|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|
آزاد کشمیر سکول ٹیچرز آرگنائزیشن گزشتہ ایک ماہ سے اپنے سکیل اپ گریڈیشن کے تسلیم شدہ مطالبے پر عملدرآمد کے لیے سراپا احتجاج ہے۔ احتجاج کا آغاز پہلے مرحلے پر کلاسز کے بائیکاٹ سے کیا گیا جبکہ دوسرے مرحلے پر سکولوں کے اندر ہی احتجاجی کیمپ منعقد کرنے کے ساتھ مختلف اضلاع میں احتجاجی پروگرام کیے گئے۔ اس کے باوجود جب حکومت نے اساتذہ کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو 10 اور 11 جولائی 2023ء کو دو مراحل میں بھمبر سے مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے کی کال دی گئی۔
گزشتہ ہفتے کے دوران اس کال کی تیاریوں کے سلسلے میں کشمیر بھر میں اجلاس منعقد کیے گئے جس سے خوفزدہ ہو کر حکومت نے جبر کے ذریعے اساتذہ کی اس تحریک کو روکنے کا فیصلہ کیا۔ ریاستی جبر کے آغاز میں تین روز قبل اساتذہ کی تنظیم کے مرکزی صدر اور جنرل سیکریٹری کو پہلے معطل کیا گیا اور بعد ازاں ان کو ملازمت سے برخواست کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا مگر اساتذہ کی قیادت اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی۔
اساتذہ کی قیادت کو نوکریوں سے برخاست کرنے کے باوجود جب اس احتجاجی مارچ کو نہیں روکا جا سکا تو حکومت نے دو روز قبل ایکٹ 2016ء (جو ایک مزدور دشمن ایکٹ ہے) کا اطلاق کرتے ہوئے اساتذہ کی تنظیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس احتجاجی مارچ کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا۔ ساتھ ہی کشمیر بھر میں پولیس کو اس احتجاج کو روکنے کے لیے بھرپور ریاستی جبر اور طاقت کا استعمال کرنے کا حکم جاری کیا۔
9 جولائی 2023ء کو کشمیر کے مختلف علاقوں میں اساتذہ کی مرکزی، ضلعی اور تحصیل کی تنظیموں کے متحرک کارکنان اور قائدین کو سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کرنا شروع کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اساتذہ کی تنظیموں میں موجود اپنے گماشتوں کے ذریعے اس احتجاج کے موخر کیے جانے کے بیانات بھی سوشل میڈیا اور اخبارات میں جاری کرائے گئے۔ غرض یہ کہ حکومت نے ہر حربہ آزمایا تا کہ اس احتجاج کو روکا جا سکے مگر حکومت اپنے ان مذموم مقاصد میں مکمل کامیاب نہیں ہو سکی۔
اساتذہ کی گرفتار قیادت نے اپنے ذرائع سے ہڑتال اور احتجاجی مارچ کو جاری رکھنے کا پیغام اساتذہ تک پہنچایا اور آج 10 جولائی کو کشمیر کے مختلف علاقوں اور بالخصوص پونچھ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں اساتذہ حسب پروگرام اپنے احتجاجی کیمپوں میں جمع ہونا شروع ہوئے۔ بعض مقامات پر اساتذہ کو ان کے اپنے ہی سکولوں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اور ان کو گرفتار کرنا شروع کر دیا گیا۔ انتظامیہ کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ مرد اساتذہ کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو گرفتار کر لیا جائے تو احتجاج ختم ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ پرنسپل حضرات کے ساتھ محکمہ تعلیم کے ضلعی افسران کی جانب سے بھی اساتذہ کو دھمکانے کا سلسلہ جاری تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود اساتذہ نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا اور بڑی تعداد میں گرفتار کر لیے گئے۔
ہجیرہ میں کیمپ میں جمع ہونے والے مرد اساتذہ کے ساتھ خواتین اساتذہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
باغ میں ضلعی قائدین کو گزشتہ پریس کانفرنس کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا اور آج اساتذہ کی ایک بڑی تعداد نے اجتماعی گرفتاری دی۔
کھائیگلہ سے بھی چند اساتذہ کو آج صبح گرفتار کیا گیا مگر کھائیگلہ میں خواتین اساتذہ کی ایک بڑی تعداد نے کیمپ میں شرکت کی اور بعد ازاں کھائی گلہ چوک بند کر کے ایک بڑا احتجاج کیا گیا۔
راولاکوٹ کے مرکزی کیمپ سے بھی کچھ مرد اساتذہ کو صبح کے وقت گرفتار کیا گیا مگر بعدازاں خواتین اساتذہ کی ایک بڑی تعداد جمع ہو گئی اور انہوں نے گرفتاری سے بچ جانے والے مرد اساتذہ کے ساتھ مل کر ایک احتجاجی ریلی نکالی اور کالج گیٹ کے سامنے دھرنا دے دیا۔ خواتین اساتذہ کی بڑی تعداد کی جرات مندانہ شرکت کے باعث راولاکوٹ میں اساتذہ کی نہ صرف گرفتاریوں کا سلسلہ بند ہو گیا بلکہ تمام سیاسی و سماجی تنظیموں کے کارکنان اور قائدین نے اساتذہ کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا۔ راولاکوٹ ڈگری کالج گیٹ کے سامنے مرکزی شاہراہ کو بند کر کے اساتذہ نے اپنا احتجاج شروع کیا تو راولاکوٹ کے تمام سرکاری ملازمین کی تنظیموں کے قائدین بھی دھرنے میں شریک ہوگئے اور اساتذہ کی ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا جس کے باعث یہ دھرنا اس پوری تحریک کا مرکز بن گیا۔
ملازمین تنظیموں کے قائدین نے اساتذہ کی گرفتار قیادت کے ساتھ ملاقات کے بعد انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کیے جس میں انتظامیہ نے ملازمین تنظیموں کی قیادت کو حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی کہ وہ اساتذہ کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ان کے مطالبات حل کرنے پر بات چیت کو تیار ہیں جبکہ اساتذہ کی برطرفی اور ان کی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بھی واپس لینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ملازمین تنظیموں کے قائدین کی اس یقین دہانی کے بعد اساتذہ نے دھرنے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا ہے کہ وہ کلاسز کا بائیکاٹ جاری رکھیں گے اور کل صبح دوبارہ اپنے احتجاجی کیمپوں میں جمع ہوں گے اور اگر کل تک ان کے گرفتار ساتھیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ دوبارہ سڑکوں پر دھرنے دیں گے۔
روایتی اور رجعتی سیاسی پارٹیوں کی گماشتہ قیادتوں نے بھی اس خطے کی روایات اور غیرت کا واسطہ دے کر خواتین اساتذہ کو دھرنے سے اٹھانے کی کوشش کی لیکن پر عزم خواتین اساتذہ نے ان کی منت سماجت کو جوتے کی نوک پر رکھا اور اپنے معاشی اور جمہوری حقوق کی جدوجہد میں شدید دھوپ کے باوجود استقامت کے ساتھ اس وقت تک بیٹھی رہیں جب تک کے دیگر ملازمین تنظیموں کی قیادت نے آکر ان سے ایک روز کا وقت نہیں مانگا اور اس کے بعد ان کی اپنی قیادت نے یہ اعلان نہیں کیا کہ ہم کل صبح تک اس دھرنے کو ختم کرتے ہیں۔
اساتذہ کی ہڑتال کشمیر میں محنت کشوں کی جدوجہد کا ایک نیا آغاز ہے۔
وفاق کی جانب سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا جو اعلان کیا گیا تھا کشمیر کی حکومت نے ابھی تک اس اضافے کا اعلان بھی نہیں کیا۔ کشمیر کے حکمران اساتذہ کی ہڑتال کو کچلنے میں کامیاب ہو گئے تو یقینا ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اعلان کردہ اضافہ بھی ملازمین کو نہیں دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی اساتذہ کی تنظیم کے خلاف ایکٹ 2016ء جیسے کالے قانون کے استعمال کی وجہ سے تمام ملازمین میں ایک تشویش پائی جاتی ہے۔ اساتذہ محنت کشوں پر حکومت کے اس حملے نے تمام ملازمین کو کافی حد تک متحد کر دیا ہے۔ تمام ملازمین کو اساتذہ پر اس حملے کو اپنے اوپر حملہ سمجھتے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی اور اساتذہ کو یہ لڑائی جیتنے میں درکار ہر قسم کا تعاون اور یکجہتی فراہم کرنا ہوگی چونکہ اساتذہ کی شکست تمام ملازمین کی شکست ہے اور اساتذہ کی فتح تمام محنت کشوں کی فتح ہے۔ اساتذہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ثابت قدمی اور پر عزم طریقے سے اپنی اس لڑائی کو جاری رکھیں۔
محنت کشوں کی ملک گیر تنظیم ریڈ ورکرز فرنٹ اور ترقی پسند طلبہ و نوجوانوں کی ملک گیر تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے اساتذہ کے اس دھرنے میں بھرپور شرکت کی اور اساتذہ کو دیگر تمام ملازمین کے ساتھ متحد ہو کر جدوجہد کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔
تمام گرفتار اساتذہ کو فوری رہا کیا جائے اور ملازمتوں سے معطل یا برطرف اساتذہ کو فوری اور غیر مشروط رہا کیا جائے!
مزدور دشمن ایکٹ 2016ء کا فوری خاتمہ کیا جائے اور اساتذہ کی تنظیم کو بحال کیا جائے!
اساتذہ کے سکیل اپ گریڈیشن کے تسلیم شدہ مطالبے پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے!
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!