|تحریر: بین کری، ترجمہ: ولید خان|
پچھلے سال دسمبر میں اسلامی گروہ HTS (حیات تحریر الشام) نے دمشق پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد سے یورپی سفارت کار اور عرب قائدین اب سوٹ بوٹ میں ملبوس سابق داعش اور سابق القاعدہ کمانڈر الجولانی سے مسلسل ملاقاتیں کر کے نئی حکومت کی ساکھ بنا رہے ہیں جس میں پریس برابر کی مجرم ہے۔ اب ہمیں دمشق میں ان سب کے مشترکہ دوست کا حقیقی مکروہ چہرہ دکھائی دے رہا ہے۔ جمعہ کے دن سے الجولانی کے وفادار جنگجو ساحلی دیہات، قصبوں اور شہروں کو تاراج کرتے ہوئے ایک نسل کش قتل عام کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک 1 ہزار 200 علوی شہری مارے جا چکے ہیں۔۔ مرد، خواتین اور بچے جن کا جرم یہ ہے کہ وہ علوی ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
جمعہ کے دن سے HTS کے جنگجو یہ قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مغربی سامراجی اور ان کے ترکی، اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں موجود رجعتی دوست اس گھناؤنے انسان سوز جرم کے ذمہ دار ہیں۔
ان کی مداخلتوں، پیسوں اور ہتھیاروں کے نتیجے میں یہ قصائی آج برسر اقتدار ہیں۔ ان کی مہربانی سے شام آج فرقہ وارانہ قتل و غارت اور ایک نئی زیادہ خون آشام خانہ جنگی کے دہانے پر لڑکھڑا رہا ہے۔ ابھی پہلے سے بہایا گیا خون خشک نہیں ہوا اور مغرب میں مجرم سچائی کو پیروں تلے روندتے ہوئے اپنے جرائم کی پردہ پوشی اور نئے جرائم کی تیاری کر رہے ہیں۔
اندھا دھند نسل کشی
جمعرات کے دن شام کے شمال مغرب میں مسلح علوی ملیشیاء اور HTS حکومت کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔ حکومت اور اس کے حامی علویوں کو سابق ”اسد نواز وفادار“ قرار دے رہے ہیں۔ یورپی یونین نے ایک اعلامیے میں HTS قاتلوں کو متاثرہ پارٹی اور سابق حکومت کی ”باقیات“ کو مجرم پارٹی بنا کر پیش کیا ہے!
”یورپی یونین سخت ترین الفاظ میں مبینہ اسد نواز عناصر کی جانب سے شام کے ساحلی علاقوں میں عبوری حکومت کی قوتوں پر حالیہ حملوں اور شہریوں کے خلاف تمام تشدد کی شدید مذمت کرتی ہے۔“
علوی شامی عوام کا 10 فیصد ہیں اور ساحلی علاقوں میں مرکوز ہیں۔ یہ حقیقت کسی کے لیے حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد وہ غیر مسلح نہیں ہوئے۔ آج شام میں کسی بھی مذہبی یا نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو اگر اپنی زندگی پیاری ہے تو وہ غیر مسلح ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
ساحلی علاقوں میں لڑائیوں کے بعد الجولانی نے اعلان کیا کہ شہری علاقوں میں ایک ”صفائی آپریشن“ کیا جائے گا اور مزید جنگجو HTS میں بھیج دیے۔ فرانسیسی اخبار لی مونڈ (Le Monde) کے مطابق اس اعلان کے ساتھ سلافی مسجدوں سے جہاد کے لیے مزید اعلان بھی شامل ہو گئے۔ جمعہ تک ہزاروں مسلح جنگجو ساحلی علاقوں پر چڑھائی کر چکے تھے جن میں کئی بیرونی جنگجو بھی شامل تھے جن کی پہچان ان کا شامی کے بجائے کلاسیکی عربی لہجہ تھا۔
اگلے 72 گھنٹوں میں ان گروہوں نے علویوں کا اندھا دھند قتل عام کیا۔ سڑکوں کے کناروں پر خون میں لت پت لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ جہادیوں نے گھر گھر جا کر سونا، گاڑیاں اور ہر وہ چیز لوٹ لی جسے لوٹا جا سکتا تھا اور پھر پورے کے پورے خاندان موت کے گھاٹ اتار دیے۔ خاندان دم سادھے گھروں کے تہہ خانوں یا چھتوں پر پناہ لینے کی کوششیں کرتے رہے لیکن کوئی کونا محفوظ نہ تھا۔ کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں علوی مردوں کو زمین پر رینگنے اور بھونکنے پر مجبور کرنے کے بعد گولی مار کر قتل کیا جا رہا ہے۔
لیکن اس تمام قتل عام کے دوران مغربی پریس مسلسل ہمیں بتا رہا ہے کہ اسد کا تعلق علوی فرقہ سے تھا۔ BBC نے بے بنیاد الزام لگایا کہ یہ ”سابق معزول قائد بشار الاسد کے وفادار علاقے ہیں“۔ BBC اور دیگر کا مؤقف یہ ہے کہ کوئی نسل کش قتل عام نہیں ہو رہا بلکہ یہ سیاسی نوعیت کے ”انتقامی قتل“ ہیں (یہ BBC کے الفاظ ہیں) جن کا نشانہ پرانی ریاست کے حامی ہیں۔
یہ ایک غلیظ اور گھٹیا جھوٹ ہے۔ جہادی گروہوں نے بلاامتیاز ہر علوی کو قتل کیا جن میں وہ افراد بھی شامل تھے جو جرأت مند مخالفت کی پاداش میں سالہا سال اسد کی جیلوں میں سڑتے رہے۔ پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں HTS جنگجو واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ وہ کس کو اور کیوں قتل کر رہے ہیں۔۔ وہ علویوں کو قتل کر رہے ہیں جو ان کی نظر میں مرتد ہیں۔
خود ”عبوری صدر“ الجولانی نے 2015ء میں شامی القاعدہ کے سرکاری سربراہ کے طور پر کہا تھا کہ علوی ”خدا اور اسلام کے مذہب سے خارج ہو چکے ہیں“ اور ان کے لیے زندہ رہنے کی ایک ہی امید ہے کہ وہ دوبارہ ”حلقہئ اسلام“ میں واپس آ جائیں۔
”عبوری حکومت کی قوتیں“ اور ”پرتشدد دھڑے“
یقینا 2015ء کو گزرے کافی عرصہ ہو چکا ہے اور اب الجولانی (سرکاری طور پر) اپنے گروہ اور القاعدہ کے درمیان قطع تعلقی کر چکا ہے۔
جب سے دسمبر میں HTS نے دمشق پر قبضہ کیا ہے، اس کے بعد سے یورپی فوری طور پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے سفارتی تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں۔ الجولانی اور یورپی منصب داروں کے درمیان بڑی تیزی سے اعلیٰ سطحی کی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔
اس قتلِ عام کے آغاز سے دو دن پہلے یورپی کمیشن کا صدر کوستا الجولانی کے ساتھ بیٹھا بے حیائی سے دانت نکال رہا تھا۔ چہرے پر ستم ظریفی کا ایک شائبہ ظاہر کیے بغیر اس نے تاریخی الفاظ میں یونین کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”یورپی یونین مکمل طور پر شام میں جمہوری، پر امن اور شمولیت پر مبنی عبوریت کی حمایت کرتی ہے“۔ اس سے چند ہفتوں پہلے یورپی یونین شام پر پابندیوں میں نرمی کا فیصلہ بھی کر چکی ہے۔
یقینا یورپیوں کو الجولانی سے کچھ چاہیے۔ کیا چاہیے؟ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے چند ایک یورپی ممالک نے شامی پناہ گزینوں کی درخواستوں پر عمل درآمد روک دیا ہے اور آسٹریا نے تو شامی مہاجرین کو جہادی قبضے میں موجود شام واپس بھیجنے کا عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ جب سے مغرب نے شام کو تباہ و برباد کیا ہے اس کے بعد سے اب تک 10 لاکھ شامی پناہ گزین یورپ میں رہ رہے ہیں اور اب یورپی ریاستیں پورے براعظم سے ان کا صفایا چاہتی ہیں۔
اب جبکہ اتنے ”جمہوری“، ”پرامن“ اور ”شمولیت“ پسند جہادی گھر میں اقتدار پر قبضہ کر چکے ہیں تو واپس کیوں نہیں جانا چاہیے؟
ہم دہراتے ہیں کہ مغربی سامراج موجودہ تباہی و بربادی کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے شام میں موجود جہادی گروہوں کو اسلحہ اور پیسہ دیا ہے۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ اس قرون وسطیٰ کی بربریت کے لیے اپنی سفاک حمایت کو احتیاط سے ایک دیو مالا بنا کر پیش کیا ہے۔ اس پرفریب کہانی کے مطابق وہ ”اعتدال پسند باغیوں“ اور زیادہ ”جنونی“ القاعدہ اور داعش جیسے گروہوں میں فرق واضح کرتے ہیں۔ اب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہمیں سابق اور موجودہ HTS کے درمیان فرق کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے!
جمعرات کے قتل عام کے بعد سے اب تک زیادہ تر مغربی پریس مسلسل جھوٹ بول رہا ہے کہ دانت نکال کر اعلامیے جاری کرنے والے ”اچھے“ اسلام پسندوں اور نسل کش قتل عام کرنے والے ”برے“ اسلام پسندوں کے درمیان فرق ہے۔ یہ ”حکومتی سیکیورٹی قوتوں“ کا کوئی خاص عمل نہیں تھا بلکہ بدقسمتی سے کچھ ”پُرتشدد دھڑوں“ کا آزاد قدم تھا۔
لیکن اب تک جتنی ویڈیوز منظر عام پر آئیں ہیں ان سب میں واضح طور پر قاتلوں نے حکومتی وردیاں پہن رکھی ہیں۔ ایسے بھی کئی واقعات ہیں کہ ٹینک براہ راست شہریوں کے گھروں پر گولے برسا رہے ہیں۔ یہ ”پُرتشدد دھڑے“ فوج، HTS اور شام میں موجود مسلح جہادیوں کے عمومی نظام کا حصہ ہیں جس کی بنیاد پر موجودہ ریاست کھڑی ہے۔
الجولانی نے اس قتل و غارت گری کی ایک ”مکمل تفتیش“ کا اعلان کیا ہے۔۔ یعنی وہ ایک باعزت سیاست دان کی تمام لفاظی سیکھ چکا ہے!۔ اس ”مشترکہ آپریشن“ کے نتائج عوامی ساکھ اور سفارت کاری کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ جب الجولانی نے باولے جہادی کتے علوی علاقوں میں بھیجے تھے تو اس کا مقصد ایک نسل کش قتل عام برپاء کرنا نہیں تھا۔ لیکن وہ مکمل کنٹرول میں نہیں ہے۔
درحقیقت یہ القاعدہ ہی ہے جو ایک اور نام سے اقتدار پر براجمان ہے جس کا قائد ایک سوٹ بوٹ میں ملبوث قاتل ہے۔ یہ ساری صورتحال عام جہادی جنگجوؤں کے لیے ضرور مضحکہ خیز اور چڑانے والی ہو گی جو ویسے ہی اپنی مرضی کے مالک ہیں۔
آگے کیا ہو گا؟
مغربی ساحل پر آپریشن کی ”زیادتیوں“ کے علاوہ الجولانی اور ریاست اس آپریشن کے نتائج سے بہت خوش ہے۔ لیکن یہ نتائج کیا ہیں؟ دونوں طرف تقریباً 250 جنگجوؤں کی موت کے بعد 1 لاکھ شہریوں سمیت علوی ملیشیاء کا شہری علاقوں سے صفایا کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر پہاڑوں اور ساحل کے ساتھ گھنے درختوں میں جا چھپے ہوں گے۔
یہ لڑنا بند نہیں کریں گے اور اب ان میں کئی اور افراد قائل ہو چکے ہوں گے کہ زندہ رہنے کے لیے اسلحہ اٹھانا لازم ہو چکا ہے۔ خطے کو پُرامن کرنے کے برعکس ساحلی اور دیگر علاقوں میں نسلی ملیشاؤں میں بڑھوتری تیزی سے بڑھے گی۔ خانہ جنگی افق پر منڈلا رہی ہے۔
اس خونی تباہی کے گرد کھڑے سامراجی شام کے ٹکڑے کرنے کے لیے اپنی چھریاں تیز کر رہے ہیں اور ایک نئی جنگ شام کو میدان جنگ، قتل عام اور تقسیم کی آماجگاہ بنانے کے درپے ہے۔۔ ترکی اور اسرائیل کے درمیان جنگ۔
ہم نے یورپیوں کی تعفن زدہ منافقت دیکھی ہے۔۔ لبرل، انسان دوست یورپی۔ جب سے الجولانی نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے یہ مسلسل اس سے پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ لیکن اس وقت دمشق کے پیچھے اصل قوت اردوگان ہے۔
کئی سالوں سے وہ بہت احتیاط اور چالاکی سے ایک کھیل بنا رہا ہے۔ اس نے روس اور امریکہ کے درمیان توازن پیدا کر کے اپنے مفادات کو آگے بڑھایا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس نے سرحد پار شام میں ترک طاقت اور اثر و رسوخ کو بڑھایا ہے جس میں HTS جیسے گروہوں نے اس کی پراکسیوں کا کردار ادا کیا ہے۔
دسمبر میں بائیڈن کی انتظامیہ یقینا فوج کشی سے آگاہ تھی اور اس کی اجازت دی گئی یا نہیں، کم از کم اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ایک FSA (Free Syrian Army) کمانڈر بتا چکا ہے کہ HTS کی فوج کشی سے فوری پہلے برطانوی اور امریکی انٹیلی جنس افسران نے اسے بتایا تھا کہ ”سب کچھ تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ یہ تمہارا وقت ہے۔ اسد ختم ہو گا یا تم ختم ہو جاؤ گے۔“
لیکن ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ یورپیوں کے ساتھ ایک بالکل مختلف زبان ستعمال کر رہا ہے جس کے مطابق ”ریڈیکل اسلامی جہادیوں جن میں بیرونی جہادی بھی شامل ہیں جو حالیہ دنوں میں مغربی شام میں عوام کا قتل عام کر رہے ہیں“ کی مذمت کی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ ”شام کی مذہبی اور نسلی اقلیتیں جن میں عیسائی، دروز، علوی اور کرد کمیونٹیاں شامل ہیں“ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ٹرمپ کو اس وقت شام سے ہر صورت نکلنے کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے۔
اسرائیلی بھی علوی عوام کے محافظ بن کر سامنے آئے ہیں۔ اندازہ کرو، اسرائیلی نسل کش قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں!
یہ منافقت کی انتہاء ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی نسل کش جنگ کی حمایت امریکہ کر رہا تھا جس نے اسد کے مرکزی حامیوں ایران اور حزب اللہ کی توجہ بانٹ دی اور اسی بنیاد پر اسد ریاست کا فوری خاتمہ ہو گیا۔ اس جنگ نے HTS کے لیے سازگار حالات پیدا کر دیے جس کے بعد وہ اندر سے گل سڑ کر برباد ہو چکی اسد ریاست کو لات مار کر گرانے میں کامیاب ہو گئے۔ اپنی سرگرمیوں سے اسرائیلی سامراجی بھی علویوں کو درپیش مستقبل کے ذمہ دار ہیں۔
درحقیقت اسرائیل ”نسلی اقلیتوں کی حفاظت“ کی لفاظی کرتے ہوئے جنوبی شام میں زمین ہتھیا رہا ہے۔ وہ گولان ہائیٹس سے کہیں آگے زمین پر اس جواز پر قبضہ کر رہا ہے کہ وہ دروز (Druze) کو ”محفوظ“ کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی حالیہ چالبازیوں میں شامی دروز (Druze) کو سرحد پار کر کے اسرائیل میں کام کرنے کی اجازت دینا شامل ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کے شمال میں ایک دروز آبادی موجود ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان شام پر ایک معاہدہ ہو چکا ہے جس کے مطابق اسرائیلی غیر معینہ مدت تک ملک میں رہ سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے شائد اسرائیلیوں کو غزہ میں زبردستی جنگ بندی پر مجبور کرنے کے بدلے میں نتن یاہو کے آگے یہ ہڈی پھینکی تھی۔
لیکن شام میں اسرائیل کے عزائم زمین پر قبضہ کرنے سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں۔ اسرائیل شام کو کمزور اور منقسم رکھنا چاہتا ہے جو ترکی کے عزائم سے یکسر مختلف ہے کیونکہ وہ HTS کے کنٹرول کو علوی اور کرد علاقوں پر کامل دیکھنا چاہتا ہے۔
رائٹرز خبر رساں ایجنسی سے بات کرنے والے ذرائع کے مطابق اسرائیل اصرار کر رہا ہے کہ روسی شام کے ساحلی علاقوں میں اپنے فوجی اڈے قائم رکھیں اور وہ امریکہ سے بھی بات کر رہا ہے کہ روسیوں کو یہاں رہنے دیا جائے تاکہ ”ترکی کو قابو میں رکھا جائے“ (یہ جملہ براہ راست اقتباس ہے)۔ مستقبل میں HTS اور اس کے پشت پناہ ترکی کے ساتھ جنگ میں اسرائیلی روسیوں کو ممکنہ اتحادی دیکھ رہے ہیں۔
ٹرمپ شام سے نکلنا چاہتا ہے اور اس لیے وہ ممکنہ طور پر حمایت کر سکتا ہے کہ ترکی اور HTS کو قابو میں رکھا جائے۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا روسی یہاں مزید رکنا چاہیں گے۔ فی الحال ان کے پاس یہاں علوی اکثریت علاقوں میں اہم فوجی اڈے ہیں۔۔ لتاکیا (Latakia) کے پاس ایک ہوائی اڈہ اور شاید زیادہ اہم تارتس (Tartus) کے پاس بحیرہئ روم پر ایک اہم بندرگاہ۔ بہرحال روس اور امریکہ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ایک بند کمرہ اجلاس بلانے کی مشترکہ کال دی ہے۔
اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ ترکی، اسرائیل اور ان کی پراکسیوں کے درمیان شام میں حالات تعلقات کی خرابی اور ممکنہ جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس امکان پر عالمی تجزیہ کار بہت زیادہ بات کر رہے ہیں۔
سامراج نے شامی عوام کو ہولناک تباہی و بربادی سے دوچار کر رکھا ہے۔ جب تک یہ نظام مشرق وسطیٰ اور دنیا سے اکھاڑا نہیں جاتا اس وقت تک اور بھی زیادہ تباہی و بربادی مقدر رہے گی۔ یہ نظام انسانیت کو صرف قتل عام، نسل کش لڑائیاں، نئی سامراجی مداخلتیں، نقل مکانی، بھوک اور موت ہی دے سکتا ہے۔
محنت کشوں اور غربا کو طبقاتی بنیادوں پر متحد ہونا پڑے گا جو نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیموں کو چیر پھاڑ دے تاکہ خطے میں موجود تمام رجعتی ریاستوں کا خاتمہ کرتے ہوئے سامراج کو یہاں سے لات مار کر باہر نکال دیا جائے۔ مشرق وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی اس خطے کی عوام کو لاحق عذابِ مسلسل کا خاتمہ کر سکتی ہے۔