|تحریر: رائے اسد|
لہو کی چھینٹ ہر دیوار پر تھی
لگا الزام پھر بھی خودکشی کا
حالیہ عرصے میں ڈان نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق تھرپارکر میں سال 2020ء میں خودکشی کرنے والے افراد میں 60 فیصد کی عمر 10 سے 20 سال کے درمیان تھی۔ ان میں سے بھی 46 فیصد 16 سال سے کم عمر کے بچے تھے۔ اس کے علاوہ پچھلے کچھ عرصے سے نوجوانوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں خودکشیوں کے حوالے سے کوئی باقائدہ اعداد و شمار مرتب نہیں کیے گئے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار سے ہی مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
درحقیقت سرمایہ داری اس وقت ساری دنیا میں موت بانٹ رہی ہے۔ روز کتنے ہی لوگ بے موت مارے جاتے ہیں۔ کتنے لوگ علاج نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ جاتے ہیں۔ روز ہزاروں لوگ ٹریفک حادثات میں کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلے جاتے ہیں۔ ایراق، لیبیا اور افغانستان جیسے ممالک میں لوگ ابھی تک سامراجی مفادات کی وجہ سے جنگ و جدل کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ نظام انسان کو زندہ رہنے کا بنیادی حق دینے سے بھی قاصر ہے۔ ایک اور بڑا المیہ خودکشیوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔ پوری دنیا میں ہر سال ہزاروں لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ WHO کی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں خودکشی سے مرنے والوں کی تعداد ملیریا، ایڈز، چھاتی کے کینسر یا جنگ وٖغیرہ سے ہونے والی اموات سے زیادہ ہے۔ WHO کی رپورٹ کے مطابق ہی سال 2019ء میں سات لاکھ سے زائد لوگوں نے خودکشی کی۔ یعنی ہر 100 میں سے 1 موت کی وجہ خودکشی تھی!
خودکشیوں کے حوالے سے سرِ فہرست ممالک میں جنوبی کوریا پانچویں نمبر پر ہے۔ جنوبی کوریا میں خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد بوڑھے افراد کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بڑھاپے میں کسی سہارے کی عدم موجودگی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا میں طالب علموں میں بھی خودکشی کی شرح اوسط سے زیادہ ہے۔ چین میں اموات کی پانچویں بڑی وجہ خودکشی ہے۔ دنیا کے برعکس چین میں خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ امریکہ میں خودکشیوں کی شرح 16.1 فیصد ہے۔ پچھلے دو سالوں میں خودکشیوں کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ امریکہ میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں خودکشیوں کی شرح 9.49 فیصد ہے۔ یعنی ایک لاکھ اموات میں 9.49 کی وجہ خودکشی ہوتی ہے۔
یہ اعداد و شمار بھی دراصل نا کافی ہیں۔ پوری دنیا میں رپورٹ ہونے والی خودکشیوں کی تعداد حقیقی تعداد سے بہت کم ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ذہنی امراض اور خودکشیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک تو سرمایہ داری تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ ہر طرف بے روزگاری کی لہر نظر آتی ہے۔ صرف امریکہ میں وباء کے دوران 4 کروڑ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ پچھلے عرصے میں تعلیم اور علاج جیسی سہولیات لوگوں کی پہنچ سے دور ہوئی ہیں۔ وباء میں ہونے والی اموات بھی کسی صدمے سے کم نہیں تھیں۔ لاک ڈاؤن کا عرصہ بھی عوام کی اکثریت کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔ معاشی بد حالی اور اس پر سماجی دوری سے ذہنی دباؤ بڑھا ہے۔ اس عرصے میں گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
مٹھی بھر زر والوں کو چھوڑ کر باقی عوام مختلف قسم کی پریشانیوں میں گھرے ہیں۔ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ جہاں بچوں کی اکثریت غذائی قلت کا شکار ہے۔ دنیا میں انسانوں کی اکثریت کو جسم و ذہن تھکا دینے والی محنت کے بدلے میں بنیادی سہولیات بھی نہیں ملتیں۔ لوگ اپنی زندگی بھر کی محنت کو اپنی آنکھوں کے سامنے رائیگاں جاتے دیکھتے ہیں۔ ایک نسل اگلی نسل کے لیے ورثے میں پریشانیاں اور تکلیفیں چھوڑ کر جاتی ہے۔ ایسی دنیا جس میں انسان چاند پہ قدم رکھ چکا ہے، اس میں لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاتے ہوئے پہلے پیسوں کا سوچتے ہیں۔ وہ دنیا جس میں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی تکنیک ایجاد ہو چکی ہے، اس میں لوگ چھوٹی موٹی بیماریوں سے دم توڑ جاتے ہیں۔ اس جدید دنیا میں ایک وائرس کتنے لوگوں کی جانیں نگل گیا۔ ہزاروں ٹن گندم ہر سال دریاؤں میں بہا دی جاتی ہے۔ بڑے بڑے ریستورانوں میں روز اتنا کھانا ضائع کیا جاتا ہے جس سے نہ جانے کتنے بھوکوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ لاکھوں بے گھر لوگ کھلے آسمان کے نیچے سوتے ہیں اور آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتوں کو تکتے رہتے ہیں۔ اس دنیا میں لوگوں کا پریشان ہونا، ذہنی دباؤ کا شکار ہونا یا اپنی زندگی سے تنگ آ جانا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔
WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق 15 سے 29 سال کے افراد میں اموات کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔ اس پہ بات کرنے سے پہلے ہم ذہنی امراض کے حوالے سے بات کر لیتے ہیں جو زیادہ تر خودکشی کی وجہ بنتی ہیں۔ دنیا میں بسنے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد کم و بیش کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ ان میں سب سے عام ڈپریشن ہے۔ دنیا میں لگ بھگ 26 کروڑ 40 لاکھ لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ڈپریشن کے شکار افراد میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے پاس تازہ ترین اعدادو شمار نہیں ہیں اور وباء کے عرصے میں یقینا ان میں اضافہ ہوا ہے۔ درحقیقت یہ اعداد و شمار بھی حقیقت کی درست عکاسی نہیں کرتے، حقیقت اس سے بھی کئی درجے زیادہ خوفناک ہے۔ ڈپریشن اپنی انتہا پہ جا کے خودکشی کے خیالات کو جنم دیتا ہے۔ ذہنی امراض کی ایک اور بڑی قسم ’بائی پولر ڈس آرڈر‘ ہے۔ دنیا میں 4 کروڑ 50 لاکھ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ ایک اور قسم Schizophrenia (شقاق دماغی) ہے۔ یہ ایک شدید ذہنی مرض ہے اور دنیا میں دو کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ ذہنی امراض کی ایک اور قسم Dementia ہے اور دنیا میں لگ بھگ 5 کروڑ لوگوں کو یہ مرض لاحق ہے۔ Anxienty Disorder کے شکار افراد کی تعداد 28 کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ 7 کروڑ سے زائد لوگ منشیات (شراب کے علاوہ کیونکہ بہت سارے ممالک میں شراب کا شمار منشیات میں نہیں ہوتا) کے عادی ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں 76 فیصد سے 85 فیصد لوگوں کو ذہنی امراض کا علاج میسر نہیں ہے جبکہ”ترقی یافتہ“ ممالک میں یہ شرح 35 فیصد سے 50 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار بھی حقیقت کا درست اظہار نہیں کرتے کیونکہ بہت سے ممالک میں ذہنی مرض میں مبتلا شخص خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے اور بہت سارے لوگ اس بیماری کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو 2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ 5 کروڑ افراد کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ قاری کو پاکستان کے اعدادو شمار کا علم تو ہوگا سو یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ تعداد کتنی زیادہ ہوگی۔ خاص طور پر پاکستان میں ذہنی امراض کو باعثِ شرمندگی سمجھا جاتا ہے۔ گھر والے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ مریض کی ذہنی مرض کا علم کسی کو نہ ہو۔ پسماندگی کی وجہ سے ذہنی مرض میں مبتلا فرد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے جن چمٹ گئے ہیں اور پھر بیچارے مریض کو پیروں کے پاس لے جایا جاتا ہے جہاں پیر صاحب ”جن نکالنے“ کے لیے پر تشدد طریقے استعمال کرتے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز 15 سے 35 افراد خودکشی کرتے ہیں۔ پاکستان میں خودکشیوں کی شرح 8 فیصد کے قریب ہے۔
خودکشی کی بڑی وجہ ذہنی دباؤ ہی ہے۔ ان حالات کا دباؤ جس میں انسان زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں خودکشی کرنے والے افراد میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ بہترین سمجھے جانے والی عمر اس نظام میں بدترین ثابت ہوتی ہے۔ بچپن کا دور گزرتے ہی انسان کے سامنے ذمہ داریوں کا بلند پہاڑ کھڑا ہوتا ہے۔ گو کہ سرمایہ داری نے انسان سے اس کا بچپن بھی چھین لیا ہے۔”چائلڈ لیبر“دنیا میں ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جو حل طلب ہے۔ خودکشی کرنے والے نوجوانوں میں زیادہ تر طالب علم ہی ہوتے ہیں۔ تعلیم کی کمرشلائزیشن اس کی بہت بڑی وجہ ہے۔ ایک کاغذ کا ٹکڑا (ڈگری) لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ نمبروں کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کے سامنے تاریک مستقبل ہوتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی اتنا بوجھ ڈالا جاتا ہے کہ کئی کندھے وہ بوجھ نہیں اٹھا پاتے۔ المیہ یہ ہے کہ ڈگریاں مل بھی جائیں تو روزگار کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ اس طرح بہت سے نوجوان منڈی کی دوڑ میں زندگی کی دوڑ ہی ہار جاتے ہیں۔
خودکشی کی ایک اور سب سے بڑی وجہ بیگانگی ہے۔ انسان کی سماج سے، پیداواری عمل سے، دوسرے انسانوں سے اور اپنے آپ سے بیگانگی۔ انسانوں کی اکثریت (محنت کش) محنت کر کے سماجی دولت پیدا کرتی ہے اور اس کے بدلے اسے اتنی اجرت ملتی ہے کہ وہ بمشکل ہی زندہ رہے اور اگلے روز دوبارہ کام کرنے کیلئے فیکٹری میں جا سکے جہاں وہ پھر سے کسی سرمایہ دار کیلئے دولت پیدا کرے۔ اس طرح پورے سماج کی دولت پیدا کرنے والے خود اتنی سکت نہیں رکھتے کہ اپنی ہی پیدا کی گئی دولت کو خود استعمال نہیں کر سکتے۔ لہٰذ ابڑے بڑے گھر بنانے والے مزدور ان میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ گاڑیاں بنانے والے لوگ رکشوں اور بسوں میں دھکے کھاتے ہیں۔ اناج اُگانے والوں کے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں۔ اسی طرح محنت کار پیداواری عمل سے بھی بیگانہ ہوتا ہے۔ مثلاً گاڑیوں کے مختلف پرُزے الگ الگ فیکٹریوں میں تیار ہوتے ہیں۔ ٹائر بنانے کی فیکٹری میں کام کرنے والے لوگ سالہا سال ایک ہی عمل ہر روز دن میں گھنٹوں دہراتے ہیں۔ اس حد تک کہ وہ اس عمل سے دلچسپی ہی کھو دیتے ہیں۔ یعنی سماجی پیداوار میں اپنے حصے کے کام میں دلچسپی کھو دیتے ہیں۔ ایسے ہی انسان ایک دوسرے سے اور اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوتے ہیں۔ ایک فرد کو سماج میں اپنے کردار کا احساس نہیں ہوتا۔ یعنی یہ احساس کہ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ لوگ زندہ رہنے کے لیے زندہ ہوتے ہیں۔ افراد سے ہر قسم کا اختیار چھن لیا گیا ہے۔ اختیار حکمران طبقے کے پاس ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو یہاں پولیس کا ایک عام سپاہی ایک غریب آدمی کو سڑک پہ جاتے ہوئے بلاوجہ تھپڑ رسید کر دے تو وہ غریب آدمی پولیس والے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کسی غریب کا بچہ امیر زادے کی گاڑی سے کُچلا جائے تو اس کے پاس صرف ماتم کا اختیار ہے۔ وہ جانتا ہے کہ قانون امیروں کی لونڈی ہے۔ فیکٹریوں کے مالکان طے کریں گے کہ ان میں کیا بنے گا اور کتنا بنے گا۔ مالکان بتائیں گے کہ مزدوروں نے کتنی تنخواہ میں گزارہ کرنا ہے۔ پیسے والے حکمران یہ فیصلہ کریں گے کہ سرکاری اداروں کو کیسے چلانا ہے، یا چلانا بھی یا انہیں بیچ دینا ہے۔ تعلیمی اداروں کے مالکان اور انتظامیہ طلبہ کو بتائیں گے کہ انہیں کتنے ہاسٹلوں کی ضرورت ہے، فیسیں کتنی ہونی چاہئیں، میس پہ ملنے والے کھانے کا معیار کیسا ہوگا یا ایک بس میں کتنے لوگ سفر کریں گے۔ عوام کا کام صرف محنت کرنا اور حکم کی تعمیل کرنا ہے۔
دنیا میں ایسی کیا چیز ہے جس پہ ایک غریب آدمی کو اختیار حاصل ہے؟ اس کا اپنا جسم! وہ اپنے جسم کا مالک ہے۔ وہ بااختیار ہے کہ اپنے جسم کے ساتھ جو مرضی کرے۔ لہٰذا ایسے ماحول میں آج دنیا میں خود ایذا رسائی (Self Harm) کے بہت سے کیسز دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ رجحان خاص طور پہ بچوں میں پایا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں 17 فیصد لوگ زندگی میں ایک بار خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس میں اپنے جسم کو کاٹنا، جلانا اور مختلف طریقے شامل ہیں۔ اس کی ایک وجہ زخم بھرتے ہوئے ملنے والے سکون یا لذت کا حصول بھی ہے۔ ہم ماہرِ نفسیات نہیں ہیں کہ اس کے نفسیاتی پہلوؤں کی وضاحت کریں لیکن سماجی سائنس کے علم کی بدولت اس کی سماجی وجوہات بتا سکتے ہیں اور یہ بھی دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ نفسیات بھی آخر کار سماج سے ہی جنم لیتی ہیں۔ خودکشی کی وجوہات اگر ایک فرد کے دماغ میں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو شائد ہم کبھی بھی کسی نتیجے تک نہ پہنچ پائیں۔
ایک اور اہم پہلو صحت کے شعبے کا ناکارہ پن ہے۔ صرف پاکستان کی بات کریں تو یہاں صحت کا شعبہ مجموعی طور پہ ناقص ہے۔ پاکستان میں ہر 1000 میں سے 66 بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے وفات پا جاتے ہیں۔ ہر 1 لاکھ میں سے 170 عورتیں بچے کی پیدائش کے دوران مر جاتی ہیں۔ پاکستان میں جی ڈی پی کا کم ترین حصہ صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں 1200 مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ دوسری طرف بے شمار لوگ میڈیکل کی ڈگریاں لیے گھوم رہے ہیں۔ میڈیکل کے طلبہ میں خودکشیوں کا رجحان بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس تباہ حال صحت کے انفراسٹرکچر میں بھی سب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والا شعبہ ذہنی امراض کا ہے۔ جہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہاں ”چھوٹے موٹے ڈپریشن“ کو معمولی سی چیز سمجھا جاتا ہے۔ ذہنی تناؤ کے شکار لوگوں کو ارادی قوت (Will Power) کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کے مشورے دیے جاتے ہیں۔ پڑھے لکھے جاہل لوگ اس کے لیے بھی عوام کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ مصنف کا ایک بار پاک ٹی ہاؤس جانا ہوا جہاں پر ڈپریشن جیسے مسائل پر ایک سیمینار ہو رہا تھا۔ بڑے یعنی مہنگے اداروں کے امیر زادے باری باری اپنی زندگی کے تجربات بتا رہے تھے۔ کسی کو ماضی میں محبوبہ کے چھوڑ جانے کی وجہ سے ڈپریشن لاحق ہو گیا تھا تو کسی کو گاڑی وغیرہ نہ ملنے کی وجہ سے۔ خیر سب نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے ڈاکٹروں سے رجوع کیا اور اب وہ ذہنی طور پہ ”تندرست“ زندگی گزار رہے ہیں۔ غیر اخلاقی سبق یہ تھا کہ لوگ ہر مہینے ماہرینِ نفسیات کے پاس ”معائنے“ کے لیے نہیں جاتے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی ہر ماہ جائیں اور بچوں کو بھی لے جائیں۔ خاکسار نے سوال پوچھ لیا کہ ایک بڑی تعداد مشکل سے اتنا کماتی ہے کہ دو وقت کی روٹی پوری ہو سکے، ایسے میں گھر کے سب افراد تو دور ایک بھی فرد ماہرینِ نفسیات کی فیس برداشت نہیں کر سکتا۔ کیا ان کے ڈپریشن کا علاج ان کی بنیادی ضروریات پوری کر کے نہیں کیا جا سکتا؟ اس کے بعد پتہ نہیں کیوں وہ لوگ کچھ دیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ انقلاب نہیں آ سکتا۔ ہم بالکل یہ نہیں کہتے کہ امیر لوگ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے یا خودکشی نہیں کرتے۔ بہت سے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بہت سے مشہور فنکاروں نے خودکشی کی ہے۔ لیکن اس کی بنیادیں بھی مجموعی طور پر سماج میں پیوست ہیں۔ خوشی ایک اجتماعی جذبہ ہے۔ یعنی باقی انسانوں کو نکال لیا جائے تو ایک انسان کی خوشی کیا ہے؟ ایک ایسی دنیا جس میں انسانوں کی اکثریت دکھ، تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہے، اس میں کوئی بھی دردِ دل رکھنے والا انسان کیسے خوش رہ سکتا ہے؟
خودکشی کی وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی وہ نقطہ جہاں پہ آ کر انسان اپنی جان لینے کا حتمی فیصلہ کرتا ہے۔ وہ وجہ معمولی یا خاص ہو سکتی ہے۔ کوئی ناکام محبت کی وجہ سے بھی خودکشی کر لیتا ہے، کوئی امتحان میں فیل ہونے کی وجہ سے، نوکری نہ ملنے کی وجہ سے، کسی اپنے سے ناراضگی کی وجہ سے۔ مختصر یہ کہ وہ نقطہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے ایک طویل عمل ہوتا ہے۔ یعنی ناکام محبت کے علاوہ خودکشی کرنے والے کی زندگی میں کوئی اور دکھ نہیں ہوگا؟ امتحان میں فیل ہونا کیوں اتنی بڑی شکست ہے کہ کوئی اپنی جان لے؟ اس وجہ سے کہ اسی دوڑ نے اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا؟ نوکری حاصل نہ کرپانے والا جانتا ہے کہ پیسے کے بغیر اس سماج میں جینا موت سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔
غالباً دو سال پہلے ایک مشین تیار کی گئی ہے جس کے ذریعے ’کم سے کم‘ تکلیف کے ساتھ آپ اپنی جان لے سکتے ہیں۔ اس مشین کے ساتھ کفن ”مفت“ میں دیا جاتا ہے۔ خودکشی کا خواہش مند فرد مشین میں لیٹے گا اور دروازے بند ہوتے ہی نائٹروجن خارج ہوگی۔ تھوڑی دیر کے لیے بے ہوشی سی طاری ہوگی اور پھر موت! یہ ہے سرمایہ داری! آپ مرنا بھی چاہتے ہیں تو ان کی تجوریوں میں پیسے ڈال کر مریں۔ یہ ہے وہ نظام جو لوگوں کی زندگی اتنی مشکل بنا دیتا ہے کہ وہ مرنا پسند کرتے ہیں۔ ہر خودکشی ایک قتل ہے اور قاتل یہ نظام ہے۔ یہ نظام جب تک رہے گا، موت بانٹتا رہے گا۔ حکمران طبقے کو کسی کی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ زر کے غلام انسانی جان کی قیمت نہیں سمجھ سکتے۔
چند افراد زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کر سکتے ہیں۔ لیکن پورا سماج جب مجموعی طور پہ حالات سے تنگ آ جائے تو وہ حالات کو اپنے لیے بدلتا ہے۔ معمول میں ایک فرد کی مایوسی کا نتیجہ خودکشی کی شکل میں نکل سکتا ہے لیکن پورے سماج کی مایوسی انقلابات کو جنم دیتی ہے۔ عام حالات میں اپنی کلائیاں کاٹنے والے انقلابات میں حکمرانوں کے گلے کاٹتے ہیں۔ یہ مستقبل سے مایوس لوگ جب ایک طبقے کی شکل میں اپنی تقدیر بدلنے نکلتے ہیں تو ان کی آنکھیں بہتر مستقبل کے خوابوں سے روشن ہوتی ہیں۔ ان کی آہیں جب نعروں میں بدلتی ہیں تو ایوان لرزنے لگتے ہیں۔ حکمران طبقے کے لیے سب سے خطرناک وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ موت کے خوف سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی سرمایہ داری کی وحشت کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ ایسا سماج جس میں لوگوں کی زندگی کا مقصد صرف روٹی کمانا اور کھانا نہیں ہوگا بلکہ انسان مشترکہ جسمانی اور ذہنی محنت سے وہ کارنامے سرانجام دے گا جو آج کسی کے خواب و خیال میں نہیں۔ ایسا سماج جس میں انسانی جان اور اس کی خوشی سے قیمتی کوئی شے نہیں ہوگی۔ جس کا معمار اس میں بسنے والا ہر فرد ہوگا۔ جس کو چلانے میں ہر فرد کا کردار اور مرضی شامل ہوگی۔ جو انسانی سماج ہوگا اور انسان کے لیے ہوگا۔ ایسے سماج میں انسان زندگی کا لطف لیں گے۔ لوگ بھرپور زندگی گزاریں گے۔ کسی کے اندر مرنے کی خواہش نہیں پیدا ہوگی۔ جہاں خودکشی کی بنیادیں ہی ختم ہو جائیں گی۔
لیکن اس سماج کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ آج ایک ایسی پارٹی بنائی جائے جو مستقبل میں اٹھنے والی انقلابی تحریک کو کامیابی کی طرف لے جائے۔ تب تک انسان کے مقدر میں جہنم نما زندگی یا بدترین موت ہے۔ تب تک انسان ایک یا دوسری صورت میں قتل ہوتا رہے گا۔ سرمایہ داری کا خاتمہ انسانیت کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے!
جتنے لوگوں نے خودکشی کی ہے
ان کے قاتل تلاش کرتے ہیں
اس مصیبت کے خاتمے کے لیے
مستقل حل تلاش کرتے ہیں