تحریر: |حمید علی زادے, ترجمہ:ولید احمد خان|
کل شام سورج غروب ہونے پر ایک مرتبہ پھر سے شام میں بڑی جنگ بندی پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ لیکن اس کے شام، مشرق وسطی اور عالمی تعلقات پر کیا اثرات پڑیں گے؟
جمعے کے دن جان کیری اور سرجی لاوروف، امریکہ اور روس کے وزرائے خارجہ، نے عالمی پریس کے سامنے آ کر اعلان کیا کہ شامی خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے ایک نئے منصوبے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس ڈیل کی تفصیلات سے اگرچہ آگاہ نہیں کیا گیا لیکن یہ اعلان ضرور کیا گیا کہ منصوبہ کی شروعات بشار الاسد کی حکومت اور مغربی ممالک کی سرپرستی میں قائم حزب اختلاف کے درمیان سورج غروب ہونے پر جنگ بندی سے ہوئی ہیں۔ اس جنگ بندی کے لاگو ہونے کے بعد سات دن کا عرصہ ہے جس میں فلاحی امداد حلب اور بقیہ محاصرے میں گھرے علاقوں میں پہنچائی جائے گی۔ تمام لڑاکا گروہ کاسٹیلو روڈسے بھی پیچھے ہٹیں گے، جو کہ حلب میں داخلے کا ایک اہم راستہ ہے۔ شامی فضائی فوج بھی ان تمام علاقوں میں کام نہیں کرے گی۔ ان علاقوں کی پٹرولنگ اور نگرانی اب روسی اور امریکی طیارے کریں گے۔
جنگ بندی کے ایک ہفتے بعد روس اور امریکہ ایک مشترکہ کنٹرول قائم کریں گے تاکہ شام میں اپنی مداخلت کو مربوط طریقے سے جاری رکھا جا سکے۔ دونوں ممالک پھر داعش (ISIS) اور جبہت فتح الشام (Jabahat Fatah Al-Sham-JFS)، جبہت النصرہ (Jabahat Al- Nusra) کا نیا نام اور جو القاعدہ (Al Qaeda) کی شامی شاخ ہے، دونوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کریں گے۔
کیا جنگ بندی اپنا پہلا ہفتہ نکال پائے گی ابھی دیکھنا باقی ہے۔ ویسے تو تمام علاقائی طاقتوں نے اس جنگ بندی سے اتفاق کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ان کے پالے ہوئے جنگجو اور مقامی مسلح جتھے بھی اس کی پابندی کریں گے۔ سلفی/ وہابی گروہ حرکت احرار الشام (Harkat Ahrar Al-Sham) اور JFS، جو کہ بشارالاسد کے خلاف سب سے مضبوط جنگجو گروہ ہیں، نے پہلے ہی اس ڈیل کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔نام نہاد معتدل حزب اختلاف جس کو امریکی آشیر باد حاصل ہے، ان کی زیادہ تر اکثریت انہی دو گروہوں میں کام کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پتہ چلانا ہی ناممکن ہے کہ کہاں پر امریکی پراکسیاں ختم ہوتی ہیں اور کہاں سے جہادی گروہ شروع ہوتے ہیں۔ اگر چاہیں بھی تو ان گروہوں کیلئے ایک دوسرے سے علیحدہ ہونا نہایت مشکل ہے ۔ اسی اثنا میں اسد، جس نے ڈیل پر رضامندی ظاہر کی ہے، نے اپنے ارادوں کا اظہار کیا ہے کہ حتمی طور پر وہ پورے شام پر قبضہ کرے گا جو کہ صریحاً اشتعال انگیزی ہے۔
بہرحال، اس ڈیل کا خاصہ ڈیل بذات خود نہیں ہے جو قائم رہے یا نہ رہے بلکہ مشرق وسطی میں بدلتا ہوا طاقتوں کا توازن اور دنیا میں تبدیل ہوتے ہوئے آپسی تعلقات کا ہیں جس کی عکاسی اس ڈیل میں ہو رہی ہے۔’’امریکہ حد سے زیادہ بڑھ کر کوشش کر رہا ہے‘‘ جان کیری نے اعلان کرتے ہوئے کہا،’’کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ روس اور میرے ساتھی (سرجی لاوروف)میں اسد حکومت پر اس جنگ کو بند کرنے اور ٹیبل پر آ کر امن قائم کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے کی صلاحیت موجود ہے‘‘۔
روس کا عالمی طور ر کردار بہت زیادہ ابھر رہا ہے اور امریکی حکمران طبقے کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے۔ اتوار کے دن، CIAکے سربراہ جان برینن نے CBCچینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا :
’’ میرا خیال ہے کہ روس ایک عالمی طاقت ہے، یہ واضح ہے۔ اور وہ دنیا کے مختلف خطوں میں کام کر رہے ہیں، جنگی صلاحیتوں کے ساتھ۔وہ اس وقت مشرق وسطی میں بھی سرگرم ہیں، یوکرائن میں بھی، وسطی ایشیا میں بھی۔یعنی روس بہت ساری جگہوں پر ایک مضبوط حریف ہے۔اور پھر بہت سارے ایسے مقامات ہیں جہاں ہمیں روس کے ساتھ کام کرنا ہے ، خاص طور پر شام میں‘‘۔
یہ نہایت اہم الفاظ امریکی حکمران طبقے کے ایک اہم نمائندے کے ہیں۔ ماضی قریب میں یہ سوچنا ہی محال تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب امریکہ، دنیا کی واحد سپر پاور، روس کے ساتھ ایک مشترکہ امن منصوبہ پیش کرے گا، اسے ایک عالمی طاقت ماننے گا یا پھر ’’حد سے زیادہ کوشش‘‘ کرے گا۔ اس کے برعکس، باراک اوبامہ اور امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ اپنی تمام تر توپوں کا رخ روس کی طرف کئے ہوئے تھے جس کو وہ ’’مغربی جمہوریت‘‘ کیلئے ایک سنجیدہ خطرہ گردانتے تھے۔بہرحال یہ سب کچھ اب ہو چکا ہے۔
سرجی لیوروف نے فوراً پریس کو یاد دلایا کہ روس نے اس منصوبے سے ملتا جلتا منصوبہ پچھلے سال شام میں اپنی مداخلت کے آغاز میں پیش کیا تھا جس سے فوراً انکار کر دیا گیا تھا۔جان کیری کو یہ بھی بتانا پڑاکہJFS کے صفایا کرنے کا منصوبہ ’’کوئی رعایت نہیں‘‘ ہے۔ اس بات کو سچ مان لیا جاتا اگر حقیقت یہ نہ ہوتی کہ امریکہ کی سرپرستی میں زیادہ تر گروہ شام میں JFS کے ساتھ قریبی تعلق اور شراکت داری میں کام کر رہے ہیں۔ دراصل ، شام میں امریکہ نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جب سے بمباری شروع کی ہے، JFS ان ہزاروں حملوں میں سے چند حملوں کا نشانہ بنی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ JFS، جو کہ اپنے قریبی حلیف AAS کے ساتھ مل کر ادلیب(Idlib) کے سارے صوبے اور حلب کے وسیع علاقوں پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں،کا داعش سے کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہے۔ حقیقت میں داعش نے ہی JFSکو پروان چڑھایا۔ بعد ازاں دونوں میں ذاتی طاقت اور مرتبے کی چپقلش کی وجہ سے علیحدگی ہو گئی۔
JFS کا پیچھا کرنے مطلب یہ بھی ہے کہ اسد حکومت کو درپیش سب سے بڑے خطرے کو نشانہ بنانا۔ یعنی اسد کو طاقت سے ہٹانے کی ساری آوازیں فی الحال کہیں دب گئی ہیں۔ یہاں تک کہ چند ہفتے پہلے تک کسی بھی ڈیل کے آثار بالکل ہی مدھم تھے کیونکہ امریکہ زمینی حقائق ماننے سے انکاری تھا۔ لیکن حلب کے دوبارہ محاصرے اور شمالی شام میں ترکی کی مداخلت کے بعد امریکہ کو یہ سمجھ آنی شروع ہو گئی کہ اب وہ تنہا ہوتا جا رہا ہے اور اس کے پاس داؤ پیچ لگانے کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس ڈیل سے درحقیقت روس نے امریکہ کو ذلت سے بچنے کا موقع دیا ہے لیکن پیوٹن اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہر ممکن موقع پر امریکہ کو یہ بات جتائے۔
خانہ جنگی کے شروع ہونے کے بعد سے امریکہ یکے بعد دیگرے ایک ناکامی سے دوسری ناکامی کے درمیان لڑکھڑا رہا ہے۔سب سے پہلی مداخلت جس کو CIA نے ترکی، سعودی عرب اور اردن کے ساتھ مل کر شروع کی اور اربوں ڈالر اسلامی حزب اختلاف میں انڈیلے جو جلد ہی قابو سے باہر ہو گئی اور اس کے نتیجے میں داعش کے خونخوار بھیڑیے نے جنم لیا۔ افغانستان اور عراق کی وجہ سے شدید معاشی اور سیاسی زخم کھانے کے بعد امریکہ شام میں براہ راست مداخلت نہیں کر سکتا تھا اور اس کو عراق سے اپنی بیشتر فوج نکالنی پڑی۔ امریکہ کی قیادت میں ایک نئی جنگ کے تباہ کن سیاسی اور معاشی اثرات مرتب ہوتے جس کی وجہ سے کوئی عوامی تحریک پھٹ سکتی تھی جس کے سامنے عراق اور افغانستان کی جنگوں کے خلاف تحریکیں بالکل معمولی لگتیں۔
امریکی سامراج کا بحران اس کے عمومی بحران کی نشاندہی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے امریکہ کی بیرونی مداخلت کرنے کی صلاحیت شدید متاثر ہوئی ہے۔ اس کے بجائے امریکہ ایران اور حزب اللہ جیسی قوتوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔یہی وہ بنیاد تھی جس پر امریکہ نے ایران کے ساتھ جوہری ڈیل کی تھی جس میں بنیادی طور پر امریکہ نے سابقہ ’’شیطانیت کے ٹولے‘‘ کے ممبر کو ایک بڑی قوت مانا اور عندیہ دیا کہ آنے والے وقت میں ایران مشرق وسطی میں اس کا ساتھی بھی بن سکتا ہے۔
ایران کے ساتھ ڈیل اور شام اور عراق میں اپنی لگائی ہوئی آگ کو بجھانے کی اہلیت کھو جانے کے بعد امریکہ کے روایتی حلیف اس سے بیگانہ ہو گئے ہیں جنہوں نے اسد کے خلاف کمپین میں بے پناہ پیسہ جھونکا اور جو،زیادہ اہم بات یہ ہے، ایران کے ساتھ شدید چپقلش میں ہیں۔ اس کی وجہ سے امریکی قیادت میں قائم بلاک میں دراڑیں پڑ گئیں، یہاں تک کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں بھی اختلافات ابھر آئے۔ پینٹاگون اور ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (DIA) نے داعش کے خلاف کمپین شروع کر دی جبکہ ترکی، سعودی عرب اور CIA ہر رنگ و نسل کے جہادیوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔پینٹاگون کرد YPG، جو اس وقت شام میں سب سے بڑی اور مستعدفوج ہے، کو سپورٹ کر رہی ہے۔اس کی وجہ سے ترک حکومت متنفر ہو گئی کیونکہ وہ کردوں کو ترک سرمایہ داری کے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں اور ایک ایسی کرد ریاست جو کہ ترکی کی جنوبی سرحدوں پر پھیلی ہو، کو اپنی بقا کیلئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ لیکن جہاں امریکی فوجیں داعش کو نشانہ بنانا چاہتی تھیں، وہیں پر CIA سعودی عرب اور ترکی کی معاونت سے اسد حکومت سے لڑنے کی خواہش مند تھی۔ ان تضادات کی وجہ سے CIA اور DIA کے زیرِ سایہ گروہ ایک دوسرے کے ساتھ پچھلے دس مہینوں سے ہلکی نوعیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
امریکہ اور ترکی کے تعلقات خاص طور پر کھٹائی کا شکار ہیں۔ جب امریکی سپورٹ میں YPG کی قوتیں شمالی شام میں پیش قدمی کر رہی تھیں، اس وقت اردگان کے سلطنت عثمانیہ کے نشاہ ثانیہ کے مقاصد منہدم ہو رہے تھے۔ حلب کا محاصرہ ہو رہا تھا، YPG دریائے فرات کے مغرب میں پیش قدمی کر رہی تھی، اسد کی حکومت کا گر نا مشکل نظر آ رہا تھا، ترکی میں اسلامی انتہا پسندوں کے حملے بڑھ رہے تھے اور اردگان کے روس کے ساتھ، پچھلے سال روسی جنگی جہاز کے گرائے جانے کے تنازع کے بھاری اثرات معیشت پر پڑ رہے تھے۔اردگان کی حکومت بحران میں تھی اور اس حد تک پسپائی کا شکار تھی کہ اردگان کو ساری دنیا کے سامنے پیوٹن سے معافی مانگنی پڑی تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات نارمل ہو سکیں۔
سرد مہر سنکی پیوٹن نے بحرحال اردگان کی طرف امن کا ہاتھ بڑھایا اور دونوں ملکوں کے درمیان ایسے وقت میں تعلقارت دوبارہ بحال کئے جب ترک امریکی تعلقات اپنی تاریخ کے سب سے کٹھن حالات میں تھے۔ ترکی میں 15جولائی کی ناکام فوجی بغاوت ایک فیصلہ کن موڑ تھی۔ بغاوت نہ منظم تھی اور نہ ہی اس کو امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی ۔ یہ واضح تھا کہ NATO کے سٹرکچر میں موجود ترک فوجی اس بغاوت میں شامل تھے۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد تطہیری عمل نیٹو کیلئے تشویش کا باعث تھی کیونکہ روایتی طور پر نیٹو کے کسی بھی سویلین حکومت کے بجائے ہمیشہ ترک فوج کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ جیسے جیسے اردگان نے اپنی قومی پوزیشن کو مستحکم کرتے ہوئے روس کے ساتھ پینگیں بڑھائیں، امریکہ اور اس کے مغربی پالیسی سازوں کو شدید خوف لاحق ہو گیا کہ نیٹو اپنی دوسری سب سے بڑی فوج اور جغرافیائی حوالے سے کلیدی اثاثہ کھو دے گا۔
اس ساری صورتحال میں ترکی نے شام میں روس کی خاموش حمایت میں پیش قدمی شروع کر دی۔ اردگان کافی عرصے سے نیٹو سے اس قسم کے آپریشن کا تقاضہ کر رہا تھا لیکن مغربی ممالک اس موقع پر اس مہم جوئی کے خلاف تھے کہ اس مداخلت کے نتیجے میں نیٹو شام میں بھرپور جنگ میں پھنس سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ YPG کے خلاف واضح قدم ہے جو اب تک زمین پر موجود امریکہ کے سب سے زیادہ کارآمد فوجی بنے ہوئے تھے۔ امریکی اسپیشل فورسز کردوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں اور ترکی کی یہ مہم جوئی امریکہ کے خلاف کھلی اشتعال انگیزی ہے۔ لیکن روس کی خاموش حمایت جو کہ بڑی آسانی سے ترکی کو اس مہم جوئی سے روک سکتا تھا۔۔ اردوگان نے ایسی چال چلی کہ امریکہ بھی اس کے سامنے بے بس ہو گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اردوگان کے خلاف امریکی بڑھک بازی قدرے نرم ہو گئی ہے کیونکہ اب وہ اردوگان کو روس کے اثر سے نکال کر دوبارہ اپنی بانہوں میں گھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شمالی حلب میں ترکی کے گھس جانے سے ایسا لگتا ہے کہ حلب شہر جسے پچھلے دو مہینوں سے شامی حمایت یافتہ فوجوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے، کے بدلے میں اس حرکت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہ روس کی شرائط ماننے کیلئے امریکہ کیلئے آخری تنکا ثابت ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ پیوٹن نے ہاتھ بڑھا کر اوبامہ کو مکمل رسوائی سے بچا لیا ہے۔
اب شام میں روس کی بالادستی ہے۔ اس سے یہ ہر گز مراد نہیں ہے کہ روس بطور عالمی طاقت امریکہ کے برابر ہے۔ روسی معیشت اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے اور حکومت نے حال ہی میں دفاعی اخراجات میں گہری کٹوتیاں لگائی ہیں۔ روس کے پاس شام میں بڑے پیمانے پر مداخلت کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔ اس کے بجائے انہیں ایرانی نواز مسلح فوجوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے جنہوں نے شامی حکومت کو گرنے سے تو بچا لیا ہے لیکن وہ جارحانہ حالات میں زیادہ موثر نہیں ہیں۔ شامی فوج خود شدید انحطاط کا شکار ہے۔ بھگوڑا پن، کرپشن اور انتہائی کمزور جنرل سٹاف ہونے کا مطلب ہے کہ وہ انتہائی محرک اور زیادہ اچھی خوراک والے جہادیوں کے سامنے بے بس ہیں۔ یہاں تک کہ کافی جگہوں پر فوجی چھوٹے مقامی بدمعاش گروہوں میں بٹ گئے ہیں جن کی قیادت وہ جنگجو کر رہے ہیں جو اسد حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں۔
جولائی میں ٹائیگر فورس( ایک نجی ملیشیا) نے کئی ہفتوں بعد شہر کے شمالی علاقوں پر قبضہ کرکے حلب کا محاصرہ مکمل کر لیا۔ لیکن چند دن بعد ہی محاصرہ باغیوں کے ایک ہفتے کے حملے کے نتیجے میں جنوبی علاقوں کا محاصرہ جس کا آسانی سے دفاع کیا جا سکتا تھا بکھر گیا۔ ٹائیگر فورس کو دوبارہ سے منظم کرنا پڑا اور ایک مہینے کی شدید بمباری کے بعد محاصرہ دوبارہ بحال ہوا۔ اسی اثنا میں خلافِ توقع باغیوں نے نسبتاً پرسکون شمالی علاقے حامہ (Hama) پر حملہ کر دیا جس سے وفادار فوج کی مدافعانہ پوزیشن بکھر گئی اور باغی اہم شہر حامہ کے چھ میل قریب تک پہنچ گئے۔ اسد حکومت کی کمزوری سب کو واضح ہے جس کی وجہ سے اس کی فوج اور زیادہ کمزور ہو رہی ہے۔لیکن جہاں روسی اور ایرانی اتنے کمزور ہیں کہ وہ پورے شام پر قبضہ نہیں کر سکتے، امریکی کمزوری کا مطلب یہ ہے کہ روسی اور شامی ’’رسائی روک‘‘ سکتے ہیں۔۔یعنی اتنی فوجی اور سیاسی رکاوٹیں کھڑی کر دیں کہ مخالفین کی ہر تدبیر مشکل یا ناکارہ ہو جائے۔۔ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر کہ اپنی فوجی اور معاشی قوت سے زیادہ بڑھ کر لڑا جا سکے۔ روسیوں کی بحران حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جس کی وجہ سے لڑائی میں موجود دوسرے فریقین پر ان کا مجموعی اثر ختم ہو جائے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ پورے خطے کی توجہ شام ر مرکوز رہے تاکہ وہ اپنا وزن اور اثر استعمال کرتے ہوئے مقامی گروہوں اور طاقتوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہیں۔ یہ وہ منطق ہے جس کی وجہ سے پیوٹن نے ترکی کو شمالی حلب میں داخل ہو کر خانہ جنگی میں دوبارہ گھسنے کی اجازت دی۔
ایک منجمد لڑائی کی صورتحال پیدا کرتے ہوئے جس میں مشرق وسطی کی تمام طاقتیں مصروف ہیں۔۔ایسی صورتحال جس میں ترپ کے پتے سارے اس کے ہاتھ میں ہیں۔۔ پیوٹن خطے میں طاقتوں کے توازن کا منبع بن گیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے روایتی حلیف۔۔جیسا کہ ہم نے ترکی کو دیکھا ہے۔۔خطے میں دوسری قوت کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ پر دباؤ ڈال کر من پسند مراعتیں حاصل کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل اور روس نے حالیہ دنوں میں ایک مشترکہ اسرائیل-فلسطین امن کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے جو کہ اوبامہ حکومت کی طرف ایک کھلی جارحیت ہے۔
امریکی سامراج کی کمزوری نے ایک ایسا خلا پیدا کر دیا ہے جس کو روس پر کر رہا ہے۔بہت تھوڑی سرمایہ کاری کر کے روس مشرق وسطی میں ایک اہم کھلاڑی بن کر ابھر رہا ہے۔
13ستمبر 2016ء