|رپورٹ: گل زادہ صافی|
کامونکے ٹیکسٹائل مل میں کام کے دوران 40سالہ مزدور مشین میں جسم آنے سے پھنس کر ہلاک ہوگیا۔ مزدور چیخ وپکار کرتا رہا لیکن کوئی مدد کو نہیں آیا۔ فیصل آباد کا چالیس سالہ محمد عاصم عرصہ دو سال سے تتلے روڈ نالہ سیم کے قریب شیخ نوید احمد کی ٹیکسٹائل مل میں 15 ہزار روپے ماہوار پر کام کرتا تھا۔ ہفتہ 24 جون سہ پہر کے وقت وہ دھاگہ مشین پر کھڑا کام کررہاتھا کہ اچانک اس کا ہاتھ مشین میں آ گیا۔ مشین نے اْسے اپنی طرف کھینچ لیا جس کے نتیجہ میں محمد عاصم کا جسم مشین میں دھنستا چلاگیا۔ لیکن فیکٹری میں سیفٹی کا کوئی انتظام سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ وہ چیخ وپکار کرتا رہا لیکن کوئی اس کی جان کو بچانے کے لئے نہ آیا۔ فیکٹری میں کام کرنے والے پچاس کے قریب دیگر مزدورں میں سے کوئی بھی سوشل سیکیورٹی میں رجسٹر نہیں اور نہ ہی محنت کشوں کوحفاظت کیلئے ضروری سامان بھی دستیاب ہے۔
متوفی دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کا باپ اور گھر کا واحد کفیل تھا۔ عاصم نے اسی روز شام کو عید پر بچوں کو نئے کپڑے اور دیگر سامان خرید کر دینے کے لے فیصل آباد گھر جانا تھا لیکن اس کی بجائے جب نعش گھر پہنچی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔ مالکان چند ہزار روپے کفن دفن کے اسکی بیوہ کو دے کر بری الذمہ ہوگئے۔
یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے۔ آئے روز ملک بھر کی فیکٹریوں اور ملوں میں کئی مزدور حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے باعث جان کی بازی ہار دیتے ہیں مگر ایسے واقعات مل مالکان اپنے پیسوں کے بل بوتے پر کبھی میڈیا پر نہیں آنے دیتے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان فیکٹریوں اور ملوں میں سب اچھا ہے۔ درحقیقت یہ صنعتیں لاکھوں مزدوروں کا قبرستان ہیں اور ان مشینوں کو انسانی خون ہی رواں رکھتا ہے۔ ریاستی ادارے بیچارے کیا کرسکتے ہیں۔ وہ خاموشی سے اپنے دفاتر میں بیٹھے منتھلیاں وصول کررہے ہیں۔