’’اس میزائل گردی سے انفراسٹرکچر، توانائی اور پانی کی فراہمی کے ذرائع کی جو تباہی ہوگی اس کاخمیازہ کون بھگتے گا؟ وہ بچے، بوڑھے اور عورتیں ہی سب سے زیادہ اس جارحیت کی زد میں آئیں گے جن کا رونا رو کر امریکہ سامراجی جارحیت کرنے کی طرف جارہا ہے‘‘
[تحریر: فرانسیسکو میرلی، ترجمہ:اسد پتافی]
واشنگٹن میں ایک بار پھر جنگ کے نقارے بجائے جارہے ہیں۔ امریکہ کسی بھی وقت شام پر حملہ آور ہوسکتاہے۔ برطانیہ، جو کہ امریکی سامراج کا پرانا طبلچی چلا آرہاہے، نے بھی ہمیشہ کی طرح امریکہ کی ہمنوائی کا اعلان کیاہے۔ برطانوی پارلیمنٹ اس عسکریتی مشن کی حمایت کیلئے ایمرجنسی اجلاس کر رہی ہے۔ جنوری2011ء کے بعد شروع ہونے والی فرقہ وارانہ خانہ جنگی کے بعد، جس نے شام میں اس انقلابی لہر کو ایک طرف دھکیل دیاتھاجو عرب انقلاب کے بعد شام میں شروع ہوئی تھی، اب شام پر سامراج کی براہ راست جارحیت منظرنامے میں ایک بنیادی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوگی۔ فرقہ پرستانہ فسادات نے بشار کی حکومت کو مضبوط کر نا شروع کردیااور اس کی علویوں، عیسائیوں کی اقلیتوں سمیت شہری حلقوں میں حمایت بڑھنی شروع ہوگئی۔
ایک بار جب اپوزیشن نے استحصالی حکومت کے خلاف نوجوانوں کی عوامی تحریک کوایک مسلح لڑائی میں تبدیل کرلیاتو عوام اس لڑائی سے دور اورالگ تھلگ ہوتے گئے۔ اپوزیشن کی صفوں میں اسلحے اور دیگر لوازمات تک رسائی اور ان پر تسلط کے مسائل سامنے آنے شروع ہوگئے۔ جس کی وجہ سے سیاہ وتاریک رجعتی عناصر، سنی جہادیوں کی شکل میں، خاص طورپر النصرہ فرنٹ کے گرد منظم ہوتے چلے گئے۔ اس قسم کی عسکری تنظیموں کو غیرملکی جاسوسوں اور بے تحاشا مالی امدادکی فراہمی شروع ہوتی ہوگئی۔ اس سلسلے میں قطر اور سعودی عرب پیش پیش تھے۔ اس کے بعد سے کسی بھی انقلابی تبدیلی کی بات کرنے والے کو یا تو پس پشت دھکیل دیاگیا یا اسے کچل دیاگیا۔
جیسا کہ ہم جون میں لکھ چکے ہیں کہ امریکہ نے اسلحے کی فراہمی اور ٓزاد شامی فوج کی تربیت کے ذریعے صورت حال میں براہ راست مداخلت کرنے کی کوشش کی تاکہ جہادیوں کو اپوزیشن کی قیادت سے دور رکھ سکے لیکن یہ کوششیں ایک تو محدود تھیں اور پھر ان میں بہت تاخیر بھی ہوچکی تھی۔ اوبامہ کو کانگریس سے منطوری حاصل کرنے میں سخت خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران شام میں بشار الاسد کی عسکری طاقت بحال اور مضبوط ہوتی چلی گئی۔ اس وقت بشارالاسد واضح طورپر شام میں جاری جنگ کو جیت رہا ہے جس کی وجہ سے سامراج کو زیادہ کھلے اندازمیں جارحیت کی جلدبازی کا جنون چڑھ چکاہے تاکہ بشار کی بڑھتی ہوئی قوت کومرتکز ہونے سے روکا اور اسے کمزورکیاجائے۔
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال؟
21اگست کو اچانک ایک خبر سامنے آئی کہ دمشق میں اپوزیشن کے زیر کنڑول علاقے میں ’’سارن گیس‘‘ یا اور کسی کیمیکل ایجنٹ کے ذریعے سینکڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا ہے۔ اس کے فوری بعد ہی مبینہ طورپر اس کیمیائی حملے کی وڈیو بھی سامنے لائی گئی (بعض چینلوں پر یہ ویڈیو واقعے کے وقت سے بھی پہلے نشر کردی گئی) جن میں کئی ہسپتالوں اور جگہوں کو متاثرہ افراد سے بھرا ہوادکھایاگیا۔ انٹرنیٹ پر جاری ہونے والی اس وڈیو میں الزام لگایاگیا کہ یہ سرکاری فوج کی جانب سے کیا گیا ہے۔
ہفتے کے آخر پر صدر اوبامہ نے اپنی نیشنل سیکورٹی ٹیم کی میٹنگ بلائی تاکہ حملے سے قبل امریکہ کے لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے ایک رپورٹ تیار کی جائے۔ سوموار کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ ہمارے پاس ’’ثبوت‘‘ موجود ہیں کہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے ہیں اورشام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال نے ’’عالمی ضمیر‘‘ کو جھنجھوڑ کے رکھ دیاہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی کہانی میں کتنی صداقت موجود ہے۔ کیمیائی ہتھیار، شام کی سرکاری فوج اور اس کی مخالف مسلح اپوزیشن، دونوں کی دسترس میں ہوسکتے ہیں۔ کئی مبصرین نے قرار دیاہے کہ اگر یہ ہتھیار استعمال ہوئے بھی ہیں تو ممکن ہے کہ یہ کسی فاش غلطی کا نتیجہ ہو جو شام کی فوج کی جانب سے سرزد ہوئی ہو۔ یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اپوزیشن نے جان بوجھ کر یہ کیا ہو تاکہ امریکہ کی مداخلت کا رستہ ہموارکیاجائے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ سارا قصہ ہی جھوٹاہو۔ لیکن سچ کی تصدیق سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے، نہ امریکہ اور نہ ہی شامی اپوزیشن کیلئے۔ نام نہاد شامی باغیوں کا سارا مسئلہ اب یہ ہے کہ وہ اپنی شکست سے بچنے اور اپنی برتری قائم رکھنے کیلئے امریکی مداخلت کو آخری حل سمجھ رہے ہیں۔
بہت سے لوگ امیدیں قائم کرنا شروع ہوگئے ہیں اور بدقسمتی سے ان میں بائیں بازو اور ٹریڈیونینوں کے بھی بہت سے رہنما شامل ہیں کہ کسی طرح اقوام متحدہ بیچ بچاؤ کر کے معاملات کو مزید برانگیختہ ہونے سے بچا لے گی۔ لیکن ہم نے جون میں بھی کہا تھا:
’’اقوام متحدہ کا کو ئی کردار ہی نہیں۔ میدان جنگ کے واقعات سفارتکاری کی حدود وقیودسے باہر نکل چکے ہیں۔ اب جنگ ہی ہر معاملے کا فیصلہ کرے گی۔ ہم یہ بھی قرار نہیں دے سکتے کہ بشار حکومت کسی طوراپنے دشمنوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کر سکتی۔ لیکن ایسا کیا گیاتو یہ اس کا مکمل پاگل پن ہوگااور یہ امریکی سامراج کو براہ راست مداخلت کا موقع فراہم کردے گا‘‘
پچھلے مہینوں کے دوران شام کی سرکاری فوج بڑی حد تک اپوزیشن پر قابو پا چکی ہے اور اس نے اپوزیشن کی عسکریت کو بہت حد تک بے بس کردیاہے۔ جس کی وجہ سے طاقت کا توازن بدل گیاہے۔ جیسا کہ کہا جاتاہے کہ جنگ میں واحد سچ سب سے پہلی ہلاکت ہواکرتی ہے۔ یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ کچھ ہی سال پہلے جارج بش اور ٹونی بلیر نے عراق میں صدام حسین کے بارے ’’وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں ‘‘ بارے کتنے سچے جھوٹ بولے تھے!
سامراجی جارحیت کے عزائم کیا ہیں؟
سوال یہ نہیں ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے؟ اس نے کئے یا اُس نے کئے؟ سوال یہ ہے کہ شام میں ہونے والی خونریزخانہ جنگی کے دوران ایک لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں لیکن اب دو سال کے بعد اچانک ہی امریکی حکومت کو یہ خیال آگیا ہے کہ شام میں معصوم بچوں، عورتوں اورانسانوں کا قتل عام ہورہاہے۔ سامراجی قوتوں کی جانب سے فریقین کو اسلحے کی فراہمی سے پہلے کتنے لوگ مارے جا رہے تھے ؟ روس اور ایران نے بشار حکومت کو، جبکہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب اور قطر کے غیر مقدس اتحاد نے بشار مخالف عسکری اپوزیشن کو بھرپور امداد فراہم کئے رکھی ہے۔
بے گناہ اور بے موت مارے جانے والوں کی موت اپنی کہانی خود بیان کرتی ہے۔ کیا معصوم بچوں کو نام نہاد اسلامی جانبازوں کی جانب سے ان کے والدین کے سامنے تہہ تیغ نہیں کیا گیا؟ کیا شامی فوج یا اس کی مخالف اپوزیشن نے روایتی ہتھیاروں کے ذریعے ہزاروں بے گناہوں کوموت کے گھاٹ نہیں اتارا؟ کیا خالدیہ میں پورے کے پورے عیسائی اور علوی خاندانوں کو مذہبی جنونیوں نے گھروں اور عمارتوں میں محصور کرکیڈائنامائیٹ سے نہیں اڑایا؟ یہ سب مرنے والے انسان نہیں تھے؟ اس وقت عالمی ضمیر کہاں تھا؟ اب اچانک ایک ایسے واقعے پر امریکی سامراجیوں کی انسانیت کیوں جاگ اٹھی ہے جس کے ذمے دار کا تعین بھی نہیں ہوا؟ اور کیا امریکہ کے ذہین و فطین کروز میزائل حملے امتیاز کر سکیں گے کہ وہ جہاں تباہی پھیلا رہے ہیں وہ فوجی علاقے ہی ہیں اور وہاں سویلین آبادی نہیں ہو گی؟ اس میزائل گردی سے انفراسٹرکچر، توانائی اور پانی کی فراہمی کے ذرائع کی جو تباہی ہوگی اس کاخمیازہ کون بھگتے گا؟وہی بچے، بوڑھے اور عورتیں ہی سب سے زیادہ اس جارحیت کی زد میں آئیں گے جن کا رونا روکر امریکہ سامراجی جارحیت کرنے کی طرف جارہا ہے۔ سوال پیداہوتا ہے کہ اس جارحیت کے عزائم کیا ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی جارحیت کا مقصدشامی سرکاری فوج کی اس برتری کا قلع قمع کرناہے جو وہ اپنی اپوزیشن کے خلاف حاصل کرچکی ہے۔
امریکہ کے دفاعی ماہرین وقت حاصل کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ اپوزیشن کی فوجیں خود کو ازسرنو منظم اور مضبوط کر سکیں اور مقابلے کی کیفیت کو بحال کر سکیں۔ اس پالیسی کے ذریعے سامراجی قوتوں کو سازشیں کرنے کا موقع مل جائے گا اور وہ سفارتکاری اورامن کانفرنسوں کے ذریعے معاہدوں کا کھیل کھیلیں گے۔
امریکی سامراج کی جانب سے یہ انتہائی خطرناک لیکن انتہائی مایوس کن کوشش ہوگی۔ معاملہ حل ہونے کی بجائے، عین ممکن ہے اس سے بھی زیادہ بگڑ جائے اور امریکہ کے عسکری ماہرین اس خوف کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔ ویسے بھی شام کی خانہ جنگی مختلف سامراجی قوتوں کی پراکسی وار میں ڈھل چکی ہے۔
کچھ ذرائع کے مطابق روسی فوج نے بھی جدید S-300 دورمار میزائل شام کی فوج کے حوالے کر دیے ہیں جنہیں روسی ماہرین آپریٹ کریں گے۔ اگر روس کے فوجی اس جارحیت کی زد میں آتے ہیں تو اس کے بعد کیاہوگا؟امریکہ حال ہی میں خطے میں لائے گئے اپنے بحری بیڑے پرسے میزائل داغ سکتاہے۔ لیکن اس کے پاس ترکی سمیت کچھ اور بھی آپشن موجود ہیں۔
اس وقت انقلابیوں کیلئے لازمی ہے کہ وہ عالمی سطح پرامریکی سامراج کے عزائم کو بے نقاب کریں اور اس جارحیت کی شدید مخالفت کریں، کیونکہ اس جارحیت کا کسی بھی قسم کی انسانی ہمدردی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ شام کے معصوم عوام بلا وجہ متحارب سامراجی مفادات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور چڑھائے جارہے ہیں۔ نہ صرف شام بلکہ سارے مشرق وسطی کے عوام کیلئے امریکی سامراج کے پاس تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں پچھلے تین سالوں کے دوران لاکھوں کروڑوں لوگ بہتر معیار زندگی، روزگار، خودداری اور جابرواستحصالی حکومتوں سے نجات کیلئے سڑکوں پر نکل چکے ہیں۔ اس دوران کئی جگہوں پر انقلابی قوتوں نے حکومتوں کے تخت بھی اکھاڑے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ نظام کو نہیں اکھاڑ سکے جس کی کوکھ سے یہ بدعنوانی، جبرواستحصال جنم لیتا آرہاہے۔ تاہم لیبیا اور شام کے معاملے میں انقلابی قوتیں ناکام رہیں جس کی وجہ سے یہ ممالک خونریز خانہ جنگی اور ردانقلاب میں دکھیل دیے گئے۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ انتہائی بنیادی انسانی ضرورتوں کی تکمیل بھی سرمایہ دارانہ نظام کے بس سے باہر ہو چکی ہے۔
کسی بھی مذہبی یا نسلی تفریق سے بالاتر ہوکر ہم شام کے نوجوانوں اورمحنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ نہ تو سامراج کا اعتبار کیا جائے، نہ بشار حکومت کا اور نہ ہی رجعتی اپوزیشن کا۔ بلکہ تیاری کرتے ہوئے مشرق وسطی کے اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کی عمومی تحریک کا حصہ بنیں جو کہ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجیت کے خلاف جاری ہے۔ خطے میں آئے روز نئی انقلابی قوتیں پنپ رہی ہیں اور سرگرم ہو رہی ہیں۔ یہ انقلابی جدوجہد ہی وہ راستہ ہے جو کہ عرب دنیا کے انسانوں کوحقیقی آزادی سے ہمکنارکرے گا!