرمی کاربن، امریکہ میں برنی سینڈرز، فرانس میں میلنشاں، یونان میں سائریزا اور اسپین میں پوڈیموز جیسے رجحانات شامل ہیں۔ ان رجحانات کو سوشلسٹ رجحانات کہا جا رہا تھا اور انہیں اپنے ملکوں میں لاکھوں افراد کی حمایت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ کچھ جگہوں پر تو انہیں اقتدار میں آنے کا موقع بھی ملا۔ یہ رجحانات سرمایہ داروں پر بڑے پیمانے پر ٹیکس لگانے، نجی شعبے کے اہم حصوں کو نیشنلائز کرنے اور عوام کی بنیادی ضروریات کے شعبوں پر بڑے پیمانے پر سرکاری اخراجات کرنے کا پروگرام پیش کر رہے تھے۔ یہ در حقیقت اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ہی بحران کا حل تلاش کرنے کی ایک کوشش تھی۔ معاشی نقطہ نگاہ سے اسے کینیشئین ازم بھی کہا جاتا ہے جس میں سرکاری شعبے کو مضبوط کیا جاتا ہے اور سرکاری اخراجات کو بڑھا کر منڈی میں طلب کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ایک طرف تو یہ نسخہ خود سرمایہ دارانہ نظام کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرنے کا پیغام تھا کیونکہ دنیا کی تمام معیشتیں پہلے ہی بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں اور نوٹ چھاپ چھاپ کر وقت گزار رہی ہیں۔ ایسے میں اتنے بڑے مزید اخراجات اور نئے منصوبے ان معیشتوں کو دیوالیہ کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب سیاسی طور پر ان رجحانات میں عوام سے غداری خمیر میں ہی موجود ہے۔ ان رجحانات کے لیڈر خواہ ایماندار یا نیک نیت ہی کیوں نہ ہوں لیکن اس نظریے کی بنیاد ہی سرمایہ دار طبقے کے مفادات اور نظام کو تحفظ دینا ہے، اسی لیے کمیونسٹوں نے پہلے سے ہی اس حوالے سے خبردار کیا تھا اور ان تحریکوں میں شامل ہونے والے نوجوانوں اور محنت کشوں تک یہ انقلابی پیغام پہنچانے کے لیے سرگرم بھی تھے تاکہ انہیں کمیونزم کے حقیقی نظریات کی جانب راغب کر سکیں۔
وقت نے اس تناظر کو درست ثابت کیا اور ایک کے بعد دوسری جگہ پر ہم نے ان نام نہاد سوشلسٹ رجحانات کی قیادتوں کو عوام سے غداری کرتے ہوئے دیکھا۔ یونان اور اسپین میں ان رجحانات کو اقتدار میں آنے کا موقع بھی ملا لیکن یہاں انہوں نے پہلے جیسی عوام دشمن پالیسیوں کو ہی جاری رکھا اور عوام پر ٹیکسوں میں اضافے اور سرمایہ دار طبقے کی غلامی کو ہی جاری رکھا۔ ان پالیسیوں کے باعث مہنگائی اور بیروزگاری میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا اور ان پارٹیوں کی حمایت بھی تیزی سے کم ہوئی۔
امریکہ اور نام نہاد سوشلسٹوں کی غداری
امریکہ میں برنی سینڈرز اور اس کے ساتھ ہی سوشلسٹ نظریات کی حامی تحریک DSA ڈیموکریٹک سوشلسٹ آف امریکہ پہلے سینکڑوں سے ہزاروں اور پھر لاکھوں تک پہنچ گئی۔ لیکن اس تحریک کی قیادت نے بد ترین غداری کی تاریخ رقم کی اور ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن کو کم تر برائی کا لیبل دے کر اس کی حمایت کر ڈالی۔
در حقیقت اس تحریک کے لاکھوں حامی برنی سینڈرز کو صدارتی امیدوار کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن اس نے امریکی حکمران طبقے کے دباؤ میں آ کر بائیڈن کی حمایت کر ڈالی جس سے اس تحریک کو الگ شناخت اور پلیٹ فارم بھی نہیں مل سکا۔ ان نام نہاد سوشلسٹوں کے نزدیک ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات ممکن تھیں اور عوام کو ریلیف دیا جا سکتا تھا۔ لیکن بائیڈن کے دور اقتدار نے ثابت کیا کہ یہ نام نہاد کم تر برائی ٹرمپ جیسی ہی مہلک اور جان لیوا ہے اور اس نے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا نہ صرف تحفظ جاری رکھا بلکہ محنت کش عوام پر تاریخ کے بد ترین حملے کیے جن میں ریلوے ملازمین کی ہڑتال پر جبر بھی شامل ہے۔ اس دوران سامراجی پالیسیوں کا تسلسل بھی پہلے کی نسبت زیادہ شدت سے جاری رہا اور بائیڈن کے ہاتھ یوکرائن سے لے کر فلسطین تک لاکھوں بے گناہوں کے خون سے رنگے جاتے رہے۔ اس دوران برنی سینڈرز اور اس کے ساتھ سوشلسٹ کہلانے والے چار دیگر ممبران پارلیمنٹ بائیڈن کی عوام دشمن پالیسیوں کی حمایت کرتے رہے اور اب ان کی حمایت کم ترین سطح تک پہنچ چکی ہے۔ بائیڈن کو امریکہ میں لاکھوں نوجوان ”فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والا جو“ کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن خود کو سوشلسٹ کہلانے والے یہ ممبران اسمبلی ابھی بھی اس کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔ یہاں پر اس تحریک کا نظریاتی دیوالیہ پن نظر آتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ہی بہتری کی تلاش کی خواہش رکھتی تھی لیکن اب یہ بند گلی تک پہنچ چکی ہے کیونکہ اس نظام میں اب اصلاحات کی بھی گنجائش نہیں رہی۔
س صورتحال میں ٹرمپ، جسے بڑی برائی کہا جا رہا تھا اور جسے روکنے کے لیے بائیڈن کے ساتھ غلیظ مفاہمت کی گئی، پہلے سے زیادہ حمایت کے ساتھ دوبارہ صدر بننے کی تیاری کر رہا ہے۔ ٹرمپ بھی سرمایہ دار طبقے کے ایک حصے کا ہی نمائندہ ہے لیکن اپنے مخصوص انداز میں وہ عوام کی حمایت لینے کے لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ پر کھل کر تنقید کرتا ہے اور اس کے عوام دشمن کردار پر لگی لپٹی کے بغیر حملے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس سے خوفزدہ ہے اور اس کا ر استہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اس پر درجنوں مقدمات قائم کرنے سے لے کر میڈیا میں اس کے ذاتی کردار اور تعلقات کو سامنے لانا اور اسے صدارت کی دوڑ سے باہر کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرنا شامل تھا۔ اب بائیڈن کی شکست انتخابات سے قبل ہی تسلیم کرتے ہوئے صرف چند ماہ پہلے حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ایک نئے امیدوار کو اتارا جا رہا ہے لیکن اس کی کامیابی کے امکانات بھی ابھی تک کم ہیں۔ ایسے میں ٹرمپ کا راستہ اگر کوئی روک سکتا ہے تو وہ خود کو کمیونسٹ کہنے والے امریکہ کے لاکھوں نوجوان ہیں جو کمیونسٹ نظام کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں اور نہ ہی وہ ملک گیر سطح پر منظم قوت کے طور پر موجود ہیں۔ امریکہ کی سیاست روایتی طور پر دو پارٹیوں کے گرد ہی گھومتی ہے لیکن بائیں بازو کی بہت سی چھوٹی پارٹیاں بھی موجود ہیں لیکن وہ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتی ہیں یا پھر الگ پارٹی یا امیدوار سامنے لاتی بھی ہیں تو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی اپنا پروگرام پیش کرتی ہیں۔ اس کے لیے نام نہاد بایاں بازو یہ بہانہ بھی بناتا ہے کہ عوام کی وسیع تر پرتوں کی حمایت کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے وہ نہ تو دو بڑی پارٹیوں کی سیاست پر گرفت توڑ پاتے ہیں اور حمایت جیتنے کی بجائے کھو دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس نظام کو تبدیل کرنے والے انقلابی نوجوانوں کو اپنے سے دور کر لیتے ہیں۔ اسی طرح ٹرمپ جیسی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ متبادل بھی تعمیر نہیں کر پاتے۔
اس صورتحال میں امریکہ میں RCA انقلابی کمیونسٹ آف امریکہ کا قیام ایک خوش آئند عمل ہے جو انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے بینر تلے قائم کی گئی ایک نئی پارٹی ہے۔ اس پارٹی کا مقصد امریکہ میں سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ اور سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہے۔ اپنے قیام سے پہلے ہی اس پارٹی کو سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان رابطہ کر رہے ہیں اور اس میں شمولیت کی درخواستیں بھیج رہے ہیں۔ اس پارٹی کے قیام کے اعلان کے بعد نیو یارک میں نکالی جانے والی ریلی کی ویڈیو دنیا بھر میں پچاس کروڑ سے زیادہ دفعہ دیکھی جا چکی ہے۔ آنے والے عرصے میں اس کے کارکنان کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں کی جانب بڑھنے کا امکان ہے۔ دوسری طرف اگر ٹرمپ برسر اقتدار آتا ہے اور اپنے دعووں کے برعکس مہنگائی، بیروزگاری سمیت کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کر پائے گا تو اس کی حمایت میں بھی کمی آئے گی۔ مزدور طبقے کی وہ پرتیں جو اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کی بنیاد پر ٹرمپ جیسے دائیں بازو کے شخص کی حمایت کر رہی ہیں، وہ بھی دوسری جانب دیکھنا شروع کریں گی۔ اس صورتحال میں انقلابی کمیونسٹوں کے آگے بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔
یورپ اور سوشل ڈیموکریسی کی ناکامی
برطانیہ میں جیرمی کاربن اور فرانس میں میلنشاں کی سیاست میں مسلسل ناکامیوں سے بھی ان ریڈیکل سوشلسٹ لیڈران کی حدود نظر آتی ہیں۔ برطانیہ میں کوربن نے جب برطانیہ کے سرمایہ دار طبقے کے خلاف بیانات دینے شروع کیے تو اسے لاکھوں نوجوانوں کی حمایت ملی اور اس کی قیادت میں لیبر پارٹی یورپ کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ لیکن اپنی قیادت کے دوران اس نے متعدد دفعہ حکمران طبقات کے دباؤ میں مصالحانہ مؤقف اختیار کیا جس کی وجہ سے اسے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کوربن کبھی بھی سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کا حامی نہیں تھا اور اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے عوام کو بہتر معیار زندگی دینے کا خواہشمند تھا۔ اس لیے یہ سرمایہ دار طبقے کو اپنا دشمن سمجھنے کی بجائے اس کے ساتھ مذاکرات کر کے یا دباؤ ڈال کر اسے زیادہ ٹیکس دینے پر مائل کرنا چاہتا تھا۔ انہی نظریات کے باعث لیبر پارٹی کے اندر دائیں بازو کے افراد کے خلاف اس نے کبھی بھی فیصلہ کن حکمت عملی اختیار نہیں کی اور ان کے ساتھ مصالحانہ طرز عمل اختیار کیا۔ دوسری جانب کوربن کے گرد بننے والی عوامی تحریک اور انقلابی نوجوانوں سے خوفزدہ حکمران طبقے کے نمائندے لیبر پارٹی کے اندر اور باہر سے اس پر بد ترین حملے کر رہے تھے اور اس کی انتخابی مہم کو پوری طرح سبوتاژ کر رہے تھے۔
انقلابی کمیونسٹوں نے بار ہا اس جانب نشاندہی کی اور کہا کہ لیبر پارٹی کے اندر سے ان دائیں بازو کے افراد کا قلع قمع کیا جائے اور ان مزدور دشمن قوتوں سے لیبر پارٹی کو پاک کیا جائے۔ لیکن کوربن نے اپنی نظریاتی کمزوریوں کے باعث اس جانب کوئی توجہ نہیں کی بلکہ ان قوتوں کے دباؤ کے تحت بریگزٹ سمیت دیگر ایشوز پر کمپرومائز کیا جس کا خمیازہ اسے اور پوری تحریک کو بھگتنا پڑا۔ لیبر پارٹی کے اندر موجود دشمنوں کے باعث کوربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کو نہ صرف 2019ء کے انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کوربن سمیت ہزاروں بائیں بازو کے کارکنان کو لیبر پارٹی سے بتدریج نکال دیا گیا اور حکمران طبقے کے گماشتوں نے اس پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس دوران لیبر پارٹی کی حمایت بھی کم ہوتی چلی گئی اور اپوزیشن میں ہونے کے باوجود جولائی 2024ء کے انتخابات میں اس کے ووٹوں میں پانچ لاکھ سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے۔
اب کوربن درجن بھر آزاد امیدواروں اور لیبر پارٹی میں باقی رہ گئے آدھے درجن کے قریب بائیں بازو کے ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر کوئی بلاک بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے پاس اس نظام کے پیدا کردہ مسائل کا کوئی واضح حل موجود نہیں۔ دوسری جانب برطانیہ میں چالیس لاکھ سے زائد نوجوان اس وقت خود کو کمیونسٹ کہلانا پسند کر رہے ہیں اور ان نام نہاد سوشلسٹوں کی غداریوں کے زخم کھا کر آگے بڑھ چکے ہیں۔ اس صورتحال میں برطانیہ میں بھی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا ہے جسے آغاز میں ہی بڑی حمایت مل رہی ہے۔ فلسطین کی حمایت میں جاری لاکھوں افراد کی تحریک میں اس پارٹی کی ایک نوجوان لیڈر فیونا لالی کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیوز کروڑوں دفعہ دیکھی جا چکی ہیں۔ اس پارٹی کا حجم بھی اب سینکڑوں سے ہزاروں میں پہنچ رہا ہے اور یہ پارٹی جلد ہی دس ہزار ممبر شپ کا ہدف عبور کر کے برطانیہ کے سیاسی افق پر ایک واضح شناخت کے ساتھ ابھرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ پارٹی واضح طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کا پروگرام پیش کر رہی ہے اور کسی لگی لپٹی کے بغیر حکمران طبقے کے سامراجی عزائم کو للکار رہی ہے جس میں نیٹو کو ختم کرنے کے مطالبے سے لے کر اسرائیل کی فوجی اور مالی امداد بند کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔
فرانس، جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے اور ماضی میں بایاں بازو سمجھی جانے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں حکمران طبقے کی بد ترین گماشتگی کر رہی ہیں جبکہ ان پارٹیوں سے باہر ہڑتالوں، عوامی تحریکوں اور احتجاجوں کے سلسلے جاری ہیں اور انقلابی نظریات کی حامل نئی پارٹیوں کے پھیلنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔
پسماندہ ممالک اور سوشل ڈیموکریسی
پاکستان سمیت دنیا بھر میں صورتحال مختلف نہیں اور خود کو عوام دوست یا سوشلسٹ کہنے والی پارٹیوں کی حقیقت عوام پر عیاں ہو چکی ہے اور وہ سرمایہ دار طبقے کی بد ترین گماشتہ ثابت ہوئی ہیں۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کا جنم 1968-69ء کی ایک انقلابی تحریک کے دوران ہوا تھا اور اس نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دینے کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ معیشت نافذ کرنے کا نعرہ دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے لاکھوں لوگوں کی حمایت ملی۔ لیکن بھٹو کی قیادت میں جب اس پارٹی کو اقتدار ملا تو اس نے اپنے ہی نعروں سے غداری کی اور سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کا نادر موقع گنوا دیا اور اسی نظام کی حدود کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کی پروردہ سرمایہ دارانہ ریاست کو بھی مضبوط کیا۔ اس دوران انقلابی تحریک کے دباؤ کے تحت بڑے پیمانے پرعوام دوست اقدامات بھی کیے گئے جن میں کچھ صنعتوں کی نیشنلائزیشن، علاج اور تعلیم کی سہولیات کی بڑے پیمانے پر فراہمی اور مزدور اور طلبہ یونینوں کے قیام کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔ انہی اقدامات کی وجہ سے ایک طویل عرصے تک اس پارٹی کو پسے ہوئے طبقات میں مقبولیت حاصل رہی اور اسے بار ہا اقتدار میں بھی آنے کا موقع ملتا رہا۔ لیکن اپنے ہر دور اقتدار میں اس نے عوام پر بد ترین حملے کیے۔ ملک میں نجکاری کے مزدور دشمن عمل کاآغاز کرنے سے لے کر بجلی کے شعبے میں آئی پی پی کے ساتھ معاہدے، طالبان کی حمایت کی پالیسی اور سامراجی طاقتوں کی کھلی گماشتگی سمیت، اس پارٹی نے ہر ممکن طریقے سے خود کو حکمرانوں کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر اس پارٹی کی حمایت آج ختم ہو چکی ہے اور یہ صرف ریاست کے ایک دھڑے کی رکھیل کے طور پر سیاست میں موجود ہے۔ آنے والی انقلابی تحریک اس پارٹی کو بھی تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے گی۔
قوم پرستی کا فرسودہ نظریہ
اس کے علاوہ پاکستان میں قوم پرست پارٹیاں بھی ایک عرصے تک مظلوم قومیتوں کی نمائندگی کی دعویدار ہونے کے ناطے مخصوص علاقوں میں حمایت رکھتی آئی ہیں۔ یہ پارٹیاں بھی بظاہر بائیں جانب جھکاؤ رکھتی تھیں اور خود کو اینٹی اسٹیبشلمنٹ کہلاتی تھیں۔ لیکن انہیں جب بھی موقع ملا انہوں نے حکمران طبقے کی بد ترین گماشتگی کی اور مظلوم قومیتوں پر بد ترین مظالم ڈھائے۔ قوم پرستی کا نظریہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کو تسلیم کرتا ہے اور اسی کے اندر رہتے ہوئے قومی آزادی یا قومی خود مختاری سمیت مظلوم قومیتوں کے مسائل حل کرنے کا پروگرام پیش کرتا ہے۔ لیکن نظام کے بحران کے باعث حکمران طبقہ مظلوم قومیتوں پر پہلے کی نسبت کہیں زیادہ جبر کررہا ہے اور ان علاقوں سے وسائل کی لوٹ مار بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اس دوران تمام قوم پرست پارٹیاں بھی اس جبر کی مخالفت کرنے کی بجائے لوٹ مار میں اپنے حصے کی لڑائی لڑتی نظر آتی ہیں اور حصہ ملنے پر بغلیں بجانا شروع کر دیتی ہیں۔ ان پارٹیوں کی حمایت بھی اب ختم ہو چکی ہے اور ان پارٹیوں سے باہر عوامی تحریکیں ہر جگہ ابھر رہی ہیں۔ ان عوامی تحریکوں کی قیادت کچھ جگہوں پر ابھی تک اسی فرسودہ نظریے سے جڑی ہوئی ہے جس کے باعث ان تحریکوں کے آگے بڑھنے کے رستے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ مسلح جدوجہد کرنے والے قوم پرست بھی ناکامی سے دو چار ہیں۔ ایک طرف تو اپنے غلط طریقہ کار کے باعث انہوں نے خود کو عوام سے دور کر لیا اور دوسری جانب قوم پرستی کے فرسودہ نظریے کے تحت وہ نجات کا کوئی واضح رستہ پیش نہیں کر سکے اور امریکہ سمیت مختلف سامراجی طاقتوں کے آلہ کار بن کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں صرف کمیونزم کا نظریہ ہی قومی جبر کے مکمل خاتمے کا پروگرام پیش کرتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ قوم پرستی کے نظریے کی یہ صورتحال اسپین سے لے کر سکاٹ لینڈ، مشرقِ وسطیٰ کے کرد علاقوں اور دیگر خطوں میں بھی موجود ہے اور قوم پرستی کو بار بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دیگر پسماندہ ممالک میں بھی صورتحال مختلف نہیں اور اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اصلاحات کے نعرے لگانے والی تمام پارٹیاں ناکامی سے دو چار ہیں۔ میکسیکو میں لوپیز آبراڈور کی پارٹی اس وقت برسر اقتدار ہے اور عوام دشمن اقدامات کر رہی ہے۔ برزایل میں لولا ڈی سلوا اور اس کی ورکرز پارٹی سمیت لاطینی امریکہ کے دیگر بہت سے ممالک میں ایسی ہی صورتحال ہے اور نام نہاد سوشلسٹ حکومتیں بری طرح ناکامی سے دو چار ہیں۔ وینزویلا میں شاویز کی وفات کے بعد صدر ماڈورو کی قیادت میں اس کی پارٹی مسلسل اقتدار میں ہے لیکن شاویز کے دور میں کی جانے والی نیشنلائیزشن ختم کر رہی ہے اور بائیں بازو کی پارٹیوں پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے مزدور دشمن اقدامات میں ملوث ہے۔
جنوبی ایشیا
جنوبی ایشا کے دیگر ممالک میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ بنگلہ دیش میں خود کو سوشلسٹ کہنے والی اور جماعت اسلامی جیسی دہشت گرد اور دائیں بازو کی پارٹی کی کٹر مخالف عوامی لیگ 2008ء سے مسلسل اقتدار میں ہے۔ جماعت اسلامی جیسی بنیاد پرست اور دہشت گرد جماعت کے خلاف عوامی لیگ کی کاروائیوں کو لبرل حلقوں میں پذیرائی بھی ملتی ہے اور اس کی پالیسیوں کو بہترین معاشی ماڈل بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پارٹی نے بنگلہ دیش کے سرمایہ دار طبقے کو نوازنے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ بنگلہ دیش کے محنت کشوں کی سستی محنت کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان لوٹ رہے ہیں اور شیخ حسینہ ان کے مقامی تھانیدار کا کردار نبھا رہی ہے۔ اجرتوں میں اضافے یا کام کے حالات کار میں بہتری کے لیے ہونے والا ہر احتجاج اور ہڑتال بری طرح کچل دی جاتی ہے تاکہ سرمایہ دار طبقے کے منافعوں میں کمی نہ ہو سکے۔ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے بنگلہ دیش کو ایک پولیس اسٹیٹ بنا دیا اور اس کے باپ شیخ مجیب کا ملک میں ون پارٹی سسٹم مسلط کرنے کا خواب تقریباً پورا ہو چکا ہے۔ شیخ حسینہ کے بھارتی وزیراعظم مودی سے بھی دوستانہ تعلقات ہیں اور دونوں مل کر اپنے اپنے ملک کے محنت کش طبقے کا بدترین استحصال کر رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والی ترقی کا غبارہ پھٹ چکا ہے اور اب پورا ملک بد ترین مہنگائی، بیروزگاری اور لوڈ شیدنگ کی لپیٹ میں ہے۔ اس دوران طلبہ نے جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور کوٹہ سسٹم کے خلاف ایک شاندار جدوجہد کے ذریعے اسے ختم کروایا ہے۔ اس جدوجہد کے دوران 200 سے زائد افراد قتل کیے گئے جبکہ ہزاروں زخمی اور گرفتار ہیں۔ شیخ حسینہ نے ریاستی جبر کی بد ترین مثال قائم کی اور سڑکوں پر فوج بلا لی اور طلبہ کے احتجاجوں پر پولیس اور فوج نے سیدھی فائرنگ کی۔ ملک میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور کسی کو بھی دیکھتے ہی گولی مار دینے کے احکامات جاری کیے گئے۔ لیکن اس کے باوجود طلبہ کی جدوجہد جاری رہی۔ اس دوران حکمران جماعت عوامی لیگ طلبہ کے احتجاجوں کو جماعت اسلامی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ طلبہ جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے بھی اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی شیخ حسینہ اور عوامی لیگ سے۔ اس صورتحال سے ان عوام دشمن پارٹیوں کی قلعی کھل جاتی ہے۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی سے لے کر سری لنکا میں نام نہاد بائیں بازو کی جماعتوں تک صورتحال یہی ہے اور اقتدار ملنے پر یہ تمام پارٹیاں عوام دشمنی کی تمام حدیں عبور کر جاتی ہیں۔ سری لنکا میں حال ہی میں ابھرنے والی عوامی تحریک میں جہاں دائیں بازو کی تمام پارٹیوں کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے ان کا بائیکاٹ کیا گیا وہاں بائیں بازو کی تمام پارٹیوں کو بھی عوام نے رد کر دیا تھا۔ ان تمام پارٹیوں کی تاریخ بھی عوام دشمنی سے بھری ہوئی ہے اور بدنام زمانہ صدر راجاپکشا کی مخلوط حکومت میں بائیں بازو کی پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ ہندوستان میں بھی کانگریس سے لے کر نام نہاد سوشلسٹ پارٹیوں اور پھر کمیونسٹ پارٹیوں تک صورتحال مختلف نہیں۔ در حقیقت مودی اور بی جے پی کے اقتدار کی راہ کانگریس کے دس سالہ دور اقتدار نے ہی ہموار کی تھی۔ اس اقتدار میں انڈیا کی کمیونسٹ پارٹیاں بھی پہلے پانچ سال کانگریس کی اتحادی رہیں۔ اس دوران عوام دشمن پالیسیوں کو تسلسل کے ساتھ مسلط کیا گیا اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا کھل کر تحفظ کیا گیا۔ جن ریاستوں میں کمیونسٹ یا نام نہاد سوشلسٹ پارٹیوں کی حکومتیں رہیں وہاں بھی مزدوروں اور کسانوں پر بد ترین تشدد کیا گیا اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو تحفظ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام پارٹیوں کی عوامی حمایت میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے اور اب یہ تمام مل کر مودی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مودی کے ظالمانہ اقتدار کی ایک دہائی کے بعد اس کی مقبولیت بھی کم ہو رہی ہے اور دائیں جانب بھی نئے شدت پسند رجحانات ابھر رہے ہیں لیکن بائیں جانب بھی بہت بڑا خلا موجود ہے۔ کسانوں کی شاندار تحریک اور کامیابی سے لے کر ملک گیر عام ہڑتالوں تک پورے ملک میں بڑے پیمانے پر تحریکیں اور احتجاج موجود ہیں لیکن انہیں جوڑنے اور یکجا کرنے والا کوئی انقلابی نظریہ اور پارٹی موجود نہیں۔ اس حوالے سے انقلابی کمیونزم کے نظریات کے لیے وسیع گنجائش موجود ہے اور اس کے پھیلنے کے امکانات موجود ہیں۔
کمیونزم اور سٹالنزم
کمیونزم اور سٹالنزم دو مختلف نظریات ہیں اور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لیکن عمومی طور پر سٹالنزم کے تمام جرائم کمیونزم کے سر تھوپ دیے جاتے ہیں اور اسے تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کر کے اس سے ان جرائم کے جواب طلب کیے جاتے ہیں جواس کے نام پر سٹالنزم نے کیے ہیں۔ 1917ء میں انقلاب روس کے بعد کمیونزم کے نظریات پوری دنیا میں تیزی سے پھیلے اور اس کو ایک منظم انداز میں کامیاب کرنے کے لیے لینن اور ٹراٹسکی نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کے نام سے عالمی تنظیم کا آغاز کیا۔ مشکل ترین مالی حالات، عالمی جنگ، خانہ جنگی اور دیگر مسائل کے باوجود ابتدائی پانچ سالوں میں اس کے اجلاس باقاعدگی سے ہر سال ہوتے رہے اور پوری دنیا میں کمیونسٹ پارٹیوں کی تعمیر تیزی سے آگے بڑھنے لگی۔ اس دوران اس انٹرنیشنل کے اجلاسوں میں ہونے والی بحثیں، کیے گئے فیصلے اور بنائے گئے قواعد و ضوابط آج بھی دنیا بھر کے کمیونسٹوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
لیکن لینن کی وفات کے بعد جہاں سوویت یونین میں انقلاب کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے عمل کا آغاز ہوا وہاں انٹرنیشنل بھی زوال پذیر ہونا شروع ہو گئی۔ جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کے مواقع وہاں کی مقامی قیادتوں کی غلطیوں کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکے اور روس جیسے پسماندہ ملک کا انقلاب تنہائی کا شکار ہو کر زوال پذیر ہو گیا۔ اس دوران معیشت تو منصوبہ بند بنیادوں پر ہی تھی اور اس پر ریاست بھی مزدور ریاست ہی تھی لیکن اس میں مزدور جمہوریت کا خاتمہ کر دیا گیا اور بیورو کریسی کی ایک پرت سٹالن کی قیادت میں اس پر براجمان ہو گئی۔ اس دوران ”ایک ملک میں سوشلزم“ اور ”مرحلہ وار انقلاب“ کے غلط نظریات مسلط کیے گئے جن کا کمیونزم کے نظریات سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ اسی طرز پر پوری دنیا کی کمیونسٹ پارٹیوں کو سوویت بیورو کریسی کا تابع بنا دیا گیا اور کمیونزم کی بجائے سٹالنزم کے نظریات کو دنیا بھر میں فروغ دیا گیا۔ انٹرنیشنل کے اجلاس پہلے تاخیر سے بلائے گئے اور پھر اسے غیر فعال کرتے ہوئے ختم ہی کر دیا گیا۔ سٹالن نے اس کی بجائے اقوام متحدہ کے قیام کو اہمیت دی جس کا غلیظ کردار آج دنیا کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ سوویت ریاست پر براجمان ہونے کے باعث سٹالنزم کو ہی کمیونزم بنا کر دنیا بھر میں پھیلایا گیا جس سے دنیا بھر کی مزدور تحریکوں اور انقلابات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
اس دوران کمیونزم کے حقیقی نظریات کا دفاع انقلاب روس کا قائد ٹراٹسکی کر رہا تھا۔ اسے پہلے روس سے جلا وطن کیا گیا اور پھر 1940ء میں میکسیکو میں جلا وطنی کے دوران قتل کروا دیا گیا۔ اس کے بعد کمیونزم کی حقیقی قوتیں بہت کم تعداد میں رہ گئیں۔ ان مشکل حالات میں ٹیڈ گرانٹ ان نظریات کا دفاع کرتا رہا اور دوسری عالمی جنگ میں سامراجی جنگ کی مذمت کرنے سے لے کر اسرائیل کی مصنوعی ریاست کے قیام کی مخالفت کرنے تک بیسویں صدی کے ہر اہم موڑ پر کمیونزم کے حقیقی نظریات اور مؤقف کا دفاع کرتا رہا۔
اس دوران دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیاں سٹالنسٹ نظریات کے تحت تحریکوں سے ایک کے بعد دوسری غداری کرتی رہیں اور مرحلہ وار انقلاب کے غلط نظریے کے تحت سرمایہ دار طبقے کی گماشتگی کرتی رہیں۔ اس سارے عمل میں ان کی حمایت بھی کم ہوتی چلی گئی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان تمام سٹالنسٹ پارٹیوں کی بڑے پیمانے پر شکست و ریخت کا آغاز ہوا اور یہ پارٹیاں عوامی قوت کی بجائے زیادہ تر ممالک میں محدود ہو کر رہ گئیں۔ دوسری جانب مفاد پرستی اور موقع پرستی کے باعث ٹراٹسکی ازم سے غداری کرنے والے بہت سے چھوٹے گروپ بھی موجود تھے جن کے خلاف انقلابی کمیونسٹوں نے نظریاتی جدوجہد جاری رکھی۔ کمیونزم کے درست نظریات کا ہر محاذ پر دفاع کرنے کے باعث ٹراٹسکی ازم کے بینر تلے موجود انقلابی قوتوں کو اس صورتحال میں مجتمع ہونے اور آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس سوویت یونین کے انہدام کی مارکسزم کے نظریات کے تحت سائنسی توجیہہ موجود تھی اور دوسرا ان کے پاس بے داغ ماضی تھا اور انہوں نے کبھی کسی عوام دشمن قوت کے ساتھ مفاہمت نہیں کی تھی اور ہر اہم ایشو پر انہوں نے دنیا بھر میں محنت کش طبقے کا ساتھ دیا تھا۔ آج دنیا بھر میں کمیونسٹ نظریات کے دوبارہ ابھار میں اس تاریخ کو یاد رکھنے اور اس سے ضروری نتائج اخذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسی غلطیاں نہ دہرائی جا سکیں اور دوسری جانب سٹالنزم کے جرائم کو کمیونزم سر منڈھنے کے عمل کا مقابلہ کیا جا سکے۔
پاکستان اور کمیونسٹ نظریات
برصغیر میں کمیونسٹ پارٹی کا باقاعدہ قیام 1925ء میں کانپور میں ہونے والے ایک اجلاس میں ہوا تھا۔ یہ برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد کا دور تھا اور ہندوستان میں مزدور یونینیں بننے کے عمل کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ اس دوران انقلاب روس کی حاصلات نے بھی آزادی پسندوں کو بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ اسی لیے مختلف رجحانات اور پس منظر کے لوگ اس پارٹی کی جانب راغب ہوئے تھے اور محدود قوتوں سے اس پارٹی نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ بھگت سنگھ اسی عرصے میں اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھا اور انقلاب روس کے علاوہ لینن اور ٹراٹسکی کی تصنیفات کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتا تھا اور سٹڈی سرکل منظم کرتا تھا۔ گو کہ اس نے کبھی کمیونسٹ پارٹی کی باقاعدہ رکنیت نہیں لی اور اپنی پارٹی کی جدا گانہ حیثیت برقرار رکھی جس میں اس نے انڈیا کے سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام کو پارٹی کانگریس میں باقاعدہ طور پر اپنایا اور اسی لیے پارٹی کا نام بھی HRA سے تبدیل کر کے HSRA یعنی ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن رکھ دیا۔ جس وقت بھگت سنگھ کو گرفتار کیا گیا اور اسے پھانسی کے تختے پر چڑھایا گیا اس وقت کمیونسٹ پارٹی بھی ریلوے اور دیگر شعبوں کے مزدوروں میں اپنی جڑیں بنا رہی تھی اور ہڑتالوں میں کلیدی کردار ادا کر رہی تھی۔
بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد پورے ہندوستان میں دوبارہ ایک عوامی تحریک شروع ہو گئی اور ہڑتالوں اور احتجاجوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا۔ اس دوران کمیونسٹ پارٹی کو پہلی دفعہ عوامی سطح پر جڑیں بنانے کا موقع ملا لیکن اس وقت سوویت یونین میں سٹالنسٹ زوال پذیری کا عمل شروع ہو چکا تھا جس کے اثرات ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی پر بھی مرتب ہوئے۔ اس وقت مرحلہ وار انقلاب کے غلط نظریے کے تحت آزادی کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر سٹالن نے ہٹلر کے ساتھ معاہدہ کر کے تاریخی غلطی کی۔ لیکن پھر جب ہٹلر نے روس پر حملہ کر دیا تو سٹالن نے یو ٹرن لیتے ہوئے سامراجی ممالک کی اتحادی افواج کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدے کے تحت انڈیا کے کمیونسٹوں کو حکم صادر کیا گیا کہ وہ برطانوی فوج میں بھرتی ہوں اور جنگ میں برطانوی فوج کے تحت حصہ لیں۔ اس وقت پورے ہندوستان میں برطانوی سامراج کے مظالم کے خلاف شدید نفرت موجود تھی اور آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ لیکن کمیونسٹ پارٹی کی آزادی کی تحریک سے اس غداری کے باعث اس کی عوامی حمایت کو شدید نقصان پہنچا اور کانگریس، جو مقامی سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ پارٹی تھی، مزید مقبولیت حاصل کرنے لگی۔
اسی طرح جنگ کے بعد 1945ء میں ہڑتالوں، احتجاجوں اور فوجی بغاوتوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا جس میں مزدور تحریک کی قیادت کرتے ہوئے نہ صرف آزادی حاصل کی جا سکتی تھی بلکہ ایک سوشلسٹ انقلاب بھی برپا کیا جا سکتا تھا۔ فروری 1946ء کی سپاہیوں کی بغاوت اس حوالے سے اہم کردار کی حامل ہے جو پورے ملک میں ہڑتال کی شکل میں پھیل رہی تھی۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی نے برطانوی سامراج کے بٹوراے کے خونی منصوبے کی حمایت کر دی اور کہا کہ ہم مذہب کی بنیاد پر الگ قوم کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں اور ”مظلوم قوموں کے حق خود ارادیت“ کو تسلیم کرتے ہوئے اس خونی بٹوارے کی حمایت کرتے ہیں۔ قومی مسئلے پر اس سے زیادہ غلط اور رجعتی مؤقف ہو ہی نہیں سکتا اور اس کا لینن اور ٹراٹسکی کے قومی سوال پر مؤقف سے کوئی تعلق نہیں۔ اس وقت کانگریس کی قیادت بھی برطانوی سامراج کے اس سازشی منصوبے کی حمایت کر چکی تھی لہٰذا اس خطے کے محنت کشوں کے پاس کوئی ایسا سیاسی پلیٹ فارم نہیں تھا جہاں اس سامراجی منصوبے کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اسے شکست دیتے اور یہاں پر آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ انقلاب کو بھی کامیاب کرتے۔ اس غلط فیصلے کا خمیازہ اس خطے کے لوگ آج تک بھگت رہے ہیں۔
اس کے بعد بھی کمیونسٹ پارٹی کے غلط فیصلوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ بٹوارے کے بعد آغاز میں اس پارٹی کے کارکنان ریاستی اہلکاروں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے لیکن بعد ازاں جب پاکستان فیصلہ کن طور پر امریکی بلاک میں شامل ہو گیا تو کمیونسٹ پارٹی پر باقاعدہ پابندی لگا دی گئی اور اس کے لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس دوران مختلف ناموں سے اپنے کام کا سلسلہ تو جاری رکھا لیکن سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرنے کی بجائے سٹالنسٹوں نے ”ترقی پسند“ سرمایہ دار طبقے کی تلاش میں یہاں ابھرنے والی تحریکوں کو نظام کی حدود میں ہی مقید رکھا۔ اس دوران مزدور تحریک کو منظم کرنے، یونینیں بنانے اور طلبہ میں مارکسی تصانیف کو فروغ دینے کا سلسلہ تو جاری رہا لیکن سیاسی میدان میں ہمیشہ سٹالنسٹ نظریات کے تحت سرمایہ دار طبقے کی کاسہ لیسی ہی نظر آئی۔ یہاں تک کہ سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ ہی ترک کر دیا اور سرمایہ داری کو مضبوط کرنے کے عمل میں باقاعدہ شریک ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے اور جنرل ایوب کے سابقہ وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی حمایت لینے کے لیے 1967ء میں جب اپنی نئی پارٹی قائم کی اور روٹی، کپڑا اور مکان اور سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ لگایا تو اسے بہت تیزی سے عوامی مقبولیت ملی اور کمیونسٹ پارٹیوں کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد نئی بننے والی پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئی۔ جبکہ پرانی سٹالنسٹ پارٹیاں خالی ہوتی چلی گئیں۔
1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے میں یہاں کے بائیں بازو کا انتہائی غدارانہ کردار ہے۔ مشرقی پاکستان میں ہونے والے قتل عام اور تین لاکھ کے قریب خواتین کے ریپ کی نہ سٹالنسٹ پارٹیوں کی جانب سے باقاعدہ مذمت کی گئی اور نہ اسے روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت ماسکو نواز اور پیکنگ نواز دونوں دھڑے اس قتل عام کی در پردہ حمایت کرتے رہے اور مشرقی پاکستان کے کمیونسٹوں اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرنے والے کارکنان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ تحریک پورے برصغیر میں سوشلسٹ انقلاب کا نقطہ آغاز بن سکتی تھی لیکن سٹالنسٹ پارٹیوں کی غداریوں کے باعث اسے خطے کے حکمران طبقات نے خون میں ڈبو دیا۔ اس صورتحال میں مشرقی حصے میں قوم پرستوں کو ابھرنے کا موقع ملا اور انہوں نے وہاں بھی ہندوستانی ریاست کی مدد سے سرمایہ دارانہ ریاست کو گرنے سے بچا لیا۔ اس عمل میں سوویت روس اور ماؤ کے چین نے بھی معاونت کی اور تمام بڑی طاقتیں بنگلہ دیش کے لاکھوں بے گناہوں پر ہونے والے مظالم میں بلواسطہ طور پر شریک ہوئیں۔ اس کے بعد کے عرصے میں سٹالنسٹ پارٹیوں کو زیادہ بڑی عوامی حمایت نہیں مل سکی اور بہت سے سابقہ سٹالنسٹ قومی مسئلے پر سٹالنزم کے غلط نظریات پر زوال پذیر ہوتے ہوئے بالآخر قوم پرست بن گئے۔ اِس وقت موجود ملک میں قوم پرست نظریات کی موجودگی انہیں سابقہ سٹالنسٹوں کے مرہون منت ہے۔ انہوں نے اب بائیں بازو کا چولا بھی اتار پھینکا ہے اور کھل کر سامراجی طاقتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرتے ہیں۔
افغانستان میں سٹالنسٹ نظریات کے پیروکاروں کے جرائم کی ایک طویل فہرست جس کے لیے یہاں جگہ نہیں لیکن اس مسئلے پر بھی پاکستان کے سٹالنسٹوں کا مؤقف قوم پرستانہ ہی رہا ہے اور انہوں نے ہمیشہ خطے میں سوشلسٹ انقلاب کے امکان اور محنت کش طبقے کی جڑت کو ناممکن قرار دیا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں یہاں ضیاالباطل کی آمریت کے خلاف ایک شاندار تحریک ابھری اور سیاسی کارکنان نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر اس خونی آمریت کا مقابلہ کیا۔ اس میں سٹالنسٹ اور پیپلز پارٹی ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے اکٹھے شامل تھے۔ لیکن اس تحریک کا مقصد بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت کا قیام قرار دیا گیا جبکہ اتنی بڑی تحریک ایک وقت میں اس قابل تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام ختم کیا جا سکتا تھا اور اس ظالمانہ ریاست کو اکھاڑ پھینکا جا سکتا تھا۔ لیکن قیادت کی غداریوں اور نظریاتی غلطیوں کے باعث یہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا۔ کمیونزم کے نام لیواؤں کے انہی جرائم کے طویل سلسلے کے باعث آج یہاں دائیں بازو کی قوتیں سماج پر مسلط ہیں اور ریاستی جبر بغیر کسی بڑی رکاوٹ اور مزاحمت کے شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ بائیں بازو کی قوتیں انتہائی محدود ہو چکی ہیں اور کمیونزم کا نام لیتے ہوئے بھی لوگ ہچکچاتے ہیں۔ نام نہاد بایاں بازو نظریاتی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے اور موجودہ ظالمانہ نظام کا غلام بن چکا ہے۔
لیکن اسی دوران آج دوبارہ پورے ملک میں عوامی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور محنت کش طبقہ اس ظالمانہ ریاست کے جبر اور معاشی استحصال کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی تیاری کر رہا ہے۔ نوجوان انقلابی نظریات کی تلاش میں ہیں اور اس کے لیے ہر باغیانہ روش اور خیال کی جانب راغب ہوتے نظر آتے ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ کمیونزم کے حقیقی نظریات کو کھل کر عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں کی وسیع پرتوں کو اس انقلابی نظریے سے روشناس کرواتے ہوئے منظم کیا جائے۔ اس لیے جہاں کمیونزم کے نظریات کو چھپانے یا خفیہ رکھنے کی بجائے کھل کر برملا ان کا اظہار کرنا چاہیے وہاں اس پر ہونے والی تنقید اور حکمران طبقے کے حملوں کا جرأت اور حوصلے سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ یہ حملے دائیں بازو کی قوتوں کی جانب سے بھی ہوں گے لیکن سب سے زیادہ نام نہاد بایاں بازو ان سے خوفزدہ ہو کر حملے کرے گا کیونکہ انہیں اپنی حقیقت کے نقاب ہو جانے کا ڈر ہے، یہ لوگ بھی در حقیقت دائیں بازو کے نظریات کے ہی حامل ہیں۔
لینن نے کہا تھا کہ صبر سے وضاحت۔ آج ہمیں ان نظریات کی صبر سے وضاحت کرنے کی ضرورت ہے اور اس نظریے کا بے داغ ماضی فخر سے مزدوروں، کسانوں اور انقلابی نوجوانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ اسی طرح ان نظریات سے ترتیب دیا گیا تناظر اور حالات کا سائنسی تجزیہ بھی عوام تک لے جانے کی ضرورت ہے اور اس کے تحت اپنا سیاسی پروگرام پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی نظریات پر عبور حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے اور مارکسی فلسفے، تاریخی مادیت اور مارکسی معیشت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مارکس کی داس کیپیٹل سے لے کر لینن کی ”ریاست اور انقلاب“ اور ٹراٹسکی کی ”انقلاب سے غداری“ جیسی بنیادی تصنیفات کا مطالعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دشمنوں کے حملوں اور دوستوں کی حمایت سے اس نظریے کو دوبارہ عوامی سطح پر مقبولیت ملے گی اور ان نظریات کے تحت بننے والی انقلابی کمیونسٹ پارٹی اگر اپنے کیڈرز کی تعداد میں بڑا اضافہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو آنے والے عرصے کی تحریکوں میں یقینا اہم کردار ادا کرے گی۔ ایک مضبوط اور وسیع حمایت رکھنے والی انقلابی کمیونسٹ پارٹی ان تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے یہاں سرمایہ داری کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کے عمل کا آغاز کر سکتی ہے تاکہ ظلم اور بربریت پر مبنی یہ نظام ہمیشہ کے لیے ختم ہو اور ہر طرف خوشحالی، ترقی اور امن کا دور دورہ ہو۔