|عالمی مارکسی رجحان، ترجمہ: سائرہ بانو|
چین میں کورونا وائرس کی وبا ایک خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تا دم تحریر،چین میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی مصدقہ تعداد6ہزار (اب یہ تعداد لگ بھگ 24ہزار کو پہنچ چکی ہے) تھی جن کی اکثریت کا تعلق ہوبے صوبے کے دارالحکومت ووہان سے ہے۔تاہم نو اور صوبوں سے بھی سو سے زائد حتمی کیسز کی رپورٹ آئی ہے، جن میں سے بیشتر مریضوں کا تعلق صنعتی صوبوں ژی جیانگ اور گوانگڈونگ سے ہے۔کورونا وائرس اب چین سے نکل کر تھائی لینڈ، آسٹریلیا اور امریکہ تک پھیل رہا ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی نے اس وباء پر قابو پانے کے لیے سخت ترین اقدامات پر عمل پیرا ہے۔ ووہان کے علاوہ ہوبے صوبے کے تیرہ دیگر شہروں کو مکمل بند کردیا گیا ہے اور ایک کرفیو کا سماں ہے، جن کی مجموعی آبادی ساڑھے 3کروڑ بنتی ہے۔نام نہاد ’پیپلز لبریشن آرمی‘ کو ووہان میں تعینات کردیا گیا ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ ترین باڈی یعنی پولٹ بیورو اسٹینڈنگ کمیٹی نے ایک ذیلی کمیٹی قائم کی ہے جس کامقصد اس بیماری کی روک تھام کی براہ راست نگرانی کرنا ہے۔
ووہان: ایک آسیب زدہ شہر
چین میں اس وقت خوف و ہراس کی فضا پھیلی ہوئی ہے۔ خاص طور پر ووہان، جو کہ اس وبا کا مرکز ہے، ایک آسیب زدہ شہر کا منظر پیش کرتا ہے کیونکہ اس کی لاکھوں کی آبادی نے یا تو شہر چھوڑ دیا ہے یا خود کو گھروں میں قید کرلیا ہے۔ ووہان کے شمال میں گیارہ سو کلو میٹر دور بیجنگ میں گوکہ اب تک وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بہت کم یعنی 102 رپورٹ کی گئی ہے تاہم اس کے باوجود ہر شخص ماسک پہنے نظر آتا ہے۔ پورے ملک اور خاص طور پر ہوبے میں ماسکوں کی طلب بڑھنے کی وجہ سے ماسکوں کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔یہ اور بات ہے کہ فلو ماسک پہننے سے وائرس سے بچاؤ یقینی نہیں۔ البتہ، اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ یہ ہے کہ ماسک پہننے کی وجہ سے متاثرہ فرد کے لعاب کے قطرے دوسروں تک نہیں پہنچتے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک صحافی کی ویڈیو جس میں ووہان ایک آسیب زدہ شہر کا منظر پیش کر رہا ہے
خوف کی اس فضاء میں کچھ ایسے سوالات ابھر رہے ہیں جو حکام سے جواب کے متقاضی ہیں۔ یہ وائرس کہاں سے آیا؟ کس طرح پھیلا؟ کیا حکومتی اقدامات موثر ثابت ہوں گے؟ایک محدود اقلیت ایک انتہائی اہم سوال اٹھا رہی ہے کہ اس وباء کو اتنے بڑے پیمانے پر پھیلنے سے پہلے ہی کیوں نہ روکا گیا؟
”کامریڈ شی جن پنگ اور پارٹی مرکز“کے پاس ان سوالات کا کوئی خاطر خواہ اورواضح جواب نہیں۔ شی حکومت نے لوگوں کو یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے پیش رو ہو جن تاؤ سے مختلف ثابت ہو گی، کیونکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ 2002ء میں پھیلنے والی سارس(SARS) کی وبا کی تلخ یادیں ابھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہیں، جب حکومت نے تین ماہ تک اس وبا کو چھپانے کی بھرپو رکوشش کی اور جن لوگوں نے اس کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ان کو خاموش کروا دیا گیا حتیٰ کہ مزید پردہ پوشی ممکن نہ رہی۔ مختلف میڈیا چینلز پر لمحہ بہ لمحہ صورتحال کی رپورٹنگ میں حکومت کے بڑے بڑے اور انتہائی اقدامات کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ ووہان کے ایک علاقے کے مکینوں نے ہمت بڑھانے کے لیے اپنے گھروں کی کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر قومی ترانہ گایا۔ ایسے دل سوز انسانی واقعات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ (مگر ساتھ ہی دبے لفظوں میں ان کو یہ بھی تنبیہ کی گئی کہ اایسا کرتے ہوئے وہ اپنے ماسک پہننا نہ بھولیں)۔ ریاستی میڈیا چینل CCTVنے وبا پھیلنے کے بعد حکومتی احکامات پر لی شن شان میں تعمیر کیے جارہے ایک نئے ہسپتال کی تعمیر کو براہ راست نشر کیا جو کہ 5Gٹیکنالوجی سے آراستہ ہوگا۔
تاہم میڈیا پر کیا جانے والا یہ چکاچوند پروپیگنڈہ بھی ان بنیادی سوالات کے تسلی جواب دینے میں ناکام رہا۔ کورونا وائرس کی ابتداء کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جنگلی جانوروں سے پھیلا تاہم یہ بات حتمی نہیں۔ سب سے بڑھ کر وائرس کے پھیلاؤ کا طریقہ کار بارے تاحال کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی، لیکن 20جنوری کو حکومت نے صرف یہ بات تسلیم کی ہے کہ یہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ بات اس وقت کہی گئی جب سرکاری طور پر 198کیس رپورٹ ہوچکے تھے جبکہ تین دن قبل ان کی تعداد 45تھی۔ جبکہ اس سے کچھ ہفتوں قبل شنگھائی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم 5 جنوری کو اس نئے وائرس کے پورے جینوم کو سیکوئنس کرچکی تھی اور چین کی ہیلتھ نیوز کے مطابق اس ٹیم نے تحقیق کے نتائج بین الاقوامی طور پر شائع کیے۔ Caixinجریدے کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق ابتدائی 41 مریضوں پر کی جانے والی تحقیق سے ہی اس انفیکشن کے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیلاؤ کے امکانات واضح ہوچکے تھے۔ یاد رہے کہ اس انفیکشن کا پہلا کیس یکم دسمبر 2019ء کو سامنے آیا تھا۔
کس کو قربانی کا بکرا بنایا جائے؟
مرکزی حکومت وباء کے اعلان اور تاخیری ردعمل کے لیے ووہان کی شہری حکومت اور خاص طور پر میئر چو شن وانگ کو مورد الزام ٹھہرارہی ہے۔ چو، جو کہ عوام کے ووٹوں سے مئیر نہیں بنا بلکہ مرکز کی جانب سے مسلط کیا گیا ہے، اب تک بہت سی حماقتیں کرچکا ہے جس کی وجہ سے وہ بآسانی قربانی کا بکرا بن سکتا ہے۔ 26 جنوری کو میئر نے دعویٰ کیا کہ ووہان کی حکومت نے میڈیکل سوٹوں کی کمی کا مسئلہ حل کرلیا ہے اس کے برعکس اگلے ہی روز ہوبے کے گورنر وانگ شاؤ ڈونگ نے بیان دیا کہ ان اشیاء کی اب تک شدید کمی ہے۔ ووہان کو مکمل سیل کرنے کے احکامات کے چار دن بعد چو نے بتایا کہ اس حکم کے بعد ووہان کی نصف آبادی یعنی تقریباً 5 ملین افراد صوبہ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
مرکزی حکومت کے دلال جریدے دی گلوبل ٹائمز نے اس حوالے سے شہری حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا: ”افسوسناک امر یہ ہے کہ شہری انتظامیہ لوگوں کو ووہان سے ملک کے دوسرے حصوں تک جانے سے روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے میں ناکام رہی اور اس کی وجہ سے ملک میں وبا کو قابو کرنے اور بچاؤ کے اقدامات کرنا مشکل ہوگیا۔ شہری حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ عوام میں اس حوالے سے سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔“
ہم یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ایک کیڈر کے طور کامریڈ چو کے دن گنے جا چکے ہیں کیونکہ وہ نام نہاد ”چینی خدوخال پر مبنی سوشلزم کی تعمیر“ میں ناکام ہوچکا ہے۔ بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ افسر شاہانہ حماقتوں کو بھی روک پانا ممکن نہیں رہا۔ 26 جنوری کی صبح گوانگڈونگ کے شہر شان تاؤ کی حکومت نے اچانک شہر کو مکمل سیل کرنے کا اعلان کردیا۔ ووہان سے گیارہ سو کلومیٹر دور واقع اس اہم ساحلی شہر کی مکمل بندش قومی اور بین الاقوامی طور پر انتہائی تشویشناک ثابت ہوسکتا تھی لیکن محض دو گھنٹوں کے بعد شہر کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ واپس لے لیا۔تاہم، اس دورانیے میں بدحواس اور خوفزدہ شہریوں نے روزمرہ کی ضروریات جمع کرنے کے لیے بازاروں پر دھاوا بول دیا۔
اگر ان تمام واقعات پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ساری حماقتیں ایک آمرانہ حکومت میں ہی ممکن ہیں، ایک ایسی حکومت جو انتہائی نو عیت کے اقدامات سے ہر سطح پر اپنی مستعدی اور قطعیت ثابت کرنا چاہتی ہے۔ محض اشارۂ ابرو سے شہروں کو مقفل کر دینا اور نئے ہسپتالوں کی تندوتیز تعمیر جیسے اقدامات کئی اہم نوعیت کے سوالا ت کو جنم دیتے ہیں۔ کیا ساڑھے 3 کروڑ لوگوں کو مقفل کردینا اتنا ہی آسان ہے جتنا دکھائی دیتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہزاروں اقدامات کون سرانجام دے گا؟ قابلیت سے قطع نظر، میئر چو سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ووہان کے 50لاکھ خوفزدہ مکینوں کوشہر چھوڑنے سے روک لے گا جو کہ دنیا کا اکتالیسواں بڑا شہر ہے، ایک ناممکن بات تھی۔ مزید برآں، اس بات پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا طبی اور ریسکیو عملے کے پاس اس دیوہیکل شہر میں نقل و حمل کے لیے ضروری ذرائع موجود ہیں جس کو مکمل سیل کردیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی، چینی کمیونسٹ حکومت کے خود کو”مضبوط اور مستحکم“ ثابت کرنے کے لیے یہ بلندو بانگ دعوے اور ڈھونگ مزید حماقتوں اور غلطیوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں اور ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے والوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
سرمایہ داری۔۔۔خطرۂ جان
درحقیقت، یہ منافعوں پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جس کی وجہ صورتحال اس نہج کو پہنچی ہے، وہی سماجی نظام جس کو بچانے اور قائم رکھنے کے لیے چینی کمیونسٹ پارٹی سرگرداں ہے۔17 جنوری سے قبل، وباء پھوٹنے کے ہفتوں بعد جب بہت سا طبی عملہ بھی اس وائرس کا شکار ہوچکا تھا، ووہان حکومت ’اسپرنگ فیسٹیول کلچر‘ کو فروغ دینے کی کوشش کرتی رہی تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاح چھٹیاں منانے ووہان آئیں۔ 19 جنوری کو،حکومت کی جانب سے یہ بات تسلیم کیے جانے سے ایک دن قبل کہ یہ وائرس انسانوں میں بھی پھیل سکتا ہے، ووہان کے بیبوٹنگ گارڈن ضلع میں دس ہزار خاندانوں کے لیے ایک عظیم الشان تقریب بھی منعقد کی گئی۔ مرکزی حکومت اس غلطی کا ملبہ بھی ووہان حکومت پر ڈال رہی ہے لیکن وہ اس بات سے صرف نظر کررہی ہے کہ ہر سرمایہ دارانہ حکومت ہر سطح پر منافعوں کو صحتِ عامہ پر ترجیح دیتی ہے۔
یہی بات مغربی سامراجی طاقتوں پر بھی صادر آتی ہے جواس وقت میڈیا کے ذریعے چینی کمیونسٹ پارٹی کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹنے اور چینی عوام کی تکالیف پر مگرمچھ کے آنسو بہارہی ہیں لیکن اگر اسی طرح کی وباء چین کے بجائے امریکہ میں پھوٹ پڑے تو امریکی محنت کش طبقہ بھی نجی فارماسوٹیکل، ہیلتھ انشورنس کمپنیوں اور ہسپتالوں کے رحم و کرم پر ہوگا۔
دنیا بھر کے مارکسسٹ اس مشکل گھڑی میں چینی مزدوروں اور نوجوانوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کرتے ہیں اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس بھیانک صورتحا ل میں بھی، چینی محنت کش طبقہ، جو کہ دنیا کا سب سے طاقتور پرولتاریہ ہے، اس سانحے کا مقابلہ کرے گا اور کورونا وائرس پر فتح پانے کے بعد چینی عوام ایک بڑے اور خطرناک مرض یعنی چینی کمیونسٹ پارٹی کی سرمایہ دارانہ آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔