کیا مشال خان کی شہادت رائیگاں چلی گئی؟
مشال خان کی شہادت نے کمزور اور متذبذب طلبا تحریک کو ایک نئی معیاری جست لگائی ہے۔ اس نے دکھایا ہے کہ فیسوں میں اضافے سے لے کر دیگر مسائل کے حل کے لیے جرات مندی اور ثابت قدمی کے ساتھ آج بھی لڑا جا سکتا ہے
مشال خان کی شہادت نے کمزور اور متذبذب طلبا تحریک کو ایک نئی معیاری جست لگائی ہے۔ اس نے دکھایا ہے کہ فیسوں میں اضافے سے لے کر دیگر مسائل کے حل کے لیے جرات مندی اور ثابت قدمی کے ساتھ آج بھی لڑا جا سکتا ہے
عبدالولی خان یونیورسٹی کے 23سالہ جرنلزم کے نوجوان طالب علم مشعل خان کا رجعتی بنیاد پرست ہجوم کے ہاتھوں پر تشدد قتل اس بات کی ایک نئی اور اعصاب شکن مثال ہے کہ کس طرح پاکستان میں بائیں بازو اور ترقی پسند قوتوں کے خلاف خوف و ہراس کا پر تشدد بازار گرم کیا جا رہا ہے
|تحریر: آدم پال| جمعرات 13اپریل کو مردان یونیورسٹی میں درندگی اور بربریت پر مبنی ایک دلخراش واقعہ دیکھا گیا۔ جرنلزم کے طالبعلم مشعل خان کو سفاک درندوں نے بہیمانہ تشدد کے ذریعے قتل کر دیا اور قتل کرنے کے بعد اس کی نعش کی تذلیل اور بے حرمتی کی گئی۔ […]
رپورٹ میں جہاں ریاستی اداروں کی زبوں حالی کا ذکر ہے وہاں اس امر کی نشاندہی نہیں کی گئی کہ آخر یہ دہشت گرد تنظیمیں کس کی بنائی ہوئی ہیں اور وہ کس مقصد کے لیے بر سر پیکار ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں ریاست کی اپنی بنائی ہوئی ہیں جو کہ اب خود ریاست کے گلے کا طوق بن گئی ہیں۔اور ریاستی ادارے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے انڈیا اور افغانستان پر الزام لگاتی ہیں، جس سے بلوچستان کے اندر ’’ایف سی‘‘ کی ہر گام پر چیک پوسٹوں کے حوالے سے سوال اٹھتا ہے کہ ان کا کیا مقصد ہے؟