|تحریر: آرٹورو روڈریگویز، ترجمہ: انعم خان|
ایک ہفتہ قبل کیٹالونیا اور ہسپانوی معاشرہ بارسلونا اور کیمبرلز کے شہروں میں ہونے والے دو دہشت گردی کے حملوں کے ہاتھوں لرز اٹھا۔ رجعتی قوتوں نے فوری طور پر موقع سے فائدے اٹھاتے ہوئے ملک کے اند ر خوف پھیلانے اور تقسیم کرنے کے لئے نسل پرستانہ زہر گھولنا شروع کر دیا اور ان واقعات کو ملک کے اندر جابرانہ اقدامات بڑھانے اور ملک سے باہر اپنی سامراجی مداخلتوں کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
To read this article in English, click here
سب سے غور طلب بات، دائیں بازو کے مبصرین نے ان حملوں کو کیٹالونیا کے حق خود ارادیت اور یکم اکتوبر کو ہونے والے ریفرنڈم کے خلاف استعمال کرنے کی کوششیں کیں۔ انہوں نے کیٹالونیا کی قومی حکومت اور اس کی خود مختار پولیس کے خلاف وحشیانہ حملے کیے۔ انہوں نے اس حادثے کو بائیں بازو کی پارٹی پوڈیموس، بارسلونا کی شہری کونسل میں موجود اس کے اتحادیوں اوراس کے بائیں بازو کے مئیر اداکلاو کے خلاف بھی استعمال کیا، جن پر دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں ٹھوس اقدامات نہ کرنے کے الزامات لگائے گئے۔
لیکن یہ سب باولاپن 26 اگست کو ہفتہ کے دن اس وقت اپنے الٹ میں بدل گیا جب بارسلونا میں ریاستی پشت پناہی میں ایک بہت بڑے عوامی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا، جس میں پانچ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ اس کا مقصد ہسپانوی حکومت کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا اور یہ موقع تھا کہ کیٹالونیا میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کیا جائے۔ نہ صرف راخوئے اور اس کی پوری کابینہ بلکہ خود بادشاہ فلیپ چہارم نے بھی مظاہرے میں شرکت کی، پہلی بار کسی ہسپانوی بادشاہ نے عوامی مظاہرے میں شرکت کی۔ ہسپانوی بورژوا میڈیا نے اس مظاہرے کے گرد بہت جوش و جذبہ اور امیدیں وابستہ کردیں تھیں۔ لیکن معاملات کا رخ متوقع نتائج کے انتہائی متضاد چلا گیا۔ پہلے تو ہسپانوی حکومت کو بائیں بازو کی پاپولر یونٹی لسٹ (CUP) کے دباؤ میں آکر اداکلاو کے کیے گئے فیصلے کے ہاتھوں رسوا ہونا پڑا، جس میں اس نے سیاسی نمائندوں کو پہلی صفوں سے پیچھے دھکیل دیا۔ انہیں مرکزی بینر کے پیچھے دوسری قطار میں جگہ دی گئی، جس پر ’’ میں خوفزدہ نہیں ہوں!‘‘ تحریر کیا گیا تھا، بینر کو ان ورکرز نے تھاما ہوا تھا جو کہ حملے دن ایمرجنسی سہولتیں فراہم کر رہے تھے، ان میں ڈاکٹرز، نرسز،آگ بجھانے والا عملہ، پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کرنے والے، کچھ پولیس کے نمائندے بھی، ارد گرد موجود ہ علاقوں کی ایسوسی ایشنز کے کئی نمائندے اورمسلم گروہ بھی شامل تھے۔
پچھلی صفوں میں ٹھہرے بادشاہ اور PP کے سیاستدانوں کو ہزاروں احتجاج کرنے والوں کی جانب سے بہرہ کر دینے والے تضحیک آمیز فقروں اور آوازوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ریلی کے تمام دورانیے میں راخوئے اور فلیپ چہارم کو اس مسلسل اور نہ تھمنے والی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بادشاہت، ہسپانوی ریاست اور اسی کے تسلسل میں ہسپانوی اسٹیبلشمنٹ اور فرانکو کے بعد آنے والوں کے لیے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے ہتک آمیز رویے کا اظہار تھا۔ دائیں بازو کا میڈیا ان آوازوں کو نہ چھپا سکا اور نہ ہی یہ کہہ سکا کہ یہ عمل تھوڑے بہت شریر لوگوں کی حرکت ہے۔ بلکہ اسے شرمندگی کے ساتھ تسلیم کرنا پڑا کہ مظاہرین کی اکثریت صدر اور بادشاہ کی موجودگی کی مخالف تھی۔
اس کے برعکس اداکلاو، پوڈیموس کے لیڈر پابلو اگلیسیئس، سنٹر لیفٹ کی قوم پرست پارٹی (ERC(Catalan Republican Left کو گرمجوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا۔ کیٹالونیا کے صدر کارلس پگڈیمونٹ کو بھی سراہا گیا، حالانکہ وہ ایک پاگل اور دائیں بازو کا جذباتی شخص ہے، اس سے مجمع کے متضاد جذبات کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہر حال، بائیں بازو کے کیٹالونیا کے عام لوگوں کے لیے ہسپانوی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس پر ہونے والے عقل سے ماورا الزامات کی بوچھاڑ میں پگڈیمونٹ کے رجعتی کردار کو بھلا دینا قدرے آسان ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس نے بڑی چالاکی سے بائیں بازو کی قوم پرست ERC کی حمایت حاصل کی ہے ۔
راخوئے اور بادشاہ کی نہ صرف تضحیک کی گئی بلکہ وہ علیحدگی پسند کیٹالونیا کے جھنڈوں میں گھرے ہوئے تھے، اور ہسپانوی ریپبلکن کے کچھ جھنڈوں کے علاوہ بڑی تعداد میں انتہائی ریڈیکل بینروں کے ایک سمندر تھا جن پر امن، آزادی کے حق میں اور نسل پرستی اور اسلامو فوبیا کے خلاف اور سب سے اہم ہسپانوی سرمایہ داری اور ذاتی طور پر بادشاہ کے سعودی بادشاہت کے ساتھ تعلقات کی مذمت کی گئی تھی۔ سب سے واضح بینر پر لکھا تھا کہ ’’فلیپ! لوگ امن چاہتے ہیں، اسلحے کے سودے مت کرو!‘‘۔ بادشاہ سے کچھ میٹر پیچھے ایک بہت بڑا بینر ہجوم کو دو حصوں میں تقسیم کئے ہوئے تھا، جس پر ہسپانوی بادشاہ کی سعودی شیخوں، بش، بلیئر اور ازنر(سابق ہسپانوی وزیر اعظم جس 2003ء کی عراق جنگ کو معاونت فراہم کی) کے ہمراہ تصاویر آویزاں تھیں، بینر پر لکھا تھا کہ ’’ تمہاری پالیسیاں، ہماری موت!‘‘ ایسا ہی ایک بینر ہیلی کاپٹرز کو دکھانے کے لیے بھی آویزاں کیا گیا تھا۔ ایسے کئی پلے کارڈز بنائے گئے تھے جن میں بارسلونا حملوں کو براہ راست عراق اور افغانستان کی جنگوں سے جوڑا گیا تھا۔ ہسپانوی جھنڈے اٹھائے شاہی احتجاجیوں کے ایک چھوٹے گروپ کو پولیس نے اپنی حراست میں فرار کروایا کیونکہ مظاہرین کی جانب انہیں شدید ہتک کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
یہ انتہائی جدید نعرے ہیں جو کہ دہشت گردی کو مشرق وسطیٰ میں مغربی طاقتوں کی سامراجی پالیسیوں کے ساتھ جوڑ رہے ہیں اور بنیاد پرست آمریت سعودی عرب کے ساتھ جسے مغرب سہارا دیتا ہے۔ ہسپانوی اسٹیبلشمنٹ کی شکست عیاں ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ دائیں بازو کو سرکاری نعرہ ’میں خوفزدہ نہیں ہوں‘ بھی ہضم نہیں ہو رہا کیونکہ وہ ان حملوں کے نتیجے میں خوف اور بے عملی پھیلانا چاہتے تھے۔ رجعتی اخبارEl Espanol اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’مظاہرے کا بنیادی نعرہ ہی قابل اعتراض ہے کیونکہ جو کچھ بارسلونا میں ہوا اور یورپ کے دیگر شہروں میں ہوا، جہادیوں کے ان بے ترتیب اور بلا تفریق حملوں کے آگے کا معمول ’خوفزدہ ہونا‘ بنتا ہے‘‘ 26.08.2017
یہ بالکل واضح ہوچکا ہے کہ دائیاں بازو ان حملوں کا اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکا جتنا کہ اس نے چاہا تھا۔ تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود لاکھوں لوگ جنگ، نسل پرستی اور بادشاہت مخالف نعروں کے گرد جمع ہوئے۔ ان تمام واقعات میں ریڈیکل آزادی کے خواہاں، کیٹالونیا کے بائیں بازو اور خاص کر CUP کا نام لینا باعث فخر ہے۔ پہلے دن سے ہی انہوں نے ہسپانوی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی بھی گٹھ جوڑ میں جانے سے انکار کیا اور بڑی بہادری سے اسلامی بنیاد پرستی کو سامراجی پالیسیوں اور اس کے غیر ملکی حواریوں کا شاخسانہ قرار دیا۔ مظاہرے کے دن انہوں نے سول سوسائٹی، بائیں بازو اور علاقائی ایسوسی ایشنز کے ہمراہ ایک الگ مظاہرے کا اہتمام کیا تاکہ سرکاری مظاہرے میں موجود راخوئے اور بادشاہ کی موجودگی کی مخالفت کی جا سکے۔ یہ پوڈیموس اور اداکلاو کی پوزیشنز کے برخلاف ہے۔ راخوئے کی جنگی جنون پر مبنی پالیسیوں اور اس کے سعودی بادشاہت کے ساتھ موجود قریبی ذاتی تعلقات پر ان کی درست تنقید کے باوجود بھی وہ قومی یکجہتی اور مظاہرے کو ’’غیر سیاسی‘‘ رکھنے کی کاوشوں کا شکار ہوگئے (ایسے جیسے راخوئے اور بادشاہ کی موجودگی تو اسے واضح طور پر سیاسی بنانے کی کوئی کاوش تو تھی ہی نہیں!)۔ انہیں CUP سے کچھ سیکھ لینا چاہئے!
بہر حال، ہم اپنے CUP کے کامریڈز کی جرات کو سلام پیش کرتے ہیں، لیکن ہمیں یہ بھی کہنا چاہیے کہ ان کی ہسپانوی سامراج پرتنقید کی درست پالیسی، کیٹالونیا میں قوم پرست دائیں بازو کی مخلوط حکومت کی حمایت سے میل نہیں کھاتی۔ رجعتی پارٹی PDeCAT (the Democratic European Party of Catalonia)، جو مخلوط حکومت کی قائد ہے، اس نے میڈرڈ کی پارلیمنٹ میں تاریخی طور پرہسپانوی سامراج کے اتحادی کا کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے 2011ء میں لیبیا پر بمباری کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا اور پہلے بھی افغانستان آپریشن کے کئی مرحلوں کی حمایت کی تھی۔ حال ہی میں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف ہسپانوی معاہدے کی اصولی حمایت کی ہے جس کی سرپرستی PP کر رہی ہے۔ یہ پارٹی کیٹالونیا کی بورژوازی کے مفادات کی حامی ہے جو کہ کسی طور بھی اپنی مخالف ہسپانوی بورژوازی سے کم لٹیری نہیں ہے، اس کے بیرونی اتحادی کسی طور بھی کم گھناؤنے نہیں جن کے خاص کر قطر سے قریبی تعلقات ہیں۔ جنگی جنونیوں، سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف ایک مسلسل جنگ، جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ کو برباد کر دیا، جنہوں نے یورپ کے شہروں کے اندرونی بھولے بسرے شہروں کو جہادیوں کی پھلنے پھولنے کی آماجگاہیں بنا کر رکھ دیا، اس کی خاطر ہسپانوی اور کیٹالونیا دونوں کے حکمران طبقات کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی، ایک ایسی جدوجہد جو کہ ہسپانیہ اور کیٹالونیا دونوں کے مزدوروں اور مظلوموں کو جوڑ کر جیتی جا سکتی ہے۔