|تحریر: راب سیول، ترجمہ: آصف لاشاری|
کرونا کی عالمی وبا نے سرمایہ داری کی تاریخ کے گہرے ترین بحران کا آغاز کر دیا ہے۔ معمول کی طرف کبھی واپسی نہیں ہوگی۔ عوامی شعور ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو جائے گا۔ ہمیں احساس ذمہ داری کے ساتھ مارکسزم کی قوتوں کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے برطانوی کامریڈز کا یہ اداریہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ کس طرح نئی صورتحال کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔
ہم سرمایہ داری کے بحران کے ایک نازک اور معیاری طور پر مختلف مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ عالمی معیشت ایک ایسی رفتار سے گہری کھائی میں گر رہی ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
بینک آف انگلینڈ کی پیش گوئی ہے کہ برطانوی معیشت پچھلے 300 سالوں، بلکہ 1709ء کے ”عظیم جمود“ کے بعد سے اب تک کی گہری ترین کساد بازاری کا سامنا کرے گی جس میں صرف اس سال کے پہلے چھ ماہ میں پیداوار 30 فیصد تک گر جائے گی۔ 1929ء کاگریٹ ڈیپریشن موجودہ بحران کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
یہ یقینا ہر حوالے سے حیران کن ہے۔ لیکن ایسا صرف برطانیہ میں نہیں ہے۔سیارے پر موجود ہر ملک اس سطح اور حجم سے متاثر ہوگا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
یہ سرمایہ داری کا بحران ہے جس کو کرونا وبا نے محض مشتعل کیا ہے۔ عالمی معیشت کرونا وبا سے پہلے ہی کساد بازاری کی طرف رواں دواں تھی اور پچھلے عرصے کے تمام تر تضادات ایک نئی تباہی کے لیے حالات تیار کر رہے تھے۔ عالمی وبا نے محض اشتعال انگیزی کا کام کیا ہے اور اس عمل کو تیز کرتے ہوئے اور اسی لمحے سطح کے نیچے چھپے تضادات کو سامنے لاتے ہوئے پہلے سے موجود بحران کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
غالب امکان ہے کہ یہ 33-1929ء سے کہیں زیادہ گہرا عالمی زوال ایک نئے گریٹ ڈیپریشن کو ابھارے گا۔ سرمایہ داری کے معذرت خواہان اس بحران کو خوشنما بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بینک آف انگلینڈ کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ”V“ شکل کی بحالی ہونے کی طرف جائے گی جہاں ایک گہرے زوال کے بعد معیشت فوری طور پر دوبارہ بحال ہونے کی طرف جائے گی۔یہ آئندہ کے حقیقی تناظر کی بجائے ان کی خواہشات پر مبنی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔
ٹوٹ پھوٹ اور زوال
ہم با آسانی تجارتی جنگوں کی طرف جا سکتے ہیں اور اس کی راہ ٹرمپ کے چین پر حملوں اور یورپ کے خلاف دھمکیوں کی صورت میں پہلے ہی ہموار ہوچکی ہے۔ ہر سرمایہ دار ملک بحران کا بوجھ اپنے حریف ملک اور بالآخر محنت کش طبقے کے کاندھوں پر ڈالنے کی کوشش کرے گا۔
گلوبلائزیشن کے عہد نے ٹوٹ پھوٹ کے عہد، طبقاتی خلیج،اور شدید قسم کی دشمنیوں کو ابھارا ہے۔ یہ سرمایہ داری کی حالتِ نزع کی خصوصیات ہیں۔ بورژوازی سماج کو ایک مکمل دیوالیہ پن کی طرف لے جا رہی ہے۔
یہ بحران ہر ملک کی عوام پر بہت بڑی محرومیاں اور تکالیف مسلط کرنے جا رہا ہے۔ بے روزگاری پہلے ہی امریکہ میں چار کروڑ لوگوں کو متاثر کر رہی ہے اور یہ آگے بھی مزید بڑھے گی۔
وسیع پیمانے کی بے روزگاری تمام ممالک کو متاثر کرے گی کیونکہ ان کی معیشتیں ڈرامائی انداز میں زوال پذیر ہوں گی۔ یہ عارضی نہیں بلکہ ساختیاتی (structural) بے روزگاری ہوگی۔ پیداواری قوتیں ہر جگہ زوال کا شکار ہیں چونکہ ایک ایک کر کے فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور پیداوار برباد ہو رہی ہے۔
ایک چیز جس کا ہم قطعی طور پر یقین کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ مختصر مدت کا بحران نہیں ہے۔یہ ایک گہرا بحران ہو گا جس کے اثرات آنے والے سالوں اور عشروں تک رہیں گے۔
طوفانی حملے
آج موجود زندہ انسانوں میں سے کسی نے پہلے کبھی ایسی صورتحال کا تجربہ نہیں کیا۔ 09-2008ء اس بحران سے موازنے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ واقعات ایک بہت بڑے جھٹکے کا باعث ہیں جو کروڑ ہا لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔ ان کو جس قسم کا بھی تحفظ حاصل ہوگا وہ راتوں رات غائب ہو جائے گا۔
ان ہتھوڑوں کے وار عوامی شعور کو ریڈیکل انداز میں تبدیل کریں گے جن کو اس وقت ایک عشرے کی کٹوتیوں کی پالیسیوں کے بعد ایک اور سرمایہ دارانہ بحران کی سخت حقیقت کا سامنا ہے۔
کروڑ ہا لوگ جو کبھی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے،انتہائی سیاسی اور بہت ہی زیادہ ریڈیکل بن جائیں گے۔کچھ پرتیں انقلابی نتائج بھی اخذ کریں گی۔جہاں مختلف گروہ مختلف اوقات میں مختلف نتائج اخذ کریں گے وہیں عمومی رجحان کا رخ ایک ہی جانب ہو گا۔
سوشلسٹوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ صورتحال سے پیچھے رینگتے رہنا اور یہ یقین کرنا ہے کہ چیزیں دوبارہ ٹھیک ہونے کی طرف جائیں گی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم ایک مکمل طور نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔
ہم پچاس سال سے زیادہ عرصے سے ایسے واقعات کے لیے تیاری کر رہے تھے اور اب بالآخر وہ ہمارے اردگرد رونما ہو رہے ہیں جن میں بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کروڑوں لوگوں پر اپنی حقیقی فطرت آشکار کر رہا ہے۔ جو معروضی صورتحال پک کر تیار ہو رہی ہے، اس کو قبل از انقلابی صورتحال قرار دیا جا سکتا ہے۔موجودہ بحران ہر سطح پر اسی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگلی سوموار صبح نو بجے انقلاب کا برپاہونا طے ہے۔ ہم جس انقلابی عہد کے اندر داخل ہو گئے ہیں وہ اونچ نیچ اور حتیٰ کہ مایوسی او ررجعت کے ساتھ طول پکڑتا جائے گا۔ چونکہ عوام صرف اپنے تجربے سے ہی سبق سیکھتے ہیں اس لیے یہ عمل سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا۔ دوسری عالمیجنگ کے بعد کا عہد، جب سرمایہ داری جزوی طور پر ہی سہی اپنے اندرونی تضادات بالخصوص قومی ریاست کی رکاوٹوں اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت پر قابو پانے کے قابل تھی، یکا یک ختم ہونے پر آ گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔
موجودہ بحران کسی قسم کا استثناء نہیں بلکہ یہ سرمایہ داری کی حقیقی فطرت کی طرف واپسی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سوال کو محنت کشوں اور نوجوانواں کی شعور یافتہ پرتوں کے سامنے بے دھڑک ہو کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ہمیں اس بات کی وضاحت کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ اگرچہ اسے تاریخی نوعیت کے بحران کا سامنا ہے لیکن سرمایہ داری خود بخود اپنی مرضی سے ختم نہیں ہو گی۔نظام کو شعوری طور پر اور مستعدی کے ساتھ اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔
اصلاحات یا انقلاب
آج مزدور تحریک کے اندر موجود بائیں بازو کے رہنماؤں پر ہماری تنقید یہ ہے کہ وہ ماضی میں زندہ ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔یہ ناممکن ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ مارکس وادیوں کو یوٹوپیائی قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ خود یوٹوپیائی ہیں۔ وہ سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے اور پیداوار کے تعقلی سوشلسٹ منصوبے کو متعارف کرانے کے واحد حل کے علاوہ ہر حل تلاش کرتے ہیں۔
اس عہد میں کوئی درمیانی راستہ موجود نہیں ہے۔ ہمیں ہمیشہ جو کچھ ہے وہ بیان کرنے اور محنت کش طبقے کو سچ بتانے کی ضرورت ہے۔مزدور اور ٹریڈ یونین رہنما مستقبل کے بارے میں غلط امیدوں کی لوری دے کر محنت کشوں کو سلا دینا چاہتے ہیں۔
لیکن محنت کش طبقے کو جیسے ہی بربادی کا احساس ہوتا ہے وہ اس طرح کی بکواسیات کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم معاشی یا دیگر اصلاحات کے لیے جدوجہد نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ہم سمجھتے ہیں کہ اصلاحات کے لیے جدوجہد بہت اہم ہے۔ روزمرہ کے مطالبات کے لیے جدوجہد کے بغیر بطورِ کُل سوشلزم کے لیے جدوجہد کا وجود نہیں ہوسکتا۔ تاہم اصلاحات کے لیے کی جانی والی اس جدوجہد کو سماج کو تبدیل کرنے کی ضرورت کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے۔ ماضی کی تمام سماجی اصلاحات تند وتیز طبقاتی جدوجہد کے ذریعے جیتی گئی تھیں۔
بہرحال، سرمایہ دارانہ بنیادوں پر مالکان کو دائیں ہاتھ سے جو کچھ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ اسے مستقبل میں بائیں ہاتھ سے واپس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سرمایہ دار محنت کشوں کو اسی وقت کچھ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں جب وہ سب کچھ کھو دینے کے خوف کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
عبوری پروگرام
موجودہ صورتحال میں آج کے عہد کے لیے سب سے زیادہ متعلقہ دستاویزات میں سے ایک”عبوری پروگرام“ ہے جسے ٹراٹسکی نے 1938ء میں لکھا تھا اور جس کو پڑھنے اور سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔
”عبوری پروگرام“ کا جوہر ان مطالبات کو اٹھانا تھا جو شعور کی موجودہ سطح اور سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت کے درمیان پُل کا کردار ادا کر سکیں۔
یہ بالشویک اپروچ پر مبنی تھا جیسا کہ ستمبر 1917 ء میں لکھے گئے لینن کے آرٹیکل ”ممکنہ تباہی اور اس سے لڑنے کا طریقہ“ میں وضاحت کی گئی تھی۔ یہ تیسری انٹرنیشنل کے اچھے دنوں میں لکھے گئے تھیسز پر بھی مبنی تھا۔بلاشبہ یہ عوامی کام سے متعلق تھا لیکن بہرحال اس میں آج کے لیے بھی اہم اسباق موجود ہیں۔
سب سے پہلے یہ کہ محنت کش طبقہ کسی صورت سرمایہ دارانہ بحران کی قیمت ادا نہیں کرے گا۔اس لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ جذباتی لفاظی نہیں بلکہ جدوجہد کا ایک حقیقی پروگرام ہے جو زوال پذیر سرمایہ داری کے حقیقی حالات سے مطابقت رکھتا ہو۔ آج حقیقت یہ ہے کہ محنت کشوں کی زندگیوں میں بہت عامیانہ سی بہتری بھی سرمایہ دارانہ سماج کی بقا سے متضاد ہو چکی ہے۔
عبوری پروگرام کا آغاز اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ محنت کش طبقے کی قیادت کا تاریخی بحران موجود ہے۔ یہ بات آج بھی ویسے ہی درست ہے۔ 1938ء میں حکمران طبقہ اپنی آنکھیں بند کر کے تباہی کی جانب گامزن تھا اور آج بھی ایک دفعہ پھر بالکل وہی معاملہ ہے۔ کسی بنیادی تبدیلی کے بغیر ہمیں ایک مکمل بربادی کا سامنا ہے۔
عبوری پروگرام اور امریکہ پر اس کے اطلاق کے متعلق اپنی بحثوں میں ٹراٹسکی نے اس اپروچ کی وضاحت کی جسے اپنایا جانا چاہیے:
”ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ حکمت عملی سے متعلق ذمہ داری،عوام کواپنی ذہنیت سیاسی اور نفسیاتی طور پر معروضی حالات کے مطابق ڈھالنے میں مدد دینے،امریکی محنت کشوں کے تعصباتی روایات پر قابو پانے اور ان کی ذہنیت کو پورے نظام کے سماجی بحران کی معروضی صورتحال کے مطابق ڈھالنے پر مشتمل ہے۔“
ہم آج جو مطالبات اٹھاتے ہیں ان کے اندر سماج کو تبدیل کرنے کی ضرورت لازمی طور پر شامل ہونی چاہیے۔ اگر سرمایہ دار محنت کشوں کو اجرتیں ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں اور اپنے منافعوں کو چھپا دیتے ہیں تو ہمیں مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے کھاتے کھولیں اور محنت کشوں کو ان کا معائنہ کرنے دیں۔
”جی ہاں، سرمایہ دار دو موقعوں پر اپنے کھاتے کھولنے کی طرف جاتے ہیں: جب فیکٹری کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہو یا پھر وہ محنت کشوں کو فریب دے سکتے ہوں۔ لیکن سوال کو زیادہ عمومی نقطہ نظر سے رکھا جانا چاہیے۔ پہلی جگہ پرکروڑوں لوگ بے روزگار ہیں اور حکومت دعویٰ کرتی ہے وہ مزید رقم ادا نہیں کر سکتی اور سرمایہ دار کہتے ہیں کہ وہ بھی زیادہ حصہ ادا نہیں کرسکتے، ہمیں سماج کے تمام تر کھاتوں تک رسائی حاصل کرنی چاہیے۔ آمدن کا حساب کتاب فیکٹری کمیٹیوں کے ذریعے منظم کیا جانا چاہیے“۔
”محنت کش کہیں گے: ہم اپنے ماہرین شماریات پر بھروسہ کریں گے، جو محنت کش طبقے سے مخلص ہوں۔ اگر صنعت کی کوئی شاخ ظاہر کرتی ہے کہ وہ مکمل تباہ ہوچکی ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم (محنت کش)آپ کو اپنی ملکیت میں لینا چاہتے ہیں۔ ہم اسے آپ سے بہتر چلا لیں گے۔آپ کو کیوں کوئی منافع نہیں ہوا؟ اس کی وجہ سرمایہ دارانہ سماج کے پرانتشار حالات ہیں۔
”ہم کہتے ہیں کہ کمرشل راز، استحصالیوں کے استحصال زدگان کے خلاف،پیداکاروں کے محنت کرنے والوں کے خلاف سازش ہوا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں انہیں مقابلہ بازی پر مبنی آزاد عہد کے اندر رازداریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب ان کے آپس میں کوئی راز نہیں ہیں بلکہ اب ان کے تمام راز سماج کے لیے ہیں۔
یہ عبوری مطالبہ بھی صنعتوں کو چلانے کے ابتدائی منصوبے کی صورت میں محنت کشوں کے پیداوار پر کنٹرول کی طرف ایک قدم ہے۔ہر چیز لازمی طور پر محنت کشوں کے کنٹرول میں ہونی چاہیے جو مستقبل کے سماج کے مالک ہوں گے۔
”اقتدار پر قبضے کا مطالبہ جو امریکی محنت کشوں کو غیر قانونی لگتا ہے۔اچھی بات ہے لیکن اگر آپ کہیں کہ سرمایہ دار بے روزگاروں کو ادائیگیوں سے انکاری ہیں اور بددیانتی پر مبنی کھاتوں کے ذریعے ریاست اور محنت کشوں سے اپنے حقیقی منافعے چھپاتے ہیں تو محنت کش اس فارمولے کو بھی سمجھ جائیں گے۔
”اگر ہم کسانوں سے کہیں کہ بینک آپ کو بیوقوف بناتے ہیں۔وہ بڑے منافعے کما رہے ہیں اور ہم آپ کو کہتے ہیں کہ آپ کسانوں کی کمیٹی بنائیں جو بینکوں کے کھاتوں کا معائنہ کرے۔ہر کسان اس بات کو سمجھ جائے گا۔ہم کہیں گے کہ کسان صرف اپنے آپ پر یقین کر سکتا ہے اور زرعی قرضوں کو کنٹرول کرنے کے لیے انہیں کمیٹی بنانے دی جائے۔وہ یہ بات بھی سمجھ جائیں گے۔یہ پروگرام کسانوں کے جذباتی مزاج کو فرض کرتا ہے اور اس سب کو ہر وقت حاصل نہیں کیا جا سکتا“۔ (عبوری پروگرام برائے سوشلسٹ انقلاب،صفحہ نمبر 85-86)
برطانیہ سمیت پوری دنیا کے اندر بحران بدتر ہوتا جا رہا ہے۔واقعات کے ہتھوڑوں کے نتیجے میں محنت کش ریڈیکل نتائج اخذ کر رہے ہیں۔یہ سچ ہے کہ شعور بہت قدامت پسند ہے لیکن یہ تبدیل ہو سکتا ہے اور بڑے واقعات کے ذریعے ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو جائے گا۔
ٹراٹسکی نے لکھا،”پرولتاریہ کا طبقاتی شعور پسماندہ ہے۔لیکن شعور فیکٹریوں،کانوں یا ریل کی پٹڑیوں کی طرح کی چیز نہیں ہوتا،یہ زیادہ متحرک ہوتا ہے اور معروضی بحرانات کے حملوں کے نتیجے یا کروڑوں کے بے روزگار ہونے سے یہ بہت تیزی سے تبدیل ہو سکتا ہے۔(ایضاً، صفحہ نمبر 157)
معروضی حالات آج سے پہلے کبھی انقلابی طبقاتی جدوجہد کے لیے اس طرح تیار نہیں ہوئے جیسے آج ہیں۔شعور جو ہمیشہ حالات سے پیچھے چلتا ہے،دھماکے کے ساتھ حالات سے مطابق ہونے کی طرف جائے گا۔جدلیات بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ مقدار کی معیار میں تبدیلی جستوں کے ذریعے ہوتی ہے۔
سوشلسٹ اقدامات
یقینا وقت کے اس مخصوص لمحے میں محنت کشوں کے لیے سب سے زیادہ تشویش کن یہ ہے کہ وہ کرونا وبا سے کیسے لڑیں۔اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لیے فوری عمل اور نڈر اقدامات درکار ہیں۔اور پھر اس سب کو ایک سوشلسٹ منصوبے کے ساتھ جوڑنا چاہیے جو آگے کے لیے راستہ فراہم کر سکتا ہے۔سب سے پہلے ہمیں اعتماد سے بیان کرنا چاہیے:
• ہمیں ٹوری حکومت اور اس کے بڑے کاروباری حامیوں پر کوئی اعتماد اور بھروسہ نہیں ہے!
• لیبر پارٹی کو کسی قومی حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ٹوریوں کے ساتھ کسی سمجھوتے یا اتحاد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مالکان اور ان کے بزدل سیاسی نمائندگان نے دکھایا ہے کہ وہ ہمیشہ زندگیوں پر منافعوں کو ترجیح دیں گے۔ہم محنت کشوں کے تحفظ اور صحت کو دولت پر ترجیح دینے کے لیے ایمرجنسی اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں:
•محنت کشوں کے مکمل کنٹرول اور انتظام کے اندر ایک مکمل طور پر عوامی ملکیت پر مبنی صحت کی سہولیات کے لیے۔نجی صحت کی سہولیات پہنچانے والوں کا خاتمہ۔ماضی کے اندر نجکاری اور آؤٹ سورسنگ کے تمام احکامات کو واپس لیا جائے۔صحت کی تمام سہولیات کسی قسم کی ادائیگیوں کے بغیر قومی ملکیت میں لی جانی چاہییں اور ان کو قومی صحت کے نظام سے جوڑ دینا چاہیے۔تمام فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو کسی ادائیگی کے بغیر قومیا لینا چاہیے۔
•عوامی سہولیات پر اثرانداز ہونے والی تمام کٹوتیوں کے فیصلوں کو واپس لیا جانا چاہیے۔بحران کی ضروریات پر قابو پانے کے لیے این ایچ ایس کو ملنے والے وسائل میں بہت بڑا اضافہ کیا جانا چاہیے۔ہر جگہ سٹاف کی مقدار کو بڑھانے کے لیے مناسب اجرت اور اوقاتِ کار کے ساتھ ڈاکٹروں،نرسوں،پیرامیڈیکس اور صحت کے دیگر عملے کے لیے ایک مکمل طور پر فنڈ شدہ تربیتی پروگرام کا آغاز کیا جانا چاہیے۔فوری طور پر نئے ہسپتال بنائے جانے چاہئیں۔
•کئی جگہوں کو ایمرجنسی ہسپتال کے طور پر استعمال کرنے کے لیے کسی ادائیگی کے بغیر قومی ملکیت میں لیا جانا چاہیے تاکہ انہیں لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔جہاں ضروری ہو ہوٹلوں،حویلیوں کو حاصل کیا جانا چاہیے اور انہیں کئیر ہومز،سینٹوریمز یا بے گھروں کے لیے پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔
•سٹہ بازی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے! جمہوری طور پر منتخب شدہ گاہکوں کی کمیٹیوں کو قیمتوں کی نگرانی اور پرائس کنٹرول لاگو کرنے کے لیے قائم کیا جانا چاہیے۔اگر مالکان تعاون سے انکار کریں تو بڑی سپر مارکیٹوں اور فارمیسیوں کو قومیا لیا جانا چاہیے اور محنت کشوں کے کنٹرول میں دے دینا چاہیے۔
•تمام غیر ضروری کام کی جگہوں کو فوری طور پر بند کر دینا چاہیے۔باقی رہنے والی تمام کام کی جگہوں پر کام کی کمیٹیاں قائم کی جانی چاہئیں اور محنت کشوں کے کنٹرول و انتظام کو قائم کیا جانا چاہیے۔ان کمیٹیوں کے پاس صحت اور حفاظت کے اقدامات اور سماجی فاصلے پر عملدرآمد اور سب کے لیے ضروری حفاظتی لباس کی یقین دہانی کے ساتھ کام کی جگہوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے اختیارات ہونے چاہئیں۔
•جب تک ضروری ہو گھروں کو بھیجے جانے والے محنت کشوں کو مکمل تنخواہ ادا کی جانی چاہیے۔وہ لوگ جن کا کام ختم ہو گیا ہے اور وہ بھی جن کا خود کا روزگار ہے،کو ریاست کی جانب سے مکمل ادائیگیاں کی جانی چاہئیں۔
•اس سب کے لیے درکار مالیاتی وسائل ٹیکسوں میں اضافے یا کٹوتیوں کے ذریعے حاصل نہیں کیے جانے چاہئیں بلکہ ان کو بینکوں اور مالیاتی گھروں کو قومی ملکیت میں لینے سے حاصل کیا جانا چاہیے! ویلتھ ٹیکس لگانے کی بجائے ہم بڑی اجارہ داریوں کو قومیانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
•قومی قرضے کو بڑھانے کی بجائے درکار رقم مکمل طور پر مالکان کے منافعوں سے حاصل کی جانی چاہئیے۔بڑے کاروبار اس وقت 700 ارب یوروز کے مشترکہ کیش ریزرو کے مالک ہیں اور یہ محنت کشوں کے استحصال سے حاصل ہونے والے مجتمع شدہ منافعے ہیں۔ان اثاثوں کو عوامی فلاح کی خاطر قبضے میں لے لینا چاہیے۔
•جیسے ہی وبا کے بعد عوام میں بیروزگاری پھیلنے کی طرف جاتی ہے،سب کو کام مہیا کرنے کے لیے اور کام کے دن کے اوقاتِ کار کو کم کرنے کے لیے کسی قسم کی اجرت میں کمی کیے بغیر کام کو تقسیم کر دینا چاہیے۔
•بہت سے چھوٹے کاروبار دیوالیہ ہوتے جا رہے ہیں اور بینکیں قرضوں کو بڑھانے سے انکاری ہیں۔بہت سارے صرف بینکوں کے ذریعے نہیں بلکہ بڑی اجارہ داریوں کے ذریعے نچوڑ لیے گئے ہیں۔بینکوں کو قومی ملکیت میں لیتے ہوئے ہم ان چھوٹے کاروباروں کو کم شرحِ سود پر گارنٹی شدہ قرضوں اور ادھاروں کے ذریعے زندگی دے سکتے ہیں۔
•اگر مالکان کہتے ہیں کہ وہ محنت کشوں کی اجرتیں ادا کرنے کو برداشت نہیں کر سکتے،تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں کھاتے دکھاؤ!محنت کش طبقے اور مزدور تحریک کو اکاونٹس دیکھنے دو! اگر کمپنیاں دیوالیہ ہوں تو انہیں بیل آؤٹ کرنے کی بجائے قومیا کر مزدوروں کے کنٹرول میں دے دینا چاہیے۔
•کٹوتیاں نامنظور! محنت کشوں کو بحران کی قیمت بالکل ادا نہیں کرنی چاہیے!
یہ واضح ہے کہ منڈی ناکام ہوچکی ہے اور سرمایہ داری گہرے بحران میں ہے۔سرمایہ داری کا انتشار برطانیہ اور دنیا بھر میں سماج کے وسائل کی منصوبہ بندی کو روکتا ہے:
• اس لیے ہم سو بڑی اجارہ داریوں,بینکوں,یوٹیلیٹیز,بڑے زمین داروں وغیرہ کو بغیر کوئی ادائیگی کیے محنت کشوں کے کنٹرول اور انتظام میں دیتے ہوئے قومی ملکیت میں لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس بنیاد پر معیشت کی جمہوری بنیادوں پر چند لوگوں کے بڑے منافعوں کی بجائے اکثریت کے حق میں جمہوری انداز میں منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔
• برطانیہ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کو یورپ کی متحدہ سوشلسٹ ریاستوں اور عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کے ساتھ جوڑنا چاہیے تاکہ وسائل کی عالمی سطح پر سب کے مفاد کے لیے منصوبہ بندی کی جاسکے۔یہ سرمایہ داری کی بربریت کا خاتمہ کرے گا اور انسانیت کو اس سیارے اور سماج کو درپیش ماحولیاتی تبدیلیوں,بیماریوں اور غربت جیسے مسائل کے حل کے آغاز کی اجازت دے گا۔
مارکسزم کی قوتوں کی تعمیر
ہمیں اپنا پروگرام پیش کرتے ہوئے واضح طور پر خود کو دیگر بائیں بازو والوں سے ممتاز کرنے کی ضرورت ہے جو خود کو، سرمایہ داری کی حدود میں جو کچھ ممکن ہے، تک محدود کر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم صرف روٹی کے چند ٹکڑے نہیں چاہتے بلکہ پوری بیکری چاہتے ہیں۔
ہم صرف امیروں پر ٹیکس نہیں چاہتے،ہم ان کی ملکیت لینا چاہتے ہیں۔
ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی:
”تمام طریقے اچھے ہیں جو محنت کشوں کے طبقاتی شعور کو،اپنی قوتوں پر اعتماد کو،جدوجہد میں قربانی دینے کے جذبے کو بڑھاتے ہیں“۔
”ناقابلِ اجازت وہ طریقے ہیں جو استحصالیوں کے مقابلے میں استحصال زدگان میں خوف اور فرمانبرداری کے بیج بوتے ہیں“۔
ہم نے جو مطالبات اٹھائے ہیں ان کے امکان کے بارے میں ٹراٹسکی بحث کرتا ہے:
”اگر سرمایہ داری خود کی پیدا کردہ اذیتوں سے ناگزیر طور پر ابھرنے والی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے تو اسے برباد ہوجانے دو۔موجودہ لمحے میں اس کا عملی شکل اختیار کرنا یا نہ کرنا، قوتوں کے تعلقات کا سوال ہے اور جس کا فیصلہ جدوجہد کے اندر ہی ہوسکتا ہے۔اس جدوجہد کے ذریعے،چاہے اس کی عملی فوری کامیابیاں جو بھی ہوں،محنت کش بالآخر سرمایہ دارانہ غلامی کے خاتمے کی ضرورت کو سمجھ جائیں گے“۔(عبوری پروگرام)
آج ہمیں جس صورتحال کا سامنا ہے ایسے حالات کا ہمیں پہلے کبھی سامنا نہیں رہا۔جیسے ہم نے کئی بار وضاحت کی ہے کہ محنت کش طبقہ کتابوں سے نہیں سیکھتا بلکہ واقعات سے سیکھتا ہے۔آنے والے واقعات کئی سوالات کھڑے کریں گے اور محنت کش طبقہ بالخصوص نوجوان بہت زیادہ ریڈیکل حتیٰ کہ انقلابی نتائج اخذ کریں گے۔
”اس طرح کے جھٹکے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ٹراٹسکی نے وضاحت کی،”وہ اپنی قدامت پرستی اکھاڑ پھینکتے ہیں۔وہ خود کو مجبور کرتے ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور تناظر کو جاننے کی کوشش کریں اور اس طرح کا ہر جھٹکا محنت کشوں کی کچھ پرتوں کو انقلابی راستے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔“
ہمارا فریضہ ہے کہ ہم باشعور پرتوں سے جڑیں اور پھر ان کے ذریعے وسیع ترین پرتوں سے جڑت بنائیں۔لیکن ہمارے لیے اس کو مؤثر طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لییمارکسزم کی قوتوں کو تعمیر کرنا بہت ضروری ہے۔اس ہر ایک کی وجہ سے جس کی ہم آج ان نظریات کے ذریعے تعلیم و تربیت کر سکتے ہیں،صورتحال کھلنے کے بعد ہم سینکڑوں اور ہزاروں کو جیتنے کے قابل ہوں گے۔
مارکسزم کے نظریات جو محنت کش طبقے کا عمومی تاریخی تجربہ ہیں،کی لازمی اہمیت ایک کلیدی سوال کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ وہ بنیاد ہے جس پر ایک طاقتور مارکسی رجحان کو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔
”انقلابی نظریے کے بغیر کسی انقلابی جدوجہد کا وجود ممکن نہیں“، لینن نے وضاحت کی تھی۔
عبوری پروگرام ٹراٹسکی ازم کی چھوٹی قوتوں کو جنگی بنیادوں پر بڑی تعداد میں تبدیل کرنے کے ذریعے کے طور پر اختیار کیا گیا تھا۔ہمارے لیے اس مرحلے پر جو چیز اہم ہے وہ عبوری پروگرام کا طریقہ ہے جو ہمیں محنت کشوں سے مکالمہ کرنے کی اجازت دیتا ہے اور مارکسی رجحان کو روزمرہ کے مطالبات کو سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت سے جوڑتے ہوئے محنت کشوں کی نئی پرتوں تک پہنچنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
سوشلزم یا بربریت
برطانیہ بہت سے دوسرے ممالک کی طرح قبل از انقلابی صورتحال کی جانب بڑھ رہا ہے اور یہ صورتحال کچھ عرصے کے لیے برقرار رہے گی۔مارکس وادیوں کو تاریخ کی جانب سے مسلط کردہ فرائض کو پورا کرنا ہوگا۔فروعی بہتریاں ممکن بلکہ ناگزیر ہیں لیکن بحیثیت مجموعی یہ سفر زوال اور غربت کی جانب رہے گا۔
درست نظریات اور طریقہ کار کے ساتھ اور خصوصی طور پر نوجوانوں میں جرات و بصیرت کے اشتراک سے آنے والے سالوں میں ایک عوامی مارکسی رجحان کو تعمیر کیا جا سکتا ہے اور تمام تر صورتحال کا ایک کلیدی جزو بنا جا سکتا ہے۔
اگر سرمایہ داری کو موجودہ صورت میں جاری رہنے کی اجازت دی گئی تو اس کا مطلب مزید بحران اور محنت کش طبقے کے لیے ناقابلِ برداشت تکالیف ہوں گی اور یہ سب بالآخر یورپی تہذیب کے مکمل خاتمے کی طرف جاسکتا ہے۔
انسانیت کے پاس آج دو ہی راستے ہیں،سوشلزم یا بربریت!