|تحریر: لوئس تھامس، ترجمہ: ولید خان|
انڈیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت سے منسلک ہے۔ یہ سیکٹر انڈیا کی کل مجموعی پیداوار (GDP) کا 17 فیصد ہے۔ لیکن سرمایہ داری نے زرعی سیکٹر میں حالاتِ کام میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں دی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال شدید گھمبیر ہو رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے سرمایہ دارانہ حکومتوں کی لبرلائزیشن اور نجکاری پالیسیوں سے کسان مسلسل قرضوں کی دلدل میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ گلی سڑی سرمایہ داری میں کسان زندہ رہنے کے لئے تاجروں اور عالمی کارپوریشنوں کے رحم و کرم پر ہیں جبکہ ان کا معیارِ زندگی مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں منظور ہونے والے زرعی قوانین کسانوں پر خوفناک حملہ ہے جو پہلے ہی ذلت کی چکی میں پِس رہے ہیں اور پورے ملک میں سالانہ ہزاروں کسان خودکشیاں کر رہے ہیں۔
ان نئے قوانین میں کسانوں کے لئے کوئی بہتری نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد ہی عالمی کارپوریشنوں کی تجوریاں بھرنا ہے۔ زرعی قوانین کے تحت کسانوں کو ایگری کلچرل پروڈیوس مرکزی کمیٹی (APMC) اور ریاستی کنٹرول میں منڈیوں سے باہر اپنی اجناس بیچنے کی اجازت ہو گی لیکن فرق یہ ہو گا کہ آڑھتی کی جگہ کارپوریٹ اجارہ داریاں لے لیں گی۔ کسان بڑے کاروبار کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ زرعی اجناس کے لئے ریاستی مقرر کردہ کم از کم سپورٹ قیمتیں (MSP) نئے قوانین میں شامل نہیں ہیں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کسان مزید غربت میں ڈوبتے چلے جائیں گے کیونکہ منڈی کو کنٹرول کرنے والے اجارہ دار انہیں پیداواری لاگت سے بھی کم قیمتوں پر اجناس بیچنے پر مجبور کریں گے۔ لازمی اشیاءِ خوردونوش ایکٹ میں ترامیم سے منڈی کے بڑے کھلاڑی آلو، دالیں، پیاز، چاول اور دیگر ضروری اجناس کی ذخیرہ اندوزی کر کے عوام کا مزید استحصال کریں گے۔ اس سے اشیاءِ خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جو پہلے ہی آسمان چھو رہی ہیں اور عوام کی ایک بھاری اکثریت غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو جائے گی۔ ان قوانین سے واضح ہوتا ہے کہ مودی سرکار محنت کش طبقے سے نہ صرف شدید نفرت کرتی ہے بلکہ اسے ان کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں۔
مودی سرکار میں زرعی سیکٹر کی لبرلائزیشن اور نجکاری کا عمل تیز تر ہوا ہے۔ کسانوں کی خودکشیاں ختم تو کیا ہوتیں ان میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ہر ماہ ماہراشٹرا میں 300 کسان اور پورے انڈیا میں 1000 کسان خودکشیاں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مودی سرکار تامل ناڈو جیسی ریاستوں میں ہائیڈروکاربن اور میتھین گیس کی تلاش میں نئے پراجیکٹ کی اجازت دے رہی ہے جن کے ذریعے کارپوریٹ منافعوں کے لئے زرعی زمینوں کا مزید خوفناک استحصال کیا جائے گا۔ پچھلی کئی دہائیوں میں انڈین نیشنل کانگریس سے لے کر بھارتیا جنتا پارٹی تک تمام سرمایہ دار سرکاروں میں کسانوں اور دیہی مزدوروں کی غربت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ لیکن اب ملک کے طول و عرض میں مودی سرکار میں منظور شدہ کارپوریٹ نواززرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے دیو ہیکل احتجاج، دھرنے اور ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔
انڈیا میں AIKSCC (آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی) جیسی کسان تنظیموں اور دیگر نے 26 نومبر سے ایک غیر معینہ مدت عام ہڑتال کر رکھی ہے۔ پورے ملک سے دہلی کی طرف کسان مارچ نے مودی سرکار پر بے پناہ دباؤ ڈالا ہے لیکن ابھی بھی سرکار اس تحریک کو توڑنے کے لئے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے۔ سرکار نے پہلے جبر کے ذریعے تحریک کو کچلنے کی کوشش کی اور پولیس اور پیراملٹری فورسز کے ذریعے مظاہرین پر لاٹھیوں، واٹر کینن اور آنسو گیس شیلوں کا بے دریغ استعمال کیا جس میں کچھ کسانوں کی شہادت ہوئی اور کئی زخمی ہوئے۔ پھر اس نے کسانوں کے اتحاد کو توڑنے کے لئے غلیظ حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے اور انہیں مضحکہ خیز مذاکرات میں الجھانے کی کوشش کی جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ابھی تک کسان کارپوریٹ نواز زرعی قوانین اور تمام قرضوں کی منسوخی کے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہزاروں کسانوں نے اس وقت دارلحکومت دہلی کا گھیراؤ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے تمام داخلی راستے خاص طور پر سِنگھو اور ٹِکری بند کئے ہوئے ہیں۔ مودی سرکار کے مضحکہ خیز مذاکرات کسان ہڑتال کو کمزور کرنے کی بھونڈی سازش ہے۔ کارپوریٹ میڈیا اپنا روایتی غلیظ کردار ادا کرتے ہوئے کسانوں کی حقیقی جدوجہد کو قومیت مخالف، علیحدگی پسند یا کوئی بھی گھناؤنا لیبل ایجاد کر کے انہیں بدنام کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ لیکن ان تمام تر حملوں کے باوجود کسانوں کی جدوجہد جاری ہے۔
اب کسانوں نے 8 دسمبر کو ”بھارت بندھ“ یا قومی ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ تمام ٹریڈ یونینوں اور بائیں بازو کی پارٹیوں نے بھی اس کال کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے اور آج اپنی قوت کے ساتھ شامل ہو کر کسانوں کے مطالبات کے لئے پورا ملک بند کر رہے ہیں۔
انڈیا میں IMT کے کامریڈ کسانوں کے احتجاجوں کے ساتھ مکمل حمایت اور یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔ سرمایہ داری یا پارلیمنٹ کی چار دیواری میں کسانوں کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔ ہمارا کامل یقین ہے کہ کسانوں اور محنت کشوں کی مشترک منظم کردہ ایک غیر معینہ مدت عام ہڑتال ہی ان کے تمام مطالبات کو پورا کر سکتی ہے۔ یہ ہڑتال انڈیا میں سرمایہ داری کے خلاف ایک سنگِ میل ثابت ہو گی اور گلی سڑی سرمایہ داری کو ختم کر کے ایک مزدور ریاست اور مزدوروں اور کسانوں کے کنٹرول میں ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کا آغاز کرے گی۔ انڈیا کی محنت کش عوام کے تمام آلام و مصائب حل کرنے کا یہی واحد راستہ ہے اور اس کی منزل خوشحالی اور مسرت ہے۔
کسان خودکشیاں روکو!
اشیاءِ خوردونوش میں اضافہ روکو!
اشیاءِ خوردونوش کے تحفظ کو یقینی بناؤ!
کارپوریٹ زرعی قوانین مردہ باد!
کسانوں کے تمام قرضہ جات منسوخ کرو!
زرعی اجناس کو کم از کم سپورٹ قیمت فراہم کرو!
زرعی زمینوں پرہائیڈروکاربن اور میتھین گیس کو تلاش کرنے کے پراجیکٹ بند کرو!
بجلی بل 2020ء منسوخ کرو!
بے زمین کسانوں کو زمین، رہائش اور سوشل سیکورٹی فراہم کرو!
اجارہ دار زرعی صنعتوں کو قومی تحویل میں لو!
ایک غیر معینہ مدت عام ہڑتال زندہ باد!
مودی سرکار گرا ڈالو!
مزدور کسان اتحاد، زندہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!