|تحریر: ناصرہ وائیں |
تعلیم کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن ایک طرف یہاں یہ حق آبادی کے ایک بڑے حصے سے چھینا جارہا ہے تو دوسری جانب اس شعبے سے وابستہ لاکھوں افراد کا روزگار داؤ پر لگ چکا ہے۔ کورونا وباء آنے سے پہلے ہی نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ بدترین استحصال کا شکار تھے اور انتہائی کم اجرتوں پر اور انتہائی سخت حالات پر کام کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن کورونا وباء کے بعد حالات مزید ابتر ہو چکے ہیں اور لاکھوں اساتذہ نہ صرف اپنی اجرتوں سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ روزگار کے مواقع بھی تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ ایسے میں ان کے استحصال میں بھی اضافہ ہوا ہے اور انہیں پہلے کی نسبت مزید کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ ان کی ملازمتوں کے تحفظ کے لیے کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ نجی سکول مالکان کے استحصالی طریقہ کار کو عیاں کیا جائے اور اس کیخلاف جدوجہد منظم کی جائے۔ خاص طور پر خواتین اساتذہ زیادہ جبر اور استحصال کا شکار ہیں اور کورونا وباء کے بعد بھی اس جبر میں اضافہ ہوا ہے۔ گو کہ سرکاری تعلیمی ادارے بھی نجکاری کے حملوں کی زد میں ہیں اور وہاں بھی اساتذہ پر انتظامیہ کی جانب سے بد ترین حملے کیے جا رہے ہیں لیکن اس مضمون میں ہم اپنا تجزیہ صرف نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے مسائل تک محدود کریں گے۔ خاص طور پر وہ اکثریتی نجی اساتذہ جن کی تنخواہ اس وقت ملک میں غیر ہنر مندمحنت کش کی اجرت کے برابر ہے۔ اور اس کم تنخواہ میں وہ اپنے کنبے کی ضروریات بھی طرح پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کے ہتھکنڈے
پاکستان میں کئی انواع واقسام کے تعلیمی ادارے اس وقت پھل پھول چکے ہیں جہاں پر منافع کی شرح کو بلند رکھنے کی خاطر معصوم اور سادہ اساتذہ کی معصومیت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ان تعلیمی اداروں کے سربراہان کا وطیرہ ہوتا ہے کہ انٹرویو کے دوران اساتذہ کو یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ کسی طرح بھی ان کے شاندار ادارے میں ملازمت کے حقدار نہیں ہیں۔ اگر ان کی ڈگری سائنسی مضامین میں ہوتو بہانہ بنایا جاتا ہے کہ ان کے پاس تو بی ایڈ کی ڈگری نہیں ہے، اگر ڈگری ہوتی تو ہم پانچ ہزار تنخواہ زیادہ دیتے، جبکہ دوسری جانب ان کو سائنس کے لئے اساتذہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے اوربی ایڈ والوں کو زیادہ تنخواہ کے مطالبے کے باعث اکثر نوکری پر نہیں رکھا جاتا یا کم تنخواہ پر ہی کام کروایا جاتا ہے۔ وہ ضرورت مند اساتذہ جنہوں نے پرائیویٹ طور پر ڈگریاں حاصل کی ہوتی ہیں وہ ان کا آسان شکار ہوتے ہیں۔ ان کی پرائیویٹ ڈگری ان کی مالی یا معاشی حالات کی غمازی ہوتی ہیں۔ اور اگر نمبر کم ہوں تو ایسے اساتذہ زیادہ نمبروں والوں پر نوکری کے حصول میں برتری لے جاتے ہیں۔ جن کی ڈگری ابھی ناتمام ہو اور جن کی سپلی ہو، وہ بھی ان کی نظر کرم سے مستفید ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ کم تنخواہ پر آسانی سے راضی ہوجاتے ہیں۔ کیوں راضی ہو جاتے ہیں اس پر مضمون کے اگلے حصے میں بات کریں گے۔
اگر کوئی بی۔ایڈ کی ڈگری بھی ساتھ لے آئے تو اس کو ناتجربہ کار کا ٹائٹل دے کر غچہ دیا جاتا ہے۔ اگر تجربہ کار ہوتو اس کے ماسٹر میں مضمون کی ان کو ضرورت نہیں ہوتی۔ مثلاً ایک تجربہ کار استانی ہے اس کے پاس بی۔ایڈ کی ڈگری بھی ہے تو اس کے سکو ل کا تجربہ وہ نہیں مانتے۔ آپ تو اردو میڈیم میں پڑھاتی رہی ہیں اس لئے اس سکول یا کالج کا تجربہ تسلیم نہیں کرتے۔ اور اگر کوئی لائق امیدوار آجائے تو اس کو ناتجربہ کاری کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے جبکہ تجربہ کار اساتذہ میں سے دیگر طرح کے مصنوعی کیڑے نکالے جاتے ہیں۔
اب ملازمت کے یہ امیدوار کیوں اتنی کم اجرت یا تنخواہ لینے پر راضی ہوجاتے ہیں، ان پر مختصراً بات کرتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ نجی اساتذہ کی بڑی تعداد جو تعلیمی اداروں میں نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری انجام دے رہی ہے ان کا تعلق زیادہ تر نچلے طبقہ سے ہے۔ یہاں پر طبقات کا تصور واضح کرتے ہوئے یہ کہنا کافی ہے کہ دنیامیں اس وقت دو ہی طبقے ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس ذرائع پیداوار ہیں جو دو فیصد ہیں اور اٹھا نوے فیصد پر حکمرانی کر رہے ہیں اور دوسرے وہ جن کے ہاتھ خالی ہیں اورجو اپنی قوت محنت ان سرمایہ داروں کے پاس بیچنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پاس قوت محنت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ان کا سرمایہ بھی ایسا ہے جو ہر دن گزرنے کے بعد ضائع ہوجاتا ہے، اگر ایک دن کام نہ ملے تو ان کے گھر چولہا نہیں جلے گا (اگر گیس کی لوڈ شیڈنگ نہ ہوئی تو) اور ان کے بچے پیٹ پر پتھر باندھ کر رات گزاریں گے اور اگلی صبح پھر روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہو جائیں گے۔
ان محنت کشوں پرمٹھی بھر سرمایہ دارمسلط ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سکول مالک نے ان کو ملازمت دے کر ان پر احسان عظیم کیا ہے ورنہ ان کے بچے بھوکوں مر جاتے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ سماج کو چلانے والی اصل قوت تومحنت کشوں کے پاس ہے اوروہ اس سماج کی ساری دولت کے تخلیق کار ہیں۔ ان کے ہاتھ نے قدرت سے حاصل خام مال کو ایک تجسیم عطا کی ہے۔ انہوں نے مٹی کو برتن کی شکل دی۔ اینٹوں سے گھر اور فلک بھوس عمارات تعمیر کیں ہیں۔ سکول اور کالج کے مالکان کی دولت میں اضافہ ان ہی کی وجہ سے ہیں۔ ان کی تدریسی محنت نے سکول مالکان کی دولت میں ا ضافہ کیا ہے۔
فیس کی شکل میں جو رقم سکول مالک یا سرمایہ دار کو حاصل ہوتی ہے وہ اس میں سے عمارت کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ اساتذہ کو تنخواہ ادا کرتا ہے اور سٹاف کوبھی۔ بجلی کا بل بھرتا ہے اور اگر اس نے تعلیمی ادارہ چلانے کے لئے بینک سے سودی قرضہ لے رکھا ہے تو وہ بھی ادا کرتا ہے۔ لیکن تمام مستقل اور عارضی اخراجات کی ادائیگی کے بعد جو رقم اس کے پاس بچ جاتی ہے وہ اس کو اپنی انتظامی صلاحیت کا معاوضہ جان کر اپنے پاس رکھ لیتا ہے اور ہرسال اس کی تجوریوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور تعلیمی اداروں کی بھی۔
آئیں ہم تجزیہ کر یں کہ یہ منافع کہاں سے آتا ہے۔ اور حقیقت میں جس کو منافع کا نام دیا جاتا ہے وہ کیا ہے؟
سکول اخراجات کی ادائیگی کے لئے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایک پری سکول ہے جس میں نرسری اور پریپ اور کے۔جی کی تین جماعتیں ہیں۔ جن میں اوسط طلبہ یا پری سکولرز کی تعداد تین سو کے قریب ہے۔ جن کی ماہانہ فیس دو ہزار ہے۔ اس طرح چھ لاکھ کی آمدنی ہوگی۔ جس میں سے ایک ایک سیکشن کے لئے ایک استانی رکھی ہوتو چھ اساتذہ ہو ں گی۔ جن کی تنخواہ دس ہزار ہو گی۔ ایک آیا جو زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار معاوضہ لیتی ہو گی۔ عمارت کا کرایہ پچیس ہزار ہو گا۔ پی این کو سات ہزار مل جاتا ہوگا۔ بجلی کا بل پچیس ہزار ہوگا۔ اور پرنسپل کی تنخواہ بھی پچیس ہزار ہو گی۔ فرنیچر کی شکست وریخت کا الاؤ نس بھی جمع کردیں تو زیادہ سے زیادہ خرچہ دو لاکھ ہوگا۔ دیگر اخراجات بھی شامل کرلیں توچھ لاکھ کے اخراجات نہیں بن سکتے۔ ہر حال میں تین لاکھ سے زیادہ خرچہ نہیں بن سکتا۔ باقی کے تین لاکھ کہاں سے آئے؟ تمام اخراجات تو ادا کردئے گئے ہیں۔
آئیں اب دیکھیں کہ تین لاکھ ایک ایسے آدمی کی انتظامی صلاحیت کا معاوضہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جو سارا دن اے۔سی والے کمرے میں بیٹھا خوش شکل اور نالائق استانیوں کو پاس بیٹھا کر جوک سناتا رہتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے ادارے میں کوئی کام نہیں کرتا۔ اس کی صلاحیت کا اگر اتنا معاوضہ ہے تو پھر پرنسپل کا معاوضہ اتنا کیوں کم ہے؟ وہ تو اساتذہ کا مشاہدہ کرتا ہے۔ نئے اساتذہ کا انٹرویو لیتا ہے۔ اساتذہ کی محنت کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرنے کیلئے ان پر نفسیاتی حربے استعمال کرتا ہے۔ سادہ لوح اور نئی استانی اس کی تعریف سے مرعوب ہو کر زیادہ کام کرتی ہے اس کو مقابلے کے طور پیش کرتاہے۔ اور جو اساتذہ کی شکایت پرنسپل کے اپنے آفس تک پہنچا دیتا ہے وہ اس کا چہیتا بن جاتا ہے۔
ہوتا کیا ہے؟ تدریسی مزدور جو آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے، صبح سکول میں آکر میٹنگ میں شامل ہونے سے بچوں کوماں باپ کو سونپنے تک۔ وہ چھٹی کے بعد بھی گیٹ کے پاس کھڑی رہتی ہیں اور بچوں کی قطار ٹوٹنے نہیں دیتیں۔ حالانکہ چھٹی کے بعد جو وقت گیٹ پرصرف ہوتا ہے اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ جبکہ قانوناًاوورٹائم کامعاوضہ زیادہ ہوتا ہے۔ اب ایک ٹیچر پچاس بچوں کو پڑھاتی ہے جس سے سرمایہ دار کیلئے ایک لاکھ روپیہ کماتی ہے جس میں سے اسے صرف پانچ بچوں کی فیس ملتی ہے۔ ہم اگر دس بچوں کی فیس بھی اخراجات کی مد میں نکال لیں تو بھی چالیس بچوں کی فیس یعنی اسی ہزار تقریبا ڈھائی لاکھ سرمایہ دار کی جیب میں جاتا ہے۔ داخلے کے وقت داخلہ فیس اور دیگر رقوم جو مختلف مدوں میں حاصل کی جاتی ہیں وہ اس حسا ب میں شامل نہیں ہیں۔ امتحانات، ٹرپس اور فائن کی مد میں لی گئی رقوم بھی شامل نہیں ہوتیں۔ اور پہلے سال چھٹیوں میں نہ دی جانے والی تنخواہ بھی۔ اور لیٹ ہونے پر اساتذہ کی تنخواہ یا بیماری اور ایک سے زیادہ چھٹی کرنے پر کٹوتی بھی اس میں شامل نہیں ہوتی۔
بعض اوقات سکول اساتذہ کے لئے ٹرپس کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ وہ ابھی اپنے خرچے پر اور اگر کوئی استاد کسی وجہ سے ٹرپ پر نہ جانا چاہے تو اس سے رقم لازمی موصول کی جاتی ہے۔ بلکہ جبرا ًروپے وصول کئے جاتے ہیں۔ اور اوپر سے انتظامیہ احسان جتاتی ہے کہ ان کیلئے انتظامیہ نے بڑی قربانی دی ہے۔ جب کہ اس ٹرپ میں سے بھی منافع سرمایہ دار کی جیب میں جاتا ہے۔ ان میں وہ رقم بھی شامل ہوجاتی ہے جو وہ نئے اساتذہ کو تین یا دوماہ کی چھٹیوں میں ادانہیں کرتے۔
علاوہ ازیں ایک طرف تو اساتذہ کو ملازمت کے لئے دی جانے والی درخواستیں دکھا ئی جاتی ہیں جو ملک میں برھتی ہوئی بیروزگاری کی عکاسی کرتی ہیں۔ دوسری طرف وہ ہمیشہ ایسے نئے شکار کی تلاش میں رہتے ہیں جو نیا نیا گریجویٹ ہوا ہو۔ اس کو بڑی خوش دلی سے قبول کیا جاتاہے۔ اور وہ اساتذہ جن کو تین ماہ کی چھٹیوں کی تنخواہ کا جھانسا دے کر کم تنخواہ پر راضی کر لیا جاتا ہے ان کو گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد ٹیکنیکل وجوہات کی بنیاد پر جبراً فارغ کردیا جاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات ایسے حالات پیدا کر دئیے جاتے ہیں کہ وہ ذلت ورسوائی سے بچنے کے لئے خود استعفیٰ دے دیں۔ اس میں سکول یا کالج انتظامیہ کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو سیکورٹی (ملازمت کے وقت سکول انتظامیہ سیکورٹی کے طور پر استاد کی اصلی تعلیمی اسناد یا پہلے ماہ کی تنخواہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں) ان کو استعفیٰ دینے کی صورت میں ادا نہیں کرنی پڑتی۔ اس کے علاوہ اگروہ کسی ملازم کو بتائے بغیر ملازمت سے فارغ کر دیتے ہیں تو کم از کم ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض تعلیمی ادارے ہر ماہ سیکورٹی کے نام پر بھی ہر استاد کی تنخواہ میں سے رقم کاٹ لیتے ہیں جو ان کو ملازمت ختم ہونے کے بعد ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس طرح جبراً اپنی مرضی سے ملازمت چھوڑنے والا ذلت کی وجہ سے اپنی سیکورٹی لینے نہیں آتا اور وہ ایسا کرنے کی ہمت جٹالے بھی تو سرمایہ دار ایک دھیلہ ادا نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اس وقت تک ٹالتا رہتا ہے جب تک اس کو نئی ملازمت نہیں مل جاتی۔ کیونکہ وہ ایک تو مصروف ہوجاتا ہے دوسرا اس کو چھٹی کرکے یا لے کر آنا ہوتا ہے تو اس کو مزید نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے اس لئے سرمایہ دار کی ہٹ دھرمی کو خدا کی مرضی سمجھ کر صبر شکر کر لیتا ہے۔ لیکن اسکے برعکس ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے جو سرمایہ دار کو احتجاج کرنے کی دھمکی دیتا ہے یا اپنی محنت کا معاوضہ یا اپنے حق کیلئے لڑنے کو تیار ہوتا ہے ان چند نابغہ روزگار کو اپنا حق جدوجہد کے بعد مل جاتاہے۔ اور ایسے اساتذہ کی کمی نہیں جو کسی صورت سرمایہ دار کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے نہیں دیتے۔ وہ اس وقت تک اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے رہتے ہیں جب تک انتظامیہ ان کو پیشگی تنخواہ دے کر جان نہیں چھڑاتی۔
خواتین اساتذہ سے جنس کی بنیاد پرامتیازی سلوک روارکھا جاتا ہے۔ ان کو مرد اساتذہ کی نسبت کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ پھر ان کے اوقات کار مقرر نہیں ہوتے۔ چند ہزار روپوں کے بدلے ان کو اپنا غلام سمجھ لیا جاتا ہے۔ گھر والے بھی ان سے غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں اور گھر میں بھی ان کو اپنے بارے میں فیصلے کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ اسی طرح سکول انتظامیہ بھی ان کو زر خرید غلام تصور کرتی ہے حلانکہ وہ اجرتی غلام ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے آپ کواستاد سمجھ کر اور معلمی کو پیغمبرانہ پیشہ سمجھ کر نازاں سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت میں ان کی حیثیت اجرتی غلام کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ اگر ان کا گمان درست ہوتو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔چھٹی کے بعد بھی ان کو بلا وجہ محض اطاعت کا جذبہ پیدا کرنے کی خاطر روک لیا جاتاہے۔ اگر بروزہفتہ کو طلبہ کو چھٹی ہوتو پھربھی اجرتی غلام کو بلایا جاتا ہے۔ انکار کی صورت میں محنت کش اساتذہ پر ملازمت سے برطرفی کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی ہے اور اگر کوئی انکار کرے یا اپنے حق کیلئے آواز اٹھائے تواسے ہراساں کیا جاتا ہے کہ اس کو ملازمت سے فارغ کر دیا جائے گا۔ اس کو تجربہ کا سرٹیفیکٹ نہیں دیا جائے گا یا پھر اچھا نہیں دیا جائے گا۔ اور سیکورٹی نہیں دی جائے گی اور اصلی اسناد بھی واپس نہیں کی جائے گی۔
ان کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور وہ بدنامی سے بچنے کے لئے چپ چاپ ملازمت اور سیکورٹی اور بعض اوقات تنخواہ بھی چھوڑ جاتی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کی ہراسگی کے خلاف قوانین بنائے گئے ہیں اور وہ ان درندہ صفت مالکان کے خلاف آ واز بلند کرنے کا قانونی حق رکھتی ہیں۔ بہت سی خواتین جنسی ہراسگی جیسے گھناؤنے ہتھکنڈوں کابھی سامنا کرتی ہیں اور اکثریت اس کیخلاف بر سر پیکار ہونے کی بجائے خاموشی کو ترجیح دیتی ہیں جس کی بڑی وجہ سماجی اور معاشی دباؤ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی کوئی یونین یا اساتذہ کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں موجودہ نہیں جو ان کے حق کے لیے آواز اٹھائیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں بھی سرمایہ داروں کی رکھیل بن چکی ہیں اس لیے ان سے بھی کسی تدریسی مزدور سمیت محنت کش طبقے کے کسی فرد کو کوئی توقع نہیں۔ کچھ خواتین اساتذہ اس جبر کیخلاف یقیناً آواز بلند کرتی ہیں جو لائق تحسین ہے۔ دیگر خواتین کو بھی وقت کی ٹھوکریں با ہمت اور پر عزم کر دیتی ہیں۔ جو خواتین سیاست سے دلچسپی رکھتی ہیں، اپنے فرائض کے ساتھ اپنے حقوق سے بھی آگاہ ہوتی ہیں وہ ہر جبر اور استحصال کے خلاف ڈٹ جاتی ہیں اور اپنا حق لے کر ہی چھوڑتی ہیں۔
دوسری طرف خواتین اساتذہ جو آٹھ گھنٹے اپنا خون پسینہ نچوڑنے کے بعد گھر واپس آتی ہیں توخاوند، ساس یا ماں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ گھریلو ذمہ داریاں بھی اسی طرح نبھائے جیسے وہ عورتیں انجام دیتی ہیں جو ملازمت پیشہ نہیں ہیں۔ اس طرح وہ بچوں کی دیکھ بھال کرتیں ہیں اور گھر کے تمام کام بھی انجام دیتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ تعلیمی ادارے کے اندر اساتذہ کے بچوں کے لئے بغیر کسی معاوضے کے اعلیٰ تربیت یافتہ عملہ موجود ہو جو بچوں کی مادرانہ جذبے سے دیکھ بھال کرے۔ اور اساتذہ کو بریک میں غذائیت سے بھر پور کھانا ملے اور وقتا فوقتا ان کو چائے یا کافی مل جائے اور گرمیوں میں ٹھنڈے مشروب میسر ہوں۔ اور چھٹی کے وقت ان کے اپنے اہل خانہ کیلئے کھانا بھی ملے۔ ہر محنت کش اپنی زندگی گزارنے کی خاطر ملازمت یا محنت کرتا ہے لیکن وہ زندگی اس وقت گزارتا ہے جب وہ کسی تفریح گاہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سیر کررہا ہوتا ہے یا پھر اچھا کھانا کھا رہا ہوتا ہے یا اپنے گھر میں بیوی بچوں اور والدین کے ساتھ گپ شپ کرتا ہے۔ لیکن ایسا وقت کبھی نہیں آتا۔ ساری زندگی کوہلو کے بیل کی طرح چکروں میں کٹ جاتی ہے۔ ایک سکول سے دوسرے سکول میں، ایک کالج سے دوسرے کالج میں۔ محنت کش کا استحصال کبھی ختم نہیں ہوتا، صرف مالک یا سرمایہ دار بدلتا ہے لیکن اس کا مقدر کبھی نہیں تبدیل ہوتا۔
یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک استحصال کا شکار اساتذہ منظم ہو کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کرتے۔ حال ہی میں نجی سکولوں کے اساتذہ نے خود کو ملک گیر سطح پر منظم کرنا شروع کیا ہے جو یقیناآگے کا قدم ہے اور اس کی بھرپور حمایت کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے پختونخواہ میں کچھ بڑے احتجاجی جلسے بھی منعقد کیے گئے ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے اور لاکھوں ایسے اساتذہ کو ایک پلیٹ فارم پر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تمام نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے یونین سازی کے حق کو اولین مطالبات میں رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس حوالے سے عملی اقدامات آگے کی جانب لیے جا سکیں۔ اسی طرح اس شعبے کے بڑے مگرمچھوں اور لٹیروں کیخلاف ہڑتال کا حق بھی استعمال کرنے کی جانب بڑھنا چاہیے جو ملک گیر سطح پر اپنے برانڈ کے نام پر اساتذہ کا بد ترین استحصال کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بھی اس حوالے سے اجرتوں کا تعین ہونا چاہیے اور احکامات پر عمل نہ کرنے والے سکولوں کو قومی تحویل میں لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے اورلاکھوں تعلیم یافتہ افراد کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جانے چاہئیں۔ یہ مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں اساتذہ کو اپنا احتجاجی سلسلہ بڑھاتے ہوئے دیگر شعبوں کے محنت کشوں سے جڑت بناتے ہوئے ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہوگا تاکہ ظلم اور استحصال پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ان تمام مسائل کو ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہوئے استحصال سے پاک سماج کی بنیاد رکھی جائے۔ ایک ایسا سماج جہاں کام کے اوقات کار کم ہوں، ہر انسان کو روزگار سمیت زندگی کی تما م سہولتیں میسر ہوں اور کوئی کسی پر جبر یا استحصال نہ کرسکے۔