فرانس: سب سے بڑی پارٹی کی لیڈر کو سزا اور جمہوریت کا حقیقی چہرہ بے نقاب

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: عرفان منصور|

سب سے پہلے ایک واضح حقیقت جان لیں کہ ان سطور کے مصنف کا مارین لی پین، اس کے نظریے یا اس تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کی وہ سب سے نمایاں نمائندہ ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

بلکہ، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سیاسی نظریات کے پیمانے پر ہم ایک دوسرے کے بالکل مخالف کناروں پر کھڑے ہیں۔ یہ بات ابتداء ہی میں واضح کر دینا ضروری ہے تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی یا غلط بیانی کا خطرہ نہ رہے۔

تاہم، ابتدا ہی میں میں ایک اور بات بھی کہوں گا جو کہ انتہائی واضح ہونی چاہیے، لیکن بدقسمتی سے بائیں بازو کے بہت سے لوگوں کی نظر سے اوجھل معلوم ہوتی ہے۔

مجھے معلوم ہوا ہے کہ مارین لی پین کے حالیہ مقدمے کے فیصلے پر فرانسیسی بائیں بازو نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اکہری سطح پر، میں اسے سمجھ سکتا ہوں۔ وہ ایسی پالیسیوں کی نمائندہ تھی جو ان کے لیے ناقابل قبول تھیں اور یہ بالکل فطری بات ہے۔ لیکن ایک گہری سطح پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ خوشی بے محل ہے۔

آئیے اسے نہایت سادہ الفاظ میں سمجھتے ہیں۔ فرانسیسی ججوں کے ایک پینل کا مارین لی پین کو قید کی سزا دینے اور خاص طور پر اسے آئندہ صدارتی انتخابات میں امیدوار کے طور پر نااہل قرار دینے کا فیصلہ پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی ترین اصولوں پر ایک سنگین حملہ ہے۔

اسے فوری طور پر پانچ سال کے لیے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اپنی سزا 2027ء کے صدارتی انتخابات سے پہلے ختم نہ کروا سکی تو اس کے لیے انتخاب لڑنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

بائیں بازو کے بہت سے لوگ اسے اپنی فتح سمجھ رہے ہیں۔ لیکن یہ محنت کش طبقے یا خود بائیں بازو کے لیے ہرگز کوئی کامیابی نہیں ہے، بلکہ یہ مستقبل کے لیے ایک نہایت سنگین خطرہ ہے۔

میں ان الفاظ پر آنے والا ردِعمل بھانپ سکتا ہوں۔ غصے سے بھرپور شور اٹھے گا کہ چونکہ لی پین رجعت پرست اور مزدور دشمن نظریات رکھتی ہے، اس لیے اسے نااہل قرار دینا بالکل درست تھا۔

اس اعتراض کا جواب نہایت سادہ ہے؛ مارین لی پین پر اس کے نظریات کی وجہ سے مقدمہ نہیں چلایا گیا (کم از کم یہی دعویٰ کیا جا رہا ہے) بلکہ ایک جرم کے ارتکاب کا الزام ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے اور حقیقت میں میڈیا میں بار بار کہا جا رہا ہے کہ اس نے یورپی یونین کے فنڈز سے ایک خطیر رقم غبن کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا ہے، جو بظاہر اس نے ذاتی فائدے کے لیے نہیں بلکہ اپنی سیاسی جماعت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ جو بھی شخص کسی عدالت میں ایسے جرم میں مجرم ثابت ہو، اسے سزا ملنی چاہیے۔

اب، میرے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ آیا محترمہ لی پین نے واقعی یہ جرم کیا ہے یا نہیں۔ لیکن میں یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہ وہ واقعی مجرم ہے۔

کیا اس بنیاد پر جج کی دی گئی سخت ترین سزا کا جواز بنتا ہے؟ خاص طور پر کیا اس جرم سے ایک ایسے امیدوار کو آئندہ صدارتی انتخابات سے باہر کرنے کا کوئی جواز بنتا ہے جسے فرانسیسی عوام کی نمایاں حمایت حاصل ہے، جو اس وقت فرانسیسی پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت کی قیادت کر رہی ہے، اور جسے اب تک انتخابات کا سب سے مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا تھا؟

مارین لی پین کی عوامی حمایت پر کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا۔ اتوار کے روز ایک رائے عامہ کے جائزے میں یہ پیش گوئی کی گئی کہ 2027ء کے صدارتی انتخابات میں مارین لی پین 37 فیصد ووٹ حاصل کرے گی، جو 2022ء کے مقابلے میں 14 پوائنٹس زیادہ اور کسی بھی دوسرے امیدوار سے 10 پوائنٹس آگے ہے۔

آئیے معاملے کو سادہ الفاظ میں دیکھتے ہیں: کیا یہ قابل قبول ہے کہ لاکھوں فرانسیسی ووٹرز کو ان کے بنیادی جمہوری حق یعنی اپنی پسند کے امیدوار کو آزادانہ طور پر ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا جائے اور انہیں چند غیر منتخب ججوں کے فیصلے کے ذریعے مؤثر طور پر بے اختیار کر دیا جائے؟

یہی وہ سوال ہے اور صرف یہی سوال ہے، جس کا جواب دیا جانا چاہیے۔

’قانون کی عظمت‘

یہ تصور جس قدر جھوٹ پر مبنی ہے، اسے اتنی ہی شدت سے پھیلایا بھی جاتا ہے کہ قانون ایک غیرجانبدار چیز ہے اور یہ معاشرے اور طبقاتی مفادات سے بالاتر ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قانون ہمیشہ امیر اور طاقتور طبقے کا ہتھیار رہا ہے، جسے اس نے غریب اور مظلوم لوگوں کے خلاف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا ہے۔

شاید فرانس میں یہ حقیقت سب سے بہتر سمجھی جاتی ہے، جہاں لوگ زیادہ تر اداروں اور خاص طور پر بورژوا قانونی نظام سے فطری بدظنی رکھتے ہیں۔ مشہور فرانسیسی مصنف اناطول فرانس نے ایک بار لکھا تھا:

”قانون کی شاندار مساوات یہ ہے کہ یہ امیروں اور غریبوں دونوں کو یکساں طور پر پلوں کے نیچے سونے، سڑکوں پر بھیک مانگنے اور روٹی چوری کرنے سے روکتا ہے۔“

جج کبھی بھی محنت کش طبقے کے دوست نہیں رہے اور نہ ہی جمہوریت کے۔ کوئی بھی شخص بے شمار مثالیں پیش کر سکتا ہے جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ فرانس سمیت ہر ملک میں قانونی نظام شدید اور شرمناک حد تک جانبدار رہا ہے۔

تاریخ کے اوراق فرانسیسی عدلیہ کی رجعت پرست فطرت سے لبریز ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال بدنام زمانہ ڈریفس کیس (Dreyfus case) ہے، یہ ایک سیاسی اسکینڈل تھا جس نے 1894ء سے 1906ء تک پورے فرانس کو دو مخالف دھڑوں میں تقسیم کر دیا۔ لینن نے یہاں تک کہا کہ اس اسکینڈل کے نتیجے میں خانہ جنگی بھی ہو سکتی تھی۔

سات ججوں نے متفقہ طور پر الفریڈ ڈریفس (Alfred Dreyfus)، جو کہ ایک فرانسیسی یہودی فوجی افسر تھا، کو غیر ملکی طاقت سے سازباز کا مجرم قرار دیا اور کریمنل کوڈ کی دفعہ 76 کے تحت عمر قید کی سزا سنائی۔

لیکن بعد میں یہ ثابت ہوا کہ ڈریفس کے خلاف مقدمہ مکمل طور پر ایک جعلی دستاویز پر مبنی تھا۔ یہ معاملہ فرانسیسی حکمران طبقے اور فوج کے اعلیٰ عہدوں میں پائے جانے والی یہود دشمنی اور عدالتی نظام کی کھوکھلی بنیادوں کو بے نقاب کرنے کا باعث بنا۔

فرانسیسی تاریخ میں ایسا کچھ بھی نہیں جو یہ ثابت کرے کہ وقت گزرنے کے ساتھ عدالتی نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی آئی ہو۔ اس کی ایک واضح مثال دوسری عالمی جنگ کے دوران فرانسیسی ججوں کی نازی نواز ویشی (pro-Nazi Vichy) حکومت کے ساتھ ملی بھگت ہے، جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ عدلیہ ہمیشہ طاقتور طبقے کے مفادات کی محافظ رہی ہے۔

اس کے باوجود، کسی غیر واضح وجہ کی بنا پر آج فرانسیسی ججوں کو جمہوریت کے نڈر محافظوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ تاریخی ریکارڈ کو دیکھتے ہی یہ دعویٰ کھوکھلا اور منافقت سے لبریز دکھائی دیتا ہے۔

قانون ہمیشہ سے سٹیٹس کو یعنی بینکاروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کا محافظ رہا ہے۔ اگر اس مقصد کے لیے خود قانون کی دھجیاں اڑانی پڑیں، تو وہ بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔

یہ سب جاننے کے باوجود، فرانسیسی ’کمیونسٹ‘ پارٹی کا رہنما فابین روسیل کچھ اس طرح کے بیانات دیتا ہے:

”انصاف، انصاف ہوتا ہے۔ چاہے آپ طاقتور ہوں یا کمزور، جیسا کہ لا فونٹین (La Fontaine) نے لکھا، قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ خاص طور پر جب کہ مارین لی پین خود عدالتی نظام میں سختی کی حامی ہیں! آؤ، انصاف کا احترام کرتے ہیں۔“

بالکل، انصاف کا احترام کیا جانا چاہیے۔ لیکن انصاف اور موجودہ فرانسیسی عدالتی نظام ایک چیز نہیں ہیں۔ اس کا لا فونٹین کا حوالہ حقیقت کے برعکس ہے۔ فونٹین کا تصور مجرد اور مافہیا سے آزاد ہے۔ وہ قانون کو ویسا بیان کر رہا ہے جیسا ہونا چاہیے، نہ کہ جیسا حقیقت میں ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ یونانی فلسفی اناکارسس کے یہ الفاظ نقل کرتا:

”قانون مکڑی کے جال کی طرح ہوتا ہے، کمزور اس میں پھنس جاتے ہیں، جبکہ طاقتور اسے چیر کر نکل جاتے ہیں۔“ یہ الفاظ کسی مجرد تصور کی بجائے قانون کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں، جیسا کہ یہ طبقاتی معاشرے میں موجود ہے۔

اگر ہم فرانسیسی سیاست میں کرپشن کے خلاف عدالتی نظام کے ریکارڈ کو دیکھیں تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔

فرانس کی سیاست میں کرپشن

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ فرانس کی سیاست میں کرپشن عام ہے بلکہ اسے ایک قومی کھیل سمجھا جاتا ہے۔

اگر مارین لی پین کرپشن میں ملوث تھی، تو وہ بہترین لوگوں کی صحبت میں تھی! سابق صدر نکولس سارکوزے پر الزام تھا کہ اس نے لیبیا سے غیر قانونی انتخابی فنڈز وصول کیے، جس پر انہیں عدالت میں پیش ہونا پڑا۔

دائیں بازو کا سابق وزیراعظم فرانسوا فیلون 2017ء کے صدارتی انتخابات میں مقبولیت کھو بیٹھا، جب پولیس نے اس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس پراپنی بیوی کو پارلیمنٹری اسسٹنٹ کے طور پر جعلی سرکاری ملازمت دینے کا الزام تھا۔ اس سکینڈل کے نتیجے میں میکرون ایوان صدر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

لیکن بورژوا سیاستدانوں کے دفاع میں عدالتی نظام کا سب سے زیادہ شرمناک استعمال سابق فرانسیسی صدر جیک شیراک کے کیس میں ہوا۔ اسے عوامی فنڈز غبن کر کے اپنی کنزرویٹو پارٹی کی غیر قانونی مالی معاونت اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا مجرم پایا گیا۔

یہ غبن اس وقت ہوا جب وہ 1977ء سے 1995ء کے درمیان پیرس کا میئر تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے اپنی جماعت ریلی فار دی ریپبلک (RPR) کے ارکان کو ایسی میونسپل ملازمتوں کے لیے تنخواہیں ادا کیں جو درحقیقت موجود ہی نہیں تھیں۔

یہ جرم مارین لی پین کے مبینہ جرم سے کہیں زیادہ سنگین لگتا ہے، کیونکہ لی پین پر جو الزامات لگے، وہ ان ملازمتوں کی تنخواہوں سے متعلق تھے جو حقیقت میں موجود تو تھیں۔

تاہم، شیراک (Chirac) کو 2011ء میں سزا سنائی گئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے 1995ء سے 2007ء تک مارین لی پین کے والد ژاں میری لی پین کے خلاف صدر کے عہدے کے لیے کھڑے ہونے اور انتخابات جیتنے کا پورا موقع ملا، حالانکہ وہ پہلے ہی عوامی فنڈز کے غبن میں ملوث تھا۔

دوسرے الفاظ میں، اسے کرپشن کے بعد بھی صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑا ہونے اور صدر بننے کی پوری اجازت دی گئی۔

جو کچھ میں نے پڑھا ہے، اس کے مطابق اسے اپنے دورِ صدارت میں قانونی استثنیٰ حاصل تھا، جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ثبوت موجود ہونے کے باوجود، برسرِاقتدار ہونے کے سبب اس پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

2004ء میں، جب شیراک صدر تھا، ایلین جوپے (Alain Juppé) کو اسی مقدمے میں سزا سنائی گئی۔ اسے اٹھارہ ماہ کی قیدِ معطل، پانچ سال کے لیے بطورِ شہری حقوق سے محرومی، اور دس سال کے لیے کسی بھی سیاسی عہدے کے لیے نااہلی کی سزا سنائی گئی۔

لیکن جب اس نے اپیل دائر کی، تو انتخابی نااہلی کو صرف ایک سال تک محدود کر دیا گیا۔

یہ کرپشن اسکینڈلز بہت بڑے اور بدصورت برفانی تودے کی صرف ایک جھلک ہیں۔ کرپشن کے زیادہ تر مقدمات کبھی عدالت تک پہنچتے ہی نہیں اور جب پہنچتے بھی ہیں، تو جیسا کہ مذکورہ مثالوں سے واضح ہوتا ہے، عدلیہ کو آسانی سے فیصلے نرم کرنے یا انہیں سرے سے ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہے فرانسیسی ’انصاف‘ کا اصل چہرہ۔

ظاہر ہے کہ یہ سب صرف فرانس تک محدود نہیں ہے۔ یورپی یونین کے رہنما مارین لی پین کی سزا کا جشن یقیناً شیمپین کے ساتھ منا رہے ہوں گے، لیکن برسلز میں کرپشن ویسی ہی سرایت کیے ہوئے ہے جیسی کہ پیرس میں، درحقیقت ایک ہاتھ آگے ہی ہے۔

یورپی حکمران اشرافیہ کی اندرونی چالوں سے بخوبی آشنا یونانی معیشت دان یانس واروفاکس (Yanis Varoufakis) نے نشاندہی کی کہ کرسٹین لاگارڈ کو بھی 2016ء میں ایسے ہی الزامات میں سزا سنائی گئی تھی اور وہ بھی ایک فرانسیسی عدالت میں۔

لیکن وہ آئی ایم ایف کے سربراہ کے عہدے پر برقرار رہی اور بعد میں یورپی مرکزی بینک کی صدر بن گئی۔

وارو فاکس طنز کرتے ہوئے کہتا ہے: ”کسی نے اس کی سابقہ سزا کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔ مجھے عدلیہ کی طاقت پڑ ذرا بھی بھروسہ نہیں رہا، نہ فرانس میں اور نہ ہی کہیں اور۔“

ججوں کے خلاف غصہ

مارین لی پین کے مقدمے کی خبر سے اس کے حامیوں میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی۔

فنانشل ٹائمز میں بدھ کے روز شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں اس مقدمے میں شامل ججوں کو تشدد کی دھمکیاں دینے کے متعلق لکھا کہ:

”ناقدین کا کہنا ہے کہ لی پین اور ان کی جماعت آگ سے کھیل رہے ہیں، کیونکہ عدالتی نظام پر ان کا تنقیدی رویہ دراصل قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی پارلیمان سے منظور شدہ قوانین پر عملدرآمد کرنے کی قانونی حیثیت پر حملہ ہے۔ فرانس کی وزارتِ انصاف کے مطابق، ججوں کو سنگین دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ فیصلے کے فوری بعد چیف جسٹس کے گھر کے باہر پولیس تعینات کی گئی۔

ریمی ہائٹز، جو فرانس کی سب سے بڑی عدالت میں چیف پراسیکیوٹر ہے، نے ان دھمکیوں کو جمہوریت کے خلاف خطرہ قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ”یہ فیصلہ سیاسی نہیں ہے، بلکہ تین آزاد اور غیر جانبدار ججوں کی قانونی رائے پر مبنی ہے۔ ججوں کے خلاف دھمکیاں جمہوریت میں بالکل ناقابل قبول ہیں۔“

لیکن بہت سے لوگوں کو واضح نظر آ رہا ہے کہ یہ مقدمہ بالکل بھی ”آزاد اور غیر جانبدار“ نہیں تھا، اور ججوں کے خلاف عوامی غصہ اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔

بائیں بازو کی بزدلی

فرانسیسی سیاست دانوں کا ردعمل پہلے سے ہی معلوم تھا۔ وزیراعظم فرانسوا بیرو (François Bayrou) نے منگل کے روز قومی اسمبلی میں کہا کہ یہ بات جھوٹ پر مبنی ہے کہ عدلیہ جمہوریت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

لیکن، شاید شرمندگی کی وجہ سے، اس نے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ”ایک شہری کے طور پر“ اسے اس بات پر تحفظات ہیں کہ کیا اپیلوں کے فیصلے سے پہلے ہی کسی کو انتخابی دوڑ سے باہر کر دینا مناسب ہے۔ اس نے مزید کہا کہ ”یہ فیصلہ اسے پریشان کر رہا ہے۔“

اس کے ان جملوں پر سوشلسٹ پارٹی کے سیکرٹری اول اولیور فیور نے سخت ردعمل دیا اور عدلیہ کے دفاع میں کہا:

”نظر آ رہا ہے کہ قانون کا احترام، قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی تقسیم اب حکومت کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔“

سابق ایس پی رہنما، فرانسوا اولاندے (François Hollande) نے مزید کہا کہ بیرو کے پاس ”پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ جب آپ ایک جمہوریہ میں وزیراعظم ہوتے ہیں اور قانون کے محافظ ہوتے ہیں تو آپ کو قبول کرنا چاہیے کہ عدالتیں خود مختار ہیں۔“

بیرو کے بیانات کے پیچھے واضح ذاتی مفادات ہیں، کیونکہ وہ اور اس کی جماعت ایک جعلی معاہدوں کے کیس میں ایک اور مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ استغاثہ نے پچھلے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے اور یہ مقدمہ لی پین کے مقدمے سے مشابہت رکھتا ہے۔

تاہم، چونکہ احتیاط کبھی کبھی بہادری سے بہتر ہوتی ہے، اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ زیادہ زور نہ دینا ہی بہتر ہے، چنانچہ وہ مزید کہتا ہے: ”جس قانون کے تحت ججوں نے اپنا فیصلہ دیا، وہ پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ یہ پارلیمنٹ ہی ہے جو فیصلہ کرے گی کہ اس قانون میں ترمیم ہونی چاہیے یا نہیں۔“

گرینز کی رہنما، میرین ٹونڈلیئر (Marine Tondelier) جوش و خروش کے ساتھ مذمتوں کے اس مچھلی بازار میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئی کہ لی پین ”دوسرے ملزمان کی طرح ایک ملزم ہے۔ جب ہم سب کو مثالی طرز عمل کا درس دیتے ہیں تو ہمیں اس کا آغاز خود سے کرنا چاہیے۔“

برطانیہ میں، مارننگ سٹار (1/4/25) نے اس معاملے کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے محض حقائق بیان کر دینے تک خود کو محدود رکھا:

”دائیں بازو کی رہنما کو چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جن میں سے دو سال گھر پر نظر بندی میں اور دو سال معطلی کے ہوں گے۔ جو اپیل کے فیصلے تک لاگو نہیں ہوں گے۔

محترمہ لی پین نے کہا کہ عدالت کو ان کے انتخابی امیدوار بننے کی نااہلی کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا جب تک کہ ان کے اپیل کی تمام مواقع ختم نہ ہو جاتے، اور یہ کہ ایسا کر کے عدالت نے واضح طور پر انہیں صدر منتخب ہونے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔

فرانسیسی وزیراعظم فرانسوا بیرو، جو اسی فروری میں بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے پیش کردہ عدم اعتماد کی تحریک کو نیشنل ریلی کے ووٹوں کی بدولت بچا سکے، نے بھی محترمہ لی پین کے انتخابی نااہلی کے فوری فیصلے پر تنقید کی۔

بائیں بازو کی جماعت France Unbowed نے کہا ہے کہ اس نے کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ نیشنل ریلی کو عدالتوں کے ذریعے شکست دی جائے، اور وہ اسے ’بیلٹ باکس اور سڑکوں پر‘ شکست دے گی۔

بی ایف ایم ٹی وی کے سوموار کے روز کیے گئے رائے عامہ کے جائزے میں 57 فیصد فرانسیسی عوام نے کہا کہ اس کیس میں بغیر کسی سیاسی تعصب کے انصاف کیا گیا ہے۔“

ہم نہیں جانتے کہ مذکورہ بالا پولز پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جو بات واضح ہے، وہ یہ کہ مارننگ سٹار، جو جمہوریت اور سوشلسٹ اصولوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے، نے میری لی پین کے کیس پر کوئی واضح مؤقف نہیں اپنایا۔

یہ بائیں بازو کی بزدلی اور مسلسل جمہوری حقوق کے لیے کھڑے ہونے اور سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف لڑنے میں ناکامی کی کلاسیکی مثال ہے۔

France Unbowed کے رہنما ژاں لوک میلینشاؤ کا مؤقف تمام دیگر بائیں بازو کے رہنماؤں کی کمزوری اور سازباز کے شرمناک منظر کے مقابلے میں بہتر دکھائی دیتا ہے۔

France Unbowed کے سرکاری بیان میں کہا گیا کہ ”یہ نوٹ کیا جانا چاہیے کہ جن حقائق کو درست تسلیم کر لیا گیا ہے انتہائی سنگین ہیں اور طویل عرصے سے لگائے جانے والے پارٹی کے نعرے ‘heads high, hands clean’ کے مکمل خلاف ہیں۔“

بیان میں مزید کہا گیا: ”ہم اس عدالتی فیصلے کو اہم سمجھتے ہیں، اگرچہ ہم اصولی طور پر اس بات کو مسترد کرتے ہیں کہ کسی کو اپیل کا موقع نہ دیا جائے۔ عمومی حالات میں، France Unbowed کبھی بھی کسی عدالت کو استعمال کر کے Reassemblement National سے جان چھڑانے کے حق میں نہیں رہی۔“

میلینشاؤ نے اس بات پر زور دیا کہ: ”کسی سیاست دان کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ عوام کو کرنا چاہیے۔“ ایک حد تک تو ٹھیک ہے، مگر یہ اب بھی جمہوریت مخالفت چالبازی کی اس کھلی مذمت سے کہیں کمزور ہے جو کہ ایک ایسے شخص سے متوقع ہوتی ہے جو بائیں بازو کی قیادت کا دعویدار ہو۔

لبرل سرمایہ دارانہ اسٹیبلشمنٹ کی غیر جمہوری چالوں کے خلاف مزاحمت کرنے سے انکار اور اس سے بھی بدتر قانونی نظام کی ساکھ پر بھروسہ کرنے کے وہم کو تقویت دے کر، اصلاح پسند رہنما حکمران طبقے کو ایسی تلوار پیش کر رہے ہیں جو کل ان کے اپنے سینے پر ہی وار کرے گی۔

اس نکتے کو یانِس واروفاکس نے پرزور انداز میں یوں بیان کیا:

”رومانیہ کا کیس ایک مشق تھی۔ اب وہ لی پین پر آ گئے ہیں۔ کل وہ ژاں لوک میلینشاؤ کو نشانہ بنائیں گے۔“

یہی اس معاملے کا بنیادی نکتہ ہے۔

کس طرح’جمہوریت پسند‘ جمہوریت کو دفن کر رہے ہیں

فرانس میں جاری صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا: ”یہ ایک بہت بڑا معاملہ ہے۔“

اس نے لی پین پر پابندی اور اپنے خلاف دائر قانونی مقدمات کے درمیان موازنہ کیا، جن میں سے زیادہ تر اس کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد ختم کر دیے گئے تھے۔ اس نے کہا: ”یہ ہمارے ملک جیسا لگتا ہے۔ بالکل ہمارے ملک جیسا۔“

اس نے واضح طور پر اس کیس کا تقابل اس مہم کے ساتھ کیا جو اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا نے اس صدارتی انتخابات میں کھڑے ہونے سے روکنے کے لیے چلائی۔ عدالتوں کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تاکہ اسے جیل بھیجا جا سکے اور اس طرح اس کو الیکشن لڑنے سے روکا جا سکے۔

میڈیا نے چیخ چیخ کر یہ پروپیگنڈہ کیا کہ امریکی عوام کبھی بھی صدارتی انتخابات میں کسی ’سزا یافتہ مجرم‘ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ لیکن ان انتخابات کے نتائج نے واضح طور پر ثابت کر دیا کہ لاکھوں لوگ اب اس بکاؤ میڈیا پر یقین نہیں رکھتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے شاندار فتح حاصل کی۔

یورپ میں اسی قسم کے کسی واقعے کے دوبارہ ہونے کے خوف سے، رومانیہ میں ایک غیر روایتی امیدوار کی جیت کو روکنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ اس کا طریقہ نہایت سادہ تھا: اس انتخاب کو ہی منسوخ کر دیا گیا جو وہ پہلے ہی جیت چکا تھا۔ یہ بے مثال کاروائی آئینی عدالت کے ذریعے انجام دی گئی، جس نے رومانیہ کی انٹیلیجنس کی کمزور بنیادوں پر قائم شبہات اور اس کے پڑوسی ممالک کے دباؤ پر یہ فیصلہ کیا۔

پاپولسٹ سیاستدان کیلن جارجیسکو (Calin Georgescu)، جو گمنامی سے یکدم باہر آیا اور پچھلے سال کے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیاب ہوا تھا، کو بخارسٹ میں ٹریفک میں اس وقت روکا گیا، جب وہ مئی میں ہونے والے نئے انتخابات کے لیے بطور امیدوار نامزدگی کروانے جا رہا تھا۔ پراسیکیوشن کے مطابق، اس پر ”آئینی ضابطوں کے خلاف اقدامات پر اکسانے“ کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا۔

اسے مئی کے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے، حالانکہ وہ ان انتخابات کا سب سے مضبوط امیدوار تھا اور 40 فیصد ووٹ حاصل کر چکا تھا۔

اس اقدام کو ”جمہوریت کے تحفظ“ کے لیے انتہائی ضروری اقدام کے طور پر پیش کیا گیا!

اسی طرح کے واقعات ترکی میں بھی رونما ہو چکے ہیں، جہاں دسیوں ہزار مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے تاکہ ملک کے صدر رجب طیب اردگان کے مرکزی سیاسی حریف کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر سکیں۔

استنبول کا میئر، اکرم امام اوغلو، 2028ء کے صدارتی انتخابات میں جمہوریت ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے امیدوار کے طور پر منتخب ہونے والا تھا، لیکن ووٹنگ سے کچھ ہی گھنٹے قبل انہیں باضابطہ طور پر گرفتار کر کے بدعنوانی کے الزامات میں جیل بھیج دیا گیا۔

امام اوغلو نے ان الزامات کو سیاسی انتقام قرار دیا۔ اس نے X پر ریمانڈ سے پہلے پر لکھا: ”میں کبھی نہیں جھکنے والا“۔

ترک حکومت کے اس اقدام کی یورپی میڈیا اور دیگر ممالک میں خوب مذمت کی گئی۔ لیکن وہی ”لبرل“ میڈیا رومانیہ کے واقعات پر خاموش رہا اور مارین لی پین کے خلاف کیے گئے اقدامات پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی۔

حقیقت یہ ہے کہ حکمران بورژوازی کی لبرل اشرافیہ کا موقف یہ ہے: ہم انتخابات کی حمایت کرتے ہیں، لیکن صرف اسی صورت میں جب منتخب ہونے والا امیدوار ہمارا ہو!

عوام میں بڑھتا ہوا غصہ

حالیہ دہائیوں میں، محنت کش طبقے کو شدید معاشی حملوں، بنیادی حقوق کی پامالی اور آزادیوں کی سلبی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مزدور یونینز پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ہڑتال کرنے کے حق کو محدود کر دیا گیا ہے۔ عوامی مقامات پر احتجاج کا حق پولیس کے جبر کی زد میں ہے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت کی حقیقت روز بروز ایک دھوکے اور فریب کے طور پر بے نقاب ہو رہی ہے۔ لیکن اب تک یہ امید باقی تھی کہ پرامن جمہوری انداز میں انتخابات کے ذریعے اس نظام کو بدلا جا سکتا ہے۔

مگر اب یہ حق بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ جو کچھ رومانیہ، ترکی، امریکہ اور اب فرانس میں ہو رہا ہے، وہ مزدور تحریک کے لیے ایک واضح تنبیہہ ہے۔

اگر ہم یہ مان لیں کہ حکمران اشرافیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ کون انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے اور کون نہیں، تو آزادانہ انتخابات کا پورا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے۔

نام نہاد لبرل میڈیا کی ان چالبازیوں پر مکمل خاموشی (جو یقینا ختم ہو چکی ہوتی اگر یہ سب روس میں ہو رہا ہوتا) سے یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ اس کے لیے جمہوریت کسی مقدس اصول کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ اپنے مقاصد کے حصول کا محض ایک ذریعہ ہے۔

یہ جھوٹ کا تانہ بانہ اس حقیقت کو چھپانے کے لیے بُنا جاتا ہے کہ سماج چند سرمایہ داروں، بینکاروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں ہے، جبکہ پارلیمنٹ اور عدالتیں ان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔

لیکن یہ فریب صرف اسی وقت تک کارگر ہے جب تک عوام اس پر یقین رکھتے ہیں۔ تمام ملکوں میں پھیلا ہوا عمومی غصہ، مایوسی اور عدم اطمینان، سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے اور ناقابلِ حل بحران کا عکاس ہے۔

شدید تر ہوتی طبقاتی کشمکش

یہ عوامی غصہ سیاسی میدان میں دائیں اور بائیں بازو کی جانب شدید جھکاؤ کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ حکمران طبقے کے لیے خوفناک بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسٹیٹس کو کی سیاست پاش پاش ہو رہی ہے۔

اور بائیں اور دائیں بازو کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج درحقیقت طبقاتی تضادات کی شدت کی عکاسی کرتی ہے یعنی ان امیر اور طاقتور طبقات کے خلاف نفرت، جو ہماری زندگیاں کنٹرول کرتے ہیں اور ہر فیصلہ اپنے مفاد میں کرتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے خلاف یہ نفرت مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کر سکتی ہے۔ اگر حقیقی بایاں بازو موجود ہوتا، جو مزدور طبقے کے مفادات کا بھرپور دفاع کرتا اور سرمائے کی طاقت کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہوتا، تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتا تھا۔

لیکن چونکہ وہ تمام بڑی پارٹیاں جو بائیں بازو کا دعویٰ کرتی ہیں اپنے حامیوں کو مایوس کر چکی ہیں، اس لیے راستہ ناگزیر طور پر ڈونلڈ ٹرمپ اور مارین کی پین جیسے ہر قسم کے موقع پرستوں اور شعبدہ بازوں کے لیے کھل چکا ہے۔

لبرل اسٹیبلشمنٹ اس بڑھتی ہوئی خلیج سے مستقل خوفزدہ ہے۔ وہ اپنی بکھرتی ہوئی طاقت کو سنبھالنے کے لیے ہر ممکن حربہ آزما رہے ہیں، لیکن ان کی یہ تمام کوششیں بے سود ثابت ہوں گی۔

سیاسی پنڈولم مسلسل شدت کے ساتھ دائیں اور بائیں جھکتا رہے گا۔ ایک کے بعد دوسرا سیاسی رہنما آزمائش سے گزارا جائے گا اور مسترد کر دیا جائے گا۔ ہم برطانیہ میں کیئر سٹارمر کے ساتھ یہی صورتحال دیکھ رہے ہیں، جہاں اس کی حمایت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔

لیکن کسی بھی چالاکی، سازش، قانونی داؤ پیچ یا دھوکہ دہی سے اس تاریخی عمل کو روکا نہیں جا سکتا، جو اُن قوتوں کے ذریعے پروان چڑھ رہا ہے جو کسی عدالت، فوج یا پولیس سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔

لینن کہا کرتا تھا: زندگی سکھاتی ہے۔اپنے تجربات سے مزدور سیکھیں گے۔ یہ کوئی آسان یا مختصر سفر نہیں ہو گا۔ اس میں کئی اتار چڑھاؤ آئیں گے، کئی شکستیں اور دھچکے لگیں گے۔ لیکن مزدور ان سے سیکھیں گے اور آخرکار درست نتائج تک پہنچیں گے۔

آخر کار، جب محنت کش طبقہ منظم ہو کر سوشلسٹ انقلاب کے پرچم تلے متحرک ہو گا، تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے شکست نہیں دے سکے گی۔

Comments are closed.