|رپورٹ: ذوالقرنین لنڈ|
ملک بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب تمام صنعتی، شہری اور دیگر اہم کاروباری مراکز بند ہیں۔ لہٰذا اس تسلسل میں ٹنڈومحمد خان میں موجود پچاس کے قریب رائس ملز، پانچ شوگر ملز سمیت دیگر تمام کارخانے اور صنعتیں بھی بند پڑی ہیں اور ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کو بیروزگار کردیا گیا۔
جہاں ایک طرف حکومتی اعلانات محنت کشوں کی زندگیوں میں لطیفے بن کے رہ گئے ہیں، وہی ملز اور دیگر کاروباری مراکز کے مالکان کو بھی بس اپنے منافعوں کی فکر ہے۔ مل مالکان کی طرف سے کسی سہولت کی فراہمی تو دور کی بات بلکہ محنت کشوں کی اکثریت کو بے دخل کر دیا گیا ہے۔اور حکومت کی جانب سے بھی محنت کشوں کو کسی بھی قسم کی مدد نہیں کی گئی۔ امداد کے نام پر چند لوگوں کی تذلیل کے سوا کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے جارہے جس کے سبب محنت کشوں کو دو وقت کی خوراک فراہم ہو۔
دوسری جانب ٹنڈومحمد خان شہر میں 13 کے قریب افراد کرونا سے متاثر ہوئے ہیں۔ شہر میں ہسپتالوں کی تباہ کن حالات کے سبب ان کو حیدرآباد یا کراچی منتقل ہونے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ حیدرآباد شہر چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، مگر متاثرین کو وہاں منتقل کرنے کی کوئی بھی سہولت میسر نہیں۔
سندھ سرکار، مل مالکان اور ان کی دلال افسر شاہی کے بے ہودہ دعووں اور میڈیا کیمپین کے برعکس سندھ کے حالات دیگر صوبوں سے کچھ مختلف نہیں۔ حکمران طبقہ اپنے منافعوں کے چکر میں ہے اور عوام سہولیات میسر نہ ہونے کی صورت میں پریشان حال زندگی گزارہی ہے۔ لہٰذا ان تمام مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ مطالبہ کرتا ہے کہ ملز مالکان کی جانب سے محنت کشوں کو مستقل ملازمت دے کر تنخواہ جاری کرتے ہوئے ہیلتھ بونس بھی دیا جائے۔ خالی عمارتوں کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے انھیں کرونا سنیٹر میں تبدیل کیا جائے۔ دفاع کے بجٹ میں کٹوتی کر کے اسے صحت اور تعلیم پر خرچ کیا جائے۔ تمام وزرا، مشیران، ممبر پارلیمان، فوجی اشرافیہ،سول بیوروکریسی کی تمام مراعات ضبط کرکے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو حفاظتی آلات فراہم کرتے ہوئے ان کی تنخواہ میں کرونا رسک کے پیش نظر اضافہ کیا جائے۔ گھر گھر خوراک سمیت دیگر تمام سہولیات فراہم کی جائے۔