|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: ولید خان|
اس وقت عمومی صورتحال عالمی تعلقات میں دیو ہیکل انتشار سے بھرپور ہے۔ یہ صورتحال دنیا کے سب سے طاقتور لیکن نسبتی طور پر انحطاط پذیر امریکہ اور دیگر کمزور لیکن ابھرتی قوتوں، جن میں نوجوان اور توانا چین سر فہرست ہے، کے درمیان عالمی تسلط کی جنگ کا نتیجہ ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
امریکی سامراج کے نسبتی انحطاط اور چین کے ابھار نے خاص طور پر ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں دیگر ممالک دونوں کے آپسی ٹکراؤ کا فائدہ اٹھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس طرح انہیں کم از کم علاقائی سطح پر اپنے مفادات کے حصول کے لیے کچھ آزادی مل رہی ہے۔
اس وقت ساری دنیا متحارب سامراجی قوتوں کی نسبتی طاقت میں دیو ہیکل تبدیلیاں دیکھ رہی ہے۔ جس طرح زمین کی ٹیکٹونک پلیٹیں اپنی حرکیات کے نتیجے میں ہولناک زلزلوں کو جنم دیتی ہیں، اسی طرح یہ تبدیلیاں بھی ہر قسم کے عالمی دھماکوں کا موجب بن رہی ہیں۔
سامراجی قوتیں عالمی بٹوارے کی از سر نو تشکیل کے لیے نبرد آزماء ہیں
لینن نے 1916ء میں اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”سامراجیت، سرمایہ داری کی حتمی شکل“ میں سامراجیت کی تشریح کرتے ہوئے اسے جامد اور ساکت بیان کرنے کے بجائے مختلف سامراجی قوتوں کے درمیان زندہ کشمکش کا نتیجہ قرار دیا تھا۔)اس کے متعلق لینن کے بنیادی نظریات جاننے اور آج ان کی مطابق کے بارے میں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں)
”سرمایہ داری کے تحت حلقہ اثر و رسوخ، مفادات، کالونیوں وغیرہ کے بٹوارے کی ایک ہی بنیاد ہے کہ شرکاء کی عمومی معاشی، فنانشل اور عسکری قوت وغیرہ کیا ہے۔ اور اس بٹوارے میں ان شرکاء کی قوت مساوی طور پر تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ سرمایہ داری کے تحت مختلف اہداف، ٹرسٹوں، صنعت کے سیکٹروں یا ممالک کی مساوی ترقی ناممکن ہے۔ پُر امن اتحاد جنگوں کی راہیں ہموار کرتے ہیں اور یہ خود جنگوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، (یعنی) ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پُر امن اور جارحانہ جدوجہد کا مسلسل عمل عالمی معیشت اور عالمی سیاست میں موجود سامراجی تعلقات اور بندھنوں کی بنیاد پر جاری رہتا ہے۔“
آج یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے؛ مختلف سامراجی قوتیں عالمی بٹوارے اور از سر نو بٹوارے کی کشمکش میں نبرد آزماء ہیں۔ یوکرین جنگ امریکی اور NATO اتحاد کے لیے شرمناک شکست واضح کر رہی ہے اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتی جنگیں پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے درپے ہیں۔ یہ تمام جنگیں اسی کشمکش کا اظہار ہیں۔ لیکن عالمی تعلقات میں انتشار کا یہ واحد ذریعہ نہیں ہیں۔
امریکی سامراج کا نسبتی انحطاط
جب ہم امریکی سامراج کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نسبتی انحطاط کی بات کر رہے ہیں یعنی یہ انحطاط اس کی سابقہ قوت اور متحارب سامراجیوں کی موجودہ صورتحال سے موازنہ میں ہے۔ تمام موازنوں اور اشاریوں میں امریکہ آج بھی پوری دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور اور رجعتی قوت ہے۔
1985ء میں عالمی GDP (کل مجموعی پیداوار) میں امریکہ کا 34.6 فیصد حصہ تھا۔ آج یہ کم ہو کر 26.3 فیصد ہو چکا ہے لیکن پھر بھی یہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت، سب سے زیادہ پیداواری قوت اور ایک ایسی طاقت ہے جہاں فنانس سرمایے کا اظہار سب سے زیادہ مربوط اور دیوہیکل ہے۔
اسی عرصے میں عالمی GDP میں چین کا حصہ 2.5 فیصد سے بڑھ کر 16.9 فیصد ہو چکا ہے۔ جاپان 1995ء میں 17.8 فیصد کے ساتھ تاریخی سطح پر پہنچ چکا تھا لیکن اب اس کا حصہ محض 3.8 فیصد رہ گیا ہے۔ اس دوران یورپی یونین 1992ء میں اپنی بلند ترین سطح 28.8 فیصد تک پہنچ چکی تھی جو اب کم ہو کر 17.3 فیصد رہ چکی ہے۔ اس سے یورپی سامراجی قوتوں کے مسلسل انحطاط کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے (GDP پر IMF کی موجوہ قیمتوں پر تحقیق)۔
امریکہ کا آج بھی فنانس منڈیوں کے ذریعے عالمی معیشت پر تسلط قائم ہے۔ پوری دنیا کے 58 فیصد غیر ملکی ذخائر آج بھی امریکی ڈالروں میں ہیں (جبکہ چینی رین میبی صرف 2 فیصد ہے) اگرچہ 2001ء میں یہ 73 فیصد تھا۔ دنیا کے 58 فیصد برآمدی لین دین میں ڈالر استعمال ہوتا ہے۔ کل FDI (Foreign Direct Investment) (سرمائے کی برآمد کی شکل) میں امریکہ کا 454 ٹریلین ڈالر کے ساتھ سب سے بڑا حصہ ہے جبکہ چین (اور ہانگ کانگ) کا 287 ٹریلین ڈالر حصہ ہے۔
ایک ملک کا معاشی غلبہ اسے عالمی قوت بناتا ہے لیکن اس کی حفاظت عسکری قوت کرتی ہے۔ امریکی عسکری اخراجات پوری دنیا کا 40 فیصد ہیں جبکہ چین 12 فیصد اور روس 4.5 فیصد خرچ کرتا ہے۔ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ عسکری اخراجات کرنے والے دس ممالک کے مساوی اکیلا عسکری اخراجات کرتا ہے۔
موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل کی راہ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ دنیا کی واحد عالمی قوت بن گیا۔ 1991ء میں اقوام متحدہ کی چھتری تلے عراق پر فوج کشی کی گئی تھی جس میں روس نے حق میں ووٹ دیا تھا اور چین نے اجتناب کیا تھا۔ امریکی سامراج کے تسلط کا کوئی مقابل موجود نہیں تھا۔ آج ایسا سوچنا بھی محال ہے۔
امریکی تسلط اپنی آخری حدود کو پہنچ چکا تھا۔ پندرہ سال امریکی سامراج عراق اور افغانستان میں ناقابل فتح جنگوں میں پھنسا رہا جس کی اخراجات اور انسانی جانوں کی صورت میں دیو ہیکل قیمت چکانی پڑی۔ 2021ء تک افغانستان سے شرمناک پسپائی ناگزیر ہو چکی تھی۔
ان طویل اور مہنگی جنگوں نے امریکی عوام میں بیرونی عسکری مہم جوئیوں کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دی ہے اور امریکی حکمران طبقہ بیرون ملک فوجیوں کو بھیجنے سے شدید بیری ہو گیا ہے۔ لیکن امریکی سامراج نے تجربے سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ طاقتوں کے نئے توازن کو سمجھنے سے انکار اور اپنے تسلط کو قائم رکھنے کی کوششوں نے اسے کئی جنگوں میں ملوث کر دیا ہے جن میں فتح ناممکن ہے۔
مثلاً عراق اور افغانستان کے تجربات کے بعد براہ راست فوجی مداخلت سے اجتناب نے شامی خانہ جنگی میں امریکی مداخلت کو اپاہج کر دیا تھا۔ 2012ء میں اوبامہ نے اعلان کیا تھا کہ اسد کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ایک ”سرخ لکیر“ ہو گا اور اس نے براہ راست مداخلت کی دھمکی دی تھی۔ لیکن کیونکہ وہ فیصلہ کن فوجی مداخلت کے ذریعے اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کے قابل نہیں تھا اس لیے روس اس جنگ میں مرکزی طاقت بن گیا۔
امریکہ نے شامی خانہ جنگی میں مداخلت کی لیکن یہ کام عراق اور افغانستان میں براہ راست اپنی افواج کے برعکس پراکیسوں کے ذریعے کیا گیا۔ دیگر علاقائی قوتوں نے بھی مداخلت کی جن میں سے ہر ایک کو اپنے مفادات کے تحفظ اور شام میں حصہ بٹورنے کی فکر تھی (سعودی عرب، قطر، عرب امارات، ایران، ترکی)۔ انہوں نے یہ کام مختلف اسلامی انتہاء پسندوں کے گروہوں کو مسلح کرنے اور ان کی فنڈنگ کے ذریعے کیا۔
روسی سامراج نے اپنے اتحادی اسد اور بحیرہئ روم میں اپنے واحد بحری اڈے کا دفاع کیا۔ اس نے فوجی، فضائی دفاع تنصیبات اور جنگی ہوائی جہاز بھیجے۔ اس طرح ترکی (ایک NATO ممبر) ایک معاہدے پر مجبور ہو گیا اور روس، امریکی اور دیگر علاقائی طاقتوں کی حمایت یافتہ اسلامی انتہاء پسند تنظیموں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ صورتحال دس سال پہلے مشرق وسطیٰ جیسے اہم تزویراتی علاقے میں سوچنا بھی محال تھی۔
اس سب کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں نئی طاقتوں کا توازن ابھرا۔ ایران مضبوط ہوا اور اس کے کئی علاقائی اتحادی بھی توانا ہو گئے؛ حماس، حزب اللہ، عراق میں شیعہ ملیشیاء اور یمن میں حوثی۔ ترکی، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو نئی صورتحال کو قبول کرتے ہوئے نئی حکمت عملی اپنانی پڑی۔ شام کو دوبارہ عرب لیگ میں شامل کر لیا گیا۔ چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک معاہدہ کروا کر یمن میں جنگ بندی کروا دی۔ چین دنیا میں تیل کا سب سے بڑا درآمدی ملک ہے اور اس وقت وہ مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا توانائی صارف بن گیا ہے۔
شام میں روسی تسلط ایک ایسے وقت میں رونما ہوا جب مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اپنے کلیدی اتحادی سعودی عرب سے تعلقات کھٹائی کا شکار ہو گئے۔ اس کی کئی بنیادی وجوہات تھیں؛ عرب انقلاب کے دوران مصر میں امریکہ اپنے اتحادی حسنی مبارک کو نہیں بچا سکا، امریکہ میں شیل تیل کی پیداوار میں تیز ترین تعمیر و ترقی ہوئی، خشوگی کے قتل کا معاملہ، توانائی کا بھوکا چین سب سے بڑا صارف بن گیا وغیرہ وغیرہ۔
سعودی عرب کو ایک زیادہ آزادانہ خارجہ پالیسی بنانی پڑی جس میں روس کے ساتھ مل کر تیل کی قیمتوں کو بلند رکھا گیا تاکہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں لگنے والی امریکی پابندیوں کا مقابلہ کیا جائے، چین کے ساتھ ایک ”وسیع تزویراتی اتحادی معاہدہ“ کیا اور ایران کے ساتھ چین کی مدد سے ایک امن معاہدہ بھی ہوا۔
7اکتوبر 2023ء کو حماس حملے سے پہلے خطے کی یہ صورتحال تھی۔ ہم مشرق وسطیٰ میں موجودہ جنگ پر آگے چل کر مزید بات کریں گے۔
چینی سامراج کا ابھار
چین ایک سرمایہ دار ملک ہونے کے ساتھ اب ایک سامراجی قوت بھی بن چکا ہے۔ عالمی اسٹیج پر تاخیر سے نمودار ہونے کے سبب اسے بنیادی طور پر اپنی طاقت معاشی طریقہ کار سے پھیلانی پڑی ہے لیکن اب وہ اپنی عسکری قوتوں کو بھی تعمیر کر رہا ہے۔ وہ کوشش کر رہا ہے کہ اپنی صنعتوں کے لیے خام مال اور توانائی کے وسائل کو کنٹرول کر سکے، اپنا سرمایہ مختلف علاقوں میں برآمد کرے، اپنی در آمدات اور بر آمدات کے لیے تجارتی راستے بنائے، ان کا دفاع کرے اور اپنی مصنوعات کے لیے منڈیاں حاصل کر سکے۔
تیس سالوں میں چین ایک بڑی عالمی قوت بن کر ابھرا ہے اور اس کا ہم نے پہلے بھی کئی مرتبہ تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ یہ سب ذرائع پیداوار میں دیو ہیکل سرمایہ کاری اور عالمی منڈیوں پر انحصار کے ذریعے ہی ممکن ہوا ہے۔ ابتداء میں اس نے اپنی دیوہیکل سستی محنت کو استعمال کرتے ہوئے عالمی دنیا میں ٹیکسٹائل اور کھلونوں جیسی بر آمدات کیں۔ اب وہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایک ترقی یافتہ معیشت بن چکا ہے جو کئی جدید چوٹی کے ٹیکنالوجی سیکٹرز میں یکتا ہو چکا ہے (الیکٹرک گاڑیاں، الیکٹرک بیٹریاں، شمسی توانائی وغیرہ) اور اس کے ساتھ سرمایہ بھی برآمد کر رہا ہے۔
اب وہ اپنی حدود کو پہنچ رہا ہے۔ چین کو اس وقت سرمایہ داری کے کلاسیکی زائد پیداوار بحران اور سرمائے کے نامیاتی مرکب کا سامنا ہے۔ اسی دوران چینی بر آمدات کو ایسے وقت میں شدید محصولات اور تحفظاتی پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب عالمی تجارت کا پھیلاؤ رک چکا ہے۔ اب سرمایہ کاری مساوی معاشی شرح نمو پیدا نہیں کر رہی اور جو کچھ بنایا جا رہا ہے اس کی عالمی منڈی میں کھپت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
چینی معیشت ابھی بھی بڑھ رہی ہے لیکن اس کی رفتار سست ہو رہی ہے۔ 1990ء کے بعد سے چینی شرح نمو 9 فیصد سالانہ رہی ہے جس میں 14 فیصد کی بلند ترین اٹھان بھی آتی رہی ہے۔ 2012ء اور 2019ء کے درمیان یہ شرح نمو چھ سے سات فیصد رہی۔ اب یہ بمشکل پانچ فیصد ہے۔
دیو ہیکل معاشی بڑھوتری پیکجز، کینیشئن اقدامات، گہری گراوٹ کو روکے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے اور اس کا ایک پہلو قرضوں میں دیو ہیکل اضافہ ہے۔
چین کا GDP اور قرضوں کا تناسب 2000ء میں 23 فیصد تھا اور 2023ء میں یہ بڑھ کر 83 فیصد ہو چکا ہے۔ یہ ابھی بھی ترقی یافتہ سرمایہ دار معیشتوں سے کم ہے لیکن بہرحال اس میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ کچھ اعداد و شمار کے مطابق کل قرضہ (ریاستی قرضہ، گھریلو، کارپوریٹ اور مقامی حکومت فنانس قرضہ جات) GDP کا 297 فیصد ہے جو یقینا ناقابل برداشت ہے۔
کچھ اثناء میں پچھلے تین سالوں میں چین کے معاشی ارتقاء کا جاپان سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ جاپان 1960ء کی دہائی میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور اس کے GDP کی شرح نمو 10 فیصد سالانہ تھی جو 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں سست روی کا شکار ہو گئی۔ پھر 1992ء میں بحران اور جمود کے ایک طویل عرصے کا آغاز ہوا جس سے کئی دیو ہیکل بڑھوتری منصوبوں کے باوجود بحالی نہیں ہو سکی۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چین کا بھی یہی مقدر ہے اور ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کئی اہم فرق بھی موجود ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ ایک مخصوص مرحلے پر پہنچ کر اب چینی سرمایہ داری کے لیے ماضی کی طرح شرح نمو حاصل کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
اس دوران چین میں ایک دیو ہیکل محنت کش طبقہ پیدا ہو چکا ہے جو ایک طویل عرصے میں معیار زندگی میں مسلسل بہتری کا عادی ہو چکا ہے۔ یہ ایک جوان اور توانا محنت کش طبقہ ہے جس پر ماضی کی شکستوں کا بوجھ نہیں ہے اور اس کے پیروں میں اصلاح پسند تنظیموں کی بیڑیاں نہیں ہیں۔ جب یہ طبقہ حرکت میں آئے گا تو دیو ہیکل دھماکے جنم لیں گے۔
روس
روس ایک زیادہ کمزور سامراجی قوت ہے۔ یہ چین سے معاشی طور پر کئی گنا چھوٹا ہے لیکن اس نے ایک طاقتور فوج اور دفاعی صنعت تیار کی ہے اور اس کے پاس سوویت یونین کی میراث دیو ہیکل جوہری اسلحہ بھی موجود ہے۔
سوویت یونین کے انہدام اور منصوبہ بند معیشت کی مکمل لوٹ مار کے بعد روسی حکمران طبقے کو غلط فہمی تھی کہ اسے عالمی اسٹیج پر برابری کی بنیاد پر قبول کر لیا جائے گا۔ انہوں نے NATO میں شمولیت کی تجویز بھی دی۔ اس کو مسترد کر دیا گیا۔ امریکہ کو دنیا پر مکمل اور آزادانہ تسلط چاہیے تھا اور اس کام میں اسے ایک کمزور اور پُر انتشار روس کی ضرورت نہیں تھی۔ اس دور کا نمائندہ یلتسن (Yeltsin) ایک مسخرہ شرابی اور امریکی سامراج کا کٹھ پتلی تھا۔
روس کی شرمناک تذلیل پہلے جرمنی اور امریکی سرپرستی میں یوگوسلاویہ کی رجعتی بندر بانٹ، روس کا روایتی حلقہ اثر اور پھر 1995ء میں سربیا کی بمباری میں واضح ہو گئی۔ اس کا اختتام اس وقت ہوا جب 1999ء میں روسی ٹینک اور NATO افواج پرستینا ائرپورٹ پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہو گئیں۔
لیکن روسی سرمایہ داری معاشی بحران سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس نے NATO کی شمال کی جانب پیش قدمی کے خلاف مزاحمت شروع کر دی جس نے 1989ء میں روسیوں سے کیے گئے تمام وعدوں کو توڑ دیا تھا۔ روسی حکمران طبقہ اور ریاستی مشینری عالمی سطح پر اپنی تذلیل اب مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے اور انہوں نے اپنا وزن دکھانا شروع کر دیا۔ اس نئے دور میں ہی پیوٹن کا جنم ہوا، ایک شاطر چالباز بوناپارٹسٹ جس نے کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہر بدمعاش حربہ استعمال کیا۔
2008ء میں اس نے جارجیا میں ایک قلیل اور مؤثر جنگ لڑی جس کے نتیجے میں اس ملک کی NATO سرپرستی میں مسلح کردہ اور تربیت یافتہ فوج تباہ و برباد ہو گئی۔ یہ پہلی انتباہی گولی تھی۔ اگلی باری شام کی تھی۔
امریکی سامراج کی نسبتی کمزوری افغانستان سے تذلیل آمیز پسپائی میں واضح ہو گئی (اگست 2021ء)۔ اس پیرائے میں روسی حکمران طبقے نے کہا ”بس! اب بہت ہو چکا!“ اور مسلسل پچیس سالہ امریکی یلغار کے بعد اپنے حلقہ رسوخ میں اپنے قومی تزویراتی مفادات کا تحفظ شروع کر دیا۔ یوکرین میں خانہ جنگی ایک ٹیسٹ کیس تھی کہ اس وقت عالمی سطح پر روسی سامراج کی نسبتی قوت کیا ہے۔
یوکرین پر فوجی یلغار روسی قومی سیکیورٹی خدشات، یوکرین کی غیر جانبداری اور NATO کی مشرق کی جانب یلغار کی روک تھام، کے حوالے سے مغربی غرور کا منطقی انجام تھی۔
امریکی سامراج کے نکتہ نظر سے یوکرین میں جنگ غیر ضروری تھی۔ مغرب نے کبھی بھی یوکرین کی NATO میں ممکنہ شمولیت کو سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ انہیں پتا تھا کہ اس کا مطلب روس سے براہ راست تصادم ہے۔ لیکن انہوں نے ڈھٹائی سے اسے سرکاری طور پر کبھی قبول نہیں کیا کیونکہ اس کا مطلب روس کے سامنے کمزوری کا اعتراف تھا۔ امریکی سامراج اور NATO دونوں کو واضح تھا کہ روسی سرمایہ داری کے قومی سیکیورٹی مفادات کے حوالے سے یہ ایک سرخ لکیر ہے۔
بعد میں اپریل 2022ء میں ترکی میں یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات کافی آگے بڑھ چکے تھے۔ ان کے نتیجے میں جنگ بندی ہو سکتی تھی جس کی بنیاد کچھ روسی مطالبات کا ماننا تھا۔ بورس جانسن کی شخصیت میں مغربی سامراج نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کیا اور زیلنسکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ معاہدے پر دستخط نہ کرے کیونکہ یوکرین کی مکمل فتح تک مکمل حمایت جاری رہے گی۔
امریکی سامراج سمجھتا تھا کہ یوکرین کو ایک جنگی مہم میں گاجر مولی کی طرح استعمال کر کے روس کو کمزور اور عالمی سطح پر اس کا کردار اپاہج کیا جا سکتا ہے۔ روس امریکی سامراج کا حریف ہے اور ایسے ملک کو امریکہ کے ایک اتحادی پر فوج کشی کی قطعی اجازت نہیں دی جا سکتی تھی۔ واشنگٹن تائیوان کے حوالے سے چین کو بھی ایک واضح پیغام دینا چاہتا تھا۔ ایک موقع پر بائیڈن اپنے ہی غرور میں دھت ہو کر یہ بھی کہتا پایا گیا کہ ماسکو میں حکومت بھی تبدیل کی جا سکتی ہے! ان کا خیال تھا کہ معاشی پابندیاں اور ایک اعصاب شکن جنگ روس کے چاروں شانے چت کر دے گی۔
آج یوکرین میں امریکہ کو ذلت آمیز شکست کا سامنا ہے۔ پابندیوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ روس عالمی طور پر تنہائی کا شکار ہونے کے برعکس اس وقت چین کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات استوار کر چکا ہے اور کئی ممالک جو کبھی امریکہ کے خاص اتحادی سمجھے جاتے تھے آج امریکی پابندیوں کی مخالفت میں روس کی مدد کر رہے ہیں؛ انڈیا، سعودی عرب، ترکی اور دیگر۔
چین اور روس اب عالمی سطح پر امریکی تسلط کے خلاف متحد ہو چکے ہیں اور ان کے گرد کئی ممالک کا جمگھٹا لگ چکا ہے۔ جب یوکرین میں امریکی شکست حقیقی معنوں میں واضح ہو جائے گی تو اس کے عالمی تعلقات پر دیو ہیکل اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر امریکی سامراج مزید کمزور ہو گا۔ اس حوالے سے سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے کہ تائیوان سے متعلق چین کیا نتائج اخذ کرے گا۔
یوکرین میں امریکی شکست ایک طاقتور پیغام بنے گی کہ اب دنیا کا طاقتور ترین سامراج ہر وقت اپنی من مانی کرنے کے قابل نہیں رہا۔ پھر روس اس جنگ سے ایک ایسی بڑی فوج کے ساتھ ابھرے گا جو جدید ترین جنگی طریقہ کار، لائحہ عمل اور تکنیک سے مسلح ہو گی۔
مشرق وسطیٰ میں جنگ
مشرق وسطیٰ میں موجودہ جنگ کو صرف عالمی صورتحال کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ امریکی سامراج مشرق وسطیٰ میں کمزور ہو چکا تھا جبکہ روس، چین اور ایران بھی مضبوط ہو چکے تھے۔ اسرائیل دیو ہیکل خطرات میں گر چکا تھا۔ 7 اکتوبر کا حملہ اسرائیلی حکمران طبقے کے لیے کاری زخم ثابت ہوا ہے۔ اس نے خطے میں مطلق قوت کی دیو مالا کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا ہے اور صیہونی ریاست پر اپنے یہودی شہریوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی صلاحیت پر سنجیدہ سوالات اٹھ چکے ہیں۔ یہ صلاحیت اسرائیلی ریاست کی عوام میں حمایت جاری رکھنے کا سب سے اہم ستون تھی۔
اس واقعے نے واضح طور پر اوسلو معاہدے کے کھوکھلے پن کو بھی واضح کر دیا ہے جسے سٹالنزم کے انہدام کے بعد اس وقت منظور کیا گیا تھا جب ایسا لگتا تھا کہ دنیا کی ہر جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ صیہونی حکمران طبقہ کبھی بھی فلسطینیوں کو ایک فعال وطن دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ ان کے لیے PA (Palestinian National Authority) محض فلسطینیوں پر مسلط کردہ ایک کرائے کی پولیس تھی۔ اس صورتحال نے فتح اور PA کی ساکھ برباد کر کے رکھ دی ہے جنہیں درست طور پر اسرائیل کی کٹھ پتلیاں سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کی خاموش اور سرگرم حمایت کے ساتھ حماس کا ابھار ہوا جسے فلسطینی قومی حقوق کی جدوجہد کا واحد امین سمجھا جاتا ہے۔
2020ء میں دستخط ہونے والے ابراہم معاہدوں (Abraham Accords) کا مقصد خطے میں اسرائیل کی حیثیت کو مستحکم اور قابل قبول بنا کر عرب ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنا تھا۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی قومی امنگیں دفن ہو جاتیں۔ اس حوالے سے رجعتی عرب ریاستیں گرم جوش معاون بنی ہوئی تھیں۔ 7 اکتوبر کا حملہ اس ساری صورتحال کا ہیجانی ردعمل تھا۔
نتن یاہو کو اس واقعے سے فوری پہلے عوامی احتجاجوں کا سامنا تھا۔ اس نے فوری طور پر اس واقعہ کو بنیاد بنا کر غزہ پر ایک نسل کش جنگ مسلط کر دی۔ ایک سال بعد اسرائیل ابھی تک اپنا کوئی ایک جنگی ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے؛ مغویوں کی بازیابی اور حماس کی مکمل تباہی۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل آئی اور ایک جزوی ملک گیر عام ہڑتال بھی منظم کی گئی تھی۔
یہ احتجاج فلسطینیوں کی حمایت یا جنگ مخالفت میں نہیں تھے لیکن ایک جنگ کے دوران وزیراعظم کی اتنی شدید مخالفت کا ہونا اس حقیقت کی غمازی ہے کہ اسرائیلی سماج میں گہرے تضادات ابل رہے ہیں۔
نتن یاہو کی حمایت کے خاتمے نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ صورتحال کو تیز کرتے ہوئے لبنان پر حملہ اور پھر فوج کشی کرے جس کے ساتھ ایران کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزی بھی جاری رہی۔ اپنے آپ کو سیاسی طور پر بچانے کی کوششوں میں اس نے بار ہا ثابت کیا ہے کہ وہ ایک علاقائی جنگ مول لینے کو تیار ہے جس میں امریکہ براہ راست مداخلت پر مجبور ہو جائے۔
واشنگٹن پریشان تھا کہ غزہ میں قتل عام سے رجعتی عرب ریاستیں انقلابی انتشار کا شکار ہو جائیں گی (سعودی عرب، مصر اور سب سے بڑھ کر اردن) جنہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں انگلی تک نہیں ہلائی۔ اس لیے انہوں نے اعلانیہ نتن یاہو کو روکنے کی کوشش کی۔ لیکن پہلے دن سے بائیڈن نے اسرائیل کے لیے ”آہنی“ حمایت کا اعلان کر رکھا تھا اور نتن یاہو نے اس بلینک چیک کو مسلسل استعمال کرتے ہوئے علاقائی جنگ چھیڑنے کی کوششیں کیں۔
ایک شخص کا تنگ نظر ذاتی مفاد صورتحال کو اتنا گھمبیر کر سکتا ہے واضح طور پر پوری دنیا میں دیو ہیکل عدم استحکام کا اظہار ہے۔ حکمران طبقہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھی ہمیشہ منطقی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ امریکہ کو پوری دنیا میں مخالفین کا سامنا ہے اور عالمی طور پر اپنے کم ہوتے کردار کا اعتراف کرنے کے برعکس وہ ہیجانی پالیسیوں پر کار بند ہے (یوکرین اور مشرق وسطیٰ) جن کا حتمی نتیجہ تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔
یوکرین میں مسلسل امریکی اشتعال انگیزی (جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی، روسی علاقوں میں حملے وغیرہ) کا سامنا کرتے ہوئے روس نے مساوی ردعمل میں ایران اور حوثیوں کی حمایت میں اضافہ کر دیا ہے۔ روس کے پاس جدید ترین ہائیپر سانک (آواز کی رفتار سے کئی گنا تیز) میزائل ٹیکنالوجی اور فضائی دفاعی نظام موجود ہے جو خطے میں امریکہ کے حریفوں کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
حالیہ عرصے میں ایرانی ریاست اندرون ملک عوامی احتجاجوں اور عمومی سے کم معاشی شرح نمو سے کمزور ہوئی ہے۔ ایران پر نتن یاہو کے دیوانہ وار مسلسل حملوں سے پہلے ایران مغرب کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کی کوششیں کر رہا تھا جس کے نتیجے میں پابندیوں کا اختتام ہو جاتا۔
اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ایران کے پاس ٹھوس جواز ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہونے کا عمل تیز تر کر دیا جائے۔ سادہ فارمولہ ہے۔ عراق اور لیبیا کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں تھے۔ ان کو سامراج نے کچل کر رکھ دیا اور قائدین کو قتل کر دیا۔ دوسری جانب شمالی کوریا کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اس لیے امریکی سامراج اس پر حملہ نہیں کرتا۔
اسرائیلی حکمران طبقے کا ایک حصہ سوچتا ہے کہ وہ 7 اکتوبر کو ہونے والے حماس حملے کو جواز بنا کر اپنے دشمنوں کو کمزور کر سکتا ہے (حماس، حزب اللہ، ایران) اگر امریکہ ایک علاقائی جنگ میں براہ راست شامل ہو جائے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ حزب اللہ پر حملے کی تیاریوں کے لیے خفیہ معلومات اس وقت سے اکٹھی کر رہے تھے جب 2006ء میں انہیں لبنان میں فوج کشی ترک کر کے پسپائی اختیار کرنی پڑی تھی۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کو مکمل طور پر کچلنا ناممکن ہے کیونکہ ان کی حمایت ہی یہ ہے کہ وہ بیرونی عسکری جارحیت اور تسلط کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
حزب اللہ کا جنم 1982ء میں لبنان پر فوج کشی کا نتیجہ تھا اور حماس کے جنم کی بنیاد فتح کے ہاتھوں PLO کا بکنا تھا۔ فضائی حملوں اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر مواصلات اور قیادت پر حملے شدید نقصان تو پہنچا سکتے ہیں لیکن حقیقی طور پر ان کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ فضائی حملوں کے بعد فوج کشی لازم ہے۔ ان فوجیوں پر گوریلا لائحہ عمل اور گھاتیں مسلط کی جا سکتی ہیں اور یہ دشمن کی جنم بھومی میں لڑ رہی ہوتی ہیں جہاں دفاعی قوتوں کو برتری اور عوامی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اسرائیل کی پُر تشدد حکمت عملی، شہری آبادی اور انفراسٹرکچر پر بے دریغ حملوں نے ان تنظیموں میں ریکروٹمنٹ کے لیے زرخیز زمین فراہم کر رکھی ہے۔
شام میں اسد ریاست کے اچانک اور ناقابل یقین انہدام نے ایک مرتبہ پھر خطے میں طاقتوں کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے۔ عالمی معیشت کے حوالے سے ترکی ایک چھوٹی سرمایہ دارانہ قوت ہے لیکن اس کے انتہائی طاقتور عزائم ہیں۔ اردوگان نے بڑی کامیابی کے ساتھ امریکی سامراج اور روس کے درمیان توازن کرتے ہوئے دیوہیکل فائدے اٹھائے ہیں۔ اس کی ایک مثال جدید ترین روسی فضائی دفاعی نظام حاصل کرنے کی کوششوں کے ساتھ امریکہ کے ساتھ یار بازی میں جدید ترین فضائی جنگی جہاز حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
اردوگان نے بھانپ لیا کہ جس ایران اور روس کے ساتھ اس نے 2016ء میں ایک معاہدہ کیا تھا، فی الحال مصروف ہیں (روس یوکرین میں اور ایران لبنان میں) اور اس نے اسد پر بدمعاشی شروع کر دی کہ شامی کیک میں ہمیں زیادہ بڑا حصہ دو۔ جب اسد نے انکار کر دیا تو اردوگان نے ادلب سے HTS (حیات تحریر الشام) کی جارحیت کی حمایت کا فیصلہ کر لیا۔ سب کی توقعات کے برعکس اس فیصلے کے نتیجے میں پوری شامی ریاست پلک جھپکنے میں دھڑام سے زمین بوس ہو گئی۔ معاشی پابندیوں، کرپشن اور فرقہ واریت کے نتیجے میں یہ ریاست کتنی کھوکھلی ہو چکی ہے، اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔
اسد کا خاتمہ روس (ایک چھوٹی عالمی قوت) اور ایران (ایک علاقائی طاقت) دونوں کی ساکھ پر کاری زخم ہے۔ اب اردوگان اپنے آپ کو مضبوط سمجھ رہا ہے اور وہ شمال مشرقی شام میں کردوں کا تعاقب کرے گا۔ نتن یاہو ایران کی کمزوری سے ہَلہ شیری حاصل کرتے ہوئے اب حماس کے ساتھ مغربی کنارے، گولان ہائیٹس (Golan Heights) یہاں تک کہ شامی سرزمین کے حوالے سے زیادہ جارح اور خونخوار ہو گا۔
اس وقت شام میں جاری بندر بانٹ پچھلے سو سالوں سے مشرق وسطیٰ میں جاری سامراجی جارحیت کا نتیجہ ہے جس کی بنیاد سائیکس۔پکٹ (Sykes-Picot) معاہدہ ہے۔
حتمی طور پر مشرق وسطیٰ میں اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا جب تک فلسطینی قومی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اسرائیل میں صیہونی حکمران طبقے کے مفاد (جسے دنیا کی سب سے طاقتور سامراجی قوت کی پشت پناہی حاصل ہے) میں ہی نہیں ہے کہ فلسطینیوں کا اپنا ایک حقیقی وطن ہو، لاکھوں مہاجرین کی واپسی تو ویسے ہی نا قابل قبول ہے۔
عسکری نکتہ نظر سے فلسطینی اسرائیل کو شکست فاش نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ایک جدید سرمایہ دارانہ سامراجی قوت ہے جس کے پاس جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی ہے اور اس کی انٹیلی جنس سروسز کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ فلسطینی جدوجہد کو اتحادی چاہیے ہیں اور یہ خطے کے محنت کش طبقے میں موجود ہیں۔ یہ سعودی عرب، مشرق وسطیٰ کی ریاستوں، اردن اور سب سے بڑھ کر مصر اور ترکی میں موجود ہیں۔ اگر ان میں سے کسی بھی ایک ملک میں کامیاب بغاوت کے نتیجے میں محنت کش طبقہ اقتدار میں آ گیا تو ایسی صورتحال پیدا ہو جائے گی کہ ایک انقلابی جنگ کے ذریعے فلسطینیوں کو حقیقی آزادی مل سکتی ہے۔
اسرائیلی ریاست اور اس کا صیہونی حکمران طبقہ اسی وقت شکست فاش ہو سکتا ہے جب ملک کی آبادی طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہو جائے۔ اس وقت ایسا مشکل نظر آ رہا ہے۔ لیکن 7 اکتوبر کے حملے اور اس کے ساتھ مسلسل جنگ و جدل اور لڑائی کے نتیجے میں اسرائیلی عوام کا ایک حصہ یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ امن کا واحد راستہ فلسطینی قومی مسئلے کا جمہوری حل ہی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جنگیں کوئی ایک مسئلہ حل نہیں کر سکتیں۔ سامراج کے تسلط میں عارضی جنگ بندیاں اور امن معاہدے محض نئی جنگوں کا پیش خیمہ ہوں گے۔ لیکن عمومی عدم استحکام جنگوں اور ان کے نتائج کی بنیاد ہے اور اگلے دور میں یہ ساری صورتحال عوام کی ایک انقلابی تحریک کو جنم دے گی۔ اگر اس تحریک کو شعوری مارکسی قیادت میسر ہوتی ہے، یعنی ایک عالمگیریت کی بنیاد پر کاربند ایک انقلابی پارٹی، تو پھر وہ اس بظاہر ناقابل حل تضادات کی گتھی کو کاٹ کر حقیقی حل کا راستہ ہموار کر سکتی ہے؛ یعنی مشرق وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن۔
فلسطینی قومی آزادی صرف خطے میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ یہی بات اس وقت روژاوا (Rojava) میں جنگ کے شکار کردوں کے لیے درست ہے۔ ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی سب کے لیے قومی سوال ہمیشہ کے لیے حل کر سکتی ہے۔ تمام اقوام، فلسطینی اور اسرائیلی یہودی، لیکن ان کے ساتھ کرد اور دیگر، ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں امن اور بھائی چارے سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ خطے کی بھرپور پیداواری قوت ایک مربوط سوشلسٹ پیداوار کی منصوبہ بندی کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ بیروزگاری اور غربت قصہئ ماضی بن جائیں گے۔ اس بنیاد پر تمام پرانی قومی اور مذہبی نفرتوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کسی بھیانک خواب کی یاد بن کر رہ جائیں گے۔
امریکہ کے خلاف بغاوت
ہم نے تفصیلی بیان کیا ہے کہ اس وقت مختلف سامراجی قوتوں کے درمیان دنیا کی بندر بانٹ کی جنگ جاری ہے جن میں عالمی سطح پر مرکزی لڑائی پرانے سامراج لیکن اب نسبتی گراوٹ کے شکار امریکہ اور اس کے مدمقابل نئی ابھرتی قوت چین کے درمیان ہے۔
سرکاری طور پر 2009ء میں لانچ کردہ BRICS کا ابھار چین اور روس کی ایک کوشش ہے کہ عالمی اسٹیج پر اپنی پوزیشن کو مستحکم، معاشی مفادات کا تحفظ اور مختلف ممالک کو اپنے حلقہ اثر و رسوخ میں لایا جائے۔
روس کے خلاف امریکی سامراج کی وسیع پیمانے پر لاگو کردہ معاشی پابندیوں کا کوئی اثر نہیں پڑا جن کا مقصد روس کو اس حد تک کمزور کرنا تھا کہ وہ یوکرین میں جنگ کرنے کے قابل نہ رہے۔ پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روس نے دیگر ممالک، جن میں سعودی عرب اور انڈیا بھی شامل ہیں، کے ساتھ اتحاد بنائے اور چین کے ساتھ بھی قریبی معاشی تعاون استوار کیا۔
امریکی قوت کا اظہار کرنے کے برعکس پابندیوں کی ناکامی نے امریکی سامراج کی کمزوری عیاں کر دی ہے اور کئی ممالک اب امریکی زیر تسلط فنانس ترسیلی نظام کا متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ BRICS کی ممبر شپ کو نئے ممالک کو شمولیت کی دعوت دے کر یا ان کی شمولیت کی درخواست کی بنیاد پر بڑھایا جا رہا ہے جن میں کئی ممالک ایسے ہیں جنہیں امریکی سامراج کا اتحادی یا غلام سمجھا جاتا ہے۔
اس سوال پر غور و فکر کرتے ہوئے ہمیں توازن کا احساس رکھنا چاہیے۔ یہ تبدیلیاں بہت اہم ہیں لیکن بہرحال BRICS تضادات سے بھرپور ہے۔ برازیل اگرچہ BRICS کا حصہ ہے لیکن ساتھ ہی وہ مرکوسر (Mercosur) کا بھی حصہ ہے جو اس وقت یورپی یونین کے ساتھ ایک آزاد تجارتی معاہدہ کر رہا ہے۔ چوٹی کی کئی برازیلی کمپنیوں کے حصص کا نیو یارک اسٹاک اکسچینج پر لین ین ہوتا ہے۔ انڈیا BRICS کا مرکزی ممبر ہے لیکن اس کے ساتھ وہ امریکہ کا ”تزویراتی اتحادی“ بھی ہے۔ وہ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ کواڈ سیکیورٹی اور عسکری اتحاد کا بھی حصہ ہے اور اس کی بحریہ امریکہ کے ساتھ باقاعدہ عسکری مشقیں بھی کرتی ہے۔
BRICSممالک کا آپسی سیاسی اور معاشی ادغام ابھی بہت کمزور ہے۔ پھر تمام تر بحث مباحثے کے باوجود وہ ابھی بھی ایک عالمی فنانس ترسیل نظام بنانے یا عالمی فنانس نظام میں امریکی ڈالر کے تسلط کا متبادل پیش کرنے سے کوسوں دور ہیں۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ انڈیا جسے امریکہ کا اتحادی اور چین کا حریف سمجھا جاتا ہے، امریکی پابندیوں کو بائی پاس کرنے میں روس کی خاص طور پر مدد کر رہا ہے۔ انڈیا روس سے سستا خام تیل خرید کر اور اسے ریفائن کر کے گراں قیمت پر یورپ کو بیچ رہا ہے۔ فی الحال امریکہ نے اس حوالے سے کوئی اقدامات کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ 2023ء میں چین نے انڈیا کا مرکزی تجارتی شراکت دار بن کر امریکہ کو پہلی سے دوسری پوزیشن پر پچھاڑ دیا۔
اس وقت BRICS کئی ممالک کا ایک ڈھیلا اتحاد ہے جس میں ہر ملک کا اپنا مفاد ہے۔ مثلاً انڈیا BRICS میں نئے ممالک کی شمولیت پر رضامند نہیں ہے کیونکہ اس طرح اس کا اپنا عالمی کردار متاثر ہو گا۔ امریکی سامراجی بدمعاشی اس کے مخالفین کو اکٹھا کر رہی ہے اور دیگر کو اس اتحاد میں شمولیت کی ترغیب دے رہی ہے۔
یورپ میں بحران
اگرچہ امریکہ کو اس وقت عالمی طور پر قوت اور اثر و رسوخ میں نسبتی گراوٹ کا سامنا ہے لیکن پرانی یورپی قوتیں جیسے برطانیہ، فرانس اور جرمنی ماضی میں اپنے سنہرے دور کے بعد اور بھی زیادہ گراوٹ کا شکار ہو کر ثانوی حیثیت کی قوتیں بن کر رہ گئی ہیں۔ یہ بات قبل ذکر ہے کہ یورپ ایک سامراجی اکٹھ کے طور پر پچھلی ایک دہائی میں بہت کمزور ہوا ہے۔ یکے بعد دیگرے عسکری بغاوتوں نے فرانس کو وسطی افریقہ اور ساحل سے باہر نکال دیا ہے جس کا سارا فائدہ روس کو ہوا ہے۔
یورپی قوتیں بڑی گرم جوشی سے روس کے خلاف یوکرینی پراکسی جنگ میں امریکی سامراج کا دم چھلہ بن گئی تھیں اگرچہ یہ براہ راست ان کے اپنے مفادات کے خلاف قدم تھا۔ 1989-91ء میں سٹالنزم کے انہدام کے بعد جرمنی مسلسل مشرق کی جانب حلقہ اثر و رسوخ کی وسعت کی پالیسی پر گامزن رہا ہے۔ یہ ایک طویل مدت خارجہ پالیسی رہی ہے اور اس کے نتیجے میں روس سے بھی قریبی معاشی تعلقات استوار ہو چکے تھے۔
جرمن صنعت نے سستی روسی توانائی سے دیوہیکل فائدے اٹھائے ہیں۔ یوکرین جنگ سے پہلے جرمنی کی نصف سے زیادہ قدرتی گیس، ایک تہائی تیل اور نصف کوئلہ روس سے آ رہے تھے۔
یہ پچھلے دور میں جرمن صنعت کی کامیابی کے اہم ستونوں میں سے ایک تھا، جن میں دیگر دو لیبر منڈی کی ڈی ریگولیشن (یہ کام سوشل ڈیموکریٹک حکومتوں میں ہوا) اور پیداواری صلاحتیوں میں دیوہیکل سرمایہ کاری تھے۔ یورپی یونین میں جرمن حکمران طبقے کا تسلط اور چین اور امریکہ کے ساتھ آزاد تجارت ایک کامیاب تثلیث تھی۔
توانائی کے حوالے سے باقی تمام یورپی یونین میں بھی یہی صورتحال تھی کہ روس پیٹرولیم (24.8 فیصد)، پائپ لائن گیس (48 فیصد) اور کوئلے (47.9 فیصد) کا سب سے بڑا سپلائر تھا۔ یورپی سرمایہ داروں کے لیے روس کے خلاف پابندیوں کا اعلان کرنا بیوقوفی کی انتہا تھی۔ اس وجہ سے توانائی کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھ گئیں جس کا افراط زر اور یورپی مصنوعات کی برآمداتی مسابقت پر تباہ کن اثر پڑا۔
بالآخر یورپ کو LNG (Liquified Natural Gas) کئی گنا زیادہ قیمت پر امریکہ سے اور روسی تیل مصنوعات انڈیا کے ذریعے درآمد کرنی پڑی۔ درحقیقت جرمنی کے زیر استعمال گیس کا ایک بڑا حصہ ابھی بھی روس سے ہی آتا ہے لیکن اب یہ براہ راست کے بجائے دیگر ممالک سے زیادہ قیمت پر حاصل کی جاتی ہے۔
جرمن، فرانسیسی اور اطالوی حکمران طبقات نے اپنے پیروں پر خود گولی ماری ہے اور اب اس کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ امریکہ نے اپنے یورپی اتحادیوں کو اس کا انعام ان کے ہی خلاف ایک تجارتی جنگ شروع کر کے دیا ہے جس کا ذریعہ دیو ہیکل تحفظاتی پالیسیاں اور اپنی صنعتوں کو سبسڈیاں دینا ہے۔
یورپی یونین ایک کوشش تھی کہ اس براعظم کی کمزور سامراجی قوتوں کو اکٹھا کر کے عالمی معیشت اور سیاست میں ایک طاقتور آواز فراہم کی جائے۔ عمل میں جرمن سرمائے نے دیگر کمزور معیشتوں کو اپنا غلام بنا لیا۔ اگرچہ معاشی نمو ہوئی، ایک مخصوص معاشی ادغام اور ایک واحد مشترکہ کرنسی کا اجراء بھی ہوا۔
لیکن اس میں موجود مختلف قومی حکمران طبقات اپنی شناخت کے ساتھ موجود رہے اور اپنے مخصوص مفادات کا تحفظ کرتے رہے۔ تمام بحث مباحثے کے باوجود یہاں کوئی مشترکہ معاشی اور خارجہ پالیسی نہیں ہے اور ایک فوج جو ان دونوں کو لاگو کرے وہ بھی موجود نہیں ہے۔ جرمن سرمائے کی بنیاد مسابقتی صنعتی برآمدات اور مشرق میں مفادات پر موجود تھی جبکہ فرانس یورپی یونین سے دیوہیکل زرعی سبسڈیاں لے رہا ہے اور اس کے سامراجی مفادات سابق فرانسیسی کالونیوں، زیادہ تر افریقہ سے وابستہ ہیں۔
2008-09ء میں عالمی کساد بازاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خود مختار قرضوں کے بحران نے یورپی یونین کی ہوا اکھاڑ کر رکھ دی۔ اس وقت صورتحال اور بھی زیادہ گھمبیر ہو چکی ہے۔ سابق یورپی مرکزی بینک کے صدر ماریو دراغی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یورپی سرمایہ داری کا بحران ہولناک شکل اختیار کر چکا ہے اور وہ غلط نہیں ہے۔ یورپی یونین اس وجہ سے عالمی اسٹیج پر اپنے مسابقتی سامراجی حریفوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ایک سیاسی معاشی اکائی نہیں ہے بلکہ کئی چھوٹی اور درمیانی معیشتوں کا مجموعہ ہے جن کا اپنا حکمران طبقہ، اپنی قومی صنعتیں، اپنے قوانین وغیرہ موجود ہیں۔
یورپی سرمایہ داری کا بحران اہم سیاسی اور سماجی دھماکوں کی پرورش کر رہا ہے۔ پورے براعظم میں دائیں بازو کی پاپولسٹ، یورپ مخالف اور اسٹیبلشمنٹ مخالف قوتوں کا ابھار اسی حقیقت کا عکس ہے۔ فرانسیسی اور جرمن حکومتوں کا انہدام اسی بحران کا شاخسانہ ہے۔ یورپی محنت کش طبقہ اس وقت اپنی مجتمع شدہ قوتوں کے ساتھ شکست خوردہ نہیں ہے اور اب ایک شدید لڑائی کے بغیر جبری کٹوتیوں اور بے تحاشہ جبری برخاستگیوں کا نیا دور برداشت نہیں کرے گا۔ دیوہیکل طبقاتی جدوجہد کا میدان سج چکا ہے۔
ہتھیاروں کی دوڑ اور عسکریت پسندی
تاریخی طور پر مختلف سامراجی قوتوں کے درمیان نسبتی قوتوں میں قابل ذکر توازن کی تبدیلی کا فیصلہ آخر کار جنگ کے ذریعے ہی ہوتا تھا جس میں بیسویں صدی کی دو عالمی جنگیں سر فہرست ہیں۔ آج جوہری ہتھیاروں کی موجودگی فی الحال آنے والے دور میں ایک براہ راست اور اعلانیہ عالمی جنگ کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔
سرمایہ دار جنگیں منڈیوں کے حصول اور تحفظ، سرمایہ کاری کے شعبوں اور حلقہ اثر و رسوخ کے دفاع کے لیے کرتے ہیں۔ آج ایک عالمی جنگ انفرسٹرکچر اور زندگی کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دے گی جس سے کوئی ایک سامراجی قوت فائدہ نہیں اٹھا سکے گی۔ اس کے لیے ایک پاگل بوناپارٹسٹ قائد درکار ہو گا جو ایک بڑی جوہری قوت پر حکومت کرتے ہوئے ایک عالمی جنگ شروع کر دے۔ اس کے لیے محنت کش طبقے کی ایک یا کئی فیصلہ کن شکستیں درکار ہوں گی اور فی الحال اگلے دور میں اس کے امکانات نہیں ہیں۔
بہرحال اس وقت مختلف سامراجی قوتوں کے درمیان سیارے کی نئی بندر بانٹ عالمی صورتحال پر چھائی ہوئی ہے۔ اس کا اظہار کئی علاقائی جنگوں، دیو ہیکل تباہی و بربادی اور لاکھوں لوگوں کی اموات اور تجارتی اور سفارتی تناؤ میں ہو رہا ہے۔ ان میں مسلسل اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلے سال پوری دنیا میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ جنگیں ہو رہی تھیں۔
اس کے نتیجے میں ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہو چکی ہے جس سے مغربی ممالک میں عسکریت پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اپنی افواج کی تعمیر نو، مسلح نو اور جدت کا دباؤ ہر جگہ بڑھ رہا ہے۔ امریکہ اگلے 30 سالوں میں 1.7 ٹریلین ڈالر اپنے جوہری ہتھیاروں کی جدت اور دیکھ بھال میں خرچ کرے گا۔ اب اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ جرمنی میں کروز میزائل تعینات کیے جائیں۔
امریکہ تمام NATO ممالک پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات کو بڑھائیں۔ چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں 7.2 فیصد اضافہ کرے گا۔ 2023ء میں روسی فوجی اخراجات میں 27 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد یہ کل حکومتی اخراجات کا 16 فیصد اور GDP کا 5.9 فیصد بن گئے۔ 2023ء میں عالمی عسکری اخراجات 2.44 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے جو 2022ء کے مقابلے میں 6.8 فیصد اضافہ تھا۔ 2009ء کے بعد یہ سب سے بڑا اضافہ ہے اور تاریخ کا بلند ترین ریکارڈ ہے۔
یہ دیو ہیکل رقم ہے جس میں قوت محن اور ٹیکنالوجی کی جدت بھی شامل ہے جسے ضروری سماجی فلاح کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نکتہ ہے جس پر ہمیں اپنے پروپیگنڈہ اور سرگرمیوں میں زور دینا چاہیے۔
یہ کہنا آسان ہے کہ سرمایہ دار اسلحوں کی ایک نئی دوڑ اس لیے شروع کرتے ہیں تاکہ معاشی نمو کو بڑھایا جائے۔ در حقیقت عسکری اخراجات افراط زر کو بڑھاتے ہیں اور معیشت پر کوئی بھی اثر قلیل مدتی ہونے کے ساتھ دیگر سیکٹروں میں کٹوتیوں کی نظر ہو جاتا ہے۔ سامراجی قوتوں کے درمیان دنیا کی از سر نو بندر بانٹ کی لڑائی عسکری اخراجات کو بڑھا رہی ہے۔ سرمایہ داری اپنے سامراجی مرحلے پر ناگزیر طور پر قوتوں کے درمیان لڑائیوں اور پھر حتمی طور پر جنگ کو جنم دیتی ہے۔
ہمارے عہد میں عسکریت پسندی اور سامراجیت کے خلاف جدوجہد ایک مرکزی سوال بن چکی ہے۔ ہم سامراجی جنگوں اور سامراجیت کے ناقابل مصالحت طور پر مخالف ہیں، لیکن ہم امن پسند بھی نہیں ہیں۔ ہم زور دیتے ہیں کہ امن کی گارنٹی صرف جنگ کی پرورش کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
عالمگیریت کا خاتمہ
معاشی بحران کے دور میں منڈیوں اور سرمائے کے شعبوں کے لیے بڑھتی مسابقت اور لوٹ مار تحفظاتی رجحانات کو جنم دیتی ہے۔
روس میں سٹالنزم کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور ان دونوں کی عالمی منڈی میں شمولیت کے بعد ایک پورا دور عالمگیریت (عالمی تجارت میں وسعت) سے بھرپور تھا۔ اس کے برعکس آج محصولات کی بندشیں اور تجارتی جنگیں بڑھ رہی ہیں جن میں تمام معاشی بلاک (چین، یورپی یونین اور امریکہ) دوسرے فریق کی قیمت پر اپنی معیشت بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ”محصولات لغت میں سب سے خوبصورت لفظ ہے!“۔
1991ء میں عالمی تجارت عالمی GDP کا 35 فیصد تھی۔ 1974ء سے ایسا ہی چلا آ رہا تھا۔ اس کے بعد اس میں تیزی سے بڑھوتری ہونا شروع ہوئی اور 2008ء تک یہ 61 فیصد تک پہنچ چکی تھی، جو عالمی معیشت کے تیز ترین اور مربوط ادغام کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی ایسا غیر جانبدار عمل نہیں تھا جس سے دنیا کے تمام ممالک مستفید ہوئے۔ مثلاً امریکہ اور میکسیکو کے درمیان محصولات میں کمی کا فائدہ امریکی سرمائے کو ہوا جبکہ میکسیکو کی زراعت تباہ و برباد ہو گئی۔
2008ء کے بحران کے بعد سے عالمی GDP کا عالمی تجارتی حصہ جمود کا شکار رہا ہے۔ IMF کی پیش گوئی ہے کہ درمیانی مدت میں عالمی تجارت کی شرح نمو 3.2 فیصد سالانہ ہو گی، جو 2000-19ء کے درمیان 4.9 فیصد سے کہیں کم ہے۔ عالمی تجارت میں وسعت اب اس طرح معاشی نمو کی بنیاد نہیں رہ گئی جس طرح ماضی میں تھی۔
2023ء میں پوری دنیا میں حکومتوں نے 2 ہزار 500 تحفظاتی اقدامات کیے (ٹیکس چھوٹ، ٹارگٹ سبسڈیاں، تجارتی پابندیاں) جو پچھلے 5 سالوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھے۔ چینی مصنوعات پر امریکی محصولات میں 6 گنا سے 19.6 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ چینی الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکس 100 فیصد ہو چکا ہے۔
ٹرمپ کی پہلی صدارت میں امریکہ نے جارحانہ تحفظاتی پالیسی اپنائے رکھی۔ چین کے ساتھ یورپ بھی نشانے پر رہا۔ بائیڈن حکومت میں بھی یہی پالیسی جاری رہی۔ اس نے کئی قوانین منظور (CHIPS، نام نہاد افراط زر کمی ایکٹ وغیرہ) اور کئی اقدامات کیے ہیں تاکہ باقی دنیا کی برآمدات کے نقصان پر امریکی پیداوار کو سبقت حاصل رہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 1929ء کے بعد یہ تحفظاتی پالیسیوں کی جانب عمومی رجحان تھا جس نے عالمی معیشت کو ایک معاشی بحران سے انہدام میں تبدیل کر دیا تھا۔ 1929-33ء کے درمیان عالمی تجارت میں 25 فیصد کمی ہوئی اور اس کی ایک بڑی وجہ تجارتی رکاوٹیں تھیں۔
کثیر قطبی دنیا؟
بڑھتے ہوئے بین السامراجی تناؤ کی صورتحال میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکی صدر بن رہا ہے۔ اس کا ”سب سے پہلے امریکہ“ پروگرام عالمی تعلقات میں ٹکراتے گہرے تضادات کا اظہار ہے۔
یہ پیش گوئی کرنا خاصا مشکل ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں کیا ہوں گی لیکن وہ اعلان کر چکا ہے کہ دنیا میں مختلف جنگوں میں براہ راست امریکی مداخلت کم کی جائے گی۔ یہ اس حقیقت کا بھی اظہار ہے کہ امریکی سامراجی قوت نسبتی طور پر کمزور ہو رہی ہے۔ ٹرمپ کا پیوٹن کے روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا بھی اسی حقیقت کا شاخسانہ ہے تاکہ امریکہ کے مرکزی حریف چین پر تمام توجہ مرکوز کی جا سکے اور بائیڈن کی مہم جو اشتعال انگیزیوں سے بہرحال زیادہ منطقی معلوم ہوتی ہے۔
لیکن ٹرمپ کے جو بھی عزائم ہوں، امریکی سامراج آج بھی دنیا کی طاقتور ترین قوت ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس طرح ہر مسئلے سے باہر نہیں کر سکتا کیونکہ عالمی اسٹیج پر واشنگٹن کی ہر پسپائی اس کے حریفوں کی فتح ہو گی۔ لینن نے بیان کیا تھا کہ سامراجی قوتوں کی دنیا کی از سر نو بندر بانٹ کا دارو مدار ان کی نسبتی قوتوں پر ہوتا ہے۔ یہ شرفاء کے درمیان معاہدوں کے برعکس ”پُر امن اور جارحانہ جنگ“ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ موجودہ عالمی صورتحال ایک ”کثیر قطبی“ دنیا تخلیق کر رہی ہے جس میں امریکی سامراج کی کمزوری مختلف قوتوں کے درمیان ایک توازن پیدا کرے گی جو ایک دوسرے کی عزت کرتے ہوئے اپنے مسائل کو پُر مغز اور پُر امن بحث مباحثے کے ذریعے حل کریں گے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ ترقی پسند قدم ہے جس کے لیے محنت کش طبقے اور سامراج کی ستائی ہوئی عوام کو محنت بلکہ جدوجہد کرنی چاہیے۔
یہ سفید جھوٹ ہے۔ آج ہمارے سامنے عالمی سطح پر جو لڑائی چل رہی ہے وہ ایک انصاف کی تصویر بنی دنیا کے لیے نہیں بلکہ مختلف سامراجیوں کے درمیان جنگ ہے، جو لوٹ کے مال پر بٹوارے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ شام کی عوام سے پوچھا جائے کہ علاقائی اور عالمی مسابقتی طاقتوں کی ان کی زمین پر لڑائی سے ان کی زندگی میں کیا بہتری آئی ہے۔ کانگو (Congo) کی غریب عوام سے پوچھا جائے کہ ان کے ملک میں معدنی وسائل کی چینی لڑائی میں ان کے لیے امن اور خوشحالی کا کیا پیغام ہے۔ یوکرین کے محنت کشوں کو پوچھا جائے کہ کیا واشنگٹن کی روس سے اشتعال انگیزی نے ان کی قومی آزادی مضبوط کر دی ہے۔
ہر گز نہیں۔ درندہ صفت اور بھیڑیا چال امریکی سامراج کی جگہ مختلف سامراجی قوتوں کا تسلط کوئی ترقی پسند عمل نہیں ہے جو لاکھوں محنت کشوں اور غرباء کی لاشوں اور کروڑوں مہاجرین کی تباہی پر اپنا کھلواڑ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سامراج کے تسلط کا مقابلہ ترقی پسند طریقہ کار سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کا واحد راستہ سرمایہ داری کا انقلابی خاتمہ اور اقتدار پر محنت کشوں کا قبضہ ہے۔ پھر ہی ممکن ہو گا کہ ایک حقیقی منصفانہ سماج تخلیق کیا جا سکے، جس میں ہزاروں سالوں میں انسانیت کے تخلیق کردہ اور ارتقاء شدہ ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں ایک جمہوری منصوبہ بند پیداوار کے تحت ایک خون آشام اقلیت کے منافعوں کی ہوس کی تسکین کے برعکس اکثریت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے منظم کیا جائے۔