|ریڈ ورکرز فرنٹ، سندھ|
کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر پورے ملک میں لا ڈاؤن جاری ہے۔ اسی تسلسل میں ضلع سانگھڑ کی تحصیل ٹنڈوآدم کی بھی تمام رائس ملز، آئل ملز، صنعتوں، کارخانوں سمیت تمام کاروباری مراکز بند ہیں۔ جہاں ان مراکز کے بند ہونے کے سبب عوام ذہنی طور ہیجان کا شکار ہے وہی آئے دن خوراک حاصل کرنے کی پریشانی سے بھی الجھ رہے ہیں۔ جہاں پی پی پی سرکار کے بلند بانگ دعووں کے پردے چاک ہورہے ہیں وہی پاپولر فیکٹری کے مالک (پی پی پی کے سینیٹر امام الدین شوقین)سمیت تمام صنعت، پاور لومز، رائس ملز، آئل ملز، کاٹن ملز اور کارخانوں کے مالکان کی نام نہاد انسان دوستی کا فریب بھی لوگوں پر عیاں ہوگیا ہے۔ 70 سال سے تخت پر قابض وڈیروں (محمد خان جونیجو، فدا حسین ڈیرو،لالا ایوب سمیت دیگر) اپنے علاقے کی عوام سے بیگانگی اختیار کیے پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں کہیں راشن تقسیم کریں بھی تو وہاں مدد کے نام پر لوگوں کی تذلیل ہی نظر آتی ہے۔ نام نہاد انسان دوست این جی اوز کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔
صحت کا حال کچھ یوں ہے کہ تعلقہ اسپتال بند ہے اور نجی اسپتالوں کا تسلط جاری ہے جن میں سب سے بڑا نام حال ہی میں نجی میڈیکل کالج بنانے والے پی پی پی کے ضلعی رہنما امام الدین شوقین کا ہے۔ پھر بھی ایمرجنسی کے اس عالم میں میلوں کا سفر طے کر کے کراچی، حیدرآباد یا سکھر جا کے کرونا کے ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں۔ چند روز قبل ہی کرونا کے ایک مریض کی تصدیق ہوئی جو کہ ظاہری سی بات ہے کہ حقیقی اعداد وشمار نہیں ہیں، پر پھر بھی اسے مان لیا جائے تو ٹنڈوآدم جیسے شہر میں اسے روکنے کے لیے سہولیات کے بغیر کوئی قدم اٹھایا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا ان مسائل کے پیش نظر تمام بڑے نجی اسپتالوں کو قومی تحویل میں لے کر انھیں کرونا سنیٹر میں تبدیل کیا جائے۔ وڈیروں کے تمام فارم ہاؤسز کو قرنطینہ میں تبدیل کیا جائے۔ ڈاکٹر، پیرامیڈیکل اسٹاف اور نرسوں کو حفاظتی آلات فراہم کیے جائیں اور کرونا رسک کے سبب ان کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے۔ فیکٹریوں، کارخانوں سمیت دیگر تمام اہم پیداواری صنعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ محنت کشوں کو حفاظتی کٹس فراہم کریں اور انھیں صحت بونس بھی دیا جائے۔ سول اور ملیٹری بیروکریسی کے مراعات ضبط کرکے انھیں صحت اور تعلیم پر خرچ کیا جائے۔ صحت اور تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے دفاع کی بجٹ کو کم کر کے صحت اور تعلیم کی بجٹ بڑھا دی جائے۔ بجلی، گیس سمیت تمام بل نہ لی جائے۔ گھر گھر راشن سمیت دیگر ضرورت کا سامان مہیا کی جائے۔