|تحریر:آفتاب اشرف|
آج سے لگ بھگ 170 سال قبل جب مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں ”دنیا بھر کے محنت کشو!ایک ہو جاؤ“ کا نعرہ دیا تھاتو اس کی بنیاد کسی اخلاقی ضابطے یا جذباتی ابھار پر نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کی حرکیات کے سائنسی مطالعے پر رکھی گئی تھی۔ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ غلام داری اور جاگیر داری کے برعکس سرمایہ داری اپنے جوہر میں ایک عالمگیر طرزِ پیداوار ہے اور اپنے نامیاتی تضادات کی بدولت اس کا اپنی مغربی جنم بھومی سے نکل کرپوری دنیا پر چھا جانا ناگزیر ہے، حالانکہ کمیونسٹ مینی فیسٹو کی اشاعت کے وقت یہ عمل ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔ مینی فیسٹو کے پہلے باب میں وہ لکھتے ہیں:
”بورژوا طبقہ تمام آلات پیداوار کو تیزی سے ترقی دیتا ہے اور آمد ورفت کے وسیلوں کو بے حد آسان بناتا رہتا ہے اور ان کے بل پر وہ تمام قوموں کو حتیٰ کہ انتہائی وحشی قوموں کو بھی تہذیب کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے۔ اس کے تجارتی مال کی ارزانی گولے بارود کا کام کرتی ہے جن سے وہ ہر دیوارِ چین کو گرا دیتا ہے اور ضدی سے ضدی وحشیوں کو، جن کے دل سے غیروں کی نفرت کا جذبہ مارے نہیں مرتا، ہار ماننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ تمام قوموں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بورژوا طریقہ پیداوار اختیار کریں یا فناہو جائیں۔ وہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی اپنے یہاں اس کی تہذیب کو رائج کریں، یعنی وہ خود بھی بورژوا بنیں۔ مختصر یہ کہ وہ اپنے سانچے میں ایک دنیا کو ڈھال لیتا ہے۔“
اسی طرح اینگلز کی جانب سے 1847ء میں کمیونسٹ لیگ کے لیے لکھی جانے والی دستاویز (کمیونزم کے اصول) کے مطابق:
”19۔ کیا اس انقلاب کا صرف ایک ملک میں وقوع پذیر ہونا ممکن ہو گا؟
نہیں۔ عالمی منڈی کی تخلیق کے ذریعے بڑی صنعت پہلے ہی کرۂ ارض کے تمام سماجوں کو، اور خاص کر مہذب سماجوں کو، ایک دوسرے کے ساتھ اتنے قریبی رشتے میں لے آئی ہے کہ کوئی بھی دوسروں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ مزید برآں، اس نے مہذب ممالک کی سماجی بڑھوتری کو ایک دوسرے کے ساتھ اس حد تک منسلک کر دیا ہے کہ ان سبھی میں ہی بورژوا اور پرولتاریہ فیصلہ کن طبقات بن چکے ہیں اور ان کی باہمی کشمکش عہد کی سب سے عظیم جدوجہد بن چکی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ کمیونسٹ انقلاب صرف ایک قومی مظہر نہیں ہو گا بلکہ اس کا تمام مہذب ممالک میں بیک وقت وقوع پذیر ہونا لازمی ہے، یعنی کہ کم از کم انگلستان، امریکہ، فرانس اور جرمنی میں۔
ان میں سے ہر ایک ملک میں یہ کم وبیش تیزی کے ساتھ ہی آگے بڑھے گا، ہر ملک کے صنعتی معیار، دولت اور ذرائع پیداوار کی مقدار کے ساتھ مطابقت میں۔۔۔ یہ ایک آفاقی انقلاب ہے اور اسی لئے اس کی پہنچ بھی آفاقی ہوگی۔“
اگر ہم ان مندرجہ بالا سطور کو دستاویزکے نکتہ نمبر18کے ساتھ جوڑ کر پڑھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں انقلاب سے مراد محض پرولتاریہ کی آمریت کا قیام نہیں بلکہ ایک مکمل سوشلسٹ سماج، مارکس اور اینگلز کے بقول’کمیونزم کا نچلا درجہ‘، کی تعمیر ہے۔
سرمایہ داری کی اسی عالمگیر جبلت کے پیش نظر مارکس اور اینگلز نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو رنگ، نسل، مذہب، زبان اور قوم کی تفریقات سے بالاتر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر منظم ہونے کی دعوت دی کیونکہ ایک عالمی نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد بھی عالمی سطح پر ہی کی جا سکتی ہے۔ یہی امر محنت کشوں کی پہلی بین الاقوامی تنظیم ”کمیونسٹ لیگ“ اور بعد میں ”پہلی انٹرنیشنل“ کے قیام کا موجب بناجس میں مارکس اور اینگلز نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مارکس اور اینگلز کے نزدیک پوری دنیا میں کسی ایک دن میں سوشلسٹ انقلاب بر پا ہو جانا تھا۔ ان کے مطابق یقینی طور پر اس کا آغاز (یعنی پرولتاریہ کی آمریت کا قیام اور سماج کی سوشلسٹ تنظیمِ نو کی ابتدا) کسی ایک یا چند بورژوا ممالک سے ہی ہو سکتا تھا لیکن اس کی تکمیل؛ یعنی ایک مکمل سوشلسٹ سماج کا قیام جس میں مزدور ریاست کے سماج میں تحلیل ہونے کے عمل کا آغاز ہو جائے اور جو سرمایہ داری سے بلند تر افزودگی محن کی بنیاد پر تخلیق کردہ پیداواری افراط کے ذریعے عمومی قلت کا خاتمہ کرتے ہوئے کمیونزم کی جانب ارتقا پذیر ہو؛ کسی ایک ملک کی حدود میں ہونا ناممکن تھی چاہے وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو۔ اس مقصد کے لئے کم از کم بھی کئی ایک ترقی یافتہ بورژوا ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کا برپا ہونا اور ان کے ذرائع پیداوار کامشترکہ طور پر سوشلسٹ بنیادوں پر منظم کیاجانا ضروری تھا۔ پوری دنیا سے الگ تھلگ کسی ایک ملک کی حدود میں ’سوشلسٹ جنت‘ تعمیر کرنے کے یو ٹوپیائی خیال کا ہمیں مارکس اور اینگلز کے پورے علمی و نظریاتی کام میں کہیں شائبہ تک نہیں ملتا۔
1917ء میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والا انقلابِ روس بلا شبہ انسانی تاریخ کا عظیم ترین واقعہ تھا۔ انتہائی مختصر عرصے کے لئے قائم رہنے والے پیرس کمیون کو چھوڑ کر یہ انسانی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ بالشویک پارٹی کی سربراہی میں محنت کش طبقے نے کروڑوں غریب کسانوں، محکوم قومیتوں اور نوجوانوں کی قیادت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا، ذرائع پیداوار کو اپنی اجتماعی ملکیت وجمہوری کنٹرول میں لیا اور سابقہ ریاستی مشینری کو مسمار کرتے ہوئے دنیا کی پہلی مزدور ریاست کی بنیاد رکھی۔ اس انقلاب نے مغرب سے مشرق اور شمال سے جنوب تک دنیا کے ہر سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یہ کروڑوں اربوں محنت کشوں، دہقانوں اورمحکوم قوموں کے لئے سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج کے جبر و استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لئے مشعلِ راہ بن گیا۔ بالشویک پارٹی نے مارکس اور اینگلز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ اپنے سیاسی تناظر تخلیق کرتے وقت عالمی صورتحال کو بطور نقطۂ آغاز لیا تھا۔”دنیا بھر کے محنت کشو!ایک ہو جاؤ“ کے نعرے کو بنیاد بناتے ہوئے پارٹی کا منشور عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک عالمی سوشلسٹ سماج کے قیام کا داعی تھا۔ انقلابِ روس محض عالمی انقلاب کے سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین یعنی لینن اور ٹراٹسکی کی تمام تصانیف، تقاریر، سیاسی پوزیشنیں اور پارٹی کی آفیشل دستاویزات واضح طور پر اس امر کی گواہی دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کے بعد سامراجی پشت پناہی کے ساتھ زار شاہی کی باقیات کی طرف سے مسلط کی گئی خانہ جنگی اور سامراجی طاقتوں کی طرف سے کی گئی ناکہ بندی سے پیدا ہونے والی انتہائی مشکل صورتحال کے باوجود مارچ1919ء میں لینن اور ٹراٹسکی نے تیسری یا کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی تا کہ انقلاب روس سے تحرک وحوصلہ پانے والے دنیا کے کروڑوں محنت کشوں کو روسی محنت کش طبقے کے انقلابی تجربے کے نچوڑ سے مسلح کرتے ہوئے عالمی انقلاب کی جدوجہد کے لئے منظم کیا جا سکے۔ تیسری انٹرنیشنل کے قیام کے بعد مختصر عرصے میں ہی زیادہ تر یورپی ممالک میں بڑی کمیونسٹ پارٹیاں وجود میں آئیں اور انٹرنیشنل کا حصہ بن گئیں۔ ان پارٹیوں کا جنم دوسری انٹرنیشنل سے منسلک سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں اور مزدور تنظیموں میں پہلی عالمی جنگ اور انقلابِ روس کے اثرات کے تحت ہونے والی دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم سے ہواتھا۔
اگر ہم لینن کی زندگی میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پہلی چار کانگریسوں کی دستاویزات، تقاریر، اعلامیوں اور بحثوں کا سرسری سا مطالعہ بھی کریں تو یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ بعد از جنگ عالمی صورتحال کے ٹھوس مارکسی تجزئیے کی بنیاد پر لینن اور ٹراٹسکی سمیت انٹرنیشنل کی تمام مرکزی قیادت مستقبل قریب میں عالمی پرولتاری انقلاب کی کامیابی (خصوصاًترقی یافتہ یورپی ممالک میں) کے حوالے سے خاصی پر امید تھی اور روس میں خانہ جنگی سے پیدا ہونے والی بد ترین مشکلات کے باوجود نہ صرف ان کی توجہ اس اہم ترین فریضے سے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں ہٹی تھی بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ حتمی تجزئیے میں وہ انقلابِ روس کی بقا کو عالمی انقلاب کی کامیابی پر منحصر سمجھتے تھے۔ بلاشبہ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی اور روس کا محنت کش طبقہ داخلی محاذ پر بھی انقلاب کی بقا کے لئے ایک جاں گسل جدوجہد کر رہا تھالیکن خانہ جنگی لڑنے کی خاطر سرخ فوج کی تخلیق اور جنگی کمیونزم کے نفاذ سے لے کر زرعی و قومی مسئلے کے حل، نیو اکنامک پالیسی، ریاستی صنعتی شعبے کی سوشلسٹ بنیادوں پر تنظیمِ نو اور بھاری صنعت کے قیام کی کوششوں تک، نوزائیدہ مزدور ریاست کی طرف اپنی بقا کے لئے اٹھائے گئے تمام اقدامات کا حتمی مقصد روس کی حدود میں کسی سوشلسٹ جنت کی تعمیر کی بجائے اس وقت تک قائم رہنا تھا جب تک کہ کسی ترقی یافتہ ملک کا پرولتاریہ اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے انقلابِ روس کی سائنسی وتکنیکی مدد کے لئے نہ آن پہنچے۔ مگر بد قسمتی سے وارسا کے محاذ پر سرخ فوج کی شکست، نوزائیدہ ہنگرین سوویت ریپبلک کے انہدام، 1920ء کے اطالوی انقلاب کی ناکامی اور سب سے بڑھ کر سوشل ڈیموکریسی کی غداریوں اور جرمن کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے 1919ء اور1923ء کے جرمن انقلابات کی ناکامی نے عالمی انقلاب کو وقتی تعطل کا شکار کر دیا۔ دوسری طرف روس میں اگرچہ بالشویک حکومت کو خانہ جنگی میں فتح ہو چکی تھی مگر جنگ کے دوران نہ صرف صنعت اور زراعت کو شدید نقصان پہنچا تھا، ہر طرف وبائیں اور قحط پھیلا ہوا تھا بلکہ بالشویک پارٹی کے ہزاروں بہترین کیڈرز اور روسی پرولتاریہ کی سب سے شعور یافتہ ہر اول پرتیں بھی انقلاب کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے دے چکی تھیں۔ دوسرے الفاظ میں انقلاب ایک تباہ حال اور پسماندہ روس میں تنہا رہ گیا تھا۔ ایسی بربادی، پسماندگی اور تنہائی نے زبردست مادی قلت کو جنم دیا جس کا ناگزیر نتیجہ انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پذیری کی صورت میں نکلا۔
لینن نے اپنی وفات سے قبل سوویت ریاست پر افسر شاہی کی بڑھتی ہوئی جکڑ کو درست طور پر بھانپتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور اس سلسلے میں ٹراٹسکی کو اعتماد میں لیتے ہوئے متعدد اقدامات کی تجاویز پارٹی کے سامنے رکھیں لیکن اس کی زندگی نے وفا نہیں کی۔ جنوری 1924ء میں لینن کی وفات سے شہہ پاتے ہوئے افسر شاہی نے سوویت اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا شروع کر دی۔ اس افسر شاہانہ سیاسی ردِ انقلاب کا شخصی اظہار اور قائد سٹالن تھاجو پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے بطور حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے افسر شاہی میں گہری جڑیں بنا چکا تھا۔ ایسی صورتحال میں بالشویک پارٹی، کمیونسٹ انٹرنیشنل اور انقلابِ روس کے حقیقی نظریات اور روایات کے دفاع اور افسر شاہی کے خلاف سیاسی جدوجہد کا فریضہ لینن کے ساتھ انقلاب کی قیادت کرنے والے، کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بنیادیں رکھنے والے اور سرخ فوج کے بانی لیون ٹراٹسکی اور اس کی تخلیق کردہ لیفٹ اپوزیشن کے کندھوں پر آن پڑا۔ اس کے جواب میں افسر شاہی کی بھر پور پشت پناہی کے ساتھ سٹالن نے ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اس مقصد کے لئے اس نے ہر قسم کے اوچھے انتظامی ہتھکنڈوں سے لے کرانتقامی کاروائیوں، دھمکیوں، بدترین بہتان بازی، پراپیگنڈے اور دروغ گوئی سمیت ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔ اس سلسلے میں زینوویف، کامینیف اور بخارن سمیت کئی ایک پرانے بالشویکوں نے بھی مختلف اوقات میں بدترین موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سٹالن اور اس کے افسر شاہانہ ٹولے کا ساتھ دیا۔ سوویت اقتدار پر اپنے ناجائز قبضے کو اخلاقی و سیاسی جواز مہیا کرنے اور اسے دوام بخشنے کی خاطر افسر شاہی اور سٹالن نے لینن کی موت کے کچھ ہی عرصے بعدبالشویک پارٹی اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے بنیادی نظریات اور پروگرام سے بد ترین کھلواڑ کرتے ہوئے انہیں مسخ کرنا شروع کر دیا۔ اس حوالے سے انقلاب اور مزدور دشمن نظریات کا ایک ملغوبہ تیار کیا گیاجو مارکس، اینگلز اور لینن کے طریقہ کار، نظریات اور روایات کی مکمل نفی کرتا تھا۔ اسی طرح سٹالن اور اس کے ٹولے کی جانب سے پیش کئے جانے والے یہ ’نئے‘ نظریات بالشویک پارٹی اور انقلابِ روس کے پورے تاریخی تجربے سے اخذ کردہ نتائج سے بھی بالکل متصادم تھے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سوویت عوام اور پوری دنیاکے محنت کشوں اور کمیونسٹ پارٹیوں کے سامنے ان ردِ انقلابی نظریات کو ’حقیقی‘ مارکسزم لینن ازم بنا کر پیش کیا گیا جبکہ مارکسزم لینن ازم کے اصل نظریات اور روایات، جن کا دفاع ٹراٹسکی کر رہا تھا، پر ’ٹراٹسکی ازم‘ کا لیبل چسپاں کر کے انہیں ردِ انقلابی، منشویک، فاشسٹ، سامراجی، دشمنوں کی سازش اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا۔ اس مقصد کے لئے سٹالن اور اس کے ٹولے نے جہاں ایک طرف ریاستی مشینری پر اپنی گرفت کو استعمال کرتے ہوئے حقائق کو مسخ کرنے، سازشی تھیوریاں گھڑنے اور پھیلانے کے حوالے سے غالباً انسانی تاریخ کی سب سے خوفناک مہم چلائی وہیں دوسری طرف اپنے ردِ انقلابی نظریات اور بہتان تراشیوں کو سہارا دینے کی خاطر لینن کے نام اور انقلابِ روس کی سیاسی اتھارٹی (اقتدار پر قبضہ ہونے کی وجہ سے) کو بھی بے دریغ استعمال کیا۔ لینن کی اپنی وفات سے قبل دی گئی واضح وارننگ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے 1917ء سے قبل ٹراٹسکی کے ماضی کو خوب اچھالا گیا، پارٹی کے سوال پرٹراٹسکی کے لینن کے ساتھ اختلافات اور ”نظریہ انقلابِ مسلسل“ کے حوالے سے لینن اور ٹراٹسکی کی نظریاتی بحثوں پر رائی کا پہاڑ کھڑا کیا گیا حالانکہ انقلابِ روس کے تاریخی تجربے نے ان اختلافات کو ہمیشہ کے لئے قصہئ پارینہ بنا دیا تھا جب دونوں قائدین نے نظریاتی بنیادوں پر متحد ہو کر انقلاب کی قیادت کی تھی۔ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے سٹالن نے سب سے زیادہ مسخ لینن کے نظریات کو کیا۔ اپنے ردِ انقلابی نظریات کو لینن کے نام کا سہارا دینے کے لئے لینن کے جملوں کو تروڑ مروڑ کر، انہیں سیاق وسباق اور کل سے کاٹ کر زبر دستی ایسے نئے معنی دیے گئے جن سے یہ اپنا حقیقی مفہوم اور تاریخی ربط بالکل کھو بیٹھے۔
ایسے میں ٹراٹسکی نے حقیقی مارکسزم لینن ازم کے دفاع کی خاطر ایک بھر پور نظریاتی جنگ لڑی اور ان ردِ انقلابی نظریات، جنہیں ہم سٹالن ازم کے نام سے جانتے ہیں، کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ سٹالن ازم کے اس ردِ انقلابی ملغوبے سے برآمد ہونے والا ایک انتہائی خطرناک اور رجعتی نظریہ ”ایک ملک میں سوشلزم“ کا تھا۔ یہ نام نہاد نظریہ نہ صرف معاشی اور تکنیکی پہلوؤں سے نہایت ہی احمقانہ اور یو ٹوپیائی تھا بلکہ سیاسی حوالے سے محنت کشوں کی بین الاقوامی جڑت کے لئے بھی زہرِ قاتل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ناگزیر نتیجہ دنیا بھر میں کمیونسٹ پارٹیوں کے قوم پرستانہ زوال، عالمی انقلاب سے غداری اورسٹالن کے ہاتھوں کمیونسٹ انٹرنیشنل کے خاتمے کی صورت میں نکلا۔ حتمی تجزئیے میں سوویت یونین کے انہدام میں بھی منصوبہ بند معیشت پر افسر شاہانہ جکڑ بندی کے ساتھ ساتھ ایک ملک میں سوشلزم کے رجعتی نظریے نے ایک معیاری کردار ادا کیا۔ آئیے، اس ردِ انقلابی نظریے کا ہر پہلو سے تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح یہ مارکسزم لینن ازم کے ساتھ براہ راست متصادم ہے۔ یہاں ہم بتاتے چلیں کہ درج ذیل بحث کا ایک قابلِ ذکر حصہ 1929ء میں شائع ہونے والی ٹراٹسکی کی کتاب ”تیسری انٹرنیشنل، لینن کے بعد“ سے اخذ کیا گیا ہے۔
سٹالن اور اس کے ٹولے کے سفید جھوٹ
اپریل1924ء میں شائع ہونے والے اپنی کتاب ”لینن ازم کی اساس“ کے پہلے ایڈیشن میں سٹالن رقم طراز ہے:
”ایک ملک میں بورژوازی کی اقتدار سے بے دخلی اور پرولتاری حکومت کا قیام سوشلزم کی مکمل فتح کی ضمانت نہیں دیتا۔ سوشلزم کا بنیادی مقصد، یعنی سوشلسٹ پیداوار کو منظم کرنا، ابھی حاصل ہونا باقی ہے۔ کیا یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے، کیا کئی ایک ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں کی مشترکہ کوششوں کے بغیرایک ملک میں سوشلزم کی حتمی فتح ممکن ہوسکتی ہے؟ نہیں، یہ ناممکن ہے۔ بورژوازی کا تختہ الٹنے کے لئے ایک ملک کی کوششیں کافی ہیں۔ ہمارے انقلاب کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ سوشلزم کی حتمی فتح کے لئے، سوشلسٹ پیداوار کو منظم کرنے کے لئے، ایک ملک اور خاص کر روس جیسے زرعی ملک کی کوششیں ناکافی ہیں۔ اس مقصد کے لئے کئی ایک ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں کی کوششیں درکار ہوں گی۔۔۔بحیثیت مجموعی یہ لینن کے پرولتاری انقلاب کے نظریے کے بنیادی خصائص ہیں۔“
سٹالن کی مندرجہ بالا سطور بالکل درست ہیں اور بلا شبہ لینن، بالشویک پارٹی اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے نظریات اور روایات کی صحیح تر جمانی کرتی ہیں۔ مگر جلد ہی اس ایڈیشن کو واپس لے لیا گیا اور 1924ء کے اواخر میں جب یہ کتاب دوبارہ شائع ہوئی تو اس میں سٹالن نے ایک انوکھا انکشاف کیا:
”مگر ایک ملک میں بورژوازی کی طاقت کے خاتمے اور پرولتاریہ کے اقتدار کے قیام کایہ مطلب نہیں کہ سوشلزم کی مکمل فتح کی ضمانت حاصل ہو گئی ہے۔ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے بعد اور کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے فاتح ملک کا پرولتاریہ ایک سوشلسٹ سماج تعمیر کر سکتا ہے اور اسے ایسا لازمی کرنا ہو گا۔ مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے سوشلزم کی مکمل اور حتمی فتح حاصل کی جا سکتی ہے، یعنی کیا وہ (پرولتاریہ) صرف ایک ملک کی کوششوں کے ذریعے سوشلزم کو حتمی استحکام اور مداخلت سے تحفظ، اور نتیجتاًسرمایہ داری کی بحالی کے خلاف تحفظ کی مکمل ضمانت فراہم کر سکتا ہے؟نہیں،ایسا نہیں ہے۔اس کے لئے کم از کم بھی کئی ایک ممالک میں کامیاب انقلاب درکار ہو گا۔“
ذرا غور کیجیے کہ کس طرح سٹالن ایک طرف روس جیسے پسماندہ اور تباہ حال ملک میں سوشلسٹ سماج کی تعمیر کو ممکن اور لازمی قرار دے رہا ہے اور دوسری طرف تمام تر معاشی اور تکنیکی چیلنجز کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سماج کو درپیش واحد خطرے کے طور پر صرف بیرونی فوجی مداخلت کا ذکر کر رہا۔ یعنی آسان الفاظ میں وہ یہ کہہ رہا ہے کہ روس میں ایک مستحکم سوشلسٹ سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ کسی بیرونی فوجی مداخلت اور نتیجتاً سرمایہ داری کی بحالی کا خطرہ نہ ہومگر صرف اس ضمن میں (ذرائع پیداوار اور تکنیک کے حوالے سے نہیں)ایک ملک کی قوتیں کافی نہیں ہیں اور اس حوالے سے تحفظ کی مکمل گارنٹی کئی ممالک میں انقلاب کی کامیابی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ مزید برآں، اپنی طرف سے ’نظریہ دان‘ بننے کی کوشش کرنے والا سٹالن شاید یہ سمجھنے سے قاصر تھاکہ سامراجی ممالک کی فوجی برتری بھی حتمی تجزئیے میں ان کی صنعت، تکنیک اور افزودگی محن کے معاملے میں سوویت یونین پر حاصل برتری کی ہی مرہون منت ہے۔ لینن کی وفات کو ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا اورافسر شاہی کی اقتدار پر گرفت ابھی اتنی مضبوط نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے مارکسزم لینن ازم کے حقیقی نظریات پر یہ پہلا حملہ مبہم انداز میں کیا گیا۔ مگر1926ء تک افسر شاہی اتنی طاقت پکڑ چکی تھی کہ سٹالن نے دھڑلے کے ساتھ اعلان کیا:
”پارٹی نے ہمیشہ اس خیال کو نقطہئ آغاز کے طور پر لیاکہ ایک ملک میں سوشلزم کی فتح کا مطلب ہے کہ اس ملک میں سوشلزم تعمیر کرنا ممکن ہے،اور یہ مقصد ایک ملک کی قوتوں کے بلبوتے پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔“ (پراودا، 12 نومبر1926ء)
اسی طرح جولائی 1928ء میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی چھٹی کانگریس میں منظور ہونے والے ڈرافٹ پروگرام (بخارن اور سٹالن کے تصنیف کردہ) میں سوویت یونین کے متعلق لکھا ہے:
”۔۔۔یہ تمام ضروری اور کافی مادی حالات رکھتا ہے، صرف جاگیر داروں اور بورژوازی کا تختہ الٹنے کے لئے ہی نہیں بلکہ سوشلزم کی مکمل تعمیر کے لئے بھی۔۔۔“ (کمیونسٹ انٹرنیشنل کا پروگرام، ایم آئی اے، سیکشن5)
ہم ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں سٹالن ازم غلط تو ہے ہی لیکن اس سے پہلے یہ ایک جھوٹ ہے۔ ایک ننگا، بے شرم اور سفید جھوٹ۔ آئیے، ذرا لینن کی طرف چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ایک ملک میں سوشلزم کی تکمیل کے حوالے سے لینن کا کیا مؤقف تھا۔ اس معاملے میں ہم لینن کے ضخیم مجموعہ تصانیف سے لاتعداد اقتباسات کا حوالہ دے سکتے ہیں لیکن جگہ کی قلت کے باعث ہم یہاں خود کو چند ایک تک ہی محدود رکھیں گے۔
فروری انقلاب کے بعد مارچ 1917ء میں جلا وطنی سے روس واپس آتے وقت سوئس محنت کشوں کے نام اپنے ایک خط میں لینن لکھتا ہے:
”روسی پرولتاریہ تن تنہاسوشلسٹ انقلاب کو کامیاب انجام تک نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن یہ انقلابِ روس کو وہ غیر معمولی شکتی دے سکتا ہے جو سوشلسٹ انقلاب کے لئے انتہائی ساز گار حالات پیدا کرے گی، بلکہ ایک طرح سے اس کا آغاز کردے گی۔ یہ ایک ایسی صورتحال کو جنم دینے میں مدد گار ثابت ہو گی جس میں اس(روسی پرولتاریہ)کے سب سے اہم اور قابل اعتماد ساتھی، یعنی یورپ اور امریکہ کا سوشلسٹ پرولتاریہ فیصلہ کن لڑائیوں میں شامل ہو سکے گا۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد 23، صفحہ367-374)
جنوری 1918ء میں منعقد ہونے والی سوویتوں کی تیسری آل رشین کانگریس میں لینن نے اپنی تقاریر اور مختلف رپورٹس میں کہا:
”ہم ابھی سرمایہ داری سے سوشلزم کی طرف جانے والے عبوری عہد کی تکمیل سے بھی بہت دور ہیں۔ ہم نے کبھی یہ امید نہیں پالی کہ ہم اسے عالمی پرولتاریہ کی مدد کے بغیر مکمل کر سکتے ہیں، ہمیں اس معاملے میں کبھی کوئی ابہام نہیں رہا۔۔۔“
”سوشلزم کے عظیم بانی مارکس اور اینگلز مزدور تحریک اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی بڑھوتری کے کئی دہائیوں پر مبنی مطالعے سے یہ واضح طور پر جان گئے تھے کہ سرمایہ داری سے سوشلزم تک کا سفرطویل درد زہ، پرولتاریہ کی آمریت کے لمبے عرصے، ماضی کے تمام آثار کو منہدم کرنے، سرمایہ داری کی تمام اشکال کے سفاکانہ خاتمے اور تمام ممالک کے محنت کشوں کے تعاون کا نتیجہ ہو گا جنہیں مکمل فتح کو یقینی بنانے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔“”روسی محنت کشوں اور استحصال زدہ طبقات کو یہ اعزاز حاصل ہو اہے کہ ہم عالمی سوشلسٹ انقلاب کا ہر اول دستہ بنیں، ہم اب واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ انقلاب کی بڑھوتری کہاں تک جائے گی۔ روسیوں نے اسے شروع کیا ہے۔۔۔جرمن، فرانسیسی اور انگریز اس کو انجام تک پہنچائیں گے، اور سوشلزم کو فتح حاصل ہو گی۔“
”ہم سوویتوں کی اس تاریخی کانگریس کا اختتام عالمی انقلاب کے امڈتے ہوئے بادلوں تلے کرتے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب تمام ممالک کے محنت کش عوام ایک عالمی ریاست میں متحد ہو جائیں گے اور ایک نئے سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لئے مشترکہ کوششوں کا حصہ بنیں گے۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد26، صفحہ453-482)
7مارچ 1918ء کو بریسٹ لٹووسک امن معاہدے پر بات کرتے ہوئے لینن نے کہا:
”یہ ہمارے لئے ایک سبق ہے کیونکہ مطلق حقیقت یہ ہے کہ جرمنی میں انقلاب کے بغیر ہم فنا ہو جائیں گے۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، پرانا روسی ایڈیشن، جلد15، صفحہ132)
چند ہفتوں بعد 23اپریل کو لینن نے کہا:
”ہماری پسماندگی نے ہمیں آگے دھکیل دیا ہے لیکن ہم فنا ہو جائیں گے اگر ہم اس وقت تک قائم رہنے میں ناکام رہتے ہیں جب تک کہ ہمیں دوسرے ممالک کے سرکش پرولتاریہ کی عظیم مددحاصل نہیں ہو جاتی۔“(ایضاً، صفحہ187)
اسی طرح نومبر1918ء میں منعقد ہونے والی غیر معمولی چھٹی سوویتوں کی آل رشین گانگریس سے خطاب کرتے ہوئے لینن نے کہا:
”ہمیں فیصلہ کن جنگوں کا سامنا ہے، جنگیں جو بلاشبہ فیصلہ کن ہوں گی۔ مگر ہم تنہا نہیں ہیں۔ مغربی یورپ کا پرولتاریہ حرکت میں آ چکا ہے۔۔۔ ہمارا نعرہ ہونا چاہئے، ایک مرتبہ پھر اپنی ہر کوشش لڑائی میں جھونک دو اور یاد رکھوکہ ہم آخری فیصلہ کن لڑائی لڑنے جا رہے ہیں، صرف روسی انقلاب کے لئے نہیں، بلکہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی خاطر۔“
”کامریڈز! اکتوبر انقلاب کے آغاز سے ہی خارجہ پالیسی اور عالمی صورتحال ہمارے لئے بنیادی اہمیت کی حامل تھی۔ صرف اس لئے نہیں کہ اب دنیا کی تمام ریاستیں سامراج کی بدولت ایک عالمی نظام، یا ایک گندے خونی ملغوبے، کا مضبوطی سے حصہ بن چکی ہیں بلکہ اس لئے کہ کسی ایک ملک میں سوشلسٹ انقلاب کی مکمل فتح کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتااور اس کے لئے کم از کم بھی کئی ایک ترقی یافتہ ممالک، جن میں روس شامل نہیں ہے، کا آپس میں زبردست تعاون درکار ہو گا۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد28، صفحہ135-164)
مارچ1919ء میں لینن نے کہا:
”ہم محض ایک ریاست میں نہیں بلکہ ریاستوں کے نظام میں رہتے ہیں اور ایک لمبے عرصے کے لئے سوویت جمہوریہ کے سامراجی ریاستوں کے ساتھ قائم رہنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ حتمی طور پر کسی ایک کو دوسرے پر فتح پانا ہو گی۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، پرانا روسی ایڈیشن، جلد16، صفحہ102)
یہاں پر کوئی اعتراض اٹھا سکتا ہے کہ ابھی تک ہم نے جن اقتباسات کا حوالہ دیا ہے وہ اس عرصے سے تعلق رکھتے ہیں جب نوزائیدہ مزدور ریاست خانہ جنگی کے شدید دباؤ میں تھی اور ردِ انقلابی فوجیں بھر پور سامراجی پشت پناہی کے ساتھ بالشویک حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرتی جا رہی تھیں اور شاید اسی لیے لینن عالمی سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت پر اتنا زور دے رہا تھا۔ چلیں! اگلا حوالہ ہم دسمبر1919ء کے اوائل میں منعقد ہونے والی سوویتوں کی ساتویں آل رشین کانگریس میں لینن کی تقریر سے دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت تک ایڈمرل کولچاک اورجنرل یودینخ سرخ فوج کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو چکے تھے اور خانہ جنگی کا پانسہ فیصلہ کن انداز میں مزدور ریاست کے حق میں پلٹ چکا تھا۔ لیکن اس کے باوجود لینن کہتا ہے کہ:
”اگر ہم اپنی سرگرمیوں کے سیاسی نتائج اور اسباق کے متعلق بات کریں، تو قدرتی طور پر سوویت جمہوریہ کی عالمی پوزیشن(کی بحث) سر فہرست آتی ہے۔ اکتوبر انقلاب سے پہلے اور اس کے دوران بھی ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم اپنے آپ کو عالمی پرولتاری فوج کے صرف ایک دستے کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک ایسا دستہ جو اپنی ترقی اور تیاری کے بلبوتے پر نہیں بلکہ روس کے مخصوص حالات کے تحت آگے دھکیلا گیا۔ ہم نے ہمیشہ کہاکہ سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کو صرف اس صورت میں ہی حتمی گردانا جا سکتا ہے اگر یہ کم ازکم بھی کئی ایک ترقی یافتہ ممالک میں پرولتاریہ کو حاصل ہو۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، چوتھا انگریزی ایڈیشن، جلد30، صفحہ205-252)
یہاں ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ عالمی انقلاب میں وقتی تعطل کے باوجود سوویت یونین کا بچ جانالینن اور ٹراٹسکی کے تناظر کو ہرگز غلط ثابت نہیں کرتاکیونکہ اگرچہ جرمن انقلاب ناکام ہو گیالیکن اس کے باوجود اس نے جرمن سامراج کی کمر توڑ کر رکھ دی اور اسے انقلابی روس پر فوج کشی کے قابل نہیں چھوڑا۔ اسی طرح لینن کے بقول خانہ جنگی میں مزدور ریاست کی فتح فرانسیسی، برطانوی اور امریکی محنت کشوں کی سرکردہ حمایت کے بغیر ناممکن تھی۔ یہاں تک کہ سوویت روس پر چڑھائی کرنے والی سامراجی افواج کے سپاہی بھی ایک رجعتی برطانوی وزیر کے مطابق ’بالشویزم کے انفلوئنزا‘سے متاثر ہو رہے تھے۔ ذرا سوچئے کہ بالفرض ان سب عوامل کی غیر موجودگی میں اگر نوزائیدہ مزدور ریاست کو ترقی یافتہ سامراجی ممالک کی یلغار کا سامنا کرنا پڑتا تو کیا وہ قائم رہ سکتی تھی۔ اس ضمن میں برسٹ لٹووسک معاہدے میں مجبوری کے تحت کیا گیا سمجھوتہ طاقتوں کے توازن کی جانب بخوبی اشارہ کرتا ہے۔ ابھی ہم لینن کی طرف واپس چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ جولائی1921ء میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تیسری کانگریس میں کیا کہہ رہا ہے:
”ایک توازن قائم ہو گیا ہے، جو کہ اگرچہ انتہائی غیر مستحکم ہے لیکن پھر بھی یہ سو شلسٹ جمہوریہ کو سرمایہ داری میں گھرے ہونے کے باوجود قائم رہنے کے قابل بنا رہا ہے، مگر یقینی طور پر ایک لمبے عرصے کے لئے ایسا ہونا ناممکن ہے۔“
”ہم پر یہ واضح تھا کہ عالمی انقلاب کی مدد کے بغیر(روس کے)پرولتاری انقلاب کی فتح ناممکن ہے۔ انقلاب سے پہلے، اور اس کے بعد بھی، ہمارا خیال تھا کہ دیگر پسماندہ اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی فوراً یا بہت جلد انقلاب آ جائے گا، بصورت دیگر ہم فنا ہو جائیں گے۔ اس کے باوجود ہم نے سوویت نظام کے بچاؤ اور تحفظ کے لئے ہر ممکن جدوجہد کی، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ عالمی انقلاب کے لئے کام کر رہے ہیں۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، پرانا روسی ایڈیشن، جلد28، حصہ اول، صفحہ321)
اگر ہم چاہیں تو ہم ایک ملک میں سوشلزم کی رجعتی سٹالنسٹ پالیسی کے رد میں لینن کے مزید درجنوں حوالے دے سکتے ہیں لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ جگہ کی قلت کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ مزید برآں، ہم قارئین سے التماس کریں گے کہ وہ اس حوالے سے اپنی جانکاری کو صرف مندرجہ بالا اقتباسات تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ لینن کی تصانیف کا مکمل مطالعہ کریں تا کہ ان پر لینن کی پوزیشن مزید واضح ہو سکے۔ لیکن ابھی ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ لینن کی زندگی میں سٹالن اور اس کے ٹولے کے اس معاملے میں کیا خیالات تھے۔ کیا وہ تب بھی ایک ملک میں سوشلزم کے رجعتی نظریے کی بات کرتے تھے جسے لینن کی وفات کے بعد انہوں نے دروغ گوئی اور ریاستی پراپیگنڈے کے ذریعے زبردستی لینن کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس ضمن میں سٹالن کا کوئی حوالہ ڈھونڈنا تو بہت مشکل ہے کیونکہ وہ کبھی نظریہ دان تھا ہی نہیں بلکہ یہ کہنا نہایت مناسب ہو گا کہ وہ تھیوری کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اپنے ’عملی آدمی‘ ہونے پر فخر کرتا تھا۔ ہاں، لیکن ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن کے خلاف لڑائی میں اس کے انتہائی اہم ساتھی بخارن کے ایسے بہت سے حوالے موجود ہیں جن سے سٹالن ازم کے جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ بخارن تھاجس نے اپریل1925ء میں اپنے پمفلٹ ”کیا ہم مغربی یورپ کے پرولتاریہ کی فتح کی عدم موجودگی میں ایک ملک میں سوشلزم تعمیرکر سکتے ہیں؟“ میں ایک ملک میں سوشلزم کے رجعتی مؤقف کو اپنے تئیں نظریاتی بنیادیں دینے کی کوشش کی تھی اور اس ضمن میں لینن کے کچھ جملوں کو ان کے سیاق سباق سے کاٹ کرزبردستی نئے معنی پہنائے تھے۔ مزید برآں، 1928ء میں (ٹراٹسکی کی جلا وطنی کے بعد) منعقد ہونے والی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی چھٹی کانگریس میں ایک ملک میں سوشلزم کو کامنٹرن کی آفیشل پالیسی قرار دینے کی تجاویز پر مبنی ڈرافٹ پروگرام کا بنیادی مصنف بھی بخارن ہی تھا (دوسرا مصنف سٹالن تھا)۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ لینن کی زندگی میں بخارن کے اس ضمن میں خیالات کیا تھے۔
1917ء میں بخارن لکھتا ہے:
”انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ پسماندہ روس میں بھی اس انجن کا ناقابل بدل انجینئر پرولتاریہ ہی ہے۔ مگر پرولتاریہ مزید بورژوا سماج کے مالکانہ رشتوں کی حدود میں نہیں رہ سکتا۔ وہ اقتدار اور سوشلزم کی جانب آگے بڑھتا ہے۔ لیکن اس مشن کو جو اس وقت روس میں ’وقت کا تقاضا بن چکا ہے‘، قومی حدود کے اندر رہتے ہوئے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں محنت کش طبقے کو ایک ناقابل عبور دیوار کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسے صرف عالمی مزدور انقلاب کی طاقت کے ساتھ گرایا جا سکتا ہے۔“(بخارن، روس میں طبقاتی جدوجہد اور انقلاب، 1917ء، روسی ایڈیشن، پی پی3ایف)
1919ء میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کے نظریاتی رسالے میں بخارن ”روس میں پرولتاریہ کی آمریت اور عالمی انقلاب“ کے موضوع پر لکھتا ہے:
”موجودہ عالمی معیشت اور اس کے ایک دوسرے سے جڑے حصوں، اورمختلف قومی بورژوا گروپوں کے ایک دوسرے پر باہمی انحصار سے، یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ایک ملک میں ہونے والی جدوجہد، کسی ایک یا دوسری طرف کی کئی مہذب ممالک میں فیصلہ کن فتح کے بغیر، اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکتی۔“
آگے چل کر وہ مزید لکھتا ہے:
”پیداواری قوتوں کی ترقی کے عہد کا آغاز کئی اہم ممالک میں پرولتاریہ کی فتح کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی انقلاب کی بڑھوتری اور سوویت روس کے ساتھ صنعتی ممالک کے مضبوط معاشی اتحاد کی تشکیل نہایت لازمی ہے۔“ (بخارن، روس میں پرولتاریہ کی آمریت اور عالمی انقلاب، کمیونسٹ انٹرنیشنل، نمبر5، صفحہ614، 1919ء)
اگر اتنا کافی نہیں ہے تو ہم آخر میں ایک اور نہایت ہی معتبر حوالہ دیتے چلتے ہیں۔ 1921ء میں رشین کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی نے ینگ کمیونسٹ لیگ کے پروگرام کی منظوری دی۔ اس پروگرام کو تصنیف کرنے والے کمیشن کا سربراہ بخارن تھا اور منظوری سے پہلے اس کا حتمی پروف لینن نے خود کیا تھا۔ پروگرام کے پیراگراف نمبر4میں لکھا ہے:
”یو ایس ایس آر میں ریاستی اقتدار پہلے ہی محنت کش طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے خلاف پچھلے تین سال کی غیر معمولی جدوجہد میں پرولتاریہ نے نہ صرف سوویت حکومت کو قائم رکھا ہے بلکہ اسے مضبوط بھی کیا ہے۔ اگرچہ روس بے تحاشا قدرتی وسائل رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود صنعتی نقطہ نظر سے یہ ایک پسماندہ ملک ہے جس کی آبادی کی اکثریت پیٹی بورژوازی پر مشتمل ہے۔ صرف عالمی انقلاب، جس کی بڑھوتری کے عہد میں ہم داخل ہو چکے ہیں، کے ذریعے ہی یہ سوشلزم تک پہنچ سکتا ہے۔“
سٹالن ازم کا طریقۂ واردات
ابھی تک کی بحث کے بعد ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر 1924ء سے قبل بالشویک پارٹی، کمیونسٹ انٹرنیشنل اور لینن کی تمام تر تحاریر، تقاریر اور روایات میں کہیں بھی ایک ملک میں مکمل سوشلسٹ سماج تعمیر کرنے کی خام خیالی کا کوئی ذکر نہیں تو پھر سٹالن اور اس کا ٹولہ اپنے اس رجعتی نظریے کے حق میں دلائل کہاں سے لایا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ نہ تو سٹالن اور نہ ہی آج تک سٹالنسٹ اس یوٹوپیائی پالیسی کو درست ثابت کرنے کے لئے کبھی کوئی ٹھوس اور منطقی معاشی دلائل دے سکے ہیں۔ مزید برآں، دیوارِ برلن اور سوویت یونین کا انہدام اور چین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی بذات خود اس رجعتی نظریے کے خلاف تاریخ کا فیصلہ ہے۔ لیکن ابھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس رجعتی پالیسی کو مارکسزم لینن ازم بنا کر پیش کرتے وقت سٹالن اور اس کے ٹولے نے کیسے لینن کو مسخ کر کے استعمال کیا۔ کس طرح لینن کے پورے نظریاتی و سیاسی کام سے کھود کھود کر بمشکل دو حوالے نکالے گئے اور کیسے انہیں ان کے سیاق وسباق سے اور اسی عرصے میں لینن کی دیگر تمام تحاریر سے کاٹ کر نئے معنی دیے گئے۔ سیدھی سیدھی جھوٹی الزام تراشیوں اور دروغ گوئیوں کے ساتھ ساتھ یہ بد ترین علمی ونظریاتی بد دیانتی بھی سٹالن ازم کے سٹینڈرڈ طریقہ واردات کا ایک بنیادی خاصہ ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے پہلے ہم خود سے ایک فرضی مثال دیتے ہیں۔ 28 اپریل 1918ء کو پراودا کے شمارہ نمبر83میں لینن کا ایک مضمون ”کام میں لگی سوویتیں“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ لینن اس میں ایک جگہ لکھتا ہے:
”حساب کتاب میں درستگی اور دیانت داری قائم کرو، معاملات معیشت میں بچت کرو، فضول وقت ضائع مت کرو، چوری مت کرو، کام کے دوران سخت ڈسپلن قائم کرو۔۔۔سوویت طاقت اور اس کے طریقہ کار وقوانین کے ذریعے ان نعروں کی عملی تعبیر، سوشلزم کی حتمی فتح کے لئے لازمی اور کافی ہے۔“
کیا یہاں پر لینن یہ کہہ رہا ہے کہ عالمی جنگ سے تباہ حال پسماندہ سوویت روس، جسے ابھی مجبوری کے عالم میں جرمن سامراج کے ساتھ ایک ذلت آمیز سمجھوتہ کرنا پڑا ہے، جس کی صنعت اور تکنیک ترقی یافتہ ممالک سے کوسوں پیچھے ہے، جہاں وباؤں، قحط اور انتشار کا راج ہے، جس پر سامراجی پشت پناہی سے ایک خونریز خانہ جنگی مسلط کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، اگر مندرجہ بالا اصول اپنا لے تو اس کی حدود میں رہتے ہوئے ایک مکمل سوشلسٹ سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے؟ صرف کوئی پرلے درجے کا احمق یا سٹالنسٹوں جیسا علمی بددیانت ہی ایسا سوچ سکتا ہے اوریقین کیجیے کہ پورے کا پورا سٹالن ازم اسی قسم کی علمی بددیانتی پر کھڑا ہے۔ کیونکہ اگر ہم لینن کے اس مضمون کو ہی شروع سے لے کر آخر تک پڑھیں اور مزید برآں، اس وقت میں لینن کی دیگر تحاریر سے بھی دیانت داری کے ساتھ استفادہ کریں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ لینن محض یہاں ان اصولوں اوردیگر اقدامات کے ذریعے پرولتاری اقتدار کو مضبوط کرنے کی بات کر رہا ہے تاکہ وہ خانہ جنگی اور معاشی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے خود کو ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب کی کامیابی تک قائم رکھ سکے۔ اسی مضمون میں آگے چل کر لینن رقم طراز ہے:
”ہمارے پاس ایک طاقتور اور افراط رکھنے والا روس تعمیر کرنے کے لئے قدرتی وسائل ہیں، انسانی وسائل ہیں اور عوام کی تخلیقی توانائی کی وہ شاندار قوت ہے جو انقلاب کی دین ہے۔ روس ایسا بنے گا، بشرطیکہ وہ مایوسی اور لفاظی سے پیچھا چھڑا لے، بشرطیکہ وہ اپنے ہر ایک رگ وریشے کو اس جدوجہد میں جھونک دے، بشرطیکہ وہ یہ سمجھ جائے کہ نجات کا واحد راستہ، جو کہ ہم نے اختیار کیا ہے، عالمی سو شلسٹ انقلاب ہے۔“
مگر افسر شاہانہ مفادات کے نمائندے سٹالن اور اس کے حواریوں کا علمی ونظریاتی دیانت داری کے ساتھ کیا لینا دینا۔ انہیں تو بس اپنے رجعتی مؤقف کے حق میں دلائل گھڑنے تھے چاہے اس کے لئے انہیں لینن کو سر کے بل ہی کیوں نہ کھڑا کرنا پڑتا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان جعلسازوں نے لینن کے پورے نظریاتی وسیاسی کام کو پرے پھینک کر کون سے دوحوالے تلاش کئے اور کس طرح انہیں سیاق وسباق سے کاٹ کر اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
1926ء کے آخر میں منعقد ہونے والے کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ساتویں پلینم میں سٹالن نے کہا،
”ایک ملک میں سوشلسٹ معیشت کی تعمیر کا سوال پارٹی میں پہلی دفعہ لینن نے 1915ء میں اٹھایا تھا۔“
چلیں یہاں پر سٹالن نے لاشعوری طور پر ہی سہی مگر یہ تو مانا کہ 1915ء سے قبل پارٹی کی پوری تاریخ میں ایک ملک میں سوشلزم کی تعمیر کے حوالے سے کبھی کوئی بحث نہیں ہوئی تھی۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لینن نے 1915ء میں کہا کیا تھا اور کس طرح سٹالن نے لینن کی بات کے مفہوم کو بالکل مسخ کر کے رکھ دیا۔ لینن لکھتا ہے:
”ناہموار معاشی وسیاسی ترقی سرمایہ داری کا ایک مطلق قانون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آغاز میں سوشلزم کی فتح چند ایک، یا حتیٰ کہ کسی ایک سرمایہ دارانہ ملک میں ممکن ہے۔ اس ملک کا فاتح پرولتاریہ، اپنے ملک میں سرمایہ داروں کو ملکیت سے محروم کرنے اور سوشلسٹ پیداوار منظم کرنے کے بعد بقیہ سرمایہ دارانہ دنیا کے خلاف ہتھیار بند ہو کر نکل پڑے گا۔ وہ دوسرے ممالک کے محکوم طبقات کو اپنی جانب کھینچے گا، جس کے نتیجے میں ان ممالک میں بورژوازی کے خلاف سر کشیوں کو تحرک ملے گا اور ضرورت پڑنے پروہ استحصالی طبقات اور ان کی حکومتوں کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔“ (ریاست ہائے متحدہ یورپ کے نعرے پر،لینن،مجموعہ تصانیف،جلد21،صفحہ339-343)
پہلی بات تو یہ ہے کہ متعلقہ مضمون تفصیل سے پڑھنے پر یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ لینن یہاں پسماندہ روس کی نہیں بلکہ کسی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک کی بات کر رہا ہے۔ لیکن کیا لینن یہاں کسی ترقی یافتہ ملک کی حدود میں بھی ایک مکمل سوشلسٹ سماج تعمیر کرنے کے امکان کو تسلیم کر رہا ہے؟ ہر گز نہیں۔ لینن صرف یہ کہہ رہا ہے کہ پرولتاریہ کی آمریت کے قیام کا آغاز کسی ایک ترقی یافتہ ملک سے ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت پوری سرمایہ دارانہ دنیا کو اس نوزائیدہ مزدور ریاست کے ساتھ تصادم میں لے آئی گی اور یہی وجہ ہے کہ اپنا فوجی و معاشی دفاع کرنے اور عالمی انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھنے کی خاطر مقتدر محنت کش طبقے کو اپنے ملک میں سوشلسٹ پیداوار منظم کرنی پڑے گی، یعنی ذرائع پیداوار کو اپنی اجتماعی ملکیت میں لیتے ہوئے انہیں سوشلسٹ بنیادوں پر منظم کرنا پڑے گایا دوسرے الفاظ میں سماج کی سوشلسٹ تنظیمِ نو کی بنیادیں ڈالنا ہوں گی۔ اگر واقعی لینن یہاں (سٹالن کے مطابق) ایک ملک میں مکمل سوشلسٹ سماج تعمیر کرنے کی بات کر رہا ہے تو پھر کیا وہ1915ء کے اس مضمون سے قبل اور اس کے بعد اپنی وفات تک سوشلزم کی مکمل فتح کے لئے عالمی انقلاب کی لازمیت پر زور دینے میں، جیسا کہ پہلے دیے گئے تمام اقتباسات سے واضح ہے، غلط تھا۔ درحقیقت لینن نہ تو یہاں غلط ہے اور نہ ہی وہاں۔ اس کے ان جملوں کو اگر دیانت داری کے ساتھ ان کے سیاق سباق میں رکھ کر اور اس کے دیگر تمام کام کے ساتھ جوڑ کر پڑھا جائے تو ان کا حقیقی مفہوم بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ مگر جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ سٹالن اور اس کے مقلدین کا علمی دیانت داری کے ساتھ کیا لینا دینا۔
سٹالن کی طرف سے اپنی رجعتی پالیسی کے حق میں دیا جانے والا دوسرا حوالہ لینن کے مضمون ”کوآپریشن پر“ سے لیا گیا ہے۔ یہ مضمون لینن نے جنوری1923ء میں شدید بیماری کے عالم میں اپنی سٹینو گرافر کو ڈکٹیٹ کیا تھا اور مئی کے اختتام پر یہ لینن کے فائنل پروف کے بغیر(بیماری کی وجہ سے) پراودا میں شائع ہوا تھا۔اس میں ایک جگہ لینن لکھتا ہے،
”درحقیقت، بڑے ذرائع پیداوار کا ریاستی ملکیت میں ہونا، ریاستی طاقت کا پرولتاریہ کے ہاتھوں میں ہونا، پرولتاریہ کا چھوٹی ملکیت رکھنے والے کروڑوں کسانوں کے ساتھ اتحاد میں ہونا، کسانوں کے ساتھ پرولتاری قیادت کے تعلق کی مضبوطی۔ کیا یہ سب کو آپریٹوز، اور صرف کوآپریٹوز کے ذریعے ایک مکمل سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لئے کافی نہیں ہے۔۔۔یہ ابھی سوشلسٹ سماج کی تعمیر تو نہیں ہے، لیکن یہ وہ سب ہے جو اس کے لئے لازمی اور کافی ہے۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، دوسراانگریزی ایڈیشن، جلد33، صفحہ467-475)
یہاں پر بھی سٹالن اور اس کے ٹولے کی زبردست علمی بد دیانتی ہمارے سامنے آشکار ہوتی ہے کہ کس طرح وہ لینن کے زندگی بھر کے کام کو نظر انداز کر کے بیماری کی حالت میں لکھوائے گئے ایک غیر پروف شدہ مضمون کے چند جملوں کی بنیاد پر لینن کے اس موضوع پر حقیقی موقف کو بالکل مسخ کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس مضمون کو بھی آغاز سے اختتام تک پڑھیں تو بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ لینن یہاں پر ایک مکمل سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لئے درکارسیاسی، سماجی و تنظیمی ڈھانچوں کی بات کر رہا ہے جوکہ1923ء کے سوویت یونین میں موجود تھے (اگرچہ افسر شاہانہ نقائص کے ساتھ) نہ کہ اس تعمیر کے لئے درکار مادی (معاشی وتکنیکی) اور ثقافتی (ہنر، تعلیم، ڈسپلن وغیرہ) وسائل کی، جن کا مکمل حصول اگرچہ ایک ملک کی حدود میں رہتے ہوئے ناممکن ہے، لیکن ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب ہونے تک خود کو قائم رکھنے کے لئے اس ضمن میں آگے بڑھتے رہنا ضروری تھا اور لینن اس پورے مضمون میں اسی امر پر زور دے رہا ہے۔ اسی مضمون کے اختتام پر لینن لکھتا ہے:
”یہ ثقافتی انقلاب ہمارے ملک کو ایک مکمل سوشلسٹ ملک بنانے کے لئے کافی ہو گا، مگر یہ ہمارے سامنے خالصتاً ثقافتی (کیونکہ ہم ناخواندہ ہیں) اور مادی نوعیت (کیونکہ اعلیٰ ثقافت کے لئے ہمیں ذرائع پیداوار میں ایک مخصوص معیار تک ترقی، ایک مخصوص حد تک مادی بنیاد چاہئے ہو گی) کی بے تحاشا مشکلات کھڑی کر دیتا ہے۔“
لیکن اگر ابھی بھی کسی کو لینن کے ان جملوں کے متعلق ابہام ہے یا اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ شاید عمر کے آخری حصے میں لینن کا مؤقف تبدیل ہو گیا تھا اور یہاں وہ واقعی یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ سوویت نظام اور سماجی وتنظیمی ڈھانچوں کے بلبوتے پر روس کی حدود میں رہتے ہوئے وہ مادی و ثقافتی معیار(اگرچہ مشکلات کے ساتھ ہی سہی) حاصل کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد پر روس میں ایک مکمل سوشلسٹ سماج کی تعمیر ممکن ہو جائے، تواس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ہم لینن کے مارچ1923ء میں افسر شاہی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو قابو میں لانے کے لئے مختلف تجاویز پر مبنی ایک تلخ مضمون ”تھوڑے ہوں، لیکن بہتر ہوں“ سے ایک حوالہ دیتے ہیں:
”ہمارے موجودہ سماج کے عمومی خدوخال کچھ یوں ہیں: ہم نے بورژوا صنعت کو تباہ کر دیا ہے اور اپنی پوری کوشش کی ہے کہ قرونِ وسطیٰ کے تمام اداروں اور زرعی ملکیت کو ملیا میٹ کر دیں، اور یہ سب کر کے ہم نے کسانوں ایک چھوٹی سی پرت کو تخلیق کیا ہے جو کہ اس لئے پرولتاریہ کو اپنا قائد مانتی ہے کیونکہ وہ اس کے انقلابی کام کے نتائج پر یقین رکھتی ہے۔ لیکن بہر حال ہمارے لئے یہ آسان نہیں ہے کہ ہم محض اس اعتماد کے سہارے اس وقت تک قائم رہیں جب تک کہ سوشلسٹ انقلاب ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب نہ ہو جائے، کیونکہ معاشی مجبوری، خاص طور پر نیپ(NEP)کے تحت، چھوٹے اور بہت چھوٹے کسانوں کی افزودگی محن کو نہایت ہی کمترسطح پر رکھتی ہے۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، دوسرا انگریزی ایڈیشن، جلد33، صفحہ487-502)
اس حوالہ جاتی بحث کا اختتام ہم1921ء میں لینن کی ایک تقریر سے لئے گئے اقتباس پر کریں گے اور اپنے قارئین سے التماس کریں گے کہ وہ خاص طور پر اقتباس کے پہلے جملے پر خصوصی توجہ دیں:
”ہم نے اپنی بے شمار تصانیف، اپنی تمام تقاریر اور اپنے تمام پریس میں یہ زور دیا ہے کہ روس میں صورتحال ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک جیسی نہیں ہے، کہ روس میں صنعتی مزدور ایک اقلیت ہیں اور آبادی کی اکثریت چھوٹے کسانوں پر مشتمل ہے۔ ایسے ملک میں سماجی انقلاب حتمی کامیابی صرف دو شرائط پر ہی حاصل کر سکتا ہے: اول، کہ اس کو کسی ایک یا زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والے سماجی انقلاب کی بر وقت مدد حاصل ہو جائے۔۔۔دوم، اپنے ہاتھوں میں ریاستی طاقت رکھنے والے پرولتاریہ اور آبادی کی اکثریت یعنی کسانوں کے درمیان اتحاد قائم ہو جائے۔۔۔ہم جانتے ہیں کہ کسانوں کے ساتھ اتحاد ہی اس وقت تک روس کے سوشلسٹ انقلاب کو قائم رکھ سکتا ہے، جب تک کہ دیگر ممالک میں انقلاب نہ ہو جائے۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، پرانا روسی ایڈیشن، جلد28، حصہ اول، پی پی137ایف)
سٹالن ازم کے گھٹیا جواز اور ٹراٹسکی پر جھوٹی الزام تراشی
جب ٹراٹسکی نے سٹالن اور اس کے ٹولے کے جھوٹوں کی قلعی کھول کر رکھ دی اور ان کے طریقۂ واردات کو سب کے سامنے ننگا کر دیا تو گھبراہٹ کے عالم میں ان بدمعاشوں نے جہاں ایک طرف ریاستی قوت کا استعمال کرتے ہوئے لیفٹ اپوزیشن کے گرد گھیرا تنگ کر دیا وہیں دوسری طرف جلد بازی میں اپنے رجعتی نظریے کو سہارا دینے کی خاطرچند ایک انتہائی سطحی نوعیت کے اوٹ پٹانگ جواز بھی گھڑنے کی کوشش کی۔ ان میں سے جو معاشی نوعیت کے جواز ہیں، ان کا جواب ہم اس مضمون میں آگے چل کر دیں گے لیکن ابھی ہم سٹالن کی جانب سے ایک ملک میں سوشلزم کے حق میں دیے جانے والے بنیادی سیاسی جواز کا جائزہ لیتے ہیں۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کی ایگزیکٹوکمیٹی کے ساتویں پلینم(1926ء) میں سٹالن نے ٹراٹسکی پر حملہ کرتے ہوئے کہا:
”ہماری پارٹی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ محنت کش طبقے کو بے وقوف بنائے؛ اسے کھل کر اعلان کرنا ہو گا کہ ہمارے ملک میں سوشلزم تعمیر کرنے کے امکان پر یقین نہ رکھنے کا نتیجہ ہماری پارٹی کی اقتدار سے بیدخلی اور اس کے ایک حکمران پارٹی سے اپوزیشن پارٹی میں تبدیل ہو جانے کی صورت میں نکلے گا۔“ (منٹس، جلد دوم، صفحہ10)
یعنی سٹالن کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم ایک ملک میں مکمل سوشلسٹ سماج کی تعمیر کو رد کرتے ہیں تو اس سے محنت کش طبقے میں مایوسی پھیل جائے گی اور وہ ہمت ہار کر بیٹھ جائے گا جس کا ناگزیر نتیجہ پارٹی کی اقتدار سے بیدخلی اور سوویت یونین کے انہدام کی صورت میں نکلے گا۔ لہٰذا اس لئے پارٹی کو اس نظریے کو تسلیم کرنا ہوگا(چاہے یہ غلط اور رجعتی ہی کیوں نہ ہو) اور اس کے مخالفین کو سختی سے کچلنا ہو گا۔ سٹالن کا یہ مؤقف اس کے اور افسر شاہی کے محنت کش طبقے کے بارے میں حقیقی خیالات کی زبر دست عکاسی کرتا ہے۔ یعنی پرولتاریہ نا سمجھ اور بے عقل ہے لہٰذا اسے عالمی انقلاب کی پیچیدگیاں سمجھ میں نہیں آئیں گی اور اسی لئے اس کا حوصلہ قائم رکھنے کی خاطر اسے ڈھکوسلے دیتے ہوئے چھوٹے بچوں کی طرح بہلائے رکھنا ضروری ہے۔ سٹالن کا یہ مؤقف اس کے عالمی پرولتاریہ کے انقلابی پو ٹینشل پر عد م اعتماداوراس کی تنگ نظر عملیت پسندی وقوم پرستی کا بھی عکاس ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب عالمی سرمایہ داری شدید بحران کا شکار ہے، حال ہی میں برطانوی تاریخ کی سب سے طاقتور عام ہڑتال ہو چکی ہے اور چین کا انقلاب (27-1925ء) چل رہا ہے، وہ دنیا کے محنت کش طبقے پر بھروسہ کرنے اور ان کی درست راہنمائی کرنے کی بجائے محض اقتدار ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے سوویت یونین میں ایک مکمل سوشلسٹ سماج تعمیر کرنے کی باتیں کر رہا ہے۔ ٹراٹسکی نے یہ رجعتی جواز پیش کرنے پر سٹالن کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور اسے یاد دہانی کرائی کہ روس کے محنت کشوں نے خانہ جنگی کے تاریک ترین دنوں میں اکیس سامراجی افواج کا بے جگری کے ساتھ مقابلہ روس میں کوئی الگ تھلگ سوشلسٹ یوٹوپیا تخلیق کرنے کے لئے نہیں بلکہ انٹرنیشنل گاتے ہوئے بطور عالمی انقلاب کے ہر اول دستے کے کیا تھا۔ اور اگر تب روس کا محنت کش طبقہ تمام تر عالمی پیچیدگیوں کو سمجھ سکتا تھا اور اپنے آپ کو عالمی انقلاب کے سپاہی کے طور پر دیکھتا تھا تو اب بھی ایسا ہی ہو گا بشرطیکہ انہیں ڈھکوسلے دینے کی بجائے مارکس، اینگلز اور لینن کی روایات پر چلتے ہوئے ان پر اعتماد کیا جائے اور انہیں دو ٹوک انداز میں سب کچھ سچ سچ بتایا جائے۔ ٹراٹسکی درست طور پر یہ سمجھتا تھا کہ ملکی و غیرملکی سطح پردرپیش مشکلات کے بارے میں محنت کشوں کو اعتماد میں لینے سے ان میں مایوسی پھیلنے کی بجائے ایک نیا حوصلہ بیدار ہو گا اور وہ عالمی انقلاب کے کارکن کے طور پرسوویت یونین میں سوشلسٹ صنعت کی تعمیر اور منصوبہ بند معیشت کے قیام کی خاطر پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر قربانیاں دیں گے۔
جب ٹراٹسکی نے دلائل کی بنیاد پر سٹالن اور اس ٹولے کے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا تو وہ حسب عادت الزام تراشیوں پر اتر آئے۔ پراپیگنڈہ کیا جانے لگا کہ ٹراٹسکی ایک ’مایوس آدمی‘ ہے اور اس کا ماننا ہے کہ چونکہ عالمی انقلاب توقعات کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہا اورایک ملک کی حدود میں رہتے ہوئے ایک مکمل سوشلسٹ سماج تعمیر کرنا ناممکن ہے لہٰذا ہمیں ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے اور سر جھکا کر عالمی انقلاب کا انتظار کرنا چاہئے۔ اس طرح کی بہتان تراشیاں اور دروغ گوئیاں سٹالن ازم کا سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر(SOP) ہیں۔ حقیقت یہ ہے فروری 1921ء میں سٹیٹ پلاننگ کمیشن (گوسپلان) کے قیام میں ٹراٹسکی نے ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا حالانکہ یہ وہی سال ہے جب تباہ حال مزدور ریاست کو زرعی پیداوار کی بحالی کے لئے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے نیپ کے تحت شہر اور دیہات میں منڈی کا رشتہ بحال کرنا پڑا تھا۔ نیپ نے اگرچہ سوویت معیشت کو وقتی طور پر سہارا دیا تھا اور اس کے تحت زرعی پیداوار میں قابل ذکر اضافہ ہوا تھا لیکن لینن اور ٹراٹسکی بخوبی سمجھتے تھے کہ یہ پالیسی (خصوصاًدیہاتوں میں) بورژوا عناصر کی بڑھوتری کا سبب بن رہی ہے اور اگر معاملہ یونہی چلتا رہا تو یہ عناصر بہت جلد طاقتور ہو کر سوویت اقتدار کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ مگر نیپ سے مصنوعی طور پر چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لئے لازمی تھاکہ سوویت ریاست کے صنعتی شعبے کو تیز ترین بنیادوں پر تعمیر کیا جائے اور خاص کر بھاری صنعتوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی جائے۔ 1922-23ء میں لینن اور ٹراٹسکی کی بے شمار تقاریر اور تحاریر میں اس امر کی ضرورت واہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ تیز ترین صنعت کاری کے معاملے پر ٹراٹسکی کی پوزیشن لینن سے بھی زیادہ ریڈیکل تھی۔ یہ ٹراٹسکی ہی تھا جس کی تجویز اورلمبے اصرار پر لینن نے دسمبر1922ء میں گوسپلان کے اختیارات میں اضافہ کرنے کی حمایت کی تھی (لینن، کانگریس کے نام خطوط، مجموعہ تصانیف، جلد36، صفحہ593-611)۔ یہ ٹراٹسکی تھا جس نے اپریل1923ء میں رشین کمیونسٹ پارٹی کی بارہویں کانگریس میں ”تھیسز آن انڈسٹری“ کے نام سے اپنی رپورٹ میں پہلی دفعہ گوسپلان کے ذریعے ایک منصوبہ بند معیشت تعمیر کرنے کا تفصیلی خاکہ پیش کیا تھا۔ کیا کوئی ہمیں بتا سکتا ہے کہ اس تمام عرصے میں سیاسی بالشتیے سٹالن اور اس کے مستقبل کے حواریوں کا کیا مؤقف تھا کیونکہ کوشش بسیار کے باوجود (روٹین رفتار سے) صنعت کاری کی حمایت میں چند ایک مبہم اور مجرد جملوں کے سوا ہم ان جعل سازوں کا کوئی تفصیلی موقف ابھی تک تلاش نہیں کر پائے۔ دسمبر1925ء میں کمیونسٹ پارٹی کی چود ہویں کانگریس میں جب سٹالنسٹ ٹولے کا ’نظریہ دان‘ بخارن، جو نیپ کا اندھا حمایتی اور تیز رفتار منصوبہ بند صنعت کاری کا مخالف تھا، بڑھ چڑھ کر کہہ رہا تھا کہ ہم روس میں سوشلزم تعمیر کریں گے”چاہے ہمیں ایسا کچھوے کی رفتار سے ہی کیوں نہ کرنا پڑے“ تو ٹراٹسکی نے اسے آڑے ہاتھوں لیاکیونکہ وہ درست طور پر سمجھتا تھاکہ ’کچھوے کی رفتار‘ سے سوشلزم تعمیر کرنا تو دور کی بات، الٹا اس طرح تو سوویت ریاست کا وجود مستقبل قریب میں ہی خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔ ٹراٹسکی آغاز سے ہی مرکزی منصوبہ بند ی کی بنیاد پر ریاستی صنعت کی تیز ترین اور ہمہ جہت تعمیر اور اس کے ذریعے صنعت اور زراعت میں موجود عدم توازن کو جلد از جلد ہر ممکن حد تک کم کرنے کا زبر دست حمایتی تھا لیکن اس کی نظر میں (اور لینن کے نزدیک بھی) اس کا مقصد سوویت یونین کی حدود میں ایک مکمل سوشلسٹ سماج کی تعمیر کا احمقانہ، رجعتی اور یوٹوپیائی خواب پورا کرنا نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں سوشلسٹ انقلاب بر پا ہونے تک روس میں سوویت اقتدار کو قائم رکھنا تھا۔ حیرت انگیز طور پرسٹالن ایک جگہ پر اس معاملے میں اپنے اور ٹراٹسکی کے اختلافات کو انتہائی صاف الفاظ میں بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”اختلاف رائے یہاں پر ہے کہ پارٹی کے مطابق ان داخلی تضادات پر ہمارے انقلاب کی اندرونی قوتوں کے ذریعے مکمل طور پر قابو پایا جا سکتا ہے جبکہ کامریڈ ٹراٹسکی اور اپوزیشن کا خیال ہے کہ ان تضادات پر غلبہ صرف ’عالمی سطح پر، عالمی پرولتاری انقلاب کے میدان میں‘ ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔“ (پراودا، شمارہ نمبر262، 12نومبر1926ء)
جی ہاں،سٹالن بالکل درست کہہ رہا ہے۔ بالکل یہی فرق ہے قومی اصلاح پسند ی یعنی سٹالن ازم اور پرولتاری بین الاقوامیت یعنی مارکسزم لینن ازم میں، جس کا دفاع لیون ٹراٹسکی کر رہا تھا۔
’ایک ملک میں سوشلزم‘ کی وجۂ تخلیق
سٹالن اور اس کے ٹولے نے ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ روسی انقلاب کی ’داخلی قوتوں‘ پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور وہ ان کی بنیاد پر روس میں ایک مکمل سوشلسٹ سماج تعمیر کر کے دکھائیں گے چاہے اس عمل میں انہیں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس تاثر کے ذریعے انہوں نے اپنے گرد ’انقلابی رجائیت پسندی اور جرأت مندی‘ کا ایک ہالہ تعمیر کیا اور اس بنیاد پر خود کو انقلاب کا اصل وارث اور محافظ قرار دیا۔ جبکہ دوسری طرف ریاستی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن پرمایوسی پھیلانے، روسی انقلاب کے پوٹینشل پر یقین نہ رکھنے، متذبذب ہونے، کم ہمت اور بے جرأت ہونے، بھگوڑا ہونے جیسے الزامات کی بوچھاڑ کر کے انہیں انقلاب دشمن لیبل کیا اور ان پر ننگے ریاستی جبر کی راہ ہموار کی۔ آنے والی دہائیوں میں ان جھوٹے الزامات کے حوالے سے اتنا پراپیگنڈہ کیا گیاکہ آج تک بائیں بازو کے کئی سادہ لوح کارکن اس دھوکے کا شکار ہیں کہ شاید ٹراٹسکی کی پوزیشن واقعی اس کی مایوسی اور کم ہمتی کی پیداوار تھی جبکہ رجائیت پسند اور جرأت مند سٹالن ہی انقلاب کا اصل محافظ تھا جس نے سوویت یونین کو ایک سپر پاور بنا دیا۔ یہ تو ہم پہلے ہی تفصیلی طور پر ثابت کر چکے ہیں کہ ٹراٹسکی نے اس معاملے پر کوئی نئی یا انوکھی پوزیشن نہیں لی تھی بلکہ اس کا مؤقف وہی تھا جو مارکس، اینگلز، لینن اور لینن کی وفات تک بالشویک پارٹی اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کا تھا۔ مزید برآں، ٹراٹسکی کا موقف سیاسی، معاشی وتکنیکی پہلوؤں سے کیونکر درست تھا، اس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ فی الحال ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی سٹالن کا مؤقف اس کی ’رجائیت، جرأت اور انقلابی عزم‘ کی پیداوار تھا یا پھر ایک ملک میں سوشلزم کی پالیسی کی حقیقی وجہئ تخلیق کچھ اور ہی تھی۔
سب سے پہلے تو ہمیں اس امر پر بالکل واضح ہونے کی ضرورت ہے کہ سٹالن نے افسر شاہی کو جنم نہیں دیا تھا بلکہ حتمی تجزئیے میں یہ افسر شاہی تھی جس نے اپنے شخصی قائد اور دیوتا کے طور پر سٹالن کو تراشا تھا۔ یقینی طور پر اس عمل میں سٹالن کے مخصوص ذاتی خصائص اور اقتدار کی شدید ہوس کا بھی ایک کردار تھا لیکن اگر بالفرض سٹالن نہ بھی ہوتا تو مخصوص معروضی حالات کی وجہ سے اس کی جگہ پر اس سے ملتا جلتا کوئی دوسرا کردار آ جاتا۔ اسی لئے یہ کہنا عین مناسب ہو گا کہ حتمی تجزئیے میں سٹالن سوویت اقتدار پر قابض افسر شاہی کا ایک شخصی اظہار ہی تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام پالیسیاں، جنہیں ہم سٹالن ازم کے نام سے جانتے ہیں، حتمی تجزئیے میں اسی افسر شاہی کے سیاسی، سماجی و معاشی مفادات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ’ایک ملک میں سوشلزم‘ جیسی رجعتی اور یوٹوپیائی پالیسی کی تخلیق کے پیچھے بھی حتمی تجزئیے میں افسر شاہی کے یہی مفادات کار فرما تھے۔
افسر شاہی نامیاتی طور پر پرولتاری بین الاقوامیت کے نعرے سے نفرت کرتی تھی کیونکہ یہ نعرہ عالمی سامراجی قوتوں کے ساتھ تصادم کا سبب بن سکتا تھا اور اس کے نتیجے میں افسر شاہی کا اقتدار خطرے سے دوچار ہو جاتا۔ جبکہ افسر شاہی ہر صورت میں اقتدار پر اپنے ناجائز قبضے سے چمٹی رہنا اور اس کے سماجی و معاشی ثمرات سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی۔ اسی لئے اس کی بھرپور کوشش تھی کہ عالمی سامراجی قوتیں اس پر اعتماد کرتے ہوئے اسے قبول کر لیں۔ مگر اس اعتماد کو جیتنے کے لئے ضروری تھا کہ افسر شاہی ان قوتوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائے کہ اس کا عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہے اور اگر اسے سکون سے سوویت روس پر حکومت کرنے دی جائے تو وہ بھی سرمایہ دارانہ دنیا کے معاملات میں کوئی دخل اندازی (یعنی وہاں کے پرولتاریہ کی حمایت اور مدد) نہیں کرے گی۔ اسی لئے ہم سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ دنیا اور عالمی سامراجی قوتوں کے ساتھ ’پر امن بقائے باہمی‘کی یہ موقع پرستانہ، قوم پرستانہ اور ردِ انقلابی پالیسی صرف خروشیف کی پیداوار نہیں تھی، جیسا کہ آج بعض سٹالنسٹوں کا دعویٰ ہے، بلکہ یہ افسر شاہی کے خمیر میں شامل تھی۔ ایک ملک میں سوشلزم کا نعرہ، جسے سٹالن اور بخارن نے ایک ’نظریے‘ کی شکل میں ڈھالا، درحقیقت افسر شاہی کی اسی پالیسی اور خواہش کی پیداوار تھا۔ اس کے ذریعے افسر شاہی بالواسطہ طور پر عالمی سامراجی قوتوں کو یہ پیغام دے رہی تھی کہ ہم تو اپنے ملک میں سوشلزم کی تعمیر پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں کسی عالمی انقلاب کی ضرورت نہیں لہٰذا آپ ہمیں نہ چھیڑیں اور جواب میں ہم آپ کے لئے کوئی پریشانی (دیگر ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کی ترویج وحمایت) پیدا نہ کرنے کی گارنٹی دیتے ہیں۔ اب چونکہ عالمی انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی بجائے ایک ملک میں سوشلزم کے تحت سوویت یونین کو ہی ’سوشلسٹ رول ماڈل‘ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا حتمی مقصد بن گیا تھا لہٰذا کمیونسٹ انٹرنیشنل اور اس سے منسلک دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں کا اولین فریضہ اپنے ممالک میں سوشلسٹ انقلابات برپا کرنا نہیں بلکہ سوویت یونین، یا درست الفاظ میں افسر شاہی کے اقتدار، کا دفاع قرار پایا۔
یوں کمیونسٹ انٹرنیشنل عالمی انقلاب کے اوزار کی بجائے سوویت افسر شاہی کے خارجہ مفادات کا ایک اوزار بن کر رہ گئی جس کا افسر شاہی نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر بے دریغ استعمال کیا۔ اسی پالیسی کے تحت کبھی نام نہاد ’جمہوری‘ سامراجی ممالک اور کبھی فاشسٹ سامراجیوں کا اعتماد جیتنے اور ان کی نظروں میں ’گڈ بوائے‘ کا سٹیٹس حاصل کرنے کے لئے سپین کے انقلاب سے کھلی غداری کی گئی، ہٹلر کو بر سراقتدار آنے کا بالواسطہ موقع فراہم کیا گیا، ہندوستانی انقلاب کا راستہ روکا گیا، دوسری عالمی جنگ کے بعداپنا حلقہئ اثر قائم کرنے کے لئے سامراجیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر دنیا کی بندر بانٹ کی گئی، 49-1946ء کے انقلابِ یونان اور انقلابِ فرانس1968 ء کو برباد کیا گیا۔ درجنوں پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں ”مرحلہ وار انقلاب“ کے رجعتی نظریے کے تحت انقلابات سے غداری کی گئی۔ واضح رہے کہ یہ نظریہ بھی حتمی تجزئیے میں عالمی بورژوازی اور سامراجی قوتوں کو ناراض نہ کرنے کی خواہش اور کوششوں کا ہی نتیجہ تھا اور اس لحاظ سے یہ ایک ملک میں سوشلزم کے نظریے کی ہی توسیع و تکمیل کرتا ہے۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ افسر شاہی کی تمام تر کوششوں کے باوجود عالمی سامراجی قوتوں نے کبھی بھی سوویت یونین کو زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ایک مزدور انقلاب کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی یہ مزدور ریاست اپنی مسخ شدہ حالت میں بھی سامراجیوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ لہٰذا اس پر معاشی پابندیاں بھی لگائی گئیں، دوسری عالمی جنگ بھی مسلط کی گئی اور دہائیوں پر مشتمل سرد جنگ بھی۔ انہی تضادات کے نتیجے میں افسر شاہی کو مجبوراً اپنے بچاؤ کی خاطر مشرقی یورپ میں مسخ شدہ مزدور ریاستیں بھی تخلیق کرنا پڑیں اور کوریا، چین اورویت نام وغیرہ میں انقلابی قوتوں کی مشروط حمایت بھی کرنا پڑی مگر یہ سب کرتے وقت اس امر کا بھر پور خیال رکھا گیا کہ کہیں بھی قومیائے جانے والے ذرائع پیداوار پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول قائم نہ ہو نے پائے تا کہ سوویت یونین کا محنت کش طبقہ اس مثال سے شہہ پا کر افسر شاہی کے غاصبانہ اقتدار کو چیلنج نہ کر دے۔ بہرحال یہ غداریوں کی ایک طویل اور المناک داستان ہے اور ابھی ہمارے پاس جگہ نہیں ہے کہ ہم اس کی جزئیات میں جائیں۔ آگے چلنے سے قبل ہم قارئین کو یہ صرف یہ یاد دلانا چاہیں گے کہ سامراجی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسی ایک ملک میں سوشلزم کے نظریے کے تحت سٹالن نے 1943 ء میں کمیونسٹ انٹر نیشنل کو باقاعدہ طور پر تحلیل کر دیا تھا گو کہ عملی طور یہ اس سے بہت پہلے ہی سٹالنسٹ پالیسیوں کے تحت ختم ہو چکی تھی۔
کمیونسٹ پارٹیوں اور مزدور تحریک کی قوم پرستانہ زوال پذیری
ایک ملک میں سوشلزم حتمی تجزئیے میں موقع پرستانہ اور اصلاح پسندانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قوم پرستانہ نقطہئ نظر بھی ہے اور یوں یہ محنت کش طبقے کی بین الاقوامی جڑت کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے کہ ہم نے پہلے وضاحت کی تھی کہ ”دنیا بھر کے محنت کشو!ایک ہو جاؤ“ کا نعرہ کوئی جذباتی یا اخلاقی نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ داری کے قومی حدود سے متجاوز ہو کر ایک عالمی منڈی اور عالمی تقسیمِ محنت کی تخلیق، اور نتیجتاً ایک ملک میں مکمل سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے ناممکن ہونے جیسے ٹھوس معروضی حقائق کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تھا۔ لیکن اگر ہم معاشی، تکنیکی اور دیگر تمام عوامل کو نظر انداز کر کے دو لمحے کے لئے ایک ملک میں سوشلزم کے نظریے کو درست تصور کر لیں تو اس کا ناگزیر نتیجہ کمیونسٹ پارٹیوں اور مزدور تحریک کی قوم پرستانہ زوال پذیری کی صورت میں نکلتا ہے۔ وہ اس لئے کہ اب چونکہ ایک مکمل سوشلسٹ سماج کی تعمیر ایک ملک کی حدود میں ممکن ہے لہٰذا نہ تو دنیا بھر کے محنت کشوں کو ایک ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی مشترکہ طور پر عالمی انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی۔ مزید برآں، جن ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پرولتاریہ کی آمریت کا قیام ہو گیا ہے انہیں بھی اپنی قومی سرحدیں گرا کر ذرائع پیداوار کو مشترکہ بنیادوں پر منظم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس ہر ملک کا پرولتاریہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ اپنی قومی حدود کے اندر اپنا اپنا سوشلزم تعمیر کرے اور جب اپنی اپنی قومی حدود کے اندر ایک ”مکمل“ جرمن سوشلزم، امریکی سوشلزم، برطانوی سوشلزم، ہندوستانی سوشلزم اور جاپانی سوشلزم وغیرہ قائم ہو جائیں گے تو یہ سب ممالک اپنی اپنی قومی حدود کو قائم رکھتے ہوئے(انتہائی بیہودہ غیر حقیقی خیال!!) ایک کومیکون طرز کی عالمی تنظیم میں اکٹھے ہو جائیں گے اور یوں ایک عالمی سوشلسٹ سماج بھی تخلیق ہو جائے گا اور پھر اپنی قومی حدود کے اندر ہی اپنے اپنے کمیونزم کی تعمیر بھی شروع کر دی جائے گی۔ مگر بات صرف یہیں پر آ کر نہیں ٹھہرتی۔ اگر دو سرمایہ دارانہ ممالک کی قومی بورژوازی ایک جنگ میں الجھ جاتی ہے تو اس سٹالنسٹ پالیسی کے مطابق دونوں ممالک کے محنت کشوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں سوشلزم کی تعمیر کے لئے موجود ذرائع پیداوار کا تحفظ کرنے کی خاطر اپنی اپنی قومی بورژوازی کا ساتھ دیں اور ایک انقلابی فریضہ سمجھ کر ایک دوسرے کے گلے کاٹیں۔ بلکہ دونوں ممالک میں سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کے محنت کشوں کو تو اس معاملے میں اندھی سفاکی دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اپنے زیادہ ترقی یافتہ ذرائع پیداوار، جن کی بنیاد پر مکمل سوشلزم زیادہ آسانی سے تعمیر ہو سکتا ہے، کی حفاظت جو کر رہے ہیں۔ اسی طرح کسی ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد وہاں بسنے والی محکوم قومیتوں کو حق خود ارادی دینا بھی بے وقوفی ہو گی کیونکہ اگر وہ اس حق کا استعمال کرتے ہوئے علیحدہ ہو گئیں تو مکمل سوشلزم کی تعمیر کے لئے درکار ذرائع پیداوار اور وسائل تو تقسیم ہو جائیں گے لہٰذا قومی جبر جاری رکھنا بھی عین جائز ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کسی طاقتور سامراجی ملک کے پرولتاریہ کے لئے اپنی بور ژوازی کی سامراجی لوٹ مار کی حمایت کرنا بھی فرض ہو جاتا ہے کیونکہ اس طرح اس ملک کے پہلے ہی سے ترقی یافتہ، اور نتیجتاً مکمل سوشلزم کی تعمیر کے لئے زیادہ مناسب سطح رکھنے والے ذرائع پیداوار میں مزید اضافہ ہو گا جو کہ کل کلاں کو انقلاب کے بعد وہاں کے پرولتاریہ کے ہی کام آئے گا۔ ہمارے خیال میں اگر کسی کی آنکھوں پر پردہ اور عقل پر تالا نہیں پڑا ہوا تو اسے سٹالن ازم کا حقیقی معنی سمجھانے کے لئے اتنا کافی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ قارئین میں سے چند ایک اوپر دی گئی فرضی صورتحال سے محظوظ ہو رہے ہوں گے لیکن ہمیں انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حقیقت میں بھی ایک ملک میں سوشلزم کی قوم پرستانہ پالیسی کے نتائج یہی نکلے۔ آج سے محض تیس سال قبل تقریباً آدھی دنیا پر سرخ جھنڈا لہرا رہا تھا۔ وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی۔ تکنیک میں بھی ’سوشلسٹ‘ دنیا اور خصوصاً سوویت یونین ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ممالک کا کم وبیش ہم پلہ بن چکا تھا۔ وہ تمام تر مادی بنیادیں موجود تھیں جن پر واقعی ایک مکمل سوشلسٹ سماج تعمیر کیا جا سکتا تھا۔ مگر ایک طرف مزدور جمہوریت کی عدم موجودگی اور ذرائع پیداوار پر افسر شاہانہ جکڑ بندی، اور دوسری طرف ذرائع پیداوار کو مشترکہ بنیادوں پر منظم وتعمیر کرنے کی بجائے ہر قومی افسر شا ہی کا اپنے تنگ نظر قومی مفادات کے مطابق ’اپنا اپنا سوشلزم‘ تعمیر کرنے کی کوششوں نے اس خواب کو چکنا چور کر دیا۔ یوں نہ صرف محنت کش طبقے کی ستر سالوں کی قربانیوں پر پانی پھر گیا بلکہ بے کار میں اربوں انسانوں کو نیم مردہ سرمایہ داری کے بوجھ تلے بھی سسکنا پڑ رہا ہے۔
ایک ملک میں مکمل سوشلسٹ سماج کی تعمیر کیوں ناممکن ہے؟
ابھی تک اس موضوع پر زیادہ تر بحث ہم نے حوالہ جاتی بنیادوں پر کی ہے۔ اگرچہ نظریاتی بحث کے لئے یہ کوئی مناسب طریقہ کار نہیں لیکن ہمیں اور اپنے وقت میں ٹراٹسکی کو بھی یہ اس لئے کرنا پڑاکہ سٹالن اور اس کا ٹولہ لینن کے نام کی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے مارکسزم لینن ازم کو بالکل مسخ کر رہا تھا اور لازمی تھا کہ مارکس، اینگلز اور لینن کے حقیقی نظریات کا دفاع کیا جائے۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ ان عظیم اساتذہ کے اپنے الفاظ میں سٹالن اور اس کے حواریوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ لیکن آئیے اب دیکھتے ہیں مارکسی سیاسی معاشیات کے مطابق یہ نظریہ کیوں رجعتی اور یوٹوپیائی ہے۔
مارکسی سیاسی معاشیات کا ہر طالب علم یہ بخوبی جانتا ہے کہ ہر طرزِ پیداوار کے پیداواری رشتے (جن کا قانونی اظہار ملکیتی رشتوں کی صورت میں ہوتا ہے) ایک وقت تک تو پیداواری قوتوں کو تاریخی بڑھوتری دیتے ہیں لیکن پھر ایک وقت آنے پر یہی پیداواری رشتے، پیداوار ی قوتوں کے پیروں کی بیڑیاں بن جاتے ہیں اور ان کا گلا گھونٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ طرزِ پیداوار، پیداوار ی قوتوں کو ترقی دینے کی تاریخی استعداد کھو کر اب تاریخی استرداد کا شکار ہو چکا ہے اور پیداواری قوتوں کی مزید بڑھوتری کے لئے لازمی ہے کہ پرانے طرزِ پیداوار کو توڑتے ہوئے نئے اور برتر پیداواری رشتے رکھنے والا ایک نیا اور بہتر طرزِ پیداوار ظہور میں آئے۔ سرمایہ داری کو بھی اس معاملے میں کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ لیکن سرمایہ داری کا بڑھاپا پیداوار ی قوتوں کو صرف بورژوا ملکیتی رشتوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ قومی ریاست کی حدود کے ساتھ بھی تضاد میں لے آیا۔ یہ پیداوار ی قوتوں کا قومی حدود کے ساتھ ٹکراؤ ہی تھا جس نے مغربی بورژوازی کو اپنے ممالک سے نکل کر پوری دنیا پر پنجے گاڑنے کے لئے مجبور کیا۔ یہ پیداواری قوتوں کا قومی حدود سے متجاوز ہو جانا ہی تھا جس نے عالمی تجارت، عالمی منڈی اور عالمی تقسیمِ محنت کو جنم دیا جو کہ تمام تر ظلم و استحصال کے باوجود تاریخی طور پر آگے کا قدم تھا۔ صنعتی اشیا کی برآمد سے آگے بڑھ کر سرمائے کی برآمد اور سامراج کا ظہور، جسے لینن نے سرمایہ داری کی آخری منزل قرار دیا، بھی پیداواری قوتوں کے قومی حدود سے متجاوز ہونے کی ہی عکاسی کرتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ، درحقیقت، آگ اور خون کی زبان میں اس امر کا ہی واشگاف اظہار تھی کہ بورژوا ملکیتی رشتوں کے ساتھ ساتھ اب قومی ریاست کی حدود بھی پیداوار ی قوتوں کے پیروں کی مطلق بیڑیاں بن چکی ہیں اور سرمایہ داری تاریخی متروکیت کا شکار ہو چکی ہے۔ تاریخ کے مادی نظریے کے تحت پیداواری افراط پر مبنی ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کی راہ ہموار ہو چکی تھی۔ مگر اس سماج کے قیام کی خاطر جہاں ایک طرف ذرائع پیداوار کو محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے انہیں نجی ملکیت کی بیڑیوں سے چھٹکارا دلانا ضروری ہے وہیں دوسری طرف انہیں قومی ریاست کی جکڑ بندی سے آزاد کرانا بھی لازمی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ذرائع پیداوار پر قومی حدود کی مطلق بیڑیوں کو جوں کا توں قائم رکھتے ہوئے محض انہیں اجتماعی ملکیت میں لینے سے سائنس، تکنیک، صنعت اور نتیجتاً افزودگیئ محن میں سرمایہ داری سے بلند تر سطح پر پہنچا جا سکتا ہے، تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ جب پیداوار ی قوتیں سرمایہ داری میں ہی قومی حدود کے ساتھ بری طرح ٹکرا رہی ہیں اور ان سے تجاوز کر چکی ہیں تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سوشلزم (غیر طبقاتی سماج کا پہلا مرحلہ)، جسے پیداوار ی قوتوں کی ترقی کو ایک معیاری جست دیتے ہوئے سرمایہ داری سے بھی کہیں آگے لے جانا ہو گا، کی تعمیر قومی ریاست کی جکڑ بندی میں رہتے ہوئے ممکن ہو جائے۔ ایسی سوچ اس لیے کھلم کھلا رجعتی ہے کیونکہ یہ قومی حدود کے خلاف بغاوت پر اتری ہوئی پیداواری قوتوں کو انہی جکڑبندیوں میں قید رکھنے کی حامی ہے اور یوٹوپیائی اس لئے کہ وہ ان جکڑبندیوں کے ساتھ ہی پیداوار ی قوتوں کو سرمایہ داری سے آگے لے جانے کے خواب دیکھتی ہے۔ آئیے اب چند ایک ٹھوس مثالوں کے ذریعے ان تضادات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ہاتھ میں پکڑے اسمارٹ فون کے حوالے سے ہی بات کریں تو روز مرہ استعمال میں آنے والی یہ ایک پراڈکٹ عالمی تقسیمِ محنت کی زبر دست عکاسی کرتی ہے۔ اس کے مائیکرو پروسیسر کا آرکیٹیکچر زیادہ تر ایک برطانوی کمپنی اے۔آر۔ایم کا ڈیزائن کردہ ہوتا ہے، جو کہ بذات خود اس وقت ایک جاپانی کمپنی سوفٹ بینک گروپ کی ملکیت ہے۔ اس آرکیٹیکچر پر مائیکروپراسیسر بنانے کا کام کوال کوم، انٹیل اور ایپل جیسی امریکی، میڈیا ٹیک جیسی تائیوانی، سام سنگ جیسی جنوبی کورین اور ہائی سیلیکون جیسی چینی کمپنیاں کرتی ہیں۔ اسمارٹ فون کا ڈسپلے بنانے والی زیادہ تر کمپنیاں جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان اور چین سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسمارٹ فون کی بیٹری میں استعمال ہونے والا لیتھیم زیادہ تر آسٹریلیا، ارجنٹائن اور چلی جبکہ کوبالٹ زیادہ تر افریقی ملک کانگو سے حاصل ہو تا ہے۔ اس تمام ہارڈ وئیر کی اسمبلی زیادہ تر چین، تائیوان اور جنوبی کوریا کی کمپنیاں کرتی ہیں۔ اسمارٹ فون کا آپریٹنگ سسٹم یعنی سافٹ وئیر یا تو امریکی کمپنی گوگل کا تیار کردہ ہوتا ہے یا پھر ایپل کا۔ مگر یہ کمپنیاں بھی سافٹ وئیر ایپس کی تیاری کے کام کو آگے بے شمار ممالک کے سوفٹ وئیر ہاؤسز کو آؤٹ سورس کرتی ہیں جن میں انڈیا سر فہرست ہے۔ اب ذرا سوچیے کہ اگر ایک ملک میں سوشلزم کے تحت عالمی منڈی اور نتیجتاً عالمی تقسیمِ محنت سے کٹ کر کوئی ’سوشلسٹ ملک‘ اپنی ہی قومی حدود کے اندر مکمل سوشلزم تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اسے یہ تمام تقسیمِ محنت اپنی قومی حدود کے اندر ہی حاصل کرنی پڑے گی۔ اگر بالفرض ایسا کرنا ممکن بھی ہوتب بھی یہ کرنے کے لئے بے تحاشا وسائل درکار ہوں گے، ہر ایک شعبے کے تمام ہنر مند خود پیدا کرنے ہوں گے، ہر ایک شعبے کی تمام صنعتیں خود لگانی پڑیں گی، ہر ایک ٹیکنالوجی جو اس ملک کے پاس پہلے سے موجود نہیں ہے، کو دوبارہ سے خود پروان چڑھانا ہو گا۔ کیا وہ تمام ہنر، تکنیک اورصنعت جو عالمی سطح پر میچور حالت میں موجود ہے، اسے دوبارہ صفر سے پروان چڑھانا ہر قسم کے وسائل کابے تحاشا ضیاع نہیں ہوگا۔ اور ابھی تو ہم صرف ایک پراڈکٹ کی بات کر رہے ہیں۔ عالمی تقسیمِ محنت سے کٹے ہوئے ایک نام نہاد ’خود انحصار سوشلسٹ سماج‘ کو ہر چیز ایسے ہی نئے سرے سے خود بنانی پڑے۔ اول تو یہ ناممکن ہے لیکن اگر بالفرض ایسا کرنا ممکن بھی ہو تو بھی ایسے سماج کی افزودگیئ محن عالمی سرمایہ داری سے کہیں کم تر اور لاگت پیداوار کہیں زیادہ ہو گی۔ کیا یہ سب سرمایہ داری سے زیادہ منطقی اورزیادہ مؤثر ہے؟ کیا ایسے پیداواری قوتوں کو عالمی سرمایہ داری سے بھی آگے لے جایا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ سوشلزم تو نہیں ہے کیونکہ سوشلزم کو تو سرمایہ داری کے چھوڑے ہوئے سائنسی، تکنیکی و صنعتی ورثے کو بنیاد بناتے ہوئے پیداواری قوتوں کو اس سے کہیں بلند تر سطح پر لے جانا ہو گا جبکہ یہاں تو ہمارا سامنا نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے والی صورتحال سے ہے۔
چلیں اب ہم ایک ملک میں سوشلزم کی پالیسی کے تحت پیدا ہونے والی صورتحال کو ایک اور رخ سے دیکھتے ہیں۔ بالفرض، عالمی سرمایہ داری ایسے سوشلسٹ ملک کی معاشی ناکہ بندی نہیں کرتی اور وہ سوشلسٹ ملک بھی ایک ملک میں سوشلزم کی پالیسی پر کاربند ہونے کے باوجود عالمی منڈی اور عالمی تقسیمِ محنت سے کٹنے کا فیصلہ نہیں کرتا۔ مگر اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ یہ صورتحال کچھ اور قسم کے تضادات کو جنم دینے کا باعث بنے گی۔ جب یہ ملک عالمی تجارت کا حصہ بنے گا تو اس کی اشیا کامقابلہ بڑی سرمایہ دارانہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اجارہ داریوں کے ساتھ ہوگا۔ اب یہ کمپنیاں مقابلہ بازی میں سبقت لے جانے کے لئے اپنی پیداواری لاگت کم کرنے کی غرض سے جس طرح محنت کشوں کا استحصال کرتی ہیں، کیا اس سوشلسٹ ملک کی صنعتوں بھی یہی سب کریں گی؟ اگر ہاں تو پھر یہ کس قسم کا سوشلزم ہے اور اگر نہیں تو پھر اس ملک کی اشیا اپنی زائد پیداواری لاگت کی وجہ سے عالمی منڈی میں مقابلہ کیسے کریں گی۔ اگر کوئی اس کا جواب افزودگیئ محن میں اضافے کے ذریعے دیتا ہے تو ہم یہ واضح کرتے چلیں عالمی تقسیمِ محنت سے منسلک ہونے کے باوجود ایک ملک کی حدود میں رہتے ہوئے چند مخصوص صنعتوں میں افزودگیئ محن کو زیادہ سے زیادہ عالمی سرمایہ داری کے مقابلے پر تو لایا جایا سکتا ہے مگر اس سے آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔ دوسری طرف عالمی منڈی اور عالمی تقسیمِ محنت سے منسلک ہونے کے باعث ناگزیر طور پر ایسے سوشلسٹ ملک کو عالمی سرمایہ داری کو اپنے ملک میں اشیا برآمد کرنے کی بھی اجازت دینا ہو گی۔ ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس سوشلسٹ ملک کو بھی جواباً عالمی منڈی سے کاٹ دیا جائے گا اور اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ عالمی تقسیمِ محنت سے جڑے ہونے کے سبب وہ سب کچھ خود تو نہیں پیدا کر رہا (اگرچہ یہ ویسے بھی ناممکن ہے)۔ لیکن اس طرح سے تو عالمی سرمایہ داری کو اس ملک میں نقب لگانے کے ہزاروں راستے مل جائیں گے اور وہ کب تک تن تنہا اس یلغار کا مقابلہ کر سکے گاچاہے وہ ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر وہ ملک پہلے ہی صنعتی وتکنیکی اعتبار سے پسماندہ ہے، پھر تو بیرونی تجارت پر مکمل ریاستی اجارہ داری، جو اسے عالمی منڈی اور تقسیمِ محنت سے بھی کاٹ دے گی، کے بغیر وہ چند سالوں میں ہی ڈھیر ہو جائے گا۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی منڈی سے منسلک ہونے کے نتیجے میں عالمی سرمایہ داری کے بحران بھی اس ملک پر اثر انداز ہوں گے اور پیداواری قوتوں کی تباہی کا سبب بنیں گے۔ اب یہ کس قسم کا ’مکمل سوشلزم‘ ہے جو سرمایہ دارانہ بحرانوں سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہاں ہم واضح کرتے چلیں کہ عالمی انقلاب کے وقتی تعطل کے باعث تنہا رہ جانے والے سوویت یونین کے عالمی منڈی سے کٹنے کے پیچھے دو بنیادی عوامل تھے۔ ایک عالمی سامراجی طاقتوں کی جانب سے کی گئی معاشی ناکہ بندی اور دوسرا چونکہ روس صنعتی وتکنیکی اعتبار سے نہایت پسماندہ تھا لہٰذا مزدور ریاست کو بیرونی تجارت پر مکمل اجارہ داری قائم کرنی پڑی۔ اس ساری صورتحال میں ترقی یافتہ ممالک میں سوشلسٹ انقلابات کے برپا ہونے تک خود کو قائم رکھنے کے لئے مجبوراً نوزائیدہ مزدور ریاست کو خود انحصاری کی پالیسی بھی اپنانی پڑی۔ ان مخصوص حالات کے پیش نظر لینن اور ٹراٹسکی بھی ان اقدامات کے حامی تھے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بعد میں افسر شاہی اور سٹالن نے اپنے سیاسی و خارجہ مفادات کے تحت مجبوری کے عالم میں اٹھائے جانے والے ان اقدامات کو نظریاتی لبادہ پہناتے ہوئے ایک ملک میں سوشلزم کا رجعتی نظریہ تخلیق کیا اور پھر اس کا استعمال کرتے ہوئے کمیونسٹ انٹر نیشنل اور عالمی انقلاب کو برباد کر ڈالا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ سب مارکسزم لینن ازم کے نام پر کیا گیا۔ ٹراٹسکی کا اختلاف ان تمام باتوں سے تھا نہ کہ بذات خود مجبوری کے تحت اٹھائے گئے اقدامات سے۔
اکثر لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ’ایک ملک میں سوشلزم‘ کا نظریہ شاید صرف پسماندہ ممالک کے لئے ہی غلط ہے لیکن کسی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد اس کی قومی حدود میں رہتے ہوئے مکمل سوشلسٹ سماج تعمیر کرنا ممکن ہو گا۔ ایسا سوچنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ اگرچہ ایک عمومی اصول کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک ترقی یافتہ ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد سماج کی سوشلسٹ تنظیمِ نو کا آغاز کرنا کسی پسماندہ سماج کی نسبت آسان ہو گا لیکن اس کی قومی حدود میں رہتے ہوئے ایک مکمل سوشلسٹ سماج کی تعمیر ناممکن ہے۔ بلکہ ایسے سوشلسٹ ملک کا تنہا رہ جانا بڑے پیمانے پر پیداواری قوتوں کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ نکات ہم پہلے بھی اٹھا چکے ہیں۔ آئیں اب اس معاملے کو مزید تفصیل سے دیکھتے ہیں۔ فرض کریں جاپان میں سوشلسٹ انقلاب ہو جاتا ہے لیکن کسی بھی وجوہات کی بنا پر وہ تنہا رہ جاتا ہے تو کیا ہوگا؟ جاپان کی ساری صنعت اپنے خام مال اور توانائی کے ذرائع کے لئے عالمی منڈی پر انحصار کرتی ہے۔ اگر اسے عالمی منڈی سے کاٹ دیا جائے تو اس کی صنعت چند مہینوں میں ہی بند ہو جائے گی۔ اگر بالفرض سوشلسٹ جاپان خود انحصاری کے تحت خام مال اور توانائی کے کوئی متبادل تیار کر بھی لیتا ہے تو چونکہ وہ یہ سب اکیلا کر رہا ہو گا لہٰذا یہ متبادل انتہائی مہنگے پڑیں گے۔ نتیجتاً جاپانی صنعت کی لاگتِ پیداوار میں بے تحاشا اضافہ ہو گا اور اس کی اشیا انتہائی مہنگی ہو جائیں گی۔ اسی طرح اگر انقلاب کے بعد تنہا رہ جانے والے جاپان پر معاشی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں تو وہ اپنی بے تحاشا پیداواری قوتوں کو کہاں کھپائے گا۔ مثلاً جاپان کی صنعت میں سالانہ اتنی گاڑیاں بنانے کی صلاحیت ہے کہ اگر انقلاب کے بعد ہر ایک جاپانی کو زبر دستی ایک گاڑی بھی دے دی جائے تب بھی اس پیداواری صلاحیت کو پوری طرح کھپایا نہیں جا سکتا۔ لیکن عالمی معاشی پابندیوں کی وجہ سے اب جاپان گاڑیاں برآمد بھی نہیں کر سکتا۔ اس کا ناگزیر نتیجہ جاپانی آٹو موبائل صنعت کی گراوٹ اور پیداواری قوتوں کی بر بادی کی صورت میں نکلے گا۔ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا سوشلسٹ جاپان کی الیکٹرونکس، سیمی کنڈکٹرز اور دیگر کئی صنعتوں کو بھی کرنا پڑے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کی ’سوشلسٹ تعمیر‘ ہے جس میں پیداواری قوتوں کی اتنے بڑے پیمانے پر بربادی ہو رہی ہے۔
اگر ہم اس بحث کو بڑھاتے جائیں تو معیشت، صنعت، سائنس اور تکنیک کے ہر ایک پہلو سے ایک ملک میں سوشلزم کے نظریے کو غلط ثابت کر سکتے ہیں۔ مثلاً ہر طرف سے سرمایہ داری کے سمندر میں گھرے ایک تنہا سوشلسٹ ملک کو ناگزیر طور پر اپنی کل قومی آمدن کا ایک بڑا حصہ دفاعی اخراجات جیسے ضروری لیکن غیر پیداواری استعمال پر صرف کرنا پڑے گا وغیرہ۔ لیکن ابھی جگہ کی کمی کے باعث ہم اس بحث کو سمیٹتے ہوئے صرف اتنا کہیں گے کہ آج عالمی منڈی نے پیداواری قوتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتنا منسلک کر دیا ہے کہ بورژوا معیشت دان بھی کوئی تجزیہ کرتے وقت بر طانیہ، چین، امریکہ، جرمنی اور جاپان وغیرہ کی معیشت پر بات کرنے سے پہلے بحیثیت کل عالمی سرمایہ دارانہ معیشت پر بات کرتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب سرمایہ داری میں رہتے ہوئے پیداواری قوتیں قومی حدود سے متجاوز ہو کر اس نہج تک آ گئیں ہیں تو پھر کیا انہیں واپس قومی حدود میں دھکیلتے ہوئے سرمایہ داری سے ہر لحاظ سے بہتر اور جدید طرزِ پیداوار یعنی سوشلزم کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ حقیقی مارکسزم لینن ازم، جو لیون ٹراٹسکی کے نظریاتی اضافوں کے ساتھ آج ٹراٹسکی ازم کی شکل میں موجود ہے، کے مطابق ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پرولتاریہ کی آمریت کا قیام اور سماج کی سوشلسٹ تنظیمِ نو کا آغاز بلاشبہ کسی ایک ملک سے ہو سکتا ہے مگر اس کی تکمیل عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے صرف عالمی سطح پر ہی ممکن ہے۔ یہی پرولتاری بین الاقوامیت کی مادی اساس ہے۔
دنیا بھر کے محنت کشو!ایک ہو جاؤ!
آگے بڑھو! ایک نئی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تعمیر کی جانب
آگے بڑھو! عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جانب