|تحریر: ابن حسن|
’’یقینی طور پر جدید دور کے لئے، جو علامت کو عَلم (وہ چیز جس کی علامت ہے) پر، نقل کو اصل پر، نمائندگی کو حقیقت پر، ظاہر کو جوہر پرترجیح دیتا ہے، واہمہ ہی متبرک ہے، اورسچائی کفر۔ بلکہ، (اس نوع کے)متبرک پن کو اسی تناسب سے بڑھاوا دیا جاتا ہے جس سے سچائی کم ہوتی ہے اور واہمہ بڑھتا ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ ترین درجے کا واہمہ ہی اعلیٰ درجے کا متبرک پن بن جاتا ہے۔‘‘ (فیورباخ ’دیباچہ‘، عیسائیت کا جوہر، دوسرا ایڈیشن)
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تدریسی مزدوروں سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ ان کے فرائض میں سات یا آٹھ کلاسیں پڑھانے کے علاوہ طالب علموں کی کاپیوں کی جانچ پڑتال، امتحانی ڈیوٹی، تفریح کے وقت بچوں کی نگرانی کرنا، چھٹی کے وقت ان کے گھر روانہ ہونے تک سکول کے بڑے دروازے کے آگے ان کی حفاظت کرنا، سب کچھ شامل ہے۔ ہر سکول امتحان کی علیحدہ فیس وصول کرتا ہے لیکن اس میں سے کچھ بھی تدریسی مزدوروں کو نہیں دیا جاتا۔ اس کے علاوہ کئی کئی گھنٹے لمبی میٹنگز میں سکول کے مالک کی جھڑکیاں سننا اور علم التعلیم کے بارے اس کے احمقانہ ارشادات پر سر دھننا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔ یہ ارشادات اس لئے انٹ شنٹ پر مبنی ہوتے ہیں کہ سکولوں کے مالک اکثر اوقات ان پڑھ یا نیم خواندہ لوگ ہوتے ہیں۔ اور اگر کوئی پڑھا لکھا ہو بھی تو ضروری نہیں کہ وہ تعلیم جیسے نازک معاملات کے بارے کوئی آگاہی رکھتا ہو۔ علم التعلیم کے بارے ان کے عظیم خیالات والدین کو تسلی و تشفی دینے، انہیں بڑا خواب دکھانے پر مبنی ہوتے ہیں کہ ان کا بچہ دنیا کا سب سے ذہین طالب علم ہے اور اس کی کار کردگی یقیناًاعلیٰ درجے کی ہو گی۔ اسی لئے ان سکولوں میں آدھی کلاس اول آتی ہے اور باقی دوم۔ رہے سرکاری امتحانات، تو ان کا بھی مناسب بندوبست ہوتا ہے۔ پورے کے پورے سینٹر خرید لئے جاتے ہیں، پریکٹیکل کے نمبر لگوا کر، ان کے لئے اوپر کی پوزیشنز حاصل کر لینا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن ہم یہاں ان معاملات پر زیادہ بات نہیں کریں گے۔
پرائیویٹ اداروں کے خصوصاً اور سرکاری اداروں کے عموماً، اساتذہ کا علم سے قطعی تعلق نہیں ہوتا، تعلیم صرف روزگار کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں قدیم فقرے اب اپنی چمک دمک کھو چکے ہیں اگرچہ ان پر بہت دفعہ تقدس اور جذباتیت کی خوشبو چھڑکی جاتی ہے اور اس کو قدیم دور کے استادوں کی مثالوں سے سجانے کی کوشش کی جاتی ہے جو جدید دور کے منافع کی ہوس سے مل کر بالکل بے معنی گفتگو بن جاتی ہے۔
’منافع‘ کو عموماً اس افزودہ کا ر محن تک محدود کر دیا جاتا ہے، یعنی ایسی پیداوارجو لاگت سے زیادہ قیمت پر فروخت ہو اور اس طرح سرمایہ دار کوکچھ رقم زائد مل جائے جسے عام زبان میں منافع کہا جاتا ہے۔ منافع کہاں سے آتا ہے؟ بڑھائے گئے اصل سرمائے میں کون سا عنصر ہے جو اسے اصل سے بڑھا دیتا ہے؟ اس سارے عمل میں انسانی محن ہی ہے جو فعال کردار ادا کرتا ہے۔ اسے اصطلاحاً ’قدر زائد‘کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ صرف ’شے‘ کی پیداوار تک محدود نہیں۔ اس ضمن میں مارکس کا کہنا ہے :
’’تاہم دوسری طرف افزودہ کار محن کی بابت ہمارا ’Notion‘ تنگ پڑ جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ پیداوار فقط اشیا کی پیداوار نہیں، یہ بنیادی طور پر قدرِ زائد کی پیداوار ہے۔ مزدور اپنے لئے پیداوار نہیں کرتا بلکہ سرمایہ دار کے لئے پیداوار کرتا ہے۔ صرف اتنا کافی نہیں ہو گا کہ وہ فقط پیداوار کرے، اس کے لئے لازم ہے کہ قدرِ زائد پیدا کرے۔ فقط وہی مزدور افزودہ کار ہو گا جو سرمایہ دار کے لئے قدرِ زائد پیدا کرتا ہے اور اس طرح سرمائے کے خود کے پھیلاؤ کے لئے کام کرتا ہے۔ اگر ہم مادی چیزوں کی پیداوار کے کُرّے سے باہر کی مثال لیں، تو سکول کا ایک اُستاد صرف اس وقت ایک افزودہ کار مزدور ہو گا جب وہ اپنے تلامذہ کی ذہنی افزائش کے ساتھ ساتھ سکول کے مالک کو دولت مند کرنے کے لئے گھوڑے کی طرح کام کرے گا۔ مطلب یہ کہ آخرالذکر(یعنی سکول کے مالک) جس نے نیم سوختہ خوراک کی فیکٹری کے بجائے ایک ٹیچنگ فیکٹری میں اپنا سرمایہ استعمال کیا ہے، اس تعلق کو تبدیل نہیں کرتا۔ پس افزودہ کار مزدور کے نظریہ ’Notion‘ سے مراد فقط کام اور اس کے مفید اثر، مزدور اور محن کی مصنوعہ کا باہمی تعلق ہی نہیں، پیداوار کا ایک خاص سماجی تعلق بھی ہے، یعنی ایسا تعلق جس کی نمو تاریخی طور پر ہوئی ہے اور جو مزدور پر قدرِ زائد پیدا کرنے کے ایک براہِ راست ذریعے کی مہر ثبت کرتا ہے۔ چنانچہ افزودہ کار مزدور ہونا خوش بختی نہیں بلکہ بدبختی ہے۔ چوتھی کتاب میں اس نظریہ کی تاریخ بیان کی جائے گی تو یہ بات انتہائی واضح طور پر دیکھی جا سکے گی کہ کلاسیکی سیاسی معاشیات دانوں نے قدرِ زائد کی پیداوار کو ہر مقام پر افزودہ کار مزدور کی امتیازی خاصیت کہا ہے۔ پس افزودہ کار مزدور کی بابت اُن کی تعریف قدرِ زائد کی نوعیت کی تصریح کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے۔ چنانچہ’Physiocrats‘ مُصر ہیں کہ فقط زراعتی محن ہی افزودہ کار ہوتا ہے، کیونکہ ان کے بقول صرف وہی قدرِ زائد پیدا کرتا ہے۔ اور وہ ایسا اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اُن کے نزدیک قدرِ زائد لگان کے علاوہ اور کسی صورت میں بھی وجود نہیں رکھتا۔‘‘ (مارکس، سرمایہ، جلد اول، باب 17۔ ترجمہ امتیاز حسین، ابن حسن، marxists.org/urdu)
ان اداروں کے لئے بنیادی سرمایہ درکار ہوتا ہے جو عمارت، اس کی تزئین و آرائش، فرنیچر، اشتہار بازی پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ کوئی بھی خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر، یا قوم کی تعمیر کے لئے یہ پیسہ لگاتا ہے۔ تاہم اساتذہ پر کوئی خرچہ نہیں اٹھتا کیونکہ اول تو انہیں ایک ماہ پڑھانے کے بعد تنخواہ ادا کی جاتی ہے، بلکہ اکثر سکولوں کی مینجمنٹ نے یہ وطیرہ اپنا رکھا ہے کہ پہلے ایک مہینے کی تنخواہ بطور زرِ ضمانت رکھ لی جاتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ جب بھی استاد نے سکول چھوڑنا ہو وہ تین ماہ کا نوٹس دے، صرف اسی صورت میں ’دبائی گئی تنخواہ‘ انہیں ادا کی جائے گی۔ اس کے بدلے میں تدریسی مزدوروں کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ نہ تو انہیں تقرری نامہ ملتا ہے، نہ ملازمت کا تحفظ میسر ہوتا ہے۔ انہیں کوئی اتفاقی یا بیماری کی چھٹی بھی نہیں ملتی۔ بیماری یاضروری کام کی وجہ سے اگر وہ ادارے میں نہ آ سکیں تو اس دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ چند منٹ دیر سے آنے پر آدھے دن کی تنخواہ کی کٹوتی عام ہے۔ لیکن تعلیم میں سب سے بڑا مسئلہ گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔ اڑھائی یا تین ماہ کی چھٹیاں اور ان کی تنخواہ کوہڑپ کرنے کا بہت ہی آسان طریقہ اپنایا گیا ہے۔ کالجوں میں تعلیمی سال فروری میں ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا مئی کے اختتام کا انتظار کئے بغیر فروری اور بعض مضامین کے اساتذہ کو جنوری میں ہی فارغ کر دیا جاتا ہے۔ چھٹیوں کے بعد یہی اساتذہ یا بے روزگاروں کی ایک بڑی فوج ملازمت کی تلاش میں موجود ہوتی ہے جن میں سے کچھ کو ادارے کا مالک اپنی شرائط پر ملازمت دیتا ہے۔
مارکس نے ثابت کیا کہ مزدور کی مزدوری کا تعین اس کو اپنی قوت محن کو از سر نو پیدا کرنے کے لئے کم از کم ذرائع بقا کی فراہمی سے ہوتا ہے۔ لیکن تدریسی مزدور کی اجرت کا تعین شائد اس سے بھی کم درجے پر ہے۔ لیکن ان کے لئے اور بھی ذرائع آمدن ہیں جن میں ٹیوشن پڑھانا، امتحانی پرچوں کی جانچ پڑتال وغیرہ شامل ہیں۔ کئی چالاک مالکان یہ کہہ کر معاوضہ اور بھی کم کر دیتے ہیں کہ ان کے سکول میں ملازمت کی بدولت تدریسی مزدوروں کو ٹیوشن جیسے کام بھی میسر ہو جاتے ہیں اور وہ اس سے کافی رقم کما لیتے ہیں۔ یہ نہ جانے کون سی اخلاقیات ہے، کون سا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے کہ آپ کئے جانے والے کام کا معاوضہ اس لئے گھٹا دیں کہ مزدور اس کے علاوہ بھی کام کر لیتا ہے۔ پھر ٹیوشن بھی ایک علیحدہ نظامِ یہود ہے جو بالکل سیلز مین کی طرح عیاری کا استعمال کرتے ہوئے دس روپے کی چیز کو پچاس میں بیچنا ہے۔ یہ بات خود حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ کالجوں میں تین گھنٹے سے زیادہ کام نہ لیا جائے، یعنی چار سے زیادہ کلاسیں نہ دی جائیں کیونکہ تعلیم کے لئے بہر حال ذہن کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا اس سے زیادہ استعمال ممکن نہیں۔ دوسرے پینتالیس منٹ پڑھانے کے لئے وسیع تربیت اور تعلیم درکار ہے جو بذات خود ذہنی کام ہے۔ چونکہ ذہنی کام زیادہ مدت میں سیکھا جاتا ہے اور اس کو کرنا بھی مشکل ہوتاہے، یعنی اس کو کرنے میں زیادہ محنت خرچ ہوتی ہے اس لئے اس کا معاوضہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اب ایک آدمی جو چھ یا سات گھنٹے سکول یا کالج میں پڑھاتا ہے اور پھر چار پانچ گھنٹے ٹیوشن کرتا ہے تو اس کی زندگی کی اکتاہٹ، یکسانیت اور بیزاری اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ وہ ایک مشین کی طرح تعلیم کو بھی میکانکی کام کی طرح سر انجام دے گا۔
جتنا زیادہ سرمایہ ہو اتنی ہی بڑی سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کے پاس کم سرمایہ ہے تو وہ چھوٹی موٹی دکان کھولے گا۔ اسی طرح تھوڑے سرمائے سے گلی محلے میں ہی سکول کھولا جا سکتا ہے اور اس کی فیس بھی دکان کے مطابق ہو گی۔ سرمائے کی فراوانی کے تناسب سے دکان کا سائز، رکھ رکھاؤ اور شہرت بھی بڑھ جائے گی۔ نام بھی زیادہ انگریزی ہو جائے گا۔ فیس بھی اتنی بڑھ جائے گی۔ فیس کی زیادتی کو منصفانہ ٹھہرانے کے لئے انگریزی کتابیں بھی تعداد میں بڑھ جائیں گی۔ یہ وہ طریقہ ہے جو والدین کی انا کو بھی تسکین دیتا ہے ان کی ناک اونچا کرتا ہے۔ ان کی ’Snobbery‘ کوتسکین دیتا ہے۔
سستے سکولوں کی داخلہ فیس سے لے کر مہنگے سکولوں کی ڈونیشن وہ طریقہ ہے جو شائد کسی یہودی کے ذہن میں بھی نہ آیا ہو۔ ڈونیشن سے سکول و کالج کا بنیادی سرمایہ بھی مالک کو واپس آجاتا ہے۔ اب اس کا ادارہ خود اس کے سرمائے سے نہیں بلکہ لوگوں کے سرمائے سے چل رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ سرمائے کی واپسی کے بعد اضافی رقم بھی آمدنی کا ایک ذریعہ ہے۔ ان حقائق کو جان لینے کے بعد ہم قدرِ زائد کی شرح کا حساب کتاب کریں تو وہ ناقابلِ یقین حد تک بلند ہو گی۔ ہم دیکھیں گے کہ تدریسی مزدور بہت ہی تھوڑے وقت کے لئے اپنے آپ کے لئے کام کرتا ہے، یعنی لازمی عرصۂ محن بہت ہی کم ہے؛ اور زیادہ وقت کے لئے اپنے مالک کے فائدے کے لئے کام کرتا ہے، یعنی زائد عرصۂ محن نسبتاً بہت لمبا ہے۔ اس سے ملتی جلتی مثال خانقاہوں، مزاروں کی ہے جن پر سرمایہ کاری صرف قبر اور مزار کی عمارت کی تعمیرپر ہوتی ہے، اس کے بعد آمدن ہی آمدن ہے۔ کبھی مندا نہیں۔ بہت سے احمقوں کو روحانی ’شے‘ ملتی ہے۔ بے شمار مفت خورے اس آمدن پر پلتے ہیں۔ خود سرمایہ دارانہ طبعِ پیداوار کے اصولوں کے مطابق یہ کسی ملک یا قوم کی ترقی میں کوئی حصہ نہیں ڈالتے۔ لیکن سکول کا مالک بہر حال ایک ’شے‘ جسے تعلیم کہتے ہیں لوگوں کو فروخت کرتا ہے۔ اور وہ فروخت کے فن کا ماہر ہے۔ وہ جانتا ہے یہ شے کس طرح پیش کرنی ہے، اس کی پیکنگ کیا ہو گی، گاہک کے آگے کس انداز سے رکھنی ہے، اور اچھے سیلز مین کی طرح کیسے اس سے زیادہ سے زیادہ پیسے بٹورنے ہیں۔
پرائیویٹ اداروں نے ایک خاص حلیے اور حرکات والی مخلوق پیدا کی ہے جو اپنی تعلیمی قابلیت سے کم معاوضہ پاتی ہے لیکن خاص ’تہذیبی‘ ضروریات کی بنا پر ان کا ظاہر مزدوروں جیسا نہیں ہوتا۔ کوئی کتاب پڑھنا ان کی سرگرمیوں سے باہر ہے، کوئی علمی یا فلسفیانہ مسئلہ ان کی پہنچ میں نہیں، کوئی سیاسی یا سماجی عمل ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ لوگ اپنے مالکوں کی بولی بولتے ہیں، ان کی طرح تتلاتے ہیں، ان کی طرح اٹھنے بیٹھنے اور حرکت کرنے کی کوشش میں اپنی چال بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ گرمیوں میں بھی نکٹائی اور پینٹ کی کریز ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ٹیلی وژن پر ناچ دکھانے والے، سالن پکانے والے، پکوڑے تلنے والے، لقمہ کھانے والے، علم جھاڑنے والے، نقلیں اتارنے والے، عورتوں کو سرخی پاؤڈر لگانے والے، توپ چلانے والے اپنی گفتگو میں کہیں کہیں، بار بارانگریزی کا لفظ پھینکتے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ اردو میں انگریزی اور انگریزی میں اردو بولتے ہیں۔ اسے ’مہذب‘ ہونے کی نشانی سمجھا جاتاہے۔ تدریسی مزدوروں کو بھی، چاہے وہ کوئی بھی مضمون پڑھاتے ہوں، چند لفظ اور کچھ جملے رٹنا پڑتے ہیں جن کا استعمال ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ ان والدین کی خوشی کا کیا اندازہ لگائیے گا جن کا بچہ گھر آکر دروازے کو ڈور ’Door‘اور جوتوں کو شوز کہتا ہے۔ یہ بھی کوئی قابل اعتراض نہیں، اصل المیہ یہ ہے کہ بچوں اور استادوں کو کوئی زبان بھی تو نہیں آتی، نہ اردو، نہ انگریزی، نہ پنجابی۔
یہ بہت بڑی ثقافتی علامت (Cultural Indicator) ہے۔ اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارا قومی تعقل بے وقعت ہے۔ یہاں کوئی علمی روایت پیدا ہی نہیں ہوئی اور اگر پیدا بھی ہوئی تو اس کی کونپلوں کو ہی مسل دیا گیا۔ اور اب بے آب و گیاہ ریگستان میں تھوہر، اور کانٹے دار بوٹیاں فراوانی کے ساتھ موجود ہیں جن میں نہ تو کوئی خوبصورتی ہے نہ ہی ان کا کوئی مصرف۔ دکھاوے اور مصنوعی پن پر استوار کیا گیاتعلیمی ڈھانچہ نہ تو سائنس دان پیدا کرتا ہے، نہ عالم ودانشور، نہ شاعر نہ فلسفی۔ لیکن ان کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں بنا بنایا باہر سے میسر ہو جاتا ہے۔ باہر والے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا سوچنا ہے اور کس انداز میں۔ کن چیزوں کے بارے سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ان معاشروں میں جہاں پیداوار کی جدید صورتیں مروج ہیں، تمام زندگی ظاہرات کا ایک وسیع اجماع دکھائی دیتی ہے۔ ہر وہ چیز جو بلا واسطہ زندگی تھی، اب ایک ظاہر ہے۔ اس طرح سے اکٹھا ہونے والے ظواہر ایک دھارے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس میں زندگی کی وحدت آشکارا نہیں ہوتی۔ یہ ظاہرات کی اجنبی دنیا، اب اصل کا متبادل ہے جن میں جھوٹ بولنے والا اپنے آپ سے جھوٹ بولتا ہے۔ یہ ایسا عکس ہے جس کا اصل کوئی نہیں کیونکہ یہ خود مختار حیثیت اختیار کر گئی ہے جس کی حرکات خود اس کی اپنی ہیں۔ یہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہتا کہ جو کچھ مثبت ہے ظاہر ہے اور جو کچھ ظاہر ہے مثبت ہے۔ یہ وہ تاریکی ہے جو جدید دنیا پر ایسے چھا جاتی ہے کہ پھر کہیں سے روشنی کی کوئی کرن اس سے گزر نہیں پاتی۔ یہ صورت انسانوں کو اس حد تک اپنا غلام بنا لیتی ہے جس حد تک معیشت نے انہیں اپنا مطیع کر لیا ہے۔ یہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ معیشت اپنے آپ کو ترقی دے رہی ہے، جس کا مقصد انسانی نہیں۔ اور جب معیشت سماجی زندگی پر حاوی ہو جائے تو یہ انسان اور انسانی تکمیل کا خاتمہ کرکے وجود کو ملکیت تک گرا دیتی ہے۔ اگلے مرحلے میں ملکیت اور نیچے گر کر ظاہر میں تبدیل ہو جاتی ہے جس میں خود ملکیت اپنی وقعت اور اپنا وقار خود مختار صورت میں حاصل کر پاتی ہے۔ ساتھ ہی فرد کی طاقت ختم ہو گئی ہے اور یہ اپنے رنگ ڈھنگ اور محرکات سماج میں موجود ظاہرات سے لے رہا ہے۔ یہ اب حقیقت ہے اور یہی اسے کوئی شکل دیتی ہے۔
جہاں حقیقی بدل کر ظواہر، دکھاوے، اعرض، امیجزکی شکل اختیار کرتا ہے، یہ خود سے حقیقی کے بطور ہی لیا جاتا ہے اور فرد کے رویوں کا محرک بن جاتاہے۔ اب فرد دنیا کو مخصوص ارتباط کے ذریعے سے ہی دیکھ پاتا ہے، اب اس کی سچائی بلا واسطہ نہیں دیکھی جا سکتی۔ اس کا خاصہ یہ ہے کہ تبدیلی، تعمیر اور اس کے لئے کوشش ختم ہو جاتی ہے۔ انسان کے لئے مسئلہ موجود ظواہر سے بھری دنیا میں اپنے آپ کو قائم کرنا رہ گیا ہے۔ انسانی سوچ کا کام علم نہیں، بلکہ موجود ظواہر کو منصفانہ ٹھہرانا ہے۔ اس میں مذہبی واہمہ بھی نئی شکل اپناتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اس کو ختم نہیں کر سکی، اس نے ظواہر کی ما فوق الفطرت دھند کو زمین سے باندھ دیا ہے۔ زمینی زندگی اب اوپر کی طرف نہیں جاتی بلکہ زمینی جنت ہی میں اپنا مقام ڈھونڈتی ہے۔ مذہبی اعتقادات اور رسوم اب اوپر کی دنیا سے جڑت کے لئے نہیں بلکہ خود سے ظواہر بن کر انسان کے وجود کو ایک اور قسم کی بے معنویت عطا کرتے ہیں۔
علم، تعلیم، دانش، فلسفہ، تحقیق بھی اس ظواہرات کی دنیا کا حصہ ہیں۔ ایسی کوئی تعلیم نہیں جسے غیر جانب دار(نیوٹرل)کہا جا سکے۔ یا تو تعلیم نوجوان نسل کے موجود سسٹم کے منطق سے ہم آہنگ ہونے کے لئے استعمال ہوتی ہے، یا پھر یہ ’آزادی کا عمل‘ ہے جس میں مرد اور عورتیں حقیقت کو ناقدانہ انداز سے پرکھتے ہیں، موجود تعقل کو توڑتے ہیں اور اس کو نئی شکل دیتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ انسان کے معاشی، سماجی، سیاسی غلبے کی آگاہی دی جائے، جس کا کہ وہ خود شکار ہیں، انہیں زندگی کی مقرونی حقیقتوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار کیا جائے، انہیں اس صورت میں غرق کر دیا جاتا ہے جس میں یہ آگاہی اور رد عمل ناممکن ہو جاتا ہے۔ پاؤلو فرائرے (Paulo Freire) اسے ’بے زبانی کی ثقافت‘ کا نام دیتا ہے۔ نتیجے کے طور پر حکمران طبقہ ایسے ’پیادے‘ پیدا کرتا ہے جن کی شخصیت یک طرفہ اور یک رخی ہوتی ہے۔ کلرک صرف کلرک ہے؛ پیلے رنگ والا، غصیلا فرد جو صرف اپنی فائلوں سے غرض رکھتا ہے اور وہ بھی اتنا کہ ان سے ماہانہ تنخواہ کے علاوہ لوگوں کے لئے پریشانی پیدا کر کے چند ٹکے بھی حاصل ہو سکیں۔ افسر صرف افسر ہے؛ اعلیٰ مراعت یافتہ اور اعلیٰ تنخواہ یافتہ کلرک جو لوگوں کے لئے بڑی پریشانیاں پیدا کرتا ہے۔ اس طرح یہ شیر شیر کا حصہ بھی وصول کرتا ہے۔ استاد، جو طالب علموں کو علم دیتا ہے لیکن خود علم کا سب سے بڑا دشمن۔ جس نے اتنا ہی پڑھنا ہے جتنا کلاس ورک کے لئے ضروری ہے۔ پھر اس نے نوٹس، خلاصوں، گٹ تھرو گائیڈوں کے ذریعے ’لازمی طور پر ضروری علم‘کو کم کرنا شروع کر دیا۔ یہ اتنا کم کر دیا گیا کہ اب یہ انتہائی نچلے درجے تک پہنچ چکا ہے۔ دانشور، صحافی، ادیب سب نے اپنے آپ کو تنگ دائروں میں مقید کر لیا۔ یہ لوگ اپنی سچائیاں خود بناتے ہیں۔ ان کی پالتو سوچ لوگوں کو بھی پالتو بنانے کے لئے ہے۔ یہ ’حال‘کو اس طرح سے پالتو بناتے ہیں کہ ’مستقبل‘بھی اس قسم کی پالتو شکل اختیار کر لے۔ اس طرح سے سدھایا ہوا پالتو سچ رکھنے والا فرد ہر وقت خوف زدہ رہتا ہے کہ اس سچ کو بڑی آسانی سے جھوٹا ثابت کیا جا سکتا ہے، نتیجتاً وہ اس کے گرد اور زیادہ ’سچ‘ گھڑتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس بُنے ہوئے سارے جال میں سچائی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
سکھانے والے اور سیکھنے والے کے مابین تعلق کااس سماجی پس منظر کے بغیر درست تجزیہ ناممکن ہے۔ سکھانے والا اپنی لنگڑی لولی گفتگو کو قائم کرنے کے لئے بعض اوقات ایسی ہستیوں کا سہارا لیتا ہے جن کے گرد تقدس کا ہالا بُن دیا گیا ہوتاہے۔ ایسی صورت میں ناقدانہ سوچ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ استاد اور شاگرد میں استاد ہی ہے جو بیان کرتا ہے اور شاگرد سننے والا، مجہول فرد جو اس کی کہی گئی باتوں کو یاد رکھے گا، بلکہ انہیں رٹ لے گا اور پھر جتنا ممکن ہو اصلی صورت میں امتحان میں اگل دے گا۔ بقول فرائرے ’’تعلیم بیانیہ بیماری(Narration Sickness) میں مبتلا ہے۔۔۔ استاد حقیقت کے بارے ایسے بات کرتا ہے گویا یہ جامد ہو۔‘‘(پال فرائرے، تعلیم اور مظلوم عوام، صفحہ 57) یہ بیانیہ تفصیل شاگرد کے دماغ میں ٹھونس دی جاتی ہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ تاریخ میں یہ اسلاف کے کارناموں اور مخالف قوموں کے متعصب ذہن کے بارے ہوتی ہے۔ فلاں ملک کے دارالحکومت کا یہ نام ہے۔ فلاں معاہدے کی اتنی شقیں ہیں۔ شہری کے فرائض اور حقوق یہ ہیں۔ لیکن یہ کبھی نہیں بتایا جاتا کہ اس ملک کے دارالحکومت کی اس ملک کے عوام کے لئے کیا اہمیت ہے، اسلاف کے کارنامے انسانیت کو کیا دے گئے، کسی معاہدے کی شقوں سے کیا سیاسی یا سماجی اثرات رونماہوئے، شہری کے حقوق و فرائض پر ہمارے معاشرے میں عمل کیوں نہیں ہوتا۔ فرائرے اسے ایسا نظریہ تعلیم کہتا ہے جو ’بینکنگ‘ کے خصائص لئے ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تحقیق کے بغیر، انسانی عمل سے علیحدہ، انسان صحیح معنوں میں انسانی نہیں ہو سکتا۔ علم اسی وقت ارتقا پذیر ہوتا ہے جب انسان دریافت اور باز دریافت کے عمل سے گزرتے ہیں۔
ظواہر کی دنیا میں ثقافتی ہیرو، سیاسی ہیرو، پراپیگنڈہ مشینری، صحافت، ادب اور سب سے بڑھ کر تعلیم، حکمران طبقوں کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ہیں جو موجود صورتِ حال کو قائم رکھنے کے لئے ہیں۔ ان سب کا مقصد شعور کو بنے بنائے سانچوں میں ڈھالنا ہے جو موجود سماجی ڈھانچے کو قائم رکھے، اس کو تسلیم کرے اور اسی میں جگہ بنانے کو زندگی کا مقصد بنائے۔ کسی فرد میںیہ سوچ ہرگز نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ یہی صورت حال اس کے مادی مسائل کے علاوہ اس کی زندگی کی بے معنویت کی وجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقوں کی یہ جبلت بن چکی ہے کہ وہ ہر ایسے علم کی مخالفت کرتے ہیں جو تنقیدی سوچ پیدا کرتا ہو اور حقیقت کے جزوی نظرئیے کو چیلنج کرے۔
لیکن اس تعلیمی نظام میں نیکی کے بڑے بڑے منصوبوں کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ سماجی بہبود کے بارے بڑے بڑے منصوبوں کی بات ہوتی ہے۔ ’خادم خلق کی کہانی‘ جیسی کئی کہانیاں بچوں کو پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں۔ بڑے دلدوز قصے گھڑے جاتے ہیں کہ سلیم نے اپنی ٹوپی غریب آدمی کا قرضہ ادا کرنے کے لئے بیچ دی۔ بچوں اور بڑوں کو دوسروں کی’ہیلپ‘ کرنے کے وعظ کئے جاتے ہیں۔ باقاعدہ مضمون موجود ہے جو ’’کیخوٹے جیسے منصوبوں‘‘ کو سائنسی شکل دینے کے لئے ہے۔ اس صورت حال میں بقول فرائرے ’تعلیم کے بینکنگ سسٹم‘ کے ساتھ’پدرانہ سوشل ایکشن آپریٹس‘ جوڑا جاتا ہے۔ ’مظلوم و مقہور لوگ صحت مند معاشرے کی پتھالوجی ہیں‘ اور اس صحت مند معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ ان ’نکمے، نااہل اور ناکارہ لوگوں‘ کو اپنے ڈھانچے کے مطابق ہم آہنگ کرے۔ ’’معاشرے کے آخری سرے پر رہنے والے ان لوگوں کو صحت مند معاشرے میں کسی نہ کسی طرح رکھنا ضروری ہے جسے انہوں نے چھوڑ دیا ہے، جس کے اعلیٰ اصولوں کو انہوں نے بھلا دیا ہے۔‘‘
درحقیقت آخری سرے پر رہنے والے لوگ خود اس معاشرے کی پیداوار ہیں اور اس کے ڈھانچے کا لازمی نتیجہ ہیں۔ حل یہ نہیں کہ انہیں سوشل ورک، یا نیکی کے بے معنی منصوبوں سے معاشرے سے ہم آہنگ کیا جائے، بلکہ آخری اور حتمی علاج یہی ہے کہ اس سماجی نظام کو ختم کیا جائے جو اس طرح کے لوگ پیدا کرتا ہے، انہیں انسانیت سے نچلی سطح پر رہنے پر مجبور کرتا ہے اور ان کی انسانیت چھین لیتا ہے۔
مزید پڑھئے: